از مدیحہ فاطمہ
کلاس شروع ہونے میں ابھی کافی وقت باقی تھا اس لیے میں کلاس کے سامنے بنی سیڑھیوں پر آکر بیٹھ گئی۔ چونکہ آج نئے بیچ کا پہلا دن تھا اس لئےیونیورسٹی میں معمول سے زیادہ چہل پہل تھی۔ ۔ہر جگہ جونیئر طلبا ٹولیاں بنا کر کھڑے تھے۔ ابھی میں یہ منظر دیکھ ہی رہی تھی کہ کہ سامنے سے ایک لڑکا بھاگتا ہوا آیا۔ وہ خوف زدہ اور گھبرایا ہوا تھا۔ اس نے رک کر ایک نظر پیچھے دیکھا ، جب میں نے اس کے نگاہوں کا تعاقب کیا تو ایک جم غفیر اس کے پیچھے بھاگا چلاآرہا تھا ۔ یہ مجمع سینئر طلبا کا تھا۔ اس لڑکے نے پھر سے بھاگنے کی کوشش کی لیکن ایک سینئر جمپ لگا کر اسکے سامنے آگے آگیا اور اس کے فرار کی راہیں مسدود ہوگئیں۔ لڑکا بے بسی سے ان سینیرز کو دیکھ رہا تھا جو اس پر آوازیں کس رہے تھے ۔ راہ روکے لڑکے نے اس لاچار کا نام پوچھا۔ اس سے قبل وہ کوئی جواب دے پاتا کہ ہجوم سے آوازیں آنے لگیں :
” بھگوڑا، بھگوڑا، بھگوڑا”
” جی نہیں اسکا نام تو مسٹر ڈرپوک ہے۔”۔ ایک سینئر لڑکی نے ہانک لگائی۔
اس کے بعدساتھ ہی پورا ہجوم نعرے لگانے لگا :” ڈرپوک، ڈرپوک، ڈرپوک”
سامنے کھڑے سینئیر نے اسے زور کادھکا دیا اور وہ معصوم ہجوم کے ہتھے چڑھ گیا۔ اب کوئی اس کی کمر سہلا رہا تھا تو کوئی سر کی مالش کررہا تھا۔ بڑی مشکل سے وہ ہجوم کی دستبرد سے خود کو بچاکر الگ کھڑا ہوگیا اور بےبسی سے بولا:
“آخر تم مجھ سے کیا چاہتے ہو؟”
“ہم کچھ نہیں چاہتے ، اگر تم جان چھڑانا چاہتے ہو تو ہم سب کو کینٹین سے کھانا کھلاؤ۔ ” ابھی ایک مطالبہ پیش ہی ہوا تھا کہ ہجوم نے شور مچا دیا : “نہیں نہیں نہیں ، ہمیں ناچ کر دیکھاؤ”۔ اس کے بعد بےہنگم قہقے گونجنے لگے۔ایک اور سینئیر آگے بڑھا اور جھٹ سے اسکا والٹ نکال لیا ۔ جونیئر نے والٹ واپس لینا چاہا لیکن ناکام رہا۔والٹ سے تقریباً دو سو روپے برآمد ہوئے۔ اس پر سب نے اسے فقیر فقیر کے طعنے دینے شروع کردیے۔
اس سے زیادہ دیکھنے کا حوصلہ مجھ میں نہیں تھا لہذا میں وہاں سے اٹھ کر کلاس میں آگئی۔میرا دل بہت چاہا کہ اس لڑکے کو بچاؤں لیکن مجھے معلوم تھا کہ ایسا کرنے سے میں خود بھی اس واہیات مذاق کا شکار ہوسکتی ہوں اور میں فطرتاً بزدل واقع ہوئی ہوں لہذا میری حیثیت ایک تماشائی سے زیادہ نہیں تھی۔میں نہیں جانتی اس لڑکے کے ساتھ بعد میں کیا ہوا لیکن میں نے اس لڑکے کو دوبارہ یونیورسٹی میں نہیں دیکھا۔
وقت کا کام گزرنا ہے وہ گزر ہی جاتا ہے ۔آج اس واقعے کو پانچ سال گزر گئے لیکن اس واقعے کی بازگشت آج بھی میرے اندر موجود ہے۔
اس قسم کے ” مذاق” کو ریگنگ یا بُلنگ کہتے ہیں۔ ریگنگ ایک ایسی سالانہ بربریت پر مبنی روایت ہے جو شمالی ایشیا میں پھیلی ہوئی ہے جو ہمارے اخلاقی نظا م کو تباہ کررہی ہے۔ آج کے دور میں اس ستم ظریفی کا سب سے بڑا شکار سری لنکا،پاکستان اور انڈیا کے طلبا ہیں ۔ اس کے علاوہ مغربی ممالک سے بھی ریگنگ کیسز سامنے آتے ہیں۔ حالیہ سروے کے مطابق زیادہ تر اسٹوڈنٹس کی اموات اسی ریگنگ کے باعث ہوتیں ہیں۔ سن 2008-2009 میں ریگنگ کے 89 کیسز رصرف انڈیا میں رپورٹ کیے گئے جس میں 12 اموات اور 5 خودکشی کے کیسز تھے۔ 44فیصد کیسز کو سیریس جسمانی انجریز کے باعث ہسپتال میں داخل کیا گیا۔ پاکستان میں میڈیکل اور انجینئرنگ کالجز سب سے زیادہ اس بے ہودہ روایت کا شکار ہیں۔ہاسٹلز خاص طور پر اس بُلنگ اور ریگنگ کا گڑھ ہیں کیونکہ یہاں کوئی روک ٹوک نہیں ہوتی۔ یہاں نئے آنے والوں کے ساتھ انتہائی ظالمانہ سلوک کیا جاتا ہے اور بعض اوقات ایسے جنسی تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے جو کہ الفاظ میں بھی بیان نہیں ہوسکتا۔
یہ روایت کہاں سے آئی؟ اس کی تاریخ کیا ہے ؟ تاریخ دان کہتے ہیں کہ اور بہت سی معاشرتی بیماریوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی مغرب کا تحفہ ہے۔ اسکی تاریخ کی ابتدا یونان میں اسپورٹس سے کی جاتی ہے جب وہاں کوئی نیا کھلاڑی آتا تو پرانے کھلاڑی ہر طرح سے اسے ذلیل خوار کرتے تاکہ اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل کی جاسکے۔ یہی روایات بعد میں کچھ تبدیلیوں کے ساتھ فوج میں آئی اور پھر یہ تعلیمی نظام میں داخل ہوئی۔
ریگنگ کی تباہ کاریاں اس عمل کے ساتھ ہی شروع ہوگئیں تھیں ۔ اس قبیح فعل کے باعث سب سے پہلی موت 1873 میں ہوئی جب کارنل یونیورسٹی کا نوآموز اسٹوڈنٹ ریگنگ کے باعث کھائی میں جا گرا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد ریگنگ ایک بہت بڑے پیمانے پر پھیلنا شروع ہوئی یہ وہی وقت تھا جب ریگنگ نے بربریت کی صورت اختیار کر لی۔ اور انگریز نے جب برصغیرپر قبضہ کیا تو یہ روایت اپنے ساتھ لائے۔ اور آج سری لنکا اور شمالی انڈیا اس ریگنگ کا گڑھ مانے جاتے ہیں۔ اور آج یہ رسم ہمارے پاکستان میں بھی اپنی جڑیں مضبوط کر چکی ہے۔
اگر ہم اسلام کی تعلیمات پر غور کریں تو واضح طور پر اس قسم کے مذاق کی کوئی گنجائش نہیں اورقرآن و احادیث اس قبیح فعل کی مذمت میں واضح طور پر وعید سناتے ہیں۔
سورہ الحجرات میں واضح طور پربیان ہوتا ہے کہ :
”اے ایمان والو! نہ مردوں کی کوئی جماعت دوسرے مردوں کا مذاق اڑائے ممکن ہے وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں کیا عجب وہ ان سے بہتر نکلیں۔ (الحجرات 11:49)
مذاق اڑانا ایک شخص کی تحقیر کرنا اور اسے بے عزت کرنا ہے۔ اسی لئے روایات میں کسی کی آبرو کو نقصان پہچانے کی واضح الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے۔۔۔۔۔سرور عالم ﷺنے فرمایا ۔۔۔۔”جو کوئی کسی مسلمان کی عزت کو نقصان پہنچاتا ہے تو اس پر اللہ فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہوتی ہے اس کی نفل اور فرض عبادت قبول نہیں ہوگی۔”(صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 440 )
مذا ق اڑانے کا عمومی مقصد کسی مخصوص شخص کی تحقیر کرنا اور اسے کمتر مشہور کرنا ہوتا ہے۔ اس کے پیچھے تکبر کا رویہ کارفرما ہے۔ دوسری جانب تکبرکے بارے میں قرآ ن و حدیث میں سخت الفاظ میں مذمت بیان ہوئی ہے۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ “جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں نہیں جائے گا اس پر ایک آدمی نے عرض کیا کہ ایک آدمی چاہتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں اور اس کی جو تی بھی اچھی ہو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ جمیل ہے اور جمال ہی کو پسند کرتا ہے تکبر تو حق کی طرف سے منہ موڑنے اور دوسرے لوگوں کو کمتر سمجھنے کو کہتے ہیں۔” ( صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 266)
ایک اور روایت میں بھی اس روئیے کی بالواسطہ مذمت بیان ہوئی ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا۔۔۔۔”اللہ کے بندے بھائی بھائی ہو جاؤ ،مسلمان مسلمان کا بھائی ہے وہ نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے ذلیل کرتا ہے اور نہ ہی اسے حقیر سمجھتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سینہ مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین مرتبہ فرمایا تقوی یہاں ہے کسی آدمی کے برا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے ایک مسلمان دوسرے مسلمان پر پورا پورا حرام ہے اس کا خون اور اس کا مال اور اس کی عزت و آبرو”۔(صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2044)
مذاق اڑانے کا منطقی نتیجہ کسی شخص کی دل آزاری کی شکل میں نکلتا ہے۔ اس ایذا رسانی کی بھی ان الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔
عبداللہ بن عمرو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا” مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان ایذاء نہ پائیں۔” ( صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 9)
ہمِیں چاہئے کہ بحیثیت مسلمان اس رسم کا قلع قمع کریں، اس کی مذمت کریں اورحکومتی سطح پر اس کو ختم کرنے کے لئے اقدامات کریں۔
مدیحہ فاطمہ
