غیبت ۔ ایک تربیتی مضمون
(تحریر: پروفیسر محمد عقیل)
غیبت کبیرہ گناہوں میں ایک بڑا گناہ ہے ۔ دیگر بڑے گناہوں کے برخلاف یہ گناہ بہت عام ہے اور اس میں ہر دوسرا مسلمان ملوث نظر آتا ہے۔دوسری جانب قرآن و حدیث میں غیبت کی بڑے واشگاف الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ کہیں اس عمل کو مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف قرار دیا گیا ہے تو کہیں اس عمل میں مبتلا لوگوں کو جہنم کی وعید سنائی گئی ہے۔
غیبت کی حرمت
جس طرح کسی کی جان اور مال کو نقصان پہچانا حرام ہے اسی طرح کسی کی عزت و آبرو کو نقصان پہنچانا بھی حرام ہے۔ غیبت کسی شخص کی غیر موجودگی میں اس کی عزت پر خفیہ حملہ ہے جس کا مقصد کسی مخصوص شخص کی عزت کو نقصان پہچانا اور اس کی تحقیر کرنا ہے ۔ اسی بنا پر غیبت ایک حرام فعل اور گناہ کبیرہ ہے۔
غیبت کو قرآن میں واضح طور پر حرام قرادیا گیا اور اسے ایک قبیح فعل سے تشبیہ دی ہے۔ سورہ الحجرات میں بیان ہوتا ہے:
” اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے، کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟ دیکھو اس چیز کو تم خود بھی ناگوار سمجھتے ہو۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے”(الحجرات ۴۹: ۱۲)
غیبت اپنے بھائی کی عزت و آبرو کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہے جبکہ آبرو کو نقصان پہنچانے پر بڑِی سخت تنبیہ اس حدیث میں بیان ہوئی ہے۔
“حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے سرور عالم نے فرمایا۔۔۔۔ جو کوئی کسی مسلمان کی آبروکو نقصان پہنچاتا ہے تو اس پر اللہ، فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہوتی ہے اور اس کی نفل اور فرض عبادت قبول نہیں ہوتی ” ۔ ( صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 440 )
غیبت کرنے کا عام طور پر محرک کسی مخصوص شخص کی تحقیر کرنا، اسے کمتر ثابت کرنا اور اسے کسی کی نظروں میں گرانا ہوتا ہے۔ اس روئیے کی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ۔۔۔۔ کسی شخص کے برے ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے۔(جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 2011)۔
اسی طرح دیگر روایات میں بھی غیبت کی واشگاف الفاظ میں مذمت کی گئی اور اس سے روکا گیا ہے۔مثال کے طور پر اس روایت میں غیبت سے واضح طور پر منع کیا گیا ہے۔
” حضرت ابوہریرہ رضی اللہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم بد گمانی سے بچو اس لئے کہ بد گمانی سب سے زیادہ جھوٹی بات ہے اور نہ کسی کے عیوب کی جستجو کرو اور نہ ایک دوسرے پر حسد کرو اور نہ غیبت کرو اور نہ بغض رکھو اور اللہ کے بندے بھائی بن کر رہو۔ ) صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1022(۔
ایک اور حدیث لوگوں کی غیبت بیان کرنے اور عیب ٹٹولنے والوں کو سخت الفاظ میں تنبیہ کرتی ہے۔
“آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگوں کی زبانیں تو ایمان لاچکی ہیں لیکن دل نہیں۔ تم مسلمانوں کی غیبت چھوڑ دو اور ان کے عیب نہ کریدو۔ یاد رکھو اگر تم نے ان کے عیب ٹٹولے تو اللہ تعالیٰ تمہاری پوشیدہ برائیوں کو ظاہر کردے گا یہاں تک کہ تم اپنے گھر والوں میں بھی بدنام اور رسوا ہو جاؤ گے” (ابوداؤد، کتاب الادب۔حدیث : ۴۸۸۰)۔
ایک اور حدیث غیبت کرنے والوں کو جہنم کی وعید سناتی ہے۔
“مستورد بن شداد بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے کسی مسلمان کی غیبت کا نوالہ کھایا اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اسے اس کے مثل جہنم کا نوالہ کھلائیں گے ۔( سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 1476)
اسی طرح لوگوں کی برائی بیان کرنے والوں اور ان کی عزت و آبرو کو لوٹنے والوں کی ایک عبرت ناک تصویر اس روایت میں پیش گئی ہے۔
” حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے مجھے معراج کی رات اوپر لے گیا تو عالم بالا میں میرا گزر کچھ ایسے لوگوں پر ہوا جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ ان ناخنوں سے اپنے چہروں کو کھرچ رہے تھے ان کی اس حالت کو دیکھ کر میں نے پوچھا کہ جبرائیل یہ کون لوگ ہیں انہوں نے جواب دیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے یعنی لوگوں کی غیبت کرتے ہیں ان کی عزت و آبرو کے پیچھے پڑے رہتے ہیں”۔ (ابوداؤد رقم 4878)
اس واضح مذمت کے باوجودلوگ اس فعل میں بڑی تعداد میں ملوث ہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک بڑی وجہ تو یہ ہے کہ اکثر لوگ اس کو گناہ ہی نہیں سمجھتے۔ جو لوگ اسے گناہ سمجھتے ہیں ان میں سے زیادہ تر لوگ فرق ہی نہیں کرپاتے کس برائی کوبیان کرنا غیبت ہے اور کس کا بیان غیبت نہیں۔ ایک اور قسم ان لوگوں کی ہے جو غیبت کو گناہ سمجھتے اور اس کی نوعیت سے بھی واقف ہوتے ہیں لیکن تربیت کی کمی کی وجہ سے اسے چھوڑنے سے قاصر رہتے ہیں۔ اس تربیتی مضمون کا مقصد یہی ہے کہ اس مرض کی شناعت کو واضح کیا جائے، اسکی نوعیت کو سمجھا جائے اور عملی مشقیں کرکے اس سے چھٹکارا پایا جائے۔
غیبت کی تعریف
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ غیبت کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ اپنے بھائی کا ایسا ذکر کرو جو اسے نا پسند ہو۔ پوچھا گیا کہ اگر وہ عیب اس میں فی الواقع موجود ہو تب بھی؟ آپ نے فرمایا کہ جو عیب تم نے بیان کیا ہے وہ اگر اس میں موجود ہے تب ہی تو غیبت ہے وگرنہ تو تم نے بہتان لگایا۔ (صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2096)
لہٰذاغیبت وہ کلام،فعل یا اشارہ ہے جس میں کسی متعین غائب شخص میں موجود عیب کو دوسروں کے سامنے تحقیر و تذلیل کی نیت سے بیان کیا جائے اور اگر اس کا علم اس غائب شخص کو ہو تو اسے تکلیف پہنچے۔
غیبت کے اطلاق کی شرائط
۱) کسی متعین شخص کی برائی اس کی غیر موجودگی میں یعنی پیٹھ پیچھے کی جائے۔
۲) ایسی برائی کی جائے جو واقعتا اُس شخص میں موجود ہو۔
۳) برائی کی نوعیت ایسی ہو کہ اگر وہ شخص خود سن لے تو اسے برا لگے۔
۴) اس برائی کرنے کا مقصد تحقیر و تذلیل اور بدنام کرنا ہو۔
کسی بھی بات کے غیبت ہونے کے لئے ان تمام شرائط کا پورا ہونا ضروری ہے۔ مثال کے طورایک دوست نے دوسرے دوست کے منہ پر سچ کہا ۔ “تم ایک بدصورت شخص ہو”۔
اس بات میں آخر کی تین شرائط پوری ہورہی ہیں یعنی یہ برائی اس شخص میں موجود ہے، یہ سننے والے کو بری بھی لگی ہے اور اس کا مقصد تحقیر تذلیل بھی ہے۔لیکن اس میں پہلی شرط پوری نہیں ہورہی یعنی یہ اس شخص کے منہ پر بولی گئی ہے پیٹھ پیچھے نہیں اس لئے یہ غیبت نہیں۔ البتہ یہ بدگوئی میں آتی ہے کو بذات خود ایک بڑا گناہ ہے۔
اسی طرح اگر کسی شخص پر جھوٹا الزام لگایا جائے تو یہ بھی غیبت نہیں کیونکہ غیبت ہونے کے لئے عیب یا برائی کا سچ ہونا لازمی ہے ۔ البتہ جھوٹا الزام لگانا غیبت سے بھی بڑا گناہ یعنی بہتان ہے۔
تیسری شرط یہ ہے کہ برائی ایسی ہو جسے اگر وہ شخص سن لے تو اسے برا لگے۔ یعنی چھوٹی موٹی باتیں کہہ دینا جو عام طور پر نظر انداز کردی جاتی ہیں غیبت نہیں لیکن احتیاط لازمی ہے۔
آخری شرط جو بہت اہم ہے وہ یہ کہ برائی بیان کرنے کا مقصد اس شخص کی تحقیر، تذلیل، بے عزتی کرنا، اسے بدنام کرنا وغیرہ ہو۔ اگر مقصد یہ نہیں تو کسی صورت میں وہ غیبت نہیں۔ چنانچہ وہ برائی جس کا مقصد اصلاح، ظالم کی شکایت، فتویٰ، عدالتی جرح ، اطلاع فراہم کرناوغیرہ ہو وہ غیبت میں شمار نہیں ہوسکتا۔ مثلاََ ایک شخص اپنے ملازم سے کہتا ہے
” تم چوراہے پر جاکر ایک صاحب کو گھر لے آؤ ۔ اس کی رنگت کالی ہے اور وہ تھوڑا لنگڑا بھی ہے”۔
یہ غیبت نہیں ہے کیونکہ اس میں چوتھی شرط پوری نہیں ہورہی۔ اس بات کا مقصد اس شخص کی کردار کشی نہیں بلکہ اس کا مقصد اس شخص کی شناخت بتانا ہے۔
کب برائی بیان کرنا غیبت نہیں ہے؟
اس موقع پر یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ غیبت کیا ہے اور کیا نہیں ہے۔قرآن میں بیان ہوتا ہے:
’’اللہ اس کو پسند نہیں کرتا کہ آدمی برائی کرنے کے لیے زبان کھولے سوائے اس کہ کسی پر ظلم کیا گیا ہو (اور وہ اس ظلم کو بیان کرے)، اور اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔ (مظلوم ہونے کی صورت میں گرچہ تم کو بدلہ لینے کا حق ہے)، لیکن اگر تم ظاہر و باطن میں بھلائی ہی کیے جاؤ یا کم از کم برائی سے درگزر کرو تو اللہ (کی صفت بھی یہی ہے کہ وہ) بڑا معاف کرنے والا ہے، (حالانکہ وہ سزا دینے پر )پوری قدرت رکھتا ہے‘‘، (سورۂ النساء:۴:۱۴۸۔۱۴۹)
اسی طرح ایک حدیث بھی اس معاملے کو کھول کر بیان کرتی ہے:
“جب حضرت فاطمہ بنت قیس نے عدت ختم ہونے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ ’’حضرت معاویہ اور حضرت ابو جہم نے مجھے نکاح کا پیغام بھیجا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ معاویہ تو مفلس ہیں اور ابو جہم پر تشدد آدمی ہیں، تم اسامہ سے نکاح کرلو۔‘‘، ( مسلم ، کتاب الطلاق: حدیث۱۴۸۰)
قرآن کی آیت اور حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ کچھ موقعوں پر برائی کرنا غیبت نہیں ہوتا اور کچھ مواقع پر یہ غیبت شمار ہوتا ہے۔ چنانچہ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ غیبت کا اطلاق کن باتوں پر ہوتا ہے اور کن پر نہیں۔ بہت سے ایسے مواقع ہیں جو بظاہر غیبت سے ملتے جلتے ہیں لیکن چونکہ ان کا مقصد تحقیر و تذلیل نہیں بلکہ کچھ اور ہوتا ہے اس لئے یہ غیبت نہیں کہلاتے۔ وہ مواقع جن میں کسی کی برائی بیان کرنا غیبت نہیں بلکہ جائز ہے یہ ہیں:
۱۔ مظلوم کا ظالم کے خلاف آواز اٹھانا جیسے کسی لٹنے والے شخص کا تھانے یاعدالت میں جاکر ڈاکو کی برائی بیان کرنا۔
۲۔ ایسے فاسق و فاجر اور گناہ کرنے والے کے خلاف بات کرنا جو اعلانیہ فسق و فجور کے کام کرتا ہو جیسے شرابی، عریاں فلمیں دکھانے والا، جوئے کا اڈا چلانے والا وغیرہ۔
۳۔فتویٰ یا رہنمائی لینے کے لیے جیسے ہندہ نے اپنے شوہر کے خلاف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ ابو سفیان بخیل ہیں تو کیا وہ اپنے شوہر سے بلااجازت رقم لے سکتی ہیں۔
۴۔حدیث کے راویوں یا عدالتی کاروائی کے دوران گواہی دینے یا جرح کرنے کے لیے۔
۵۔تحقیقات میں رائے طلب کرنے کے لئے جیسے نکاح کے وقت مشورہ مانگنا یا ملازمت دیتے وقت پوچھ گچھ کرنا یا کسی خریدار کو خطرے سے بچانے کی کوشش کرنا ۔ جیساکہ حضرت فاطمہ بنت قیس نے رشتوں کے سلسلے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مشورہ کیاتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ معاویہ تو مفلس ہیں اور ابوالجہم تشدد کرنے والے آدمی ہیں۔ (مسلم، کتاب الطلاق: ۱۴۸۰)
۶۔ کسی شخص کو اس کے مشہور نام سے پکارنا جو کہ عیب دار نام ہو جیسے ابوجہل، سلیم موٹا وغیرہ۔ گوکہ یہ خود بھی کو ئی اچھا عمل نہیں۔
۷۔ اصلاحِ کی نیت سے برائی بیان کرنا خاص طور پر جب انسان خود کچھ کرنے کی ہمت نہ پارہا ہو تو زیادہ بااثر لوگوں تک بات پہنچانے کی غرض سے کسی کی بری بات بیان کرنا، جیسے بچہ نماز نہ پڑھے تو ماں بچے کے باپ کو اس بات سے مطلع کرتی ہے۔
۸۔کسی پبلک فیگر کے شعبے سے متعلق برائی بیان کرناجیسے سیاستدان وغیرہ جنہوں نے اپنے آپ کو قومی خدمت کے لیے پیش کردیا ہے۔ایسے لوگوں کی مسلمہ برائیاں بیان کی جاسکتی ہیں۔ اسی طرح اگر کوئی فن کار ہے تو اس کے فن پر گفتگو کرتے وقت اس کی برائی کی جاسکتی ہے جیسے یہ کہنا کہ شاہد آفریدی اچھا بیٹسمین نہیں ہے، یا فلاں فنکارہ کا لباس غیر شائستہ ہے وغیرہ۔لیکن کسی عوامی شخصیت کی برائی بیان کرنے کا دائرہ کار اس شخصیت کے پیشے یا فیلڈ سے ہونا چاہئے مثال کے طور پر شاہد آفریدی کے بارے کرکٹ کے حوالے سے تو کوئی رائے دی جاسکتی ہے لیکن اس کی فیملی لائف کو ڈسکس کرنا غیبت میں آسکتا ہے۔
۹۔ ایک عالم کے دوسرے عالم کے کام پر علمی تنقید کرنا کیونکہ اس کا محرک بھی تحقیر نہیں ۔ اور اگر مقصد تذلیل ہے تو غیبت ہے۔
۱۰۔ کوئی معلومات فراہم کرنا جیسے ایک نیوز کاسٹر ایک خبر بیان کرتی ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی پر تشدد کیا تو یہ غیبت نہیں کیونکہ اس کا مقصد اطلاع دینا ہے۔ اسی طرح کوئی عورت اپنے شوہر کو دن بھر کی روداد سنا ئے کہ اس کی ساس اور نندوں نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا تو یہ تو غیبت نہیں بشرطیکہ عورت کا مقصد صرف واقعہ بیان کرنا ہے اور تحقیر و تذلیل مقصود نہیں۔ اسی طرح کسی واقعے کی خبر دینا کہ فلاں کی لڑکی فرار ہوگئی ہے غیبت نہیں ۔ لیکن یہ غیبت ہو بھی ہوسکتی ہےاگر بتانے کا مقصد اس واقعے کی تشہیر کرکے لڑکی یا اس کے اہل خانہ کو بدنا م کرنا ہو۔ اس بات کا فیصلہ وہی شخص کر سکتا ہے جو یہ عمل کررہا ہے کہ اس کا محرک کیا ہے،آیا وہ کردار کشی ، تحقیر اور لطف اندوزی کی نیت سے یہ بات بیان کررہا ہے یا محض ایک اطلاع دے رہا ہے۔
دل کا فتویٰ
بعض اوقات یہ تعین کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ فلاں بات غیبت ہے یا نہیں۔ ایسی صورت میں برائی کے غیبت ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرنے کے لئےدل سے پوچھنا ضروری ہے ۔ جب آپ سے کسی کی برائی بیان کررہے ہوں اور مقصود صرف مزہ لینا ہو یا کسی کو نیچا دکھانے کا جذبہ دل میں کارفرما ہو تو سمجھ لیں کہ یہ غیبت ہے۔
غیبت کرنے کے مختلف طریقے
عام طور پر غیبت مندرجہ ذیل طریقوں سے کی جاتی ہے۔
۱۔زبان سے غیبت کرنا مثلاً فلاں شخص شیخی خور ہے یا بے نمازی ہے وغیرہ۔
۲۔ باڈی لینگویج یا حرکات و سکنات سے غیبت کرنا جیسے کسی کی طرف آنکھوں وغیرہ سے اشارہ کرنا، نقل اتارنا، معنی خیز مسکراہٹ سے پیغام دینا۔
۳۔معنی خیز جملے بولنا مثلاً کسی کا ذکر کرنے کے بعد یہ کہنا کہ خدا کا شکر ہے میں تو پانچ وقت کی نماز پڑھتا ہوں فلاں نہیں پڑھتا وغیرہ۔ اور مقصود یہ بتانا ہو کہ دوسرا شخص بے نمازی ہے۔
۴۔ باتوں ہی باتوں میں کسی کی غیبت کردینا اور اس کا احساس تک نہ ہونا
۵۔ کسی غیبت کرنے والے کی تائید کرنا اور اس کی ہاں میں ہاں ملانا
۶۔ تحریر کے ذریعے غیبت کرنا جیسے ایس ایم ایس یا ای میل کا خط و کتابت کے ذریعے
۷۔ ٹی وی، ریڈیو، انٹرنیٹ، اخبارات وغیر کے ذریعے غیبت کرنا جیسا کہ بالعموم ٹاک شوز اور کالم نگاری میں ہوتا ہے۔
غیبت میں بیان ہونے والے عمومی امور
۱۔جسمانی برائی جیسے کالی رنگت، پست قامتی، بدصورتی، گنج پن، ناک کی ساخت، کوئی جسمانی معذوری۔
۲۔حرکات و سکنات کی برائی مثلاََ چلنے، اٹھنے بیٹھنے یا بولنے کا انداز کہ وہ تو بندر کی طرح دوڑتا ہے وغیرہ۔
۳۔ متعلقات کی برائی مثلاََ لباس، مکان، گھر کی چیزیں، اولاد، بیوی یا شوہر وغیرہ۔
۴۔عادات و اطوار پر تنقید جیسے کنجوسی یا فضول خرچی، کسی کا متکبرانہ رویہ، بدتمیزی، بدگوئی وغیرہ۔
غیبت کے اسباب و محرکات
ہماری سوسائٹی میں غیبت کیوں اتنی عام ہے؟ اس کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ ہم اپنے بھائی کی برائی اس کے منہ پر بیان کرنے کی جرأت نہیں رکھتے۔ لہٰذا موقع کی تاک میں رہتے ہیں کہ کسی طرح اس کی غیر موجودگی میں اس کے عیوب اور خامیاں بیان کی جائیں۔ اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے بھائی کو دوسروں کی نظروں میں گرانا چاہتے ہیں تاکہ اپنے حسد کے جذبے کو تسکین دی جاسکے۔ اس کی ایک اور وجہ محض لذت کا حصول ہے جس کی وجہ سے ہم بلاوجہ اپنے بھائی کو تختۂ مشق بنالیتے ہیں۔ عام طور پر غیبت کے درج ذیل اسباب ہوتے ہیں:
۱۔حسدمثلاً کسی کے مال و دولت، اولاد یا ترقی سے جل کر اس کی برائی کرنا۔
۲۔نفرت اور کینہ جیسے کسی کے خلاف کینہ پیدا ہوجائے اور پھر اس کا بدلہ اسے دوسروں کی نظروں میں گراکر لیا جائے۔
۳۔ غصہ و جذبات پر قابو نہ ہونا اور غیبت کرجانا
۴۔دوسروں کے متعلق سوچنے کا منفی انداز مثلاً جب بھی لوگوں کے بارے میں بات کی جائے تو منفی پہلو ہی پیش نظر رکھا جائے۔
۵۔ دوسروں کی تحقیر کرنے کے لئے لوگوں کو نیچا دکھانے کی کوشش کرنا ، انہیں کم تر دکھانا اور ان کی کردار کشی کرنا
۶۔ بنا سوچے سمجھے یا بلا ضرورت بہت زیاہ بولنے کی عادت۔
۷۔احساسِ کمتری اور اس کمتری کے احساس کو مٹانے کے لیے دوسروں کو کمتر ثابت کرنا اور ان کی برائیاں بیان کرنا۔
۸۔بدگمانی کرنا کہ فلاں شخص میرے خلاف ہے اور پھر اس کی برائیوں کو بیان کرنا۔
۹۔مخاطب کو خوش کرنے کے لیے کسی اور کی برائی کرنا۔
۱۰۔ غیبت کو گناہ نہ سمجھنا
۱۱۔ غیبت کی تعریف اور مفہوم سے ناواقف ہونا
غیبت سے بچاؤ کی تدابیر
۱۔ بولنے سے پہلے سوچا جائے۔ اور جب آپ کسی دوسرے شخص کی برائی بیان کررہے ہوں تو اطمینان کرلیجیے کہ کیا آپ کے پاس اس برائی کو بیان کرنے کا کوئی جواز موجود ہے۔
۲۔دوسروں کے متعلق گفتگو کرنے میں احتیاط برتی جائے اور ان کی پردہ پوشی کی جائے اور لوگوں کے بارے میں اچھا سوچنے اور اچھا بولنے کی عادت ڈالی جائے۔
۳۔حسد پر قابو پایا جائے اور محسود (جس سے حسد کیا جائے) کے حق میں دعائے خیر کی عادت ڈالی جائے۔
ؓ۴۔نفرت، کینہ، غصہ اور دیگر اخلاقی آفات پر نظر رکھی جائے اور انہیں اپنی شخصیت اور نفسیات کا حصہ بننے سے روکا جائے۔
۵۔غیبت ہوجانے کی صورت میں اس کا فوری مداوا کیا جائے ۔ سب سے پہلے تو توبہ کی جائے اور پھر اگر ممکن ہو تو اس شخص سے معافی مانگی جائے یا اس کے ساتھ خصوصی برتاؤ کیا جائے ۔اس کے ساتھ ہی اپنے لیے جرمانے کا نظام نافذ کیا جائے مثلاً اس شخص کو تحفہ دیا جائے جس کی برائی سرزد ہوگئی ہو یا اس کی دعوت کی جائے، اس کے ساتھ کوئی خصوصی برتاؤ کیا جائے تاکہ اس احسان کی وجہ سے غیبت کا گناہ دھل جائے۔
۶۔ غیبت سے قبل ایک لمحے کے لئے خود کو دوسرے کی جگہ پر رکھ کر سوچ لیں کہ اگر میری اس طرح برائی کی جاتی تو کیا مجھے اچھا لگتا؟
۷۔ یہ تصور راسخ کیا جائے کہ غیبت کرنے سے دوسرے کا کچھ نہیں بگڑتا بلکہ الٹا اپنی نیکیاں دوسرے کے اکاؤنٹ میں منتقل ہوجاتی ہیں۔
۸۔ برائی بیا ن کرنے سے پہلے ہمیشہ یہ سوچ لیا جائے کہ اس کا مقصد جائز ہے یانہیں۔ اگر جائز نہیں ہے یا آپ شک و تردد میں ہیں تو پھربرائی بیان کرنے سے رک جایا جائے۔
غیبت کا کفارہ
غیبت ایک گناہ کبیرہ ہے۔ اور ہر گناہ سے توبہ کا طریقہ اس کو ترک کرنا، اس پر نادم ہونا، آئندہ اسے نہ کرنے کا عہد کرنا اور ممکن ہو تو اس کے ازالے کی کوشش کرناہے۔ مثلاً جن لوگوں کے سامنے کسی کی برائی بیان کی ہے ان کے سامنے اپنی غلطی کا اعتراف کیا جائے۔
غیبت کا ازالہ کیسے ہوسکتا ہے؟ علما کا ایک گروہ یہ کہتا ہے کہ غیبت کرنے والے کو اس شخص سے معاف کروانا ضروری ہے جس کی غیبت کی گئی ہو۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ چونکہ غیبت کسی کے پیٹھ پیچھے کی جاتی ہے اس لئے اس کی تلافی کابھی پیٹھ پیچھے ہونا کافی ہے۔ چنانچہ جس کی غیبت کی گئی ہواس کے حق میں دعا کرنا اور اسے فائدہ پہنچانے کی کوشش کرنا تلافی کے لیے کافی ہے کیونکہ اگر اسے اس غیبت کے بارے میں آگاہ کیا جائے گا تو اسے تکلیف ہوگی اور ناچاقی میں اضافہ ہوگا۔ اس صورتحال میں ایک درمیان کی راہ یہ ہے کہ اگر اس شخص سے بے تکلفی ہے تو براہ راست اس سے بات کرکے کی گئی زیادتی کو معاف کروالیا جائے اور اگر اس سے فساد پھیلنے اور تعلقات وغیرہ مزید بگڑنے کا اندیشہ ہو تو دوسرے طریقے سے ازالے کی کوشش کی جائے۔اگر وہ شخص جس کی غیبت کی گئی ہو غائب ہو یعنی اس کا انتقال ہوچکا ہو یا اس کا اتا پتا نہ ہو تب تو دوسرا طریقہ ہی واحد راستہ ہے۔
غیبت پر عملی مشقیں
اسائنمنٹ نمبر ۱
ایم سی کیوز
درج ذیل سوالات کو غور سے پڑھیں اور درست جواب کو ہائی لائیٹ کریں۔ جواب بھیجنے کا طریقہ یہ ہے کہ سوال کاپی کرکے صرف درست جواب اس کے نیچے کاپی کرکے بھیج دیں۔
1۔ مندرجہ ذیل میں سے کونسا گناہ زبان کے ذریعے ہوتا ہے۔
A۔ بہتان لگانا
B۔ گالی دینا
C۔ غیبت کرنا
D۔ اوپر بیان کئے گئے تمام آپشز
2۔ غیبت کرنے کو قران مجید میں کس عمل سے تشبیہ دی گی ہے
A۔ کسی کی پیٹھ میں چھرا گھونپنا
B۔ کسی کی عزت پر حملہ کرنا
C۔ مردہ بھائی کا گوشت کھانا
D۔اپنی نیکیوں کو ضائع کرنا
3۔ قران مجید کی کس سورہ میں غیبت کرنے سے منع کیا گیا ہے
A۔ سورہ الکوثر
B۔ سورہ الحجرات
C۔ سورہ الفرقان
D۔ سورہ النجم
4۔ مندرجہ ذیل میں سے کونسا عمل غیبت کہلاے گا؟
A۔ کسی میں موجود برائی کا اسکی غیر حاضری میں تحقیر کی نیت سے کرنا
B۔ کسی ایسی برائی کا اسکی غیر حاضری میں ذکر کرنا جو اسمیں موجود نہ ہو
C۔ کسی کے منہ پر اسکی تحقیر کی نیت سے اس کی برائی کرنا
D۔ ظالم کی غیر موجودگی میں اسکے ظلم کی شکایت کرنا
5:- ان میں سے کون سی شرط غیبت کی نہیں ہے۔
.A برائی پیٹھ پیچھے کی جائے
.Bجس کی برائی کی جائے اس کو برا لگے
.C برائی کا مقصد تحقیر ہو
.D جو برائی بیان کی جائے وہ جھوٹ پر مبنی ہو۔
6۔ “وحید نے ذاکر سے ذکر کہا کہ آج کل لوگ بہت بے ایمان ہوگئے ہیں”
.Aیہ غیبت ہے
.Bبہتان ہے
.Cکردار کشی ہے
.Dغیبت نہیں ہے کیونکہ کسی متعین شخص کی بات نہیں کی گئی
7۔ غیبت کرنے کے پیچھے عموما کونسا جذبہ ہوتا ہے
A۔ اصلاح کا ارادہ
B۔ حل تلاش کرنے کیلیے سوال کرنا
C۔ مظلوم کے ظلم کا ذکر کرنا
D۔ حسد
8۔ مندرجہ ذیل میں کونسا عمل غیبت کہلاے گا
A۔ خالد نے اپنے دوست کو اسکے منہ پر گالی دی
B۔حامد نے کار چوری ہونے پر رپورٹ درج کرای
C۔حامد نے داود سےتحقیر کی نیت سے کہا کہ خالد جو کل ہی دوسرے شہر گیا ہے وہ بڑا رشوت خور ہے کیونکہ اس نے حامد سے پرسوں ہی رشوت لی تھی۔
D۔وحید نے ذاکر سے کہا کہ آج کل لوگ بہت بے ایمان ہوگے ہیں
9۔ اگر کوئی شخص آپکے سامنے کسی کی غیبت کررہا ہو تو آپکے لیے کونسا رویہ مناسب ہے
A۔ اسکی ہاں میں ہاں ملائی جاے
B۔ زبان کے بجاے صرف سر کے اشارہ سے اس سے متفق ہوا جاے
C۔ ہوشیاری سے موضوع تبدیل کیاجاے
D۔کسی اور شخص کی غیبت شروع کردی جاے
10۔اگر گفتگو کے دوران آپکو یہ فیصلہ کرنا مشکل ہورہا ہو کہ کسی غایب شخص کا جو تذکرہ ہو رہا ہے یہ غیبت ہے یا نہیں تو کسطرح فیصلہ کریں گے
A۔ ایسے موقع پر خاموش رہ کر گفتگو سنتے اور لطف اٹھاتے رہیں گے۔
B۔ چونکہ فیصلہ مشکل ہے اسلئے محفل کی رونق کی خاطر خود بھی اس عمل میں شامل ہوجایں گے
C۔ اپنے آپکو اسکی جگہ رکھ کر سوچیں گے جسکا تذکرہ ہورہا ہے کہ اگر آپکا تذکرہ آپ کی غیر موجودگی میں اسطرح ہوتا تو آپکو کیسا لگتا ۔ اگر برا لگتا تو وہ غیبت ہے
-Dِمندرجہ بالا میں سے کوئی آپشن درست نہیں
اسائنمنٹ نمبر ۲
اگر آپ غیبت کی ماہیت سمجھ چکے ہیں تو مندرجہ ذیل مشق کو حل کریں اور پھر آخر میں دئیے گئے جوابات دیکھ کر یہ جانیں کہ آپ نے غیبت کا مفہوم درست سمجھا ہے یا نہیں۔
ّّّّّّّّمندرجہ ذیل جملوں پر غور کریں اور ہاں یا نہ میں جواب دیں کہ یہ غیبت ہے یا نہیں۔
۱۔ احمد نے اپنے ایک بیوقوف دوست اسلم سے کہا حقارت آمیز لہجے میں کہا ” تم بہت بے وقوف انسان ہو”۔
۲۔ اکرم نے اپنی کار چوری ہونے پر نامعلوم چور کے خلاف تھانے میں رپورٹ درج کروادی۔
۳۔عدالت میں گواہی دیتے ہوئے احمد نے اکرم کی غیر موجودگی میں کہا کہ اکرم چور ہے۔
۴۔ ابو سفیان کی بیوی ہندہ نے اپنے شوہر کے خلاف نبی کریم سے شکایت کی کہ ’’وہ کنجوس آدمی ہیں کیا میں ان کی لاعلمی میں کچھ رقم لے لوں؟
۵۔ ایک شخص فرحان لنگڑا کے نام سے مشہور ہے۔ احمد نے اسلم سے دریافت کیا۔’’فرحان لنگڑا کہاں ہے؟‘‘
۶۔ ایک محلے میں ایک شرابی رہتا ہے۔ انور اپنے پڑوسی سے ذکر کرتا ہے’’یہ شخص شرابی ہے، اس سے کیسے چھٹکارا پایا جائے؟‘‘
۷۔ وسیم نے اکرم کو خبردار کرتے ہوئے کہا ” تم اپنی بہن کا رشتہ انور کو نہ دو کیونکہ انور ایک بدقماش انسان ہے”۔
۸۔ وحیدنے ذاکر سے کہا !” آج کل لوگ بہت بے ایمان ہوگئے ہیں”۔
۹۔اکرم نے الیاس سے کہا ” سابق صدر یحیٰ خان کی ناہلی کی بنا پر پاکستان نے بنگلہ دیش کھودیا”۔
۱۰۔ ٹی وی پر ٹاک شو میں ایک سیاستدان کی کرپشن کا بیان ہورہا ہے ۔
۱۱۔ بہو نے ساس کے خلاف شوہر سے جائز شکایت کی کہ وہ میرے ساتھ برا سلوک کرتی ہے۔
۱۲۔ عورت نے اپنی نند کی غیر موجودگی اسے ذلیل کرنے کے لئے اپنی ماں سے کہا’’میری نند بہت چالاک ہے‘‘۔
۱۳۔ عورت نے اپنی دیور کے متعلق اپنی بہن سے جھوٹ کہا’’میرا دیور ایک بدقماش انسان ہے ۔‘‘۔
۱۴۔ وااجد نے اسلم کی غیر موجودگی میں اسے گالی دی۔
۱۵۔ ذیشان نے فرحان سے کہا کہ سامنے والوں کی لڑکی دو دن سے گھر سے غائب ہے ہمیں ان کی مدد کرنی چاہئے۔
اسائنمنٹ نمبر ۳: کیس اسٹدی
مندرجہ ذیل کیس کا بغور مطالعہ کریں اور بتائیے کہ کس پوائینٹ میں غیبت ہے اور کس میں نہیں۔ نیز مختصراً اپنے جواب کی وجہ بھی بتائیں: جوابات آخر میں ملاحظہ فرمائیں۔
ایک لکڑہارا جنگل میں اپنے خاندان کے ساتھ رہتا تھا۔ اس کے چار بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔ پہلی بیوی مرچکی تھی جس سے ایک بڑی لڑکی فرخندہ تھی جو ایک ٹانگ سے معذور تھی۔ جبکہ باقی بچے دوسری بیوی سے تھے۔ سوتیلی ماں فرخندہ سے ناروا سلوک رکھتی۔ اس کے علاوہ وہ ہر شخص کی پیٹھ پیچھے برائی کرتی رہتی۔ لکڑہارا اس کی عادتوں سے تنگ تھا۔
پوائینٹ نمبر۱: ایک دن فرخندہ نے اپنے باپ سے کہا۔ ’’ابا جان، امی مجھے کھانا نہیں دیتیں اور کام بھی زیادہ لیتی ہیں‘‘۔ لکڑہارے نے اپنی بیوی کو سمجھایا لیکن اس نے جواب دیا۔۔۔۔
پوائینٹ نمبر۲: ’’یہ منحوس اپنی ماں کے ساتھ ہی کیوں نہ مرگئی، اس لنگڑی لڑکی سے مجھے نفرت ہے‘‘۔ لکڑہارا مصلحت کے تحت خاموش ہوگیا۔
پوائینٹ نمبر۳: دوسرے دن اس نے اپنے دوست سے اپنی بیوی کی شکایت کی اور کہا کہ ’’میری بیوی بہت زیادہ لوگوں کی برائی کرتی ہے۔ میں کیا کروں؟‘‘۔ دوست نے اسے مشورہ دیا اور لکڑہارا اس مشورے پر عمل کرنے کے لیے روانہ ہوگیا۔ اگلے دن وہ مطب گیا اور حکیم سے ایک سفوف خرید لایا اور دھوکے سے بیوی کو کھلادیا۔ اسے کھاتے ہی عورت کی آواز بند ہوگئی۔ محلے کی عورتوں میں چرچا پھیل گیا کہ لکڑہارے کی بیوی کی زبان بند ہوگئی ہے۔
پوائینٹ نمبر ۴: ایک پڑوسن نے دوسری سے کہا ’’تمہیں پتا ہے کہ لکڑہارے کی بیوی گونگی ہوگئی ہے؟‘‘
پوائینٹ نمبر۵: دوسری نے جواب میں آ آ کی آواز نکال کر گونگے ہونے کی نقل اتاری اور پھر دونوں ہنسنے لگیں۔
پوائینٹ نمبر۶: دوسری جانب جب فرخندہ کو اس بات کا علم ہوا کہ اس کی سوتیلی ماں پر یہ بیتی تو وہ بہت خوش ہوئی اور اس نے اپنی سہیلی سے کہا ’’میری سوتیلی ماں گونگی ہوگئی ہے۔ یہ خدا نے اسے اس کے عمل کی سزا دی ہے‘‘۔
پوائینٹ نمبر ۷۔ ادھر لکڑہارا بیوی سے بولا کہ تم گونگی ہوگئی ہو۔ لیکن اگر تم توبہ کرو کہ آئندہ اپنی بیٹی کو لنگڑی نہیں کہوگی اور کسی کی برائی نہیں کروگی تو میں تمھیں ٹھیک کرسکتا ہوں۔ نکتہ نمبر ۸۔ عورت نے حامی بھرلی تو لکڑہارا حکیم کے پاس گیا۔ حکیم نے آنکھ ماری اور بولا ’’کیا ہوا، تمہاری گونگی بیوی کے ہوش ٹھکانے آگئے‘‘۔ پھر اس نے ایک سفوف دیا۔ عورت نے سفوف استعمال کیا اور آواز بحال ہونے پر خدا کا شکر ادا کیا اور توبہ کی کہ آئندہ کسی کی برائی نہیں کرے گی اور
نہ اپنی سوتیلی بیٹی کو لنگڑا کہے گی۔
نوٹ: تمام اسائنمنٹ کے درست جوابات جاننے کے لئے اسائنمنٹ حل کرکے اس ای میل ایڈریس پر بھیجیں، آپ کا اسائنمنٹ چیک کرکے آپ کو جواب بتادیا جائے گا۔
globalinzaar@gmail.com
غیبت سے متعلق پوچھے جانےوالے سوالات
Frequently Asked Questions on Backbiting
سوال۱: کیا غیبت سننا بھی گناہ ہے؟
جواب: اگر غیبت سننے والا جان بوجھ کر غیبت کو سن رہا، اس سے لطف اندوز ہورہا اور کرید کرید کر سامنے والا کو اکسا رہا ہےتو یہ گناہ ہے۔ لیکن اگر وہ بحالت مجبوری یہ کام کررہا ہے تو قابل گرفت نہیں۔
سوال۲ : جب کسی کی غیبت کی جارہی ہو تو ہمیں کیا رویہ اختیا ر کرنا چاہئے؟ کیا غیبت کرنے والے کو سختی سے روک دیا جائے یا وہاں سے اٹھ جایا جائے؟۔
جواب: اس سوال کا کوئی دو ٹوک جواب نہیں۔ اصولی ہدایت یہ ہے کہ غیبت کرنے والے کو اس عمل سے روکنے اور خود گناہ میں ملوث ہونے سے بچنا چاہئے لیکن اس کے لئے حکمت لازمی ہے۔ بعض اوقات غیبت کرنے والے کو براہ راست سختی سےٹوک دینے پر بات بگڑ جاتی اورلڑائی جھگڑے کی نوبت پیدا ہوجاتی ہے۔ نیز اس طرح منع کرنے سےغیبت کرنے والے کی انا مجروح ہوتی ہے اوروہ اپنی اصلاح کی بجائے رد عمل کے طور پر مزید اس عمل میں ملوث ہوسکتا ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ ہوشیاری سے موضوع کوبدل دیا جائے ۔ دوسرا حل یہ ہے کہ جس کی غیبت کی جارہی ہو اس کا مدلل دفاع کیا جائے اور اسکی اچھائیاں بیان کی جائیں۔یا پھر غیبت کرنے والے شخص کو باڈی لینگویج سے توجہ دلائی جائے کہ غلط کام کررہا ہے۔ اور اگر پھر بھی وہ باز نہ آئے تو کسی بہانے سے وہاں سے اٹھ جایا جائے۔ البتہ مناسب موقع پر غیبت کرنے والے شخص کو حکمت کے ساتھ سمجھایا جائے تاکہ وہ اس عمل سے باز آجائے۔
سوال۳ ۔ غیبت ہونے کے لئے پہلی شرط کیوں ضروری ہے کہ غیبت پیٹھ پیچھے ہی کی جائے؟۔
جواب: غیبت کا اصل لفظ ” غیب” سے نکلا ہے جس کا مطلب پوشیدہ ہونا ہے ۔ چنانچہ غیبت کی اولین شرط یہی ہے کہ یہ پیٹھ پیچھے کی جائے۔
سوال۴: قرآن میں غیبت کرنے کے عمل کو مردہ بھائی کا گوشت کھانے سے کیوں تشبیہ دی گئی ہے؟
جواب: قرآن کی اس تشبیہ میں بہت گہرائی ہےذرا غور کریں کہ اگر ایک زندہ شخص پر حملہ کیا جائے تو وہ اپنے دفاع میں ہاتھ پاؤں ہلاتا اور حملہ آور سے نبٹنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن ایک مردہ اس صلاحیت سے محروم ہوتا ہے۔ چنانچہ مردہ کے جسم کو ضرب ماری جائے، اس کا گوشت نوچا جائے یا کوئی اور نقصان پہنچایا جائے وہ اپنے دفاع میں کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ بالکل اسی طرح جب کسی شخص کی غیر موجودگی میں اس کی برائی کی جاتی اور اس کی عزت پر حملہ کیا جاتا ہے تو وہ اس برائی کا دفاع کرنےاور اس کا جواب دینے کے لئے موجود نہیں ہوتا۔ نتیجہ کے طور پر اس غائب شخص کی عزت کو تار تار کیا جاتا، اس کی دھجیاں بکھیری جاتیں اور اس کی آبرو کو بھنبوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ عمل کسی مردہ کی لاش کو نوچ نوچ کر کھانے سے مشابہ ہے ۔ اسی بنا پر غیبت کو قرآن نے مردہ بھائی کا گوشت کھانے تشبیہ دی ہے۔
سوال۵: اگر ایک شخص گروپ میں اپنے بھائی کا مذاق اڑارہا ہے جو کہ اس محفل میں موجود ہے تب تو یہ شرط پوری نہیں ہوگی۔ اس کو ہم کس کیٹگری میں شمار کریں۔
جواب۔ اگر آپ دنیا وی معاملات میں دیکھیں تو جرائم کی کیٹگری مختلف ہوتی ہے اور اسی کی مناسبت سے ان کی سزائیں ہوتی ہیں۔ غیبت اور بہتان ملتے جلتے گناہ ہیں لیکن مختلف۔ اسی لئے دونوں کی سزائیں مختلف ہیں۔
آپ نے جو کیس بیان کیا ہے اس میں بھائی کی موجودگی میں مذاق اڑانا غیبت نہیں کہلایا جاسکتا ۔
اب سوال یہ ہے کہ اس عمل کو کیا کہا جائے۔ تو غیبت نہیں بلکہ مذاق اڑانے کی کیٹگری اور ایذا رسانی میں آئے گا اور یہ بھی اسی قبیل کا گناہ ہے جیسے غیبت بلکہ اس میں ایذا رسانی بعض اوقات زیادہ ہوجاتی ہے اس لئے اس کی شناعت بڑھ جاتی ہے/۔
سوال۶ ۔ اگر ایک شخص بد مزاج ہو اور وہ اپنے ماتحت کو اس کی غلطی کو غیر اخلاقی انداز میں بتاتا ہے ۔ یہاں اس کو تکلیف بدرجہ ایک عام غیبت کہ زیادہ ہوتی ہے۔ تو اسے کیوں غیبت میں شمار نہیں کیا جائے گا۔
جواب:یہاں بھی وہی معاملہ ہے کہ ایذا رسانی۔ ایذا رسانی کی سزا اور وعید تو بعض اوقات غیبت سے بھی زیادہ بیان ہوئی ہے۔ جیسے حدیث میں آتا ہے کہ تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک اس کے زبان اور ہاتھ سے دیگر لوگ محفوظ نہ ہوں۔
سوال۷: آپ نے بیان کیا تھا کہ اگر یہ بات سجھنے میں دشواری ہورہی ہو کہ آیا یہ غیبت ہے یا نہیں تو اس بارے میں دل کا فتویٰ کافی ہے۔لیکن انسان کا دل تو بعض اوقات جھوٹ بول دیتا اور مس گائیڈ کردیتا ہے۔چنانچہ اس پر اعتبار کس طرح کیا جاسکتا ہے؟
جواب۔اس کا حل بہت سادہ ہے کہ ہمیں اگر اپنے آپ سے یا دل سے درست طریقے پر پوچھنا آجائے تو جواب کبھی غلط نہیں ملے گا۔ مثال کے طور پر احمد اپنے دوست اسلم کا موبائل کہیں پڑا ہوا دیکھتا ہے لیکن وہ موبائل واپس کرنے کی بجائے اپنے پاس رکھ لیتا ہے۔اگر وہ اپنے دل سے پوچھے کہ کیا جائے؟ تو ممکن ہے اس کا دل اسے یہ راہ سجھائے کہ رکھ لینا بہتر ہے۔ لیکن اگر وہ خود کو اسلم کی جگہ رکھ کر ایک لمحے کے لئے سوچے کہ اگر یہ سب اس کے ساتھ ہوتا تو کیا اسے اچھا لگتا یا وہ اسے ایک اچھائی مانتا؟۔ تو یقینی طور پر اس کا جواب نفی میں ہوگا۔چنانچہ ہمیں بھی چاہئے کہ جب بھی غیبت کے تعین دشواری ہو تو خود کو دوسرے کی جگہ رکھ کر دل سے پوچھیں ، جواب درست ملے گا۔
سوال۸: آپ نے غیبت کی شرائط میں بیان کیا کہ کی گئی برائی کی نوعیت ایسی ہو کہ اگر وہ شخص خود سن لے تو اسے برا لگے۔ لیکن اگر کوئی شخص اس بیان کی گئی برائی کو برائی ہی نہ سمجھے تو کیا غیبت نہیں ہوگی؟ مثال کے طورپر ایک عور ت اپنی پڑوسن سے کہتی ہے کہ وہ روبینہ ایک بے پردہ اور فیشن ایبل عورت ہے۔ تو یہ ممکن ہے کہ روبینہ کو یہ بات بری ہی نہ لگے کیونکہ اس کے نزدیک بے پردگی اور فیشن کرنا برائی ہی نہ ہو۔
جواب: غیبت کی یہ شرط کہ کی گئی برائی کی نوعیت ایسی ہو کہ اگر وہ شخص خود سن لے تو اسے برا لگے۔ یہ شرط تو حدیث میں بیان کی گئی ہے۔ اب جہاں تک آپ کے سوال کا تعلق ہے تو ممکن ہے روبینہ کو اس بات پر تو اعتراض نہ ہو کہ اسے بے پردہ اور فیشن ایبل کہا گیا ہے لیکن اسے یہ ضرور برا لگے گا کہ یہ بات اس کی برائی میں کہی گئی اور اس کا مقصد اس کی تزلیل ہے۔ چنانچہ اعتراض جملے پر نہیں بلکہ اس نیت اور انداز پر ہے جس کے تحت یہ ادا کیا گیا ہے۔ اس لئے یہ غیبت ہی میں شمار ہوگا۔
سوال۹: میری ساس مجھے بہت تنگ کرتی ہے۔ میں صرف دل کی بھڑاس نکالنے اور ساس کو نیچا دکھانے کے لئے اس کی برائی اپنے شوہر سے کرتی ہوں ۔ کیایہ غیبت ہے؟ اور اگر میں صرف یہ بیان کروں کہ آج میری ساس نے میرے ساتھ کیا برا سلوک کیا اور اس کا مقصد اطلاع دینا ہو ساس کی تذلیل نہ ہو تو کیا یہ غیبت ہے؟
جواب: پہلا عمل تو غیبت ہے لیکن دوسرا نہیں۔
سوال۱۰: جوائینٹ فیملی سسٹم میں غیبت سے کس طرح بچا جاسکتا ہے؟
جواب: یہ بہت اچھا سوال ہے۔ اللہ نے یہ دنیا آزمائش کے لئے بنائی ہے اور ہر ایک کو اس کی استطاعت و صلاحیت کے حساب سے امتحان کا پرچہ دیا گیا ہے ۔ چنانچہ کوئی غربت سےآزمایا جارہا ہے تو کوئی معذوری سے۔ اب جو لوگ جوائینٹ فیملی میں رہتے ہیں اور اس سے نکلنے کی استطاعت نہیں رکھتے ان کا امتحانی پرچہ یہی ہے جس کو انہوں نے انتہائی خوش اسلوبی سے حل کرنا ہے۔ اس اصولی بات کے بعد عام طور پر جوائینٹ فیملی میں چونکہ ایک دوسرے سے انٹرایکشن زیادہ ہوتا ہے اس لئے غیبت کے مواقع بھی بڑھ جاتے ہیں۔ اس سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے تو اس سسٹم کو ایک آزمائش اور چیلنج کے طور پر لیا جائے، پھر کسی بھی شکایت کی صورت میں اپنا حق چھوڑ دینے کی ہمت پیدا کی جائے اور اگر شکایت کرنا ناگذیر ہی ہو تو نیت تحقیر کی بجائے اصلاح کی اختیار کرلی جائے۔ اور سب سے بڑھ کر اللہ سے دعا کی جائے۔
سوال۱۱: کیا کسی شخص کی دل میں برائی سوچنا غیبت ہے؟
جواب: نہیں کیونکہ غیبت کے لئے اظہار ضروری ہے خواہ وہ الفاظ سے ہو یا باڈی لینگویج سے۔ البتہ یہ بغض و بدگمانی کے زمرے میں آسکتا ہے۔
سوال۱۲ : کچھ استاد تربیت کے نام پر اگر شاگرد کی غیر موجودگی میں دوسرے شاگردوں کے سامنے اس کی برائی کریں تو کیا یہ غیبت ہے؟
جواب : ہم نے غیبت کی چوتھی شرط میں یہ نکتہ بیان کیا تھا کہ برائی کرنےکا مقصود کوئی جائز نہیں بلکہ ناجائز ہو جیسے کسی شخص کی کردار کشی کرنا، اس کے عیوب کو اچھالنا اور دوسرے شخص کے سامنے اسے بدنام کرنا یا کمتر یا حقیر دکھانا ۔اس شرط کے تحت اگر شاگرد کی برائی کرنے کا محرک واقعی تربیت ہے اور اس کی تحقیر مقصود نہیں تو یہ غیبت نہیں ہے۔
سوال۱۳۔ اگر ہم غیبت نہ کریں تو پھر تو ہم محفلوں میں کوئی بات ہی نہیں کرسکتے۔
جواب: ایسا نہیں ہے بلکہ ایسا سوچنا ایک شیطانی فریب ہے۔ مثال کے طور پر ایک دوکاندار یہ سوچے کہ اگر ہم ایمانداری کرنے بیٹھ گئے تو بھوکے مر جائیں گے۔لیکن اگر آپ مغربی ممالک میں تجارت کودیکھیں تو ان کی کامیابی کا راز ہی ایمانداری ہے ۔ چنانچہ یہ سوچنا کہ غیبت چھوڑ دینے سے محفلیں ویران ہوجائیں گی ایک مغالطہ ہے۔ انسان کو ابتدا میں چیزیں مشکل لگتی ہیں لیکن جب ان کی عادت ہو جائے تو پھر معاملات آسان ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا غیبت چھوڑنے کے بعد محفلوں میں اچھی باتیں ہونگی، مثبت رویے پیدا ہونگے اور ایک دوسرے کی اچھائیوں کی جانب نظریں اٹھیں گی۔
سوال ۱۴۔کسی شخص کی غیر موجودگی میں اس پر علمی تنقید کی جائے یا اس کے رویے کے متعلق بات کی جائے کہ فلاں شخص انتہائی شدت پسند ہے، وغیرہ۔ تو کیا یہ غیبت ہوگی؟
جواب۔کسی کی غیر موجودگی میں کی گئی علمی تنقید تو کسی طور غیبت نہیں کیوں کہ علمی تنقید کا بنیادی محرک اصلاح ہوتی ہے تحقیر نہیں۔ لیکن اگر یہ تنقید تحقیر کے لئے ہے تو غیبت ہے۔ جہاں تک رویے پر تنقید کے غیبت ہونے یا نہ ہونے کا تعلق ہے تو اس کا جواب وہ شخص دے گا جو یہ کام کررہا ہے۔ اگر وہ یہ کام اس شخص کی تذلیل و تحقیر کے لئے کررہا ہے تو غیبت ہے۔ اگر اس کا مقصد باقی لوگوں کو اس کوتاہی سے ۔آگاہ کرنا ہے یا کوئی اورجائز محرک ہےتو غیبت نہیں۔
سوال ۱۵۔ کیا کسی قوم کی برائی کرنا غیبت ہے؟
جواب۔ نہیں۔ غیبت کسی فرد ہی کی ہوتی ہے اور یہ بات قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ البتہ کسی قوم کی برائی بیان کرنا ایک دوسری طرح کا گناہ ہے۔
سوال ۱۶۔ کیا غیر مسلم کی غیبت بھی حرام ہے؟
جواب۔ غیبت دراصل عزت پر خفیہ حملہ ہے۔ جس طرح غیر مسلم کی جان اور مال پر حملہ کرنا ناجائز ہے اسی طرح اس کی عزت و آبرو پر حملہ بھی حرام ہے ۔
سوال ۱۷۔میں نے آپ سے ایک سوال کرنا ہے کہ جیسا کہ آپ نے غیبت کا سبب بتایا ہے کہ بعض لوگ لاعلمی کی وجہ سے غیبت کر بیٹھتے ہیں تو کیا ان کو اس کا گناہ ملے گا؟؟؟ کیا وہ بھی بالکل اتنے ہی گناہ کا مستحق ہو گا جتنا جان بوجھ کر برائی کرنے والا؟
جواب۔ آُپ کا سوال بہت اچھا ہے۔ اگر ایک شخص لاعلمی میں کوئی گناہ یا غیبت کربیٹھتا ہے تو لازمی طور پر وہ مکلف نہیں اور اسے اس گناہ کی وہ سزا نہیں ملے گی جو اس شخص کو ملتی ہے جو اسے جانتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس کا فعل گناہ ہی شمار ہوگا۔ مثال کے طور پر ایک شخص کو علم نہیں کہ پاکستان میں لیفٹ ہینڈ ڈرائیو ہوتی ہے اور یہاں آکر رائٹ ہینڈ ڈرائیو شروع کردے اور ایکسڈنٹ کردے تو تو ایسا نہیں کہ اس نے کوئی جرم نہیں کہا البتہ لاعلمی کی بنا پر ہوسکتا ہے عدالت اس سے نرم رویہ اختیار کرلے۔
لیکن اس سوال کے ایک اور پہلو ہے۔ اس طرح تو بظاہر وہ لوگ فائدہ میں رہیں گے جو لاعلم ہیں۔ لیکن لاعلم شخص کی پکڑ دوسرے میدان میں ہورہی ہے ۔ اس سے یہ ضرور پوچھا جائے گا کہ اس نے علم کیوں حاصل نہیں کیا؟ اسلام کی بنیادی باتیں جاننا ہر شخص پر فرض ہے۔ اب اگر ایک شخص یہ علم تو حاصل کرلیتا ہے کہ زہر کھانے سے وہ ہلاک ہوجائے گا اور زہر کیا ہوتا ہے۔ تو اسے یہ علم بھی حاصل کرنا چاہئے کہ غیبت کیا ہوتی ہے؟ حسد کسے کہتے ہیں وغیرہ۔ لاعلمی بذات خود ایک بڑی کوتاہی ہے۔
سوال ۱۸۔ ایک فیملی یا کمپنی کے سربراہ کے طور پر مجھے اکثر اوقات لوگوں کو ان کی غیر موجودگی میں ڈسکس کرنا پڑتا ہے ۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ میں ان کی غیبت میں ملوث ہورہا ہوں؟
جواب: کسی کی غیر موجودگی میں کے بارے میں ڈسکس کرنا غیبت نہیں۔ اسی طرح آپ کے کیس میں ملازمین یا گھر والوں کی کارکردگی پر اظہار خیال اور ان کی برائی بیان کرنا بھی غیبت نہیں کیونکہ اس ساری ایکٹوٹی کا مقصد ان کی کارکردگی کو بیان کرنا ہے ان کی تحقیر و تذلیل نہیں۔
سوال ۱۹۔ ایک شخص احمد کے روئیے سے دکھی ہوجاتا ہے اور وہ اس کی شکایت اسلم سے کرتا ہے ۔ اسلم کا احمد کے اوپر زور بھی چلتا ہے۔ تو کیا اس شخص کا اسلم سے شکایت کرنا غیبت ہے جبکہ وہ شخص احمد کو پسند کرتا ہے اور اس کی اصلاح کا خواہاں ہے۔
جواب: یہ غیبت نہیں کیونکہ اس شخص کی نیت تحقیر کی نہیں محض اطلاع دینے ، شکایت کرنے اور اصلاح کرنے کی ہے۔
آپ کے لئے اہم اسائنمنٹ
اس مشق کو پر ڈائری میں حل کریں اور ایک مہینے تک ان ہدایات پر عمل کریں۔ ایک مہینے کے بعد اس مشق کو دوبارہ پر کرکے یہ دیکھیں کہ کیا ترقی یا تنزلی ہوئی۔
۱۔ ان شخصیات کے نام لکھیے جن کی آپ بالعموم برائی کرتے ہیں جیسے ساس، بہو، کوئی خاص دوست، افسر وغیرہ۔
۲۔ ان محفلوں یا لوگوں کی نشاندہی کریں جن میں رہ کر آپ غیبت کرتے ہیں جیسے دفتر میں، گھر میں، بیوی کے ساتھ یا دوستوں کی مجلس میں۔
۳۔ ان امور کی نشاندہی کریں جو غیبت میں زیرِبحث آتے ہیں جیسے کسی کی جسمانی برائی، عادت کی خامیاں یا دولت کی برائی وغیرہ۔
۴۔ ان اسباب کی نشاندہی کریں جن کی بنا پر آپ غیبت پر مجبور ہوجاتے ہیں مثلاً زیادہ بولنے کا مرض، حسد، غصہ وغیرہ۔
۵۔ ان سب باتوں کی نشاندہی کے بعد غیبت سے بچاؤ کی ہدایات پر عمل کریں اور ایک مہینے کے بعد ان سوالات کا جواب دیں:
سوال۱: میں غیبت کے اسباب اور نوعیت کو جان چکا ہوں۔
سوال۲: میں گفتگو میں احتیاط کرتا اور لوگوں کے متعلق فالتو بات کرنے سے گریز کرتا ہوں۔
سوال۳: میں لوگوں کے متعلق بدگمانی سے بچتا اور ان کے بارے میں اچھا سوچتا ہوں۔
سوال۴: میں حسد نہیں کرتا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ اللہ کسی کو دے کر آزماتا ہے اور کسی سے لے کر۔
سوال۵: میں لوگوں سے شکایت کے باوجود انہیں معاف کردیتا، ان کے عیوب کو چھپاتا اور ان کی اچھائیاں بیان کرتا ہوں۔
سوال۶: میں نے غیبت پر قابو پالیا ہے اور اب میں کسی کی برائی نہیں کرتا۔
* اگر ان سب سوالات کا جواب ہاں میں ہو تو بہتر وگرنہ ایک بار پھر نئے سرے سے اپنا محاسبہ اس تربیتی مضمون کی روشنی میں کریں اور پھر سے ان سوالات کا مثبت طور پر جواب دینے کی کوشش کریں۔ مزید کسی مشکل کی صورت میں اس ای میل پر رابطہ کریں:
aqilkhans@gmail.com
http://aqilkhans.wordpress.com
