سوال: اگر اولاد اپنی فرمانبرداری کی وجہ سے والدین کے آگے نہ بولے اور ان کے غلط فیصلوں کی نذر ہو جائے تو قیامت کے دن والدین سے اس کا سوال ہو گا؟ یا وہ اپنے مرتبے کی وجہ سے اولاد کے لئے غلط فیصلوں کا بھی اختیار رکھتے ہیں اور ان سے کوئی حساب نہ ہو گا؟
جواب: اس کائنات کے نظام کو چلانے کے لئے اللہ نے انسانو ں کے لئے حقوق و فرائض کا دائرہ کار متعین کر دیا ہے۔ کہیں ہم حقوق سے نوازے گئے ہیں تو کہیں فرائض کی صورت میں ذمہ داریاں ودیعت کی گئی ہیں ۔مگر یہ بات قابل غور ہے کہ ہر ذمہ داری کی پوچھ گچھ بھی اس کے مطابق ہو گی یعنی جتنی بڑی ذمہ داری اتنا بڑا احتساب ۔۔ اسلام کی تعلیم یہی ہے کہ ہر شخص اپنے اوپر عائد حقوق کی ادائیگی کے لیے کمر بستہ رہے۔
اس کائنات ارضی کے رشتوں میں والدین کا رشتہ سب سے معزز اور اہم ترین ہے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن و حدیث میں جابجا والدین سے حسن سلوک کا تاکیدی حکم ملتا ہے۔لیکن ایسا نہیں ہے کہ اولاد پر صرف فرائض ہی عائد کئے گئے ہیں بلکہ ان کے حقوق بھی اخلاق ،معاشرت اور قانون کا حصہ بنائے گئے ہیں۔والدین بلکہ اللہ اور رسول ﷺ کی اطاعت کے علاوہ ہر اطاعت کے لئے اسلام کا بنیادی اصول یہی ہے کہ اطاعت صرف معروف یعنی بھلائی اور نیکی کے کاموں میں کی جائے گی۔اسی اصول کی بنا پر والدین کی اطاعت بھی مشروط ہے۔( حوالہ سورہ العنکبوت: 8)
والدین کی فرمانبرداری بلاشبہ ایک اعلیٰ صفت ہے مگر ان کے غلط فیصلوں پر مؤدب احتجاج اور اپنے حقوق کے کے لئے آواز بلند کرنا کوئی غلط بات نہیں۔مگر یاد رہے اس میں بدتمیزی کا عنصر شامل نہ ہو۔ ناجائز مطالبات میں ان کا ساتھ نہ دیں مگر آپ اپنا فرض نبھاتے رہیں اور ان کی ضروریات پوری کریں ،خدمت جاری رکھیں ۔باقی رہا یہ سوال کہ کیا والدین سے ان کے غلط فیصلوں پر احتساب ہو گا تو قیامت کے دن ” جوذرہ برابر نیکی کرے گا وہ اسکو پا لے گا اور جو ذرہ برابر بھی برائی کرے گا اسکو پا لے گا ” (سورہ الزلزال 7،8 ) وہاں کسی کی بخشش کسی مرتبہ کی بنا پر نہ ہو گی اور ہر چھوٹے بڑے عمل کا حساب لازماً دینا پڑے گا۔
والدین کی جانب سے غلط فیصلے کی دو وجوہات ہوسکتی ہیں۔ ایک وجہ تو ان کی ضد، ہٹ دھرمی، اپنی بات منوانا،لالچ، انا پرستی اور خود غرضی وغیرہ ہوسکتی ہے۔ یہ وجوہات عام طور پر اولاد کی شادی اور جوائینٹ فیملی سسٹم کے ساتھ متعلق ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے اس قسم کی کسی بھی حرکت جس کا محرک کو ناجائز فعل ہو اس کا مواخذہ ہوگا۔ دوسری وجہ کوئی اجتہادی غلطی ہوسکتی ہے جس کی چھوٹ ہے۔
البتہ آپ کے سوال کو بعینہ قبول کرنے میں مجھے ایک تامل ہے۔ اکثر دیکھا کیا ہے کہ والدین اپنے تجربے اور اولاد کی بھلائی کے جذبے سےان کے لئے جو فیصلے کرتے ہیں وہ بوجوہ ( اس کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں) اولاد کے لئے قابل اعتراض ہوتے ہیں۔ اس لئے والدین کے معاملے میں حسن ظن سے کام لینا چاہیے۔
بسا اوقات بظاہر ان کے غلط دیکھائی دیے جانے والے فیصلے بعد میں درست ثابت ہوتے ہیں ۔لیکن کبھی کبھار صورت حال ویسی بھی ہو سکتی ہے جس کی نشاندہی آپ نے کی ہے تو اس صورت میں بلاشبہ والدین سے بھی ان کے اعمال کا ان کی نیتوں کے مطابق حساب کتاب ضرور کیا جائے گاالاّ یہ کہ اللہ ان کے ساتھ مغفرت کا معاملہ کرے۔لیکن یہ مغفرت ان کے رتبے کی بنا پر نہ ہو گی بلکہ اللہ کی رحمت کی بنا پر ممکن ہے جس کا حقدار ہونے کے لئے ہم سب دعاگو رہتے ہیں۔ والدین کو بھی چاہیے کسی منفی جذبے کے زیر اثر آکر اولاد پر اپنی مرضی مسلط نہ کریں۔ سب سے بڑھ کر جو بات والدین کو سمجھنی چاہِے وہ یہ کہ والدین کے حقوق کے بارے میں سوچنا والدین نہیں اولاد کا کام ہے۔ اگر کوئی اولاد یہ کام نہیں کررہی تو ٹینشن نہیں لینی چاہیے اور معاملہ اللہ پر چھوڑ دینا چاہِے۔ ایسے ہی اولاد کو بھی والدین کے ساتھ احسان کا رویہ اختیار کرنا چاہِے۔احسان کا مطلب ہے اپنا جائز حق بھی چھوڑ دینا ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت نصیب فرمائے۔ آمین
واللہ اعلم
جواب: راعنہ نقی سید
