پچھلے دنوں بعض اخبارات میں ایک ملک سے متعلق یہ خبر شایع ہوئی کہ وہاں تقریباً کثیر تعداد میں لوگ اپنے بچوں کا ڈی این اے ٹیسٹ کراتے ہیں تاکہ وہ یہ جان سکیں کہ ان کے بچے واقعتاً انہی کے ہیں۔رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ اکثر اوقات ڈی این اے ٹیسٹ کا نتیجہ ان کی مرضی کے خلاف مگر توقع کے عین مطابق آتا ہے۔یعنی بچہ ان کا ثابت نہیں ہوتا۔
دورِ جدید میں مشرقی معاشروں کی مغرب پر واحد برتری، صنفی معاملات میں ان کا بہتر رویہ، خاندانی نظام کی مضبوطی اور اور عفت و عصمت کی اقدار کا استحکام رہا ہے۔مگر میڈیا کے فروغ نے مشرقی اقوام کو ان کی برتری کے واحد میدان میں بھی پیچھے دھکیل دیا ہے۔یہ رپورٹ اگر شایع نہ ہوتی تب بھی مشرقی میڈیا جس طر ح مغرب کی نقالی میں عریانی اور فحاشی کی دوڑ میں شامل ہوگیا ہے، اس کا نتیجہ تو یہ نکلنا ہی تھا۔ آج نہ سہی کل سہی۔
ہمارے لیے اہم مسئلہ یہ ہے کہ یہ جدید میڈیاجو مغربی طرز فکر کے سامنے سجدہ ریز ہوچکا ہے، ہماری زبان میں ہمارے لوگوں اور خاص کر خواتین سے مخاطب ہوتا ہے۔ان میں اپنا مشرکانہ [اور ملحدانہ] مذہب پھیلاتا ہے۔اپنی تہذیب و روایات کو فروغ دیتا ہے۔مغرب کے زیرِ اثر فحاشی اور عریانی کا درس دیتا ہے۔ بلکہ بے حیائی کی دوڑ میں اب وہ اس مقام پر آگیا ہے جہاں فلموں ڈراموں میں لوگوں کو اطمینان کے ساتھ یہ درس دیا جاتا ہے کہ آپ بلا خوف و خطر تفریح طبع (میرا دل چاہتا ہے کہ اسے تفریح تباہ لکھوں) کے لیے اپنے میاں یا بیوی کو آپس میں بدل لیں۔
یہ گندگی ڈرامہ اور فلم کی آڑ میں لوگوں کو پلائی جاتی ہے اور لوگ اسے مشروبِ مشرق سمجھ کر پی رہے ہیں۔ یہ مشروب جب ہضم ہوکر قلب و نظر کا حصہ بنے گا تو ہمارے ہاں بھی ڈی این ا ے ٹیسٹ شروع ہوجائیں گے۔ جن کا نتیجہ مرضی کے خلاف مگر توقع کے عین مطابق نکلے گا۔
(مصنف: ریحان احمد یوسفی)
