Quantcast
Channel: ڈاکٹر محمد عقیل کا بلاگ
Viewing all articles
Browse latest Browse all 320

کیا آپ ذہین ہیں؟

$
0
0


ابھی جو بات میں آپ سے کرنے والا ہوں اسے سننے کے لئے ذرا تیار ہوجائیں اور دل تھام لیجے۔ اس وقت آپ کا ایک چھوٹا سا ٹیسٹ ہونے والا ہے۔ بے فکر رہیں یہ کوئی خطرناک ٹیسٹ نہیں کہ آپ کو لیبارٹری جانا پڑے۔ بس یہ ایک معمولی سا ذہانت کا امتحان ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ صرف ایک سوال ہے جس کا جواب صرف چند لائینیں ہیں ۔اگر جواب درست تو آپ ذہین اورعقلمند کہلائیں گے وگرنہ نہیں۔
سوال غور سے پڑھئیے۔ نیچے ایک شعر درج ہے، یہ بتائیے کہ کیا یہ شعر درست ہے؟ اگر نہین تو اس میں کیا خرابی ہے؟
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز
جواب کے ایک لئے آپ کے پاس پانچ سو سیکنڈ ہیں۔ ایک دو تین چار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اوووووووور یہ پانچ سو۔
جی جناب ، کیا جواب ہے آپ کا ؟ چلیں اپنا رپلائی نیچے دئیے گئے جواب سے چیک کرلیں۔

اصل میں یہ شعر غلط ہے کیونکہ اس میں پہلا مصرعہ کسی اور شعر کا اور دوسرا مصرعہ کسی دوسرے شعر کا ہے۔پہلے مصرعے کا شعر یہ ہے:
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق۔۔۔۔۔۔۔ عقل محو تماشا ہے لب بام ابھی
دوسرے مصرعہ کا شعر یوں ہے۔
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمودو ایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز
ویسے آج کل یہ شعر یوں پڑھا جاتا ہے
ایک صف میں کھڑے ہوگئے محمود ایاز
دوسر ی صف میں کھڑا ہوگیا خود کش بمبار
پھر۔۔۔ نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز
تو جناب آپ نے اپنا جواب چیک کرلیا ہوگا اور یہ جان گئے ہونگے کہ آپ ذہین ہیں یا نہیں۔ اصل میں اس سوال کا درست جواب دینے کے تین طریقے ہیں ۔ایک تو یہ کہ دونوں شعر یاد ہوں تو غلطی پکڑی جاسکتی ہے ۔ دوسرا یہ کہ دونوں مصرعوں کے وزن سے معلوم کرکے یہ جان لیا جائے کہ شعر غلط ہے ۔ ان دونوں ٹیکنیکس کے لئے شاعری کا ذوق ہونا ضروری ہے۔ لیکن ایک تیسرا طریقہ کامن سینس کا ہے ۔ دونوں مصرعوں کے مضمون کو دیکھیں تو کوئی میل نہیں ۔ چنانچہ اس بنیاد پر ایک شخص آسانی سے معلوم کرسکتا ہے کہ یہ شعر غلط ہے۔

اس پر کچھ لوگ اعتراض کریں گے کہ ہمیں تو شاعر ی سے دلچسپی نہیں اور نہ ہمیں شعر یاد ہوتے ہیں تو یہ کیسا ذہانت کا ٹیسٹ ہوا؟ یہ ٹیسٹ غلط ہے اور اس طرح ذہانت نہیں معلوم کی جاسکتی۔ یہ اعتراضات معقول ہیں اور معترض کی بات درست معلوم ہوتی ہے۔چنانچہ ایسا نامعقول ٹیسٹ بنانے والےکے پاس اپنا سا منہ لے کر رہ جانے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوگا۔
اب ذرااس بات کو ایک اور پہلو سے دیکھیں ۔ہم سب ایک اور امتحان میں مبتلا ہیں جو کم و بیش ہر وقت جاری ہے۔ یہ خالق کائینات کا بنایا ہوا ٹیسٹ ہے ۔ امتحان یہ ہے کہ ہم ثابت کریں کون اچھا ہے کون برا، کون غلام ہے اور کون باغی، کون پرہیز گار ہےاور کون فاسق؟ اس ٹیسٹ کو ایک بے انتہا علیم ، خبیر، ذہین اور عقلمند ہستی نے بنایا ہے۔کل ہم جب اپنے نتائج کے ساتھ اس کے سامنے پیش ہونگے تو کیا ممکن ہے کہ اس کے بنائے ہوئے نظام امتحان کو چیلنج کرسکیں؟ کیا اس بات کا امکان ہے کہ ہم اس کے رولز پر اعتراض کرسکیں، اس کی بات ماننے سے انکار کردیں، اس کے چیک کرنے کے نظام کو باطل قرار دے دیں، اس کی ریکارڈ کیپنگ کو جھوٹ کا پلندہ گردانیں؟ یہ ممکن نہیں کیونکہ اول تو اس کے ہاں بولنے کا کسی کو یاراں نہیں۔ اور اگر کوئی پاگل یہ کرتا بھی ہے تو اس کے اعضاء اس کے خلاف گواہ بن کر اسے مجرم قرار دلوادیں گے۔
لیکن کتنی حیرت انگیز بات ہے کہ ہم آج اس دنیا کے ان تمام امتحانات کو دے رہے ، انہیں سنجیدہ لے رہے اور اس کے بتائج کو دل و جان سے تسلیم کررہے ہیں حالانکہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ یہ امتحان کی غلط ڈیزائین کیا گیا ہو، اس میں زبان و بیان کی کئی غلطیاں ہو، اس میں سوال ہی بے تکا پوچھا گیا ہو، اس کا چیک کرنے کا نظام ہی فرسودہ ہو، اس کے ممتحن رشوت خور ہوں۔ دوسری جانب وہ امتحان جو خالق کائینات کا بنایا ہوا ہے، جسے خدا کی حکمت نے جنم دیا ہے، جسے خدا کی قدرت نے ڈیزائن کیا ہے، جسے خدا کے عدل نے چیک کیا ہے اس پرفیکٹ نظام امتحان کو ماننے سے گریزاں ہیں ، اس کے خلاف علم بغاوت بلند کئے ہوئے ہیں ، اس میں سے اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اس میں اپنی خواہشات کو پورا کرنا درست سمجھتے ہیں۔
کتنے بد نصیب ہیں وہ لوگ جو دنیا کے عارضی اور ناقص امتحانوں کو سنجیدہ لیتے رہے اور جو امتحان کامل اور ابدی نتائج کا حامل تھا اس کے سوالات تک نہ پڑھ پائے ۔
از پروفیسر محمد عقیل



Viewing all articles
Browse latest Browse all 320

Trending Articles