Quantcast
Channel: ڈاکٹر محمد عقیل کا بلاگ
Viewing all articles
Browse latest Browse all 320

آج امریکہ اور برطانیہ پر عذاب کیوں نہیں آتا

$
0
0

قرآن میں کن قوموں کا ذکر ہے؟
قرآن میں خاص طور پر وہ اقوام مذکور ہیں جن میں رسولوں کی بعثت ہوئی اور وہ براہ راست قانون دینونت کی زد میں آئیں۔ قانون دینونت کیا ہے ؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب ایک رسول قوم میں مبعوث ہوتا ہے تو وہ اللہ کی عدالت بن کر دنیا میں آتا ہے۔ وہ اپنی قوم کو دعوت دیتا، سمجھاتا، بجھاتا اور ہر لحاظ سے ان کی تشفی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن جب قوم حق واضح ہوجانے کے بعد اور تما م دلائل سمجھ آجانے کے بعد ماننے سے انکار کردیتی ہے تو رسول اس قوم کو چھوڑ کر ہجرت کرجاتا ہے۔ اس کے بعد سزا کے طور پر اس قوم کو مٹادیا جاتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قوم کو ختم کیوں کردیا جاتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس قوم کو آخری درجے میں سمجھا کر حجت تمام کردی جاتی ہے۔ اب چونکہ قوم نے آخری درجے میں ماننے سے انکار کردیا ہوتا ہے اسلئے اس کا امتحان ختم ہوجاتا ہے اور اسے موت کی سزا دے دی جاتی ہے۔ ایک اور وجہ یہ ہے کہ رسول قوم کو یہ بتاتا ہے کہ اگر تم نہیں مانوگے تو آخرت میں اللہ کا عذاب آئے گا۔ انکار کرنے والے پوچھتے ہیں کہ کیسے آئے گا؟ تو پیغمبر انہیں دکھا دیتا ہے کہ اس طرح آئےگا۔اس طرح یہ مٹی ہوئی قوموں کی داستان رہتی دنیا تک باقی لوگوں کے لئے ایک عبرت و نصیحت کا نمونہ بن جاتی ہے۔
قانون دینونت کے تحت جن قوموں کو مٹایا گیا ان میں قوم نوح، قوم عاد، قوم ثمود، قوم لوط ، قوم شعیب وغیرہ کا ذکر قرآن میں موجود ہے جنہیں براہ راست آسمانی عذاب سے ختم کردیا گیا۔ البتہ حضرت یونس کی قوم کو مہلت دی گئی اور وہ قوم ایمان لے آئی۔
بنی اسرائیل نے بھی حضرت عیسی کا انکار کیا لیکن انہیں ختم نہیں کیا گیا۔ اس کی دو وجوہات تھیں ۔ ایک تو یہ کہ اس وقت یہود توحید پر قائم تھے اس لئے ان کے ساتھ یہ رعایت کی گئی لیکن انہیں ذلت کا عذاب دے دیا گیا۔ چنانچہ ان کے بارے میں لکھ دیا گیا کہ یہ قوم دوسری قوموں سے مغلوب ہوتی رہے گی جس کے نتیجے میں اس کا بڑا جانی و مالی نقصان ہوتا رہے گا۔اسی طرح یہ بھی اس عذاب کا حصہ ہے کہ یہ قوم کسی دوسری قوم کے سائے میں تو اپنا وجود باقی رکھ سکتی ہے لیکن اپنے بل بوتے پر یہ دنیا میں کھڑی نہیں رہ سکتی۔ یہ دونوں باتیں تاریخی طور پر درست ہیں۔ یہود کا ماضی میں کئی دفع قتل عام ہوا۔ نیز آج تک اسرائیل امریکہ و برطانیہ کے بل بوتے پر کھڑا ہے۔ آج یہ معاونت ختم ہوجائے تو عرب ریاستیں اسے کچل کر رکھ دیں۔
آج کے دور کی قومیں
قرآن میں ان اقوم کا ذکر صراحت کے ساتھ نہیں ہوا جو قانون دینونت کے تحت نہیں آتیں اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کے مخاطبین بنی اسماعیل تھے جنہیں بار بار یہ بتایا جارہا تھا کہ خدا کی عدالت اس دنیا میں لگ چکی ہے اور اب فیصلہ ہونے والا ہے۔ اگر تم نے نہ مانا تمہارا حشر بھی ان اقوم سے مختلف نہ ہوگا جنہوں نے اپنے رسولوں کا انکار کردیا ۔
دوسری جانب ہم جانتے ہیں کہ نبوت و رسالت کا سلسلہ منقطع ہوچکا ہے۔ چنانچہ آج جتنی بھی قومیں موجود ہیں ان پر قانون دینیونت کا اطلاق نہیں ہوتا۔لیکن ان اقوام کے عروج و زوال پر روشنی ڈالنا بہت ضروری ہے ۔ چنانچہ آج امریکہ و برطانیہ، روس چین اور ہندستان وغیرہ جو شرک ، الحاد، لواطت اور فحاشی کا گڑھ سمجھے جاتے ہیں ان پر یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ یہ کیوں قوم نوح، قوم ثمود و قوم عاد کی طرح تباہ و برباد نہیں ہوجاتے؟ ان سب باتوں کا جوا ب اگر ہم قانون دینونت کی روشنی میں سمجھیں تو بات بہت سادہ ہے۔ اللہ برائی اور سرکشی کرنے پر کسی قوم کو عام طور پر تباہ نہیں کرتے بلکہ وہ رسولوں کے انکا پر ہی کسی قوم پر موت کی سزا کا نفاذ کرتے ہیں اور اس کی وضاحت اوپر کی جاچکی ہے۔ وہ قومیں جن میں رسول مبعوث نہیں کئے گئے وہ اپنے معاملات سرکشی کے باوجود بھی جاری رکھتی ہیں اور ان کا عرو ج و زوال عام مادی و اخلاقی بنیادوں پر ہوتا رہتا ہے۔ کبھی کبھی اللہ تنبیہ کے لئے کوئی حادثہ رونما کرتے ہیں لیکن اس کی حیثیت بھی عذاب سے زیادہ تنبیہ و تذکیر کی ہوتی ہے اور اکثر اوقات اس کے اسباب اللہ کی براہ راست مداخلت کی بجائے کچھ اور ہوتے ہیں۔اگر اس بات کو نہ مانا جائے اور قدرتی آفات کو اللہ کا عذاب سمجھا جائے تو ایسا کیوں ہوتا ہے کہ اس عذاب کا شکار اکثر غریب، نادار، کمزور اور مفلس لوگ یا قومیں ہی کیوں بنتے ہیں؟ کیوں سیلاب سے صرف کچی بستیاں تباہ ہوتی ہیں اور پکے مکانات قائم و دائم رہتے ہیں؟ کیوں زلزلوں سے غریب کا گھر تو گر جاتا ہے اور امیر کا محل اپنی جگہ موجود رہتا ہے؟ کیوں وبائی امراض سے گاؤں کے شہری لقمہ اجل بن جاتے ہیں لیکن امرا محفوظ رہتے ہیں؟ کیوں سونامی سے تیسری دنیا میں تو تباہی مچادیتا ہے لیکن جاپان و امریکہ میں وہ نقصان نہیں ہوتا؟ کیا اللہ کا عذاب اساب و علل کا پابند ہے۔ حالانکہ اگر عذاب نے آنا تھا تو اس کا مرکز ترقی یافتہ اقوم ، شہری علاقے، متمول طبقات اور امراء ہونے چاہئے تھے جہاں برائیاں اور بے حیائی زیادہ موجود ہے۔
ایک اور اہم پہلو اس ضمن میں یہ ہے کہ قوموں اور فرد کے بارے میں اللہ کا قانون یہ ہے کہ فرد کا حساب کتاب اور اس کی جزا و سزا آخرت میں ہوگی۔ دوسری جانب قوموں کی جزا و سزا اسی دنیا میں ہوجاتی ہے۔ چنانچہ جو قوم مادی اور اخلاقی پہلو سے بہتر ہو تو وہ ترقی کرتی ہے جبکہ جو قوم مادی علم و ہنر میں پیچھے ہو یا اخلاقی انحطاط کا شکار ہو تو وہ غیر ترقی یافتہ رہ جاتی ہے۔ اس اصول سے استثنی کسی کو نہیں ۔ چنانچہ مسلمان جب علم و ہنر میں طاق رہے اور اجتماعی اخلاقیات کو درست رکھا تو انہوں نے دنیا ہر حکومت کی۔ لیکن جب وہ اس میں پیچھے رہ گئے تو یورپ میں زمام اقتدار منتقل ہوگئی۔ اس کے بعد امریکہ کا نمبر آیا۔ اور اب معلوم ہوتا ہے کہ چین کی باری ہے۔
اس میں ایک سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ مغربی اقوام علم و ہنر میں تو طاق ہیں لیکن جنسی بے راہروی کی بنا پر اخلاقی انحطاط کا شکار ہیں تو پھر انہیں کیوں ترقی دی گئی ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جنسی بے راہ روی اخلاقیات کا صرف ایک پہلو ہے۔ اس کے برعکس دیانتداری، سچ بولنا، قول و فعل میں تضاد نہ ہونا، میرٹ پر انتخاب، آزادانہ مسابقت اور مساوات وغیرہ وہ چند اخلاقی اوصاف ہیں جو ترقی و خوشحالی کے بنیادی اجزا ہیں۔چنانچہ قرآن میں اقوام پر بیان کردہ عذاب کا موازنہ آج کی قوموں سے کرنا نامناسب ہے۔
از پروفیسر محمد عقیل



Viewing all articles
Browse latest Browse all 320

Trending Articles