Quantcast
Channel: ڈاکٹر محمد عقیل کا بلاگ
Viewing all 326 articles
Browse latest View live

قصص القرآن۔ ایک دلچسپ کتاب از پروفیسر عقیل

$
0
0


اس کتاب کی خصوصیات
قرآنی قصائص پر بے شمار کتابیں لکھی گئی ہیں ۔ یہ کتاب کئی پہلووں سے ان سے مختلف ہے۔ پہلا پہلو تو یہ ہے کہ اس میں چھ گروپ بنا کر قرآنی قصائص کو بیان کیا گیا ہے جس سے قاری کا ذہن ایک ہی موضوع سے متعلق رہتا ہے اور معاملے کی تفہیم آسان ہوجاتی ہے۔ دوسرا یہ کہ اس میں اکثر قصائص سے متعلق تذکیری، اخلاقی یا سبق آموز پہلو پر روشنی ڈال کر یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ یہ قصہ کن پہلووں سے ہماری عملی زندگی سے متعلق ہے اور ہم اس سے سبق حاصل کرکے کیا عمل کرسکتے ہیں۔ تیسرا یہ کہ اس میں بنیاد قرآن کو بنایا گیا ہے اور واقعے سے قبل جہاں ممکن ہو وہاں قرآن کی آیت سے بات شروع کی گئی ہے اور کوشش کی گئی ہے کہ کوئی غیر مستند بات بیان نہ ہو ۔ چوتھا یہ کہ اس کتاب میں تفصیل کے ساتھ اس واقعے کے تاریخی اور دیگر پہلووں پر تفصیل فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ پانچواں یہ اس کتاب میں مختصر سوالات کے ذریعے قاری کے مطالعہ اور تفہیم کی صلاحیت کو جانچنے اور ساتھ ہی اسے پڑھنے کی ترغیب دی گئی ہے۔
اس کتاب کا استعمال
یہ کتاب یوں تو ہر طبقے کے لئے مفید ہے لیکن بالخصوص ایک عام پڑھے لکھے شخص، خواتین ، بڑی عمر کے بچوں ، طلبا اور اساتذہ کے لئے مفید ہے۔ ایک عام قاری کے لئے اس کے پڑھنے کا طریقہ یہ ہے وہ ہر روز اس کا تھوڑا تھوڑا حصہ پڑھے اور پھر اس میں دی گئی مشقیں حل کرے۔نیز جو تذکیر وہ حاصل کرے اسے اپنی عملی زندگی میں اپلائی کرنے کی پوری کوشش کرے۔
اس کتاب کے مطالعے کا ایک اور طریقہ یہ ہے کہ اسے گھر کے سربراہ جن میں شوہر، خواتین یا بڑے بھائی بہن شامل ہیں اپنے دیگر خاندا ن کے دیگر افرادمیں اورخاص طور پر بچوں میں اسے پڑھ کر سنائیں اور ساتھ ساتھ اس کی وضاحت بھی کرتے جائیں۔ جو تاریخی تفصیل غیر ضروری لگے یا جو بات مخاطب کی سطح کے لئے نامناسب ہو اسے حذف کردیں تاکہ دلچسپی برقرار رہے۔ اس کے بعد ان سے کچھ سوالات پوچھ لیں تاکہ انہیں سننے کی ترغیب حاصل ہو۔
کتاب کے ابواب
یہ کتاب چھ ابواب میں منقسم ہے۔ پہلا با ب انبیاء علیہم السلام کے واقعات پر مشتمل ہے۔ دوسرا باب قوموں کے قصون کو بیان کرتا، تیسرا نیک ہستیوں کی داستانیں بتاتا، چوتھا برے کرداروں پر روشنی ڈالتا ، پانچواں قرآن کے انکشافات کی تفصیل بیان کرتا اور چھٹا باب متفرق قصائص کی تفصیل کرتا ہے۔ آپ سے درخواست ہے کہ اس کتاب میں کسی بھی کسی کی غلطی ہو تو ضرور مطلع کریں۔ نیز میرے لئے اور میرے ادارے کے ٖلئے خاص طور پر دعا کریں کہ اللہ ہمیں اپنے لئے خاص کرلیں۔
پروفیسر محمد عقیل
کتاب داؤن لوڈ کرنے کے لئے اس لنک پر کلک کریں

قصص القرآن



قران کا مطلوب انسان

$
0
0

اللہ نے اس گناہگار کو اس سعادت سے سرفراز کیا کہ اس نے قران مجید میں جابجا بکھری ہوئی اس دعوت ایمان و عمل صالح کی تفصیل کو اکٹھا کر کے ایک ساتھ بیان کر دیا ہے۔“

”لوگ ‘جب زندگی شروع ہوگی’ کو میری سب سے بڑی تصنیف سمجھتے ہیں، لیکن میرے لیے سب سے بڑی سعادت ‘قران کا مطلوب انسان’ کی اشاعت ہے۔ یہ اول تا آخر ﷲ تعالیٰ کے الفاظ میں اس راستے کا بیان ہےجو اصل زندگی کے آغاز پر ہم سب کو جنت کے بہترین انجام سے ہمکنار کرسکتا ہے۔“

”’جب زندگی شروع ہوگی’ کو پڑھ کر لوگوں کے دلوں میں جنت میں جانے اور جہنم کے انجام سے بچنے کی خواہش شدت سے پیدا ہوئی تھی۔ مگر جنت خواہش سے نہیں عمل سے ملتی ہے۔ یہ بندہء عاجز قران مجید کے مستند ترین الفاظ اور احادیث کے اسوہ حسنہ کی روشنی میں وہ راستہ بھی جنت کے چاہنے والوں کے سامنے رکھ رہا ہے جو انہیں سیدھا ان کی منزل تک پہنچا دےگا۔ میری خواہش ہے کہ ہر مسلمان اس کتاب کو پڑھے ارو دوسروں کو پڑھائے۔ اس لیے کہ یہ میری تصنیف نہیں کلامِ الٰہی کا بیان ہے۔ اس سے ذیادہ سیدھی اور سچی بات کوئی نہیں ہوسکتی۔“

قران کا مطلوب انسان کیا ہے؟

اس سوال کے جواب کو قران مجید کے ۲۳ مقامات سے منتخب کیا گیا ہے۔

ابتدا میں مکی پھر مدنی سورتوں کو رکھا گیا ہے۔ اس ترتیب کا سبب اس بات کو واضح کرنا ہےکہ دین کی بنیادی دعوت ہر دور اور ہر طرح کے حالات میں ایک ہی رہتی ہے۔

ہر مجموعہء آیات کا ایک عنوان تجویز کیا گیا ہے، جو ان آیات کی ابتدا یا اختتام پر ﷲ تعالیٰ نے خود بیان کیا ہے۔ ہر جگہ ‘عنونات و مطالبات’ کے تحت اس کی وضاحت کردی گئی ہے۔ اس عنوان سے یہ بات بالکل واضح ہوجائے گی کہ جو احکام دیے جارہے ہیں وہ ﷲ تعالیٰ کو عین مطلوب ہیں۔

Abu Yahya

ڈاؤن لوڈ کے لئے نیچے کلک کریں
قرآن کا مطلوب انسان


روزے کی مشکلات اور ان کا علاج

$
0
0


از پروفیسر محمد عقیل
تعارف
نماز اور زکوٰۃ کے بعد روزہ تیسری اہم عبادت ہے ۔ رمضان فرض روزوں کا مہینہ ہے جس میں مسلمانوں کے لیے فجر سے مغرب تک کھانے پینے اور مخصوص جنسی عمل سے اجتناب برتنا لازم ہے البتہ مسافر، بیمار یا حیض میں مبتلا خواتین اس سے مستثنیٰ ہیں ۔ روزہ صرف امتِ محمدی پر ہی نہیں بلکہ ماضی کی امتوں پر بھی فرض تھا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ اپنی بگڑی ہوئی شکل میں عیسائیوں ، یہودیوں حتیٰ کہ ہندوؤں کے یہاں بھی اب تک موجود ہے
روزے کی فضیلت:
روزہ اُن عبادات میں سے ہے جن کی فضیلت اور اجر دیگر عبادات کی نسبت بہت زیادہ بلکہ لامحدود ہے ۔ احادیث میں بڑ ی کثرت سے روزے کے فضائل بیان ہوئے ہیں ۔
قرآنی آیت
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم پر روزہ فرض کر دیاگیا جس طرح ان لوگوں پر فرض کر دیا گیا تھا جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں تاکہ تم متقی بن جاؤ۔(البقرہ ۱۸۳:۲)
احادیث ۱
۔ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص رمضان میں ایمان اور ثواب کا کام سمجھ کر روزے رکھے اس کے اگلے گناہ معاف کردئیے جائیں گے۔ (صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 37 )
۲۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب رمضان کا مہینہ آتا ہے، تو جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں۔( صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 1780 )

جنت کا ایک دروازہ ریان صرف روز داروں ہی کے لئے مخصوص ہے ( متفق علیہ)۔ ایمان و احتساب کے ساتھ روزے رکھنے پر گذشتہ گنا ہوں کی معافی کی بشارت ہے (متفق علیہ)۔ روزے دار کے منہ کی بو اللہ کو مشک کی بو سے بھی زیادہ عزیز ہے (متفق علیہ)۔ روزے دار کے لیے دو خوشیاں ہیں ایک جب وہ افطار کرے اور دوسری جب وہ (اپنے روزے سے رب کو راضی کر کے ) خدا سے ملاقات کرے گا (متفق علیہ)۔ ایک بادشاہ اپنے عام ملازموں کو لگی بندھی تنخواہ سے نوازتا ہے جس کا ایک قاعدہ اور قانون مقرر ہے ۔ لیکن جب وہ اپنے وفادار اور خاص لوگوں سے معاملہ کرتا ہے تو پھر اجرت کا اصول بدل جاتا اور اس کی مقدار بے حساب ہوجاتی ہے اسی طرح ایک مؤمن کے ہر عمل کی جزا دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک ہے لیکن روزے کا اجر لامحدود ہے اور اس کی جزا خود پروردگارِ عالم دیں گے (متفق علیہ)۔
روزے کا مقصد:
روزوں کا بنیادی مقصد تقویٰ کا حصول ہے ۔ تقویٰ درحقیقت اللہ کے خوف ، اس کی ناراضگی سے بچنے کی کوشش ، اس کی رضا کے لئے ہر طرح کی مشقت اور آزمائش کے لیے کمر بستہ رہنے سے عبارت ہے ۔ خدا کا تقرب اسی صورت میں مل سکتا ہے جب بندۂ اس سے رک جائے جس سے رب نے منع کیا اور وہ کرنے کے لئے کمربستہ ہوجائے جس کا اس نے حکم دیا ہے ۔ عمل کی دنیا میں دیکھا جائے تو یہ کوئی دو اور دو چار کا فارمولا نہیں کہ ادھر بندے نے بندگی کا اقرار کیا اور ادھر وہ ولی صفت اور باعمل مسلمان بن گیا۔ خدا کے احکامات کی بجاآوری کے لیے سخت محنت، ٹریننگ اور مستقل مزاجی کی ضرورت ہے ۔ عربی میں صوم کا مطلب ہے کسی چیز سے رک جانا اور اسے ترک کر دینا۔ صائم (روزے دار) کی اصطلاح عرب معاشرے میں ان گھوڑ وں کے لئے بھی استعمال ہوتی تھی جنہیں جنگ کی تربیت دینے کی خاطر بھوکا پیاسا رکھا جاتا تھا۔ روزہ اسی تربیت کا حصہ ہے جس کے ذریعے بندہ چند جائز اعمال کو بھی خدا کے حکم پر چھوڑ کر اس کی فرمانبرداری کی عادت پیدا کرتا اور گنا ہوں کی دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرنے کی تربیت حاصل کرتا ہے ۔
روزے کا فلسفہ: دین کا بنیادی مقصد اپنے رب کو راضی کرنا اور اس کی عبادت و اطاعت ہے ۔ رب کی اطاعت میں دو دشمن حائل ہوتے ہیں ۔ ایک دشمن تو داخلی ہے جو انسان کا اپنا نفس ہے جبکہ دوسرا دشمن خارجی ہے جو شیطان ہے ۔ رمضان چونکہ تربیت کا مہینہ ہے اس لیے خارجی دشمن یعنی شیطان کو تو دراندازی کرنے سے روک دیا جاتا ہے ۔ دوسری جانب نفس کی تربیت کر کے اسے ہر قسم کے حالات میں خدا کی اطاعت و بندگی کے لئے تیا ر کیا جاتا ہے ۔ نفس کی مثال ایک سرکش گھوڑ ے کی مانند ہے جو اپنے سوار کو اپنی مرضی سے بے مقصد بھگانا اور موقع ملنے پر پٹخ دینا چاہتا ہے ۔ لیکن جب اسی سرکش گھوڑ ے کی تربیت کر دی جاتی اور اسے اچھی طرح سدھا دیا جاتا ہے تو اب یہ سوار کے اشاروں پہ ناچتا، اس کے احکامات کی تعمیل کرتا اور اس کے لیے سراپا نفع بخش بن جاتا ہے ۔ گو کہ کچھ لوگ اس سرکش گھوڑ ے کو گولی مار کر ختم کر دینا بہتر سمجھتے ہیں کیونکہ اس میں روز روز کی جھنجھٹ نہیں ۔ لیکن اسلام میں رہبانیت نہیں اور انسان کی اصل طاقت اس منہ زور گھوڑ ے کو رام کرنے میں ہے ناکہ اس کو مار ڈالنے میں ۔ روزہ بھوک اور پیاس کے ذریعے نفس کے سرکش تقاضوں کو کمزور کر کے خدا کی اطاعت کے لیے تیار کرتا ہے ۔ جو تقاضے انسان کو متواتر گناہ پر مجبور کرتے ہیں ان میں جنس کے تقاضے ، پیٹ کی بھوک اور حلق کی پیاس سرِفہرست ہیں ۔ ان تقاضوں کی افراط انسان کو بے شمار گنا ہوں پر اکساتی اور لاتعداد اخلاقی بیماریوں کا سبب بنتی ہے ۔ روزہ ان تقاضوں کو نکیل ڈالتا، ان کو قابو میں رکھتا اور انسان کو ان کے شر سے محفوظ رہنے کی تربیت دیتا ہے ۔ انسانی نفس کا ایک اور منفی پہلویہ ہے کہ وہ جلد باز واقع ہوا ہے ۔ روزہ اس جلد بازی کے تقاضے کو قابو کر کے صبر کی تربیت بھی دیتا ہے ۔
روزے کی آفات:
ہمارے معاشرے میں بالعموم لوگ روزہ رکھتے ہیں ۔ البتہ چند کوتاہیوں کی بنا پر اس عظیم عمل کو مکمل یا جزوی طور پر ضایع کر دیتے ہیں ۔ اس کی مندرجہ ذیل صورتیں ہو سکتی ہیں :
۱۔ روزہ رکھنے سے گریز ۲۔ نماز پڑ ھنے سے گریز ۳۔ شہوانی امور میں ملوث ہونا ۴۔گناہ کا کلام ۵۔ غصے کا غلبہ ۶۔ زبان کے چٹخارے ۷۔ وقت کاٹنے کی کوشش ۸۔ ریاکاری یا دکھاوا ۹۔ نیت میں خرابی ۱۰۔ قیام الیل ۱۱۔ دیگر کوتاہیاں
۱۔ روزہ رکھنے سے گریز:
رمضان شروع ہونے سے قبل کچھ لوگ روزے ترک کرنے کے غیر شرعی بہانے تلاش کرنا شروع کر دیتے ہیں تاکہ خود کو اور لوگوں کو مطمئن کرسکیں ۔ حالانکہ شریعت میں روزے سے مستثنیٰ افراد کی تفصیل موجود ہے ۔ لیکن پھر بھی لوگ سر درد کے بہانے ، خود ساختہ بیماری کے سبب، کام کی زیادتی یا کسی اور بنا پر روزے نہیں رکھتے ۔ اس کا بنیادی سبب خدا پر ایمان کی کمزوری اور قول و فعل کا تضاد ہے ۔ اس کا علاج یہ ہے کہ قرآنِ کریم کا مطالعہ اور صالح لوگوں کی صحبت سے ایمان کو جلا بخشی جائے اور ہر قسم کی مشکل میں خدا کی رضا ہی کو اہمیت دی جائے۔

۲۔ نماز پڑ ھنے سے گریز: عا م طور پر تو روزے دار نماز کا اہتمام کرتے ہی ہیں لیکن ایک بڑ ی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو روزے کی حالت میں بھی نماز پڑ ھنے سے گریز کرتے ہیں ۔ اس کی بنیادی وجہ سستی و کاہلی ہے اور پھر یہ حضرات روزے اور نماز کو دو الگ الگ فرائض سمجھتے ہیں حالانکہ جس کی رضا کے لیے وہ خود کو بھوکا پیاسا رکھ رہے ہیں اسی کا حکم ہے کہ نماز پڑ ھو۔ یہ حضرات روزے کا مطلب بھوک اور پیاس ہی لیتے اور اس کی اسپرٹ کو جاننے سے قاصر رہتے ہیں۔ روزے کا بنیادی مقصد نفس کی تربیت کر کے اسے خدا کی بندگی اور اس کے تمام احکام و ہدایات بجالانے والا بنانا ہے۔ چنانچہ عین حالتِ روزہ میں خدا کی بندگی کی عملی تعبیر یعنی نماز سے روگردانی روزے کے بنیادی فلسفے اور مقصد سے روگردانی ہے ۔ اس کا علاج یہ ہے کہ اوپر بیان کیے گئے روزے کے فلسفے پر غور کریں ۔ اس سلسلے میں تزکیۂ نماز پر لکھے گئے آرٹیکل سے مدد لی جا سکتی ہے ۔

۳۔ شہوانی امور میں ملوث ہونا: کچھ لوگ روزہ رکھ کر ظاہری جنسی امور سے تو اجتناب کرتے ہیں لیکن دیگر طریقوں سے شہوت کو تسکین پہنچانے کی شعوری و لاشعوری کوشش کرتے رہتے ہیں ۔ مثلاً یہ آنکھوں کو قابو میں نہیں رکھتے ، کانوں سے فحش گانے سن کر نفس کو تسکین پہنچاتے یا پھر فحش باتوں میں ملوث ہوکر روزے کو ضایع کرتے اور پھر یہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ ہمارے شہوانی تقاضے روزے میں بھی قابو میں نہیں آتے ۔ بھائی جب ائیرکنڈیشن چلایا جاتا ہے تو کھڑ کیاں دروازے بند کر کے ٹھنڈک کو باہر نکلنے سے روکا جاتا ہے ۔ آنکھوں کی کھڑ کیاں بھی کھلی ہوں اور کانوں کے دروازے بھی، توپھر یہ شکایت عبث ہے کہ تقوٰی کی ٹھنڈک دل میں محسوس نہیں ہوتی۔ ہمت سے کام لے کر خود کو ان گناہ کے امور سے دور کر لیں ۔ جونہی کسی نامحرم پر شہوت کی نگاہ پڑ ے تو نفس کو کہہ دیں کہ میں روزے سے ہوں اور خدا کی حمد و ثنا اور استغفار و دعا میں مشغول ہوجائیں ۔ نیز دل کے وسوسوں میں بھی کسی جنسی یا شہوانی تصور سے گریز کریں کیونکہ آپ نے جس کے لئے روزہ رکھا ہے وہ دلوں کے بھید بھی جان لیتا ہے ۔ یاد رہے کہ نامحرم کو شہوت کی نگاہ سے دیکھنا گناہ ہے لہٰذا دفتر یا تعلیمی اداروں میں جہاں مرد و زن کا اختلاط زیادہ ہوتا ہے ، نامحرم کے بارے میں ہر طرح کے جنسی اشتہا کے تصور کو قابو کیا جائے ۔

شہوانی امور میں ایک معاملہ میاں بیوی کے تعلقات ہیں ۔ ظاہر ہے کہ روزے کی ایک شرط مخصوص جنسی تعلق سے گریز بھی ہے ۔ البتہ دیگر معاملات (مثلاً بوس و کنار وغیرہ) کی اجازت تو ہے لیکن چونکہ اس میں اندیشہ ہے کہ روزہ ضایع ہو جائے لہٰذا اجتناب ہی بہتر ہے ۔

۴۔ گناہ کا کلام: قدیم شریعتوں میں روزے کی حالت میں کلام یعنی بات چیت پر بھی پابندی ہوتی تھی۔ امتِ محمدی میں گو کہ یہ پابندی تو نہیں لیکن بلا ضرورت کلام سے گریز روزے کی روح کے قریب تر ہے ۔ بات چیت میں جو گناہ ہم سے سرزد ہوتے ہیں ان میں جھوٹ، غیبت، بہتان، فحش کلام، گالم گلوچ وغیرہ شامل ہیں ۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ جو شخص روزہ رکھ کر جھوٹ بولنا اور برا کام کرنا نہیں چھوڑ تا، تو اللہ کو اس کی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے (بخاری)۔ غور طلب بات یہ ہے کہ روزے کا مقصد اللہ کا خوف اور اس کے احکام و فرامین کے لیے تعمیل کا جذبہ پیدا کرنا ہے محض بھوکا اور پیاسا رہنا نہیں ۔ چنانچہ یہ ممکن ہی نہیں کہ ایک طرف تو کھانے کا ایک دانہ بھی منہ میں نہیں جا ئے اور دوسری طرف غیبت کے ذریعے اپنے ہی بھائی کا گوشت جی بھر کے کھایا جا رہا ہو، شہوت سے ظاہری پرہیز کے ساتھ فحش گفتگو سے اس کی کسر پوری کی جا رہی ہو، نیت تو صوم (خدا کی نافرمانی سے گریز) کی ہو لیکن گالیوں کے عمل سے اس نیت کو توڑ ا جا رہا ہو، خدا کے حکم پر زبان کو خشک اور حلق کو پیاسا تو کر دیا گیا ہو لیکن جھوٹ بول کر انہیں اخلاقی غلاظتوں سے تر اور سیراب کیا جا رہا ہو۔

وہ بات چیت جو عام زندگی میں حرام ہے وہ روزے کی حالت میں اور زیادہ حرام ہوجاتی ہے جیسے ایک فوجی کا کسی حکم کی تعمیل سے انکار کرنا تو ویسے ہی قابلِ گرفت ہے لیکن جنگ کی حالت میں کی گئی نافرمانی زیادہ قابلِ سرزنش ہوتی ہے ۔ ممنوع کلام پر قابو پانے کے لیے چند ہدایات پر غور کریں ۔ ایک تو یہ کہ بلا ضرورت بولنے سے گریز کریں اور خاموشی کو روزے کا ادب اور عبادت سمجھتے ہوئے گفتگو میں احتیاط کریں ۔ بولنے سے پہلے توقف کریں اور ایک لمحے کے لیے سوچیں کہ آپ کیا کہنے والے ہیں ؟ اگر وہ کسی کی برائی، کسی کا مذاق، کوئی جھوٹا کلام وغیرہ ہے تو رک جائیے اور اُس رب کا تصور کریں جس کے کہنے پر آپ نے بھوک کا درد اور پیاس کے کانٹے برداشت کیے ہیں اور یہ سوچیں کہ اس موقع پر زبان کی تالہ بندی اسی رب کا حکم ہے ۔

دوسری ہدایت یہ کہ روزے کی حالت میں گناہ کے کلام کو اسی طرح حرام سمجھیے جس طرح کھانا اور پینا۔ کھانا پینا روزے کے ظاہر کو برباد کرتا ہے جبکہ فحش کلام اور غیبت وغیرہ روزے کے باطن کو تہس نہس کرڈالتے ہیں ۔ نوعیت کے اعتبار سے دونوں میں کوئی فرق نہیں کیونکہ دونوں خدا کی معصیت (گناہ) ہیں ۔ اس ضمن میں تیسری ہدایت یہ ہے کہ زبان کو خدا کی یاد سے تر رکھیں ۔ یہی وہ موقع ہے کہ اللہ کو تمام عیوب سے پاک سمجھ کر اس کی تسبیح کی جائے ، اس کی کاریگریوں کو دیکھ کر حمد و ثنا کے گن گائے جائیں ، اس کی وفاداری کے ترانے پڑ ھے جائیں ، اس کی رحمت کی چھاؤں اور مغفرت مانگی جائے ۔ یہ ذکر بھی بدکلامی سے محفوظ رکھنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے ۔

آخری بات یہ کہ وہ مقام جہاں گناہ کی باتیں ہورہی ہوں تبدیل کر لیا جائے کیونکہ بعض اوقات ماحول اور ساتھیوں کے اُکسانے سے بھی بدکلامی سرزد ہو جاتی ہے ۔

5۔غصے کا غلبہ: روزے کی حالت میں اعصاب کی کمزوری اور بھوک پیاس کی شدت کی بنا پر چڑ چڑ اہٹ اور غصہ طبیعت پر غالب آ جاتا ہے جس کی وجہ سے لوگ اپنے بچوں ، بیوی اور ماتحتوں پر سختی کرتے اور ان پر چیخ پکار کے ذریعے اپنی جھنجلاہٹ کا اظہار کرتے ہیں ۔ کبھی کبھی یہ غیض و غضب متعلقین اور ساتھیوں پر بھی برسنے لگتا ہے ۔ چونکہ فریقِ ثانی بھی کچھ ایسی ہی کیفیات کا شکار ہوتا ہے لہٰذا بسوں میں مسافرین کے درمیان تو تو میں میں شروع ہوجاتی، سڑ کوں پر ٹریفک جام ہوجاتا اور لوگوں میں گالم گلوچ اور بعض اوقات ہا تھا پائی کی نوبت بھی آ جاتی ہے ۔

اس کا بنیادی سبب بھوک پیاس اور اعصابی کمزوری کے علاوہ غصہ کو درست سمجھنا ہے کہ میں تو روزے سے ہوں اور میرا حق ہے کہ میں یہ سب کچھ کروں ۔ اس کا علاج یہی ہے کہ روزے کے فلسفے کو یاد رکھا جائے کہ اس کا مقصد صبر کی تربیت دینا ہے ۔ چنانچہ کسی بھی قسم کی اشتعال انگیزی اس تربیت میں ناکامی کی علامت ہے ۔ اس کا علاج حدیث میں یہ بتایا گیا ہے کہ روزے کو ایک ڈھال کی طرح استعمال کیا جائے ۔ لہٰذا جس کا روزہ ہو وہ نہ تو بے حیائی کی باتیں کرے اور نہ ہی جہالت دکھائے ۔ پھر بھی اگر کوئی گالی دے تو وہ کہہ دے کہ میرے بھائی میں روزے سے ہوں (بخاری و مسلم)۔ مزید یہ کہ غصے کی حالت میں مقام کی تبدیلی بھی کارگر ثابت ہو سکتی ہے ۔

۶۔ زبان کے چٹخارے : صبح سے شام تک بھوکا رہنے کی وجہ سے کھانے پینے کی چیزوں کی جانب رغبت بڑ ھ جاتی ہے ۔ اس اشتہا کو مٹانے کے لیے نت نئے کھانوں کا اہتمام، انواع و اقسام کے پکوان اور لاتعداد مشروبات کی تیاری میں وقت صرف کیا جاتا اور ان کا تصور کر کر کے روزے کا وقت کاٹا جاتا ہے ۔ اس طرح رمضان میں بسیار خوری کے نتیجے میں رمضان میں اکثر لوگوں کا وزن کم ہونے کی بجائے بڑ ھ جاتا ہے ۔ وہ وقت جو جنت کی نعمتوں کی یاد میں گذرنا چاہئے تھا وہ دنیوی دسترخوانوں کی نظر ہو جاتا ہے ۔ چنانچہ وہ تقوٰی اور صبر جو اس بھوک اور پیاس سے پیدا ہونا چاہئے تھا وہ نہیں ہوتا اور نتیجے کے طور پر سطحی قسم کی لذتیں تو مل جاتی ہیں لیکن روزے کے ثمرات و فیوضات ہاتھ سے نکل جاتے ہیں ۔ اس کا علاج یہ ہے کہ کھانا پینا ضرورت کے تحت ہو، مقصد نہ بن جائے ۔ اس سلسلے میں بہت زیادہ اہتمام میں وقت ضایع کرنا، اور لذتوں کی یاد میں گرفتار رہنا بالکل بھی مناسب نہیں ۔ نیز اگر اس صورتِ حال میں آپ اپنے کھانے سے زیادہ مستحقین اور دیگر افراد کو کھلانے کی فکر کریں تو چٹخاروں کی غیر ضروری رغبت سے نجات مل سکتی ہے ۔

۷۔ وقت کاٹنے کی کوشش: چونکہ رمضان میں دفتر اور تعلیمی اداروں کی چھٹی جلد ہوجاتی ہے اس لیے لوگوں کو کافی فارغ وقت دستیاب ہوجاتا ہے ۔ لوگ اس وقت کو عبادات، اذکار اور خدا کی یاد میں لگانے کے بجائے ناول پڑ ھنے ، بلامقصد انٹرنیٹ پر سرفنگ یا چیٹنگ کرنے ، تاش اور دیگر گیمز کھیلنے یا ڈرامے اور فلمیں دیکھنے میں گزار دیتے ہیں ۔ اس عمل کے دوران بعض اوقات حدود سے تجاوز ہو جاتا اور روزے کی صحت پر اثر پڑ جاتا ہے ۔ اس کا علاج یہ ہے کہ رمضان میں کچھ اہداف مقرر کر لیں ۔ مثلاً پورے مہینے میں ایک قرآن ترجمے اور تفسیر سے پڑ ھنا ہے یا حدیث، سیرت اور اسلامی موضوع پر کوئی کتاب ختم کرنی ہے ۔ اور پھر اوقات مقرر کر کے اس پر سختی سے کاربند ہوجائیں ۔ اسی طرح فراغت کے اوقات میں قرآن یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی روزمرہ کی دعاؤں کو یاد کرنے کی کوشش کریں ۔ اسی طرح خدا کی صناعی، اس کی قدرت، اس کی رحمت اور کائنات کے تنوع پر غور کر کے خدا کی معرفت بڑ ھانے کی کوشش کریں ۔

۸۔ ریاکاری یا دکھاوا: روزے کی آفتوں میں سب سے بڑ ی آفت یہ ہے کہ روزہ گھروالوں یا دفتر کے ساتھیوں کو دکھانے کے لیے رکھا جائے ۔ اصل میں دکھاوے کے علاوہ ایک اور عنصر خوف کا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے ۔ اس قسم کے لوگوں کی اکثریت البتہ
چوری چھپے کھانے پینے سے گریز کرتی ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان میں کچھ نہ کچھ خوفِ خدا ہوتا ہے لیکن اصل محرک لوگوں کی ملامت سے بچنا ہوتا ہے ۔ اس کا علاج یہ ہے کہ خدا کے حوالے سے یہ حقیقت ذہن میں تازہ کی جائے کہ اس کی ملامت لوگوں کی ملامت سے زیادہ نقصان دہ ہے ۔ پھر جب مشقت ہی اٹھانی ہے تو نیت میں ذرا سی تبدیلی کر لی جائے کہ میں یہ بھوک اور پیاس اللہ کے حکم کی تعمیل اور اس کی رضا پانے کے لیے برداشت کر رہا ہوں ۔

ریاکاری کی ایک صورت یہ ہے کہ لوگ اپنے روزوں کا مختلف بہانوں سے ذکر کرتے ہیں کہ میرے تو پورے روزے جا رہے ہیں یا آج کا روزہ تو بہت سخت ہے وغیرہ۔ اس قسم کی گفتگو کا محرک اگر دکھاوا ہے تو یہ روزے کے اجر کو کم یا ختم کرسکتی ہے ۔ چنانچہ دل و دماغ میں روزے کی غایت خدا کی رضا ہی بٹھائی جائے اور لوگوں کی تحسین وصول کرنے کے بجائے زمین و آسمان کے اُس بادشاہ کی تحسین و داد وصول کرنے کی کوشش کی جائے جس کے ہاتھ میں تمام خزانے ہیں۔ اس کے علاوہ رمضان کے علاوہ نفلی روزے بھی رکھ کر انہیں لوگوں سے حتی الامکان چھپایا جائے تاکہ ریاکاری پر قابو پایا جا سکے ۔

۹۔ نیت میں خرابی: کچھ لوگ رمضان کے روزے اس نیت سے رکھتے ہیں کہ وزن کم ہوجائے یا تیزابیت کم ہو یا دیگر بیماریوں کا علاج ہوجائے ۔ یاد رکھیں کہ آپ جس لیے روزہ رکھیں گے تو وہی آپ کا نصیب ہے ۔ لہٰذا فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے کہ آپ وزن کم کرنے کو مقصود بناتے ہیں یا خدا کی بندگی کو۔۔

۔ قیام الیل: رمضان عبادت کا مہینہ ہے ۔ یہ خدا کی طرف سے ڈسکاؤنٹ پر سیل کا اعلان ہے جس میں جنت کی وسیع و عریض مینیں ، اس کے گھنے باغات، اس کی ابلتی ہوئی نہریں ، اس کے عالیشان تخت، اس کے خوابناک بیڈرومز، اس کی معطر فضائیں اور نہ جانے کیا کیا کچھ انتہائی کم قیمت پر اس ماہ میں دستیاب ہوتا ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ چند رت جگے ان نعمتوں کو آپ سے قریب
کر دیں ۔ اگر ہر رات جاگنا ممکن نہ ہو تو کم از کم ایک دن چھوڑ کر، یا پھر ویک اینڈ پر۔ اور آخری عشرہ تو بس لوٹ لینے کا عشرہ ہے گویا کہ دینے والے نے تہیہ کر لیا ہے کہ وہ سب کچھ ہی دے دے گا بس شرط یہ ہے کہ کوئی مانگنے والا تو ہو۔ رات جاگنے سے متعلق کئی غلط فہمیوں کو دور کرنا ضروری ہے ۔ ایک تو یہ کہ تراویح کی نماز فرض نہیں بلکہ یہ تہجد ہی کی نماز ہے اور تمام مسالک کا اس پر اتفاق ہے بجز حنفی مسلک کے جو اس نماز کو سنت مؤکدہ سمجھتا ہے اور اس کے تارک کوگناہِ صغیرہ کا مرتکب قرار دیتا ہے ۔ دوسرا یہ کہ حنفی مسلک کے تحت بھی اس نماز میں پورا قرآن سننا ضروری نہیں ۔ مولانا اشرف علی تھانوی نے اپنے آخری دنوں میں کسی اور امام سے اپنی مسجد میں نماز پڑ ھوائی تو ہدایت کی کہ پورے مہینے سورہ فیل سے ہی تراویح پڑ ھائی جائے (مآثر حکیم الامت: صفحہ ۹۵)۔ اس تمھید کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ کچھ لوگ تراویح کو روزے کا لازمی جزو اور اس کے ترک کو روزے کے فاسد ہونے کا ذریعہ سمجھتے ہیں جبکہ حقیقت اس کے برخلاف ہے ۔

دوبارہ اصل موضوع کی طرف آتے ہیں کہ رات کس طرح جاگی جائے ۔ اکثر لوگوں کو قرآن کی چھوٹی سورتیں یاد ہوتی ہیں لہٰذا وہ تہجد کی نماز چند منٹ میں پڑ ھ کر ہاتھ جھاڑ کے کھڑ ے ہوجاتے ہیں ۔ اس ضمن میں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ کچھ علما نماز کی حالت میں قرآن میں سے دیکھ کر پڑ ھنے کو جائز سمجھتے ہیں ۔ چنانچہ اس ذریعے سے مدد لی جا سکتی ہے ۔ اسی طرح تہجد کی نماز ایک نفلی نماز ہے اور اس میں رکعتوں کی تعداد مختلف مکاتب فکر کے تحت گیارہ سے لے کر 40 تک ہے ۔

رات جاگنے میں محض نماز پڑ ھنا ہی شامل نہیں ۔ قرآن کو سمجھ کر پڑ ھنا بھی اس کا حصہ ہے ۔ اسی طرح خدا سے باتیں کرنا، اس سے اپنے دل کا حال کہنا، کبھی مکان، جائداد، صحت اور اولاد کی مادی سطح سے بلند ہوکر اس سے دعائیں کرنا، اس کی پاکی
بیان کرنا، اس کی حمد کرنا وغیرہ بھی اس کا حصہ ہے ۔ اس سلسلے میں دعاؤں کی کتاب حصنِ حصین کو سامنے رکھ کر نبی کریم ﷺ کے الفاظ سے بھی مناجات کی جا سکتی ہے ۔
۱۱۔دیگر ہدایات:
ا۔ روزہ میں دیگر کوتاہیوں میں بے شمار چیزیں آ سکتی ہیں جن کا احاطہ ممکن نہیں ۔البتہ اتنا یاد رکھیں کہ ہر گناہ خدا سے دور کرتا اور ہر اچھا عمل خدا کے قریب کرتا ہے ۔ وہ بھوک و پیاس کسی کام کی نہیں جس کے ساتھ ساتھ گنا ہوں کا سلسلہ بھی
چلتا رہے اور خدا سے دوری کا سبب بن جائے ۔
ب۔ اپنا احتساب کریں ، اپنی کمزوریوں کو جانیں اور انہیں دور کرنے کی کوشش کریں ۔ اس ضمن میں تزکیۂ نفس کے سلسلے میں تیا کردہ سوال نامے ۔۔اپنا احتساب کیجئے سے بھی مدد لی جا سکتی ہے ۔
ج۔ یہ دیکھیں کہ پچھلے رمضان سے اس رمضان تک کیا کوتاہیاں اور نافرمانیاں سرزد ہوئیں ۔ ان پر اللہ سے معافی مانگیں اور آئندہ ان سے بچنے کا عہد کریں ۔
د۔ حقوق العباد کا خاص خیال رکھیں خاص طور پر دل کھول کر اللہ کی راہ میں خرچ کریں کیونکہ جو اللہ کی راہ میں خرچ ہو گیا وہی درحقیقت بچ گیا اور جو بچ گیا اور جو بچ گیا وہی اصل میں آخرت میں پہنچنے سے رہ گیا۔
By Professor Muhammad Aqeel


حجاب پر مکالمہ

مصیبتیں اور ان کا علاج

$
0
0


ہمیں آئے دن پریشانیوں اور مصیبتوں کا سامنا رہتا ہے۔ کبھی بیماری تو کبھی غربت، کبھی ذہنی پریشانی تو کبھی مختلف اقسام کے خوف۔ اس صورت حال کو دیکھ کر ایک عام مسلمان سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ آخر اس سے کیا گناہ سرزد ہوگئے ہیں؟ کوئی ان مشکلات سے نفسیاتی و جسمانی پریشانیوں میں مبتلا ہوجاتا ہے تو کوئی خودکشی کی جانب مائل ہوجاتا ہے۔ کچھ لوگ آگے بڑھ کر خدا ہی کے خلاف ہوجاتے اور اس رب ہی کو برا بھلا کہنے لگ جاتے ہیں۔ لیکن ظاہر ہے یہ سارے اقدام ان مشکلات میں کمی
کی بجائے اضافہ ہی کرتے ہیں۔زیر نظر مختصر کتابچہ ہمیں اسلامی پس منظر مصیبتوں کی وجوہات سمجھاتا، ان سے نبٹبنے کی سائنٹنفک تدابیر تجویز کرتا اور اپنی شخصیت کو ہر قسم کے مصائب سے نبر آزما ہونے کی تعلیم دیتا ہے۔ اس کا مطالعہ ہر شخص کے لئے ضروری اور انتہائی مفید ہے۔
مصیبتیں اور ان کا علاج


زکوٰۃ کے عملی مسائل

$
0
0


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
نماز کی طرح زکوٰۃ کو ماننا بھی دین اسلام میں لازم ہے بصورتِ دیگرنماز کے منکرین کی طرح زکوٰۃ کا انکار کرنے والے لوگ بھی دائرۂ اسلام سے خارج سمجھے جاتے ہیں ۔
قرآن میں زکوٰۃ کا واضح حکم موجود ہے جیسا درج ذیل آیات میں بیان ہوتا ہے:
۱۔اور نماز قائم کرو اور زکوۃ دو اور جو کچھ بھلائی تم اپنے واسطے آگے بھیجو گے اللہ کے ہاں اسے موجود پاؤ گے۔ بیشک جو کچھ بھی تم کر رہے ہو اللہ دیکھ رہا ہے۔(البقرہ ۱۱۰:۲ )
۲۔(مسلمانو،) نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دیا کرو اور رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ (النور ۵۶:۲۴)
احادیث میں بھی زکوٰۃ کی اہمیت جگہ جگہ بیان ہوئی ہے ۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث میں بیان ہوتا ہے:
ابن عمررضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اسلام (کا قصر پانچ ستونوں) پر بنایا گیا ہے، اس بات کی شہادت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں، نماز پڑھنا، زکوۃ دینا، حج کرنا، رمضان کے روزے رکھنا(صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 7 )۔
زکوٰۃ نہ دینے والوں کو سخت وعید سنا ئی گئی ہے:
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کو اللہ تعالی نے مال دیا اور اس نے زکوۃ نہ اداء کی تو اس کا مال گنجے سانپ کی شکل میں اس کے پاس لایا جائے گا جس کے سر کے پاس دو چینیاں ہوں گی قیامت کے دن اس کا طوق بنایا جائے گا، پھر اس کے دونوں جبڑوں کو ڈسے گا اور کہے گا میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں، پھر قرآن کی آیت پڑھی اور وہ لوگ جنہیں اللہ تعالی نے اپنے فضل سے مال عطا کیا اور وہ اسمیں بخل کرتے ہیں وہ اسے اپنے حق میں بہتر نہ سمجھیں بلکہ یہ برا ہے اور قیامت کے دن یہی مال ان کے گلے کا طوق ہوگا(صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 1319 )۔
زکوٰۃ سے متعلق غلط فہمیاں اور کوتاہیاں
زکوٰۃ کی اس قدر اہمیت کے باوجود ہمارے معاشرے میں اس سے متعلق کئی عملی غلط فہمیاں اور کوتا ہیاں پائی جاتی ہیں۔ان کوتاہیوں کی تفصیل درج ذیل ہے۔
۱۔ زکوٰۃ کے فلسفے سے ناواقفیت
۲۔ شرحِ زکوٰۃ سے متعلق غلط فہمی
۳۔ زکوٰۃ کے حساب کتا ب میں کوتاہی
۴۔مصارفِ زکوٰۃ سے متعلق غلط تصورات
ان مسائل کا تجزیہ ذیل میں پیش کیا جاتا ہے۔
۱۔ زکوٰۃ کے فلسفے سے ناواقفیت :زکوٰۃ کا بنیادی مقصد اسکے نام ہی سے ظاہر ہے یعنی اللہ کی راہ میں مال خرچ کرکے اپنے نفس کو ان آلائشوں سے پاک کیا جائے جو مال کی محبت ، بخل اور دولت مندی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں ۔دولت کی محبت دنیا کی زندگی پر اکتفا کرنے کی تعلیم دیتی اور آخرت سے روگردانی پر اکساتی ہے۔ زکوٰۃ درحقیقت اپنے اس محبوب مال کو خدا کی رضا کے لئے قربان کردینے کا نام ہے، یہ اپنا سرمایہ خدا کے ابدی بینک میں رکھنے کا عمل ہے جسکا منافع جنت میں ہمیشہ ملتا رہے گا،یہ تقوٰی کے حصول کا ذریعہ ہے، یہ اپنے دل کونوٹوں کی رنگینی سے آزاد کر کے خدا کی یادکا پابند کرنے کا عمل ہے۔
لیکن دیکھا گیا ہے کہ جب زکوٰۃ کا وقت آتا ہے تو کچھ لوگوں کے چہرے بجھ جاتے ہیں اور وہ لاپرواہی یا اعراض کرتے ہوئے زکوٰۃ کی ادائیگی سے گریز کرتے ہیں ۔اسکا بنیادی سبب دنیا کی محبت اور اسکی آسائشوں کو دائمی سمجھنا ہے۔ جبکہ یہ ایک واقعہ ہے کہ یہ دنیا اپنی تمام تر جلوہ آفرینیوں کے ساتھ ایک دن ختم ہوجانی ہے۔ یہ معلوم ہونا چاہئے کہ یہی محبوب مال قیامت کے دن ایک گنجا سانپ بنا کر گردن میں ڈال دیا جائے گا(بخاری: رقم ۱۴۰۳)۔
زکوٰۃ کے بارے میں ایک اور رویہ اس عبادت کو ایک بوجھ اور زبردستی کی چٹی یا تاوان سمجھ کر ادا کرنا ہے۔ اس قسم کے لوگ زکوٰۃ ادا کرتے وقت منہ بناتے، بڑبڑاتے اور بے دلی کے ساتھ انفاق پر راضی ہوتے ہیں۔ حا لانکہ اللہ کو ہمارا مال نہیں بلکہ تقوٰی پہنچتا ہے۔ نفس کو خدا کی رضا پر راضی رہنے کی تربیت دیں اور اس کے لئے دنیاوی سازو سامان کی بے ثباتی اور حقیقت کا مطالعہ کریں۔
زکوٰۃ کی ادائیگی میں تیسرا گروہ ان لوگوں کا ہے جو اسے بوجھ تو نہیں سمجھتا لیکن اس عبادت کے ثمرات سمیٹنے سے بھی قاصر رہتا ہے۔ اس گروہ کے لوگ انفاق سے پیدا ہونے والے خشوع، خشیت، پاکی، اور تقویٰ جیسے جذبات سے عاری ہی رہتے ہیں۔ اسکا سبب زکوٰۃ کے فلسفے سے ناواقفیت اور اللہ سے زندہ تعلق کی کمی ہے۔اس کے لئے زکوٰۃ کی فضیلت سے متعلق آیات، احادیث اور لٹریچر کا مطالعہ مفید ہو سکتا ہے۔
۲۔ شرحِ زکوٰۃ سے متعلق غلط فہمی
شرحِ زکوٰۃ سے متعلق ایک بہت عام سی غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ ہرقسم کے مال و دولت پر زکوٰۃ ڈھائی فی صد ہے۔مال پر زکوٰۃ ڈھائی فی صد ہے جبکہ زرعئی پیداوار، مویشی، خدمات اور دیگر اثاثہ جات میں اسکی شرح مختلف ہے۔ اسکی تفصیل کسی بھی قابلِ اعتماد اہلِ علم سے حاصل کی جاسکتی ہے۔
۳۔ زکوٰۃ کے حساب کتا ب میں کوتاہی: زکوٰۃ سے متعلق ایک اور آفت یہ ہے کہ اکثر افراد اپنے اموال کا باقاعدہ حساب کتاب کرنے کی بجائے محض اندازے ہی سے زکوٰۃ کی ادائیگی پر اکتفا کرلیتے ہیں جس سے اندیشہ ہے کہ زکوٰۃ درست شرح سے ادا نہ ہو۔ اسکا آسان طریقہ یہ ہے کہ تمام اثاثہ جات کی ایک فہرست بنائی جائے اور دوسرے کالم میں انکی مالیت لکھ کر آخر میں کل مالیت معلوم کرلی جائے۔ نقد رقم پر تو زکوٰۃ کا حساب کرنا بہت آسان ہے البتہ کچھ اثاثوں میں حساب کتاب میں دقت یا غلط فہمی درپیش ہو سکتی ہے ۔انکی تفصیل درج ذیل ہے۔
زیورات کی مالیت کا حساب: سب سے مشکل کام سونے کے زیورات کی مالیت کا اندازہ لگانا ہے۔ اسکی وجوہات سونے کی مالیت میں اتار چڑھاؤ، سونے کے قیراط کا فرق ، وزن کا درست علم نہ ہونا اور تولہ اور دس گرام کے پیمانوں کا استعمال ہے۔ ان مشکلات سے نبٹنے کے لئے ان ہدایات پر عمل کریں:
ا۔زکوٰۃ کی ادائیگی کا کوئی ایک دن مخصوص کرلیں(مثلاََ رمضان کی پہلی تاریخ)، اور پھر سونے یا چاندی کے اس دن کے ریٹ پر حساب کریں۔
ب۔ اس کے بعد تما م زیورات کی ایک فہرست بنالیں اور یہ معلوم کریں کہ آپ کا زیور کتنے قیراط کا ہے یہ آپ اس زیور کی رسید سے یا جیولر کے پاس جاکر معلو م کرسکتے ہیں۔ عموماََ خالص سونا ۲۴ قیراط، جبکہ زیورات ۲۲ قیراط سے ۱۲ قیراط تک کے ہو سکتے ہیں اور قیراط میں کمی سے ریٹ بھی کم ہوتے جاتے ہیں۔جیولر کو فون کرکے متعلقہ قیراط کے سونے کا ریٹ حاصل کرلیں کیونکہ اخبا رات میں صرف ۲۴ قیراط کے ریٹ آتے ہیں( آپ ۲۴ قیراط کے حساب سے بھی زکوٰۃ ادا کرسکتے ہیں جو کہ ایک مستحسن عمل ہے)۔
ج۔ اگلا مرحلہ وزن کا تعین کرنا ہے۔ زیور کی رسید پر جو قیمت لکھی ہوتی ہے اس میں زیور کا اصل وزن، ۱۵ سے ۲۰ ف صد ویسٹ(زیور بنانے میں ضایع ہو جانے والا سونا) اور مزدوری کی قیمت شامل ہوتی ہے۔ آپ نے زکوٰۃ صرف اصل وزن پر دینی ہے۔مثال کے طور پر انیلا کے پاس ایک سونے کی چین ہے جس کا وزن ایک ۱۱ گرام ہے۔رسید پر لکھا ہے کہ ویسٹ دس فیصد لگایا گیا ہے۔ چنانچہ ۱۱ گرام کا دس فیصد ایک گرام بنتا ہے۔ یہ ایک گرام مائنس کردینے کے بعد اصل وزن دس گرام ہے۔ چنانچہ زکوٰۃ دس گرام سونے کے وزن ہر ہی دی جائے گی۔
د۔ ایک اور مسئلہ گرام اور تولہ کے حساب کا ہے۔ وزن کے معاملے میں اس بات کا خیال رکھیں کہ ایک تولہ میں ۱۱ اعشاریہ ۶۶ گرام سونا ہوتا ہے۔
ہ۔ آخر میں وزن کو اسکے ریٹ سے ضرب دے کر کل قیمت معلوم کرلیں۔ اگر یہ نصاب سے زیادہ ہے تو کل مالیت کا ڈھائی فی صد زکوٰۃ کی مد میں اد ا کریں۔
و۔ ایک مثال سے اس مسئلے کی وضاحت کی جاسکتی ہے۔ فرض کریں میرے پاس دو تولہ کے کڑے ۲۲ قیراط کے موجود ہیں۔ فون کرکے میں معلوم کیا تو علم ہو کہ ۲۲ قیراط سونے کی مالیت ۴۵۰۰۰ روپے فی تولہ ہے۔ چنانچہ ان کڑوں کی کل مالیت نوے ہزار روپے بنتی ہے۔چنانچہ مجھے زکوٰۃ نوے ہزار روپے پر ادا کرنی ہے۔
و۔ کچھ فقہا ء زکوٰۃ سے ان زیورات کو مستثنیٰ سمجھتے ہیں جو روزمرہ کے استعمال میں ہوں مثلاََ وہ بالیاں یا کنگن جو ہر وقت زیرِ استعمال رہتے ہیں۔ اسکی تفصیل کے لیئے قابلِ اعتماد اہلِ علم سے رجوع کریں۔
پلاٹ پر زکوٰۃکا حساب: پلاٹ پر اسکی موجودہ مارکیٹ ویلیو کے حساب سے زکوٰۃ ادا کی جائے گی۔ اس ضمن میں ایک بات سمجھ لینی چاہئے کہ آج کل کچھ پلاٹ اور اپارٹمنٹ قسطوں پر لئے جاتے ہیں ۔ ان پر زکوٰۃ ہوگی یا نہیں، اس سلسلے میں دو آرا ء ہیں ۔ ایک گروہ کا کہنا ہے کہ جب تک یہ جائداد آپ کے قبضے میں نہ آجائے اس پر زکوٰۃ نہیں۔ دوسرا گروہ ادا شدہ قسطوں کی رقم پر زکوٰۃ کا قائل ہے۔اسی طرح ایک شخص کا وہ پلاٹ بھی زکوٰۃ کے زمرے میں نہیں آتا جو اس نے مکان بنوانے کے لئے رکھ چھوڑا ہو۔ البتہ اگر پلاٹ خریدنے کی نیت سے رکھ چھوڑ ا ہے تو اس پر مارکیٹ ویلیو کے حساب سے زکوٰۃ لاگو ہوگی۔
دیگر اشیاء کی مالیت کا حساب: دیگر اشیاء مثلاََ شیئرز، بانڈز، بنک سیونگ اور دیگر سیونگز پر زکوٰۃ انکی موجودہ مالیت کے حساب سے ہوگی۔
زکوٰۃ سے استثنا: تین چیزیں زکوٰۃ سے مستثنیٰ ہیں یعنی پیداواریا تجارت اور کاروبار کے ذرائع، ذاتی استعمال کی اشیاء اور حد نصاب سے کم سرمایہ۔مثال کے طور پر ٹریکٹر، ہل جوتنے والے جانور، ٹیکسی، کرائے پر دیا ہوا مکان، کسی مکینک کے اوزار ، فیکٹری کی مشینیں وغیرہ زکوٰۃ سے مستثنی ہیں کیونکہ یہ سب پیداوار یا تجارت کے ذرائع ہیں۔ اسی طرح ذاتی استعمال کی تمام اشیاء بھی مستثنی ہیں جیسے رہائشی مکان یا فلیٹ، مکان بنوانے والے پلاٹ،کپڑے، برتن، سواری، کمپیوٹر، فرج ، ٹی وی، اے سی وغیرہ۔ تیسرا یہ کہ اگر سیونگز نصاب سے کم ہیں تو وہ بھی زکوٰۃ سے مستثنی ہیں۔
۴۔مصارفِ زکوٰۃ سے متعلق غلط تصورات :
زکوٰۃ کن لوگوں کو دی جاسکتی ہے؟ اس کے متعلق بھی کئی عملی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
حکومت کو زکوٰۃ دینا: اس میں پہلا مسئلہ یہ پیش آتا ہے کہ زکوٰۃ ریاست کو دی جائے یا افرا د کو۔ ہماری حکومت صرف بنک اکاؤنٹ، شیئرز، بانڈز وغیرہ پر زکوٰۃ لیتی ہے اگر آپ کا حکومت پر اعتماد ہے تو ٹھیک وگرنہ آپ ڈیکلریشن جمع کر کے اکا ؤنٹ پر زکوٰۃ سے استثنا حاصل کرسکتے ہیں۔چنانچہ زکوٰۃ فقیروں، مسکینوں ، تاوان زدہ لوگوں، مسافروں کی بہبود اور اللہ کی راہ میں خرچ کی جاسکتی ہے(التوبہ ۹:۶۰)۔
ادارے کو زکوٰۃ دینا: اسی طرح ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ آیا زکوٰۃ فرد کو دینا لازم ہے یا یہ کسی ادرے کو بھی دی جاسکتی ہے۔ زکوٰۃ کے لئے تملیک کی شرط کے بارے میں دو آراء ہیں۔ ایک یہ کہ زکوٰۃ کے لئے کسی شخص کو اسکا مالک بنانا ضروری ہے چنانچہ انکے مطابق زکوٰۃ فرد کو دی جائے گی، ادارے کو نہیں۔ البتہ وہ فقہی گروہ جو زکوٰۃ کے لئے ملکیت کی شرط عائد کرتے ہیں انکے مدارس اور ادارے بھی زکوٰۃ لینے کی اپیل کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔ دوسرے نقطۂ نظر کے مطابق زکوٰۃ فرد اور ادارے دونوں ہی کو دی جاسکتی ہے۔ان دو آراء میں آپ کا جس پر اطمینان ہو عمل کرلیں۔
۵۔دیگر ہدایات :
۱۔زکوٰۃ جس کو ادا کریں اسکی عزت نفس مجروح نہ ہونے دیں اور یہ بھی ضروری نہیں کہ آپ رقم دیتے وقت یہ بتائیں کہ یہ زکوٰۃ ہے۔
۲۔ ان رشتے داروں اور ساتھیوں کو نظر میں رکھیں جو مستحق تو ہیں لیکن کھل کر اظہا ر نہیں کر سکتے۔
۳۔ زکوٰۃ میں کوشش کریں کہ زیادہ مال چلا جائے لیکن کم نہ جائے۔
۴۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ زکوٰۃ کسی صاحبِ حیثیت ( صا حبِ نصا ب) شخص کو نہیں دی جا سکتی، یہ بات درست نہیں۔ اگر ایک صاحب نصاب شخص کسی مالی مشکل ( جیسے سفر کی بے سرو سامانی، قرض کی ادائیگی، بچوں کی شادی یا تعلیم وغیر ہ ) میں گرفتا ر ہو گیا ہے تو اسے بھی زکوٰۃ دی جاسکتی ہے۔
۵۔ زکوٰۃ کو دس لوگوں میں تقسیم کرنے کی بجائے اگر ایک ہی فرد کو دی جائے تو اس سے وہ کوئی بڑی ضرورت پوری کر کے اپنے پیروں پر کھڑا ہوسکتا ہے۔ لیکن اس ضمن میں آپ اور سامنے والے کی ترجیحات ہی کوئی حتمی فیصلہ کرسکتی ہیں۔
۶۔ زکوٰۃ سید کو دی جاسکتی ہے یا نہیں۔ اس بارے میں ایک نقطۂ نظر تو یہ ہے کہ قیامت تک اس کی ممانعت ہے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ سید کو زکوٰۃ کی ممانعت نبی کریمﷺ کے دور تک محدود تھی کیونکہ آپ ﷺ کے لئے مال غنیمت میں ایک حصہ معین تھا جبکہ آج سید کو زکوٰۃ دی جا سکتی ہے کیونکہ اس کے لئے آج اس قسم کی کوئی سہولت نہیں۔
ایک وضاحت: یہاں زکوٰۃ کے تمام مسائل بیان کرنا مقصود نہیں بلکہ زکوٰۃ سے متعلق اہم عملی مسائل کا احاطہ کرنا ہے۔ چنانچہ مزید کسی راہنمائی کے لئے مندرجہ ذیل ای میل پر رابطہ کریں
aqilkhans@gmail.com
از پروفیسر محمد عقیل


اللہ کا شکر ادا کرنے مختلف پہلو

$
0
0


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

رمضان کا ختتام قریب ہے چنانچہ میر ی طرف سے آپ کو بہت بہت عید مبارک۔ اللہ آپ کو اس عید پر اپنا شکر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائیں اور اپنی کامل بندگی میں شامل کرلیں۔
آپ عید پر مصروف ہونگے اس لئے اس مرتبہ کوئی سبق نہیں اور نہ ہی کوئی اسائنمنٹ ہے۔ لیکن چونکہ یہ ایک خوشی کا موقع ہے اس لئے اللہ کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے۔ بس ذرا یہ تحریر پڑھ لیں اور اپنے حالات کی مناسبت سے ہر پوائینٹ پر اللہ کا شکر ادا کردیں۔ یہی آج کا سبق ہے اور یہی تزکیہ نفس پروگرام کا اسائنمنٹ۔
اگر دنیا کی آزمائش کے فلسفے کو دو لفظوں میں بیان کیا جائے یہ صبر اور شکر کا امتحان ہے۔ انسان پر یا تو خدا کی نعمتوں کا غلبہ ہوتا ہے یا پھر وہ کسی مصیبت میں گرفتا ر ہوتا ہے۔ پہلی صور ت میں اسے اللہ کا شکر کرنے کی ہدایت ہے تو دوسری صورت میں صبر و استقامت کی تلقین۔ چنانچہ جو لوگ ایمان کے ساتھ شکر اور صبر کے تقاضے پورا کرنے میں کامیاب ہوگئے وہی لوگ آخرت میں فلاح پانے والے ہیں۔
اکثر علماء کہتے ہیں کہ صبر کے مقابلے میں شکر کا امتحان زیادہ مشکل ہے۔ شکر کے امتحان میں انسان بالعموم خدا فراموشی اختیار کرتا، تکبر کی جانب مائل ہوتا اور دنیا میں زیادہ منہمک ہوجاتا ہے۔شکر کرنا جتنا آسان ہے اتنا ہی زیادہ مشکل ہے۔ آسان اس لئے کہ زبان ، دل یا عمل سے اللہ کی نعمتوں کا اعتراف کرکے شکریہ ہی تو کہنا ہوتا ہے۔ لیکن یہی شکر ایک مشکل کام بھی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ کی نعمتوں کا انسان عادی ہوجاتا ہے اور وہ اسے فار گرانٹڈ لینےلگتا اور اپنا حق سمجھنے لگتا ہے۔ جبکہ اگر غور سے دیکھا جائے تو اللہ کسی بھی نعمت ادا کرنے کے پابند نہیں کیوں کہ یہ دنیا آزمائش کے اصول پر بنی ہے اور امتحان کی حالت میں نعمت کا ملنا اور چھننا دونوں برابر ہیں ۔ مثال کے طور پر آنکھوں کی نعمت کو لے لیں ۔ ہم روزانہ کئی گھنٹے ان آنکھوں سے دنیا کا دیدار کرتے اور اپنے معمولات زندگی انجام دیتے ہیں ۔ لیکن شاید ہی کبھی ہم نے اس پر شکر ادا کیا ہو۔ دوسری جانب اللہ نے اس دنیا میں کچھ لوگوں سے بینائی چھین کر یہ بتادیا کہ اگر وہ چاہتے تو اس طرح بھی آزما سکتے تھے لیکن یہ ان کا کرم ہے کہ انہوں نے آنکھیں دے کر آزمایا۔ اب یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اس شکر کی آزمائش میں پورے اتریں۔
زیر نظر تحریر میں ان اہم نعمتوں کی جانب توجہ دلائی گئی ہے جو ہم سب کو بالعموم میسر ہیں لیکن ہم انہیں حقیر سمجھے ہوئے ہیں یا فراموش کیا ہوا ہے۔ چنانچہ پہلا کام تو یہ ہے کہ ہم سب ان نعمتوں پر زبانی شکر تو ادا کرہی دیں۔ دوسرا حصہ ان نعمتوں کا ہے جو کسی کو میسر ہیں اور کسی کو نہیں۔ تیسرا حصہ ان احوال کا ہے جو مجھے ذاتی طور پر پیش آئے اور میں نے نمونے کے لئے انہیں آپ کے سامنے پیش کیا ہے تاکہ آپ بھی اس طرح کی لسٹ بنا کر اللہ کا شکر ادا کریں۔
الف: ایمان کی نعمت
۱۔ اے اللہ آپ کا شکر ہے کہ آپ نے ایمان کی نعمت عطا فرمائی اور مسلمان بنایا۔
۲۔ آپ کا شکریہ کہ آپ نے اپنی آزمائش کی اسکیم سے واقفیت دی کہ یہ دنیا امتحان کی جگہ ہے ، کوئی عیش و عشرت کا مقام نہیں۔
۳۔ آپ کی ذرہ نوازی کہ آپ نے مجھے اس دن کی خبر متعین طور پر عطا کی کہ ایک دن مجھے آپ کے حضور پیش ہونا اور اپنے اعمال کا حساب کتاب دینا ہے۔
۴۔ آپ کی عنایت ہے کہ جنت کی نعمتوں سے آگاہی دی اور جہنم کی سزا کی خبر دی۔
۵۔ آپ کی توفیق ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغمبر ہونے کا یقین دلا یا ۔
۶۔ بڑی نوازش کہ آپ نے مجھے اپنی کتاب کا علم دیا اور اس کے ذریعے وہ باتیں بتائیں جو میرے لئے جاننا ممکن نہ تھا۔
ب: جسمانی نعمتیں
۱۔اے میرے پیارے رب! آپ کی بڑی عنایت کہ مجھے زندگی دی جو ایک بڑی نعمت ہے۔
۲۔ بڑی نوازش کہ مجھے آنکھیں دیں کہ دنیا کی مصوری کا دیدار کروں ۔ آپ اس پر قاد ر تھے کہ مجھے ان لوگوں میں شامل کردیتے جن کی آنکھیں نہیں اور ہر شے ان کے لئے تاریک وجود کی حیثیت رکھتی ہے۔
۳۔میں کس طرح ان کانوں کو عطا کرنے کا شکر ادا کروں جن کی بدولت میں لوگوں کی باتیں سنتا سمجھتا ہوں۔ اگر یہ سماعت آپ عطا نہ کرتے تو میرا کوئی زور آپ پر نہ تھا اور میں بھی آج بہروں کی صف میں شامل ہوگیا ہوتا۔
۴۔ میں کیسے اس زبان کو دینے پر آپ کا احسان مانوں کہ جس کے نہ ہونے پر میں بول چال کے قابل نہ ہوتا اور لاکھوں گونگوں کی صف میں شامل ہوچکا ہوتا۔
۵۔میرے پاس الفاظ نہیں کہ میں عقل عطا کرنے پر آپ کو تھینک یو کہوں ۔ یہ دماغ اگر آپ نہ دیتے تو میں یا تو پاگل خانے کی دیواروں سے سر ٹکرا رہا ہوتا یا ناگفتہ بہ حالت میں سڑکوں کی خاک چھان رہا ہوتا۔
۷۔ میں پاؤں عطا کرنے کی نعمت پر کیا کہوں کہ جن کی بدولت میں بے ساکھی یا کسی مصنوعی سہارے کے بنا ادھر سے ادھر چلتا پھرتا ہوں۔
۸۔ میں ان ہاتھ عطا کرنے کی عنایت پر صرف شکریہ کہہ دوں تو زیادتی ہوگی۔ ان ہاتھوں کو اگر آپ مجھے نہ دیتے تو میرا کوئی حق نہ تھا کہ آپ سے لڑ جھگڑ کر انہیں کلیم کرتا ۔ بے شمار لوگ اس دنیا میں ہاتھوں کے بغیر موجود ہیں لیکن ان کا کوئی اختیار نہیں کہ آپ کا فیصلہ تبدیل کروالیں۔
۹۔ آپ نے جو ہر لمحے میرے دل کی دھڑکن کو جاری و ساری رکھا ہوا ہے اس پر کس طرح شکر گذاری کروں ؟
۱۰۔میں سانس کی آمدو رفت پر کیا کہوں؟
۱۱۔ میں خون کی روانی کا کیا ذکر کروں؟
۱۲۔ میں ان اعضا کی عطا اور افعال پر آپ کا شکر گذار ہوں کہ جن بدولت غذا جسم کا حصہ بنتی، فاسد مادوں کی صفائی ہوتی اور جسم کی بقا و ارتقا جاری رہتا ہے۔
۱۳۔ میرے جسم کے ہر عضو پر شکر جسے میں جانتا ہوں اور جسے نہیں جانتا۔
۱۴۔ میں شکر گذار ہوں کہ آپ نے صحت عطا کی وگرنہ کتنے لوگ ہیں جو ہسپتال کے کمروں میں زندگی کی گھڑیاں بتا رہے ہیں۔
ج: زمین آسمان کےنظام کی نعمتیں
۱۔ اے میرے رب! آپ کا شکر یہ کہ آپ نے آسمان پر اوزون کی لئیر بنادی جو مجھے سورج کی الٹرا وائلٹ شعاعوں سے بچا تی ہے۔
۲۔ آپ کا شکر یہ کہ آپ نے زمین اور سور ج میں ایک معین فاصلہ پیدا کیا اگر سورج زیادہ قریب ہوتا تو گرمی کی شدت ناقابل برداشت ہوتی یا اگر وہ دور ہوتا تو سردی سے جینا محال ہوجاتا۔
۳۔ آپ کا شکریہ کہ زمین کو قائم و دائم رکھا ہوا ہے ۔ اگر کشش ثقل زیادہ ہوتی تو ہمارا قدم اٹھانا دو بھر ہوتا اور اگر یہ کم ہوتی تو ہم سب خلا میں تیر رہے ہوتے۔
۴۔ آ پ کا شکر کہ آپ نے زمین کو زلزلے سے بچایا ہوا ہے اگر آپ چاہیں تو ایک جھٹکے سے سب کچھ زمیں بوس ہوجائے۔
۵۔ آپ کا شکر یہ کہ آپ نے آسمان اور زمین کو ہماری خدمت میں لگارکھا ہے۔ آسمان سے اگر بارش برستی ہی رہے تو سمندر ابل پڑیں، یہ چلنے والی سبک رفتا ر ہوا کی لگام ڈھیلی ہوجائے تو پکے مکانات کو گرادے۔
د: خاندانی نعمتیں
۱۔ آپ کا شکر کہ ماں باپ عطا کئے کہ کتنے بچے ایسے پیدا ہوتے ہیں جنکو اپنے ماں باپ کا ہی علم نہیں۔
۲۔ آپ کا شکر کہ آپ نے پرورش کا سامان مہیا کیا ۔
۳۔ آپ کی عنایت کہ ماں باپ کا سایہ اب تک برقرار رکھا۔
۴۔ آپ کی عنایت کہ مجھے نیک بیوی عطا فرمائی۔
۵۔ آپ کی نوازش کہ مجھے فرماں بردار اولاد دی۔
۶۔ آپ کی عنایت کہ مجھے بھائی ، بہن دئیے ۔
۷۔ آپ کا شکر کہ مجھے رشتے دار عطا کئے کہ جو دکھ درد بانٹتے اور خوشیوں میں شریک ہوتے ہیں۔
د: مادی نعمتیں
۱۔ شکر گزار ہوں کہ مکان عطا کیا ۔ اگر میں بھی ان لوگوں میں شامل ہوتا جو کھلے آسمان تلے سورہے ہیں تو آج یہ سکون میسر نہ ہوتا۔
۲۔ آپ کا شکر کہ مجھے اتنی دولت دی کہ جو چاہوں حلال رزق میں سے کھا سکتا اور اپنے خاندان کو کھلا سکتا ہوں۔
۳۔ آپ کی ذرہ نوازی کے کہ اچھی سواری عطا کی اور اسے چلانے کی مہارت بھی دی۔
۴۔ آپ کا شکریہ اے پیارے محسن کہ مجھے تن ڈھانپنے کے لئے لباس دیا اورپاؤں کو تکلیف سے بچانے کے لئے جوتے دئیے کہ کتنے ہی لوگ دنیا میں ننگے پاؤں پھرتے اور برہنہ بدن زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔
۵۔ آپ کا شکر کہ مجھے پڑھا لکھا بنایا، علم دیا، سمجھ دی اور جہل سے نجات عطا فرمائی۔
و: چند اہم احسانات
۱۔ اے پیارے رحمٰن و رحیم، مجھے وہ وقت یاد ہے جب میں ہسپتا ل میں داخل ہوا اور زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا ہوا۔لیکن آپ نے اپنی خصوصی رحمت میرے درد کو کم کیا اور مجھے اس مصیبت سے نجات دلوادی۔
۲۔ مجھے وہ احسان یاد ہے جب میری گاڑی چوری ہوگئی تھی اور میں سخت اذیت میں تھا اور آپ نے چند ہفتوں میں اسے عافیت سے دوبارہ مجھے واپس لوٹادیا۔
۳۔ مجھے وہ احسان یاد ہے جب میری بیوی زندگی و موت کی کشمکش میں تھی اور آپ نے اسے نئی زندگی عطا کی۔
۴۔ مجھے وہ رات یاد ہے جب میں اپنی ۲ سالہ بیمار بیٹی کو اٹھاکر ادھر ادھر پھر رہا تھا لیکن کوئی ڈاکٹر نہیں مل رہا تھا ۔ آپ نے آگے بڑھ کر مجھے ہر ڈاکٹر کی ضرورت سے بے نیاز کردیا اور اسے صحت عطا کی۔
۵۔ مجھے وہ ۳۱ دسمبر کی ٹھٹھرتی رات کی یخ بستہ ٹھنڈک آج بھی محسوس ہوتی ہے جب میں آپ کے آگے ہاتھ پھیلا کر اپنے والد کے بائی پاس آپریشن کی کامیابی کی بھیک مانگ رہا تھا اور آپ نے مجھے اس وقت بھی مایوس نہ کیا۔
حرف آخر
یہ وہ چند باتیں ہیں جن پر میں شکر کررہا ہوں لیکن لاکھوں بلکہ کروڑوں بلکہ لاتعداد ایسی نعمتیں اور احسانات ہیں جن کا مجھے ادراک ہی نہیں یا میں احسان فراموشی کے باعث بھول چکا ہوں ۔ بس میں شکر گذار ہوں ہر اس نعمت کا جو آپ نے مجھے عطا کی خواہ وہ میرے علم میں ہو یا نہ ہو، خواہ وہ مجھے یاد ہو یا نہ ہو۔
اے میرے پیارے محسن رب! آپ کا شکر ہے اتنا شکرجتنی آپ کی مخلوق ہے، اتنا شکر جو آپ کو راضی کردے، اتنا شکر جو آپ کے عرش کے وزن کے برابر ہو، اتنا شکر جو آپ کے کلمات کے برابر ہو۔

پروفیسر محمد عقیل


نامناسب القاب سے منسوب کرنا

$
0
0


نامناسب القاب سے منسوب کرنا
(تحقیق و تحریر: پروفیسر محمد عقیل)
کسی کی تحقیر کرنے اور اذیت پہنچانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اسے ایسے لقب سے منسوب کیا جائے جس سے اسے تکلیف یا اذیت پہنچے۔ مثال کے طور پر کسی کو لنگڑا یا لولا کہہ کر اسے دکھ پہنچایا جائے۔ اس روئیے سے تعلقات متاثر ہوتے اور تلخی پیدا ہوجاتی ہے۔ اگر مخاطب کمزور ہو تو نتیجہ اس کی دل آزاری اور نفسیاتی اذیت کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔ دوسری جانب اگر مخاطب طاقتور ہو تو وہ بھی اسی قسم کے القابات سے بولنے والے کو نوازتا ہے اور بات لڑائی جھگڑے تک پہنچ جاتی ہے۔ اسی بنا پر مہذب معاشروں میں اس قسم کا رویہ قابل مذمت ہوتا ہے۔ اس اخلاقی قباحت کی بنا پر اس روئیے کی قرآن و حدیث میں سختی سے مذمت کی گئی ہے۔جیسا کہ سور ہ الحجرات میں بیان ہوتا ہے:
“اور نہ(ایک دوسرے کو) برے القاب سے پکارو۔ ایمان کے بعد گناہ کا نام لگنا برا ہے۔اور جو توبہ نہ کریں تو وہی ظالم لوگ ہیں”۔(الحجرات۔۴۹:۱۱)
اس آیت میں واضح طور پر اس روئیے کو برا سمجھا گیا اور اس کی مذمت کی گئی ہے اور جو لوگ اس سے باز نہ آئیں انہیں ظالموں کی صف میں شامل کیا گیا ہے۔
برے القاب سے کسی کو پکارنا درحقیقت ایک اذیت دینے کا عمل ہے اور اذیت دینے کی احادیث میں سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔ جیسا کہ اس حدیث میں بیان ہوتا ہے:
“مسلمان کو اذیت نہ دو انہیں عار نہ دلاؤ اور ان میں عیوب مت تلاش کرو۔ کیونکہ جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی عیب جوئی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی عیب گیری کرتا ہےاور جس کی عیب گیری اللہ تعالیٰ کرنے لگے وہ ذلیل ہو جائے گا۔ اگرچہ وہ اپنے گھر کے اندر ہی کیوں نہ ہو۔( جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 2121 )
اسی طرح ایک اور جگہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان ایذا نہ پائیں۔(صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 9 )
برے القابات سے پکارنا بدگوئی کا ایک پہلو ہے جس کے بارے میں حدیث میں بیان ہوتا ہے ۔”جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہئے کہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے”۔( صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 977 )
برے ناموں سے منسوب کرنا درحقیقت مسلمان کی عزت کی اس قدر حرمت ہے کہ جو کوئی اس حرمت کو نقصان پہنچائے ، اس کی نمازیں تک قبول نہیں ہوتیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔
“جو کوئی کسی مسلمان کی آبروریزی کرتا ہے تو اس پر اللہ فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہوتی ہے اس کی نفل اور فرض عبادت قبول نہیں ہوتی”۔( صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 440 )
نامناسب القاب سے منسوب کرنے کا مفہوم
برے القاب سے منسوب کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ کسی متعین شخص کو ایذا پہنچانے کی نیت سے کوئی لقب دینا یا کسی ایسےلقب سے منسوب کرنا جس سے مخاطب کو ناحق تکلیف پہنچے یا کوئی ایسا نام یا لقب استعمال کرنا جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے غیر اخلاقی ہو ۔
شرائط
برےلقب سے موسوم کرنے کے لئے درج ذیل میں سے کسی ایک شرط کا پورا ہونا لازمی ہے۔
۱۔ لقب کو کسی شخص کو اذیت دینے کی نیت سے موسوم کرنا یا
۲۔ کسی کو اس لقب سے ناحق اذیت ہو یا
۳۔لقب اپنی نوعیت کے اعتبار سے غیر موزوں ہو۔
وضاحت:
کسی نام سے منسوب کرنے کی تین شرائط میں سے کوئی ایک بھی پوری ہوجائے تو یہ گناہ سرزد ہوجائے گا۔ پہلی شرط یہ ہے کہ کسی کو نام سے منسوب کیا جائے اور اس کا مقصد اس شخص کی تحقیر وتذلیل کرکے اس کو اذیت دینا ہو۔ مثال کے طور پر زاہد نے فرحان کو اس کی پستہ قامتی کا احساس دلانے کے لئے اور اسے اذیت پہنچانے کے لئے جملہ کہا” اور بونے صاحب ! کہاں چل دئیے”۔ یہاں بونے صاحب کہنے کا مقصد چونکہ ایذا رسانی اور تنگ کرنا ہے اس لئے یہ برے لقب سے منسوب کرنے کا عمل ہے۔
دوسر ی شرط یہ ہے کہ لقب سے کسی کو ناحق اذیت پہنچے۔ یعنی کہنے والے کی نیت تو اذیت پہنچانے کی نہیں تھی لیکن سننے والے کو یہ لقب جائز طور پر برا لگا۔ مثلا الیاس نےغفار سے کہا ” اور ملا جی ! کہاں غائب تھے اتنے دنوں سے؟” الیاس کا مقصد ایذا پہنچانا نہیں تھا لیکن غفار کو ملا کے نام منسوب ہونا برا لگا تو یہ بھی ممنوع ہے۔
تیسری شرط یہ ہے لقب اپنی نوعیت کے اعتبار سے غیر موزو ں اور غیر اخلاقی ہو۔ مثال کے طور پر سلمان نے عزیر سے بے تکلفی میں کہا” او کمینے! بات تو مکمل کرنے دے، پھر اپنی کہنا”۔ یہ سن کر عزیر ہنسنے لگا۔ یہاں سلمان نے بے تکلفی میں جملہ کہا اور عزیر نے بھی مائنڈ نہ کیا یعنی اوپر بیان کی گئی دونوں شرائط پوری نہیں ہورہی ہیں لیکن کمینہ کہنا ایک غیر اخلاقی لقب ہے جس سے احتراز لازمی ہے۔
استثنیٰ
ہر سوسائٹی میں عرفیت کا رواج ہوتا ہے یا پھر لوگوں کو اس کی کسی علامت کی بنا پر مشہور کردیا جاتا ہے جیسے کسی کو لنگڑا، چھوٹو ، موٹو، کانا، چندا، کلو، لمبو وغیرہ کہنا یا پپو، گڈو، منا،چنا، بے بی، گڈی، گڑیا،چنی وغیرہ کے نام سے منسوب کرنا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لوگوں کو ان ناموں سے منسوب کرنا کیسا ہے؟
اگر ان ناموں میں کوئی اخلاقی و شرعی قباحت نہیں اور ان میں ایذا کا کوئی پہلو موجود نہیں تو اس طرح مخاطب کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن عام طور پر یہ دیکھا یہ گیا ہے کہ ایسے افراد جب بچپن کی حدود سے نکلتے اور پختگی کی جانب مائل ہوتے ہیں تو انہیں ان ناموں سے مخاطب ہونا اچھا نہیں لگتا۔خاص طور پر ایسےافراد اجنبی لوگوں کے سامنے ان ناموں کو پسند نہیں کرتے جو ان کی عرفیت سے ناواقف ہوتے ہیں۔ چنانچہ اس صورت میں انہیں ان کے اصل نام ہی سے پکارنے میں عافیت ہے بلکہ اصل نام سے مخاطب کرنے میں اس قسم کے لوگ بالعموم بڑی عزت محسوس کرتے ہیں۔
دوسری جانب کچھ القاب ایسے ہوتے ہیں جو کسی شخص کو عزت دینے، اس کا رتبہ بڑھانے یا بیان کرنے یا اسے عزت و توقیر کے لئے دئیے جاتے ہیں۔ جیسے فاروق، صدیق، غنی، قائد اعظم ،علامہ وغیر۔ ان میں کسی قسم کا کوئی حرج نہیں۔
القاب کی اقسام
عام طور پر ہمارے معاشرے میں درج ذیل بنیادوں پر القاب استعمال ہوتے ہیں۔
۱۔ جسمانی بنیادوں پر القاب جیسے چھوٹو، موٹو، ٹھنگو، لمبو، کلو، چٹا، منا، کبڑا، لنگڑا، ٹنٹا ، اندھا، کانا وغیر کہنا۔
۲۔ مذہبی حوالے سے القابات جن میں منافق، فاسق، کافر، بنیاد پرست، یہودی، نصرانی، مشرک ، بدعتی ، وہابی وغیرہ شامل ہیں۔
۳۔قومیت کی بناد پر القاب میں پناہ گیر، مکڑ، پینڈو ، چوپایا ، اخروٹ ، ڈھگا، بھا ئو غیرہ مشہور ہیں۔
۴۔ جنسی بے راہروی کی نشاندہی کرنے والے ناموں میں حرافہ، بدذات، طوائف، کال گرل، لونڈا، ہیجڑا، زنخا وغیرہ ہی قابل تحریر ہیں۔ اس ضمن میں ایک بات یہ جملہ معترضہ کے طور پر یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ کچھ الفاظ کے معنی زمانے کے لحاظ سے بدل جاتے ہیں ۔ اس صورت میں اعتبار زمانی معنوں ہی کا ہوگا۔ مثال کے طور پر بھڑوا درحقیقت مڈل مین کو کہتے ہیں جو کرایہ وصول کرتا ہے۔ یہ لفظ شاید اپنی ابتدا میں اتنا معیوب نہ تھا لیکن آج یہ معیوب سمجھا جاتا ہے چنانچہ اس لفظ کے استعمال کا فیصلہ آج کے معنوں کے لحاظ سے ہوگا۔
۵۔ کسی برے عمل سے منسوب کرنا جیسے شرابی، زانی، قاتل، لٹیرا، دہشت گرد،چور وغیرہ
۶۔ کسی جانور سے منسوب کرنا جیسے کتا، گدھا، سور، الو، لومڑی ، بھیڑیا وغیرہ کہنا
۷۔ کسی غیر مرئی مخلوق سے منسلک کرنا جیسے شیطان ، چڑیل، بھوت، جن، بدروح وغیرہ کہنا
۸۔ کسی برے روئیے سے منسوب کرنا جیسے مغرور، بدخصلت، لالچی، بخیل، ذلیل، چمچہ، کنجوس،خودغرض ، فضول خرچ، عیاش وغیرہ کہنا۔
۹۔عمر کی بنیاد پر القاب بنانا جیسے کسی کو انکل ، آنٹی، چچا، ماموں، ابا ، اماں ، باجی وغیرہ کہنا۔ خاص طور پر خواتین اس معاملے میں زیادہ حساس ہوتی ہیں ۔ چنانچہ لوگوں مخاطب کرتے وقت ایسے القاب سے گریز کیا جائے جو ان کی عمر کی زیادتی کی علامت ہوں اور وہ اس سے چڑتے ہوں۔
۱۰۔ کسی کی چڑ بنالینا اور وقتا فوقتا اس چڑ سے اسے تنگ کرنا
۱۱۔ پیشے کی بنیاد پر القاب سے نوازناجیسے کسی کوموچی ،بھنگی، ڈنگر ڈاکٹر، ماسٹر،ہاری وغیرہ کہنا۔
اسباب و تدارک
چونکہ برے القاب سے منسوب کرنا بدگوئی کی ایک قسم ہے اس لئے اس فعل کے اسبا ب و تدارک جاننے کے لئے بدگوئی میں بیان کی گئی تحریر کا مطالعہ کرلیں۔
اسائنمنٹ
صحیح یا غلط بیان کریں:
۱۔ کسی کو عرف یعنی نک نیم سے پکارنا بالکل جائز نہیں۔
۲۔ برے لقب سے پکارنے کا گناہ سرزد ہونے کے لئے اوپر بیان کی گئی تینوں شرائط کا بیک وقت پورا ہونا لازمی ہے۔
۳۔برے لقب سے مخاطب کرنے کا مقصد کسی کی عزت افزائی ہوتا ہے۔
۴۔ اگر نیت ایذا دینےکی نہ ہو اور سننے والے کو بھی لقب برا نہ لگے تو اس صورت میں کسی بھی لقب سے بلانا جائز ہے۔
۵۔ ابو داؤد کی حدیث کے الفاظ ہیں” مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان ایذا نہ پائیں”۔(صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 9)
۶۔ایک شخص بہت کالا ہے اور کلو کے لقب سے مشہور ہے۔ اسے کوئی شخص طنز و تحقیر کی نیت سے مخاطب کرتا ہے ” ابے او کلو! ذرا ادھر تو آ”۔ اس طرح کلو کہنا برے لقب سے مخاطب کرنا ہے کیونکہ مقصد تحقیر ہے۔
۷۔نگہت نے رضیہ کی چالاکی کو بیان کرنے کے لئے اسے لومڑی کہا۔ یہ برے نام سے منسوب کرنے کا عمل ہے۔
۸۔ غزالہ نے اپنی کزن فرحانہ کے حسن کی تعریف کرتے ہوئے کہا ” بھئی آج تو تم چاند لگ رہی ہو”۔ فرحانہ سمجھی کہ غزالہ نے چاند کہہ کر اس کا مذاق اڑایا ہے اور وہ برا مان گئی۔ غزالہ کا چاند سے موسوم کرنا برے القاب سے پکارنے میں نہیں آتا کیونکہ نہ تو غزالہ کی نیت تحقیر کی تھی ، نہ چاند کہنے میں کوئی برائی ہے ۔ جبکہ فرحانہ کا برا ماننا ناحق ہے اورغلط فہمی کی وجہ سے ہے۔
۹۔ ذیشان نے مسلکی فرق کی بنا پر اپنے پڑوسی کو اس کی غیر موجودگی میں غلط طور پر “کافر ” کہہ دیا۔ یہ کلام غیبت بھی ہے اور اس میں برے لقب سے منسوب کرنے کا گناہ بھی شامل ہے۔
۱۰۔ اسکول میں بچوں نے ایک موٹے عینک والی بچی کو” پروفیسر ” کے لقب سے موسوم کردیا جس سے وہ بچی چڑتی تھی۔ بچی کو پروفیسر کہنا غلط لقب سے موسوم کرنے کے مترادف نہیں ہے۔



فرقہ واریت اور گروہی تعصب : کچھ عملی مسائل

$
0
0


ابو یحی کی داستان
فرقہ واریت اور گروہی تعصب کس طرح پیدا کیا جاتا ہے اور اس سے کیسے بچا جاسکتا ہے، ہم نے پیچھے واضح کرنے کی کوشش کی ہے ۔اب ہم اس بات کو واضح کرنے کی کوشش کریں گے کہ عملی طور پر یہ معاشرے میں کس قسم کا انتشار اور مسائل پیدا کرتا ہے۔
معاشرتی انتشار اور فساد
تعصبات کا فروغ ہر پہلو سے ایک منفی عمل ہے۔آج معاشرے میں مذہبی بنیادوں پر جو نفرت اور خلفشار ہے، جومناظرے اور فرقہ واریت عام ہے،مذہبی اور مسلکی بنیادوں پر بے رحمانہ قتل و غارت کا جو سلسلہ جاری ہے وہ سب اسی کی عطا ہے۔یہی ایک چیز کافی ہے جو اس رویے کے باطل ہونے کا سب سے بڑاثبوت ہے۔تاہم اس پر تفصیلی گفتگو کی اس لیے ضرورت نہیں کہ یہ وہ نقصانات ہیں جو آ ج کھل کر سب لوگوں کے سامنے آچکے ہیں۔ عوام و خواص سب نہ صرف ان مسائل سے آگاہ ہیں بلکہ اس بات کو سمجھتے ہیں کہ یہ چیزیں کس طرح معاشرے کی جڑیں کھوکھلی کررہی ہیں۔
نہ صرف عام لوگ بلکہ مذہبی پس منظر کے لوگوں کو بھی اندازہ ہوچکا ہے کہ یہ جن جب بے قابو ہوجاتا ہے تو بات الزام و بہتان اور فتویٰ بازی تک محدود نہیں رہتی۔ وہ زمانہ گزرگیا جب آپ کسی فرقے کے خلاف ایک تقریر کرکے اور اپنے لوگوں سے داد سمیٹ کر واپس گھر لوٹ آتے تھے۔ اب نفرت پھیلانے کے بعد آگ لگ جاتی ہے اور خون بہنے لگتا ہے۔ یہ خون کسی ایک فریق کا نہیں ہوتا بلکہ تمام گروہ کم یا زیادہ اس کا نشانہ بننے لگتے ہیں۔ نفرت پھیلانے والا جلد یا بدیر خود اس نفرت کا نشانہ بن جاتا ہے۔اس لیے الحمدللہ تمام مکاتب فکر کے معقول لوگ اور اہل علم اب اس طرف توجہ دلانے لگے ہیں کہ یہ رویہ درست نہیں ہے۔
باشعور لوگوں کو دین سے دور کرنے کا سبب
تعصب اور فرقہ واریت کا میرے نزدیک ایک اور بہت بڑا نقصان ہے مگر بالعموم لوگ اس سے واقف نہیں ہیں۔یہ مسئلہ ہے پڑھے لکھے اور باشعور مسلمان کا ذہنی اور فکری ارتداد [یعنی ذہنی طور پر اسلام سے دوری] جو اس تعصب، دھڑے بندی اور فرقہ واریت کی وجہ سے پیدا ہوجاتا ہے۔میں اسے تفصیل سے سمجھانے کے لیے بطور کیس اسٹڈی ذاتی مثال زیر بحث لارہا ہوں۔ آپ اسے معاشرے کے ایک عام نوجوان ذہن کی داستان سمجھ کر پڑھیے گا۔اس سے آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ فرقہ واریت اور تعصب وہ دو دھاری تلوار ہے جو کچھ لوگوں کو غلو، تشدد اورقتل و غارت گری تک لے جاتا ہے تو کچھ اور لوگوں کو خود دین ہی سے برگشتہ کردیتا ہے۔خاص کر وہ باشعور لوگ جو معاشرے پر اثر انداز ہونے کی زیادہ صلاحیت رکھتے ہیں۔
ایک وضاحت
میں جس داستان کوسنانے جارہا ہوں اس سے قبل یہ وضاحت بہت ضروری ہے کہ اس میں بعض معاصر مکاتب فکر کے بارے میں کچھ سخت تبصرے ملیں گے۔ لیکن یہ ہرگز ہرگز میرے الفاظ اور میرا نقطہ نظر نہیں بلکہ دل پر جبر کرکے میں نے یہ چیزیں اس لیے نقل کی ہیں کہ یہ بتاسکوں کہ کچھ لوگ جب تعصب کا شکار ہوجاتے ہیں تو کس طرح ایک دوسرے کے خلاف سخت ترین زبان اختیار کرتے ہیں۔میں ان تمام مکاتب فکر سے محبت کا تعلق رکھتا ہوں۔ میراا پنا ذاتی نقطہ نظر ان سب کے بارے میں یہ ہے کہ یہی وہ لوگ ہیں جو اصول میں ٹھیک جگہ کھڑے ہوئے ہیں۔ قرآن مجید اور سنت کی شکل میں جو دین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انسانیت کو دے کر گئے ہیں اس کی ایک زندہ روایت اِنہی کے ہاں جاری و ساری ہے۔ بدقسمتی سے یہ اہم ترین بات ان لوگوں کے ہاں بہت کم اہم رہ گئی ہے اور ان کے باہمی فروعی اختلافات اتنے بڑھ چکے ہیں کہ اس کی بنیادپر ایک د وسرے کے خلاف سخت الزام و الفاظ کا تبادلہ عام ہے۔
میں نے ان تمام مکاتب فکر اور دیگر اہل علم سے بھی استفادہ کیا ہے اور میں ان کے بارے میں اچھی رائے ہی رکھتا ہوں۔ اس تحریر کا اصل مقصد بھی لوگوں اس بات کی طرف توجہ دلانا ہے کہ فروعی اختلافات کو چھوڑیں اور جن بنیادی اصولوں پر اتفاق ہے ان کو نمایاں کریں۔کیونکہ یہی مسلمانوں میں اتحاد پیدا کرنے کا ذریعہ ہے۔
ویسے مجھے یہ وضاحت کرنے کی ضرورت ہرگز نہیں تھی کیونکہ جو بات میں بیان کرنے جارہا ہوں وہ اپنے پس منظر میں بالکل صاف اور واضح ہے۔ مگر کیا کیجیے اس معاشرے میں بدقسمتی سے ایسی بیمار ذہنیت بھی موجود ہے جو مخالفت پر آمادہ ہوکر کسی بھی بات کا بالکل الٹا مطلب نکالنے میں ماہر ہے۔ اسے ایک مثال سے یوں سمجھیے۔ مشہور مناظر احمد دیدات جنھوں نے ساری زندگی مسیحی مشنری سے مناظرے کرکے اسلام کا دفاع کیا ، ان کے ایک مخالف نے ان پر الزام لگایا کہ وہ درحقیقت مغرب کے ایجنٹ ہیں جو مسیحیت پھیلارہا ہے۔ پوچھا گیا کہ یہ کیسے ممکن ہے؟ جواب ملا : ’’کیا احمد دیدات کی ہر تقریر میں بائبل کا حوالہ اور حضرت عیسیٰ کا ذکر نہیں ہوتا؟ یہی ان کے عیسائی ہونے کا ثبوت ہے۔‘‘
آپ چاہیں تو اس صورتحال پر ہنسیں یا روئیں یہ آپ کی مرضی ہے مگر یہ مریضانہ سوچ بہرحال ہمارے ہاں موجود ہے جس کے سامنا ہر اس شخص کو کرنا پڑتا ہے جوہمارے ہاں اسلام کے دفاع کے لیے کھڑا ہوتا ہے اور کچھ نہ کچھ مقبولیت حاصل کرلیتا ہے۔
ایک نوجوان کی داستان
میں بچپن سے گہرے مذہبی رجحانات رکھنے والا شخص ہوں۔میرے گھر کے قریب جو مسجد تھی وہ ایک خاص مکتب فکرکی تھی۔مسجد کے امام صاحب جلالی طبیعت کے مالک ایک زبردست خطیب تھے جن کی زندگی کا مشن تمام دیگر مسالک سے تعلق رکھنے والے حضرات کو گستاخ رسول،گمراہ، بددین اور مرتد و زندیق ثابت کرنا تھا۔
کئی برس اس ماحول میں گزارنے کے بعد میری ذہنی ساخت اس درجہ متعصبانہ ہوچکی تھی کہ مجھے دیگر مسالک کے لوگوں سے سخت نفرت ہوچکی تھی۔تاہم میری ایک خوش قسمتی یہ تھی کہ مجھے بچپن ہی سے بے پناہ مطالعے کی عادت تھی۔ مگر چونکہ ہمیں یہی سکھایا جاتا تھا کہ کبھی کسی دوسرے مسلک کے گمراہ اور بددین عالم، گلابی کافراور کالے کافرکی کتاب نہیں پڑھنا، اس لیے زیادہ تر مطالعہ کہانیوں کا تھا۔وہ نہ ملتیں تو اپنے بڑے بھائی بہنوں کی کورس کی کتابیں چاٹ جاتا۔میں جب مڈل اسکول میں تھاتب بھی بی اے تک کی سطح کی مذہبی،تاریخی اور ادبی کتابیں پڑھنا میرا معمول تھا۔خاص کر علامہ اقبال کا تو میں شیدائی تھا اور ان کے کلام کو سمجھنے کے لیے پروفیسر سلیم چشتی اور دیگر اہل علم کی تشریحات خرید کر لاتا اور کلام اقبال کو سمجھ کر پڑھتا۔میں مطالعے کا اتنا عادی تھا کہ کوئی نئی کتاب نہ ملتی تو بیسیوں دفعہ پڑھی ہوئی کتاب پھر پڑھ جاتا۔
میری دوسری خوش قسمتی یہ ہوئی کہ چند برس بعد مذکورہ مولانا صاحب کسی اور علاقے کی مسجد میں چلے گئے ۔ یوں دوسرے اہل علم کے بارے میں نفرت میں مبتلا کرنے کا ماحول باقی نہ رہا۔حالات نے تیسری مثبت کروٹ یہ لی کہ اسی زمانے میں میں اپنے گھروالوں کے ہمراہ سلسلہ وارثیہ کے ایک صوفی بزرگ سے بیعت ہوگیا۔یوں مذہبی ذوق کا رخ مناظرانہ نفرت کے بجائے اذکار وتسبیحات کی طرف مڑ گیا۔صوفی ویسے بھی عام مذہبی لوگوں کی طرح نفرت نہیں پھیلاتے۔اس لیے دیگر مسالک کے خلاف نفرت کم نہیں ہوئی تو بڑھی بھی نہیں۔
اسی دوران میں بڑے بھائی گھر میں ایک بڑی تفسیر کا سیٹ لے آئے، جس کے مصنف مسالک کے بارے میں غیر جانب دار تھے۔میری چوتھی خوش قسمتی یہ تھی کہ مولانا صاحب نے کبھی ان مفسر کوبراہ راست موضوع نہیں بنایا تھااور ان کے خلاف کوئی منفی بات ذہن میں نہیں تھی۔ ورنہ ہمارے ہاں جس طرح نفرت، تعصب اور بائیکاٹ کرنے کا ذہن بنایا جاتا ہے،اس کے بعد ممکن ہی نہیں تھا کہ میں ان مفسر کی کوئی تصنیف پڑھتا۔بہرحال میں نے اس تفسیر کا مطالعہ شروع کردیا۔یہ ایک انتہائی آسان اور دلچسپ تفسیر ہے جو معلومات کا بھی بے پناہ ذخیر ہ اپنے اندر رکھتی ہے۔
تاہم اس کے مطالعے کے دوران بارہا ایسے مقامات آجاتے جو میرے تعصبات کے خلاف تھے۔ ایسے میں بلامبالغہ دل یہ چاہتا کہ وہ مفسر میرے سامنے آجائیں اور میں ان کی کتاب ان کے سر پر دے ماروں۔ (مجھے اب تو ان خیالات پر بھی ندامت ہے، مگر اس وقت تعصب میں مبتلا ہونے کی وجہ سے یہی حال ہوتا تھا،جبکہ آج نوجوانوں کو فریق مخالف کو قتل کرنے پر اکسایا جاتا ہے۔)میں وہ تفسیر بند کرکے میں رکھ دیتا مگرپڑھنے کی عادت اتنی پختہ تھی کہ جب مطالعے کے لیے کچھ اور نہ ملتا مجبوراً دوبارہ اسے کھول کر بیٹھ جاتا اورپڑھتا رہتا۔
کچھ سوالات
یہ کتاب جو قرآن، تفسیر، حدیث ، فقہی اور تاریخی معلومات کا ایک انسائیکلو پیڈیا ہے،آخر کار میرے ذہن میں اپنے نقطہ نظر اور تعصبات کے متعلق کچھ سوالات پیدا کرگئی ۔مزید یہ کہ اس نے دیگر مسالک کے علما کی کچھ اور کتابوں کے مطالعے کا راستہ بھی ہموار کردیا۔ مجھے پہلی دفعہ معلوم ہوا کہ جن بنیادوں پر میں دوسرے لوگوں کو گمراہ سمجھتا تھاوہ سرتاسر غلط تھیں۔یہ غلط فہمیاں تھیں جو پھیلائی گئی تھیں۔ یہ تعصبات تھے جو ذہن میں بٹھائے گئے تھے۔ یہ جھوٹ اور بہتان تھا جس کی گرد نے ہر منظر کو آلودہ کردیا تھا۔پھر دوسرے لوگوں کی میرے اس مسلک، جس سے میں اب تک وابستہ رہا تھا، کے خلاف لکھی گئی کتابیں علم میں آئیں تو پتہ چلا کہ معاملہ یک طرفہ نہیں تھا بلکہ انہوں نے بھی ان کے ساتھ یہی کچھ کیا تھا۔ وہی الزام، وہی بہتان،وہی بدنیتی پر مبنی تحریریں اور تقریریں، وہی پورے اعتمادسے بولا گیا جھوٹ اور وہی پورے یقین سے لگائے گئے کفر، شرک ،بدعت اور گمراہی پر مبنی فتوے، وہی بات کو سیاق وسباق سے کاٹنا، وہی الفاظ کے موقع محل کو نظر انداز کرنا، وہی مجموعی شخصیت اور تعلیم کو کونے میں رکھ کر اپنے مطلب کی باتیں نکالنا۔ میں اپنے قارئین سے سچ عرض کرتا ہوں کہ یہ تمام تحریریں ایسی ہیں کہ کسی شخص پر اور مکتب فکر پر آپ کا اعتماد باقی نہیں رہ سکتا۔
خیر اس وقت اِن سب کے ساتھ قرآن مجید کے براہ راست مطالعے نے یہ واضح کرناشروع کردیا تھا کہ جن چھوٹی اور ناقابل تذکرہ باتوں اور چیزوں پر ہمارے ہاں کفر و ضلالت کے فتوے جاری ہوتے ہیں، وہ قرآن کریم میں سرے سے زیر بحث ہی نہیں آتے۔ حالانکہ لوگوں کا کفر و ایمان ہی قرآن مجید میں سب سے بڑھ کر زیر بحث رہا ہے۔
بہرحال اس پورے مطالعاتی عمل سے یہ دھماکہ خیز سوال پیدا ہوا کہ اگر مذکورہ مولانا صاحب پورے یقین (ان کے یقین کا عالم یہ تھا کہ دوران خطاب منبر پر تقریر کے دوران میں یہ کہتے تھے کہ میں جو بات کہہ رہا ہوں وہی قیامت کے دن کہوں گا چاہے مجھے اللہ تعالیٰ جہنم میں پھینک دے)اور اعتمادکے ساتھ گفتگو کرکے اگر غلط رہنمائی کرسکتے ہیں، تو اس کا کیا ثبوت ہے کہ دیگر لوگ بھی یقین و اعتماد سے بات کرکے یہی معاملہ نہیں کرسکتے۔یقین سے اپنی بات کو بیان کرنا میرے لیے اتنا بے وقعت ہوچکا تھا کہ سوال یہ پیدا ہوگیا کہ اس کا کیا ثبوت ہے کہ خود قرآن مجید جو کچھ بیان کررہا ہے وہ سب ٹھیک ہے۔
اس آخری بات کا پس منظر یہ تھا کہ میں اس زمانے میں بیسویں صدی کے معروف ملحد اسکالر اور سائنسدان کارل ساگان کے ذریعے سے الحاد، انکار خدا اور مذہب کے مغربی تصور سے متعارف ہونا شروع ہوچکا تھا۔یہاں ہر جگہ سائنٹفک دلیل کی بات ہوتی تھی جبکہ میں قرآن مجید کا ایک بالکل ابتدائی طالب علم تھا، جس کا خیال یہی تھا کہ قرآن میں بس یقین واعتماد کے ساتھ ایک ہستی کلام کررہی ہے جسے دلیل سے کوئی زیادہ دلچسپی نہیں ہے۔
دلائل قرآن
یہاں میں جملہ معترضہ کے طور پر یہ عرض کردوں کہ قرآن مجید بلاشبہ یقین کی زبان میں گفتگو کرتا ہے اور اس میں کیا شک ہے کہ عالم کے پروردگار کو اسی شان کے ساتھ کلام کرنا چاہیے،مگر ہمارا رب ہمارا معلم بھی ہے۔ اس نے توحید،رسالت اور آخرت کے عقائد کو یقین کی زبان میں بیان کرنے کے ساتھ انتہائی سائنٹفک بنیادوں پر سمجھایا بھی ہے۔ مگر بدقسمتی سے قرآن ہمارے ہاں اس پہلو سے بہت کم زیر بحث آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا اس بندہ عاجز پر یہ بہت بڑا احسان ہے کہ قرآن مجید کے یہ سائنٹفک دلائل اس نے اپنے فضل سے اس گناہ گار پرٹھیک اسی وقت واضح کیے تھے جب میں” جب زندگی شروع ہوگی “کی تصنیف سے فارغ ہوا تھا۔اب میری زندگی کی یہ سب سے بڑی خواہش ہے کہ میں قرآن مجید کے ان سائنٹفک، منظم، مرتب دلائل جو سرتاسر عقل عام پر مبنی ہیں۔ ایک ڈاکومنٹری کی شکل میں دنیا کے سامنے پیش کروں۔ جس طرح کارل ساگان نے اپنی شہرہ آفاق ڈاکومنٹری ”کاسموس“ سے ایک دنیا کو متاثر کیااور خدا کے بغیر کائنات کا تعارف کرایا، میں خدا کی بنیاد پر کائنات کا وہ تعارف کراسکوں جس طرح قرآن مجید انہیں پیش کرتا ہے۔ اس مقصد کے لیے میں نے اپنی کتابوں کی اشاعت سے ہونے والی آمدنی مختص کردی ہے۔جو میں کرسکتا تھا وہ میں نے کردیا۔ باقی معاملہ اب مالک کائنات کے ہاتھ میں ہے۔و الی اللہ المستعان۔
سب ہی کافر
خیر اس زمانے میں میرا خیال یہی تھا کہ قرآن مجید میں اس نوعیت کے دلائل نہیں پائے جاتے، جو سائنٹفک بنیادوں پر کوئی مقدمہ ثابت کرسکیں۔مگر متعصبانہ دینی فکر کی اصل خرابی یہ تھی کہ یہاں ہر شخص دوسرے کوخود ساختہ دلائل سے گمراہ ثابت کرنے میں مشغول تھا۔ایک مسلک کے لوگ اگر اپنے نقطہ نظر میں درست نہیں تھے اور تعصب کی بنیاد پر کھڑے تھے تو باقی لوگوں کا معاملہ بھی بالکل یہی تھا۔ وہی الزام، بہتان،کفر و گمراہی کے فتوے۔ایک فریق کے ہاں مخالف گستاخ رسول تھے تو دوسرے فریق کے لیے یہ مشرک تھے ۔ یہاں سے بددین کی صدا بلند ہوتی تو وہاں سے بدعتی کا نعرہ بلند ہوتا تھا۔یہاں سے کفرو ضلالت کے فتوے جاری ہوتے تووہاں سے ارتداد اور گمراہی کے سرٹیفیکٹ جاری کیے جاتے ۔ ہمارے زمانے میں تو خیر فرقہ وارانہ مخالفت پر مبنی یہ کتابیں بڑی مشکل سے ملتی تھیں اور میرے جیسا کتابی کیڑا ہی ان کو ڈھونڈ کر چاٹ سکتا تھا، مگر اب تو انٹر نیٹ پر بڑی آسانی سے یہ سب دستیاب ہے۔تمام مسالک اور مکاتب فکر کے ایک دوسرے کے خلاف دیے گئے کفر و گمراہی کے ”ثبوت“ آپ جب چاہیں بآسانی ڈھونڈ کر استعمال کرسکتے ہیں۔مسالک اور مکاتب فکر کے بیان سے کسی کو کوئی غلط فہمی نہ ہو کہ ان کے علاوہ دیگر تنظیموں، اداروں اور اہل علم کو کفر وضلالت کی اس مہم سے کوئی استثنا حاصل ہے۔ہر وہ عالم یا جماعت، جو عوام میں مقبول ہوئی، ان سب کے خلاف لکھا اور بولا گیا ۔ یہ سارا مواد جس میں آپ ان پر لگائی گئی گمراہی اور کفر کے الزامات کی تفصیل دیکھ سکتے ہیں، بآسانی انٹرنیٹ پر دستیاب ہے۔
میرے جیسے ایک سادہ طبیعت نوجوان کے لیے دوسروں کو کافر وگمراہ قرار دینے والے لٹریچر کا حاصل مطالعہ یہ تھا، اور آج کے ذہین نوجوانوں کے لیے بھی یہی ہے کہ ان سب نے ایک دوسرے کو توگمراہ ثابت کردیا ہے،اگلا نتیجہ جو خود بخود نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ سب ہی کافر اور گمراہ ہیں۔ بلکہ مذہب اپنی ذات میں ایک ڈھکوسلہ ہے ۔ مذہب اہل مذہب کی ایجاد ہے جو اپنے مفادات اور تعصبات کے لیے خدا، رسول اور آخرت جیسے تصورات کو استعمال کرتے ہیں۔ یہ وہ نتائج فکر ہیں جن تک پہنچتے ہوئے کسی نوجوان کو زیادہ دیر نہیں لگتی ہے۔
تمام مذاہب کا معاملہ یہی ہے
یہ معاملہ مسلمانوں کا نہیں بلکہ تمام مذاہب کا ہے ۔جیسا کہ غالباً برٹرینڈ رسل نے بیان کیا تھا کہ ایک غیر مسلم راہب اپنا نفس مارنے کے لیے آٹھ سال پتھر سے ٹیک لگاکر کھڑا رہا۔وہ اس ریاضت سے فارغ ہوا تو اسے معلوم ہوا کہ ایک دوسرا راہب یہ کام دس برس تک کرچکا ہے جس پر وہ غصے سے جھنجھلااٹھا۔ یہی مروجہ مذہبیت کی کل حقیقت مجھے سمجھ آئی کہ ساری دینداری ، ریاضت اور تقویٰ کے بعد بھی جہاں حسد،نفرت،غصہ اور جھنجھلاہٹ ہی ہو وہ مذہب نہیں مذہب کا استعمال ہے۔یہ دین کی خدمت نہیں دوکانداری ہے۔
یہ وہ وقت تھا، جب میں اپنے شہر کے سب سے بڑے کالج کا طالب علم تھا ۔ میرے گھر والے اور بالخصوص میری والدہ میری غیر معمولی ذہانت اور تعلیمی کامیابیوں کی بنا پر یہ توقع رکھتے تھے کہ میں فنانس یا میڈیکل جیسے کسی شعبے میں اعلیٰ مقام حاصل کروں گا۔ مگرکالج کے یہ سال میں نے بڑے اضطراب میں گزارے ۔ آخر میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ سب سے آسان راستہ اس مسئلے کو حل کرنے کا یہ ہے کہ جس ہستی کی وجہ سے یہ سارا مسئلہ پیدا ہورہا ہے، اس سے براہ راست معاملہ کیا جائے۔قرآن مجید کو ترجمے سے بار بار پڑھنے کی وجہ سے میں اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات سے اچھی طرح واقف ہوچکا تھا۔مجھے معلوم تھا کہ وہ کس اعتماد کے ساتھ کہتا ہے کہ میں سب جانتا ہوں اورمجھے ہر شے کی خبر ہے۔ اگریہ بات درست ہے تو راستہ آسان تھا۔ اس سے بات کرکے دیکھ لی جائے۔ وہ ہوگا تو تھوڑے عرصے میں جواب آجائے گا، نہیں ہوگا تو کہانی ختم۔
نفسیاتی بحران اور نصرت الہی
اس کے بعد میں کم و بیش ایک برس تک اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا رہا۔مغرب اور عشا کے درمیان مراقبہ اور اذکار میرا معمول تھے۔دراصل اس پورے فکری عمل میں میں نے عملی عبادات کبھی نہیں چھوڑی ہیں،بے دلی سے سہی مگرانہیں اختیار کیے رکھا۔اذکار کے بعد میں نے آدھے پونے گھنٹے تک دعا کرنا معمول بنالیا۔تاہم اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔ کوئی خواب بھی نہیں آیا۔البتہ یہ ہوا کہ میٹرک میں پورے اسکول میں ٹاپ کرنے والا طالب علم انٹر میں کالج کے ان گنتی کے طالب علموں میں شامل ہوچکا تھا جن کی سیکنڈ ڈویژن آئی تھی۔جس ذہنی اضطراب میں میں تھا اس میں یہ ہونا بھی معجزہ تھا۔ اگلے سال اسی حال میں پرسنٹ ایج بہتر کرنے کی کوشش کی ۔ نتیجہ اور خراب ہوگیا۔ البتہ اس برس گھر والوں کے ساتھ عمرہ کرنے چلا گیا۔سچی بات ہے یہ ایک رسمی عمل تھا۔میری کیفیت غالب کے الفاظ میں یہ تھی۔
بے دلی ہائے تماشہ کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق
بے کسی ہائے تمنا کہ دنیا ہے نہ دیں
لاف دانش غلط و نفع عبادت معلوم
دُردِ یک ساغر غفلت ہے چہ دنیا وچہ دیں
(مناظر دنیا میں نہ عبرت رہی نہ ذوق کی تسکین ملی، خواہشات دنیا کی پوری ہوئیں نہ دین کی۔علم و دانش ہو یا عبادت سب لایعنی ہوچکے ہیں اور دین و دنیاغفلت کے پیالے کی تہہ میں بیٹھی بیکار کیچڑ بن چکے ہیں۔)
یہ دو تین برس بظاہر بے عملی، ناکامیوں اور شکستوں کے سال تھے، مگر زندگی کی تبدیلی کے برس بھی یہی تھے۔کیونکہ اللہ کو پکارنا کبھی بے کار نہیں جاتا۔ خواب دکھانا ان کا اصل طریقہ نہیں بلکہ وہ راستے ہموار کردیتے ہیں۔ یہی میرے ساتھ ہوا۔اس دورمیں میرا سارا مطالعہ ختم ہو گیا اور میری توجہ صرف اور صرف قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھنے کی طرف ہوگئی۔ نجانے کس طرح میرا دل اس طرف آگیا حالانکہ پہلے یہ مجھے ایک بالکل بورنگ کام لگتا تھا۔ پہلے میں تفسیر پڑھتا تھااور ترجمہ قرآن کو سرسری طور پر دیکھتا تھا۔ مگر اب تفسیر کو چھوڑ کر میں نے قرآن کریم کے اصل الفاظ کو سمجھ کرگہرا مطالعہ شروع کردیا تھا۔اس طریقے سے فائدہ یہ ہوا کہ مجھ پر قرآن مجید کی بنیادی دعوت بالکل واضح ہوگئی۔ یہ دعوت توحید، رسالت اور آخرت کی دعوت اور اعلیٰ اخلاقی رویوں کو اختیار کرنے کی دعوت تھی۔یہ وہ دعوت تھی جو ہماری متعصبانہ اور فرقہ وارانہ فکر میں سرے سے غائب ہے۔ اسی طرح یہ بات سامنے آئی کہ الحاد و انکار خدا کے علمبردار بڑے اہل علم جیسے برٹینڈ رسل وغیرہ کا اصل اعتراض اس دعوت پر نہیں بلکہ اہل مذہب کے پیش کردہ تصور مذہب پر تھا۔عقائد پر ان کا جو اعتراض تھا وہ نامکمل علم اور اپنے مخصوص مذہبی پس منظر کی بنا پر تھا۔
مثلاً وہ نفس مذہب اور وجود باری تعالیٰ کے منکر تھے مگراس کی اصل وجہ برٹینڈ رسل نے اپنی شہرہ آفاق کتاب Why I am not a Christianکے مقدمے میں اس طرح بیان کی ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک علیم و قدیر اور خدائے مہربان یہ وسیع و عریض کائنات اربوں برس پر مشتمل مراحل سے گزار کر اس لیے تخلیق کرے کہ آخر کار یہاں ہٹلر، اسٹالن اور ہائیڈروجن بم جیسی چیزیں ظہور پذیر ہوں۔ رسل کے اصل الفاظ درج ذیل ہیں۔
There is to me something a little odd about the ethical valuations of those who think that an omnipotent, omniscient, and benevolent Deity, after preparing the ground by many millions of years of lifeless nebulae, would consider Himself adequately rewarded by the final emergence of Hitler and Stalin and the H-bomb.
اس کے بعد وہ لکھتے ہیں:
I am firmly convinced that religions do harm as I am that they are untrue.
میں پوری طرح اس بات پر قائل ہوں کہ مذاہب جھوٹے ہونے کے ساتھ نقصان دہ بھی ہیں۔
اگر قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نکال دیا جائے اور سامنے صرف وہ مذہبی فکر رکھی جائے جو رسل کے سامنے تھی یا پھر جس کاذکر میں اس مضمون میں کررہا ہوں تو رسل کا اعتراض اور نتائج فکر سو فیصد درست ہیں۔تاہم خوش قسمتی سے ختم نبوت کے بعد قرآن مجید کو اللہ تعالیٰ نے اس طرح محفوظ کردیا ہے کہ اس کا ترجمہ پڑھ کر بھی ایک عام انسان اس کی بنیادی دعوت سمجھ سکتا ہے جو اس اعتراض کی کمزوری واضح کردیتی ہے۔ یعنی یہ اعتراض مروجہ مذہبی فکر اور مذاہب کے علم برداروں پر درست ہے، قرآن مجید پر نہیں۔ قرآن مجید واضح طور پر بیان کرتا ہے کہ اللہ کے نزدیک اصل اہمیت آخرت کی ہے دنیا کی نہیں اور وہاں کامیابی ان لوگوں کو ملے گی جو اعلیٰ اخلاقی رویوں پر قائم رہے۔
حق کی تلاش
خیر خلاصہ یہ کہ میں سمجھ چکا تھا کہ قرآن مجید کی دعوت پر وہ اعتراض بنتا نہیں جوملحدین اٹھارہے ہیں۔ یوں وجود باری تعالیٰ پر میرافکری اعتماد بحال ہوگیا۔ مگر ایک دوسرا پہاڑ اب سامنے آچکا تھا۔کیا اس سفر کو آدھا چھوڑ دیا جائے یا پھر سچائی کی دریافت کے اس سفر کو آخری منزل تک پہنچایا جائے۔اللہ ہے لیکن وہ عملی طور پر کس گروہ کے ہاں پایا جاتا ہے۔ کس کی بات سچی ہے۔ یہ تو ممکن نہیں کہ کوئی بھی حق پر نہ ہو۔یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے میرے راستے خود متعین کردیے۔میں نے بطور کیرئیر جن چیزوں کو اختیار کرنے کا سوچا تھا، انٹر میڈیٹ کی ناکامی کے بعد ان کے لیے ضروری تعلیم کا حصول اب کم نمبروں کی وجہ سے ممکن نہیں رہا تھا۔میں نے کوئی اور فیلڈ اختیار کرنے کے بجائے علوم اسلامی کی باقاعدہ تحصیل کا فیصلہ کیا۔
ہدایت اگر مقصود تھی تو اس کے لیے جدو جہد ضروری تھی۔ اس کا سبب قرآن مجید کا وہ ارشاد تھا کہ ہدایت کی ذمہ داری ان لوگوں کے لیے لی گئی ہے جو جدوجہد کے لیے تیار ہوتے ہیں۔[1] اسی طرح قرآن کریم کے مطالعے سے یہ بھی واضح تھا کہ کفار مکہ اور یہود ونصاریٰ کی طرح تعصبات ، آباءو اجداد کے دین اور پرانی وابستگی سے چمٹے رہنے سے بھی اللہ تعالیٰ ہدایت نہیں دیتے بلکہ بارہا انسان اپنے نفس کی تاریکی کو اجالا سمجھ کر دھوکہ کھاجاتا ہے۔چنانچہ اس عزم کے ساتھ میں نے رسمی تعلیم اور کیرئیر کوچھوڑ کرباقاعدہ دینی علوم سیکھنے شروع کیے کہ سچائی جس جگہ نظرآئی اور میرے نظریات کے چاہے جتنا بھی خلاف ہو، اسے میں بلا تعصب قبول کرلوں گا۔ خوش قسمتی سے ایک ایسے تعلیمی ماحول میں میں نے علوم اسلامی کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی جہاں حوصلہ افزائی کرنےو الے اور اختلاف رائے کی اجازت دینے والے اساتذہ تھے۔ ساتھ ہی علمی کتب کا ایسا ذخیر ہ یہاں موجود تھا جس میں نہ صرف اسلاف بلکہ برصغیر کے تمام نمایاں علمی روایات اور بڑے اہل علم کی کتابیں شامل تھیں۔
یہاں سے ایک دوسری جدو جہد شرو ع ہوئی ۔مگر اس دفعہ پاؤں میں تعصب کی زنجیریں نہ تھیں اور شوق کا زاد راہ ہمراہ تھا۔ابتدا میں تمام الہامی مذاہب یعنی اسلام، یہودیت اور مسیحیت اوراہم غیر الہامی مذاہب یعنی ہندو مت، بدھ مت اور جین مت کا مطالعہ کیا۔ پوری دیانت داری اور علمی طور پر یہ سمجھنا چاہا کہ ان تمام مذاہب اور اسلام میں کیا پہلو مختلف ہیں اور کون سے معاملات میں اختلاف پایا جاتا ہے۔وہ کیا پہلو ہے کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ایک مسلمہ حیثیت رکھتی ہے۔ کس طرح آپ کی لائی ہوئی ہدایت دوسرے انبیا کے مقابلے میں قیامت تک کے لیے فیصلہ کن حیثیت اختیار کرچکی ہے۔
خلاصہ فکر
اس کے بعد میں نے مسلم فرقوں اور مسالک کا مطالعہ کیا۔میں نے بلا تعصب ہر بڑے عالم کو سنا اور پڑھا۔ جس سے براہ راست استفادہ کرنا ممکن تھا، استفادہ کیا۔ ان کے دلائل سمجھے۔ قرآن کی کسوٹی پر انہیں پرکھا۔لوگوں کے رویے کو سیرت حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے آئینے میں جانچا۔جو اس کسوٹی پر پورا اترا اسے ہر پسند و خواہش کے برخلاف بھی قبول کیا۔اور جواس کسوٹی پر پورا نہ اترااسے دل و دماغ سے کھرچ کر پھینک دیا۔ا س سفر میں آج تک اللہ تعالیٰ نے جس طرح ہر قدم پر دستگیر ی کی ہے وہ ایک الگ داستان ہے۔مگراس کی تفصیل چونکہ اصل موضوع سے متعلق نہیں اس لیے اسے چھوڑ رہا ہوں ۔
تاہم اس سفر کے نتائج فکر اس طرح بیان کروں گاکہ میں نے یہ جان لیا کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کی سچائی باقی رکھنے کا طریقہ یہ اختیار کیا ہے کہ اصل حفاظت قرآن اور دین کے عملی ڈھانچے یعنی سنت کی ہے۔ ان دونوں کو اس نے مسلمانوں کی اکثریت جو مسلمانوں کا مین اسٹریم بھی ہے اس میں اس طرح جاری کردیاہے کہ اصل دین ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوگیا ہے۔یہ مین اسٹریم کسی ایک خاص مکتب فکر میں نہیں ہے بلکہ ان تمام کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور ان کے تمام تر فروعی اختلافات کے باوجود اصل دین اعتقادات اور عمل کی سطح پر الحمدللہ سب جگہ متفقہ طور پر موجود ہے۔اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ سبھی مانتے ہیں کہ اللہ تعالی ایک ہیں، محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں اور سبھی آخرت میں اللہ تعالی کے حضور جواب دہی پر یقین رکھتے ہیں۔ سبھی مانتے ہیں کہ تکبر، حسد، تعصب اور بددیانتی بڑے جرم ہیں اور سبھی مانتے ہیں کہ اخلاص، توبہ، انابت، صبر، شکر، عجز و انکسار بڑی نیکیاں ہیں۔ سبھی نماز، روزہ، حج، زکوۃ، نکاح، طلاق، معیشت، سیاست، معاشرت سے متعلق دین کی بنیادی باتوں پر متفق ہیں۔
اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے د وسرا اہتمام یہ کیا ہے کہ وہ مسلسل ایسے اہل علم پیدا کرتارہتا ہے جو اس اصل دین کی شرح و وضاحت بھی کرتے رہتے ہیں اور کوئی گمراہی اور بدعت در آنے کی کوشش کرے تو بڑے سلیقے اور واضح دلائل کے ساتھ اس کی غلطی واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ اصل ماخذ محفوظ ہیں اس لیے وہ اکثر اس کوشش میں کامیاب ہوتے ہیں اور اگر کوئی افراط و تفریط پیدا ہوتو کوئی اور عالم تصحیح کردیتا ہے۔ اس اہتمام کے نتیجے میں عملی انحراف پیدا بھی ہوجائے تو وہ کبھی مسلمانوں کا اجتماعی عمل نہیں بن پاتا۔
مسلمانوں کے تمام اہل علم کا احترام کرنا بھی یہیں سے میں نے سیکھا۔کیونکہ اب میں یہ سمجھ سکتا تھا کہ کسی کو غلطی لگی ہے تو کہاں سے لگی ہے۔ اسی احترام کی بنا پر کم و بیش ہر مسلک اور ہر فکر کے عالم سے بلا تعصب میں نے استفادہ کیا اور کبھی کسی تعصب کو حصول علم کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنایا۔ میں اگر ان اہل علم کے نام لکھوں جن سے میں نے استفادہ کیا ہے تو لوگ حیران رہ جائیں گے کہ جس دور میں لوگ صرف ایک عالم اور ایک فرقے کے اسیر ہوتے ہیں کوئی شخص اس قدرمتضاد خیالات کے اہل علم سے بیک وقت کیسے استفادہ کرسکتا ہے۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص مولانا احمد رضا خان بریلوی سے بھی عقیدت و محبت رکھتا ہو اور اس شخصیت یعنی مولانا اشرف علی تھانوی سے بھی کسب فیض کیا ہو جن پرمولانا رضا نے باقاعدہ کفر کا فتویٰ دیا ۔ایک شخص مولانا مودودی سے بھی دین سیکھتا ہو اور ان کے سب سے بڑے ناقد مولانا وحید الدین خان کا بھی معترف ہو۔ڈاکٹر اسرار کی نشستوں میں بھی برسوں بیٹھ کر قرآن کریم سمجھا ہو اور علامہ جاوید احمد غامدی سے بھی استفادہ کیا ہو، اہل تصوف سے وابستگی بھی جس کی اٹھان کا حصہ ہو اور ان کے بدترین ناقد اہل حدیث افکار بھی اس کے علم کا حصہ ہوں، اہل تشیع کے تصورات کو بھی جس نے تحمل سے سمجھا اور اہل سنت کے نقطہ نظرسے بھی واقف ہو،جدید دور کے اہل علم کے کام سے بھی واقف ہو اور اسلاف کی علمی روایت کی بھی جسے خبر ہو۔الحاد کے علمبرداروں کے اعتراضات کو بھی جو براہ راست سمجھتا ہو اور مذہب کے استدلال سے بھی بخوبی واقف ہو۔
یہ ہمہ گیر استفادہ صرف اسی وقت ممکن ہوا جب دل سے نفرت اور تعصب ختم ہوگیا۔نفرت اور تعصب کے ساتھ انسان صرف کنویں کا مینڈک بن جاتا ہے۔ اس کے ذہن میں لاوا پکتا ہے اور زبان سے زہر اگلتا ہے۔قلم میں سیاہی کی جگہ پوٹاشیم سائنائڈ بھر جاتا ہے اور دل غضب کے شعلوں کا الاؤ بھڑکاتا ہے۔یوں نفرت کا مریض صرف نفرت تقسیم کرتا ہے جبکہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے وابستگی انسان کو وسعت اور تحمل دیتی ہے۔ دل میں محبت پیدا ہوتی ہے اور یہی محبت انسان دوسروں میں تقسیم کرتا ہے۔یوں محبت کا درد رکھنے والے صرف محبت تقسیم کرتے ہیں جبکہ نفرت اور تعصب کی گود میں پلنے والے صرف نفرت تقسیم کرسکتے ہیں۔
نفرت اور تعصب کا نتیجہ
اس طول بیانی سے میرا اصل مقصد یہ واضح کرنا تھا کہ مسلمانوں کے باہمی فرقہ وارانہ اختلاف اور تعصبات پرمبنی دینداری کس طرح نوجوانوں میں یا تو نفرت اور انتہا پسندی پیدا کرتی ہے یا پھران کو دین اسلام سے برگشتہ کرنے کا سبب بنتی ہے۔خاص کر انٹرنیٹ اور کیبل کے اس دور میں جب اسلام کے خلاف ہر طرح کا مواد انٹر نیٹ پر بآسانی دستیاب ہے یہ عمل کتنا تیز ہوچکا ہوگا۔ میرے پاس بہت سے نوجوان یہی مسائل اور الجھنیں لے کر آتے ہیں لیکن پروردگارکی عنایت سے میں اب اس قابل ہوں کہ ہر سوال کا جواب دے سکوں۔ لیکن جو لوگ تعصبات پر مبنی دینداری اختیار کرتے ہیں درحقیقت آج بھی وہ جانے انجانے میں باشعورلوگوں کو دین سے دور کرنے کا سبب بن رہے ہیں اور برٹینڈ رسل یا موجودہ دور میں رچرڈ ڈاکنز جیسے ملحدین کی سچائی کا زندہ ثبوت بن کر مذہب کا کفن بُن رہے ہیں۔
(ابو یحیی، http://www.inzaar.org )
نوٹ: مصنف کی تحریر میں ان کی اجازت سے کچھ تصرفات کیے گئے ہیں۔


میں نے اسلام کیوں قبول کیا؟۔سیٹھ محمد عمر/ رام جی لال گپتا

$
0
0


میں لکھنؤ کے قریب ایک قصبے کے تاجر خاندان میں 6 دسمبر 1939ء میں پیدا ہوا۔ گپتا ہماری گوت ہے۔ میرے پتا جی کریانے کی تھوک کی دکان کرتے تھے۔ ہماری چھٹی پیڑھی سے ہر ایک کے یہاں ایک ہی اولاد ہوتی آئی ہے۔ میں اپنے پتا جی (والد صاحب) کا اکیلا بیٹا تھا۔ نویں کلاس تک پڑھ کر دکان پر لگ گیا۔ میرا نام رام جی لال گپتا میرے پتا جی نے رکھا۔
گھر کا ماحول بہت دھارمک (مذہبی) تھا، ہمارے پتا جی (والد صاحب) ضلع کے بی جے پی، جو پہلے جن سنگھ تھی، کے ذمہ دار تھے۔ اس کی وجہ سے اسلام اور مسلم دشمنی ہمارے گھر کی پہچان تھی اور یہ مسلم دشمنی جیسے ہماری گھٹی میں پڑی تھی۔ 1986 ء میں بابری مسجد کا تالا کھلوانے سے لے کر بابری مسجد کی مسماری کے گھناؤنے جرم تک اس پوری تحریک میں آخری درجے کے جنون کے ساتھ شریک رہا۔ میری شادی ایک بہت بھلے اور سیکولر خاندان میں ہوئی۔ میری بیوی کا مزاج بھی اسی طرح کا تھا اور مسلمانوں سے ان کے گھر والوں کے بالکل گھریلو تعلقات تھے۔ میری بارات گئی تو سارے کھانے اور شادی کا انتظام ہمارے سسر کے ایک دوست خان صاحب نے کیا تھا اور دسیوں داڑھی والے وہاں انتظام میں تھے، جو ہم لوگوں کو بہت برا لگا تھا اور میں نے ایک بار تو کھانا کھانے ہی سے انکار کر دیا تھا کہ کھانے میں مسلمانوں کا ہاتھ لگا ہے، ہم نہیں کھائیں گے، مگر بعد میں میرے پتا جی (والد صاحب) کے ایک دوست تھے پنڈت جی۔ انھوں نے سمجھایا کہ ہندو دھرم میں کہاں آیا ہے کہ مسلمانوں کا ہاتھ لگا کھانا نہیں کھانا چاہیے۔ بڑی کراہت کے ساتھ بات نہ بڑھانے کے لیے میں نے کھانا کھا لیا۔ 1952ء میں میری شادی ہوئی تھی۔ نو سال تک ہمارے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ نو سال کے بعد مالک نے 1961 ء میں ایک بیٹا دیا۔ اس کا نام میں نے یوگیش رکھا۔ اس کو میں نے پڑھایا اور اچھے اسکول میں داخل کرایا اور اس خیال سے کہ پارٹی اور قوم کے نام سے اس کو ارپت (وقف) کروں گا، اس کو سماج شاستر، علم سماجیات (Sociology) میں پی ایچ ڈی کرائی۔ شروع سے آخر تک وہ ٹاپر رہا، مگر اس کا مزاج اپنی ماں کے اثر میں رہا اور ہمیشہ ہندوؤں کے مقابلے میں مسلمانوں کی طرف مائل رہتا۔ فرقہ وارانہ مزاج سے اس کو الرجی تھی۔ مجھ سے، بہت ادب کرنے کے باوجود، اس سلسلے میں بحث کر لیتا تھا۔ دو بار وہ ایک ایک ہفتے کے لیے میرے رام مندر تحریک میں جڑنے اور اس پر خرچ کرنے سے ناراض ہو کر گھر چھوڑ کر چلا گیا۔ اس کی ماں نے فون پر رو رو کر اس کو بلایا۔
مسلمانوں کو میں اس ملک پر قبضہ کرنے والا مانتا تھا اور میں سمجھتا تھا کہ مسلمانوں نے رام جنم بھومی مندر کو گرا کر مسجد بنائی ہے۔ میں ہر قیمت پر یہاں رام مندر بنانا چاہتا تھا، اس کے لیے میں نے تن من دھن سب کچھ لگایا۔ 1987ء سے لے کر 2005 ء تک رام مندر آندولن اور بابری مسجد گرانے والے کارسیوکوں پر اور وشوا ہندو پریشد کو چندے میں کل ملا کر 25 لاکھ روپے اپنی ذاتی کمائی سے خرچ کیے۔ میری بیوی اور یوگیش اس پر ناراض بھی ہوئے تھے۔ یوگیش کہتا تھا کہ اس دیش پر تین طرح کے لوگ آ کر باہر سے راج کرتے آئے ہیں۔ ایک تو آرین آئے، انھوں نے اس دیش میں آ کر ظلم کیا۔ یہاں کے شودروں کو داس بنایا، اور اپنی ساکھ بنائی۔ دیش کے لیے کوئی کام نہ کیا۔ آخری درجے کے اتیا چار (ظلم) کیے، کتنے لوگوں کو مارا، قتل کیا، کتنے لوگوں کو پھانسی لگائی۔
دوسرے نمبر پر مسلمان آئے۔ انھوں نے اس دیش (ملک) کو اپنا دیش (ملک) سمجھ کر دیش کو ترقی دی۔ یہاں لال قلعہ بنایا۔ تاج محل جیسا دیش کے گورو کا پاتر (قابل فخر عمارت) بنائی۔ یہاں کے لوگوں کو کپڑا پہننا سکھایا۔ بولنا سکھایا۔ یہاں پر سڑکیں بنوائیں۔ سرائیں بنوائیں۔ خسرہ کھتونی، ڈاک کا نظام اور آب پاشی کا نظام بنایا۔ نہریں نکالیں اور دیش میں چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو ایک کر کے ایک بڑا بھارت بنایا۔ ایک ہزار سال تک الپ سنکھیا (اقلیت) میں رہ کر اکثریت پر حکومت کی اور ان کو مذہب کی آزادی دی۔ وہ مجھے تاریخ کے حوالوں سے مسلمان بادشاہوں کے انصاف کے قصے دکھاتا، مگر میری گھٹی میں اسلام دشمنی تھی، وہ نہ بدلی۔ تیسرے نمبر پر انگریز آئے وہ یہاں سے سب کچھ لوٹ کر چلتے بنے۔
30 دسمبر 1990 کی کارسیوا میں بھی میں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور 5دسمبر 1992 کو تو میں خود ایودھیا گیا۔ میرے ذمے ایک پوری ٹیم کی کمان تھی۔ بابری مسجد گرا دی گئی تو میں نے گھر آ کر ایک بڑی دعوت کی۔ میرا بیٹا یوگیش گھر سے ناراض ہو کر چلا گیا۔ میں نے خوب دھوم دھام سے جیت کی تقریب منائی۔ رام مندر کے بنانے کے لیے دل کھول کر خرچ کیا، مگر اندر سے ایک عجیب سا ڈر تھا، جو میرے دل میں بیٹھ گیا اور بار بار ایسا خیال ہوتا تھا کہ کوئی آسمانی آفت مجھ پر آنے والی ہے۔ 6 دسمبر 1993 آیا تو صبح صبح میری دکان اور گودام میں جو فاصلے پر تھے، شارٹ سرکٹ ہونے سے دونوں میں آگ لگ گئی۔ اور تقریباً دس لاکھ روپے سے زیادہ کا مال جل گیا، اس کے بعد تو میں اور بھی زیادہ سہم گیا۔ ہر 6 دسمبر کو ہمارا پورا پریوار (خاندان) سہما سا رہتا تھا اور کچھ نہ کچھ ہو بھی جاتا تھا۔ 6 دسمبر 2005 کو یوگیش ایک کام کے لیے لکھنؤ جا رہا تھا، اس کی گاڑی ایک ٹرک سے ٹکرائی اور میرا بیٹا اور ڈرائیور موقع پر انتقال کر گئے۔ اس کا نو سال کا ننھا سا بچہ اور چھ سال کی ایک بیٹی ہے۔ یہ حادثہ میرے لیے ناقابل برداشت تھا اور میرا دماغی توازن خراب ہو گیا۔ کاروبار چھوڑ کر در بدر مارا پھرتا۔ میری بیوی مجھے بہت سے مولوی لوگوں کو دکھانے لے گئی۔ ہر دوئی میں بڑے مولوی صاحب کے مدرسے میں لے گئی۔ وہاں پر بہار کے ایک قاری صاحب ہیں، وہاں کچھ ہوش تو ٹھیک ہوئے، مگر دل میں یہ بات بیٹھ گئی کہ میں غلط راستے پر ہوں، مجھے اسلام کے بارے میں پڑھنا چاہیے۔ میں نے اسلام کا مطالعہ شروع کر دیا۔
میں نے سب سے پہلے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر ایک چھوٹی کتاب پڑھی، اس کے بعد ”اسلام کیا ہے؟” پڑھی۔ ”اسلام ایک پریچے” شیخ علی میاں جی کی پڑھی۔ 5 دسمبر 2006 کو مجھے مولوی محمد کلیم صدیقی صاحب کی چھوٹی سی کتاب ”آپ کی امانت آپ کی سیوا میں” ایک لڑکے نے لا کر دی۔ 6 دسمبر کی تاریخ اگلے روز تھی۔ میں ڈر رہا تھا کہ اب کل کو کیا حادثہ ہو گا۔ اس کتاب نے میرے دل میں یہ بات ڈالی کہ مسلمان ہو کر اس خطرے سے جان بچ سکتی ہے اور میں 5 دسمبر کی شام کو پانچ چھ لوگوں کے پاس گیا، مجھے مسلمان کر لو، مگر لوگ ڈرتے رہے، کوئی آدمی مجھے مسلمان کرنے کو تیار نہ ہوا۔

میں نے 5 دسمبر 2006 کو مسلمان ہونے کا پکا ارادہ کر لیا تھا، مگر اس سال 22 جنوری تک مجھے کوئی مسلمان کرنے کو تیار نہیں تھا۔ مولوی کلیم صاحب کو ایک لڑکے نے جو ہمارے یہاں سے جا کر پھلت مسلمان ہوا تھا، بتایا کہ ایک لالہ جی جو رام جنم بھومی تحریک میں بہت خرچ کرتے تھے، مسلمان ہونا چاہتے ہیں تو مولوی صاحب نے محمد عامر ماسٹر صاحب کو (جو خود بابری مسجد کی مسماری میں سب سے پہلے کدال چلانے والے تھے) بھیجا، وہ پتا ٹھیک نہ معلوم ہونے کی وجہ سے تین دن تک دھکے کھاتے رہے۔ تین دن کے بعد 22 جنوری کو مجھے ملے اور انھوں نے مجھے کلمہ پڑھوایا اور مولوی صاحب کا سلام بھی پہنچایا۔ صبح سے شام تک وہ مولوی صاحب سے فون پر بات کرانے کی کوشش کرتے رہے، مگر مولوی صاحب مہاراشٹر کے سفر پر تھے۔ شام کو کسی ساتھی کے فون پر بڑی مشکل سے بات ہوئی۔ ماسٹر صاحب نے بتایا کہ سیٹھ جی سے ملاقات ہو گئی ہے اور الحمد للہ! انھوں نے کلمہ پڑھ لیا ہے۔ آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں اور آپ انھیں دوبارہ کلمہ پڑھوا دیں۔ مولوی صاحب نے مجھے دوبارہ کلمہ پڑھوایا اور ہندی میں بھی عہد کروایا۔
میں نے جب مولوی صاحب سے عرض کیا کہ حضرت! مجھ ظالم نے اپنے پیارے مالک کے گھر کو ڈھانے اور اس کی جگہ شرک کا گھر بنانے میں اپنی کمائی سے 25 لاکھ روپے خرچ کیے ہیں، اب میں نے اس گناہ کی معافی کے لیے ارادہ کیا ہے کہ 25 لاکھ روپے سے ایک مسجد اور مدرسہ بنواؤں گا۔ آپ اللہ سے دعا کیجیے کہ جب اس کریم مالک نے اپنے گھر کو گرانے کو میرے لیے ہدایت کا ذریعہ بنا دیا ہے تو مالک میرا نام بھی اپنا گھر ڈھانے والوں کی فہرست سے نکال کر اپنا گھر بنانے والوں میں لکھ لیں۔
میں نے مولوی صاحب سے کہا کہ آپ میرا کوئی اسلامی نام بھی رکھ دیجیے۔ مولوی صاحب نے فون پر بہت مبارک باد دی اور دعا بھی کی، اور میرا نام محمد عمر رکھا۔ میرے مالک کا مجھ پر کیسا احسان ہوا۔ اگر میرا رواں رواں، میری جان، میرا مال سب کچھ مالک کے نام پر قربان ہو جائے تو بھی اس مالک کا شکر کیسے ادا ہو سکتا ہے کہ میرے مالک نے میرے اتنے بڑے ظلم اور پاپ کو ہدایت کا ذریعہ بنا دیا۔
میرے مالک کا کرم ہے کہ میری بیوی، یوگیش کی بیوی اور دونوں بچے بھی مسلمان ہو گئے ہیں۔ میں نے الحمد للہ، گھر پر ٹیوشن لگائی ہے۔ ایک بڑے نیک مولوی صاحب مجھے مل گئے ہیں۔ وہ مجھے قرآن بھی پڑھا رہے ہیں، سمجھا بھی رہے ہیں۔
مولوی کلیم صاحب نے مجھے توجہ دلائی کہ آپ کی طرح کتنے ہمارے خونی رشتے کے بھائی بابری مسجد کی مسماری میں غلط فہمی میں شریک رہے۔ آپ کو چاہیے کہ ان پر کام کریں۔ ان تک سچائی کو پہنچانے کا ارادہ کریں۔ میں نے اپنی یادداشت سے ایک فہرست بنائی ہے۔ اب میری صحت اس لائق نہیں کہ میں کوئی بھاگ دوڑ کروں، مگر جتنا دم ہے، وہ تو اللہ کا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ اس کے بندوں تک پہنچانے میں لگنا چاہیے۔
میرے یوگیش کا غم مجھے ہر لمحہ ستاتا ہے۔ مرنا تو ہر ایک کو ہے۔ موت تو وقت پر آتی ہے اور بہانہ بھی پہلے سے طے ہے، مگر ایمان کے بغیر میرا ایسا پیارا بچہ جو مجھ جیسے ظالم اور اسلام دشمن، بلکہ خدا دشمن کے گھر پیدا ہو کر صرف مسلمانوں کا دم بھرتا ہو، اسلام کے بغیر مر گیا۔ اس بچے کا حق ادا نہ کرنے کا احساس میرے دل کا ایسا زخم ہے، جو مجھے کھائے جا رہا ہے۔ ایسے نہ جانے کتنے جوان، بوڑھے موت کی طرف جا رہے ہیں۔ ان کی خبر لیں۔
٭
(بشکریہ ،ماہنامہ’اللہ کی پکار، دہلی’ جولائی 2009)


ابلیس سے جنگ کی روداد۔ ۔۔ حج کا سفر

$
0
0


بسم اللہ الرحمن الرحیم
از پروفیسر محمد عقیل
پس منظر
رات اپنے اختتام کے آخری مراحل میں تھی اور سورج طلوع ہونے کے لئے پر تول رہا تھا۔ فلائٹ آنے میں ابھی وقت تھا ۔اس اجالے اور تاریکی کے ملاپ نے ائیرپورٹ کے مادیت سے بھرپور ماحول میں بھی روحانیت کا احساس پیدا کردیا تھا۔یہ مئی ۲۰۰۹ کا واقعہ ہے جب میں ائیر پورٹ پر اپنے والدین ، بھائی اور دادی کو رسیو کرنے آیا تھا جو عمرہ ادا کرکے واپس آرہے تھے۔ فجر کا وقت ہوگیا تھا چنانچہ میں نے نماز فجر مسجد میں ادا کی۔ نماز کے بعد جب فلائٹ آگئی تو میرے والدین باہر آگئے۔
میں نے جب اپنے بھائی اور والد کے منڈےہوئے سر دیکھے تو طبیعت میں ایک عجیب سا اضطراب پیدا ہونے لگا۔ میرا دل چاہا کہ میں بھی اپنا سر منڈوا کر خود کو اللہ کی غلامی میں دے دوں، میں بھی سفید احرام میں ملبوس ہوکر اس کی بارگاہ میں حاضری دوں، میں بھی اس کے در پرجاکر لبیک کا ترانہ پڑھوں۔ یہ احساس زندگی میں پہلی مرتبہ مجھے ہوا جو ایک خوشگوار حیرت کا باعث تھا۔مجھے یوں محسوس ہو ا کہ شاید حرم سے بلاوے کا وقت آگیا ہے۔
اس کے بعد میں نے اپنا یہ احساس کسی سے شئیر نہیں کیا لیکن خاموشی سے حج پر جانے کا طریقہ کار لوگوں سے معلوم کرنے لگا۔دوسری جانب جب میں نے زمینی حقائق کا جائزہ لیا تو علم ہوا کہ میرے پاس معقول رقم کا بندوبست نہیں ہے اور نہ ہی ملازمت سے آسانی سے چھٹی ملنے کی توقع ہے۔ اس کے علاوہ میری اس وقت دو بیٹیا ں بھی تھیں جن کی عمر یں چھ سال اور ساڑھے تین سال تھیں اور انہیں چھوڑ کر جانا ایک مشکل امر تھا۔
یہ سب حقائق امور حج پر جانے میں رکاوٹ تھے۔ لیکن میں جانتا تھا کہ جب بلاوہ آجائے تو کوئی روک نہیں سکتا۔ چنانچہ ان تمام رکاوٹوں سے قطع نظر میں نے حج پر جانے کی نیت کرلی ۔ میں نے اس بات کا ذکر اپنی بیوی سے بھی کیا جس پر انہوں نے اصولی طور پر اتفاق کرلیا۔ میں نے انہیں یہی بتایا کہ ابھی حالات سازگار نہیں لیکن میں نے اپنا کیس اللہ کے سامنے رکھ دیا ہے۔ وہ مسبب الاسباب ہے۔ اگر اس نے بلانا ہوگا تو ضرور راستہ نکالے گا۔
کچھ ہی دنوں بعد میرے والدین نے خود ہی ہمیں حج پر جانے کی ترغیب دینا شروع کردیاور ساتھ ہی بچوں کو رکھنے کا عندیہ بھی دیا۔میرے بچے اس سے قبل ایک رات کے لئے بھی ہم سے جدا نہیں ہوئے تھے اور ان کا پاکستان میں رکنے کا معاملہ خاصہ گھمبیر معلوم ہوتا تھا۔ لیکن ایک عالم ظاہری اسباب کا ہے اور ایک اسباب سے ماوراء دنیا ہے ۔ انسان ظاہری اسباب کا پابند ہے لیکن اللہ نہیں۔ چنانچہ ایک ایک کرکے تمام مسائل حل ہوتے چلے گئے۔ مالی مشکل بھی آسان ہوگئی، بچوں کو چھوڑنے کی ہمت بھی ہوگئی اور ملازمت سے چھٹی کا مسئلہ بھی حل ہوگیا۔
روانگی
حج کی تیاریاں مکمل ہوچکی تھیں۔ ویکسین لگوالی تھی اور ساتھ ہی تمام سامان کی خریداری مکمل کرلی تھی۔ سن ۲۰۰۹ میں حج ۲۶ نومبر کو متوقع تھا۔ میری فلائٹ کا شیڈول ۵ نومبر رات ۱یک بجے کا تھا۔ میں چار نومبر کو جب کالج سے گھر پہنچا تو ارادہ تھا کہ کچھ دیر آرام کرلوں گا تاکہ رات کو سفر کی تکان سے بچ سکوں۔ لیکن جب کالج سے گھر پہنچا تو مہمانوں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ یہ ہمارے سماج رابطوں ایک حصہ ہے۔ اور اسے نبھانا بھی پڑتاہے۔ چنانچہ میں نے سب سے ملاقات کی۔ اور فراغت کے بعد فائنل پیکنگ کی ۔ اسی اثنا ء میں عشاء کی نماز ادا کی۔ عشاء کے بعدروانگی تھی۔ احرام باندھا جس کی بنا پر چلنے میں خاصی دشواری ہورہی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے بعد میں مشکل آسان کردی۔ احرام دراصل حج اور عمرے کا یونی فارم ہے۔ جس طرح کسی ملک کے فوجی وردی پہننے کے پابند ہوتے ہیں اسی طرح ایک حاجی بھی اس وردی کا پابند ہے۔مجھے احرام باندھنے کے بعد ایک طمانیت اور قرب الٰہی کا احساس ہوا کہ اللہ نے مجھے اپنے سپاہیوں میں شامل کرلیا۔
پاکستان سے جانے والے حاجی زیادہ تر حج تمتع کرتے ہیں جس کامطلب یہ ہے کہ اپنے وطن سے احرام عمرے کے لئے باندھا جائے اور پھر مکہ میں عمرے کی ادائگی کے بعد احرام اتار دیا جائے۔ پھر جب حج کے ایام شروع ہوں تو دوبارہ حج کے لئے دوسرا احرام باندھا جائے۔ حج کی دوسری قسم حج قران ہے جس میں حاجی اپنے ملک سے حج ہی کی نیت سے احرام باندھتا ہے اور دس ذی الحج تک اسے پہنے رکھتا ہے۔میرا حج بھی حج تمتع تھا۔
احرام
ہمارے گروپ لیڈر رافع صاحب نے بتایا تھا کہ بعض اوقات فلائیٹ لیٹ ہوجاتی ہیں یا کسی ایمرجنسی کے سبب کینسل بھی ہوسکتی ہیں ۔ اسی بنا پر احرام باندھنے کے باوجودمیں نے عمرے کی نیت نہیں کی تھی کیونکہ نیت کرنے کے بعد اور میقات کی حدود شروع ہوتےہی احرام کی پابندیا ں شروع ہوجاتی ہیں ۔ ان پابندیوں میں سر یا چہرے کو ڈھانپنا، بال یا ناخن کاٹنا،خوشبو لگانا، خشکی کا شکار کرنا، شہوت کی باتیں کرنا اور ازدواجی تعلق قائم کرنا وغیرہ شامل ہیں ۔ ان پابندیوں کا فلسفہ یہی ہے کہ حج شیطان کے خلاف جہاد کا اعلان ہے۔ چنانچہ جب رب اپنے بندے کو پکارتا اور شیطان کے خلاف برسر پیکار ہونے کا حکم دیتا ہے تو یہ بندہ سفید کپڑوں کی وردی ملبوس کرلیتا ہے۔ اب اس پر دنیا کی زیب و زینت اور لذت حرام ہے یہاں تک کہ وہ اس جنگ میں برسر پیکار ہوکر اپنے دشمن کی ناک رگڑ دے اور اور اپنے مالک کی وفاداری کا ثبوت پیش کردے
ائیرپورٹ پر کافی رش تھا۔ وہاں کچھ مدد گار لوگوں کو گائیڈ کررہے تھے اور انہیں حج کے بارے میں بتارہے تھے۔ میرے گھر والے اور بیٹیاں بھی مجھے چھوڑنے آئیں تھیں لیکن ان کی محبت پر خدا کی محبت غالب آچکی تھی اور اب ان کی اتنی فکر محسوس نہیں ہورہی تھی۔ بہرحال تمام گھر والے ائیر پورٹ پر آئے تھے۔ ان سے ملنے کے بعد تقریباً دس بجے بورڈنگ شروع ہوئی اور میں اندر داخل ہوا۔ امیگریشن کے مراحل طے ہونے میں دو گھنٹے لگ گئے۔ بالآخر تمام مراحل طے کرنے کے بعد ڈیپارچر لاؤنج میں بیٹھ گئے۔ ہمارے گروپ کے تمام ساتھی جمع ہوچکے تھے۔میرا ایک دوست آصف بھی اسی گروپ سے جاررہا تھا۔ اس کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا۔
لبیک
ہماری فلائٹ رات ایک بج کر بیس منٹ پر تھی۔میں نے لاؤنج میں اردگرد نگاہ ڈالی تو سب ہی مرد حضرات سفید احرام میں ملبوس تھے اور یہ منظر انتہائی دلفریب لگ رہا تھا۔ کچھ لوگوں نے عمرے کی نیت کرلی تھی ۔تقریباً رات کے ایک بجے ہم جہاز میں سوار ہوئے۔ رن وے پر اس وقت تاریکی کاراج تھا لیکن فضا ساکت اور خوشگوار تھی۔ جہاز تقریباً آدھے گھنٹے لیٹ تھا۔میری بائیں جانب ایک بزرگ بیٹھے تھے جبکہ دائیں جانب میں نے اپنی بیوی کو بٹھا یا تھا۔ جہاز نے ہولے ہولے سرکنا شروع کیا اور میں نےبھی تلبیہ پڑھ عمرے کی نیت کرلی۔ طیارے کی فضا میں لبیک کی صدائیں بلند ہونے لگیں ۔
لبیک اللہم لبیک، لبیک لاشریک لک لبیک، ان الحمد والنعمۃ لک والملک لاشریک لک۔
یہ تلبیہ پڑھتے ہی اپنے رب کے بلاوے پر بندہ اپنے مال و اسباب کو چھوڑ کر نکل کھڑا ہوا ہے۔ وہ کہہ رہا ہے :
اے رب میں حاضر ہوں ، حاضر ہوں کہ تیرا کوئی شریک نہیں، تعریف تیرے ہی لئے، نعمت تیری ہی ہے اور تیری ہی بادشاہی ہے جس میں تیرا کوئی شریک نہیں۔
یہ ترانہ پڑھتے ہوئے بندہ اپنی وفاداری کا اظہار کرکے،اپنا مورال بلند کرتا او ر یقینی فتح کے نشے میں جھومتے ہوئے دشمن کے تعاقب میں نکل چکا ہے۔ وہ دشمن جو اس کا ازلی دشمن ہے جس نے اس کے آباو اجداد کو جنت سے نکلوایا اور اب بھی اس کوشش میں مصروف ہے کہ اسے شکست دے سکے۔
پاکستان سے جانے والوں کے لئے فضا میں ہی نیت کرنا لازمی ہوتا ہے کیونکہ جہاز فضا ہی میں میقات پر سے گذرجاتا ہے۔ میقات وہ حرم کی حدود ہے جس سےباہر احرام باندھنا اور اس کی نیت کرنا باہر سے آنے والوں کے ضروری ہوتا ہے۔
شیطان اور انسان
جہاز فضا میں بلند ہوتا گیا اور میرا ذہن ماضی کے دھندلکوں میں گم ہونے لگا۔میں چشم تصور میں اس زمانے میں پہنچ گیا جب انسان کی تخلیق ہونے والی تھی۔اللہ نے فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ زمین پر ایک ایسی ہستی کو بھیجنے والے ہیں جسے دنیا میں بھیج کر آزمایا جائے گا۔اس فیصلے سے قبل اللہ نے حضرت آدم علیہ السلام کی پشت سے تمام انسانی ارواح کو نکال کر اس آزمائش کے بارے میں بتایا اور ان کے سامنے ارادہ و اختیار کی امانت پیش کی جسے انسان نے برضا و رغبت قبول کرلیا۔اس کے بعد اللہ نے ااپنا تعارف کروایا اور اپنی توحید کا شعور انسان کی فطرت میں ودیعت کردیا۔انسان کو یہ واضح طور پر بتادیا گیا کہ اس آزمائش میں اللہ کی وفاداری میں کامیابی کا نتیجہ جنت کی کبھی نہ ختم ہونے والی نعمتیں ہیں جبکہ سرکشوں کا ٹھکانہ جہنم کے گڑھے ہیں۔
انسان تخلیق کرنے سے قبل اللہ نے دیگر مخلوقات کو بھی اپنے اس منصوبے سے آگاہ کیا۔ ان مخلوقات میں جنات اور فرشتے شامل تھے۔ فرشتوں نے اپنے خدشے کا اظہار کیا کہ اگر انسان کو ارادہ و اختیار دے کر دنیا میں بھیجا گیا تو یہ بڑا خون خرابا اور فساد برپا کرے گا۔ خدا نے جواب دیا :
ہاں ایسا تو ہوگا لیکن انہی لوگوں میں انبیاء، شہداء ، صدیقین اور نیک لوگ بھی پیدا ہونگے جو اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر میری وفاداری نبھائیں گے اور میرے لئے اپنی جان اور اپنا مال قربان کریں گے ۔یہ سیج انہی کے لئے سجائی جارہی ہے ۔ باقی جو نافرمانوں کی گھاس پھونس ہے اسے میں جہنم کے ایندھن کے طور پر استعمال کرونگا۔
پھر اللہ نے اپنے ہاتھوں سے کھنکھناتی مٹی سے آدم کو تخلیق کیا اور فرشتوں حکم دیا کہ وہ سجدے میں گر جائیں۔اس سجدے کا مطلب یہ تھا کہ انسان دنیا میں محدود معنوں میں بادشاہ اور حاکم کی حیثیت سے بنے گا ۔یہ خدا کی مشیت کے مطابق اس دنیا میں مسکن بنائے گا، تمدن کی تعمیر کرے گا، کائنات مسخر کرے گا، اپنی مرضی سے خیر و شر کا انتخاب کرے گا اور آزمائش کے مراحل طے کرکے اپنی جنت یا دوزخ کا انتخاب کرے گا۔ اس سارے عمل میں فرشتوں اور جنات کو انسان کے سامنے عمومی طور پر سرنگوں رہنا اور اس آزمائشی عمل میں روڑے اٹکانے سےگریز کرنا لازم تھا ۔

یہ حکم صرف فرشتوں ہی کے لئے نہیں تھا بلکہ ان کی مانند دیگر مخلوقات کے لئے بھی تھا جن میں جنات بھی شامل تھے۔ انہی جنوں میں سےایک جن عزازیل نے سجدہ کرنے سے انکار کردیا۔ سجدے سے انکار درحقیقت خدا کی اسکیم سے بغاوت کا اعلان تھا ۔ خدا نے جب شیطان سےپوچھا کہ تونے سجدہ کیوں نہ کیا؟ ؟ تو اس نے کہا کہ میں اس انسان سے بہتر ہوں۔میں آگ اور یہ مٹی۔چنانچہ اللہ نے شیطان کو مردود بنادیا ۔ لیکن شیطان جھک جانے کی بجائے اکڑ گیا اور وہ خدا کو چیلنج دے بیٹھا:
“اے خداوند! تیری عزت کی قسم! میں نچلا نہیں بیٹھنے والا۔میں اس انسان کو تجھ سے گمراہ کردوں گا، میں اس کی گفتگو، میل جول، لباس، تمدن و تہذیب غرض ہر راستے سے اس پر نقب لگاؤنگا تاکہ اسے تیری وفاداری و بندگی سے برگشتہ کردوں اور تو ان میں سے اکثر لوگوں کو گمراہ اور بھٹکا ہوا پائے گا۔ بس تو مجھے قیامت کے دن تک کی مہلت دے دے”۔
شیطان نے یہ مہلت اس لئے مانگی تھی تاکہ وہ انسان کو منزل مقصود یعنی جنت تک نہ پہنچنے دے۔ لیکن اللہ کو اپنے چنے ہوئے اور متقی بندوں پر اعتماد تھا اس لئے اللہ نے فرمایا:
“جا تجھے اجازت ہے۔ تو اپنے پیادے اور سوار سب لشکر لے آ۔لیکن تیرا اختیار صرف وسوسے ڈالنے اور بہکانے کی حد تک ہے۔ پھر جس نے بھی تیری پیروی کی تو میں ان سب کو تیرے ساتھ جہنم میں ڈال دونگا جبکہ میرے چنے ہوئے بندوں پر تیرا کوئی اختیا ر نہ ہوگا”۔
اس چیلنج کے بعد اللہ نے حضرت آدم اور انکی بیوی کو جنت میں بسادیا اور جنت کی تمام نعمتیں ان پر ظاہر کر دیں۔ بس ایک پابندی تھی کہ وہ ایک مخصوص درخت کا پھل نہیں کھائیں گے۔ لیکن شیطان نے انہیں ورغلایا کیونکہ وہ ان کا ازلی دشمن تھا۔ یہاں تک کہ اس نے انہیں اس درخت کا پھل کھانے پر مجبور کردیا اور یوں وہ اللہ کی نافرمانی کے مرتکب ہوگئے۔لیکن شیطانی رویے کے برعکس دونوں اللہ کے سامنے عجزو انکساری کا پیکر بن گئے اور رجوع کرلیا۔ چنانچہ اللہ نے انہیں معاف کردیا ۔ اس کے بعد اللہ نے انہیں دنیا میں بھیجا اور ساتھ ہی یہ ہدایات بھی کیں ۔
“اے آدم، اس تجربے سے سبق حاصل کرنے کے بعد اب تم اپنی بیوی کے ساتھ زمین میں اترو اور ساتھ ہی یہ مردود شیطان بھی۔ تم دونوں ایک دوسرے کے دشمن رہو گے۔ تمہیں ایک مقررہ مدت تک اسی زمین میں جینا اور یہیں مرنا ہے اور اسی زمین سے تم دوبارہ زندہ کرکے آخرت کی جوابدہی کے لئے اٹھائے جاؤگے۔بس اپنے اس ازلی دشمن ابلیس اور نفس امارہ سے بچ کر رہنا۔
میں نے تمہاری فطرت میں خیر اور شر کا بنیادی شعور رکھ دیا ہے ۔ اسی کے ساتھ ہی میں نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے ہدایت کا بندوبست بھی کیا ہے۔ چنانچہ جس کسی کے پاس بھی یہ نور ہدایت پہنچے اور وہ اس کی پیروی کرے تو وہ شیطان کو شکست دینے میں کامیاب ہوجائے گا ۔یاد رکھو شیطان اور اس کا قبیلہ تمہیں ایسی جگہ سے دیکھتا ہے جہاں سے تمہارا گمان بھی نہیں ہوتا۔ وہ تو چاہتا ہے کہ تمہیں فحاشی، خدا سے بغاوت، ظلم و عدوان اور فساد فی الارض کی زندگی میں ملوث رکھے تاکہ تمہیں میری بندگی سے نکال کر لے جائے۔ پس جس نے میرا کہا مانا تو وہ میراوفادار ہے اور جس نے اس کی بات مانی تومیری بندگی سے نکل گیا”۔
شیطا ن کا چیلنج اور حج
شیطان کا چیلنج آج بھی موجود ہے۔ وہ اور اس کے چیلے مصروف ہیں کہ کسی طرح انسان کو اس امتحان میں فیل کرواکے خدا کے انتخاب کو غلط ثابت کروادیں ۔ چنانچہ ہر دور میں شیطان نے انسان پر نقب لگائی اور اسے راہ راست سے بھٹکانے کی کوشش کی۔شیطان کے ہتھکنڈے بڑے مؤثر نکلے۔ تاریخ گواہ ہے کہ انسان کبھی شرک و الحاد کی غلاظتوں میں لت پت ہوا تو کبھی مادہ پرستی سے دامن کو داغدار کیا۔ کبھی جنسی بے راہ روی کو اپنایا تو کبھی معاشی فساد کو پھیلایا۔

شیطانی سازشوں کے باوجود ہر دور میں خدا کے ایسے بندے ضرور موجود رہے جنہوں نے خود کو ان آلائشوں سے پاک رکھا لیکن اکثریت نے شیطان کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے اپنے نفس کو آلودہ کردیا ۔ اس آٖلودگی کو دور کرنے کے لئے اللہ نے انسان کے لئے کئی اہتمام کئے۔ ایک طرف تو اس نے انسان کے اندر نفس لوامہ یعنی ضمیر میں خیر و شر کاشعور رکھ دیا تاکہ اس کے نفس پر جب بھی غلاظت کا چھینٹا پڑے تو اسے احساس ہوجائے اور وہ توبہ کے ذریعے دوبارہ اسے پاک کرلے۔ دوسری جانب اس نے وحی کا سلسلہ روز اول ہی سے شروع کردیا تاکہ انسان کو خیرو شر کے تعین میں جو ٹھوکر لگ سکتی تھی اس سے بچایا جاسکے۔ اس عظیم الشان اہتمام کے باوجود انسان کا نفس آلودگی کا شکار ہوتا رہا ۔ چنانچہ عبادات کا ایک جامع تربیتی نظام مرتب کیا تاکہ ان آلائشوں سے پاکی اختیار کی جاسکے۔
جدہ ائیرپورٹ
بالآخر جدہ ائیر پورٹ آگیا۔اس وقت وہاں فجر کی نماز کا وقت ہورہا تھا۔ چنانچہ لاؤنج ہی میں فجر ادا کی۔ وہاں فلو کی ویکسی نیشن بھی ہوئی۔ امیگریشن کے مراحل ڈیڑھ گھنٹے ہی میں طے ہوگئے پھر کچھ دیر بعد ہی ہمیں پاکستان کے کیمپ میں بٹھا دیا گیا جہاں سے مکہ روانگی تھی۔ اس دوران پہلی مرتبہ سعودی باشندوں کو دیکھا ۔ ابتدا میں ا نکی باڈی لینگویج خاصی جارحانہ لگی لیکن بعد میں احساس ہوا کہ میرا یہ احساس غلط تھا اور یہ ان کا فطری انداز تھا۔
موجودہ سعودی عرب کی بنیاد عبدالعزیز بن سعود نے سن ۱۹۳۲ عیسوی میں رکھی۔ اس کی ابتدا سن ۱۷۴۷ میں ہوچکی تھی جب محمد بن سعود نے ایک اسلامی اسکالر عبدالوہاب کے ساتھ اشتراک قائم کیا۔ابتدا میں سعودی عرب ایک غریب ملک تھا لیکن ۱۹۳۸ میں تیل کے ذخائر دریافت ہونے کے بعد اس ملک کی قسمت بدل گئی۔ آج سعودی عرب کا شمار امیر ملکوں کی فہرست میں ہوتا ہے۔ یہاں کا سیاسی نظام بادشاہت پر قائم ہے اور کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمی کی یہاں کوئی اجازت نہیں۔
مکہ روانگی
تقریباً تین سے چار گھنٹے کے بعد مکتب کی بس آئی جب اس میں سوار ہوئے تو ہم سے پاسپورٹ لے لیا گیا اور ہمیں بتایا گیا کہ اب واپس جاتے وقت ہی ہمیں پاسپورٹ ملیں گے ۔بس جب مکہ میں داخل ہونے لگی تو ایک عجیب سی کیفیت عود آئی۔ میں سوچنے لگا کہ یہ وہی مقدس مکہ ہے جہاں خدا کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے، جہاں خدا کا کلام نازل ہوا، جہاں جبریل امین نے قدم رنجا فرمایا، جہاں معراج کا واقعہ ہوا، جہاں کفر و اسلام کی جنگ لڑی گئی۔ یہ وہی مکہ ہے جہاں انسانوں کے لئے عبادت کا پہلا گھر تعمیر کیا گیا،جہاں سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیوی اوربچے کو خدا کے حکم سے بسایا، جہاں حضرت حاجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے سعی کرکے صفا مروہ کو امر کردیا، جہاں اسماعیل علیہ السلام کی عظیم قربانی کی داستان رقم کی گئی۔
جدہ سے مکہ قریب دوگھنٹے میں پہنچے اس وقت وہاں کے وقت کے مطابق بارہ بج رہے تھے۔وہاں حج مرکز میں رجسٹریشن ہوئی۔ مرکز میں بس کھڑی ہوئی تھی ۔ رجسٹریشن کے بعد بس اگلی منزل روانہ ہوئی جو معلم کا دفتر تھا۔ یہاں رجسٹریشن ہونے کے بعد سوئے حرم چلے۔ہوٹل پہنچتے پہنچتے دیڑھ گھنٹا مزید لگ گیا۔
ہوٹل کا نام السرایا ایمان تھا اور یہ ہوٹل حرم سے پانچ منٹ کی واک پر تھی ۔ مجھے کمرہ چوھویں فلو ر پر دیا گیا جس میں میرے ساتھ دو نوجوان دانش اور یاسر تھے۔ میری بیوی کا فلورتیرھواں تھا۔ جب ہم ہوٹل پہنچے تو اس وقت سعودی وقت کے مطابق ساڑھے تین بج رہے تھے۔ ہوٹل پہنچ کر تھکن سے چور ہوچکے تھے چنانچہ ظہر اور عصر کی نماز پڑھی اور بستر پر ڈھیر ہوکر یاسر کے ساتھ عمرہ ادا کرنے کی پلاننگ کرنے لگے۔ دونوں کا کہنا تھا کہ کعبہ پر پہلی نظر پڑے تو جو دعا مانگو قبول ہوجاتی ہے۔ لیکن محدثین اس روایت کو ضعیف مانتے ہیں۔
عشاء کی نماز پڑھنے کے لئے میں دانش اور یاسر کے ساتھ مسجدالحرام جانب نکلا لیکن تاخیر سے پہنچنے کی بنا پر پہلی رکعت رہ گئی اور مسجد الحرام کے باہر ہی جگہ ملی۔ نماز کی امامت میرے فیورٹ قاری الشریم کررہے تھے۔ ان کی اقتدا میں نماز پڑھتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ شاید میں کوئی خواب دیکھ رہا ہوں اور ابھی کوئی مجھے جگا د ےگا۔ لیکن وہ ایک حقیقت تھی۔

نماز ختم ہونے کے بعد پہلی مرتبہ مسجد الحرام کو غور سے دیکھا۔میں اس وقت باب عزیز کے سامنے کھڑا تھا۔میں نے ارد گرد نگاہ ڈالی تو علم ہوا کہ یاسر اور دانش جدا ہوچکے ہیں۔ اب مجھے تن تنہا مسجد میں داخل ہوکر عمرہ کرنا تھا۔ میں باب عزیز کے سامنے کھڑا ہوکر لوگوں کے نکلنے کا انتظار کرنے لگا ۔ لیکن جب دس منٹ تک بھی نکلنے والے لوگوں کی تعداد میں کوئی کمی نہ ہوئی تو پھر بائیں جانب ایک ذیلی دروازے سے داخل ہونے کی ٹھانی۔ دروازے سے داخل ہوا تو سمت بھول گیا کہ کعبہ کس جانب ہے۔ سوچا کسی سے پوچھ لوں۔ لیکن پھر شرم آئی کہ کوئی کیا کہے گا کہ اسے کعبہ کا علم نہیں ہے۔ بہر حال اندازے سے دائیں جانب چلنے لگا۔ جب تھوڑا سا آگے چلا تو سامنے کعبہ موجود تھا۔
بیت اللہ
سامنے بیت اللہ اپنی پوری آب و تاب سے سیاہ غلاف میں ملبوس موجو دتھا۔ اس وقت پورا ماحول دودھیا روشنی سے منور تھا اور اس کے ساتھ ہی خدا کی رحمت کانور بیت اللہ کو چار چاند لگائے دے رہا تھا۔وہ خانہ کعبہ جس کی سمت ہمیشہ سجدے کئے وہ آج بالکل سامنے تھا۔ اس سے پہلے کعبہ ٹی وی پر یا تصویروں میں دیکھا تھا لیکن وہ دیکھنا کوئی دیکھنا نہ تھا۔ آج کے دیدار کی تو بات ہی کچھ اور تھی۔
کعبہ کا سیاہ غلاف ہیبت الٰہی کی عکاسی کررہا تھا۔ یہ کعبہ قدرت الٰہی کی تمام صفات کو خاموش زبان میں بیان کرہا تھا۔یہ کہہ رہا تھا کہ خدا بادشاہوں کے بادشاہ ہیں، ان کے جیسا رعب ، وجاہت، قہاری، عظمت، بزرگی، بڑائی،جلال اور شان وشوکت کسی کے پاس نہیں۔وہ ایک عزت والی، زبردست، صاحب قوت و اختیار، غالب اور قادر ہستی ہیں۔ وہ ملکیت رکھنے والے ، آقا، حاکم ، بااختیار، قابض اور متصرف ہیں۔وہ ایسی قدرت مطلق کے حامل ہیں کہ کسی سرکش، بڑے سے بڑے قوی اور باجبروت کا ناپاک ہاتھ انکی عظمت اور طاقت کی بلندی کو چھو بھی نہیں سکتا۔
میری آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور زبان پر دعائیں۔ ساتھ ہی خدا کا شکر گذار تھا کہ اس نے آج ان گناہ گار آنکھوں کو وہ گھر دکھایا جسے ابراہیم، اسماعیل اور نبی کریم علیہم السلام نے دیکھا۔
طواف
میں لڑکھڑاتے ہوئے قدموں سے مطا ف میں داخل ہوا۔ وہاں خلاف توقع رش کم تھا۔ کچھ دور چلنے کے بعد سبزلائٹ کی سیدھ میں آگیا۔ اب حجر اسود میرے بائیں جانب تھا۔ یہاں حجر اسود کو استلام کیا یعنی اس کی جانب ہاتھ کا اشارہ کیا۔ یہ درحقیقت اپنا ہاتھ خدا کے ہاتھ میں دینے کی تعبیر تھی۔ یہ اللہ سے بیعت اور عہد کرنے کا انداز تھا، یہ تجدید عہد کا اظہار تھا۔ یہ اپنی خواہشات، رغبات، شہوات، مفادات اور تعصبات کو خدا کی رضا اور اس کے حکم پر قربان کرنے کا وعدہ تھا۔

طواف کی حقیقت یہ ہے کہ قدیم زمانےسے روایت تھی کہ قربانی کے جانور کو معبد ( عبادت گاہ) کے گرد پھیرے دلوائے جاتے تھے جس سے معبد کی عظمت اظہاراور قربانی کے ثمرات کا کا حصول مقصودہو تا تھا ۔ طواف اسی روایت کا علامتی اظہار ہے۔
میں نے طواف کا آغاز کیا۔ اس دوران مقام ابراہیم کو قریب سے دیکھا اور کعبہ کا بغور مشاہدہ کیا۔ ان سات چکروں میں کوئی مخصوص دعا نہیں، کوئی بھی دعا مانگ سکتے اور کسی بھی زبان میں مانگ سکتے ہیں ۔ لیکن میں نے کچھ لوگوں کو مطاف میں دیکھا کہ وہ طواف کے دوران دعاؤں کی کتاب ہاتھ میں لئے طواف کررہے تھے۔ جبکہ کچھ لوگ کورس کی شکل میں دعائیں پڑھ رہے تھے ۔ اس سے طواف کا حسن اور روح برباد ہورہی تھی۔ طواف تو خاموشی سے اللہ سے لو لگانے ، اس کےمناجات کرنے اور اس کی بڑائی بیان کرنے کا نام ہے۔ یہ اپنی جان کا نذرانہ خدا کے حضور پیش کرنے کا علامتی اظہار ہے۔ لیکن ہمارے بھائی عام طور پر اس فلسفے سے ناواقف ہوتے ہیں اور ظاہر پرستی کی تعلیم نے انہیں اتنا الجھادیا ہوتا ہے کہ وہ ان اعمال کی روح بالکل کھو بیٹھتے ہیں ۔
طواف مکمل کرنے کے بعد دورکعت نماز ادا کی۔ اکثر لوگ مقام ابراہیم کے پاس ہی نماز پڑھنے لگ جاتے ہیں جس سے نماز پڑھنے والوں کو شدید تکلیف ہوتی ہے ۔ کسی کو تکلیف دینا یوں تو ویسے ہی حرام ہے لیکن حرم میں یہ حرمت اور بڑھ جاتی ہے ۔ چنانچہ بہتر یہ ہے کہ ایسی جگہ نوافل ادا کئے جائیں جہاں لوگوں کے طواف میں رکاوٹ نہ ہو۔ اسی طرح کچھ لوگ حجر اسود اور ملتزم یعنی بیت اللہ کی چوکھٹ کو پکڑنے کے چکر میں لوگوں کو دھکا دیتے اور انہیں تکلیف پہنچاتے ہیں۔ حجر اسود کو بوسہ دینا ایک نفلی عمل ہے اور ایک نفل کے حصول کے لئے لوگوں کو اذیت دینے جیسا کام کرنا گناہ کا باعث ہے۔
سعی
اس کے بعد اگلا مرحلہ سعی کرنے کا تھا۔ سعی کے لغوی معنی کوشش کے ہیں۔ مسلمانوں کی معروف روایات کے مطابق سعی حضرت حاجرہ علیہ اسلام کی اضطرابی کیفیت کی نقالی ہے جو انہوں نے پانی کی تلاش میں صفا اور مروہ کی پہاڑیوں کے درمیان دوڑ کر کی۔ لیکن کچھ اور علما ء کی تحقیق کے مطابق حضرت ابراہیمؑ علیہ السلام جب حضرت اسمٰعیل علیہ اسلام کو قربان کرنے کے لئے صفا پر پہنچ کر آگے بڑھے تو شیطان نے حکم عدولی کے لئے وسوسہ ڈالا۔ اس وسوسے کے برخلاف وہ حکم کی تعمیل کے لئے تیزی سے دوڑے اور مروہ پر پہنچ کر لختِ جگر خدا کے قدموں میں ڈال دیا۔ بہرحال سعی شیطان کی ترغیب سے بھاگنے اور خدا کی رضا کی جانب دوڑنے کا نام ہے۔
حلق اور غلامی
سعی کے بعد میں باب فتح سے باہر آیا اور لوگوں سے حجام کے بارے میں دریافت کیا۔ قریب ہی بڑی تعدا د میں حجاموں کی دوکانیں تھیں۔ ایک دوکان میں داخل ہوا۔ وہ پانچ ریال میں حلق کررہے تھے۔ بال کٹوانے کے دو آپشن شریعت میں موجود ہیں ۔ یا تو پورا سر منڈوایا جائے جسے حلق کہتے ہیں اور یا پھر کچھ بال کٹوالئے جائیں جو قصر کہلاتا ہے۔ حلق کا فلسفہ یہ ہے کہ زمانہء قدیم میں جب لوگوں کو غلام بنایا جاتا تو انکا سر مونڈ دیا جاتا تھا جو اس بات کی تعبیر ہوتی کہ یہ کسی کا غلام ہے۔ حاجی علامتی طور پر غلامی کے لوازمات پورے کرتا ہے لہٰذا یہ بھی اپنا سر منڈا کر خدا کی غلامی کی تجدید کرتا اور ہمیشہ اسی کا وفادار رہنے کا عہد کرتا ہے کہ وہ ہر سرد و گرم ،دھوپ چھاؤں، فقروامارت ، تنگی و آسانی پر راضی رہے گا کیونکہ وفادار غلاموں کا یہی شیوہ ہوتاہے۔
ایک روایت کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حلق کروانے والوں کے لئے تین مرتبہ اور قصر کروانے والوں کے لئے ایک مرتبہ دعا فرمائی۔ چنانچہ میں نے زیادہ فضیلت والے عمل کو فوقیت دی۔ شعور کی عمر تک پہنچنے کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب میں گنجا ہوا۔لیکن اللہ کی غلامی کا احساس اتنا شدید تھا کہ یہ عمل بھی پر لطف معلوم ہونے لگا۔
یہاں سے واپس ہوٹل کی راہ لی۔ یہ ہوٹل حرم سے صرف ۳۰۰ میٹر کے فاصلے پر اجیاد روڈ پر واقع تھا۔ وہاں غسل کیا اور احرام اتارا۔ یوں احرام پہننے سے لے کر اتارنے تک کے عمل میں پورے چوبیس گھنٹے لگے۔ اب عمرہ پورا ہوچکا اور احرام کی پابندیاں ختم ہوچکی تھیں۔ لیکن مجھے اس بات کا احسا س تھا کہ میں حدود حرم میں ہوں۔ حدود حرم میقات کے اندر موجود رقبے کو کہتے ہیں۔حرم کا مطلب ہے حرمت والی جگہ ۔ یہ حدود حرم بادشاہ سے قربت کی علامت ہے۔ جب ایک شخص بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوتا ہے تو اس کا پورا وجود انتہائی ادب اور احترام کی تصویر پیش کرتا ہے۔ نگاہیں نیچی،اعضا ساکن، ہاتھ بندھے ہوئے اور چہرے پر سنجیدگی ۔ گویا ہر عضو یہ کہہ رہا ہے کہ سرکار میں آپ کا تابعدار اور وفادار ہوں۔ اس دربار میں اونچی آواز بھی گستاخی سمجھی جاتی اور معمولی غلطی بھی کڑی سزاکا پیغام بن جاتی ہے۔

مکہ کا حرم بادشاہوں کے باشاہ کا دربارہے ۔اس دربار کا اپنا پروٹوکول ہے۔ یہاں لمحوں کی غلطی ابدی سزاکا پیش خیمہ ہو سکتی ہے۔ اس دربار میں معصیت بدرجہء اولیٰ حرام ہوجاتی اور کچھ جائز امور پر اضافی پابندی لگ جاتی ہے۔مثلاََ یہاں حکم ہے کہ ادب پیشِ نظر رہے، خیالات پاکیزہ ہوں، کسی جاندار کونہ مارا جائے، کسی پتے یا گھاس کو نہیں توڑا جائے اور کسی کو ایذانہ پہنچائی جائے ۔
شیطانی مشن
عمرے کی ادائیگی کے بعد میں ہوٹل پہنچا۔ تھکن کافی ہوچکی تھی جس کی بنا پر نیند آجانا چاہئے تھی۔ لیکن نئی جگہ کے باعث نیند نہیں آرہی تھی۔ چنانچہ میری سوتی جاگتی آنکھوں میں وہی منظر آنے لگا جب شیطان نے چیلنج دیا تھا کہ میں انسان کے دائیں ، بائیں ، آگے اور پیچھے غرض ہر جگہ سے آؤں گا اور اسے جنت کے راستے سے بھٹکا کر جہنم کے دہا نے تک لے جاؤں گا۔ میں نے غور کیا تو علم ہوا کہ شیطان نے بڑی عیاری سے انسان کے گرد اپنے فریب کا جال بنا اور اکثریت کو راہ راست سے دور لے جانے میں کامیاب ہوگیا۔
اس نے پہلا وار تو حضرت آدم و حوا علیہما السلام پر کیا اور انہیں جنت سے نکلوانے میں کامیاب ہوگیا۔ دوسری کاری ضرب حضرت آدم کے بیٹے قابیل پر لگائی اور اسے حسد اور مادہ پرستی کی راہ پر ڈال کر اپنے ہی بھائی کے قتل پر مجبور کردیا۔ اس کے بعد اس نے انسان کا پیچھا نہ چھوڑا اور تواتر سے اپنی سازشوں کا دائرہ وسیع کرتا گیا۔ قوم نوح کو شرک کی گمراہیوں میں اس طرح الجھایا کہ وہ مرتے مر گئے لیکن خدا کی توحید پر ایمان نہ لائے۔ شرک کی گمراہیوں میں تو اس نے ہر قوم کو الجھایا لیکن اس کے ساتھ کئی دوسرے پہلوؤں سے لوگوں کو خدا سے دور کرتا رہا۔ اس نے کبھی تو قوم عاد ، قوم ہود قوم ثمود اور قوم شعیب کو مادہ پرستی ، جھوٹی شان و شوکت ، انکار آخرت، لوٹ مار اور قتل و غارت جیسے گناہوں میں الجھادیا تو کہیں قوم لوط کو جنسی بے راہ روی کی پست ترین سطح میں ملوث کردیا ۔ لیکن یہ سب کام کرنے پر اسے انسان پر کوئی اختیار نہ تھا۔ اس نے تو بس انسان کو دعوت دی اور لوگوں نے اس کی دعوت پر لبیک کہہ کر خود کو طاغوت کے سپرد کردیا۔ شیطان کی کارستانیوں اور نفس کے جھانسوں کے سبب کئی قومیں طاغوت کی بندگی میں داخل ہوئیں اور بے شمار شخصیات نے اپنے نفس کو آلودہ کرکے جہنم کا حق دار بنالیا۔
دوسری جانب شیطان کے مقابلے میں خدا کا فرمان اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود تھا کہ میرے بندوں پر تیرا کوئی اختیار نہ ہوگا۔ چنانچہ شیطان کو ہر دور میں ان بندوں نے شکست فاش سے دوچار کیا۔ اگر قابیل نے شیطان کی دعوت پر لبیک کہا تو ہابیل نے تقویٰ کا پیکر بن کر خدا کی راہ امیں جان دے ڈالی۔ حضرت نوح علیہ السلام نے مخالفین کی سختیاں برداشت کیں اور بیٹے کو قربان کردیا لیکن خدا کی راہ نہ چھوڑی۔حضرت صالح، ہود،شعیب اور لوط علیہم السلام نے مشکلات، جبر و تشدد اور شدید مخالفت کے باوجود خدا کی بندگی کا قلادہ نہ اتارا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آگ میں کودنا گوارا کرلیا لیکن صراط مستقیم پر قائم رہے۔حضرت موسی و ہارون علیہما السلام تنہا فرعون کے ظلم و ستم برداشت کرتے رہے لیکن ان کے قدموں میں لغزش نہ ہوئی۔ حضرت زکریا کو آرے سے چیر دیا گیا اور حضرت یحی کا سر رقاصہ کی فرمائش تھال پر رکھ کر پیش کیا گیا لیکن وہ کلمہ حق سے دستبردار نہ ہوئے۔حضرت عیسی علیہ السلام نے یہود کے الزامات سہے اور ان کی تمام سازشیں جھیلیں لیکن خدا کا پیغام پہنچاتے رہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار مکہ کی سختیاں جھیلیں، طائف میں پتھر کھائے، جنگوں میں سختیوں سے گذرے لیکن کبھی کوئی شکایت کا حرف بھی زبان پر نہ لائے۔
ان پیغمبروں کے علاوہ ان کے ماننے والے بھی ہر دور میں طاغوت کو شکست دینے کے لئے کھڑے رہے۔گو کہ یہ سب تعداد میں کم تھے لیکن شیطان کی ناک رگڑنے کے لئے کافی تھے۔
یہ کشکمش آج بھی جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گی۔ آج بھی شیطان نے انسان کو اپنے جال میں جکڑا ہوا ہے اور ہر طرف سے اس کی یلغار جاری ہے۔ ماضی کی تمام برائیاں آج وسیع پیمانے پر پھیل چکی ہیں۔ شیطان کا سب سے بڑا ہتھیار الحاد کا ہے جس میں اس نے ڈارونزم، کمیونزم اور مادہ پرستی جیسے فلسفوں کے ذریعے خدا کے وجود کے بارے میں تشکیک پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ دوسری جانب آج کے ماڈرن اور سائنسی دور میں بھی لوگوں کو بت پرستی اور شرک کے دیگر مظاہر میں الجھا رکھا ہے۔ ابلیس کا تیسرا جال آخرت سے غفلت کا ہے جس کے ذریعے وہ لوگوں کو مادہ پرستی، نفسانی خواہشات کی تکمیل اور مفاد پرستی کی جانب لانے میں کامیاب رہا ہے۔ اس کا ایک اور طریقہ واردات ماڈرنزم کا ہے جس کی بنا پر اس نے حیا کو ایک فرسودہ روایت اور عریانی کو ایک جدید اور اعلی قدر کے طور پر پیش کرنے کی سعی کی ہے۔ اس کی بنا پر زنا، ہم جنس پرستی، فحش تصاویر، جنسی فلمیں اور عریاں ادب عام ہوچکے ہیں۔ معیشت کے میدان میں شیطان نے لوگوں کو سرمائے کا غلام بنادیا کہ صبح سے رات تک غلاموں کی طرح کام کرتے رہتے اور اگلے دن دوبارہ کولہو کے بیل کی طرح اس لامتناہی مشقت میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ شیطان نے انسان کو صرف دعوت دی باقی اس دعوت پر لبیک انسان نے خود کہا اور طاغوتی قوتوں کا ساتھی بن گیا۔
شیطان کی اس عظیم یلغار کے باوجود اللہ نے انسانیت کی راہنمائی کا بہترین اہمتام کر رکھا ہے۔ چنانچہ آج دنیا کے کسی بھی خطے میں انسان موجود ہو وہ برائی کو برائی ہی مانتا ہے اور جب بھی وہ کوئی برا عمل کرتا ہے اس کا ضمیر اس پر اسے ملامت کرتا ور معاشرہ بحیثیت مجموعی اسے ٹوکتا ہے۔ چنانچہ آج بھی خدا کے وجود کا انکار کرنے والے اقلیت میں ہیں۔ آج بھی حیا کو ایک اعلی اخلاقی قدر مانا جاتا اور اس کی خلاف ورزی کو برا سمجھا جاتا ہے۔ دوسری جانب شرک کو بھی چند کمزور قسم کے دلائل سے سہارا دینے کی کوشش کی جاتی ہے جسے سائنس کی دریافتیں آہستہ آہستہ رد کررہی ہیں ۔ لہٰذا ایسا نہیں کہ شیطان نے دنیا پر قبضہ کرلیا ہے۔ خدا کی ہدایت آج بھی فطرت اور وحی کی صورت میں موجود ہے اور آج بھی اس شورش زدہ ماحول میں خدا کے بندوں نے اپنے نفس کو آلودگی سے پاک رکھا ہوا ہے۔ اب یہ لوگوں کا اختیار ہے کہ وہ ابلیس کی پکار پر لبیک کہتے ہیں یا رحمٰن کی دعوت پر لپکتے ہیں۔
مسجدالحرام
اگلے دن جمعہ تھا۔ لوگوں نے بتایا تھا کہ جمعہ کے دن مسجدالحرام میں جگہ مشکل سے ملتی ہے۔ چنانچہ میں صبح دس بجے ہی مسجد پہنچ گیا۔ ایک ایسی جگہ منتخب کی جہاں سے کعبہ بالکل سامنے تھا۔ وہاں مسجدالحرام کے درو دیوار کا بغور جائزہ لینے لگا۔ مسجد کی چھت، دیواریں، فانوس اور بلندو بالا ستون آرٹ کا بہترین نمونہ تھے۔مسجدا لحرام کا موجودہ رقبہ ۸۸ ایکڑ سے زائد ہے۔میرے سامنے بیت اللہ تھا۔ اسے دیکھ کر مجھے اس کی تاریخ یاد آنے لگی۔
مکہ کا پرانا نام بکہ ہے۔ خانہء کعبہ وہ پہلا گھر ہے جسے اللہ نے عبادت کے لئے خاص کیا۔ اس کی تاریخ کی ابتدا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت حاجرہ اور حضرت اسمٰعیل علیہما لسلام کو اس وادی میں بسا کر کی۔ بعد میں حضرت ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل علیہما السلام نے اللہ کے حکم سےکعبہ کی تعمیرِنو کی۔ ایک تحقیق کے مطابق یہودیوں کا بھی یہی قبلہ تھا اور بیت المقدس کا رخ کعبہ کی طرف ہی تھا۔ بعد میں یہودیوں نے تحریف کرکے کعبے کا ذکر ہی بائبل سے غائب کردیا۔
اگر پیغمبروں کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو اسے تین ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ پہلا دور حضرت آدم سے حضرت نوح علیہ السلام کا ہے ۔ اس دور میں پیغمبر براہ راست قوم سے مخاطب ہوتا اور اسے انذارو تبشیر کرتا تھا۔ اگر قوم انکار کردیتی تھی تو ایک مخصوص مدت کے بعد ان پر موت کی سزا نافذ ہوجاتی تھی اس قانون کو قانون دینونت کہا جاتا ہے۔دوسرا دور حضرت ابراہیم علیہ السلام سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ہے جس میں پیغمبر ایک ہی نسل میں پیدا ہوتے رہے اور ساتھ ہی ان میں سے کچھ پیغمبروں کو کتاب بھی دی گئی۔ اس دور میں بھی رسولوں کو بھیج کر قانون دینونت کا اطلاق کیا گیا جبکہ انبیاء بھی بھیجے گئے ۔
تیسرا دور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دور ہے جس میں ایک کتاب اور نبی کی سنت کو رہتی دنیا کے لئے ہدایت کا ذریعہ بنادیا گیا۔ اس تیسرے دور کے آغاز کے لئے اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی انتظام کیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے اپنی بیوی حضرت حاجرہ علیہا السلام اور اپنے پہلوٹھے بیٹے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو ایک غیر آباد لیکن مقدس وادی میں بسایا۔ اس کا مقصد ایک ایسی قوم کو پیدا کرنا تھا جو حامل کتاب بن کر دنیا کو ابدی ہدایت کا راستہ دکھا سکے۔ حضرت حاجرہ علیہاالسلام نے اللہ کے اس فیصلے پر سر تسلیم خم کیا اور ایک عظیم قربانی کے لئے تیار ہوگئیں۔ حضرت حاجرہ علیہا السلام کے رہائش پذیر ہوجانے کے بعد قبیلہ جرہم اور ارد گرد کے دیگر قبائل بھی کعبہ کے گرد آباد ہوگئے۔ امام حمیدالدین فراہی کی تحقیق کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت حاجرہ علیہا السلام ہی کے ساتھ قیام کیا جبکہ وہ کبھی کبھی فلسطین حضرت سارہ علیہا السلام کے پاس چلے جایا کرتے تھے۔
جب حضرت اسمٰعیل بڑے ہوئے تو خواب میں حضرت ابراہیم کو اشارہ ملا کہ وہ اپنے اکلوتے فرزند کو ذبح کریں۔ آپ نے حضرت اسماعیل کی رائے دریافت کی تو انہوں نے سر تسلیم خم کردیا،چنانچہ آپ حکم کی تکمیل کے لئے مقررہ مقام پر پہنچے تو اس وقت اللہ نے ایک دنبہ بھیج دیا اور حضرت اسماعیل کو ذبح ہونے سے بچالیا۔
اس کے کچھ عرصے بعد حضرت ابراہیم و اسمٰعیل علیہماالسلام نے کعبہ کی تعمیر کی۔ یہ معلوم تاریخ میں کعبہ کی پہلی تعمیر تھی جو ۲۱۳۰ قبل مسیح میں عمل میں آئی۔ حضرت ابراہیم ہی کی دعا کی بنا پر مکہ کو رزق میں انتہائی برکت عطا کی گئی۔ پھر مکہ کو حرم بنادیا گیا جس میں لڑائی جھگڑا، ایذارسانی ، قتل یہاں تک کہ کسی جاندار کو اذیت پہنچانا حرام قرار دے دیا گیا۔ اس کے بعد آپ کو حکم ہوا کہ لوگوں کو حج کے لئے بلاؤ۔ چنانچہ حضرت ابراہیم نے حج کی منادی کی ۔ چنانچہ یہ حج اس وقت سے آج تک مکہ میں ہورہا ہے۔بیت اللہ کی یہ اہمیت صرف بنی اسمٰعیل کے لئے ہی نہیں تھی بلکہ یہ بنی اسرائیل کے لئے بھی تھی۔ چنانچہ ایک تحقیق کے مطابق یہود کوبھی قربانی اور عبادات کے وقت اپنا رخ بیت اللہ کی جانب ہی رکھنے کا حکم تھا اور بیت المقدس کا رخ بھی کعبہ ہی کی جانب رکھا گیا۔
حضرت ابراہیم واسمٰعیل علیہما السلام کی تعمیر کے بعد کعبہ دوبارہ قریش کے دور میں تعمیر ہوا۔ اس وقت کعبہ کی حالت کافی خستہ تھی۔ البتہ قریش کے لوگوں نے یہ فیصلہ کیا کہ کعبہ کی تعمیر میں صرف حلال رقم ہی خرچ کریں گے۔ چنانچہ رقم کم پڑ جانے کے باعث ایک حصہ کو کعبہ میں شامل نہیں کیا گیا۔ یہ حصہ آج بھی موجود ہے جسے حطیم کہتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ جس نے حطیم میں نماز پڑھی اس نے گویا کعبہ کے اندر نماز پڑھی۔
کعبہ کی اگلی تعمیر حضرت عبداللہ بن زبیر نے ۶۸۳ عیسوی میں کی جب یزید کی افواج نے خانہ کعبہ کو نقصان پہنچایا۔ اس تعمیر میں حطیم کو کعبہ کے اندر شامل کردیا گیا۔ بعد ازاں ۶۹۳ عیسوی میں عبدالملک بن مروان نے کعبہ کو ڈھا کر دوبارہ قریش کی طرز پر شامل کردیا اور حطیم کو کعبہ سے باہر کردیا۔ موجودہ کعبہ آج تک اسی تعمیر پر قائم ہے۔قدیم کعبہ چاروں طرف پہاڑوں سے گھرا ہوا تھا لیکن آج یہ بلندو بالا عمارتوں کے نرغے میں ہے۔ ایک جانب مکہ اور زم زم ٹاور ہے تو دوسری جانب سعودی محلات موجود ہیں۔
حرم میں لڑائی
میں ابھی بیٹھا جمعہ کی نماز کا انتظار ہی کررہا تھا کہ اچانک دو آدمی جگہ پر لڑ پڑے۔ اتفاق سے وہ دونوں پاکستانی تھے۔ میرے لئے یہ بات ناقابل یقین تھی کہ کوئی عین کعبہ کے سامنے بھی لڑ سکتا ہے۔ میں یہی سوچ رہا تھا کہ لوگ لاکھوں روپے خرچ کرکے اور اپنا گھر بار چھوڑ کر اللہ کی رہ میں حج کرنے آتے ہیں لیکن انہیں حج کا مقصد ہی معلوم نہیں ہوتا۔اس کی بنیادی وجہ مسلمانوں کی مناسب تربیت نہ ہونا ہے۔ اکثر علماء نے اسلام کو ظاہری عبادات اور رسومات کا ایک ڈھانچہ بنا کر ہی لوگوں کے سامنے پیش کیا اور عام طور پر اسی کی تبلیغ کی۔ انہوں نے اخلاقیات پر بہت زیادہ زور نہیں دیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج مسلمان عام طور پر اخلاقی گراوٹ کا شکار ہیں۔

بالآخر اما م صاحب نے جمعہ خطبہ دیا جس میں زیادہ تر عمومی ہدایات تھیں۔ نماز اول وقت میں پڑھادی گئی اور نماز کے بعد کوئی دعا نہیں مانگی گئی۔ سعودی علماء حنبلی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔سعودی حکومت کے قیام سے قبل حرم میں چار مصلے ہوتے تھے جس کی ابتدا کافی پہلے ہوئی تھی ۔ ہر مسلک کی جماعت الگ ہوتی تھی جن میں سب سے پہلے حنبلی مسلک کی جماعت ہوتی تھی۔ بعد میں یہ مصلیٰ ایک ہی کردیا گیا۔
حنبلی مسلک میں جماعت بالکل ابتدائی وقت میں ہوتی ہے یہاں تک کہ اگر ظہر کا وقت بارہ بج کر نو منٹ پر شروع ہو تو اسی وقت اذان دے دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حرم میں نماز کے اوقات ہردوسرے دن تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ حنبلی مسلک میں عصر کی نماز کا وقت بھی جلدی شروع ہوتا ہے۔ بلکہ حنفی مسلک کو چھوڑ کر تمام مسالک میں عصر کی نماز کا وقت وہ ہے جب سایہ ایک مثل یعنی اپنے قد کے برابر ہوجائے۔ پاکستا ن اور انڈیا کی اکثریت چونکہ حنفی مسلک سے تعلق رکھتی ہے اس لئے وہ خاصے تشویش میں ہوتے ہیں۔ لیکن احناف کے علماء کا فتوٰی ہے کہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھ لینے سے اول وقت میں بھی جماعت ہوجاتی ہے۔
طریق طریق
نماز پڑھ لینے کے بعد میں نے طواف شروع کیا۔ یہ میرا دوسرا طواف تھا۔ طواف اصل میں نماز ہی ہے لیکن یہ عبادت صرف کعبہ کے گرد ہی ہوسکتی ہے اور اس میں ضرورت کے وقت بات چیت کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ طواف کے دوران میں نے کچھ لوگوں کو احرام کی حالت میں بھاگتے ہوئے دیکھا۔ یہ رمل کہلاتا ہے۔ اس کی تاریخ یہ ہے کہ جب صلح حدیبیہ کے اگلے سال مسلمان عمرہ ادا کرنے مکہ آئے تو قریش کی عورتوں نے مسلمانوں پر طنز کیا کہ یہ تو مدینے میں رہ کر کمزور ہوگئے ہیں۔ اس کے جواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ تم لوگ اپنے پنجوں کے بل اکڑ کر تیز تیز چلو تاکہ دیکھنے والوں کو رعب اور طاقت کا احساس ہو۔ یہ رمل آج بھی سنت کے طور پر پہلے تین چکروں میں کیا جاتا ہے۔ لیکن اگر اس سے کسی کو تکلیف ہو تو یہ ممنوع ہے۔
مسجدالحرام میں تقریباً ہر نماز میں جنازے لائے جاتے تھے ۔ جنازہ کے بعد لوگ تیزی سے جنازہ اٹھاکر باہر کی جانب لے جاتے تھے اور ساتھ ساتھ طریق طریق بولتے جاتے تھے یعنی راستہ راستہ۔ پاکستانی حاجیوں کو عربی آئے یا نہ آئے لیکن وہ طریق طریق ضرور سیکھ لیتے ہیں۔
الرحیق المختوم
میری ہوٹل کافی آرام دہ تھی۔ میں اپنے ساتھ مولانا صفی مبارک پوری کی سیرت النبی کی معرکۃ الآراء کتاب الرحیق المختوم بھی ساتھ لے گیا تھا ۔ یہ کتاب میں نے اس سے قبل پڑھی ہوئی تھی لیکن مکہ میں پڑھنے کا لطف ہی کچھ اور تھا۔ جب میں نے اسے پڑھنا شروع کیا تو یوں لگا کہ میں چودہ سو سال قبل کے دور میں پہنچ چکا ہوں۔ آج وہ گلیاں اور محلے تو موجود نہ تھے لیکن اس کے آثار ضرور موجود تھے۔ یہ مکہ کے پہاڑ گواہ تھے اس تاریخ کے جو یہاں پر رقم ہوئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبو ت سے قبل کی زندگی، آپ کا صادق وامین کا لقب پانا، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا مال تجارت کی غرض سے لے کر جانا اور پھر آپ ﷺ کا حضرت خدیجہ سے نکاح کرنا۔پھر آپ کا غار حرا میں یکسوئی کے لئے جانا اور پھر فرشتے کا پہلی وحی لے کر آنا۔ وہ آپ کا قریش کو انذار کرنا اور پھر ان کے ظلم و ستم برداشت کرنا۔ وہ آپ کے چچا ابو طالب کا آپ کو سپورٹ کرنا، شعبہ بن ابی طالب میں ڈھائی سال تک مقاطعہ برداشت کرنا۔ وہ طائف کے سرداروں کو اسلام کی دعوت دینا اور پھر ا ن کا توہین آمیز سلوک جھیلنا ۔ یہ سب واقعات میرے ذہن میں ایک فلم کے مناظر کی طرح چل رہے تھے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت دراصل ایک نئے دور کا پیش خیمہ تھی۔ آپ کی بعثت کے ساتھ ہی آخری مرتبہ خدائی عدالت دنیا میں لگی تھی ۔ اس سے قبل کئی رسولوں کو دنیا میں بھیجا جاچکا تھا اوران رسولوں کے انکار پر اللہ کی عدالت سے موت کا فیصلہ ان کافر اقوام پر نافذ ہوچکا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے موقع پر یہی پیغام قریش یعنی بنی اسماعیل کو دے دیا گیا تھا کہ اگر انہوں نے سوچتے سمجھتے انکار کیا تو ان کا انجام بھی قوم عاد اور ثمود سے مختلف نہ ہوگا۔
تیرہ سالہ مکی دور کی جدوجہد کے نتیجے میں نبی کریم پر چند ہی لوگ ایمان لائے۔ بعد میں مدینے کے لوگوں نے اسلام قبول کرلیا اور آ پ نے مدینے ہجرت کی جہاں آپ نے ایک ریاست کی بنیاد رکھی۔مدینے میں قیام کے دس سال کے دوران اسلام عرب پر چھاگیا اور یوں ایک ایسی امت تیار ہوگئی جس نے رہتی دنیا تک پیغمبروں کا کام کرنا اور لوگوں کو شیطان کے رغبات سے دور کرکے رحمان کی جانب بلانا تھا۔
حج اور آج کے مسلمان
ابتدا میں تو مسلمانوں نے پوری دنیا کو خدا کی وحدانیت سے روشناس کرایا اور انہیں آخرت میں کامیابی کا پیغام خوش اسلوبی سے پہنچایا۔ لیکن آہستہ آہستہ مسلمانوں کی اکثریت شیطان اور نفس امارہ کے مقابلے میں شکست کھانے لگی۔آج چودہ سو سال بعد یہ حالت ہے کہ غیرمسلم دنیااس وقت الحاد، شرک، انکار آخرت، مادہ پرستی، جنسی بے راہروی، معاشی فساداورقتل و غارت گری جیسے گناہوں میں مبتلا ہے۔ ان تمام مسائل کا واحد علاج اسلام کی دعوت ہے۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ آج کے مسلمان جو معالج کی جگہ پر تھے خود ہی اخلاقی و روحانی بیماریوں میں مبتلا ہوگئے۔ جنہیں تعلیم دینا تھی خود ہی مغربی فلسفے سے مرعوب ہوگئے، جنہیں اسلامی تہذیب دنیا میں پھیلانی تھی خود ہی اغیار کی تہذیب کے خوگر ہوچلے۔
آج مسلمانوں کی اکثریت ظاہر پرستی کا شکار ہے ۔ ان کی اکثریت خدا کو مانتی ہے لیکن رسمی طور پر، آخرت کا عقیدہ رکھتی ہے لیکن زبانی حد تک۔اس امت کی اکثریت نے قرآن کو سمجھنا چھوڑ دیا ، نماز کو ترک کردیا، زکوۃ سے جان چھڑانے کے حیلے اختیار کئے،روزے کی روح سے محروم ہوگئے اور حج کو ظاہری رسومات کا مجموعہ بنالیا۔
دوسری جانب ہماری اخلاقی حالت بھی کوئی ڈھکی چھپی نہیں۔ چنانچہ فقہی یا سیاسی اختلاف پر تکفیر اور قتل کردینا ایک عام سی بات ہے۔ فرقہ بندی، حسد، نفرت، تشدد، جھوٹ، غیبت، بہتان ، فحش کلامی اور بدگوئی معمول ہے۔ اسی طرح سود خوری، ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی اورناجائز منافع خوری ہمارے معاشی نظام کے اجزا ہیں۔ سیاسی میدان میں دھوکہ دہی، بدعنوانی، مفاد پرستی، لوٹ مار اور اقربا پروری کی مثالیں عام ہیں۔
کم وبیش یہی مناظر پوری مسلم دنیا میں بھی دکھائی دیتے ہیں۔ چنانچہ آج مسلمانوں کی ایمان و اخلاق کی بگڑی ہوئی حالت کی بنا پر یوں محسوس ہوتا ہے کہ شیطان کا پلہ بھاری ہے۔ ایک طرف تو اس نے غیر مسلم دنیا میں بگاڑ پیدا کررکھا ہے تو دوسری جانب اس بگاڑ کو دور کرنے والے داعیوں کو بھی اپنے دام فریب میں الجھالیاہے۔ لیکن خدا کے چنے ہوئے بندے ہر دور میں موجود رہے ہیں جنہوں نے فساد کی فضا میں اپنے ایمان و عمل کی حفاظت کی اور خود کو طاغوتی یلغار سے محفوظ رکھا ۔ یہی لوگ اصل میں وہ لوگ ہیں جن کے لئے اس دنیا کی سیج سجائی گئی اور جنت کے انعامات مخصوص کردئے گئے۔ انہی بندوں پر آج دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ایک طرف تو انہوں نے امت مسلمہ کے داخلی بگاڑ کو درست کرنا ہے اور دوسری جانب غیر مسلم دنیا کو بھی اسلام کا پیغام حکمت و دانائی کے ساتھ پہنچانا ہے۔
حج اس داخلی و خارجی اصلاح کا نکتہ آغاز ہے۔حج کا بنیادی مقصد انسان کوروحانی تطہیر کا ایک موقع فراہم کرنا ہے تاکہ وہ گناہوں سے پاک ہو کر اپنی اصل فطرت پرلوٹ آئے اور جنت کی شہریت کے قابل ہوجائے۔ یہ حج مختلف عبادات کا ایک جامع پیکیج ہے جوتزکیہ نفس کے لئے اکسیر ہے۔ اس پیکیج میں نماز ، انفاق ، ہجرت، بھوک و پیاس، مجاہدہ، جہاد، زہد و درویشی ،قربانی، صبر، شکر سب شامل ہیں۔ دوسری جانب حج کے ذریعےمسلمان اسلام کے مرکز ، تاریخ اور شعائر سے آگاہ ہوتے اور اپنے آباء حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام کی قربانیوں سے روشنا س ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ حج شیطان کے خلاف جنگ کا ایک علامتی اظہار ہے۔ بندہ اپنے رب کی رضا کے لئے دنیا کی زینت کو خود پر حرام کرلیتا ہے۔ وہ اپنا میل کچیل دور نہیں کرتا، ناخن نہیں کاٹتا، جائز جنسی امور سے گریز کرتا ، مختصرلباس زیب تن کرتا، برہنہ پا اور ننگے سر ہوکرروحانی مدارج طے کرتا اور خدا کا تقرب حاصل کرتا ہے اور اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھتا جب تک وہ اپنے ازلی دشمن یعنی شیطان کو شکست سے دوچار نہ کردے۔
حج کا اصل فلسفہ تو یہی تھا کہ مسلمان اپنے ایمان و اخلاق کا جائزہ لیں، اپنی کمزوریوں کو پہچانیں، اپنی اصلاح وتربیت کریں اور پھر خدا کا پیغام پوری دنیا تک انسانوں کو پہنچائیں۔ اس طرح وہ خود بھی اس جنگ میں سرخرو ہوجائیں گےاور اپنے غیر مسلم بھائیوں کو بھی طاغوت کے فریب سے نکال دیں گے۔ لیکن افسوس آج کے مسلمان حج کو ایک فقہی حکم کے طور پر ادا کرنے آئے تھے اوران کی اکثریت حج کی روح سے نابلد تھی۔انہیں حج کے ظاہری مسائل کے بارے میں تو خوب تربیت دی گئی تھی لیکن حج کی روح اور فلسفے پر بہت کم علم فراہم کیا گیا تھا۔
رفث ، فسوق اور جدال
حج کے بارے میں قرآن میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر ہدایات دیں جن میں سب سے اہم ہدایت اس آیت میں ہے:

حج کے مہینے سب کو معلوم ہیں۔ جو شخص ان مقرر مہینوں میں حج کی نیّت کرے، اسے خبردار رہنا چاہیے کہ حج کے دوران میں اس سے کوئی شہوانی فعل ، کوئی فسق وفجور،کوئی لڑائی جھگڑے کی بات سرزد نہ ہو ۔ اور جو نیک کام تم کرو گے ، وہ اللہ کے علم میں ہوگا۔ سفرِ حج کے لیے زادِ راہ ساتھ لے جاؤ ۔ اور سب سے بہتر زادِراہ پرہیزگاری ہے ۔ پس اے ہوشمندو ! میری نافرمانی سے پرہیزکرو۔(البقرہ ۱۹۷:۲)

اس آیت میں واضح طور پر تین باتوں سے منع کیا گیا ہے جن میں پہلی ہدایت یہ ہےکہ رفث نہ ہو۔ رفث شہوانی باتوں کو کہتے ہیں۔ جنسی امور دو طرح کے ہوتے ہیں جائز اور ناجائز۔ حج کے دوران نہ تو کوئی جنسی عمل یعنی جماع کی اجازت ہے اور نہ ہی جنسی بات چیت کی ۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ حج جہاد کی ایک شکل ہے اور جہاد میں اصل مقصد اپنے دشمن کو شکست سے دوچار کرنا ہے نہ کہ جنسی معاملات سے لذت حاصل کرنا ۔ اس قسم کی کوئی بھی کوتاہی انسان کو اپنے اصل مقصد سے ہٹادیتی ہے۔
دوسری بات جس سے منع کیا گیا وہ ہر قسم کا چھوٹا اور بڑا گنا ہ ۔ یوں تو گناہ ویسے ہی ممنوع ہے لیکن حرم میں یہ بدر جہ اولیٰ منع ہے۔ حج میں گناہ کا جان بوجھ کر ارتکاب ایسا ہی ہے جیسے کوئی فوجی پیٹھ پھیر کر میدان جنگ سے فرار ہوجائے اور اسی پر بس نہ کرے بلکہ دشمن کی فوجوں میں شامل ہوجائے۔ حج کا مقصد خدا کی غلامی کا تقاضا پورا کرتے ہوئے طاغوتی محرکات کو شکست دینا ہے لیکن جب کوئی شخص گناہ کا ارتکاب کرتا ہے تو وہ خدا کی بندگی سے نکل کر طاغوت کی یلغار کا شکار ہوجاتا ہے ۔لہٰذا ابلیس کو شکست دینے کے لئے لازم ہے کہ خدا کی ہر چھوٹی اور بڑی نافرمانی سے حتی المقدور گریز کیا جائے۔

تیسری چیز جس سے روکا گیا وہ لڑائی جھگڑا ہے۔ اس میں ہر وہ عمل شامل ہے جو یا توبذات خود لڑائی ہو یا کسی فساد کا سبب بنے۔ جدال سے مرادزبانی لڑائی، بدتمیزی، بدگوئی اور ہاتھا پائی ہے ۔لڑائی کے اساب میں ایذا رسانی ، طنزو تشنیع ، دھکے بازی، بے احتیاطی سے طواف کرنا، بدگمانی ، بہتان ، تکبر وغیر ہ شامل ہیں۔ان سب سے گریز لازمی ہے ورنہ حج کے ثمرات حاصل کرنا مشکل ہے۔
یہ آیت میں نے اس قبل بھی کئی مرتبہ پڑھی تھی لیکن سمجھ میں اس وقت آئی جب حرم پہنچا۔ ان تینوں گناہوں کے مواقع بدرجہ اتم موجود ہوتے ہیں۔ دنیا بھر سے مختلف رنگ اور نسل کے مسلمان حاضر ہوتے ہیں ۔ ان میں خاص طور پر شام ، لبنا ن اور مصر کے لوگ غیر معمولی طور پر حسین ہوتے ہیں۔اس تنوع اور ظاہری حسن کی بنا پر بدنگاہی کا پورا امکان موجود ہوتا ہے۔ دوسری جانب لوگوں کی جائز جنسی ضروریات پر بھی پابندی کی بنا پر صنف مخالف میں کشش بڑھ جاتی ہے ۔نیز مطاف میں عورت اور مرد ایک ساتھ طواف کررہے ہوتے ہیں جس سے ایک دوسرے سے جسمانی طور پر بچنا بعض اوقات دشوار ہوجاتا ہے۔ یہ سارے عوامل شہوت کو ابھارنے میں معاون ہوسکتے ہیں اس لئے پہلے ہی حکم دے دیا کہ جائز و ناجائز جنسی عمل سے متعلق ایک لفظ بھی زبان پر نہ آئے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب خیالات میں پاکیزگی اختیا ر کی جائے اور یکسو ہو کر حج کے فلسفے پر عمل کیا جائے۔
جہاں تک عام زندگی کا تعلق ہے تو مسلمان بالعموم مختلف گناہوں میں ملوث ہوتے ہیں لیکن حج ایک تزکیہ اور تربیت کا عمل ہے ۔ چنانچہ یہاں اپنے آپ کو ہر قسم کے گناہ سے بچانا، آئیندہ کے لئے تربیت حاصل کرنا اور اسے ترک کرنے کا عزم کرنا لازمی ہے۔ اسی بنا پر ہر قسم کے گناہ کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ حج میں عام طور پر لوگ جن گناہوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں ا ن میں زبان کے گناہ یعنی جھوٹ، غیبت، بہتان، بدزبانی،لغو باتیں ، گستاخانہ مکالمے وغیرہ شامل ہیں۔ اسی طرح لوگ غیر قوم کے لوگوں کی زبان اور باڈی لینگویج نہ سمجھنے کی بنا پر بدگمانی، ٹوہ لینا، حسد، نفرت، کینہ وغیر ہ جیسے گناہوں کا شکار ہوجاتے ہیں ۔طواف کے دوران دھکے دینا ، حجر اسود کو بوسہ دینے کے لئےلوگوں کو ایذا دینا ، راستے میں نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوجانابھی بہت عام گناہ ہیں ۔نیز بازاروں میں اسراف کرنا، اللہ کی یاد کی بجائے شاپنگ میں وقت ضائع کرنا، خاص طور پر فجر کی نماز ترک کرنا بھی چند اور غیر مطلوب کام ہیں۔ سب سے اہم گناہ اللہ کے شعائر کی بے حرمتی کرنا ہے ۔ اس میں مسجدالحرام میں بلاوجہ شور شرابہ ، ہنسی مذاق، طواف میں بے ادبی، صفا مرو ہ کی تکریم نہ کرنا اور ان جگہوں کو پکنک پوائنٹ کے طور پر استعمال کرنا وغیرہ شامل ہیں ۔ ان سب سے بچنے کے لئے تعلیم اور تربیت دونوں کی ضرورت ہے۔
مکہ میں معمولات زندگی
مکہ میں قیام کی ابتدا میں ہی گلا خراب ہوگیا جوکہ یہاں ایک معمول کی بات تھی۔ میں نے دیکھا کہ کچھ لوگ ماسک لگا کر پھر رہے ہیں۔ ان دنوں میں سوائن فلو پھیلا ہوا تھا اور پاکستان سے بھی بہت سے لوگ اسی خدشے کی بنا پر حج کرنے نہیں آئے تھے۔ میرا یہ معمول تھا کہ تمام نمازیں حرم میں پڑھتا اور دن میں دو سے تین مرتبہ طواف بھی کرتا تھا۔ ابتدا میں رش اتنا نہیں تھا لیکن آہستہ آہستہ رش بڑھتا جارہا تھا۔
سردی اور کثرت طواف کے باعث میرے پاؤں پھٹ چکے تھے چنانچہ میں نے پہلی مرتبہ چمڑے کے موزے پہنے۔لیکن وہ موزے سلپری تھے ۔ ایک مرتبہ میں یہی موزے پہن کر طواف کررہا تھا کہ اچانک سلپ ہوگیا۔ برابر چلنے والی ایک پاکستانی بوڑھی خاتون نے بسم اللہ کہہ کر مجھے پکڑ لیا اور گرنے سے بچالیا۔
ایک اور واقعہ طواف میں یہ پیش آیا کہ میری بیوی نے خواہش ظاہر کی کہ حطیم میں نماز پڑھنی ہے۔ میرے منع کرنے کے باوجود وہ نہ مانیں۔ چنانچہ جب میں انہیں حطیم کے قریب لے کر گیا تو ان کا دم رش کی بنا پر گھٹنے لگا۔ چنانچہ انہوں نے اپنا ارادہ ترک کردیا۔ البتہ رکن یمانی کو چھونے کی خواہش ظاہر کی۔ میں جب انہیں لے کر رکن یمانی کے قریب پہنچا تو پیچھے سے ایک ریلا آیا اور میں اپنی بیوی سمیت آگے موجود عرب میاں بیوی پر جاگرا۔ انہوں نے شکایتی نظروں سے مجھے دیکھا لیکن میں نے جب اپنی باڈی لینگویج سے اپنا عذر پیش کیا تو انہوں نے اسے قبول کرلیا۔
طواف کے دوران میں نے ایک مثبت بات نوٹ کی کہ لوگ ایک دوسرے کو جان بوجھ کر دھکا دینے سے گریز کرتے تھے ۔ البتہ کچھ لوگ بلاوجہ چلتے ہوئے آگے والے کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیتے اور اپنا بوجھ دوسرے پر منتقل کرنے کی کوشش کرتے جس سے بڑی الجھن ہوتی تھی۔
مسجد الحرام میں خاکی وردی والے شرطے (عربی میں شرطہ پولیس کو کہتے ہیں) اور برقع پوش خواتین خدام حرم کی صورت میں تعینات تھے ۔یہ لوگوں کو راستے میں بیٹھنے سے روکتے اور کسی بھی ناخوشگوارواقعے سے نبٹنے کے لئے تیار رہتے تھے۔ ایک مرتبہ میں نے دیکھا کہ ایک شخص کو شرطے پکڑ کر لے جارہے ہیں ۔ یہ غالبا کسی قانون کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا تھا۔ لیکن اس دوران کوئی بدنظمی نہیں ہوئی اور لوگ طواف میں مصروف رہے۔
ایک صاحب کو طواف کرتے دیکھ کر رشک آنے لگا۔ یہ صاحب دونوں ٹانگوں سے محروم تھے اور گھسٹ کر طواف کررہے تھے۔ حالانکہ وہاں وہیل چئیر کی سہولت موجود تھی لیکن انہوں نے اپنے جسم کو اللہ کی راہ میں ڈال کر طواف کرنا پسند کیا۔
مسجد میں نماز کے دوران تو مکمل خاموشی رہتی تھی لیکن نماز کے بعد ہر وقت مسلسل شور ہوتا رہتا ۔ اس کی بڑی وجہ لوگوں کا باتیں کرنا تھا۔ اس شور کی بنا پر یکسوئی میسر نہ آتی تھی۔ اسی یکسوئی کو حاصل کرنے کے لئے میں حرم میں رات ڈھائی بجے بھی گیا لیکن شور میں کوئی کمی محسوس نہیں ہوئی۔
مسجد میں جگہ جگہ آب زم زم کے کولر رکھے تھے جن میں ٹھنڈا اور گرم پانی تھا۔ طواف کے بعد اکثر پیاس زیادہ لگتی تھی جس سے لوگ ٹھنڈا پانی پیتے اور اپنا گلا زیادہ خراب کرلیتے تھے۔ میں نے یہ احتیاط کی کہ پانی ملا کر پیوں۔ کچھ لوگ زم زم کے کولر ہی سے وضو کرنے لگ جاتے تھے۔ وہاں کےخدام انہیں منع کرتے لیکن لوگ پھر بھی باز نہ آتے۔ وہاں صفائی کا نظام بہت شاندار دیکھا۔ عین طواف کے دوران صفائی ہوتی رہتی تھی اور یہ کام مسلسل جاری رہتا۔
قیام کے دوران اکثر دوستوں کا پاکستان سے فون آجایا کرتا تھا جن میں الطاف، صبیح، مفتی طاہر عبداللہ، طاہر کلیم اور پرویز صاحب سر فہرست تھے۔ یہ حضرات اکثر اپنے لئے دعاؤں کا کہتے اور میں یاد سے ان تمام لوگوں کے لئے دعائیں مانگتا۔ایک ہفتے کے بعد ایک اور عمرہ بیگم کے ساتھ ادا کیا۔ عمرے کے لئے ایک ٹیکسی مسجدعائشہ جانے کے لئے ۳۰ ریال میں حاصل کی۔ اس میں دانش اور یاسر بھی میرے ساتھ تھے۔ مسجد عائشہ جاکر عمرے کی نیت کی اور پھر واپس ہوکر عمرہ اور سعی کی۔
دوسرے عمرے کے بارے میں فقہا کا اختلاف ہے۔ اہل حدیث حضرات کا کہنا ہے کہ یہ خلاف سنت ہے کیونکہ نبی کریم نے ایک سفر میں ایک ہی عمرہ ادا کیا حالانکہ انہوں نے مکے میں ۱۵ دن سے زائد بھی قیام کیا ۔ دوسر ی جانب احناف اس حدیث سے استدلا ل کرتے ہیں جس میں حجۃ الوداع کے موقع پر حضرت عائشہ عمرہ اد انہ کرپائی تھیں اورمخصوص ایام سے فارغ ہونے کے بعد آپ نے عمرہ ادا کرنے کی کی خواہش ظاہر کی تو نبی کریم نے انہیں تنعیم کے مقام پر جاکر احرام باندھنے اور عمرہ کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ یہ وہی تنعیم ہے جہاں آ ج مسجد عائشہ موجود ہے۔
حرم چاروں طرف سے بازاروں اور ہوٹلوں سے گھرا ہوا تھا۔ لوگ نمازوں سے فارغ ہوکر اپنا زیادہ وقت یہیں گذارتے تھے۔ دراصل لوگوں کی تربیت نہیں ہوئی تھی کہ کس طرح اللہ سے تعلق قائم کیاجاتا ہے؟ کس طرح اس سے مناجات کی جاتی، کیسے اس کے تصور میں کھویا جاتا اور کس طرح سے اپنے معاملات اس کے سپرد کئے جاتے ہیں۔
حج کے اس سفر کا بنیادی مقصد آخرت کی فلاح تھا لیکن لوگ دنیا سے نکلنے کو تیار نہ تھے۔ نماز، طواف اور تلاوت کے علاوہ باقی دنیا ہی دنیا تھی۔ دعائیں بھی اسی دنیا کی ترقی کے لئے مانگی جاتی تھیں ۔ حرم کے باہر یہی دنیا منہ کھولے کھڑی تھی اور سرماِ یہ آخرت کی بجائے دنیاوی سامان کی خریداری زورو شور سے جاری تھی۔ ہمارے گروپ کی تربیتی کلاسوں میں نہ صرف حج کے مناسک کے بارے میں بتایا گیا تھا بلکہ غیبت، جھوٹ، چغلی ، ایذارسانی اور دیگر اخلاقی برائیوں سے بھی آگاہ کیا گیا اور ان سے بچنے کی ہدایات دی گئی تھیں۔ ان کی بنا پر گروپ کے لوگ بالعموم ان برائیوں سے بچنے کی کوشش کرتے اور ظاہر کے ساتھ اپنا باطن بھی درست رکھنے کا اہتما م کررہے تھے۔
ان طوافوں کے دوران میں نے ایک بات نوٹ کی وہ یہ کہ جو جوش ولولہ اور کیفیت ابتدائی دنوں میں تھی اس میں کمی آرہی تھی۔ میرے دل میں یہ خیال آیا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ میں اللہ سےدور ہورہا ہوں۔ لیکن پھر ایک عارف کی بات یاد آئی کہ کیفیت تو آنی جانی شے ہے۔ اصل مقصود تو اللہ کی عبادت اور اطاعت ہے۔ اگر یہ ہو تو کیفیت کی کوئی خاص اہمیت نہیں۔ اکثر لوگ جذباتیت اور رقت ہی کو تعلق باللہ کی علامت سمجھتےہیں اور جب یہ کم ہونے لگتی ہے تو خودبھی عبادت میں کمی یا اسے ترک کردیتے ہیں۔ حالانکہ کیفیت کا ہونا یا نہ ہونا دونوں آزمائش ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ یہ بھی دیکھنا چاہتے ہیں کہ میرا بندہ میرے لئے عبادت کرتا ہے یا دل کی لذت و کیفیت کے لئے۔
میرا روم میٹ یاسر ایک ۳۰ سالہ نوجوان تھا۔ وہ روزانہ صبح اٹھتا اور ایک عمرہ کرکے آجاتا۔ جبکہ ہر نماز کے بعد ایک طواف اس کا معمول تھا۔ میں ایک دن میں تین طواف ہی کرپاتا کیونکہ گروپ لیڈر نے ہدایت کی تھی کہ حج سے پہلے توانائی بچائی جائے اور کسی بھی غیر ضروری تھکن سے بچا جائے تاکہ حج کے مناسک پر کوئی اثر نہ پڑے۔
ہوٹل میں صبح کا ناشتہ فری ہوتا تھا جبکہ باقی اوقات کا کھانا باہر کھانا پڑتا تھا۔ وہاں سالن کے ساتھ روٹی فری تھی ۔ ایک پلیٹ میں دو افراد باآسانی کھا لیتے تھے۔ ایک دو مرتبہ برگر کھانے کا بھی اتفاق ہوا لیکن وہ زیادہ پسند نہ آیا۔۸ نومبر کو میرے ہم زلف آفتاب جدہ سے مکہ ملنے کے لئے آئے۔ جدہ سے تمام راستوں پر سخت چیکنگ تھی اور کسی کو مکہ آنے نہیں دیا جارہا تھا لیکن آفتاب کسی نہ کسی طرح مکہ میں داخل ہوہی گئے۔ آفتاب کے ساتھ وہاں کی ایک مقامی ڈش مندی بھی کھائی جس میں چاول کے ساتھ گوشت بھی شامل تھا۔ آفتاب کے علاوہ دیگر رشتے داروں سے بھی ملاقات ہوئی ان میں میرے رشتے کے چچا رشید انکل بھی تھے۔ وہ امریکہ میں قیام پذیر ہیں اور اپنی فیملی کے ساتھ حج کرنے آئے ہوئے تھے۔
کعبہ کا دیدار اور صفات الٰہی
مکہ میں قیام کے دوران میرا معمول تھا کہ میں اکثر بیٹھ کر کعبے کو دیکھتا رہتا کیونکہ حدیث میں آیا ہے کہ کعبہ کو دیکھنا بھی عبادت ہے۔ جب میں نے غور کیا تو اس حکم کا فلسفہ سمجھ میں آگیا۔میں نے جب بھی کعبہ کو دیکھا تو مجھے اللہ کا جمال، جلال اور کمال نظر آیا۔
کعبہ کے دیدا ر میں اللہ کی رحمت مطلق کی شبیہ دکھائی دیتی کہ وہ اپنی مخلوق کے ساتھ کتنے مہربان، شفیق، نرم دل اور سخی اور ہیں انہوں نے انسان کو وجود بخشا، اسکی فطرت میں خیر و شر کا شعور ودیعت کیا ، اس کی راہنمائی کے لئے وحی کا سلسلہ شروع کیا اور پھر کعبے کی صورت میں اپنا گھر تعمیر کردیا کہ جسے خدا سے محبت ہے وہ کعبے کے دیدار سے اپنی نگاہوں کو سیر کرلے۔
میں اکثر بیٹھا خدا کی رحمت کے بارے میں سوچتا رہتا کہ اس نے مخلوقات کو پیدا کیا ، ان میں تقاضے پیدا کئے اور پھر ان تقاضوں کو انتہائی خوبی کے ساتھ پورا کرتے ہوئے اپنی رحمت، لطف اور کرم نوازی کا اظہار کیا۔چنانچہ اس دیدار کے دوران کبھی خدا مجھ پر محبت اور شفقت نچھاور کرتا نظر آتاتو کبھی وہ میری باتیں سنتا، میری غلطیوں پر تحمل سے پیش آتا، خطاؤں سے درگذر کرتا ، میری حقیر نیکی کی قدر دانی کرتا اور مجھے بے تحاشا نوازتا دکھائی دیتا ۔ یہی نہیں بلکہ جب بھی میں مشکل میں گرفتا ر ہوا تو وہ میرے لئے سراپا سلامتی ،پناہ کی چٹان اور ہدایت کا نور بنتا محسوس ہوتا ۔
لیکن اسی رحمت مطلق کے ساتھ ساتھ مجھے کعبے میں خدا کے جلا ل کا اظہار بھی نظر آتا۔ اس میں مجھے کائنات کے بادشاہ کا جلا ل و عظمت دکھائی دیتی جو ہر شے پر قدرت رکھتا ہے،جو کسی کے سامنے جواب دہ نہیں۔جو مقتدر اور بااختیار حاکم ہے، جو اپنی مخلوق پر ہر قسم کا تصرف رکھتا اور اپنی سلطنت کے ایک ایک پتے اور ہر ذرے پر مکمل اقتدار کا حامل ہے۔ اس دنیا کے ٹٹ پونجئیے صدور اور بادشاہ کے دربار میں لوگ جب جاتے ہیں تو زبانیں گنگ ہوجاتی، حلق خشک اور قدم لرزتے ہیں کہ کون سی بات حضور کو ناگوار گذر جائے اور میرا قصہ پاک ہوجائے۔ چنانچہ جب مجھے اس بادشاہوں کے بادشاہ کی قہاری عظمت اور بزرگی، بڑائی، شان اورشوکت کا تصور آتا تو ایک سنسنی اور خوف کا احساس ہوتا کہ کس ہستی کے محل میں بیٹھا ہوں ۔ اس احساس کے باعث میں لرز جاتا اور دل میں انتہائی خشیت ، پستی اور تذلل کا احساس ہوتا۔ لیکن پھر میں اسی کی رحمت کے دامن میں پناہ لینے کی کوشش کرتا۔
کعبے کا تفرد خدا کی یکتائی اور کمال کا بھی اظہار تھا کہ خدا اپنی ذات میں تنہا اور اکیلا ہے اور اس جیسا کوئی نہیں ہے ۔وہ اپنی صفات میں بھی یکتا و یگانہ ہے ۔ وہ قدوس ہے یعنی ہر نقص، عیب، برائی سے پاک اور منزہ ۔ہر ظلم، ناانصافی، بدیانتی ، بے حکمتی ، جذبات کی مغلوبیت اور ہر غلط صفت یا فعل سےمبرا۔ وہ ممدوح، ستودہ، پسندیدہ اور قابل تعریف ہستی ہے ۔

کعبے کا دیدار خدا کے گھر کا دیدار تھا۔ اور جب کوئی چاہنے والا اپنے محبوب کی چوکھٹ پر بیٹھ جاتا ہے تو وہ کبھی خالی ہاتھ نہیں لوٹتا۔ میں نے دیکھا کہ بہت سے دیگر لوگ بھی کعبے کے دیدار میں مشغول رہتے اور اپنے رب کے جمال ، جلال اور کمال کو محسوس کرتے تھے۔ ان کا دل یہی دعا کر رہا ہوتا تھا:
“اے اللہ! میں تیرا بندہ ہوں، تیرے بندے کا بیٹا ہوں، تیری لونڈی کا بیٹا ہوں اور مکمل طور پر تیرے قبضہ میں ہوں۔ میری پیشانی کے بال تیرے ہاتھ میں ہیں تیری مدد کے بغیر مجھے حرکت و سکون کی قوت بھی حاصل نہیں ۔ تیرے حکم کو کوئی روکنے والا نہیں ۔جو تو کہتا اور چاہتا ہے وہی ہوتا ہے میرے بارے میں تیرا فیصلہ سراپا عدل و انصاف ہے۔ پس میں تجھ سے ہر نام کے وسیلہ سے مانگتا ہوں جسے تو نے اپنی ذات کے لئے اختیار کیا ہے یا اس کو اپنی کتاب میں نازل کیا ہے یا اس کو اپنی مخلوقات میں سے کسی کو سکھایا ہے کہ تو مجھے کامل طور پر اپنی غلامی میں لے لے اور مجھے غلامی کے آداب سکھا کر کامیابی سے ہمکنار کردے”۔
مقدس مقاما ت کی زیارت
کچھ دنوں بعد ہمیں مقدس مقامات کی زیارت پر لے جایا گیا۔ دو بسوں میں ہمارے گروپ کے تمام افراد سماگئے۔ سب سے پہلے غار ثور کو دور سے دیکھا ۔ یہ انتہائی بلندی پر واقع تھی۔ اس غار میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ پناہ لی تھی۔ یہ غار مدینے جانے والے راستے کی مخالف سمت تھی۔ روایات کے مطابق درالندوہ یعنی پارلیمنٹ میں قریش کے سرداروں نے مل جل کر فیصلہ کرلیا کہ تمام قبیلے ایک ساتھ مل کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کردیں ۔ اس طرح بنو ہاشم یعنی نبی کریم کے قبیلے کے لئے سب سے بدلہ لینا ممکن نہ ہوگا اور وہ دیت پر آمادہ ہوجائیں گے۔ اس پلاننگ کے بعد سب مخالفین نے آپ کے گھر کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔لیکن اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہیں۔ چنانچہ اللہ نے اس گھناؤنی سازش سے بچانے کا پہلے ہی اہتمام کردیا تھا۔ آپ نے اپنے بستر پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو سلادیا اور خود کفار کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے ان کے سامنے سے نکل گئے اور کوئی آ پ کو نہ دیکھ پایا۔
آپ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہمراہ مدینے جانے والے راستے کی مخالف سمت چلے اور اس غار میں پناہ لی۔ یہ غار انتہائی پرخطر اور پتھروں سے بھرا ہوا تھا جس کی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں بھی زخمی ہوگئے۔ یہاں نبی کریم نے تین راتیں چھپ کر گذاریں۔ اس غار کے ارد گردحضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے غلام عامر بن فہیرہ بکریاں چراتے رہتے اور جب رات ہوجاتی تو انہیں بکریوں کا دودھ پلاتے۔ ایک مرتبہ جب حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے غار کے باہر چند آدمیوں کے پاؤں دیکھے تو انہوں نے آپ سے اس تشویش کا اظہار کیا۔ لیکن آپ نے کمال کے توکل کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ابو بکر تمہارا ان لوگوں کے بارے میں کیا خیال ہے جن کا تیسرا ساتھی اللہ ہو۔
غار ثور کے بعد اگلا مقام غار حرا دیکھا۔ یہ وہ غار تھا جہاں نبوت سے قبل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عبادت کیا کرتے تھے۔ یہ غار مکہ سے دو میل کے فاصلے پر ہے۔ یہ ایک مختصر سا غار ہے جس کا طول چار گز اور عرض پونے دو گز ہے۔ غار حرا کا رخ کچھ اس طرح کا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کعبہ ہوا کرتا تھا۔ یہاں آپ ستو اور پانی لے کر قیام کرتے، آنے جانے والے مسکینوں کو کھانا کھلاتے اور اللہ کی عبادت کرتے تھے۔ اسی غار میں آپ کی ملاقات جبریل امین علیہ السلام سے ہوئی جنہوں نےپہلی مرتبہ آپ کے قلب پر اللہ کی آیات القا ء کیں۔
آگے چلے تو میدان عرفات دیکھا ۔ یہ وہ میدان ہے جہاں حج کا رکن اعظم ’’وقوف عرفہ‘‘ ادا کیا جاتا ہے ۔ حاجی کے لئے اس میدان میں نو ذی الحج کو زوال کے بعد قیام کرنا لازمی ہے اور اگر کسی وجہ سے ایسا نہ ہوپائے تو حج نہیں ہوتا۔ یہ ایک بہت بڑا میدان ہے جو نوذی الحج کو لاکھوں حاجیوں کو سمونے کی گنجائش رکھتا ہے۔ ایک روایت کے مطابق حشر بھی اسی میدان میں واقع ہوگا۔یہیں وہ عظیم پہاڑ جبل رحمت بھی واقع ہے جس کے دامن میں آپ نے اپنا مشہور خطبہ حجۃ الوداع خطاب فرمایا تھا۔
عرفات کے ساتھ ہی منیٰ کی وادی بھی دیکھی۔ یہ وادی خیموں سے پٹی ہوئی تھی۔ ان خیموں میں حجاج ۸ ذی الحج اور پھر دس ، گیارہ اور بارہ ذی الحج کو قیام کرتے ہیں۔ بس میں گائیڈ ہمیں راستوں کے بارے میں بتا رہا تھا کیونکہ حج کے دنوں میں ہمیں بھی یہیں آنا تھا۔ منیٰ سے متصل جمرات کو بھی دور سے دیکھا جہاں کنکریاں ماری جاتی ہیں۔ اسی راستے پر اسمٰعیل علیہ السلام کو قربان کرنے کی جگہ بھی دیکھی جہاں نشانی کے طور پر سفید پتھر نصب کیا گیا تھا۔
عزیزیہ میں شفٹنگ
زیارت کے بعد یکم ذی الحج کو ہم حرم کے قریب واقع ہوٹل سے عزیزیہ کے مقام پر شفٹ ہوگئے۔ عزیزیہ کعبے سے پانچ کلومیٹر دور ہے اور اس کے قریب منیٰ اور جمرات واقع ہیں۔ یہ ہوٹل السرایا ایمان کی طرح شاندار تو نہ تھا البتہ صاف ستھرا تھا۔ اسی بلڈنگ میں الخیر گروپ کے لوگ بھی ٹہرے ہوئےتھے۔ اس بلڈنگ میں تبلیغی جماعت کے لوگ آکر بیان دیتے تھے اور ایک مرتبہ سعید انور صاحب نے بھی بیان کیا۔ اس ہوٹل سے کچھ ہی دور مولانا طارق جمیل ، جنید جمشید اور دیگر اہم شخصیات قیام پذیر تھیں۔
اس سے پہلے جس ہوٹل میں قیام تھا وہاں ایک کمرے میں تین افراد ہی مقیم تھے جس کی بنا پر لوگوں سے ملاقات کا کم وقت ملتا تھا۔ لیکن یہاں ایک بڑے سے ہال نما کمرے میں کوئی آٹھ افراد قیام پذیر تھے اور لوگوں سے رابطہ بڑھ گیا۔ یہاں پر شارق، ریحان عابد اور دیگر لوگوں سے بھی دوستی ہوگئی۔ جبکہ میرا دوست آصف بھی برابر والے کمرہ میں مولانا اسلم شیخوپوری کے ہمراہ موجود تھا۔یہاں لدھیانوی ٹریولرز نے تین وقت کا کھانا بھی دینا شروع کردیا حالانکہ یہ پیکیج کا حصہ نہ تھا۔یہاں معمول یہ تھا کہ مولانا اسلم شیخوپوری فجر کے بعد اپنا بیان دیتے جس میں حج کے بارے میں ہدایات دی جاتی تھیں۔ اس بلڈنگ کے گراؤنڈ فلور پر ایک حصہ مسجد کے لئے مختص کردیا گیا تھا جہاں ہر نماز کے بعد تبلیغی جماعت والوں کا بیان ہوتا تھا جس میں حج کے فضائل بیان کئے جاتے تھے۔
عزیزیہ کا علاقہ سیاہ پہاڑوں کی آماجگاہ تھا۔ ارد گرد بے شمار حاجی رکے ہوئے تھے۔ بلڈنگ سے ایک گلی چھوڑ کر ایک چھوٹی سی مسجد تھی جہاں کے امام عرب تھے اور انکی قرات بہت خوبصورت تھی۔ قریب آدھے میل دور ایک بڑا ڈیپارٹمنٹل اسٹور بن داؤد بھی تھا جہاں اکثر چیزیں خریدنے کے لئے جانا ہوا۔ عزیزیہ چونکہ مسجد الحرام سے دور تھا اس لئے اکثر نمازیں یہیں ادا کرنی پڑتیں۔
چپلیں
یہاں سے ایک شٹل سروس بھی چلتی تھی جو لوگوں کو حرم لے کر جاتی اور آتی تھی۔ عزیزیہ منتقل ہونے کے دوسرے دن میں آصف اور ان کے دو دوستوں کے ہمراہ شٹل میں بیٹھ کر حرم کی جانب روانہ ہوا۔ راستے میں بس خراب ہوگئی چنانچہ راستہ پیدل طے کرنے کا فیصلہ کیا۔ عصر کی نماز قریب تھی چنانچہ تیز تیز قدموں سے مسجد پہنچے جہاں چھت پر جگہ ملی۔میرے پاس چپل رکھنے کے لئے کوئی تھیلی نہ تھی البتہ راستے سے ایک تھیلی اٹھائی اور اس میں اپنی اور آصف کی چپلیں رکھ لیں۔ عصر کی نماز کے قریب آدھے گھنٹے بعد تک وہیں بیٹھے رہے پھر طواف کرنے کے لئے نیچے اترے۔ مجھے علم نہیں تھا کہ واپسی کا راستہ کس طرح طے کرنا ہے اس لئے میں نے دانش کو بتادیا تھا کہ میں اس کے ساتھ جاؤں گا۔ عصر کے بعد ایک طواف کیا۔مغرب اور عشاء پڑھی اور پھر ایک اور طواف کیا۔
آصف مجھ سے جدا ہوچکا تھا لیکن اس کی چپلیں میرے پاس تھیں۔ ہم نے پہلے ہی طے کرلیا تھا کہ جدائی کی صورت میں باب عزیز کے پاس جو گھنٹہ گھر ہے وہاں ملاقات کرنی ہے۔ چنانچہ میں وہاں پہنچ گیا لیکن وہاں بے پناہ رش تھا۔ میں نے آصف کو کال کی لیکن کوئی کامیابی نہ ہوئی۔ میں نے کالز کا سلسلہ جاری رکھا لیکن کوئی رابطہ نہ ہوپایا۔ اسی اثنا میں دانش کو فون کیا تو پتا چلا کہ وہ نکل چکا ہے اور بس کے اسٹاپ پر موجود ہے۔ میں گھبراگیا ۔ ایک جانب آصف سے رابطہ نہیں ہورہا تھا اور وہ ننگے پاؤں تھا تو دوسری جانب بس نکل رہی تھی جو غالبا آخری بس تھی۔اب میرے پاس دو راستے تھے۔ یا تو میں وہیں کھڑا رہ کر آصف کا انتظار کروں جس کے آنے کا کوئی علم نہ تھا۔ دوسرا راستہ یہ تھا کہ دانش کے پاس چلا جاؤں اور آصف کو راستہ بھی گائیڈ کروں کیونکہ امکان تھا کہ وہ چپلیں قریب بازار سے لے لےگا۔ چنانچہ میں نے دانش کے پاس جانے کا فیصلہ کیا۔
جب میں بس میں بیٹھ کر روانہ ہوا تو آصف کا فون آگیا لیکن میں نکل چکا تھا۔ آصف بے چارہ ننگے پاؤ ں ہی راستہ طے کرکے عزیزیہ پہنچا۔ آصف کے ساتھیوں نے مجھ سے شکایت کی لیکن آصف نے میرا فیور لیا۔ بعد میں میں نے آصف سے اپنے غلط اجتہاد کی معافی مانگ لی۔

مولانا اسلم شیخوپوری سے نشست
میرے کمرے سے متصل کمرے میں مولانا اسلم شیخوپوری مقیم تھے ۔ ایک دن جب وہ اکیلے بیٹھے ہوئے تھے تو ان سے ملاقات کی غرض سے ان کے پاس گیا۔ میں نےان سے دریافت کیا کہ اللہ سے تعلق کو مضبوط کرنے کے لئے کیا اقدام کرنے چاہئیں۔ انہوں نے ایک آہ بھری اور کہا کہ میاں یہ تو ساری زندگی کا سودا ہے، یہ اپنی زندگی کا ہر پہلو رب کے نام کرنے کا مشن ہے۔ کئی لوگ اس میدان میں آئے اور ناکام ہوگئے۔ بس اس کا حل یہی ہے کہ اپنی رضا خدا کی رضا کے تابع کردی جائے۔ میں نے ان سے کچھ تفاسیر کے بارے میں دریافت کیاتو انہوں نے اس کےبارے میں بتایا لیکن اختلاف رائے کے باوجود کسی کی برائی نہیں کی۔ آخر میں ان کو میں نے اپنے خود احتسابی سوالنامے کا تعارف کرایا۔ وہ اس کے بارے میں سن کر بڑے خوش ہوئے اور خاصی حوصلہ افزائی کی اور پاکستان پہنچنے پر اسے دیکھنے کی خواہش بھی کی۔اس پوری گفتگو میں میں نے انہیں ایک عجزو انکساری کا پیکر پایا۔
مسجد عقبہ
عزیزیہ میں فراغت کا کافی وقت ہوتا تھا اس لئے نماز وغیرہ سے فارغ ہوکر ہم مٹرگشت کے لئے نکل جاتے تھے۔ وہاں سے جمرات یعنی کنکریاں مارنے کی جگہ صرف دس منٹ کی واک پر تھی۔ جمرات کے قریب ایک قدیم تاریخی مسجد دیکھی۔ اس پر پیلے رنگ کا روغن تھا اور وہ کچے گارے کی بنی ہوئی تھی۔ اس کے دروازے پر تالا تھا اور چند صفیں باہر سے منتشر حالت میں دکھائی دے رہی تھیں۔ ایک تختی پر عربی رسم الخط میں کچھ لکھا ہوا تھا جو پرانا ہونے کے سبب ناقابل مطالعہ تھا۔ البتہ تختی پر خلیفہ مستنصر باللہ کا نام کندہ تھا اس سے پتا چلتا تھا کہ یہ عباسی دور کی مسجد ہے۔ جب تحقیق کی تو علم ہوا کہ اس کا نام مسجد عقبہ ہے۔ یہاں پر یثرب سے آنے والوں نےبیعت کی تھی۔
جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ حج عرب میں ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے جاری ہے۔ چنانچہ یہ حج اس وقت بھی جاری تھا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت نہیں ملی تھی۔ نبوت کے بعد جب نبی کریم صلہ اللہ علیہ وسلم نے دعوت کی ابتدا کی تو حج کے موقع کا بھی بھرپور استعما ل کیا کیونکہ سارے عرب کے قبائل یہاں حج کے لئے حاضر ہوتے تھے۔کئی سالوں تک آپ حج میں تبلیغ کرتے رہے۔ ابتدا میں تو کوئی خاص کامیابی نہیں ہوئی لیکن بعد میں مدینے سے آنے والے وفد نے نبوت کے گیارہویں سال اس دعوت پر غور کیا اور گیارہ آدمیوں نے اسلام قبول کرلیا اور یہ وعدہ کیا کہ وہ مدینے جاکر اسلام کی تبلیغ کریں گے۔
اگلے سال حج میں دوبارہ مدینے سے وفد آیا اور اس نے پہلی بیعت کی ۔ یہ بیعت ایک گھاٹی پر خفیہ طریقے سے ہوئی تاکہ قریش کو کانوں کان خبرنہ ہو۔ گھاٹی کو عربی میں عقبہ کہتے ہیں اسی لئے اس بیعت کوبیعت عقبہ اولیٰ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی تبلیغ کے لئے حضرت معصب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو بھی ساتھ بھیج دیا۔نبوت کے کے تیرہویں سال ایک مرتبہ پھر حج کے دنوں میں مدینے کا وفد آیا اور ایک اور بیعت ہوئی جسے بیعت عقبہ ثانی کہتے ہیں ۔ یہ بیعت بھی اسی مقام پر رات کی تاریکی میں ہوئی۔ چونکہ یہ گھاٹی منیٰ کے آخری کونے پر بڑے جمرے کے سامنے واقع تھی اس لئے اس کا انتخاب کیا گیا۔اس میں نبی کریم کی ہجرت کے منصوبے کو فائنل کیا گیا۔ اسی مقام پر یہ مسجد بعد میں تعمیر کی گئی جسے مسجد عقبہ کہتے ہیں۔
خیمے کی سیر
حج کے دن قریب آتے جارہے تھے۔ میں کعبے سے دور تھا لیکن دل وہیں لگا رہتا تھا۔ درمیان میں ایک جمعہ بھی آیا۔ جسے ادا کرنے کے لئے میں شارق اور ریحان کے ساتھ مسجد الحرام روانہ ہوا۔ یہ راستہ ہم نے طریق المشا ہ یعنی پیدل چلنے والوں کے راستے کے ذریعے طے کیا۔ یہ ایک طویل سرنگ تھی جو تقریباً پون گھنٹے پیدل چلنے کے بعد مسجدالحرام پر جاکر ختم ہوتی تھی۔ وہاں پہنچے تو مسجد بھر چکی تھی اور باہر ہی جگہ ملی۔ امام صاحب نے خطبہ دیا اور نماز پڑھائی۔
وہاں میں نے طواف کیا جس میں غیر معمولی رش تھا۔ میں نے حسرت سے ملتزم کو دیکھا جس پر لوگ شہد کی مکھیوں کی طرح چمٹے ہوئے تھے۔ وہاں مجھے مقام ابراہیم بھی نظر آیا ۔ اس کے بارے میں روایت ہے کہ یہ وہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ کی تعمیر کی تھی ۔ اس پتھر پر آج بھی ان کے قدموں کے نشان موجود ہیں۔ کچھ لوگ اس کو چومنے کی کوشش کررہے تھےاور شرطے انہیں ہٹا رہے اور سمجھارہے تھے کہ یہ چومنے کی جگہ نہیں صرف دیکھنے کا مقام ہے۔
۶ ذی الحج کو ہمارے گروپ لیڈر رافع نے بتایا کہ وہ منی ٰ میں ہمارے گروپ کا خیمہ دیکھنے جائیں گے ۔ انہوں نے جوانوں کو چلنے کی دعوت بھی دی تاکہ وہ روٹ کو اچھی طرح سمجھ لیں۔ لیکن اچانک رات میں ہمارے گروپ کے ایک بزرگ اسمٰعیل صاحب کی طبیعت خراب ہوگئی۔ ان کے دونوں پاؤں سوج کر موٹے ہوگئے تھے اور ان سے بالکل بھی چلا نہیں جارہا تھا۔ ہمارے گروپ میں ایک ڈاکٹر صاحب بھی تھے۔ ان کے مشورے پر انہیں ہسپتال لے جانے کی تیاری شروع کی گئی۔ یہ ذمہ داری بھی گروپ لیڈر رافع نے انجام دی اور اسمٰعیل صاحب کو اسپتال میں داخل کرلیا گیا۔

رافع کو آنے میں دیر ہوگئی اور ہم سمجھے کہ اب منیٰ جانے کا پروگرام کینسل ہوگیا ہے۔ بارہ بج رہے تھے اور میں سونے کے لئے لیٹ گیا۔ کچھ ہی دیر میں رافع آگئے اور انہوں نے ہمیں چلنے کے لئے کہا۔ لہٰذا میں شعیب برنی، ریحان، اسمٰعیل صاحب، دانش ، یاسر۔ شارق، عابد اور ایک اور صاحب منی کی جانب پیدل روانہ ہوئے۔ کچھ دور آگئے تو مسجد خیف دیکھی ۔ یہ منیٰ میں ایک چھوٹی سی مسجد تھی جس کے مینار بہت دلکش تھے۔اس کے بارے میں یہ روایت مشہور ہے کہ یہاں کئی انبیاء نے نمازیں پڑھی ہیں۔
کچھ اور دور آگے بڑھے تو منی ٰ کے خیمے شروع ہوگئے۔ ہم تیز قدموں سے چلتے رہے یہاں تک کہ سوا گھنٹے میں منزل مقصود تک پہنچ گئے۔ ہمارا مکتب نمبر ۷۶ تھا جس کا خیمہ پول نمبر ۲/۵۰۸ پر واقع تھا۔ جب ہم خیمے میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ وہ ایک بڑا سا ہال نما خیمہ تھا جس میں ایک پسلی کی چوڑائی کے برابر گدے بچھے ہوئے تھے۔ اس میں ائیر کنڈیشنر بھی لگا ہوا تھا ۔ اس میں قریب پچاس افراد سما سکتے تھے۔ خیمہ کے باہر باتھ رومز بنے ہوئے تھے۔
یہاں لوکیشن کو اچھی طرح دیکھ لینے کے بعد واپسی کا سفر شروع کیا اور جمرات سے گذرے تاکہ شیطان کو کنکریاں مارنے کی جگہ بھی دیکھ لیں۔ سب سے پہلے جمرہ صغریٰ یعنی چھوٹا شیطان آیا۔ کچھ آگے بڑھے تو جمرہ وسطیٰ اورآخر میں جمر ہ کبریٰ یا عقبہ (یعنی گھاٹی کا شیطان) نظر آیا۔ ہر شیطان ایک بڑی سی دیوار سے ظاہر کیا گیا تھا۔ یہ دیواریں مستطیل شکل کی تھیں اور خاص پتھر سے بنائی گئی تھیں۔ہر دیوار کے نیچے چاروں طرف ایک پیالے نما گھیرا بنا ہوا تھا تاکہ کنکریاں اس میں گر سکیں۔
ماضی میں کنکریاں مارتے وقت بہت حادثے ہوئے اور کئی لوگ ہلاک ہوئے ہیں ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ پہلے شیطان کی علامت کے لئے ستون تعمیر تھے۔ نیز کنکریاں مارنے والوں کے لئے آنے اور جانے کا ایک ہی راستہ تھا۔ چنانچہ جب لوگ کنکریاں مار کر واپس جاتے تو آنے والوں سے ٹکراؤ ہوتا اور اس مڈبھیڑ میں بھگدڑ مچ جاتی اور کئی لوگ کچلے جاتے۔ اب حکومت نے ان ستونوں کو خاصی بڑی دیوار کی شکل دے دی ہے۔ نیز آنے اور جانے کے راستے الگ کردئے گئے ہیں اور سامان لانے کی اجازت نہیں۔ اسی طرح کنکریاں مارنے کے لئے تین پل بنادئے گئے ہیں اور کسی بھی پل سے رمی کی جاسکتی ہے۔
میں نے ان شیطانوں کو غور سے دیکھا تو مجھے ان دیواروں میں کوئی ابلیسیت نظر نہ آئی۔ حج کے تمام مناسک دراصل علامتی نوعیت کے ہیں چنانچہ یہ شیطان بھی کوئی اصلی نہیں بلکہ علامتی تھے۔ ان شیاطین کی معروف تاریخ یہی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام جب اپنے فرزند عزیز کو قربان کرنے کے لئے نکلے تو شیطان نمودار ہوا اور اس نے آپ کو ورغلایا اور قربانی سے باز رکھنے کی کوشش کی۔ آپ نے اس پر کنکریاں ماریں اور دھتکاردیا۔ آپ کچھ اور آگے بڑھے تو دوبارہ شیطان نے یہی عمل دہرایا اور آپ نے پھر اسے کنکریوں سے پرے کیا۔ تیسری مقام پر پھر شیطان نمودار ہوا اور آپ کو جھانسا دینے کی کوشش کی ۔ لیکن آپ نے ایک مرتبہ پھر ابلیس کو دھتکاردیا۔ یہ کنکریاں اسی یاد میں ماری جاتی ہیں۔
جمرات سے واپسی پر تقریباً رات کے تین بج گئے۔ اگر یہ کراچی ہوتا تو اتنے پیدل چلنے کے بعد طبیعت خراب ہوجاتی لیکن یہاں طواف اور سعی کرکر کے پیدل چلنے کی عادت ہوچکی تھی۔بہرحال میں گہری نیند سوگیا اور فجر کے وقت اٹھا ۔فجر پڑھنے کے بعد دوبارہ سوگیا۔کیونکہ اگلے روز رات میں حج کی ابتدا ہونی تھی اور منیٰ کے لئے روانہ ہونا تھا۔
حج کی ابتدا
بالآخر وہ گھڑی آپہنچی جس کا انتظار تھا۔ یہ سات ذی الحج کی شب تھی ۔ رات کا کھانا کھایا اور عشاء کی نماز پڑھی۔ آج کی رات منیٰ کی جانب روانگی تھی۔ میرے سب ساتھی تیاریوں میں لگے ہوئے تھے۔ میں نے بھی غسل کیا اور حج کا احرام زیب تن کرلیا۔ میرے چاروں طرف کے کمروں سے لبیک کی صدائیں آرہی تھیں۔میں بھی تلبیہ پڑھ کر ان لوگوں کی صف میں شامل ہوگیا۔
لبیک اللہم لبیک، لبیک لاشریک لک لبیک ، ان الحمد النعمۃ لک والملک، لاشریک لک
حاضر ہوں ، اے میرے رب میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں۔بے شک تو ہی تعریف کے لائق ہے اور نعمت تیری ہی ہے، بادشاہی تیری ہی ہے،تیرا کوئی شریک نہیں۔
یہ لبیک خدا کی پکار کا جواب تھی۔ اللہ نے پکارا تھا کہ آؤ میرے بندو، میری جانب آؤ، شیطان کے خلاف جنگ میں حصہ لو ، اس کو آج شکست فاش سے دوچار کردو، اس کی ناک رگڑ دو، آج تم نے اپنا گھر بار ، بیوی بچے ، زیب و زینت سب ترک کردی تو طاغوتی رغبات سے بھی دست بردار ہوجاؤ اور تمام ابلیسی قوتوں کو شکست دے دو۔میں زبان سے لبیک کہہ رہا تھا اوردل کی زبان پر یہ کلمات جاری تھے۔
“میں حاضر ہوں اس اعتراف کے ساتھ کہ تعریف کے قابل توہی ہے۔ تو تنہا اور یکتا ہے، تجھ سا کوئی نہیں ۔ تیرا کرم، تیری شفقت، تیری عطا ،اور تیری عنایتوں کی کوئی انتہا نہیں۔ تیری عظمت ناقابل بیان ہے، تیری شان لامتناہی طور پر بلند ہے، تیری قدرت ہر عظمت پر حاوی ہے، تیرا علم ہر حاضر و غائب کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔تجھ سا کوئی نہیں اور کوئی تیری طرح تعریف کے لائق نہیں ۔”
اب تمام زینتیں حرام ہوگئی تھیں، اب نہ کوئی خوشبو لگانی تھی، نہ بال کٹوانے نہ ناخن ترشوانے اور نہ ہی پیر اور چہرے کو ڈھانکنا تھا۔ بس ایک ہی دھن سوار تھی اور وہ یہ کہ کس طرح ازلی دشمن کو شکست سے دوچار کیا جائے۔

احرام پہننے کے بعد ہم سب بس میں بیٹھے اور منیٰ کی جانب روانہ ہوئے۔ بس لبیک کی صداؤں سے گونج رہی تھی۔ تقریباً رات ڈیڑھ بجے منیٰ کے خیموں تک پہنچے۔ ہمارا کیمپ ایکسٹنڈ ڈ منیٰ یعنی مزدلفہ میں تھا۔ ہم سب نے سامان اتارا ۔ میں نوجوان ساتھیوں کے ہمراہ باہر کا جائزہ لینے کے لئے نکل کھڑا ہوا۔ اردگرد بدو عورتوں نے اسٹالز لگارکھے تھے۔ باہر ایک چہل پہل تھی اور لگ نہیں رہا تھا کہ رات کے دو بج رہے ہیں۔ کچھ دیر مٹر گشت کرنے کے بعد ہم سب واپس آگئے ۔ بستر نہایت ہی کم چوڑائی کے تھے اور بمشکل آدمی سیدھا لیٹ سکتا تھا۔ بہر حال سونے کے لئے لیٹ گئے تاکہ صبح تازہ دم ہوکر اٹھ سکیں۔
شیطانی کیمپ کے مناظر
میں کروٹیں بدل رہا تھا ۔ غنودگی اور بیداری کی ملی جلی کیفیت تھی۔ اچانک میں تصور کی آنکھ سے اس جنگ کے مناظر دیکھنے لگا۔ اب منظر بالکل واضح تھا۔ اس طرف اہل ایمان تھے اور دوسری جانب شیطان کا لشکر بھی ڈیرے ڈال چکا تھا۔ شیطانی خیموں کی تعداد بہت زیادہ تھی اور ان میں ایک ہل چل بپا تھی۔ رنگ برنگی روشنیوں سے ماحول میں ایک ہیجان کی کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ باہر پنڈال لگا تھا جہاں بے ہنگم موسیقی کی تھاپ پر شیطانی رقص جاری تھا۔ کچھ نیم برہنہ عورتیں اپنے مکروہ حسن کے جلوے دکھا رہی تھیں۔ ایک طرف شرابوں کی بوتلیں مزین تھیں جنہیں پیش کرنے کے لئے بدشکل خدام پیش پیش تھے۔ اس پنڈال کے ارد گرد شیاطین کے خیمے نصب تھے جو مختلف رنگ اور ڈیزائین کے تھے۔
سب سے پہلا خیمہ شرک و الحاد کا تھا۔ اس خیمے پر ان گنت بتوں کی تصاویر بنی ہوئی تھیں ۔ خیمے میں موجود شیاطین اپنے سردار کے سامنے ماضی کی کارکردگی پیش کررہے تھے کہ کس طرح انہوں نے انسانیت کو شرک و الحاد کی گمراہیوں میں مبتلا کیا۔نیز وہ اس عظیم موقع پر مستقبل کی منصوبہ بندی کررہے تھے کہ آئندہ کس طرح انسانیت کو شرک میں مبتلا کرنا اور خدا کی توحید سے دور کرنا ہے۔ان کا طریقہ واردات بہت سادہ تھا جس میں خدا کی محبت دل سے نکال کر مخلوق کی محبت دل میں ڈالنا، خدا کے قرب کے لئے ناجائز وسیلے کا تصور پیدا کرنا ، کامیابی کے لئے شارٹ کٹ کا جھانسا دکھانا وغیرہ جیسے اقدام شامل تھے۔
ایک اور خیمے پر عریاں تصایر اور فحش مناظر کی مصوری تھی ۔ یہ عریانیت کے علمبرداروں کی آماجگاہ تھی۔ ان شیاطین کے مقاصد فحاشی عام کرنا، انسانیت کو عریانیت کی تعلیم دینا، نکاح کے مقابلے میں زنا کو پرکشش کرکے دکھانا، ہم جنس پرستی کو فطرت بنا کر پیش کرنا وغیرہ تھے۔ یہاں کے عیار ہر قسم کے ضروری اسلحے سے لیس تھے۔ ان کے پاس جنسی کتابیں، فحش سائیٹس، عریاں فلمیں، فحش شاعری و ادب، دل لبھاتی طوائفیں، جنسیاتی فلسفہ کے دلائل، دجالی تہذیب کے افکار سب موجود تھے۔ ان کا نشانہ خاص طور پر نوجوان تھے جنہوں نے ابھی بلوغت کی دنیا میں قدم ہی رکھا تھا اور وہ ان ایمان فروش شیاطین کے ہتھے چڑھ چکے تھے۔
ایک اور خیمے پر ہتھیاروں کی تصویر آویزاں تھی۔ یہ انسانوں کو لڑوانے والوں کا کیمپ تھا۔ یہاں کا لیڈر اپنے چیلوں سے ان کی کامیابیوں کی رپورٹ لے رہا تھا۔ چیلے فخریہ بتارہے تھے کس طرح انہوں نے انسانیت میں اختلافات پیدا کئے، ان میں تعصب و نفرت کے بیج بوئے، ان کو ایک دوسرے کے قتل پر آمادہ کیا، انہیں اسلحہ بنانے پر مجبور کیا جنگ کے ذریعے لاکھوں لوگوں کا قلع قمع کیا۔ اس کیمپ کی ذیلی شاخ کا مقصد خاندانی اختلافات پیدا کرنا، میاں بیوی میں تفریق کرانا، ساس بہو کے جھگڑے پیدا کرنا، بدگمانیاں ڈالنا، حسد پیدا کرنا،خود غرضی اور نفسا نفسی کی تعلیم دینا تھا۔
اگلے خیمے پر بڑی سی زبان بنی ہوئی تھی جو اس بات کی علامت تھی کہ یہاں زبان سے متعلق گناہوں ترغیب دی جاتی ہے۔ یہاں کے شریر شیاطین اس بات پر مامور تھے کہ لوگوں کو غیبت ، جھوٹ، چغلی، گالم گلوج، فحش کلامی، بدتمیزی، لڑائی جھگڑا اور تضحیک آمیز گفتگو میں ملوث کرکے انہیں خدا کی نافرمانی پر مجبور کریں۔
ایک اور خیمے پر بلند وبالا عمارات اور کرنسی کی تصاویر چسپاں تھیں۔ یہ دنیا پرستی کو فروغ دینے اور آخرت سے دور کرنے والوں کا کیمپ تھا۔ اس کیمپ میں اسراف، بخل، جوا، سٹہ، مال سے محبت، استکبار، شان و شوکت، لالچ، دھوکے بازی، ملاوٹ، چوری و ڈاکہ زنی، سود اور دیگر معاشی برائیوں کو فروغ دئے جانے کی منصوبہ بندی ہورہی تھی۔ یہاں اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا جارہا تھا کہ انسانیت بالعموم اور مسلمان بالخصوص آخرت کو بھول چکے ہیں۔ ا ب ان کی اکثر سرگرمیوں کا مقصود دنیا کی شان و شوکت ہی ہے۔ نیز جو مذہبی جماعتیں دین کے لئے کام کرہی ہیں ان کی اکثریت کا مقصد بھی اقتدار کا حصول ہے نہ کہ آخرت کی فلاح بہبود۔
ایک آخری کیمپ بڑے اہتمام سے بنایا گیا تھا۔ یہ خاص طور پر مسلمانوں کو گمراہ کرنے لئے بنایا گیا تھا تاکہ وہ اپنی اصلاح کرکے دنیا کی راہنمائی کا سبب نہ بن جائیں۔ یہاں مسلمانوں کو مختلف بہانوں سے قرآن سے دوررکھنے کی باتیں ہو رہی تھیں، یہا ں ان کو نماز روزہ حج اور زکوٰۃ کی ادائگی سے روکنے کا منصوبہ تھا ، یہاں انکی اخلاقی حالت کو پست کرنے کی پلاننگ تھی، انہیں آخرت فراموشی کی تعلیم دی جانی تھی، مغرب پرستی کا درس تھا، دنیا کی محبت کا پیغام تھا۔ اسی کے ساتھ ہی یہاں مسلمانوں کو فرقہ پرستی میں مبتلا کرنے کا بھی اہتما م تھا تاکہ وہ آپس میں ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگاتے رہیں اور غیر مسلم اقوام تک خدا کا آخری پیغام پہنچانے سے قاصر رہیں۔
رحمانی خیموں کی کیفیت
دوسری جانب اہل ایمان بھی اپنے خیمے گاڑ چکے تھے۔ شیطان کے خلاف جنگ کا میدان سج چکا تھا۔شیطانی کیمپ کے برعکس یہاں خامشی تھی ، سکوت تھا، پاکیزگی تھی، خدا کی رحمتوں کا نزول تھا۔اعلیٰ درجے کے اہل ایمان تعداد میں کم تھے جبکہ اکثر مسلمان شیطان کی کارستانیوں سے نابلد، روحانی طور پر کمزور، اورنفس کی آلودگیوں کا شکار تھے ۔ لیکن یہ سب مسلمان شیطان سے جنگ لڑنے آئے تھے چنانچہ یہ اپنی کمزوریوں کے باوجود خدائے بزرگ و برتر کے مجاہد تھے۔ان فرزندان توحید کو امید تھی کہ خدا ان کی مدد کے لئے فرشتے نازل کرکے انہیں کامیابی سے ہمکنار کرے گا۔

شیطان کے ہتھکنڈوں سے نمٹنے کے لئے اللہ مسلمانوں کو پہلے ہی کئی ہتھیاروں سے لیس کرچکے تھے اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہ تھی۔ شرک و الحاد کا توڑ اللہ کی وحدانیت ، اسے تنہا رب ماننے اور اسے اپنے قریب محسوس کرنے میں تھا۔ فحاشی و عریانی کی ڈھال نکاح ، روزے ، نیچی نگاہیں اور صبر کی صورت میں موجود تھی۔ فرقہ واریت کا توڑ اخوت و بھائی چارے اور یگانگت میں تھا۔ معاشی بے راہ روی کا علاج توکل و قناعت میں پوشیدہ تھا۔ دنیا پرستی کا توڑ آخرت کی یاد تھی۔ یہ سب کچھ مسلمانوں کے علم میں تو تھا لیکن شیطان کے بہکاووں نے ان تعلیمات کو دھندلا کردیا تھا۔ ایک قلیل تعدا د کے علاوہ اکثر مسلمان ان احکامات کو فراموش کرچکے تھے یا پھر ان کے بارے میں لاپرواہی اور بے اعتنائی کا شکار تھے۔

منٰی کے میدان میں یہ سب فرزندان توحید اسی لئے جمع ہوئے تھے کہ وہ اللہ سے کئے ہوئے عہد کو یاد کریں، وہ اس کے احکامات پر غور کریں، وہ اس کی پسند و ناپسند سے واقفیت حاصل کریں اور اپنی کوتاہیوں کی معافی مانگ کر آئندہ شیطان کے چنگل سے بچنے کی تربیت حاصل کریں۔ یہاں اہل ایمان کے ہتھیار توکل ،تفویض ، رضا، تقویٰ، قنوت، توبہ اور صبر کی صورت میں ان کے ساتھ تھے۔ان کی مدد سے وہ طاغوتی لشکروں کے حملوں کا جواب دینے کےلئے تیار تھے۔چنانچہ اہل ایمان کے خیموں سے لبیک کی صدائیں بلند ہورہی تھیں ۔ وہ سب اپنے رب کی مدد سے اس جنگ میں فتح حاصل کرنے کئے بے چین تھے۔
منیٰ کی صبح
صبح فجر کی نماز پڑھی اور دوبارہ سونے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ چنانچہ میں قریب نو بجے اٹھا تو سب لوگ خیمے میں سو رہے تھے۔ مجھے نیند آنا مشکل تھی لہٰذا میں باہر نکلا۔ میں نے بیگم کو کہا کہ باہر چلتےہیں لیکن انہوں نے انکار کردیا ۔چنانچہ میں اکیلا ہی اپنے بیگ میں دعاؤں کی کتاب حصن حصین لے کر نکلا ۔ باہر کا موسم بہت سہانا تھا اور آسمان ابر آلود تھا۔ باہر بے شمار لوگ زمین اور ٹیلوں پر لیٹے اور بیٹھے ہوئے تھے۔چنانچہ میں نے بھی سوچا کہ کسی پہاڑی پر چڑھ کر اللہ کی حمد وثنا کروں۔ میں خیمے کی بائیں جانب چلنے لگا۔ کافی دور جاکر ایک پہاڑی نظر آئی جو موزوں لگی۔ میں نے اس پر چڑھنے کا ارادہ کرلیا۔
پہاڑ پرچڑھنے کا میرا کافی وسیع تجربہ تھا اور میں اس قبل مری، حسن ابدال، کاغان، ناران، سوات اور نورانی کے پہاڑوں پر چڑھ چکا تھا ۔ لیکن مکہ کے یہ پہاڑ کالے پتھروں کی چٹانوں کے بنے ہوئے تھے جن پر چڑھنا خاصا دشوار تھا۔نیز احرام کی بنا پر تو چلنا دشوار معلوم ہوتا تھا چہ جائیکہ اوپر چڑھنا۔ بہرحال ایک جگہ منتخب کی اور اوپر چڑھنا شروع کیا۔ ایک دفع تو سلپ ہوتے ہوتے بچا لیکن دوسری کوشش میں اللہ نے مشکل آسان کردی اور میں اوپر آہی گیا۔ میں نے وہاں پڑا ہوا ایک گتا اٹھایا اس پر پر بیٹھنے کا قصد کیا۔
یہاں کافی بڑی تعداد میں لوگ براجمان تھے۔ کچھ لوگوں نے چھوٹے چھوٹے سفری خیمے نصب کئے ہوئے تھے۔یہ زیادہ تر وہ لوگ تھے جو معلم کے بغیر حج کررہے تھے اور یہ غیر قانونی طور پر آئے تھے۔ سعودی حکومت کی جانب سے پابندی ہے کہ حج کرنے کے بعد پانچ سال تک کوئی اور حج نہیں کیا جاسکتا ۔ اس کی وجہ ان حاجیوں کو موقع فراہم کرنا ہے جو اپنا فرضی حج کررہے ہوں۔ یہ غیر قانونی لوگ متلفی راستوں سے کچھ رقم دے کر عقیدت میں حج کرنے آجاتے ہیں ۔ لیکن ان پر ایک گروہ یہ تنقید کرتا ہے کہ ان کا رویہ درست نہیں کیونکہ اس طرح وہ حکومت وقت کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ دوسری جانب وہ فرضی حج کرنے والے حاجیوں کے وسائل پر بھی تصرف کرتے ہیں جو مناسب نہیں۔
میرے سامنے لوگوں کا ایک جم غفیر تھا چنانچہ میں نے یکسوئی حاصل کرنے کے لئےرخ تبدیل کرلیا ۔ اب میرے سامنے ایک انتہائی بلند پہاڑ تھا۔ آسمان ابھی تک کچھ حصے چھوڑ کر بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ میں نے حصن حصین کی
کتا ب نکالی ۔ یہ کتاب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں پر مشتمل ہے۔ میں نے اس میں سے دعائیں منتخب کیں اور حمدو ثنا میں مصروف ہوگیا۔ ہمارے ہاں دعا کو انتہائی محدود معنو ں میں لیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب مال، اولاد، صحت اور دنیاوی مقاصد کی تکمیل کے لئے اللہ کو پکارا جانا سمجھا جاتا ہے۔ نیز کچھ لوگ آخرت اور جنت کی کامیابی بھی مانگ لیتے ہیں لیکن دعا کا ایک انداز کچھ اور بھی ہے۔ یہ دعا اللہ سے باتیں کرنے کا نام ہے۔ یہ اپنے د ل کی بات کہنے کا نام ہے۔ یہ خدا کی حمد و ثنا، تسبیح و تہلیل، اس کی بڑائی بیان کرنے کا موقع ہے۔ اس کی جھلک اگر دیکھنی ہو تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں میں دیکھی جاسکتی ہے ۔

ارد گرد کا ماحول انتہائی روح پرور تھا چنانچہ جلد ہی روحانیت کے دریچے کھلنے لگے۔ خدا کی عظمت پہاڑ کی شکل میں میرے سامنے موجود تھی۔ اس کی رحمت بادلوں کی صورت میں سایہ فگن تھی، اس کی محبت احساسات کی شکل میرے ذہن میں تھی، اس کی عنایت یاد کی صورت میں مرے دل میں تھی۔
میں رب سے باتیں کرتا رہا اور وہ مجھے اشاروں کنایوں میں جواب دیتا رہا۔ میں بولتا رہا وہ سنتا رہا۔ پھر وہ بولا اور میں نے سنا۔ وہ مجھے میری خطائیں، میرے جرائم، میری سرکشیاں، میری ہٹ دھرمی، میری چالاکیاں گنواتا رہا اور میں کہتا رہا کہ میں خطا کرتا ہوں اور تو معاف کردیتا ہے۔ میں چالاکی دکھاتا ہوں اور تو نظر انداز کرتا ہے، میں بھول جاتا ہوں پر تو یاد رکھتا ہے،میں گناہ کرتا ہوں پر تو پکڑتا نہیں، میں جرم کرتا ہوں اور اور تو لاتصریب کہہ کر چھوڑ دیتا ہے۔ کیونکہ تو عظیم ہے اور میں رذیل، تو آقا ہے اور میں غلام ابن غلام، تو بادشاہوں کا بادشاہ ہے اور میں فقیروں سے بھی حقیر، تو بے حساب عطا کرنے والا ہے، تیرا عرش سب سے بلند ہے، تیرے قبضے میں سب کچھ ہے، تو آسمان و زمین کی ہر شے کا مالک ہے جبکہ میری ملک میں ایک ذرہ بھی نہیں۔ تیرا اذن و اختیار ہر شے پر ہے جبکہ میری قدرت انگلی کو ہلانے تک کی نہیں۔زمین و آسمان اور ساری کائینات کی بادشاہی آج بھی تیری ہے اور کل بھی تیری ہی ہوگی۔ تیری باتیں لکھنے کے لئے اگر تمام درخت قلم اور تمام سمندر سیاہی بن جائیں تو بھی تیری تعریف بیان نہیں جاسکتی۔ پس تو تو ہے اور میں میں۔ میں خطا کرتا ہوں اور تو معاف کرتا ہے۔
ارد گرد کا ماحول مزید خوشگوار ہوگیاتھا اور بادل اب پورے آسمان پر چھاچکے تھے۔وہاں پہاڑ پر میں دو تین گھنٹے بیٹھا روتا رہا گڑگڑاتا رہا ۔اپنی گڑگڑاہٹ کے ساتھ ہی مجھے بادلوں کی گڑگڑاہٹ بھی سنائی دی۔ پہلے تو میں یہ سمجھا کہ میرا وہم ہے کیونکہ اس صحرا میں کہاں بارش ہوگی۔ لیکن کچھ دیر بعد یہ گڑگڑاہٹ بڑھی اور میری تشویش میں اضافہ ہونے لگا۔ بارش اگر شروع ہوجاتی تو پہاڑ سے نیچے اترنا خاصا دشوار ہوتا نیز میں اپنے خیمے سے کافی دور تھا جبکہ وہاں جگہ جگہ بورڈ لگے تھے کہ بارش کی صور ت میں اپنے خیمے سے نہ نکلیں کیونکہ منیٰ نشبی میں تھا اور سیلاب کا قوی امکان تھا۔ چنانچہ میں نے واپسی کا سفر باندھا اور بارش سے قبل ہی خیمے میں پہنچ گیا۔
منیٰ کا خیمہ
خیمے میں اب بھی اکثر لوگ سورہے تھے۔ کچھ دیر بعد مجھے باتھ روم کی حاجت ہوئی لیکن باتھ رومز کا تو منظر ہی کچھ اور تھا۔ وہاں طویل لائینیں لگی ہوئی تھیں۔ بہرحال فراغت کے بعد واپس ہی آیا تھا کہ بارش شروع ہوگئی۔ یہ بارش قریب بارہ بجے تیز ہوئی اور عصر تک جاری رہی۔ خیموں میں پانی تو نہیں بھرا البتہ عورتوں کی سائیڈ پر پانی آگیا۔لوگ بارش کے نافع ہونے اور اس کے ضرر سے بچنے کی دعائیں مانگ رہے تھے۔ بارش کافی طوفانی تھی اور جدہ تک پھیلی ہوئی تھی۔ خدا خدا کرکے بارش رکی۔ اور سب نے اطمینان کا سانس لیا۔ بعد میں علم ہوا کہ اس بارش سے خاص طور جدہ میں بڑی تباہی ہوئی ہے اور ہزاروں لوگ اس سیلاب کی نظر ہوگئے۔
حج کا فرض اسلام سے قبل بھی ادا کیا جاتا تھا اور مشرکین مکہ منی میں قیام کے دوران شعرو شاعری کی محفلیں منعقد کرتے، اپنے آباو اجداد کے قصے بیان کرتے، جگت بازی کرتے، کہانیاں و قصے بیان کرتے اور دیگر باتوں میں اپنا وقت ضائع کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ان کے رویے پر تنقید کی اور مسلمانوں کو ان خرافات سے بچنے کا حکم دیا اور ساتھ ہی ساتھ یہ ہدایت بھی کہ اللہ کا ذکر اپنے آبا و اجداد کے ذکر سے بڑھ کر کرو اور اللہ کی حمدو ثنا کرو۔
میں نے مشاہدہ کیا کہ مسلمانوں کی اکثریت اس حکم پر عمل کرنے سے قاصر تھی۔ کوئی فون پر باتوں میں مشغول تھا تو کوئی سیاست پر اپنے خیالات کا اظہار کررہا تھا۔ کسی کو اپنے بچے یاد آرہے تھے تو کوئی وقت پاس کرنے کے لئے اونگھ رہا تھا۔ کبھی کبھی لبیک کی صدائیں بلند ہوجاتی تھیں اور اس کے بعد پھر وہی دنیا۔ حالانکہ یہ وہ موقع تھا کہ لوگ اپنا احتساب کرتے، اپنے گناہوں کی لسٹ بنا کر ان پر توبہ کرتے، انہیں دور کرنے کی پلاننگ کرتے۔ اچھائیوں کو اپنانے کا عہد کرتے، نیکیوں میں سبقت لے جانی کی منصوبہ بندی کرتے ۔ سب سے بڑھ کر اللہ کو یاد کرتے، اس کی حمدو ثنا کرتے، اس کی بڑائی بیان کرتے، اس سے محبت کا اظہار کرتے ، اس کی رحمتوں کو گن کر شکر کرتے اور آئندہ ہر مشکل میں اس پر توکل کے ساتھ صبر کرنے کا عزم کرتے۔انہی اقدام کی بدولت وہ طاغوت کے خلاف جنگ میں اس حج کے موقع پرکامیاب ہوسکتے اور جنت کے حصول کی تمنا کرسکتے تھے۔ اس قسم کا ذوق لوگوں میں اسی وقت پیدا کیا جاسکتا تھا جب انہیں اس بارے میں تربیت فراہم کی گئی ہو ۔ لیکن ہمارے مذہبی حلقے میں عام طور پر ظاہری فقہ کی تو تعلیم دی جاتی ہے لیکن باطن کی صفائی کا اہتمام نہیں کیا جاتا اور لوگوں کو بغیر کسی تعلیم وتربیت کے یونہی چھوڑ دیا جاتا ہے۔
عرفات میں پڑاؤ
۸ ذی الحج کا پورا دن بارش کی نظر ہوا اور مغر ب تک مطلع صاف ہوچکا تھا۔ اکثر لوگ منیٰ میں نمازیں اپنے اپنے وقت پر قصر کرکے پڑھتے ہیں۔ البتہ احناف نماز قصر نہیں کرتے بلکہ وہ پوری ہی نماز پڑھتے ہیں۔منیٰ میں ایک عجیب خبر سنی۔ اسمٰعیل صاحب جنہیں اسپتال میں داخل کرادیا تھا ان کے بارے میں رافع نے بتایا کہ وہ اسپتال سے فرار ہوچکے ہیں تاکہ حج کے مناسک انجام دے سکیں۔ رافع نے مزید کہا کہ ان کا ہم سے ملنا خاصا مشکل ہے کیونکہ ان کے پاؤں چلنے کا قابل نہیں تھے۔
عشاء کی نماز کے بعد اگلی منزل عرفات کا میدان تھا۔ بس تقریباً بارہ بجے رات میں آئی اور ہم لوگ بس میں سوار ہوگئے۔ کچھ لوگ بس میں بیٹھنے سے رہ گئے اور دوسری بس کا انتظار کرنے لگے جبکہ کچھ نوجوان چھت پر بھی بیٹھ گئے۔ عرفات پہنچتے پہنچتے رات کے دو بج چکے تھے۔ وہاں کے خیموں پر قالین بچھی ہوئی تھی جو بارش کے باعث گیلی ہوگئی تھی۔ چار سو اندھیرے کا راج تھا۔ میں نمی سے بچنے کے ٖلئے چٹائی بچھا کر لیٹ گیا۔
نیند دوبار کچی پکی آرہی تھی۔میرے تخیل میں دوبارہ اسی تمثیلی جنگ کا نقشہ سامنے آنے لگا۔ابلیس کی افواج بھی اپنا پڑاؤ بدل کر عرفات پہنچ چکی تھیں۔ ان شریروں کا مقصد حاجیوں کو تزکیہ و تربیت حاصل نہ کرنے دینا اور مناسک حج کی ادائیگی میں خلل پیدا کرنا تھا۔ لیکن اس مرتبہ شیطانی کیمپ میں ایک اضطراب اور بےچینی تھی۔ رحمانی لشکراپنی پوزیشن لے چکا تھا۔ اور اب وہ ایسے میدان میں تھا جو خدا کی رحمتوں کامنبع تھا۔ آج کے دن خد انے بے شمار لوگوں کو جہنم سے آزادی کا پروانہ دینا تھا۔ آج فرشتوں کے نزول کا دن تھا۔ چنانچہ شیطان کو اپنی شکست سامنے نظر آرہی تھی لیکن وہ اپنی اسی ہٹ دھرمی پر اڑا ہوا تھا۔ اس کے چیلے گشت کررہے تھے اور اپنے شکار منتخب کررہے تھے۔ ان کا نشانہ زیادہ تر کمزور مسلمان تھے جو علم و عمل میں کمزور تھے۔یہ وہ مسلمان تھے جنہوں نے دین کا درست علم حاصل نہیں کیا تھا اور زیادہ تر نفس کے تقاضوں کے تحت ہی زندگی گذاری تھی۔ اس سے بڑھ یہ کہ یہ لوگ اس عظیم جہاد کی حقیقت سے بھی نابلد تھے۔
عرفات کی صبح
صبح میری آنکھ کھلی تو فجر پڑھی اور پھر سوگیا۔ پھر صبح کو گیارہ بجے آنکھ کھلی۔ دیکھا تو اسمٰعیل صاحب سامنے بیٹھے تھے۔ وہ اسپتال سے فرار ہوکر ہمارا کیمپ جوائین کرچکے تھے۔ انہیں دیکھ کر مجھے معجزوں پر ایک بار پھر یقین آگیا۔ اللہ نے انکے جذبے کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کے پیروں کو چلنے کی طاقت بھی عطا کی اور عافیت کے ساتھ کیمپ بھی پہنچادیا۔
صبح اٹھ کر ہلکا پھلکا ناشہ کیا۔ اسی اثناء میں آفتاب کا فون آیا۔ وہ بھی حج کرنے اپنےساتھیوں کے ساتھ موجود تھا اور مجھے مسجد نمرہ بلا رہا تھا۔ میں نے انکار کردیا کیونکہ مسجد نمرہ میرے کیمپ سے خاصی دور تھی اور وہاں بھٹک جانے کا اندیشہ تھا۔
عرفات کا میدان کافی بڑا ہے اور اس میں لاکھوں حجاج کو سمولینے کی گنجائش ہے۔ اس میں ایک پہاڑی جبل رحمت ہے جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری خطبہ دیا تھا۔ یہاں ایک مشہور مسجد۔۔ مسجد نمرہ موجود ہے جہاں اما م حج کا خطبہ دیتا ہے۔ یہ امام امت مسلمہ کا لیڈر یا اس لیڈر کا نمائندہ ہوتا ہے۔ وہ مسلمانوں کو خدا سے کیا ہوا عہد یاد دلاتا، انہیں شیطان اور نفس کے فریب سے بچنے کی ترغیب دیتا اور شیطان کو اس علامتی جنگ میں شکست دینے کی ہدایات جاری کرتا ہے۔
میں نے ارد گرد کا جائزہ لیا تو وہاں شامیانے لگے ہوئے تھے۔ قریب میں بنگالی بھائیوں کے کیمپ بھی تھے۔ باتھ روم اس مرتبہ خالی تھے اور کوئی لائین نہیں لگی ہوئی تھی۔ دھوپ خاصی تیز تھی جس کی بنا پر گیلے قالین سوکھ چکے تھے۔ مولانا یحیٰ نےبتایا کہ وقوف عرفہ کا وقت زوال کے فوراً بعد شروع ہوجاتا اور غروب آفتاب تک جاری رہتا ہے۔ یہاں حاجی کا قیام حج کا رکن اعظم ہے اور اگر کوئی حاجی یہاں وقف کرنے سے رہ جائے تو تو اس کا حج نہیں ہوتا۔ یہاں مناسب تو یہی ہے کہ کھلے آسمان کے نیچے برہنہ پا کھڑے ہوکر دعائیں مانگی جائیں لیکن تھکاوٹ کی صورت میں بیٹھنا یا لیٹنا ممنوع نہیں۔ یہاں ظہر اور عصر کی نمازیں قصر کرکے اور ملا کر یعنی ایک ہی وقت میں پڑھتے ہیں البتہ احناف اس کے قائل نہیں ہیں۔
جتنی دعائیں یاد تھیں۔۔۔
ظہر کے بعد وقف شروع ہوگیا۔ لوگ باہر نکل کر بلند آوازمیں دعائیں کررہے تھے جس سے ارد گرد کے لوگ ڈسٹرب ہورہے تھے۔ میں نے سوچا کہ کوئی گوشہ تنہائی تلاش کی جائے چنانچہ میں بس اسٹینڈ کے پیچھے جگہ تلاش کرنے کے لئے نکل کھڑا ہوا۔ موسم خوشگوار ہوچلا تھا اور بادلوں کی آمدو رفت تھے۔ کافی دور چلنے کے باوجود مجھے کوئی مناسب جگہ نہ مل پائی چنانچہ میں واپس کیمپ میں ہی آگیا۔ یہاں کھانا کھایا اور پھر برہنہ پا ہوکر باہر نکلا اور قبلہ کی طرف رخ کرکے کھڑا ہوگیا۔یہاں رب کی حمد وثنا بیان کی اور اور دعاؤں میں مشغول ہوگیا۔یہاں میں لبیک کہتا رہا ، اپنے رب کے بلاوے پر۔

میں کہتا رہا کہـ’’ میں حاضر ہوں تیرے احسان کے بوجھ کے ساتھ کہ یہ ساری نعمتیں تیری ہی عطا کردہ اور عنایت ہیں۔ میری آنکھوں کی بینائی تیری دین، میرے کانوں کی سماعت تیری عطا، میرے سانسوں کے زیر و بم تیرا کرم، میرے دل کی دھڑکن تیری بخشش، میرے خون کی گردش تیری سخاوت، میرے دہن کا کلام تیرا لطف، میرے قدموں کی جنبش تیراا حسان ہے۔کوئی ان کو بنانے میں تیرا ساجھی، تیرا معاون اور شریک نہیں۔
میں حا ضر ہوں اس عجزکے ساتھ کہ اس کائنات کا ذرہ ذرہ تیری ملکیت ہے، یہ زمین تیری ، آسمان تیرا، سورج ، چاندستارے تیرے، پہاڑ تیرے ، میدان تیرے ، دریا و سمندر تیرے ہیں۔یہ میرا گھر، میرا مال، میری دولت، میرا جسم، میرے اہل و عیال میرے نہیں تیرے ہیں۔ کوئی ان کو بنانے اور عطا کرنےمیں تیر ا شریک نہیں ۔ پس تیرا اختیارہے توجس طرح چاہے اپنی ملکیت پرتصرف کرے ۔

میں حاضر ہوں اپنے تمام گناہوں کے بار کےساتھ کہ تو انہیں بخش دے، اپنی تمام خطاؤں کے ساتھ کہ تو انہیں معاف کردے، اپنے تمام بدنما داغوں کے ساتھ کہ تو انہیں دھودے، اپنی تمام ظاہری و باطنی بیماریوں کے ساتھ کہ تو ان کا علاج کردے ،اپنے من کے کھوٹ کے ساتھ کہ تو اسے دور کردے ، اپنی نگاہوں کی گستاخیوں کے ساتھ کہ تو ان سے چشم پوشی کرلے، اپنی کانوں کی گناہ گار سماعت کے ساتھ کہ تو اس کا اثر ختم کردے، اپنے ہاتھوں کی ناجائز جنبشوں کے ساتھ کہ تو ان سے درگذر کرلے، اپنے قدموں کی گناہ گار چال کے ساتھ کہ تو انہیں اپنی راہ پر ڈال دےاوربدکلامی کرنے والی زبان کے ساتھ کہ تو اس کو اپنی باتوں کے لئے خاص کرلے۔

میں حاضر ہوں اور پناہ مانگتا ہوں تیری رضامندی کی ،تیرے غصے سے اور تیری مغفرت کی ،تیرے عذاب سے اور میں تجھ سے تیری ہی پناہ چاہتا ہوں ۔میں تیری تعریف کر ہی نہیں سکتا پس تو ایسا ہے جس طرح تو نے اپنی تعریف خود کی ہے۔
میں حاضر ہوں شیطان سے لڑنے کے لئے، نفس کےناجائز تقاضوں سے نبٹنے کے لئے، خود کوتیرے سپرد کرنے کے لئے اور اپنا وجود قربان کرنے کے لئے۔پس اے پاک پروردگار! میرا جینا، میرا مرنا، میری نماز، میری قربانی، میرا دماغ ، میرا دل، میرا گوشت، میرا لہو، میرے عضلات اورمیری ہڈیاں غرض میرا پورا وجود اپنے لئے خاص کرلے۔
حاضر ہوں ، اے میرے رب میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں۔بے شک تو ہی تعریف کے لائق ہے اور نعمت تیری ہی ہے، بادشاہی تیری ہی ہے،تیرا کوئی شریک نہیں۔”
اہل ایمان ادھر خدا سے مناجات میں مصروف تھے اور دوسری جانب طاغوتی لشکر اپنے کام میں مصروف تھا۔ چنانچہ بہت سے لوگوں کو شیطانی چیلے یہ درس دے رہے تھے کہ اب بہت دعا مانگ لی اب بس کرو، کچھ کو انہوں نے دنیاوی باتوں میں مصروف کررکھا تھا، کچھ کو کھانے پینے میں لگادیا تھا تو کچھ کو تھکاوٹ کاحساس دلا کر نڈھال کرنے کی سعی کی تھی۔
مغرب کا وقت
سورج اپنی منزل جانب رواں دواں تھا اور اہل ایمان اپنی منزل کی جانب۔ ارد گرد لوگ تھک کر بیٹھ گئے تھے اور کچھ باتوں میں مصروف تھے۔ اصل میں وہی مسئلہ سامنے آیا کہ ہمارے مسلمان بھائی دعا کے فلسفے سے ناآشنا ہونے کی بنا پر کچھ ہی دیر میں دعا سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں ۔ کچھ دیر بعد مولانا یحیٰ نے اجتماعی دعا کرائی جو خاصی رقت آمیز تھی ۔ اس نے کئی آنکھوں کو اشکبار کردیا ۔ دعا کے دوران مغرب ہوگئی لیکن اب رب کا حکم یہ تھا کہ یہ مغرب مؤخر کرنی ہے اور اسے اگلے پڑاؤ مزدلفہ میں جاکر ادا کرنا ہے۔
مزدلفہ میں زندگی موت کی کشمکش
اب اگلی منزل مزدلفہ کا میدان تھا۔ یہاں سے ہمارا قافلہ دو حصوں میں منقسم ہوگیا۔ ایک وہ لوگ جو تھے جو بس میں جارہےتھے اور دوسرے وہ لوگ تھے جو پیدل روانہ ہورہے تھے۔ میں بھی پیدل مسافرین میں تھا کیونکہ سنا تھا کہ بس کافی دور اتارتی ہے اور اس میں خاصا وقت لگ جاتا ہے۔ ہمارا قافلہ ۳۵ افراد پر مشتمل تھا ۔ یہاں سے ہمیں قریب پانچ کلو میٹر کا سفر طے کرنا تھا۔ ہمارا خیمہ ایکسٹنڈڈ منیٰ یعنی مزدلفہ ہی میں تھا چنانچہ ہمیں وہیں پہنچنا تھا۔
جب میں عرفات سے نکل رہا تھا تو دل میں خیال آیا کہ لوگ بلاوجہ حج سے ڈراتے تھے کہ یہاں بہت رش ہوتا ہے بالخصوص عرفات سے مزدلفہ جاتے وقت بڑا رش ہوتا ہے۔ لیکن مجھے تو ایسا کچھ بھی ابھی تک دکھائی نہیں دیا تھا۔ لیکن یہ خیال غلط ثابت ہوا اور اگلے مرحلے میں وہ سب کچھ نظر آگیا جس کا لوگ ذکر کرتے تھے۔
ہمارا قافلہ مولانا یحیٰ کی سربراہی میں مزدلفہ کی جانب رواں دواں تھا۔ ایک جم غفیر طریق المشا یعنی پیدل چلنے والوں کے راستے پر رواں دواں تھا۔ ہم نے رش سے بچنے کے لئے بائیں جانب کا راستہ لیا جہاں مسجد نمرہ کا بھی قریب سے دیدار کیا۔ راستے میں آدھے گھنٹے کے لئے رکے تاکہ تازہ دم ہولیں۔ پھر دوبارہ سفر شروع کیا۔ ہمارے ساتھ خواتین بھی تھیں اور ایک چھ ماہ کی بچی بھی تھی جس کو پرام میں ڈال کر اس کے والدین گھسیٹ رہے تھے۔ اس کے ساتھ ہی ایک وہیل چئیر بھی تھی جس پر ایک بزرگ کو بٹھا یا ہوا تھا اور نوجوان باری باری انہیں دھکیل رہے تھے۔

اب تک سب کچھ ٹھیک تھا۔لیکن جونہی مزدلفہ کی حدود میں داخل ہوئے تو نقشہ ہی بدل گیا۔ لوگوں کی ایک کثیر تعداد راستے ہی میں لیٹی ہوئی تھی جس کی بنا پر پیدل چلنے والوں کو راستہ ملنا مشکل تھا۔ آگے راستہ تنگ ہوتا جارہا تھا۔ اس پر طرفہ تماشا یہ ہوا کہ گروپ کے نوجوانوں نے خواتین اور بچوں کو محفوظ کرنے کے لئے ہاتھوں کا ایک حصار بنالیا جو ایک غلط طرز عمل تھا کیونکہ اس سے راستہ مزید تنگ ہورہا تھا۔ ہمارے لیڈر صاحب جو جھنڈا لے کر آگے جارہے تھے وہ بار بار گروپ سے آگے نکل جاتے تھے اور ان کو روکنا پڑتا تھا۔ سامنے ایک بس کھڑی تھی جس کی بنا پر راستہ مزید تنگ ہوگیا تھا۔ آگے رش بڑھتا گیا یہاں تک کہ بوٹل نیک کی صورت حال پیدا ہوگئی اور دم گھٹنے لگا۔ جب ہم کھڑی ہوئی بس کے نزدیک آئے تو انتہا ہوگئی اور سامنے ایک ریلے سے مڈبھیڑ ہوگئی اور میں گرتے گرتے بچا۔ دم گھٹنے لگا اور خاص طور پر عورتیں اور بچے بلبلا اٹھے۔
مجھے یوں لگا کہ شاید یہ ہمارا آخری سفر ہو ۔ آگے پیچھے دائیں بائیں سب طرف لوگوں کا اژدہام تھا اور کہیں کوئی فرار کی راہ سجھائی نہیں دے رہی تھی۔ بس ایسے میں خدا ہی سہارا تھا جس کی راہ میں ہم نے یہ سفر شروع کیا تھا۔ کچھ دیر بعد تھوڑی کشادگی ملی تو علم ہوا کہ بچے کی پرام ٹوٹ چکی ہے۔ پھر ہم سب نے اپنے بوجھ ہلکے کرنا شروع کئے اور میں نے بھی ایک تھیلا جس میں جائے نماز اور چٹائی تھی وہ پھینک دیا۔کچھ دور اور آگے بڑھے تو اللہ نے معاملہ آسان کردیا اور کشادگی میسر آگئی۔
اس گھمسان میں ہم سمت بھول چکے تھے کہ ہمارا خیمہ کدھر ہے ۔ بس ناک کی سیدھ میں چلتے رہے۔ یہاں تک کہ منیٰ کے خیمے دکھائی دینے لگے۔ کچھ جان میں جان آئی۔ عرفات سے مسلسل چلتے ہوئے پانچ گھنٹے ہوچکے تھے اور اقدام شل ہوگئے تھے۔ بہرحال منیٰ کے خیمے نزدیک آتے گئے۔یہاں تک کہ ایک ٹیلے کو کراس کرکے ہم پہاڑ پر چڑھ گئے اس وقت ساڑھے بارہ بج رہے تھے۔ گویا یہ زندگی اور موت کا سفر ساڑھے چھ گھنٹوں میں اختتام پذیر ہوا۔
یہ تو پیدل چلنے والوں کا حال تھا۔ جو لوگ بس میں آرہے تھے انکی حالت ہم سے بھی ابتر تھی۔ بس نے انہیں نامعلوم مقام پر اتاردیا تھا جہاں سے خیمے تک کا راستہ ٹیڑھا میڑھا تھا۔ لہٰذا اکثر لوگ بھٹک کر ادھر ادھر نکل کھڑے ہوئے اور جس کا جدھر سینگ سمایا نکل کھڑا ہوا۔ چنانچہ ان میں سے کچھ لوگ تو فجر کے بعد منزل تک پہنچے۔
شیطانی و رحمانی لشکر کی روداد
رات کو مغرب اور عشاء ملا کر ادا کی اور پھر سونے کے لئے لیٹ گئے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رات عبادت نہیں کی تھی حالانکہ تہجد بھی جو آپ کا معمول تھا وہ نہیں پڑھی تھی۔ میں جب نیند کے عالم میں گیا تو شیاطین کے کے کیمپ تصور میں آنے لگے۔وہاں ابتری پھیل چکی تھی۔ اہل ایمان میں سے جو چنے ہوئے لوگ تھے انہوں نے تو اللہ سے اپنے عہد کی تجدید کرلی تھی، اپنے نفس کی کڑی دھوپ میں کھڑے رہنے کی تربیت کی، بھوک کو برداشت کیا، جنسی تقاضوں کو تھام کررکھا اور دنیا و آخرت میں کامیابی کی دعا کی۔ وہاں انہوں نے اپنے گناہوں سے توبہ اورآئیندہ گناہ نہ کرنے کا عزم کرلیا تھا۔ اب وہ اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کو دور کرکے اگلے مورچے پر طاغوت کو شکست دینے کے لئے تیار تھے۔ گویا انہوں نےخدا کی مدد سے عرفات کا میدان مار لیا تھا۔ اب انہوں نے خیمے چھوڑ دئے تھے اور کھلے آسمان تلے فیصلہ کن معرکے کے لئے تازہ دم ہورہے تھے۔ دوسری جانب کمزور مسلمان بھی ان چنے ہوئے لوگوں کی معیت میں تھے اور انہوں نے بھی حتی المقدور ان کی تقلید کی کوشش کی اور خدا کی رضا کی اپنے تئیں پوری کوشش کرڈالی۔ لیکن آ ج خدا کی رحمتوں کے نزول کا وقت تھا او ر یہ رحمتیں کمزو ر وطاقتو ر ہر طرح کے مسلمان کے لئے نازل ہورہی تھیں اور ہر ایک اپنی استطاعت کے مطابق ان سے فیض یاب ہورہا تھا۔
ادھر شیطانی کیمپوں کی حالت ابتر تھی۔ آسمانی فرشتوں نے شیاطین کا ناطقہ بند کردیا تھا اور وہ ان پر تازیانے برسا رہے تھے۔ چنانچہ طاغوتی کیمپ میں ایک صف ماتم بچھی تھی۔ کوئی اپنے زخموں کو سہلا رہا تھا تو کوئی اپنا خون چاٹ رہا تھا۔ وہاں کے ہر ابلیس پر ایک مایوسی اور افسردگی طاری تھی۔ ان کی پوری کوشش تھی کہ اہل ایمان کے لشکر کو اگلے مورچے تک جانے سے روکا جائے لیکن اب انہیں کوئی نہیں روک سکتا تھا کیونکہ خدا ان کے ساتھ تھا۔ اب بس سورج نکلنے کی دیر تھی کہ شیطا ن پر سنگ باری شروع ہوجانی تھی۔
سنگ باری
صبح ہم نے فجر کی نماز پڑھی۔ کچھ دیر وقوف کیا اور پھر سوگئے اور دس بجے اٹھے۔ اتنا پیدل چلنے کے بعد عام حالات میں تو شاید اسپتال جانا پڑتا لیکن اللہ کے کرم سے تھکن دور ہوچکی تھی۔ اگلا معرکہ رمی کرنے کا تھا یعنی شیطان کو کنکریاں مارنا۔ بچپن سے میں یہ قصے سنتے آرہا تھا کہ رمی میں بھگدڑ مچ جاتی ہے اور کئی لوگ کچل کر ہلاک ہوجاتے ہیں۔ کئی سال پہلے بھی یہ واقعہ ہوچکا تھا۔ ایک بڑا سانحہ ۲۰۰۵ میں شاید پیش آیا تھا جس میں سیکڑوں افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ ایک صاحب جنہوں نے یہ واقعہ اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا وہ بھی ہمارے ساتھ تھے۔ وہ بتانے لگے کہ کس طرح لاشیں چاروں طرف بکھری ہوئی تھیں اور کمانڈوز آگئے تھے۔ یہ سب سن کر عجیب سا خوف پیدا ہورہا تھا اور واقعی یہ لگ رہا تھا کہ ہم شیطان کے خلاف جہاد میں مصروف ہیں۔ کچھ لوگ پہلے ہی رمی کے لئے نکل چکے تھےاور ہمیں رافع کے ساتھ ایک بجے روانہ ہونا تھا۔ ابھی ہم نے ظہر کی نماز پڑھی ہی تھی کہ اچانک بارش شروع ہوگئی۔ رافع نے بتایا کہ بارش کی صورت میں رمی انتہائی دشوار ہوجاتی ہے اور حادثے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ بہر حال خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے شیطان پر سنگباری تو کرنی ہی تھی۔
تقریباً ایک بجے ایک مرتبہ پھر ہمارا قافلہ لدھیانوی ٹریولرز کے جھنڈے تلے نکلا۔ اس مرتبہ ہمارے ساتھ تیس افراد موجود تھے۔میں نے چونکہ جمرات دیکھا ہوا تھا اس لئے رافع سےاکیلے جانے کی اجازت لی تاکہ جلد جمرات تک پہنچ سکوں۔ انہوں نے اجازت دے دی۔چنانچہ میں اپنی بیوی کے ساتھ تیزی سے آگے بڑھنے لگا۔
شیطان کی شکست
ایک بار پھر مرتبہ لبیک کی صدائیں بلند ہورہی تھیں۔ چاروں طرف کفن پوش سرفروشان اسلام شیطان کی ناک رگڑنے کے لئے چل رہے تھے۔ قافلہ دھیمے دھیمے آگے بڑھ رہا تھا۔ اس رحمانی لشکر کے جوش کے باوجود ابلیسی افواج کے ہرکارے مسلمانوں پر حملہ کرنے سے باز نہیں آرہے تھے۔ چنانچہ ان کی کوشش تھی کہ مختلف رنگ و نسل کے مسلمانوں میں فساد پیدا کردیں، وہ انہیں نظم و ضبط کی خلاف ورزی کروا کر بھگدڑ مچوادیں، انہیں دنیاوی باتوں میں مشغول کریں، انہیں آنکھوں کے زنا میں مبتلا کردیں ، وہ اپنی زبان سے لوگوں کی غیبت کریں، وہ دوسری قوم کے لوگوں کے بارے میں بدگمانی کریں، وہ کالوں کو دیکھ کر ان کو حقیر سمجھیں اور سب سے بڑھ کر حج کے فلسفے سے غافل ہوکر اسے ایک رسم کے طور پر ادا کریں۔
لیکن شیطان کے وسوسوں، ڈراووں ، لالچوں کے باوجود حجاج اس مقام تک پہنچ چکے تھے۔ وہ خدا کے حکم کے مطابق پچھلے تمام محاذوں پر شیطان کو شکست دیتے چلے آئے تھے اب یہ مرحلہ بھی آہی گیا تھا۔ یہاں بھی ان کا ہتھیار توکل تھا۔ انہیں خدا کی مدد پر بھروسہ تھا ۔ میں نے تصور میں شیطانی لشکر کو دیکھا تو وہ بزدلوں کی طرح پسپائی رہا تھا۔ پچھلے مورچوں پر شکست کھانے کے بعد شیطان اور اس کے پہلے ہی حواری بدحواس ہوچکے تھے۔
لیکن اہل ایمان پر خدا کی رحمتوں کا خاص نزول تھا۔ اس کے فرشتے شیاطین کو دھتکار رہے تھے اور اہل ایمان کی کمزوریوں کے باوجود ان کی معاونت کررہے تھے۔اہل ایمان کا لشکر شیاطین کو آہستہ آہستہ پیچھے دھکیل رہا تھا۔ لبیک کی صدائیں ان طاغوتی قوتوں کے دل چیر رہی تھیں ۔
شیطان کی کوشش تھی کسی طرح اپنے ساتھیوں کو جمع کرکے حوصلے بلند کرے لیکن اب دیر ہوچکی تھی اور معاملات ہاتھ سے نکل گئے تھے۔ شیطان ایک بار پھر بھول گیا تھا کہ اس کا مقابلہ ان نہتے انسانوں سے نہیں بلکہ تنہا خدا سے ہے جس کے قبضے میں تمام طاقتیں ہیں۔ان سب برائیوں کا منبع بڑا شیطان ہی تھا چنانچہ اہل ایمان کا پہلا نشانہ یہی بڑا شیطان تھا۔ اگر اس کی ناک رگڑ دی جائے تو باقی چھوٹے شیاطین خود ہی دبک کر بیٹھ جائیں گے۔
بڑا شیطان پسپا ہوتا گیا اور پیچھے بھاگتا رہا یہاں تک کہ وہ گھاٹی پر پہنچ گیا۔ یہی وہ مقام تھا جب اس نے آج سے کئی ہزار سال قبل پیغمبر خدا ابراہیم علیہ السلام کو ورغلانے کی ناکام کوشش کی اور منہ کی کھائی۔جب ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں حکم ہوا کہ اپنے اکلوتے بیٹے کو خدا کے حکم پر ذبح کردیں تو آپ اس حکم کی تعمیل کے لئے نکل کھڑے ہوئے۔ آپ جب آگے بڑھے تو شیطان نمودار ہوا اور وسوسہ ڈالا کہ کیا اپنے اکلوتے فرزند کو قربان کردو گے جو تمہارے بڑھاپے کا سہارا ہے ، جو تمہاری آنکھ کا تارا ہے؟ لیکن خلیل اللہ نے اس آواز پر کان نہ دھرے بلکہ شیطان کو کنکریاں مار کر دھتکار دیا۔

آج اسی شیطان کی پٹائی لاکھوں فرزندان توحید کے ہاتھوں ہورہی تھی۔بڑا شیطان جونہی اہل ایمان کے سامنے آیا تو انہوں نے اپنے جد امجد کی سنت پر عمل شروع کردیا۔اہل ایمان نے پہلی کنکری مار کر شیطان کے شرک کا انکار اور خدا کی توحید کا اقرار کیا۔ دوسری کنکری مار کر انکار آخرت اور الحاد کے فتنے کا بطلان کیا۔ تیسری کنکری شیطان کی جنسی ترغیبات کو ماری۔ چوتھی کنکری معاشی ظلم و عدوان پر پھینکی۔ پانچویں کنکری شیطان کی پرفریب دجالی تہذیب پر ماری۔ چھٹی کنکر ی ابلیس کے قتل انسانیت کے فتنے پر پھینکی اور آخری کنکری اخلاقی بگاڑ کے عوامل پر ماردی۔ اہل ایمان کے یہ سنگ ریزے اس پر ایٹم بم کی طرح برس رہے تھے کیونکہ ان میں قوت ایمانی موجود تھی۔شیطان ان سے بچنے کی بھر پور کوشش کرہا تھا لیکن وہ اس میں مکمل طور پر ناکام تھا۔
اب لبیک کا تلبیہ ختم ہوچکا تھا کیونکہ اہل ایمان اپنے رب کے بلاوے پر حاضر ہوچکے اور شیطان کو سنگسار کرچکے تھے۔ اب اللہ کی حمد ثنا اور بڑائی بیان کی جا رہی تھی۔
اللہ اکبر اللہ اکبر لاالٰہ الااللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد
اللہ بڑا ہے اللہ بڑا ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اللہ بڑا ہے اللہ بڑا ہے اور اللہ کے لئے ہی تمام تعریفیں ہیں۔

اب اہل ایمان قربانی کے لئے تیار تھے۔ انہوں نے اللہ کی مدد سے اپنے خارجی دشمن کی تو ناک رگڑ دی تھی لیکن اپنے داخلی دشمن یعنی نفس امارہ کو لگام دینا بھی ضروری تھا۔ چنانچہ تمام حجاج نے قربانی کرکے اپنے رب کا شکر ادا کیا اور اپنے نفس کی ناجائز خواہشات کو قربا ن کرکے خدا کے ایک او ر حکم کی تعمیل کی۔ اس کے بعد انہوں نے حلق کروایا ۔ یہ سر منڈوانا دراصل خود کو خدا کی غلامی میں دینے کا عہد تھا۔ یہ بات عہد الست کی تجدید تھی کہ اللہ ہی ہمارا رب ہے۔ یہ اس وعدے کا اعادہ تھا کہ اللہ کی بندگی میں پورے پورے داخل ہونا ہے، اس کے ہر حکم پر سر تسلیم خم کرنا ہے، اس کی نافرمانی سے حتی الامکان گریز کرنا اور اسے راضی رکھنے کی کوشش میں کسی بھی انتہا سے گذرجانا ہے۔
اب احرام اتر گیا تھا لیکن تمام اہل ایمان باطنی احرام سے آراستہ ہوچکے تھے۔ شکرانے کے طور پر انہوں نے اللہ کے گھر کا طواف کیا اور سعی کے بعد دوبارہ منیٰ میں قیام پذیر ہوگئے جہاں شیطان کے بچے کچھے چیلوں پر مزید سنگباری کرنی تھی۔
رمی قربانی حلق
میں اپنی بیوی کےساتھ آگے بڑھتا رہا۔ رمی کے لئے تین پل تھے۔ ہم نے پہلی منزل کے پل کا انتخاب کیا کیونکہ یہاں رش نسبتاً کم تھا۔ لوگوں کو سامان کے ساتھ داخل نہیں ہونے دیا جارہاتھا۔ پہلے دن بڑے شیطان ہی کو کنکریاں مارنی تھیں۔ میں اس کے قریب پہنچا اور دل میں اعادہ کیا کہ یہ کنکریاں میں شیطان کی ناک رگڑنے کے لئے اور رحمان کو راضی کرنے کے لئے ماررہا ہوں۔ سات کنکریاں مار کر دعا نہیں کی کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا تھا۔ یہ اسلام کا امتیاز ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ایک سنت کا ریکارڈ موجود ہے جبکہ دیگر مذاہب کا تو معاملہ یہ ہے کہ ان کی اصل کتاب تک محفوظ نہیں۔
سنگباری کرنے کے بعد نیچے اترنے لگے کیونکہ حفاظت کے لئے اب سعودی حکومت نے آنے اور جانے کے راستے الگ کردئے تھے۔ چنانچہ پلٹ کر جانے کا کوئی راستہ نہ تھا اور نہ ہمیں واپسی کی ضرورت تھی کیونکہ ہمارا عزیزیہ کا ہوٹل جمرات سے صرف ۲۰ منٹ کی واک پر تھا۔ جمرات کے پل سے نیچے اترنے کے بعد کچھ کھانے کو لیا اور تین دن بعد ڈٹ کر کھایا کیونکہ منی ٰ میں باتھ روم کے خوف کی بنا پر کھانے پینے میں احتیاط کرنی پڑتی ہے۔ ہوٹل پہنچ کر رافع کو فون کیا کہ ہم نے رمی کرلی ہے اور ہمارے نام کی قربانی کرلی جائے تاکہ ہم حلق کرواکے احرام اتار دیں۔ حنفی مسلک میں رمی قربانی اور حلق کی ترتیب برقرار رہنی چاہئے اور اگر ایسا نہ ہو تو دم واجب آجاتا ہے جبکہ دیگر مسالک میں یہ ترتیب اگر غلط ہوجائے تو دم کی ضرورت نہیں۔
آدھے گھنٹے بعد علم ہوا کہ قربانی ہوگئی ہے چنانچہ ہم نے حلق کروالیا۔ چونکہ حجام کے پاس بہت رش تھا اس لئے ہم نے ایک دوسرے کے سر خود ہی مونڈ نےشروع کردئے۔ میرا سر ریحان نے مونڈا۔ اس کے بعد غسل کیا اور سول ڈریس زیب تن کرلیا۔ چنانچہ وہ احرام جو ۷ ذی الحج کو باندھا تھا وہ ۱۰ ذی الحج کی شام کو اتاردیا۔ اب اگلا مرحلہ طواف زیارت اور دو دن منیٰ میں قیام اور رمی کرنا باقی تھا۔
طواف زیارت
اگلے دن ایک اور معرکہ سر کرنا تھا اور وہ تھا طواف زیارت۔ تقریباً ۳۲ لاکھ حاجیوں کو یہ طواف بارہ تاریخ تک کرنا تھا جس کی بنا پر حر م میں غیر معمولی رش تھا۔ ہمارے گروپ کے کچھ لوگ دس تاریخ ہی کو طواف کر آئے تھے اور باقی لوگ وقتاً فوقتاً یہ فرض انجام دے کر آرہے تھے۔ لیکن ہر آنے والا گروہ رش میں اضافے کی خبریں ہی لارہا تھاجس سے اضطراب بڑھ رہا تھا۔
بہرحال نماز ظہر پڑھ کر۲۵ افراد کا قافلہ رمی اور طواف کرنے کے لئے نکلا۔ یہ گروہ عورتوں بوڑھوں اور چند نوجوانوں پر مشتمل تھا۔ اس میں وہ نوجوان بھی شامل تھے جو پہلے ہی طواف کرکے آگئے تھے اور اب صرف بزرگوں کی مدد کے لئے جارہے تھے۔مجھے ان کے ایثار پر رشک آگیا۔ رمی تو ہم نے سیکنڈ فلور پر جاکر پندرہ منٹ ہی میں کرلی لیکن اگلا محاذ طواف زیارت کرنا تھا۔ ٹرانسپورٹ سے جانا ایک مسئلہ تھا کیونکہ ٹرانسپورٹر حضرات ٹریفک جام ہونے کی بنا پر راستے ہی میں اتاردیتے تھے اور پھر باقی سفر پیدل ہی طے کرنا پڑتا تھا۔ دوسرا آپشن طریق المشاہ یعنی پیدل چلنے والوں کا راستہ تھا جو جمرات سے قریب پون گھنٹے کا سفر تھا۔
رمی کے بعد گروپ کے کچھ لوگوں نے چاہا کہ طواف کو رات تک موخر کردیا جائے کیونکہ ایک لڑکی کے رشتے دار نے فون پر رش کی بنا پر حرم آنے سے منع کردیا تھا۔ لیکن مجھے اس رائے سے اختلاف تھا۔ اس وقت پونے تین بج رہے تھے اور امید تھی کہ عصر سے قبل حرم پہنچ جائیں گے۔ بہرحال گروپ کے لوگوں نے میری رائے سے اتفاق کیا اور ہم طواف کے لئے چل پڑے۔ طریق المشاہ ایک لمبی سی سرنگ ہے جو آگے جاکر دو حصوں میں منقسم ہوجاتی ہے اور پھر یہ راستہ سیدھا باب صفا پر جاکر نکلتا ہے۔ اس سرنگ میں جگہ جگہ ٹوائلیٹ اور پانی پینے کے انتظامات ہیں۔ وہاں ہم چلتے رہے۔ کچھ دیر بعد ہی ہم گروپ والوں سے بچھڑ گئے۔
میری بیوی کے گھٹنے میں جھٹکا آگیا تھا جس کی بنا پر اسپیڈ مدھم رکھنا پڑ رہی تھی۔ آہستہ آہستہ تھکن میں بھی اضافہ ہورہا تھا لیکن خدا سے کیا ہوا عہد بھی یاد تھا کہ خواہ ٹانگیں ٹوٹ جائیں لیکن اس کی راہ میں چلتے رہنا ہے۔ اس دوران یہ بھی گھبراہٹ تھی کہ حرم میں نہ جانے کیا صورت حال ہوگی۔ راستے ہی میں نماز عصر ادا کی اور پھر سفر جاری رکھا۔ پیدل چلتے چلتے یوں محسوس ہورہا تھا گویا ساری عمریونہی چلتے رہنا ہے اور بات بھی کچھ غلط نہ تھی کیونکہ خدا کی راہ میں تو ساری زندگی ہی چلنا تھا خواہ وہ سرنگ ہو یا پھر یا زندگی کا سفر۔
بہرحال سرنگ کے دہانے پر دور ایک روشنی دکھائی دے رہی تھی جو سورج کی روشنی تھی۔ جب دہانے سے باہر نکلے تو دل باغ باغ ہوگیا کیونکہ مسجد الحرام کے مینار دیکھنے والوں کو دعوت نظارہ دے رہے تھے۔ وہاں کے درو بام دیکھ کر ساری تھکن دور ہوگئی۔ جب آگے بڑھے تو پتا چلا کہ لوگوں نے جو بے پناہ ر ش کے قصے سنائے تھے وہ غلط تھے یا کم از کم اب رش ختم ہوچکا تھا۔
میں لرزتے قدموں سے مسعیٰ کے راستے مطاف تک پہنچا اور سبز لائیٹ کی سیدھ میں آکر حجر اسود کی جانب استلام کیا اور خدا سے عہد کی تجدید کرتے ہوئے طواف زیارت کا آغاز کیا۔ اس وقت پانچ بج رہے تھے اور ہم سوچ رہے تھے کہ نہ جانے مغرب تک کتنے چکر ہو پائیں کیونکہ مغرب پانچ بج کر چالیس منٹ پر تھی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے وسعت اور آسانی پیدا کردی اور مغرب تک پانچ چکر مکمل ہوگئے۔ اسی اثنا ء میں مغرب ہوگئی اور امام نے بڑی جلدی نماز پڑھائی تاکہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ طواف کا موقع مل سکے۔نماز کے بعد باقی چکر مکمل کئے ، زم زم پیا، دو نفل پڑھے اور سعی کے لئے کمر کس لی۔سعی کے دوران عشاء کی اذان ہوگئی چنانچہ نماز پڑھی اور پھر باقی چکر مکمل کئے۔ اس کے بعد خدا کا شکر ادا کیا کہ اس نے حج کا یہ اہم فریضہ بھی خوش اسلوبی سے ادا کرنے کی توفیق دے دی۔
اب اگلا مرحلہ واپسی کا تھا۔ واپسی کے لئے باب اسمٰعیل استعما ل کیا اور پھر کھانے کے بعد ٹیکسی والوں سے عزیزیہ چلنے کی بات چیت کی۔ کوئی پچاس ریال مانگ رہا تھا تو کوئی تیس ریال فی بندہ۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ کوئی بھی منزل مقصود تک پہنچانے کی گارنٹی نہیں دے رہا تھا۔ چنانچہ ہم نے یہی فیصلہ کیا کہ واپسی کے لئے طریق المشاہ ہی استعما ل کرنا ہے۔ اس کے لئے واپسی حرم کے اندر ہی سے ہوئی وہاں دیکھا تو مطاف بہت خالی تھا اور ایک اور طواف کرنے کا دل چاہ رہا تھا۔ لیکن تھکاوٹ کے ڈر سے اس ارادے باز رہے۔ منی ٰ کے خیموں میں واپس پہنچتے پہنچتے رات کے بارہ بج گئے۔ اس طرح وہ پیدل سفر جو دوپہر دو بجے شروع کیا تھا دس گھنٹے کے بعد اختتام پذیر ہوا۔ تھکن سے چور ہونے کی جہ سے نیند جلد ہی آگئی۔
ابلیسی فوج کا کہرام
ادھر اہل ایمان شیطان کو کاری ضرب لگانے کے بعد منٰی میں چین کی نیند سورہے تھے اور دوسری جانب ابلیس کے خیموں میں ایک کہرام مچا ہوا تھا۔ وہاں کی طوائفیں بدصورتی کی مثال بن گئی تھیں، شراب کےجام ٹوٹے پڑے تھے، رقص و موسیقی بند ہوچکی تھی، خیمےالٹے پڑے تھے اور قہقوں کی بجائے آہیں اور سسکیاں تھیں۔ شیطان اپنی بے پناہ طاقت، وسائل اور منصوبہ بندی کے باوجود اہل ایمان کو شکست دینے میں ناکام رہا تھا۔ لیکن ابھی جنگ کے دو دن باقی تھے اور اس میں وہ اپنی بچی کچھی فوجیں جمع کرکے خاموشی سے اہل ایمان کو گمراہ کرنے کی سازشیں تیار کررہا تھا۔
اگلا دن بھی منی میں قیام کا تھا۔ اکثر لوگ احرام اتار کر سمجھ رہے تھے کہ حج مکمل ہوگیا ہے۔ چنانچہ منٰی میں قیام کے دوسرے روز اہل ایمان کا جذبہ سرد ہوتا جارہا تھا۔ یہ بات شیطانی لشکر کے فائدے میں تھی۔ شیطان کے چیلوں نے دوبارہ اپنے زخموں کو بھلا کر سازشیں شروع کردیں۔ ان کی کوششوں کے باعث کمزور اہل ایمان خدا کی یاد کی بجائے دنیاوی باتوں میں مشغول ہوچکے تھے۔ اب کچھ لوگوں کی گفتگو کا موضوع سیاست تھی، دنیاداری تھی، وطن میں موجود بیوی بچے تھے، کھانے کے وسائل پر قبضہ تھا، لوگوں کی برائیاں تھیں۔ ان کے علی الرغم خدا کے چنے ہوئے بندے بھی تھے۔ وہ اب بھی خدا کی حمد و ثنا میں مصروف تھے، وہ اس کی یاد میں آنسو بہا رہے تھے، حج میں اپنی کوتاہیوں پر معافی کے خواستگار تھے، مستقبل میں اس کی رحمت کے طلبگار تھے۔
فرزندان توحید کو تربیت کے ایک اور مرحلے سے گذارنے کے لئے ۱۱ ذی الحجہ کو بھی شیطان پر سنگباری کرنی تھی۔چنانچہ اس معرکہ کا وقت آن پہنچا اور اہل ایمان کی فوجوں نے بچے کچھے شیاطین کو پیچھے دھکیلنا شروع کردیا۔ دوبارہ ان کا ٹارگٹ جمرات ہی تھا۔ شیطان کی فوجیں تھکی ماندی مایوس اور افسردہ تھیں جبکہ اہل ایمان ترو تازہ، طاقت ور اور پرامید۔ شیطان کے لشکر سے آہ و بکا کی آوازیں تھیں جبکہ رحمانی لشکر سے خدا کی بڑائی اور حمد کے ترانے۔شیطانی لشکر میں ابتری تھی جبکہ رحمانی افواج میں تنظیم۔ شیطان کا کوئی والی وارث نہیں تھا جبکہ اہل ایمان کا سرپرست خداوند قدوس تھا۔
شیطان کا لشکر پسپا ہوتا رہا یہاں تک کہ جمرات آگیا۔ یہاں شیطانی افواج کا پڑاؤ چھوٹے جمرے پر ہوا۔ اہل ایمان کا ہلہ اس چھوٹے جمرے (شیطان)کے لئے ناقابل برداشت تھا۔ چنانچہ طاغوتی قوتیں پیچھے ہٹ کر جمرہ وسطیٰ(درمیانی شیطان) پر جمع ہوگئیں۔ اہل ایمان نے ایک اور کاری وار کیا اور شیطان کی فوج کی بڑی تعداد کام میں آگئی۔ بچی کچھی طاقت اپنے سردار بڑے شیطان کے جھنڈے تلے جمع ہوگئی۔ یہاں بھی تائید ایزدی سے اہل ایمان نے شیطان کوایک اور زک پہچائی اور اب اس کے لئے فرار کا کوئی راستہ نہ تھا۔ چنانچہ وہ پٹتا رہا اور قیامت تک پٹنا اس کا مقدر تھا۔
اگلے دن بارہ ذوالحج کو بھی یہی عمل دہرایا گیا اور یوں حج کے مناسک مکمل ہوچکے تھے۔ اہل ایمان وقوف عرفات ، قیام مزدلفہ، رمی ، قربانی ، حلق ،طواف وداع اور منی میں ۱۲ ذولحج تک قیام کرکے حج کے تمام ظاہری مناسک پورے کرچکے تھے۔ حج ختم ہوگیا تھا ۔ یعنی شیطان کے خلاف تمثیلی جنگ کا اختتام ہوچلا تھا۔
جنگ کے نتائج
سوال یہ تھا کہ اس جنگ میں فتح کس کو نصیب ہوئی۔ اس کا ایک جواب تو بہت سادہ تھا کہ طاغوتی لشکر کو شکست اور اہل ایمان کو فتح نصیب ہوئی تھی۔ لیکن اس فتح میں اپنی کمزوریوں کا جائزہ لینا بھی ضروری تھا۔ مسلمانوں میں تین گروہ تھے جنہوں نے اپنے تقوی اور استطاعت کے مطابق حج سے استفادہ کیا۔
ایک گروہ سابقون کا تھا ۔ اس گروہ کے مسلمانوں نے اپنی نیت خالص رکھی، اپنا مال اللہ کے لئے خاص کردیا، اپنے جسم کے ہر عضو کو اللہ کی اطاعت میں دے دیا ، اپنے دل کی گہرائیوں سے اللہ کی حمدو ثنا کی ، ا س کی بڑائی بیان کی۔ یہ وہ ہراول دستہ تھا جس نے اس تمثیلی جنگ سے تربیت حاصل کی کہ کس طرح شیطانی چالوں سے نبٹنا ہے اور نفس کے گھوڑے کو لگام دے کر اپنا مستقبل اللہ کی غلامی میں بتانا ہے۔ ان کے حج کو اللہ نے قبول کرلیا اور انہیں اس طرح کردیا جیسے وہ آج ہی اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے ہوں ۔ ان کی خطائیں معاف ہوگئیں اور ان کا حج حج مبرور ہوگیا جس کا صلہ جنت کے سوا کچھ نہ تھا۔
مسلمانوں کا دوسرا گرو ہ تقوی کے اس مقام پرنہ تھا۔ اس گروہ میں علم کی کمی تھی، عمل میں کوتاہیاں تھیں اور نیت میں اتنا اخلاص نہ تھا۔ یہ لوگ حج کی اسپرٹ سے بھی پوری طرح آگاہ نہ تھے بس ظاہری فقہی احکامات مان کر حج کی رسومات انجام دے رہے تھے۔ لیکن یہ خدا کے وفادار تھے۔ انہوں نے اپنا دامن شرک کی گندگی سے پاک رکھا تھا۔ یہ اپنی کوتاہیوں پر شرمسار تھے، یہ معافی کے خواستگار تھے، جنت کے طلبگار تھے۔ یہ جانتے تھے کہ خدا اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہے اور اس نے اعلان کیا ہوا ہے کہ اگر تم چل کر آؤگے تو میں تمہارے پاس دوڑ کر آؤنگا۔ چنانچہ وہ مالی اور بدنی مشقتیں جھیل کر اپنے بادشاہ کے دربار میں چل کر آگئے تھے۔ چنانچہ یہ کیسے ممکن تھا کہ خدا دوڑ کر ان کے پاس نہ آتا، ان کی کوتاہیوں پر چشم پوشی نہ کرتا، ان کی خطاؤں سے درگذر نہ کرتا اور ان کے عمل کی کمی کو دور نہ کردیتا۔
مسلمانوں میں تیسرا گروہ ان لوگوںپر مشتمل تھا جو حج خدا کو راضی کرنے کی بجائے کسی اور نیت سے کرنے آئے تھے۔ ان میں سے کچھ لوگ اپنے نام کے ساتھ حاجی لگوانا چاہتے تھے، کچھ اپنے حرام کی کمائی پر سیر سپاٹے کے لئے نکلے تھےاورکچھ شاپنگ کی غرض سے آئے تھے۔ظاہری مناسک توا نہوں نے بھی کئے تھے لیکن کسی اور نیت اور مقصد کے ساتھ۔ ان کی حیثیت قابیل کی مانند تھی جو قربانی کے لئے کچھ اناج تو لایا لیکن یہ ردی اور فالتو اناج تھا ۔ ا س کی نیت یہی تھی کہ اگر قربانی قبول ہوگئی اور آگ نے اسے جلا دیا تو خو امخواہ اعلی درجے کا اناج ضائع ہوجائے گا۔یعنی اس نے قربانی کی ظاہری شکل تو پوری کی لیکن اس کی نیت میں فتور ہونے کی بنا پر اسے قبول نہ کیا گیا۔ بہر حال ان حاجیوں کا معاملہ اللہ کے سپر د تھا وہ جو چاہے فیصلہ کرے۔
منٰی سے واپسی
۱۰ذی الحج کو رمی کا وقت فجر کے بعد ہی شروع ہوجاتا ہے لیکن دس اور گیارہ تاریخ کو رمی کا وقت زوال کے بعد سے شروع ہوتا ہے۔ ظہر کےبعد ایک مرتبہ پھر رمی کرنے کے لئے روانہ ہوئے اور چونکہ یہ آخری روانگی تھی اس لئے خیمے سے اپنا سامان بھی اٹھالیا کیونکہ اب رخصتی کا وقت تھا۔ جب میں بیگم سے ساتھ باہر نکلا تو دیکھا کہ میری ایرو سافٹ کی قیمتی چپل کھو گئی ہے۔ اسی طرح ہمارے ایک ساتھی اقبال انکل کی وہیل چئیر بھی کوئی لے گیا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ کچھ لوگ شیطان کے خلاف جنگ میں پیچھے رہ گئے تھے۔
اس مرتبہ رمی کے لئے گراؤنڈ فلور کا انتخاب کیا۔ پہلے چھوٹے شیطان کو کنکریاں ماریں اور دعا مانگی ۔ پھر درمیانے شیطان کو کنکریاں مارنے کے بعد بھی دعا مانگی البتہ بڑے شیطان کو کنکریاں مارنے کے بعد دعا نہیں مانگی کیونکہ سنت یہی تھی۔ اس کے بعد ہم عزیزیہ میں اپنی قیام گاہ پر چلے گئے۔ یوں حج کے مناسک کا اختتام ہوا جس پر ہم نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیرہ تاریخ کو بھی رمی کی تھی جو کہ آپشنل تھی۔ چنانچہ ہم نے اس سنت پر عمل کرتے ہوئے تیرہ تاریخ کی رمی بھی کی۔ یوں ہمارا حج بھی اختتام پذیر ہوا۔
جدہ جدہ
میرے ہم زلف آفتاب اور عمران اور انکی بیوی جدہ میں ہی مقیم تھے ۔ یہ سب لوگ کافی عرصے سے اصرار کرہے تھے کہ جدہ آیا جائے۔ پہلے تو ہم حج کا بہانہ بنا کر ٹال رہے تھے کیونکہ ہمارا نہ تو شاپنگ کا کوئی خاص ارادہ تھا اور نہ ہی حرم سے دوری گوارا تھی۔ ان کا اصرار جاری رہا اورپھر ہم مجبور ہوگئے ۔
چودہ ذی الحج کو صبح عزیزیہ سے روانہ ہوئے اور حرم پہنچے ۔ ٹیکسی نے باب صفا پر اتارا تھا اور ہمیں باب فہد پر واقع مرکز توحید جانا تھا جہاں سے ہمیں جدہ جانے والی گاڑیاں ملتیں۔ جب باب صفا سے باب فہد کی جانب جارہے تھے تو مسجدالحرام کے باہر سے گذرنا پڑا۔ طواف کا بہت دل چاہ رہا تھا لیکن ہمارے پاس ایک بڑا سا بیگ تھا جسے اندر لے کر جانا ممکن نہ تھا۔ میری بیگم کے گھٹنے کی تکلیف دوبارہ شروع ہوگئی تھی اس لئے رفتار سست تھی۔
بڑی مشکل سے ایک ہائی ایس ملی جو بیس ریال فی بندہ لے رہی تھی۔ وین روانہ ہوئی اور کچھ ہی دیر بعد مکہ کے مضافاتی علاقے شروع ہوگئے۔ ابھی ہم نظاروں ہی میں مصروف تھے کہ اچانک ناکہ لگائی ہوئی پولیس نے وین کومڑنے کا اشارہ کیا۔ وین حاجیوں کے مرکز میں داخل ہوگئی۔ مسافروں سے کاغذات طلب کئے گئے۔ میں نے اپنا پیلا کارڈ دکھادیا۔ میں مطمئن تھا کیونکہ رافع نے بتایا تھا کہ اس کارڈ پر جدہ جاسکتے ہیں۔ ڈرائیور کافی دیر تک ان لوگوں سے بحث کررہا تھا جبکہ وہ لوگ ان مسافرین کو اتارنا چاہتے تھے جن کے کاغذات مکمل نہیں تھے۔ بعد میں علم ہوا کہ ہم بھی ان مسافرین میں شامل تھے اور ہمیں جدہ جانے کے لئے معلم کی جانب سے تصریح یعنی اجازت نامے کی ضرورت تھی۔ بہرحال ڈرائیور کو ہار ماننا پڑی اور اس نے دس مسافروں کو آدھے پیسے دے کر اتاردیا۔
ہمارے ساتھ بنگالی بھائی تھے۔ ہم وہاں بیٹھے رہے اور ایک عربی سے استفسار کیا کہ کیا معاملہ ہوگا۔ اس نے بتایا کہ کچھ دیر بعد ایک بس آئے گی اور وہ ہمیں لے جائے گی۔ اس دوران میں نے رافع سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی لیکن جواب ندارد۔ پھر میں نے جدہ میں عمران کو بتادیا کہ ہم نہیں آسکتے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ہمیں لینے آرہے ہیں۔ میں نے انہیں منع کیا لیکن وہ باز نہ آئے ۔ یہ ان کی محبت تھی وگرنہ آج کل کوئی اس طرح نہیں کرتا۔
اسی کوفت کے عالم میں تھے کہ ایک وین آئی اور اس نے ہمیں حرم سے دیڑھ کلومیٹر دور ام القریٰ نامی جگہ پر اتار دیا۔ یہاں سے ہم واپس حرم کی جانب رواں دواں تھے۔ راستے میں سامان کا بوجھ برداشت نہیں ہو رہا تھا چنانچہ کچھ اضافی کپڑے راستے میں پھینک دیے۔
اسی اثنا میں ظہر کا وقت ہوگیا چنانچہ ہم نے ایک مسجد میں نماز پڑھی۔ وہاں مساجد میں عورتوں اور مرد دونوں کے نماز پڑھنے کا انتظام ہوتا ہے۔ نماز کے بعد کچھ دور چلے اور حرم آگیا۔ اب وہی بیگ کا مسئلہ تھا جس کولے کر حرم میں داخل نہیں ہوسکتے تھے۔بڑی مایوس کن صورت حا ل تھی کیونکہ آفتاب کے آنے تک وقت حرم ہی میں گذارنا چاہتے تھے۔ بہرحا ل ایک دروازے سے داخل ہونے کی کوشش کی۔ وہاں پولیس اہلکار نے کچھ نہ کہا اور ہم جلدی سے اندر داخل ہوگئے۔ یہاں آکر اطمینان کا سانس لیا۔ اب طواف کرنا تھا لیکن مسئلہ وہی بیگ تھا۔ اسے لے کر ہم دونوں ایک ساتھ طواف نہیں کرسکتے تھے ۔ دوسرا آپشن یہ تھا کہ بیگ ہم میں سے ایک پکڑ ے اور دوسرا فرد طواف کرے ۔ اس طرح وقت بہت زیادہ لگ سکتا تھا۔ لیکن ہم نے اللہ کا نام لیا اور بیگ کو جوتیوں کے ڈبے کے اوپر رکھا اور مطاف میں داخل ہوگئے۔ اس طرح کے لاوارث بیگ شرطے کچھ ہی دیر میں ہٹا دیتے ہیں۔لیکن ہم جب طواف کرکے واپس آئے تو بیگ اپنی جگہ موجود تھا۔ مجھے یوں لگا کہ شاید اسی طواف کے لئے ہمیں شرطوں نے واپس بھیج دیا تھا۔
اب بھوک لگ رہی تھی۔ چنانچہ حرم کے سامنے واقع بن داؤد میں داخل ہوئے تاکہ کچھ کھاسکیں لیکن اسی اثنا میں آفتاب کا فون آگیا۔ اس نے بتایا کہ عمران گاڑی لے کر ٹنل میں موجود ہے اور ہمیں فوراً وہاں پہنچنا ہے۔ چنانچہ ہم کھانے کا ارادہ ترک کرکے باہر آگئے۔ ہم ٹنل میں داخل ہوئے تو پتہ چلا کہ عمران گاڑی لے کر آگے جاچکا ہے کیونکہ شرطے رکنے نہیں دیتے۔ یوں ہمیں پوری ٹنل کراس کرنی پڑی اور قریب ایک کلومیٹر چلنے کے بعد ہم نے عمران کو جالیا۔ بھوک پیاس اور تھکن سے نڈھال ہوچکے تھے۔ چیک پوسٹ وغیرہ سے گذر کر چار بجے جدہ پہنچ گئے۔مہوش انتظار ہی کررہی تھی اور اس نے کھانا تیار کیا ہوا تھا۔ عصر اور مغرب کی نمازوں سے فارغ ہوکر کھانا کھایا اور کچھ زیادہ ہی کھالیا۔
اب باہر چلنے کا پروگرام تھا۔تھکن کے باوجود ضروری تھا کیونکہ دن کم تھے اور کچھ ضروری چیزیں لینی تھیں۔ جدہ کی سڑکیں کشادہ، عمارتیں بلند و بالا اور ٹریفک منظم تھا۔ وہاں کے ایک مشہور بازار بلد پہنچے اور شاپنگ کی۔ آفتاب کو عربی بول چال اور بارگیننگ میں مہارت تھی اس لئے کافی آسانی ہوگئی۔ وہاں بازار نماز کے اوقات بند ہوجاتے ہیں اور رات ۱۰ بجے کے بعد بالکل بند ہوجاتے ہیں۔ اگلے دن کارنش یعنی ساحل سمندر گئے اور پھر بلد گئے۔
جدہ ہم پہلی دسمبر کو پہنچے تھے اور آج تین دسمبر تھی۔ لیکن حرم سے دوری گوارا نہ تھی چنانچہ تین دسمبر کو ہم ۸۰ ریال دے کرا یک ٹیکسی کے ذریعے مکہ واپس آگئے۔ اگلے دن جمعہ تھا اور جمعہ کی نماز حرم میں پڑھی اور طواف کیا۔ ہفتے کو مسجد عائشہ جاکر احرام باندھا اور پھر حرم آکر عمرہ ادا کیا ۔
اتوار چھ دسمبر ہمارا مکہ میں آخری دن تھا۔ آج طواف وداع کرنا تھا جو باشاہ حقیقی کے دربار میں آخری سلام تھا۔ اس کا مطلب تھا کہ ہمیں مکہ میں ایک مہینے سے زائد ہوگیا تھا اور اس شہر سے ایک انسیت ہوچلی تھی۔ طواف میں بہت رش تھا اور پہلی مرتبہ طواف ٹاپ فلور پر کیا۔ طواف کے بعد خانہ کعبہ کو بہت دیر تک دیکھتا رہا کہ دوبارہ یہ دیدار پتانہیں نصیب ہو یا نہ ہو۔ حرم کے مینار، اس کے ستون، درو دیوار، غلاف کعبہ اور کعبہ کے اوپر پرندوں کی چہچہاہٹ سب کچھ دل میں بس چکا تھا اور سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ جدائی کس طرح برداشت ہوگی۔ نمازیں پڑھنے کے بعد آخری مرتبہ کعبہ کو دیکھا اور روتے ہوئے اس عظیم گھر کو الوداعی سلام کیا۔
مدینے کا سفر

سات دسمبر کو مدینے کی جانب روانہ ہوئے۔موسم بہت اچھا تھا۔ مکہ کے کالے پہاڑوں کے برعکس راستے کے پہاڑ سرخی مائل تھے۔ راستے میں ظہر اور عصر کی نماز پڑھی اور کھانا کھایا۔ جب مغرب کا وقت آیا تو ایک جگہ گاڑی رکوائی۔ جب باہر نکلے تو مزاج ٹھکانے آگئے۔ یہاں اچھی خاصی سردی تھی جبکہ مکہ کا موسم معتدل تھا۔ بالآخر ۴۵۰ کلومیٹر کا سفر طے کرکے نو گھنٹے میں مدینے پہنچے ۔ہمارا ہوٹل انوارلامل مسجد نبوی کے نہایت نزدیک تھا۔ مسجد کے مینار نہایت نزدیک تھے اور انتہائی خوبصورت لگ رہے تھے۔ اس مرتبہ میرے کمرے میں یاسر اور فرخ مقیم تھے۔ وہاں اس وقت اچھی خاصی سردی تھی۔
اس وقت رات کے بارہ بج رہے تھے ۔ میرے ساتھی دوسرے دن مسجد جانا چاہتے تھے لیکن میں اسی وقت جانے پر مصر تھا ۔چنانچہ میں نے غسل کرکے نئے کپڑے پہنے۔ پھر اپنے لئے اور بیگم کے لئے شوارما لیا ۔ کھانا کھانے کے بعد میں یاسر اور عابد کے ساتھ حرم کی جانب چلا۔ میری عجیب سی کیفیت تھی۔ میں اس ہستی کے حرم میں قدم رکھنے جارہاتھا جو افضل البشر تھے ۔ جن کے منہ کا ایک ایک لفظ قانون، قابل اتباع اور جن کی ایک ایک ادا قابل تقلید تھی۔

میرے قدم مسجد کی جانب بڑھتے رہے اور میرا اشتیاق بڑھتا گیا۔ اب سبز گنبد بھی دکھائی دے رہا تھا۔ یہاں تک کہ مسجدکی حدود میں داخل ہوا اور باب السلام کی طرف سے اندر چلا گیا۔ روضہ رسول پر ایک لمبی لائین لگی ہوئی تھی اور لوگ آہستہ آہستہ روضے کی جانب سرک رہے تھے۔ سب سے پہلے ایک جالی آئی اور میں سمجھا کہ یہی روضہ رسول ہے۔ لیکن پھر علم ہوا کہ روضہ اگلی جالی پر ہے۔چنانچہ وہاں پہنچا تو مواجہ شریف نظر آیا۔ اندر تاریکی تھی اور ایک سبز رنگ کی قنات نے روضہ مبارک کو دھکا ہوا تھا ۔رافع نے بتایا تھا کہ جالی کے درمیانے سوراخ کی سیدھ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک ہے۔ چنانچہ جب وہاں پہنچا تو ادب سے نظریں جھکالیں اور اپنا سلام پیش کیا۔ وہاں شرطے کھڑے ہوئے تھے جو انتہائی نرم اور آہستہ لہجے میں لوگوں کو آگے کررہے تھے اور انہیں قبر کی جانب ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے سے روک رہے تھے۔ آگے حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کہ کی قبریں تھیں۔انہیں بھی سلام کیا اور پھر باب بقیع سے واپس آگیا۔
سردی ہونے کی بنا پر یہاں رش کم تھا اور ریاض الجنہ بھی خالی تھا۔ریاض الجنہ کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ جنت کے باغوں کا ایک ٹکڑا ہے۔ اس جگہ پر ہلکے گرین کلر کے قالین بچھے ہوئے تھے۔ وہاں موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تہجد کی نماز ادا کی۔ اس کے بعد ممبر رسول دیکھا۔ روضے کے پیچھے اصحاب صفہ کا چبوترہ تھا جو اندازے کے مطابق ۱۲ اسکوائر فٹ کا تھا۔ اس کے سامنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تہجد پڑھنے کی جگہ تھی۔ریاض الجنہ کے آس پاس چھ اہم ستون بھی تھے جنکی اپنی تاریخی حیثیت تھی۔ ایک ستون اسطوانہ حنانہ تھا جو وہ کھجو ر کا تنا تھا جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرماتے تھے۔ ایک ستون حرس کے نام سے تھا جہاں صحابی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے لئے بیٹھتے تھے۔ ایک ستون ستون وفود تھا جہاں آپ وفود اور دیگر مسلمانوں سے ملاقات کرتے تھے۔ ایک اور ستون ابی لبابہ کے نام سے منسوب تھا۔ یہ ایک صحابی تھے جنہوں نے ایک غلطی ہونے پر اپنے آپ کو اس ستون سے باندھ لیا تھا ۔ایک ستون سریر تھا جہاں آپ اعتکاف کے لئے تشریف فرما ہوتے تھے۔ ایک اور ستون ستون جبریل تھا جو روضہ کے اندر تھا۔ ایک آخری ستون ستون عائشہ کے نام سے منسوب تھا جس کے بارے میں چند ضعیف روایات میں آیا ہے کہ یہاں نماز پڑھنے کا بہت زیادہ ثواب ہے۔روضے رسول کے بائیں جانب حضرت فاطمہ کا حجرہ تھا جہاں ایک کنڈی لگی ہوئی تھی۔ شیعہ حضرات یہاں رکنے کی کوشش کررہے تھے جبکہ شرطے انہیں وہاں سے ہٹا رہے تھے۔
واپس آکر میں سوگیا اور جب دوبارہ فجر کی نماز پڑھنے مسجد نبوی گیا تو پتا چلا کہ خاصی سردی ہے۔ دن میں مدینہ غور سے دیکھا تو علم ہوا کہ یہاں کافی صفائی ستھرائی ہے۔ ہمارے ہوٹل اور مسجد کے درمیان ایک بازار تھا۔ یہاں کے شرطے مکہ کے مقابلے میں خاصے شائستہ اور نرم مزاج تھے۔ شام کو عصر کے بعد جنت البقیع گیا۔ وہاں جابجا قبریں تھیں لیکن کسی قبر کی نشاندہی ممکن نہ تھی کہ یہ کس کی قبر ہے۔ ایک قبر خاصی بڑی تھی اور وہاں شرطے کافی تعداد میں موجود تھے۔ پتا چلا یہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی قبر تھی۔ کچھ حضرات وہاں ہاتھوں میں نقشے لے کر قبروں کے تعین میں مصروف تھے۔ جبکہ وہاں شرطے لوگوں کو شرک و بدعت سے دور رہنے اور ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے سے منع کررہے تھے۔
مسئلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات کے بارے میں امت میں دو طبقات پائے جاتے ہیں۔ ایک طبقہ یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ آپ اپنی قبر میں زندہ ہیں اور ہر جگہ حاضرو ناظر ہیں۔ آپ لوگوں کی باتیں سنتے اور اللہ کے حکم سے ان کی مشکلات کو حل کرتے ہیں۔ایک دوسرا طبقہ اس بات کا تو انکاری ہے کہ آپ ہر جگہ حاضرو ناظر ہیں لیکن وہ آپ کی زندگی کا قائل ہے اور اس بات کا بھی قائل ہے کہ آپ سے بات چیت کی جاسکتی اور مخصوص مراقبوں اور عملیات کے ذریعے آپ سے راہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ ایک تیسرا طبقہ اس بات کا قائل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوچکا اور آپ کا رابطہ اس دنیا سے منقطع ہوچکا ہے۔ البتہ آپ کی زندگی عالم برزخ میں جاری ہے جہاں آ پ کے سامنے درود پیش کیا جاتا اور آپ کو رزق پہنچایا جاتا ہے۔
یہ تیسرا طبقہ اپنے نقطہ نظر کے حق میں دلیل دیتا ہے کہ اگر اللہ کے رسول اس دنیا میں زندہ ہوتے اور ان سے رابطہ قائم کرکے راہنمائی طلب کی جاسکتی تو کیوں ایسا نہ ہوا کہ حضرت علی اور حضرت عائشہ کی جنگ میں صحابہ جاکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرلیتے کہ کون حق پر ہے؟ کیوں قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کا سراغ لگانے کے لئے صحابہ نے آپ سے رجوع نہ کیا؟ کیوں حضرت معاویہ و حضرت علی کے قضئے کا فیصلہ آپ نے نہیں فرمایا؟وغیرہ۔ دوسری جانب وہ لوگ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دنیا کی حیات کے قائل ہیں ان کا کہنا ہے کہ قرآن میں واضح طور پر بیان ہوا ہے کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے انہیں مردہ نہ کہو ، وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں شعور نہیں۔ بہر حال ہر گروہ کے اپنے دلائل ہیں۔
اصولی بات یہی ہے کہ غلو سے بچنا چاہئے۔ حیات النبی کے منکرین بعض اوقات افراط کا شکار ہوکر بے ادبی کا ظہار کرتے، آپ کے روضہ مبارک کی تحقیر کرتے اور اخلاقیات سے پستی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ دوسری جانب حیات النبی کے قائلین میں سے کچھ لوگ غلو کا مظاہرہ کرتے ہوئے نبی کریم ﷺ ہی سے مانگنے لگ جاتے یا براہِ راست انہیں مخاطب کرتے ہیں۔ اس غلو کی بنیاد پردونوں ہی رویے قابل مذمت ہیں۔
مدینے کی تاریخ
ایک دن ہم زیارتوں پر گئے۔ مکہ کے مقابلے میں مدینے میں مقدس مقامات کی نوعیت مختلف ہے۔ مدینے کا قدیم نام یثرب ہے۔مدینے کی تاریخ بہت قدیم ہے اور اس کا ذکر ۶ قبل مسیح کے لٹریچر میں ملتا ہے۔یثرب کی تاریخ کا آغاز دوسری عیسوی میں ہوتا ہے جب یہودیوں کے تین قبیلے رومیوں سے جنگ کے نتیجے میں یہاں پناہ گزین ہوئے۔ یہ تین قبیلے بنو قینوقع، بنو قریظہ اور بنو نظیر تھے۔ ابتدا میں یہی تین قبیلے یثرب کے کرتا دھرتا تھے لیکن بعد میں صورت حال تبدیل ہوگئی۔یمن سے دو عرب قبائل بنو اوس اور بنو خزرج ہجرت کرکے آئے اور ابتدا میں تو یہودیوں کے باجگزار بن کر رہے لیکن بعد میں ان کے تغلب سے آزادی حاصل کرکے آزاد رہنے لگے۔ بعد میں بنو اوس اور بنو خزرج ایک دوسرے کے دشمن بن گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے قبل ان میں دونوں میں شدید جنگ ہوئی جسے جنگ بعاث کہا جاتا ہے۔
جنگ کے بعد جب مدینے کے لوگ حج کرنے گئے تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت سے متاثر ہوئے اور کچھ عرصے بعد انہوں نے سمع و طاعت کی بیعت کی۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ وسلم نے حضرت معصب بن عمیر کو مدینے روانہ کیا تاکہ وہ لوگوں کو اسلام کی تعلیمات سے روشناس کرسکیں۔ پہلی ہجری میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یثرب تشریف لائے اور یہاں آپ کو ایک حکمران کی حیثیت سے تسلیم کرلیا گیا ۔آپ کی آمد کے بعد یثرب مدینۃ النبی یعنی نبی کا شہر کہلانے لگا اور بعد میں اس کا نام مدینہ ہی پڑ گیا۔
مسجد نبوی
جب نبی کریم اللہ علیہ وسلم نے مدینے ہجرت کی تو مسجد نبوی کی بنیاد رکھی گئی ۔ اس کی تعمیر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے ساتھ بنفس نفیس موجود تھے۔ ۔مسجد کی دیواریں پتھر اور اینٹوں سے جبکہ چھت درخت کی لکڑیوں سے بنائی گئی تھی ۔مسجد سے ملحق کمرے بھی بنائے گئے تھے جو آنحضرت ﷺ اور ان کی ازواج اور بعض اصحاب رضی اللہ تعالٰی عنہم کے لئے مخصوص تھے ۔ انہی کمروں میں ایک حجرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بھی تھا اور آج اسی کمرے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک موجود ہے ۔
مسجدِ نبوی میں نماز پڑھنا عام مساجد کے مقابلے میں ایک ہزار گنا افضل ہے۔ نبی کریم ﷺ کے روضے کی حاضری ایک شرف کی بات ہے کہ یہاں خدا کا آخری اور عظیم ترین پیغمبر محوِ استراحت ہے۔ چنانچہ مسجدِ نبوی میں روضہ رسول ﷺ کی زیارت کریں، ان پر سلام پیش کریں، انکے درجات کی بلندی کے لئے اللہ سے دعا کریں۔ انکے اصحاب پر بھی سلام بھیجیں۔ مسجد کے درو دیوار سے انس و محبت کا اظہار کریں، پیغمبر ﷺ کے منبر، انکے حجرے، انکی تہجد پڑھنے کی جگہ ، اورریا ض الجنۃ کی زیارت کریں اور کثرت سے نوافل اور درود پڑھیں ۔
مدینے کی زیارت
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے کو اسی طرح حرم ٹہرایا ہے جس طرح مکہ کو سیدنا ابرہیم علیہ السلام نے۔ چنانچہ یہاں بھی کسی جاندار کو مارنا، لڑائی جھگڑا کرنا اور ایذا رسانی اسی طرح ممنوع ہے جیسے مکہ میں۔
ایک دن ہم مدینے کے سفر پر پر نکلے۔ اس مرتبہ گائیڈ زیادہ معلومات رکھتا تھا۔ سب سے پہلے احد پہاڑ پر پہنچے۔ یہ ایک اونچا سا پہاڑ تھا۔ اس کے سامنے وہی چٹان تھی جس پر آپ نے کچھ فوجیوں کو تعین کرکے جگہ نہ چھوڑنے کی ہدایت کی تھی۔ لیکن آپ کی ہدایت پر عمل نہ کرنے کی بنا پر مسلمانوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ بعد میں یہ شکست فتح میں بدل گئی اور کفار کے لشکر کو دم دبا کے بھاگنا پڑا۔یہ پہاڑ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت محبو ب تھا کیونکہ اسی کے دامن میں آپ نے پناہ لی تھی۔ یہاں شہدا کی قبریں بھی تھیں جن میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی قبر سب سے نمایاں تھی۔
یہاں مسجد ذوقبلتین یعنی دو قبلوں والی مسجد بھی دیکھی۔ اسلام کی ابتدا میں جب نماز کا حکم آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس ڈائریکشن میں نماز پڑھتے تھے کہ سامنے کعبہ ہوتا اور اس کی سیدھ میں بیت المقدس بھی ہوتا تھا۔ یہ ڈائریکشن حجر اسود والی سمت تھی۔ لیکن جب آپ مدینے تشریف فرما ہوئے تو کعبہ اور بیت المقدس دونوں مخالف سمت میں تھے اور دونوں کی جانب بیک وقت رخ کرنا ممکن نہ تھا۔ چنانچہ آپ بیت المقدس کی جانب رخ کرکے نماز پڑھتے رہے لیکن آپ کی شدید خواہش تھی کہ بیت اللہ ہی کو قبلہ قرار دے دیا جائے۔ چنانچہ ایک دن آپ مدینے کے مضافاتی علاقے میں ایک صحابی کی عیادت کے لئے ان کے گھر تشریف لائے۔ وہیں عصر کا وقت شروع ہوگیا اور آپ نے نماز پڑھائی۔ جب آپ نماز کی حالت میں تھے تو وہیں قبلے کی تبدیلی کا حکم آگیا اور آپ نے حالت نماز ہی میں قبلہ تبدیل کیا۔ اس جگہ پر ایک مسجد بعد میں تعمیر کردی گئی اور چونکہ یہ وہ واحد مسجد ہیں جہاں ایک ہی نماز دو قبلوں کو سامنے کرکے پڑھی گئی اس لئے اس کا نام مسجد ذوقبلتین یعنی دو قبلوں والی مسجد پڑ گیا۔
یہاں پر مسجد قبا بھی دیکھی جس کو اسلام کی پہلی مسجد کا شرف حاصل ہے ۔ میں وہاں دو ررکعت نفل پڑھنے ہی لگا تھا کہ اچانک ریحان نے مجھے روک دیا۔ پھر وہ مجھے ایک گنبد کے نیچے لے گیا اور کہا کہ یہاں نماز پڑھو۔ میں نے وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے تشریف لانے کے بعد پڑاؤ ڈالا تھا اور اونٹنی باندھی تھی۔راستے میں حضرت عثمان کا کنواں اور دیگر اہم مقامات بھی دیکھے ۔ یہاں تک کہ ظہر کی نماز پر ہم واپس آگئے۔
مدینے میں قیام کے دوران ایک نمائش بھی دیکھی جو مسجد سے متصل عمارت میں تھی۔ اس میں مقدس مقامات کے ماڈل، تصاویر، نقشے اور تاریخی تفصیلات تھیں۔ سب سے اچھا ماڈل مسجد نبوی کا تھا جس میں بڑی خوبصورتی سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر اور مسجد کو نمایاں کیا گیا تھا۔
مدینے کے معمولات
مدینے میں ہمارا قیام ۸ دنوں کا تھا۔ اس کی وجہ ایک ضعیف روایت تھی جس میں مسجد نبوی میں چالیس نمازیں پوری کرنے کی ترغیب دی گئی تھی۔ مدینے میں چونکہ طواف ممکن نہ تھا اس لئے دن میں فراغت ہی ہوتی۔ بس مسجد نبوی جاکر نمازیں پڑھتا، عصر کے بعد مسجد کی لائبریری میں جاکر مطالعہ کرتا، کبھی کبھی جنت البقیع چلا جاتا اور آدھی رات کو روضہ رسول پر حاضری دیتا، ریاض الجنہ میں نوافل پڑھتا اور پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تہجد کی نماز پڑھنے کی جگہ پر تہجد کی نماز ادا کرتا تھا۔ وہاں تینوں وقت کا کھانا لدھیانوی ٹریلورز کی جانب سے ملتا تھا۔
آخری دن
آج مدینے میں آخری رات تھی۔ اگلے دن عشا ء کے بعد کوچ کرجانا تھا۔ میرا یہ معمول تھا کہ رات کو تہجد پڑھنے آدھی رات کو مسجد ضرور جاتا چنانچہ اس رات اہتمام سے مسجد جانا چاہتا تھا تاکہ آخری حاضری کو یادگار بناسکوں۔سوئے اتفاق کہ رات کو آنکھ نہیں کھلی اور میری نماز رہ گئی ۔ اس کا مجھے انتہائی افسوس ہوا ۔ البتہ رات کو عشا ء کے بعد میں نے روزہ رسول پر حاضری دی اور تہجد جلد پڑھنے کا فیصلہ کیا۔ کچھ رکعتیں پڑھنے کے بعد میں نے ریاض الجنہ کا قصد کیا لیکن وہاں بہت رش تھا اور جگہ ملنے کا کوئی امکان نہ تھا۔ اچانک میں نے دل کی گہرائیوں سے دعا کی کہ یا اللہ مجھے ریاض الجنہ میں جگہ دلوادے۔ اسی اثنا میں میں نے دیکھا کہ ایک شخص سلام پھیر کر بیٹھا ہے۔ میں نے اس سے درخواست کی تو اس نے اسے قبول کرلیا اور جگہ چھوڑ دی۔ یوں اللہ نے میری آخری خواہش بھی پوری کردی۔ جب ہوٹل پہنچا تو بیگم دیر سے پہنچنے پر انتہائی پریشان تھی ۔وہاں البیک کھایا جوا س سے قبل مکہ اور جدہ میں بھی کھا چکا تھا۔
رات کو آخری مرتبہ مسجد کے میناروں کو دیکھا اور بس میں بیٹھ گئے۔ آخری مرتبہ بھیگی ہوئی آنکھوں سے نبی کے شہر کو دیکھا اور آنکھیں بند کرلیں کیونکہ اب دیکھنے کو بچا ہی کیا تھا۔ آگے وہی مادی تہذیب کے نمائندہ شہر تھے جو روحانیت سے خالی تھے۔اب روحانیت کے لئے یہیں واپس آنا تھا اور نہ جانے کب یہ موقع دوبارہ ملے۔
واپسی
بالآخر دوبارہ جدہ کے لئے رخت سفر باندھا۔ جدہ ائیر پورٹ پر ہم صبح ہی کو پہنچ گئے اور یہاں فجر کی نماز ادا کی۔ فلائٹ میں کافی دیر تھی اور ہمیں شام چار بجے تک انتظار کرنا تھا۔ وقت کاٹنا ایک مشکل کام تھا چنانچہ گروپ کے لوگ ادھر ادھر بکھر گئے اور ماحول کا جائزہ لینے لگے۔ گروپ لیڈر رافع سب سے اپنی سروسز کے بارے میں دریافت کررہے تھے ۔ ہم سب نے اس پر اطمینان کا اظہار کیا۔ بالآخر فلائیٹ کا وقت آگیا اور ہم ایک مرتبہ پھر جہاز پر سوار ہوگئے۔ جہاز کی کھڑکیوں سے میں نے حرم کو دیکھنے کی کوشش کی لیکن وہ اب بہت دور ہوچکا تھا ۔ لیکن جب دل کی دنیا میں جھانک کردیکھا تو چار سو حرم ہی دکھائی دیا۔وہاں مسجدالحرام کے مینار اسی طرح روشن تھے، کعبہ کا غلاف وہی دعوت نظر دے رہا تھا، لوگ اسی طرح دیوانہ وار ملتزم سے چمٹے ہوئے تھے، حجر اسود کو بوسہ دے رہے تھے، صفا و مروہ پر دوڑ رہے تھے ۔ ان مناظر کو یاد کرکے بے اختیار آنسو نکل گئے یہ آنسو جدائی کے بھی تھے اور تشکر کے بھی۔ جسمانی طور پر تو حرم دور ہوگیا تھا لیکن روحانی طور پر وہ میری یادوں میں بسا ہوا تھا۔ اب یہی من کی دنیا تھی جس کے سہارے حرم سے رابطہ قائم رکھنا تھا۔
من کی دنیا من کی دنیا سوزو مستی جذب و شوق
تن کی دنیا تن کی دنیا، سودو سودا مکرو فن


حج کا سفرنامہ ۔از پروفیسر محمد عقیل

$
0
0


حج ارکان اسلام میں ایک اہم رکن ہے۔ اکثر مسلمان بھائی حج کرنے جاتے ہیں تو ظاہری مسائل کی ادائیگی ہی کو اپنا مقصد بناتے اور اسی کے مطابق حج کے ارکان سر انجام دیتے ہیں۔اس ظاہری اشتغال کی بنا پر وہ حج کی اصل روح سے ناآشنا رہتے اور اس کے اصل ثمرات سے محروم رہ جاتے ہیں۔
اس سفر نامے کا بنیادی مقصد حج کی اصل روح کو ایک آسان پیرائے میں بیان کرنا ہے۔ یہ تحریر ان لوگوں کے لئے بھی ہے جو حج پر جارہے ہیں یا جانے کا ارادہ کررہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ سفر نامہ ان لوگوں کے لئے بھی مفید ہے جو حج کرچکے ہیں کیونکہ اس طرح وہ ہر رکن کا فلسفلہ معلوم کرسکتے ہیں۔
تحریر پی ڈی ایف میں ڈاؤں لوڈ کرنے کے لئے نیچے کلک کریں۔
Hajj Ka Safarnama


مسلمانوں کو مرتد کرنے والے جرمن ڈاکٹر کا قبولِ اسلام

$
0
0


36 سالہ جرمن آئی سرجن جی میشل کو افریقی مسلمانوں کو گمراہ کر کے عیسائیت کے دائرے میں داخل کرنے کا مشن سونپ کر صومالیہ جانے کا حکم دیا گیا۔ سرجن جی میشل کو ڈاکٹروں کی ٹیم کا سربراہ بنایا گیا، جنھیں بظاہر صومالیہ میں پھوٹ پڑنے والی آنکھوں کی بیماری کا علاج کرنا اور صومالی مسلمانوں کو اس بیماری سے بچاؤ کی تدابیر سے آگاہ کرنا تھا۔ جی میشل ١٩٨٧ء کے درمیانی مہینوں میں اپنی ٹیم کے ہمراہ صومالیہ منتقل ہو جاتے ہیں۔ آئیے ڈاکٹر جی میشل کی صومالیہ میں پر اسرار سرگرمیوں اور خفیہ مشن سے متعلق واقعات خود انھی کی زبانی سنتے ہیں جو انھوں نے حال ہی میں ایک نشریاتی ادارے سے بات چیت کرتے ہوئے آشکار کیے ہیں۔

ڈاکٹر جی میشل کہتے ہیں کہ میرے لیے صومالیہ کا سفر اور وہاں کے لوگوں سے ملاقات انتہائی دلچسپ رہی۔ مجھے نہیں معلوم کہ میرے وجود میں پھیلی اس خوشی کی اصل وجوہات کیا تھیں، معلوم نہیں کہ اس خوشی کا راز کس بات میں پنہاں تھا۔ میری صومالیہ آمد پر وہاں کے معصوم لوگوں کی جانب سے دلفریب استقبال کی وجہ یہ تھی کہ شدید بھوک اور افلاس کے باوجود ان غیرت مند لوگوں میں عزت نفس بدستور موجود تھی۔ میری خوشی کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی تھی کہ ان لوگوں کے چہروں سے معصومیت کے علاوہ امانت اور صداقت بھی صاف عیاں تھی۔

اپنی ٹیم کو لے کر صومالیہ پہنچنے کے فوری بعد ہم نے اپنے طبی مراکز کا آغاز کر دیا اور انتہائی محنت و لگن کے ساتھ وہاں پھیلی آنکھوں کی بیماری کے خلاف کام شروع کر دیا۔ درج بالا عوامل کی بنا پر یہ طبی مرکز میرے لیے زیادہ دلچسپ تھا، اسی لیے میں زیادہ تر طبی مرکز ہی میں رہتا تھا۔ ہم اپنے کام میں اتنے مشغول رہے کہ میں عیسائیت کے پرچار اور مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے مشن ہی کو بھول گیا۔ بہت کم عرصے میں ہی یہاں کے متعدد مسلمان میرے اچھے دوست بن گئے، وہ مجھ سے طرح طرح کے سوالات کرتے اور میں بھی ان سے اپنی مشکلات کے حل کے حوالے سے کچھ نہ کچھ پوچھتا رہتا تھا۔لوگوں کے علاج معالجے میں کسی قسم کی کسر نہ چھوڑنے کی بنا پر میں نے عام لوگوں میں انتہائی مقبولیت حاصل کر لی، اپنے پیشے میں مہارت کے سبب میں نے سینکڑوں لوگوں کو نابینا ہونے سے بچانے میں کامیابی حاصل کر لی تھی۔ جہاں بھی جاتا اور جن لوگوں سے بھی ملتا، مجھے بہت پیار اور عزت دی جاتی، اگرچہ میں ان کی زبان سے ناآشنا تھا، تاہم ان لوگوں کے چہرے کے تاثرات میرے دامن کو عقیدت کے پھولوں سے بھر دیتے تھے۔

پانچ مہینے اسی طرح گزر گئے لیکن ایک دن خلاف توقع ہمارے مرکزی دفتر واقع جرمنی سے مجھے ایک ٹیلی گراف موصول ہوا، جس میں مجھے فوری طور پر جرمنی پہنچنے کا حکم دیا گیا تھا۔ دل میں سوچا کہ شاید میرے کام اور محنت کے سبب میرا ادارہ میری تعریف اور ترقی کے لیے مجھے بلا رہا ہو گا اور اس سلسلے میں میری ٹیم کو انعام و اکرام سے نوازنے کے لیے مجھے بلایا جا رہا ہے، تاہم ٹیلی گراف کے متن کو بغور دیکھ کر میرے تمام خیالات غلط ثابت ہوئے۔ مجھے کہا گیا تھا کہ آپ کو ایک مہینے کے لیے برطانیہ بھیجا جا رہا ہے، جہاں پر مشن کی تکمیل کے حوالے سے مجھے خصوصی ٹریننگ دی جانی تھی، جسے صومالیہ کے مشن کے لیے نہایت ضروری بتایا گیا تھا۔

میں اس حکم سے انکار نہ کر سکا۔ اگرچہ میرا دل پوری طرح صومالیہ میں لگ چکا تھا۔ اس لیے پہلے جرمنی اور پھر برطانیہ چلا گیا۔ برطانیہ کے ایک مہینے کے خصوصی دورے کے بعد میں واپس جرمنی چلا آیا۔ مجھے صومالیہ واپسی کی بے چینی کھائے جا رہی تھی لیکن ایک لمبے عرصے کے انتظار کے بعد مجھے صومالیہ کے بجائے تنزانیہ جانے کا حکم دے دیا گیا۔ میں اس حکم پر انکار نہ کر سکا لیکن یہ خیال مجھے ستائے جا رہا تھا کہ کیا میں صومالیہ میں کامیابی سے محروم ہو گیا تھا اور کیا وہاں موجود میری ٹیم کو میری رہنمائی کی ضرورت نہیں ہے۔ بار بار خود سے سوال کرتا کہ آخر مجھے صومالیہ کے بجائے تنزانیہ کیوں بھیجا جا رہا ہے لیکن اس بار پھر اپنے اعلیٰ حکام سے بحث کرنے کے بجائے میں چپ چاپ تنزانیہ روانہ ہو گیا۔ قریباً چار ہفتے بعد جب میرے ادارے کے اعلیٰ حکام نے مجھ پر اندھا اعتماد شروع کر دیا تو مجھے حکم ملا کہ فوری طور پر واپس صومالیہ منتقل ہو جاؤں۔ یہ حکم ملتے ہی میری آنکھوں میں خوشی کے آنسو تیرنے لگے ۔ پانچ سے زائد ماہ کی جدائی کے بعد میں واپس صومالیہ پہنچ گیا۔ مجھے اپنے درمیان دیکھ کر صومالیوں کی خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی۔ اگر مبالغہ آرائی نہ کروں تو یہ کہنا درست ہو گا کہ گویا میری آمد ان کے لیے کسی مسیحا کی آمد سے کم نہ تھی۔میں واپسی پر اپنے طبی مرکز لوٹ کر اپنی ٹیم کے ساتھ کام میں مشغول ہو گیا۔ محمد باہور نامی صومالی مسلمان مجھ سے زیادہ قریب تھا۔ ایک بار اس نے مجھے اپنے گھر میں دعوت دی، جہاں پر اس کے گھر والوں نے مجھے بہت عزت و تکریم دی۔ اس کے گھر میں ایک بوڑھے شخص سے ملا جو کہ انگریزی انتہائی روانی سے بول سکتا تھا۔ بزرگ محمد باہور کے والد تھے، انھیں پورے علاقے کے لوگ انتہائی عزت و تکریم دیتے تھے بلکہ اس علاقے میں محمد باہور کے والد کو ایک رہنما کی حیثیت حاصل تھی۔ باہور کے والد سے ملاقات پر میں دل ہی دل میں بہت خوش ہوا کہ میرے مشن کے آغاز اور تکمیل کے لیے ان سے کار آمد شخص کوئی اور نہ ہو گا، اگر میں نے انھیں قابو کر لیا تو پھر اس علاقے کے سینکڑوں ہزاروں لوگوں کو قابو کرنا زیادہ مشکل نہ ہو گا۔ چنانچہ میں نے کسی انتظار کے بغیر فوراً ہی بات کرنے کی ٹھان لی۔ دل میں سوچا کہ اپنے مقصد کی بات کی شروعات مذہب سے کروں اور پھر آہستہ آہستہ انجیل اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی جانب بڑھوں۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ مسلمان حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر بھی ایسے ہی ایمان رکھتے ہیں جیسے کہ آخری نبی حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ وسلم) پر رکھتے ہیں۔

اس سے قبل کہ میں اپنی بات کا آغاز کرتا، باہور کے والد نے قرآن پاک کا ایک نسخہ اپنے ہاتھ میں اٹھا کر مجھ سے سوال کیا کہ کیا مجھے اس کتاب کے بارے میں معلوم ہے؟ میں نے جعلی تبسم ہونٹوں پر پھیلا دیا اور اس خوف سے کہ کسی غلط بات پر ان کے مذہبی احساسات نہ بھڑک اٹھیں میں نے نفی میں سر ہلا دیا۔ باہور کے والد نے خاموشی توڑتے ہوئے بتایا کہ انجیل اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں جو بھی سوالات ذہن میں ہوں، ان سے پوچھوں، وہ مجھے اطمینان بخش جواب دے سکتے ہیں۔ میں نے تعجب کرتے ہوئے ان سے سوال کیا کہ آپ کو یہ سب کیسے معلوم ہے تو اس پر انھوں نے بتایا کہ یہ تمام قرآن پاک میں موجود ہے۔ کچھ دیر بعد محفل برخواست ہوئی اور میں طبی مرکز واپس آگیا۔ اس ملاقات کے بعد میں کئی دنوں تک اس سوچ بچار میں تھا کہ آخر اس شخص کے دماغ پر کیسے قابو پاؤں۔ مجھے معلوم تھا کہ اس بوڑھے رہنما کو ذہنی طور پر قابو کر لیا تو میرا کام (مسلمانوں کو مرتد بنانے کا) انتہائی آسان ہو جائے گا۔ اس ملاقات کے بعد باہور کے والد سے فیصلہ کن بحث مباحثے اور بات چیت کے لیے کئی دنوں تک خوب تیاری کی۔ مسلمانوں کو عیسائی بنانے کی غرض سے مطالعے کے لیے کئی انگریزی کتب خریدیں اور خود کو مباحثے کے لیے تیار کرتا رہا۔ بالآخر محمد باہور کے والد سے بات چیت کا دن آ ہی گیا، اس دن میں بہت پریشان تھا، ایسا لگ رہا تھا کہ گویا پرائمری کا ایک بچہ سخت امتحان سے گزر رہا ہو۔ پھر دل کو خود ہی تسلی دی کہ آخر میں کیوں کر اتنا پریشان ہوں، یہ تو انتہائی آسان کام ہے، خود کو تسلی دیتے ہوئے میں اپنے طبی مرکز چلا گیا اور وہاں سے فراغت کے بعد محمد باہور کو لے کر اس کے گھر چلا آیا۔

باہور کے والد سے ان کے گھر پر ہی ملاقات ہوئی۔ انھوں نے مجھے دیکھ کر خوشی کا اظہار کیا۔ سوال جواب کی ابتدا انھوں نے ہی کی۔ مجھ سے پوچھا کہ میرا نام کیا ہے، جس پر میں ”ڈاکٹر” کہہ کر خاموش ہو گیا۔

اس پر باہور کے والد نے بتایا کہ قرآن کریم نے انسان کی پیدائش اوراس کی بناوٹ کے تمام مراحل کو تفصیل سے بیان کیا ہے، اس پر میں نے یک دم پوچھا ، وہ کیسے؟

انھیں گویا اس جملے کا انتظار تھا۔ انھوں نے اپنے دھیمے اور میٹھے لہجے میں انتہائی شستہ انگریزی کے ذریعے مجھے اس حوالے سے پوری معلومات فراہم کر دیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے لہجے اور زبان کی مٹھاس میرے دل میں اتر رہی تھی۔ قرآن کو دیکھنے پر میری حیرت میں اضافہ ہوا۔ اس کتاب میں انسانی جین اور بچے کی نشوونما و پیدائش کے وہ تمام مرحلے تفصیلاً مذکور تھے، جنھیں ہم نے یونیورسٹی اور کالجوں میں پڑھا تھا۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ یہ تمام چیزیں اس کتاب میں ١٤ سو سال قبل بیان کی گئی تھیں۔ اسی لیے میں یہ پڑھ کر انتہائی مرعوب ہوا بلکہ بوڑھے کا ہر لفظ مجھے روحانی طور پر تسکین دے رہا تھا۔
محمد باہور کے والد سے ملاقات کے بعد میں ذہنی طور پر کشمکش میں مبتلا ہو گیا۔ میرے دل اور دماغ میں طوفان برپا ہو گیا تھا، میں خوف اور دباؤ کے باعث رات بھر نہ سو سکا۔ بہت سوچ بچار کے بعد پہلے کی طرح خود کو تسلی دے کر سونے کی کوشش کی۔ بالآخر مجبور ہو کر میں نے بعض طبی مسائل کے حل کے لیے اپنی ٹیم ورکرز کے کام بڑھا دئیے جب کہ خود میں نے تحقیقات اور مطالعے کے لیے وقت نکالا تاکہ اپنے مشن کی کامیابی کے لیے کوئی راستہ نکال سکوں۔ بار بار سوچتا کہ یقیناً مجھے صومالیہ اور یہاں کے لوگوں سے محبت ہے لیکن اپنے دین (عیسائیت) سے مجھے جنون کی حد تک محبت ہے تو کیوں نہ ان معصوم اور سچے لوگوں کو اپنے دین کی جانب بلاؤں۔
چند دنوں کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ محمد باہور کے والد سے ایک بار پھر ملوں تاہم میرے مطالبے سے قبل ہی محمد باہور نے مجھ سے تقاضا کیا کہ اگر میرے لیے ممکن ہو تو میں روزانہ اس کے گھر جا کر اس کے والد سے مل لوں۔ محمد باہور نے بتایا کہ اس کے والد نے مجھ سے متاثر ہو کر روزانہ ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔
پہلے تو میں ان کی اس درخواست پر بہت خوش ہوا کیوں کہ یہی سب کچھ تو میں چاہتا تھا تاہم بعد ازاں دل میں سوچا کہ جب میں نے ان پر اب تک کوئی اثر ہی نہیں ڈالا ہے تو پھر ان سے مزید ملاقاتوں کے ذکر سے کیوں خوش رہا ہوں۔ محمد باہور سے حامی بھرنے کے بعد فیصلہ کیا کہ اس بار گفتگو کا آغاز میں خود کروں گا اور گفتگو کے دوران پہلا وار بھی میرا ہی ہو گا۔ اپنی تمام ملاقاتوں کا تذکرہ کر کے پڑھنے والوں کا وقت ضائع کرنا نہیں چاہتا لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ پانچویں اور چھٹی ملاقات کے دوران میں بھی بوڑھے مسلمان کا پلڑا بھاری تھا۔ میں برملا اعتراف کرتا ہوں کہ ان سے تمام نشستوں کے دوران میں خود کو محاصرے میں سمجھتا تھا۔ باہور کے والد سے ملاقات سے قبل پوری تیاری کرتا لیکن سامنا ہونے پر ان کی صداقت، ایمانداری و سچائی پر مبنی تحلیل، تجزیئے اور توضیحات مجھے روحانی طور پر شدید جھٹکا دیتے تھے، میری حالت یہ ہوتی کہ جیسے ایک بچہ استاد کے سامنے بیٹھ کر اس سے کچھ سیکھ رہا ہو۔
دوسری جانب جرمن ادارہ برائے عیسائی تبلیغ کے کارکنان پوری طرح سے مجھ پر نظر رکھے ہوئے تھے۔ مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ انھوں نے پہلے ہی دن میرے محمد باہور کے گھر جانے کو بھی نوٹ کیا تھا۔ آخر کار بات یہاں تک پہنچی کہ میرے ٹیم ورکرز میرے سامنے مزاحمت کرنے لگے۔ انھوں نے مجھے وارننگ دی کہ آئندہ میں باہور کے گھر نہ جاؤں، دن بدن مجھ پر سختی ہوتی گئی۔ یہاں تک کہ جرمنی سے مجھے حکم ملا کہ میں محمد باہور کے گھر نہ جاؤں اور پھر مجھے صومالیہ کے اس چھوٹے سے مقام سے دار الحکومت موغا دیشو ٹرانسفر کر دیا گیا۔ جرمن ادارے کے کارکنوں نے محمد باہور کے گھر والوں پر اس مقام سے کہیں اور منتقل ہونے کے لیے دباؤ ڈالا تھا۔ جرمن ادارے نے محمد باہور سے میرے تعلقات ختم کرنے میں کامیابی حاصل کی لیکن وہ میرے دل سے صومالیہ اور یہاں کے لوگوں کی محبت ختم نہ کر سکے۔
بہر کیف کچھ دن بعد میں اکثر رات کے پچھلے پہر چپکے سے ٹیکسی میں سوار ہو کر محمد باہور کے گھر چلا جاتا لیکن یہ سلسلہ زیادہ دیر تک جاری نہ رہ سکا۔ میری جگہ تعینات نئی ٹیم کے سربراہ کو اس بات کی خبر ہو گئی اور پھر اس نے علاقے کے ایک سیکورٹی افسر کو میرے پیچھے لگا دیا جو کہ کئی دنوں تک مجھے منع کرتا رہا۔ آخر کار میں اس سیکورٹی اہلکار کو چکمہ دینے میں کامیاب ہو گیا۔ بعد ازاں مجھے روکنے میں ناکامی پر سیکورٹی افسر نے محمد باہور کو گرفتار کر کے قید کر لیا۔ جس کا مجھے بہت افسوس ہوا اور پولیس کے اس رویے پر میں بہت رویا۔
اس کے بعد میں باہور کے والد سے مزید ملاقات نہیں کر سکتا تھا اور اسی بنا پر زیادہ مایوس ہو گیا تھا۔ میرا واحد ہدف یہی تھا کہ ان سے شروع کی جانے والی بحث کو منطقی انجام تک پہنچا دوں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس بوڑھے کی باتوں سے میرے ذہن میں برپا ہونے والے طوفان کے خاتمے کے لیے ان سے مزید ملاقاتیں ضروری تھیں۔ اسی عرصے کے دوران مجھے میرے مرکزی دفتر واقع جرمنی سے ایک ٹیلی گرام کے ذریعے سے حکم دیا گیا کہ ضروری ڈیوٹی کے پیش نظر میں فوری طور پر کینیا پہنچ جاؤں۔ کینیا جانے سے قبل سیکورٹی افسر سے یہ کہہ کر محمد باہور کے علاقے میں چلا آیا کہ میری بعض دستاویزات وہاں رہ گئی ہیں۔ یہاں آتے ہی سیدھا محمد باہور کے گھر چلا گیا، اس بار ان کے گھر میں زیادہ خوشیاں دیکھنے کو ملیں۔ باہور کے والد نے بتایا کہ رمضان کا مہینہ شروع ہے، جس میں دین اسلام کا تیسرا اہم رکن روزہ رکھا جاتا ہے۔ صبح ہونے سے قبل میں نے ان کے ساتھ سحری کر لی اور پھر اذانوں کے بعد سبھی لوگوں کو مسجد کی جانب جاتے ہوئے دیکھا ، پورا دن محمد باہور کے والد کے ساتھ گزارا اور ان کے دینی شعائر کے احترام کی بنا پر میں بھی پورا دن روزے سے رہا۔
قصہ مختصر اعلیٰ حکام کے حکم کے مطابق میں موغا دیشو سے کینیا کے دار الحکومت نیروبی چلا گیا۔ نیروبی کے ائیر پورٹ پر وہاں کے مسلمان میرے استقبال کے لیے موجود تھے۔ میں ان سے پہلی بار مل رہا تھا۔ انھوں نے مجھ سے مطالبہ کیا کہ ہوٹل جانے سے قبل انھی مسلمانوں میں سے ایک کے گھر کی دعوت قبول کر لوں جو کہ انھوں نے میری آمد سے قبل ہی ترتیب دی تھی۔
نیروبی میں کچھ عرصہ گزرنے کے بعد مرکزی آفس سے ایک دوسرے ٹیلی گراف کے ذریعے مجھے خبر دی گئی کہ سیکورٹی نقطۂ نگاہ سے میں آئندہ صومالیہ کا نام بھی زبان پر نہ لاؤں، اس خبر پر مجھے شدید حیرانی ہوئی کہ آخر صومالیہ میں میری زندگی کو کیوں کر خطرات لاحق ہیں۔ مجھے ٹیلی گراف میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ اگر تمام احکامات کے باوجود میں نے صومالیہ جانے کی کوشش کی تو مجھے مرکزی آفس کے حکام کے شدید نوعیت کے رد عمل کا انتظار کرنا چاہیے۔ وہاں میرے والدین کو بھی غلط معلومات فراہم کی گئیں۔ ان کے ذہنوں کو میرے بارے میں مکمل طور پر تبدیل کر دیا گیا تھا۔ بالآخر مجھے میرے والد کی جانب سے بھی ایک ٹیلی گراف موصول ہوا، جس میں مجھے فوری طور پر جرمنی آنے کا حکم دیا گیا تھا۔ میرا ذہن منتشر تھا، میرے ذہن اور دل کو اطمینان بخش جواب دینے کے لیے کوئی بھی میرے پاس موجود نہیں تھا۔ چنانچہ میں نے ہر پہلو پر خوب سوچ بچار شروع کر دیا، جرمنی پلٹ کر وہاں کی آرام دہ زندگی اور صومالیہ کے پیچیدہ حالات کے درمیان فرق تلاش کرنے لگا۔ اپنے دماغ میں ابھرنے والے سوالات کے جواب تلاش کرنے اور ہیجانی کیفیت سے باہر نکلنے سمیت صومالی مسلمانوں کے شفاف اور صادق چہروں نے مجھے انتہائی فیصلہ کرنے پر مجبور کیا۔ مجھے محمد باہور کے والد سے ان تمام سوالات کے جوابات سننے تھے جو کہ طوفان بن کر میرے ذہن میں اٹھے تھے۔
چنانچہ انتہائی فیصلے سے قبل اللہ سے دعا کی کہ مجھے سیدھا راستہ دکھا دے، یہ کہہ کر میں نے قلم کاغذ لے کر اپنے جرمنی کے مرکزی آفس کو ٹیلی گراف میں لکھا۔ آپ لوگ مطمئن رہیں، میں نے پوری فکر اور تحقیق کے بعد اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور میں اسلام قبول کرنے جا رہا ہوں جو آپ سے ہو سکتا ہے وہ آپ کر لیں، ڈاکٹر جی میشل کینیا۔
ہر طرح کے وسوسوں سے نکلنے کی غرض سے اس متن کو فوری طور پر اپنے مرکزی آفس ٹیلی گراف کر دیا۔ ٹیلی گراف کرنے کے بعد مجھے انتہائی سکون حاصل ہوا۔ میں نے خوشی اور مسرت سے اپنے نیروبی کے دوستوں کو اپنے مسلمان ہونے کے بارے میں بتایا۔ اس کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ کسی بھی قیمت پر صومالیہ ضرور جاؤں گا چاہے کچھ بھی ہو جائے۔ صومالیہ جانے کے لیے میرے پاس رقم موجود نہ تھی۔ چنانچہ تن کے جوڑے کے علاوہ دیگر تمام چیزیں فروخت کر دیں اور موغا دیشو پہنچنے کے بعد سیدھا محمد باہور کے گھر چلا گیا۔ محمد باہور کے والد کو دیکھ کر السلام علیکم کہا، جس پر انھوں نے مجھے اپنی باہوں میں سمیٹ لیا اور میرے آنے پر انتہائی مسرت کا اظہار کیا۔ اس دوران میں نے دھیمی آواز میں کلمہ شہادت پڑھا۔
اس کے بعد میرے پاس تفریح کے لیے کوئی وقت نہیں تھا۔ پورا پورا دن تلاوت قرآن اور احادیث پاک یاد کرنے میں صرف ہوتا، صومالیہ کے حکومتی اداروں نے میرے لیے صومالیہ میں قیام کی اجازت حاصل کر لی اور اس کے بعد میں بھی صومالیہ کا ایک شہری بن گیا۔ میرا نام عبد الجبار رکھا گیا اور اب مجھے کسی سے بھی ملنے سے کوئی منع نہیں کر سکتا تھا۔
آج اپنی سابقہ زندگی کو یاد کرتا ہوں کہ مجھے مسلمانوں کو مرتد بنانے کے لیے صومالیہ بھیجا گیا تھا لیکن اللہ کے فضل و کرم سے میں خود اسلام کی دولت سے مالا مال ہو گیا۔ صومالیہ کی شہریت حاصل کرنے کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ بحیثیت ڈاکٹر صومالیہ میں آنکھوں کے موذی مرض میں مبتلا لوگوں کا علاج کروں۔ چنانچہ آج میں پوری توجہ کے ساتھ اپنی خدمات انجام دے رہا ہوں، لیکن شکر کا مقام ہے کہ اس بار میں یہ خدمت اللہ کی رضا کے لیے انجام دے رہا ہوں۔

(بشکریہ ماہنامہ نقیب ختم نبوت، ملتان، ستمبر 2008)


ارچنا امیت کے قبول اسلام کی ایمان افروز داستان

$
0
0


٢٩ نومبر ٢٠٠٣ کی خوش گوار صبح تھی موسم کہر آلود تھا۔ ذرا سی خنکی بھی تھی۔ تقریباً ٩ بجے صبح مںھ اپنی بچی سمتا کو گود مںا لےو کان پور سے لکھنو جانے والی بس میں بیٹھ گئی۔ تھوڑی دیر بعد بس چل پڑی اور مسافروں نے اپنا اپنا ٹکٹ بنوانا شروع کردیا۔ مں نے بھی ٹکٹ بنوانے کے لئےاپنا پرس کھولا تو میرے ہوش اڑ گئے۔ جو روپے میں نے رکھے تھے، وہ اس میں نہ تھے۔ میرے ہا تھ پاؤں پھولنے لگے، سانسیں تیز ی سے چلنے لگیں ۔میں بار بار پرس الٹتی پلٹتی رہی، بمشکل تمام کل بتیس روپے نکلے، جبکہ کرایہ اڑتیس روپے تھا۔ اب کنڈیکٹر شور مچانے لگا کہ کس نے ٹکٹ نہں بنوایا ہے۔ میں ڈری سہمی اٹھی اور کنڈیکٹر کو ٣٢ روپے تھما کر اپنی سیٹ پر بٹھ گئی اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی کنڈیکٹر چیخنے لگا کہ پورے پسے لاؤ۔ میں بالکل خاموش تھی، کچھ بولا نہیں جا رہا تھا۔ طرح طرح کے خیالات دل و دماغ پر چھائے ہوئے تھے۔ بس گنگا ندی پر سے گزر رہی تھی کہ کنڈیکٹر نے پھر کہا کہ پورے پسے لاؤ، ورنہ بس سے اتر جاؤ اور اس نے بس رکوا دی۔ مجھے اترنے کے لے بار بار کہہ رہا تھا۔ پوری بس میں سناٹا چھایا ہو ا تھا۔ سارے پسینجر مڑ مڑ کر مر ی طرف دیکھ رہے تھے اور میں مارے شرم کے سردی میں بھی پسنے پسنے ہو رہی تھی۔ اتنے میں ایک صاحب جو کالی شیروانی زیب تن کئے ہوئے ڈرائیورکے پیچھے والی سیٹ پر بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے، نے کنڈیکٹر سے پو چھا :کیا بات ہے ؟ اس نے جواب دیا : ارے یہ میڈم پورے پیسے نہیں دے رہی ہیں ، اور اتر بھی نہیں رہی ہیں ۔ انہوں نے اچٹتی نظر سے میری طرف دیکھا اور پھر کنڈیکٹر سے پوچھا : کتنے روپے کم ہیں ؟اس نے بتایا، چھ روپے کم ہیں ۔ ان صاحب نے دس روپے کا نوٹ دیتے ہوئے کہا کہ اس میں سے لے لو اور پھر بس چل پڑی۔ بس تیز رفتاری سے درختوں، مکانوں اور دکانوں کو پچھےھ چھوڑتی بھاگی جا رہی تھی اور میں قدرے اطمنا ن سے مختلف احساسات و خیالات مں کھوئی ہوئی تھی۔ لکھنو آگیا اور میں جھٹ سے بس سے اتر کر کنارے کھڑی ہو گئی، سوچا کہ ان بھلے آدمی کا شکریہ ادا کر لوں۔ جب وہ صاحب اترے تو میں نے آگے بڑھ کر ان کا شکریہ ادا کیا اور اپنی آنکھوں کے آنسوؤں کو سنبھالنے کی کوشش کی۔ وہ صاحب بولے:” ارے ! کوئی بات نہیں ہے۔ اور جانے لگے، پھر اچانک مڑ کر پوچھا کیا بات ہوئی تھی؟ ان کا یہ سوال غالباً اس لیے تھا کہ میں دیکھنے میں خوشحال لگ رہی تھی۔ بہترین لباس اور زیورات پہن رکھے تھے۔ میں نے بتایا کہ بھائی صاحب! گھر سے نکلی تو خیال تھا کہ پرس میں روپے ہیں، مگر معلوم نہیں کیا ہوا۔ انہوں کہا کہ ایسا ہو جاتا ہے۔ آپ کو جانا کہاں ہے؟ میں نے بتایا کہ حسین گنج میں رہتی ہوں، پیدل چلی جاؤں گی۔ انہوں نے کہا کہ بچی گود میں ہے، بیگ بھی وزنی معلوم ہوتا ہے (جو واقعی وزنی تھا) آپ یہ روپے لے لیجیے اور رکشا سے چلی جایے اور بیس روپے کا نوٹ میری طرف بڑھایا۔ میں نے پہلے معذرت کی، مگر انہوں نے زبردستی وہ نوٹ مجھے دیا اور چلے گئے۔

ان کے جانے کے بعد میں نے رکشا لیا اور اپنے گھر پہنچ گئی، لیکن دل میں ایک ایسا نقش بیٹھ چکا تھا کہ اب کبھی مٹ نہیں سکتا تھا۔ شام کو اپنے شوہر امیت کمار کو پوری داستان سنائی۔ وہ بھی بہت متاثر ہوئے اور کہنے لگے کہ ان کا نام، پتا اور فون نمبر وغیرہ لے لیا ہوتا۔ مجھے بھی بڑا افسوس ہوا کہ یقیناً نام، پتا معلوم کر لینا چاہیے تھا، مگر صحیح بات یہ ہے کہ اس وقت میری عقل گم تھی۔ اب دن رات بار بار یہی بات سوچتی اور دل چاہتا کہ کاش ایسے بھلے انسان سے پھر ملاقات ہو۔ کئی دن گزر گئے، میں اور میرے شوہر اکثر تذکرہ کرتے، ان کو یاد کرتے، راہ چلتے نظریں انہیں تلاش کرتیں۔ بہت سے ایسے افراد جب شیروانی، ٹوپی اور داڑھی میں دکھائی دیتے تو امیت کہتے: ان میں سے پہچانو، مگر اب وہ کہاں ملتے؟

تقریباً تین ماہ بعد ایک روز ہم دونوں مارکیٹنگ کرتے ہوئے کچہری روڈ امین آباد سے گزر رہے تھے کہ اچانک میری نظر ایک صاحب پر پڑی، جو کرتا پاجامے میں تھے، دیکھتے ہی دل نے کہا کہ یہ تو وہی صاحب ہیں۔ جب تک میں فیصلہ کرتی اور امیت کو بتاتی، وہ ہم لوگوں کے قریب سے گزر کر آگے نکل گئے۔ میں نے امیت سے کہا کہ شاید وہی صاحب ہیں، ذرا پوچھو۔ امیت لپکے اور ان کو روکا۔ میں بھی قریب پہنچی تو یقین ہو گیا کہ یہ وہی صاحب ہیں، جن کو ہم تلاش کرنا چاہتے تھے۔ ہم نے ان کو نمستے کہا۔ وہ حیرت سے ہم لوگوں کو دیکھ رہے تھے۔ میں نے کہا: آپ نے مجھے پہچانا؟ انہوں نے کہا: معاف کیجیے گا، میں تو نہیں پہچان سکا۔ مجھے اندر سے تکلیف سی محسوس ہوئی کہ جس شخص کی شکل و صورت گزشتہ تین چار ماہ سے دل و دماغ میں بسی ہوئی تھی، وہ مجھے پہچان نہیں رہا۔ امیت نے کہا: سوچیے اور پہچانیے۔ انہوں نے کہا کہ نہیں، بالکل یاد نہیں ہے۔ براہ کرم کچھ بتائیے۔ میں نے کہا کہ تین چار ماہ پہلے کان پور سے آتے ہوئے بس میں ملاقات ہوئی تھی اور آپ نے میری مدد کی تھی۔ اب وہ ہنسنے لگے اور بولے: آئیے، چائے پیتے ہیں۔ اور یہ کہہ کر قریب کے ایک ہوٹل میں بیٹھ گئے۔ ہم لوگ ان سے ملنے کے لیے بے قرار تھے، اس لیے فوراً ان کی پیشکش قبول کر لی۔ اب سب سے پہلے تو ہم لوگوں نے ان کا شکریہ ادا کیا۔ اپنی مجبوری بیان کی اور اپنی کیفیت بیان کرتے رہے۔ وہ بار بار یہی کہتے کہ بھئی ! چھوڑیے، ان سب باتوں کو۔ کوئی ایسی بات تو تھی نہیں کہ آپ لوگ اس قدر یاد کرتے رہے۔ امیت نے ڈائری نکالی اور کہا: جناب اپنا اسم گرامی اور فون نمبر وغیرہ لکھا دیجیے۔ انہوں نے نام، فون اور پتا لکھایا اور امیت کا پتا و نمبر وغیرہ ایک کاغذ پر لکھ لیا۔ معلوم ہوا کہ یہ جناب سرائے میر اعظم گڑھ کے رہنے والے ہیں۔ امیت نے میرے کہنے پر گزارش کی کہ چائے کے پیسے ہمیں دینے دیجیے۔ وہ کسی طرح آمادہ نہیں ہو رہے تھے۔ میں نے کہا: ڈاکٹر صاحب! مجھے بڑی خوشی ہو گی کہ چائے کہ پیسے میں دوں، وہ خاموش ہو گئے۔ اور امیت نے پیسے دے دیے۔ اب میں نے آہستہ سے کہا کہ ڈاکٹر صاحب! ایک بات کہوں، آپ کچھ محسوس نہ کیجیے گا، یہ چھبیس روپے براہ کرم رکھ لیجیے۔ وہ قدرے بلند آواز میں بولے: بھئی! یہ کیا بات کر رہے ہیں! اگر یہ پہلی اور آخری ملاقات ہے تو کوئی بات نہیں ہے، ورنہ ایسی باتیں نہ کیجیے، مگر امیت نے زبردستی چھبیس روپے ان کی جیب میں ان کے منع کرنے کے باوجود رکھ دیے۔

اب میں نے کہا: ڈاکٹر صاحب! کبھی میرے گھر تشریف لائیے۔ انہوں نے کہا: ہر گز نہیں، میں کبھی نہیں آؤں گا۔ دو باتیں آپ لوگوں نے زبردستی منوا لیں۔ میری شرط ہے کہ پہلے آپ لوگ میرے گھر آئیے۔ تھوڑی تکرار کے بعد ہم لوگوں نے وعدہ کر لیا کہ جلد ہی ہم ضرور آئیں گے اور پھر ہم رخصت ہو گئے۔

اگلے ہی اتوار کو امیت نے کہا: چلو ڈاکٹر صاحب کے گھر چلیں، فون کیا، انہوں نے کہا: تشریف لائیے، میں انتظار کروں گا۔ حسب وعدہ شام کو ہم چلے۔ یقین کیجیے، زندگی میں پہلی بار ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ میرا کوئی بھائی ہے اور میں اپنے بھائی کے گھر جا رہی ہوں۔ میرا کوئی حقیقی بھائی یا بہن نہیں ہے، ماں باپ کا بھی کافی پہلے انتقال ہو چکا تھا۔ اب جو عزیز بھی ہیں، وہ سسرالی رشتے دار ہیں۔ ہم پہنچے تو ڈاکٹر صاحب اپنے آفس کے باہر انتظار کر رہے تھے۔ بڑی محبت سے ملے اور فوراً گھر میں لے گئے۔ بٹھایا اور کچن میں اپنی اہلیہ ام سلمیٰ اعظمی سے ملاقات کرائی، جو میری ہی عمر کی ہیں یا سال دو سال چھوٹی ہوں گی۔ ان سے مل کر مجھے بڑی خوشی ہوئی۔ بڑی ہنس مکھ، ملن سار اور سلیقہ مند ہیں۔ ضیافت کا اچھا خاصا اہتمام کیا تھا۔ چائے کے دوران میں ہی میں نے کہا: ڈاکٹر صاحب! اگر آپ اجازت دیں اور کوئی حرج نہ ہو تو روٹی میں پکا دوں، اس لیے کہ بچہ رو رہا ہے اور بھابھی پریشان ہیں۔ انہوں نے کہا: بھابھی سے پوچھ لو۔ آپ اپنے ہی گھر میں ہیں، ان کی اس بات مجھے حد درجہ خوشی ہوئی۔ میں نے بہت کہا کہ کھانا پکانے میں مدد کروں، مگر بھابھی نے کہا: اب نہیں، جب دوبارہ آئیے گا تو کھانا پکائیے گا۔ اس دوران میں، میں تو بھابھی سے باتیں کرتی رہی اور ڈاکٹر صاحب امیت کو بہت سی کتابیں دکھاتے رہے۔ امیت کتابوں کے دیوانے ہیں۔ تقریباً دو ڈھائی گھنٹے بعد جب ہم چلنے کو تیار ہوئے تو امیت نے دسیوں کتابیں لے لی تھیں۔ چلتے ہوئے بھابھی نے ایک پیکٹ دیا اور کہا: اسے گھر جا کر کھولیے گا۔ ہم لوگ گھر پہنچے، دس بج چکے تھے، پیکٹ کھولا تو حیرت اور خوشی کی انتہا نہ رہی، ایک ساڑھی، بلاؤز اور میری بیٹی سمتا کے لیے ایک فراک اور ایک کلو مٹھائی کا ڈبہ تھا۔

اب کیا تھا۔ امیت آئے دن ڈاکٹر صاحب سے ملتے رہے۔ کتابیں لاتے رہے، رات رات بھر پڑھتے اور واپس پہنچاتے رہے۔ میں بھی کتابیں پڑھتی تھی، ”شانتی مارگ” ”مکتی مارگ” ”جیون مرتیو کے پشچات””اسلام دھرم” ”اسلام جس سے مجھے پیار ہے””چالیس حدیثیں””قرآن کے پریچے” اور قرآن کا ترجمہ، سب کچھ پڑھ ڈالا۔ چار پانچ بار میں ڈاکٹر صاحب کے گھر گئی۔ جب بھی جاتی اور واپس آتی تو بھابھی کچھ نہ کچھ کپڑے، کھلونے، کھانے پینے کی چیزیں یا کوئی اور چیز ضرور دیتیں۔ دو، تین بار وہ بھی ہمارے پاس ہمارے گھر آئیں۔ ہم لوگ ایک دوسرے کے کافی قریب ہو چکے تھے۔ امیت اکثر ڈاکٹر صاحب سے ملتے رہتے اور وہ بھی فون کر کے ان کو بلا لیتے، مگر ایک سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا، بار بار کہنے کے باوجود ڈاکٹر صاحب ہمارے گھر نہیں آئے۔ ہر بار کوئی مجبوری یا عذر بیان کرتے اور پھر آنے کا وعدہ کرتے۔ ایک بار ہم لوگ ان کے گھر گئے تو معلوم ہوا کہ طبیعت کچھ خراب ہے۔ بدن سنسنا رہا ہے اور بھابھی اپنی ناراضی ظاہر کر رہی ہیں۔ معلوم ہوا کہ آج ہی کسی اجنبی مریض کو خون دے کر آئے ہیں، جب کہ دو ماہ پہلے کسی مریضہ کو خون دیا تھا۔ بھابھی ناراض ہو رہی تھیں اور وہ کہہ رہے تھے کہ اگر خون دے کر کسی کی جان بچ سکتی ہے تو کیا حرج ہے؟ میں نے بھابھی کی حمایت کی۔

امیت جب بھی ان سے مل کر آتے، اکثر کوئی نہ کوئی واقعہ بتاتے اور حیرت و خوشی سے بارہا تذکرہ کرتے، مثلاً آج ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہوئی تھی۔ ایک لسٹ لیے بیٹھے تھے کہ دیکھو: آٹا، دال، چاول اور یہ سامان لانا ہے۔ میں پہنچ گیا تو بیٹھے رہے، باتیں ہوتی رہیں، اس دوران ندوہ کا ایک طالب علم آیا۔ کچھ دیر بعد اس نے اپنی ضرورت بیان کی، ڈاکٹر صاحب نے چار سو روپے اس کو دے دیے اور سامان لانا رہ گیا۔

ایک بار کہنے لگے: آج ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہوئی تھی، ساتھ میں امین آباد گئے تھے۔ ایک کمبل 350 روپے میں خریدا اور واپس آرہے تھے کہ راستے میں ایک نقاب پوش خاتون ملی اور کہا کہ مولوی صاحب! بچے سردی کھار ہے ہیں، ایک کمبل یا لحاف دلا دیجیے۔ اتنا کہنا تھا کہ ڈاکٹر صاحب نے وہ کمبل اس کو تھما دیا اور خالی ہاتھ گھر چلے گئے۔

اس عرصہ میں امیت میں غیر معمولی تبدیلی آ چکی تھی۔ پوجا کرنا اور مندر جانا بالکل چھوڑ دیا تھا، جب کہ پہلے اس کی پابندی کرتے تھے۔ گھر سے تمام تصویریں اور مورتیوں کو ہٹا دیا اور ہم لوگ عجیب سی تبدیلیاں محسوس کرنے لگے۔ اس دوران میں ڈاکٹر صاحب سے بار بار گھر آنے کو کہتے، مگر وہ ٹال جاتے۔ ایک رات تقریباً گیارہ بجے امیت نے دیکھا کہ ڈاکٹر صاحب ایک ہاتھ میں آٹے کا تھیلا اور دوسرے ہاتھ میں چاول، دال اور کچھ دوسرا سامان لٹکائے ہماری گلی کے قریب والی دوسری گلی کی طرف مڑے ہیں۔ امت پیچھے لپکے اور قریب جا کر پوچھا: آپ اس وقت یہاں؟ یہ کیا ہے؟ پہلے تو انہوں نے ٹالنا چاہا، مگر پھر بتایا کہ یہاں ایک بوڑھی خاتون رہتی ہیں، ان کا کوئی سہارا نہیں ہے، میں کبھی کبھار یہ سامان پہنچا دیتا ہوں۔ پھر امیت کو ساتھ لے کر گئے۔ سامان دیا، کچھ روپے دیے اور واپس لوٹے۔ اب امیت نے اصرار کیا کہ گھر چلیے، انہوں نے کہا کافی رات ہو گئی ہے، پھر آئیں گے، مگر امیت زبردستی گھر لے آئے۔ اپنے گھر میں انہیں دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی۔ میں جلدی سے کھانے پینے کا انتظام کرنے لگی۔ انہوں نے کہا کہ ہم تو کھانا کھا چکے ہیں، چائے بنا لو بس، کھانا پھر کبھی کھائیں گے، بہر حال جو کچھ تھا پیش کیا۔ باتیں ہونے لگیں اور بالآخر امیت بولے: اب بہت دن ہو گئے، ہم لوگ کب تک اسی طرح رہیں گے؟ ڈاکٹر صاحب نے کہا: جلدی کیا ہے؟ ہم نے کہا: اگر اسی درمیان موت آ گئی تو؟ اب ڈاکٹر صاحب بالکل خاموش تھے۔ تقریباً ایک بجے امیت ان کو ان کے گھر پہنچانے گئے۔ جب واپس آئے تو ہم لوگ رات بھر سو نہ سکے اور ایمان، اسلام، جنت، دوزخ اور ڈاکٹر صاحب اور اس بوڑھی خاتون کی باتیں کرتے رہے۔

اسی طرح تین چار ماہ گزر گئے، نماز کی کتاب سے اور بھابھی سے نماز پڑھنا سیکھ لی اور ہم لوگ پابندی سے نماز پڑھنے لگے۔ اسی دوران میں امیت کا ٹرانسفر ہو گیا اور ہم لوگ لکھنؤ سے غازی آباد آ گئے۔

یہاں سے ہم لوگوں نے نئی زندگی کا آغاز کیا۔ میں ارچنا سے مومنہ تبسم، امیت عبدالکریم اور سمتا عظمیٰ ہو چکی ہیں۔ زندگی کا سفر جاری ہے۔ ڈاکٹر صاحب دو سال سے عید کے موقع پر سب لوگوں کے لیے کپڑے اور عیدی بھیج رہے ہیں۔ ان کے ہم زلف محمد یونس بھائی تحفے تحائف لے کر آتے ہیں۔ دو بار میں بھی لکھنؤ جا چکی ہوں۔ ان کا گھر مجھے اپنا میکہ لگتا ہے، اور اسی انداز سے ہم جاتے اور آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتی ہوں کہ یہ رشتہ برقرار رہے اور ہم سب لوگ آخرت میں کامیاب ہوں۔


اسلامک اسٹڈیز پروگرام

$
0
0


اسلامک اسٹڈیز پروگرام اسلامی علوم کی تعلیم کا ایک جدید آن لائن نظام ہےجس کا مقصد فرقہ واریت اور تشدد سے پاک ایسے اہل علم تیار کرنے میں مدد دینا ہے، جو دین کی دعوت کو اگلی نسلوں تک پہنچا سکیں۔ اس کی خصوصیات یہ ہیں:
• عوام الناس، داعی اور علما ء کے لئے اسلامی تعلیم کا جامع نصاب
• ہر طالب علم پر استاد کی انفرادی توجہ
• ہر سوال کا انفرادی سطح پر جواب
• تزکیہ نفس اور تعمیر شخصیت پر خصوصی توجہ
• درس نظامی کے طلبا کے لیے نصاب کی تفہیم میں اضافی مدد
• جدید تعلیم یافتہ افرادکی کی ذہنی سطح کے مطابق خصوصی کورسز
• ہر قسم کی فرقہ بندی سے ماورا مطالعے کا نظام
• امت مسلمہ کو یکجا کرنے کی ایک کاوش
• بلامعاوضہ تعلیم و تدریس
اگر آپ بھی ہمارے پروگرام سے دلچسپی رکھتے ہیں اور گھر بیٹھے دین کا علم حاصل کرنا چاہتے ہیں تو آج ہی اپنی پسند کے درج ذیل کورسز میں داخلہ لیجیے:
• عربی زبان
علوم القرآن
• علوم الحدیث
• مسلم مکاتب فکر کا تقابلی مطالعہ
• تعمیر شخصیت اور تزکیہ نفس
• علم الفقہ
• اسلامی تاریخ
• مذاہب عالم
• دعوۃ اسٹڈیز
تفصیل اور رجسٹریشن کے لیے وزٹ کیجیے: http://www.islamic-studies.info
کسی بھی قسم کی مزید وضاحت کے لئے اس ای میل پر رجوع کریں: mubashirnazir100@gmail.com

Detail of Syllabus



حج کی روح اور عملی مسائل

$
0
0


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

حج کے لغوی معنی ارادہ کرنے کے ہیں۔ارکانِ اسلام میں حج پانچواں اہم رکن ہے۔ نماز، روزہ اور زکوٰۃ کی طرح حج کا انکار کرنے والا شخص بھی اسلام کے دائرے سے باہر سمجھا جاتا ہے اور اس مسئلے پر امت میں کوئی اختلاف نہیں۔ حج زندگی میں ایک بار ہر اس مسلمان پر فرض ہے جو اسکی استطاعت رکھتا ہو۔
حج کی فرضیت: حج کی فرضیت اور اہمیت قرآن و حدیث میں بڑی واشگاف الفاظ میں بیان ہوئی ہے۔ قرآن میں اللہ نے حکم دیا ’’جو استطاعت رکھے اس پر اس گھر کا حج فرض ہے اور جو کوئی انکار( کفر ) کرے تو اللہ عالم والوں سے بے پرواہ ہے‘‘( آل عمران:۹۷)۔اسی طرح ایک حدیث کے مطابق نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ’’ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔ توحید ورسالت، نماز کا قیام، زکوٰۃ کی ادائیگی ، حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا‘‘( بخاری ۔کتاب الایمان: حدیث ۸)۔ حضرت عمر کا قول ہے ’’جو شخص وسعت اور پر امن راستے کے باوجود حج نہیں کرتا اور مر جاتا ہے تو وہ چاہے یہودی ہو کر مرے یا نصرانی ہوکر‘‘(سنن کبریٰ بیہقی: ۴۔۳۳۴) ۔ اسی مضمون کی ایک اور حدیث ضعیف سند کے ساتھ مروی ہے کہ’’ جو استطاعت کے باوجود حج نہ کرے اس کے لئے یہ برابر ہے کہ وہ یہودی ہو کر مرے یا نصرانی ہو کر‘‘(سنن ترمذی: حدیث ۸۱۲) ۔لہٰذا حج استطاعت کے باوجود نہ کرنے کا نتیجہ کفر کی شکل میں نکل سکتا ہے۔
عمرے کی حیثیت: جہاں تک عمرے کا تعلق ہے تو یہ ایک نفلی عبادت ہے اور کوئی اگر استطاعت کے باوجود ساری عمر عمرہ نہ کرے تو اس کا کوئی مواخذہ نہیں
حج و عمرے کی فضیلت: احادیث میں حج کی بڑی فضیلت بیان ہوئی ہے۔ نبی کریم ﷺکا ارشاد ہے کہ ’’حج اور عمرہ کرو کیونکہ یہ دونوں فقر اور گناہوں کو دور کرتے ہیں جس طرح بھٹی لوہے، چاندی اور سونے کے میل کو دور کرتی ہے‘‘(مشکوٰۃ جلد اول: ۲۰۔۲۴۱۰) جبکہ ’’ حج مبرور کا بدلہ تو جنت کے سوا کچھ نہیں‘‘( متفق علیہ)۔ اسی طرح ارشاد فرمایا کہ’’ جو شخص اللہ کے لئے حج کرے، اپنی عورت سے صحبت کی باتیں نہ کرے اور گناہ سے گریز کرے وہ واپسی پر گناہوں سے اس طرح پاک ہوکر آتا ہے جیسے آج ہی اسکی ماں نے جنا ہو‘‘(مشکوٰۃ جلد اول: ۳۔۲۳۹۳)۔
حج بارے میں لوگوں کا رویہ: حج ہر صاحب استطاعت مسلمان پر فرض ہے۔ شریعت نے ’’استطاعت‘‘ کی تخصیص نہیں کی۔ اس کا تعلق ہر فرد کے اپنے حا لات سے ہے۔ کہیں استطاعت کا مطلب محض سواری اور زادِ راہ(کے لئے مال) کا بندوبست ہے تو کہیں یہ امن و امان، صحت اور دیگرلوازمات پر منحصر ہے۔ لیکن حج کی استطاعت کا تعین کرنا کوئی الجبرا کا مشکل سوال نہیں کہ حل نہ ہو سکتا ہو ۔ ہر صاحبِ شعور شخص یہ آسانی سے معلوم کر سکتا ہے کہ اس پر حج فرض ہے یا نہیں۔ اس ضمن میں اہلِ علم حضرات سے بھی مدد لی جاسکتی ہے۔
ہماری سوسائٹی میں دو قسم کے افراد پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ جو حج کی استطاعت نہیں رکھتے۔ ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اسستطاعت کے اسباب پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ سے دعا کرتے رہیں اور حج کی نیت رکھیں ۔ممکن ہے اللہ کوئی راستہ نکال دے۔ باقی وہ لوگ جو استطاعت رکھنے کے باوجود محض سستی، خوف، کنجوسی، لاپرواہی یا دیگر بہانوں سے تاخیر کررہے ہیں وہ اپنے ایمان کا ازسرِ نو جائزہ لیں۔وہ یہ جانیں کہ حج کی دین میں کیا اہمیت ہے، اور ایک دن آنے والا ہے جب وہ خدا کے سامنے کھڑے ہو کر حج نہ کرنے کا عذر بیان کریں گے اور اگر اللہ نے وہ عذر تسلیم نہ کیا تو انجام کیا ہوگا۔
حج و عمرہ کا مختصرطریقہ: حج اور عمرہ ان عبادات میں سے ہیں جو عموماََ زندگی میں ایک ہی مرتبہ کی جاتی ہیں۔چنانچہ انکی ادائیگی کا طریقہء کار یاد رکھناایک مشکل کام ہے۔ عمرہ کا طریقہ یہ ہے کہ عمرے کی نیت سے میقات سے باہر احرام باندھ کر تلبیہ کہتے ہوئے مکے کی طرف کوچ کیا جائے۔ بیت اللہ کے سات چکر لگا کر صفا و مروہ کی سعی کی جائے پھر بال کٹواکر احرام اتار دیا جائے۔
دوسری جانب حج ذوالحج کے مہینے کی ۸ تاریخ سے شروع ہوتا اور ۱۲ تاریخ تک جاری رہتا ہے۔ ابتدا اسی طرح احرام باندھ کر ہوتی ہے۔ ۸ ذوالحج کو منیٰ میں قیام، ۹ کو عرفات کا وقوف، مغرب پر مزدلفہ روانگی اور وہاں رات کا قیام، ۱۰ کو منیٰ روانگی اور جمرۂ عقبہ کی سنگباری ، قربانی، اور پھر سر منڈھواکر یا قصر کراکے احرام اتار دینا۔ ۱۱ اور ۱۲ ( اور اگر چاہیں تو۱۳ ذوالحج) کی تاریخوں میں منیٰ میں قیام اور بیت اللہ کا طواف اور صفا مروہ کی سعی۔ ان اراکین کی فقہی تفصیل دیگر کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہے۔
حج اور عمرہ کا فلسفہ و مقصد:

حج اور عمرہ کے اس ظاہری پہلو کے علاوہ اسکا ایک باطنی رخ بھی ہے جس سے ہمارے علماء عام طور پر صرف نظر کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ معترضین کے طنز و تشنیع کی صورت میں نکلتا ہے کہ حج اور ہندو یاترا میں (نعو ذ باللہ) کوئی فرق نہیں ،یا یہ عمل وقت اور پیسوں کا ضیاع ہے وغیرہ۔ ذیل میں اراکین اور شعائرِ حج کے فلسفے پر روشنی ڈالی جارہی ہے تاکہ اصل مقصود سامنے رہے۔
۱۔فطرت کی جانب واپسی:
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی پسندیدہ فطرت پر پیدا کیا ہے۔لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اس پر گناہو ں کی گرد جمنا شروع ہوجاتی ہے اور اگر اس کا تدارک نہ کیا جائے توفطرت مکمل طور پر پراگندگی کا شکار ہوجاتی ہے۔ حج کا بنیادی مقصد انسان کوروحانی تطہیر کا ایک موقع فراہم کرنا ہے تاکہ وہ گناہوں سے پاک ہو کر اپنی اصل فطرت پرلوٹ آئے۔
۲۔عبادات کا پیکیج
اللہ نے انسانوں کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا اورحج بہت سی عبادات کا مجموعہ ہے ۔اس میں نماز ، انفاق ، ہجرت، بھوک و پیاس، مجاہدہ، جہاد، زہد و درویشی ،قربانی، صبر، شکر سب شامل ہیں۔حج ان تمام عبادات کا ایک ایسا پیکیج فراہم کرتا ہے جو انسان کی روحانی بیماریوں کے لئے اکسیر کا کام کرتا ہے۔
۳۔ابلیس کے خلاف جنگ
اسی طرح حج مومن کو اسکے ازلی دشمن ابلیس کے خلاف تمثیلی جنگ میں برسرِ پیکار کرتا ہے۔ وہ ابلیس جس نے انسان کو سجدہ کرنے سے انکار کیا، اسے حقیر سمجھا ، جنت سے نکلوایااور پھر دنیا میں گھات لگا کر بیٹھ گیا تاکہ اسے اپنے رب کے سامنے نااہل اور ناکام ثابت کردے۔ حج اسی ازلی اور دشمن کی شناخت کراتا ، اسکے چیلنج کی یاد دلاتا اور اس کو سنگسار کرکے طاغوتی رغبات کو کچلنے کا درس دیتا ہے۔
۴۔ اسلامی شعائر سے آگاہی
حج اورعمرہ کا ایک اور مقصد امتِ مسلمہ کو اس کے مرکز ، تاریخ اور شعائر سے آگاہ کرنا ہے۔شعائر جمع سے شعیرہ کی جس کا مطلب نشانی، علامت اور یادگار ہے۔ایک بندۂ مومن اپنے محبوب خدا کی نشانیوں سے محبت کرتا، انکی تکریم کرتا اور ان کے پیچھے خدا کو محسوس کرکے جذبہء پرستش کو تسکین دیتا ہے۔ چنانچہ بیت اللہ دیکھ کر وہ خدا کی ہیبت، اسکی انوار و تجلیات اور اسکی رحمتوں کا مشاہدہ کرتا اور پروانے کی مانند چکر لگاتا ہے۔حجر اسود کو خدا کا ہاتھ سمجھتے ہوئے اسکا بوسہ دیتا اور تجدید عہد کرتاہے۔ملتزم کو خدا کے گھر کی چوکھٹ گردانتے ہوئے اس سے بھکاری کی مانند چمٹ جاتاہے۔ صفا و مروہ کے چکر کاٹتا اور خاندان ابراہیم کی سعی(کوشش) کی یاد تازہ کرتا ہے۔
۵۔ تاریخ سے واقفیت
حج اور عمرے کے ذریعے امتِ مسلمہ کی ہر نسل اپنے اسلاف کے کارناموں اور انکے تاریخی ورثے سے روشناس ہوتی رہتی ہے کہ کس طرح ابرہیم ؑ نے اپنے رب کے اشارے پر اپنی بیوی اور بچے کو ایک بنجر وادی میں بسایا، اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کی سعی کی، کعبہ تعمیر کیا، لوگوں کو حج کی جانب بلایا ،اور مکہ کو امن و سکون کا گہوارہ بنانے کی دعا کی۔ اسی طرح مکے کی پہاڑیاں خدا کے آخری پیغمبر ﷺ اور انکے جاں نثار ساتھیوں کی جدوجہد، قربانیوں ، ان پر ہونے والے مظالم اور آخر میں انکی ہجرت کی داستان بیان کرتی ہیں۔
۶۔ روحانیت
حج کا ایک اور مقصد تقوٰی کا حصول ، دنیا سے دوری اور روحانیت کو فروغ دینا ہے۔ بندہ اپنے رب کی رضا کے لئے دنیا کی زینت کو خود پر حرام کرلیتا ہے۔ وہ اپنا میل کچیل دور نہیں کرتا، ناخن نہیں کاٹتا، جائز جنسی امور سے گریز کرتا ، مختصر
لباس زیب تن کرتا، برہنہ پا اور ننگے سر ہوکرروحانی مدارج طے کرتا اور خدا کا تقرب حاصل کرتا ہے۔
ارکانِ حج کا فلسفہ:
ذیل میں حج کے ہر رکن کا انفرادی مقصد اور فلسفہ بیان پیش خدمت ہے تاکہ ہر حج کرنے والا شعوری طور پر آگاہ رہے کہ وہ کیا کرہا ہے۔
۱۔احرام: حج درحقیقت شیطان کے خلاف ایک تمثیلی جنگ کا اظہار ہے۔ چنانچہ بندہ مومن جب شیطان سے برسرِ پیکار ہونے کے لئے اپنے رب کی پکار سنتا ہے تو ان سلے کپڑوں کی وردی زیب تن کرلیتا ہے ۔ یہ احرام اس بات کی علامت ہے اس پر اب تمام جائززیب و زینت ، شہوانی لذت اور دنیاسے قربت کی ہر علامت حرام ہے یہاں تک کہ وہ اپنے دشمن ابلیس پر سنگباری کر کے اسے مسمار نہ کردے
۲۔ تلبیہ: اپنے کمانڈر کے بلاوے پر بندہ برہنہ پا یہ کہتے ہوئے نکل کھڑا ہوا کہ اے رب میں حاضر ہوں ، حاضر ہوں کہ تیرا کوئی شریک نہیں، تعریف تیرے ہی لئے، نعمت تیری ہی ہے اور تیری ہی بادشاہی ہے جس میں تیرا کوئی شریک نہیں۔ یہ ترانہ پڑھتے ہوئے اپنی وفاداری کا اظہار کرتا، شیطان کی دعوت کا انکار کرتا، اپنا مورال بلند کرتا، او ر یقینی فتح کے نشے میں جھومتے ہوئے دشمن کے تعاقب میں نکل کھڑا ہوتا ہے۔
۳۔حدودِحرم: اب یہ مجاہد حرم کی حدود میں داخل ہوا چاہتا ہے۔مکہ کے ارد گرد کے متعین علاقے کو اللہ تعالیٰ نے حرم قرار دیا ہے۔حرم کا مطلب ہے حرمت والی جگہ ۔ یہ حدود حرم بادشاہ سے قربت کی علامت ہے۔ جب ایک شخص بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوتا ہے تو اس کا پورا وجود انتہائی ادب اور احترام کی تصویر پیش کرتا ہے۔ نگاہیں نیچی،اعضا ساکن، ہاتھ بندھے ہوئے اور چہرے پر سنجیدگی ۔ گویا ہر عضو یہ کہ رہا ہے کہ سرکار میں آپ کا تابعدار اور وفادار ہوں۔ اس دربار میں جماہی بھی گستاخی سمجھی جاتی اور معمولی غلطی بھی کڑی سزاکا پیغام بن جاتی ہے۔ یہ حرم بادشاہوں کے باشاہ کا دربارہے ۔اس دربار کا اپنا پروٹوکول ہے۔ یہاں لمحوں کی غلطی ابدی سزاکا پیش خیمہ ہو سکتی ہے۔ اس دربار میں معصیت بدرجہء اولیٰ حرام ہوجاتی اور کچھ جائز امور پر اضافی پابندی لگ جاتی ہے۔مثلاََ یہاں حکم ہے کہ ادب پیشِ نظر رہے، خیالات پاکیزہ ہوں، کسی جاندارنہ مارا جائے، کسی پتے یا گھاس کو نہیں توڑا جائے اور کسی کو ایذانہ پہنچائی جائے ۔
۴۔منیٰ میں قیام: ۸ ذوالحج کو یہ سرفروش دیگر مجاہدین کے ساتھ ایک میدان میں پڑاؤ ڈالتا ہے جہاں دشمن سے مقابلے کی تیاری کرنی ہے۔ یہاں وہ اپنے رب کی حمد و ثنا کرتا، اس سے مقابلے میں کامیا بی کی بھیک مانگتا، اس سے راہ نمائی طلب کرتا اور ماضی کی کوتاہیوں پر نادم ہو کر مغفرت کاطلب گار ہوتا ہے۔یہاںیہ اپنے تقویٰ، صبر ، استقامت اور نفس کشی کے ہتھیار تیز کر تا ہے تاکہ اگلے محاذپر کوئی دقت نہ ہو۔
۵۔ عرفات کا وقوف: اگلے دن یہ کفن پوش مجاہد ایک کھلے میدان میں پہنچ کر دشمن پر اپنی طاقت کا اظہار کرتااور اپنے امام کا خطبہ سنتا ہے جو اس تمثیلی جنگ میں انہیں آگاہ کرتا ہے کہ ان کے رب کا کیا حکم ہے اور دشمن کس طرح سے گھات لگا کر بیٹھا ہے؟ عرفات یہ سبق دیتا ہے کہ کڑی دھوپ میں بھی ہمت نہیں ہارنی، حوصلے پست نہیں کرنے بلکہ اس ازلی دشمن کو یہ بتانا ہے اسکی شکست میں ہی ہماری زندگی ہے۔ آج اس نفس کو مشقت کا عادی نہ بنایا تو کل شیطان کا پلہ بھاری ہوگا پھر وہ آرام طلب نفس کو اپنی مرضی سے چلائے گا اور یہ انسان گناہوں کی دلدل میں دھنستا چلا جائے گا۔
۶۔ شبِ مزدلفہ: دشمن سے مڈبھیڑ ہونے میں بس اب ایک رات باقی ہے ۔ چنانچہ عرفات کے میدان سے اگلے مورچے پر پڑاؤ ڈالا جاتا ہے۔ اوپر کھلا آسمان ہے، نیچے کوئی بستر نہیں۔ مگر کیا ہو ا؟ چند لمحوں کی بات ہے پھر یہ شیطان اور نفس کے خلاف معرکہ آرائی ختم ہوگی اور یہ مجاہد خدا کے انعام سے سر فراز ہوگا۔مزدلفہ کے میدان میں پہنچ کر تھکن بہت ہو گئی۔ کچھ دیر سستا کر یہ حوصلہ مند مجاہد اگلے دن دشمن پر جھپٹنے کے لئے تازہ دم ہو تا ہے۔
۷۔ رمی: صبح ہوگئی اور تاریکی ختم ہوئی۔ اس طرح قیامت کی صبح بھی ہوگی اور ظلم و عدوان کے اندھیرے مٹ جائیں گے۔ آج گھمسان کا رن پڑنے والا ہے۔ آج وہ دشمن سامنے ہے جس نے ہمارے ماں باپ کو جنت سے نکلوایا،ان سے پوشاکیں چھین لیں، ہابیل و قابیل کولڑوادیا،اور پھر کثیر خلقت کو شرک ، زنا اور قتل پر اکسا کر خدا کی راہ سے برگشتہ کردیا۔
آج یہ حاجی اسی راہ پر ہے جہاں چار ہزار سال قبل ابراہیم ؑ تھے ۔ جب انہوں نے اسماعیل ؑ کو لیا اور اسے قربان کرنے کے لئے آگے بڑھے ۔ اسی اثنا میں ا بلیس آدھمکا اورابراہیم ؑ کے کان میں سرگوشی کی کہ پاگل ہوئے ہو؟ کیا اپنی اولاد کو اپنے ہاتھوں سے قتل کروگے ؟ ابراہیم ؑ نے اس پر سنگباری کی اور دھتکار دیا ۔ آج اس بندے نے بھی شیطانی وسوسوں سے مغلوب نہیں ہونا بلکہ اسے سنگسار کرکے طاغوت کا انکار کرنا ہے۔ جب کنکریاں مار دی گئیں تو تلبیہ ختم ہوا کیونکہ شیطان کی ناک رگڑی جاچکی اور رحمان کا بول بالا ہوا۔
۸۔ قربانی: ہر حاجی ابرہیم ؑ تو نہیں کہ اپنی اولاد کو قربان کرنے کی ہمت کرپائے۔ البتہ جانور کی قربانی علامتی اظہار ہے کہ وقت پڑنے پر یہ اپنی جان ، اپنا مال، اپنی اولاد اور سب کچھ خدا کے قدموں میں نچھاور کردے گا۔ کیونکہ خدا تو وہ ہے جس کے قبضے میں زمین کے سارے خزانے اور آسمان کی تمام دولتیں ہیں، وہی اولاد دیتا اور چھینتا ہے،یہ سانسیں اسی کی دی ہوئی ہیں ۔ اگر وہ مال یا جان میں سے کوئی حصہ مانگے تو اپنی دی ہوئی چیز ہی مانگ رہا ہے۔ پھر اگر وہ آزمائش کے لئے کچھ چھین لیتا ہے تو اس دنیا اور آخرت میں کئی گنا عطا کر دیتا ہے۔آج کی قربانی میں حاجی نفس کے ہر اس تقاضے پر چھری پھیر دیتا ہے جو اسے خدا سے دور اور شیطان کے قریب کرے۔
۹۔حلق: زمانہء قدیم میں جب لوگوں کو غلام بنایا جاتا تو انکا سر مونڈ دیا جاتا تھا جو اس بات کی تعبیر ہوتی کہ یہ کسی کا غلام ہے۔ حاجی نے علامتی طور پر غلامی کے لوازمات پورے کردئیے ہیں لہٰذا یہ بھی اپنا سر منڈا کر خدا کی غلامی کی تجدید کرتا اور ہمیشہ اسی کا وفادار رہنے کا عہد کرتا ہے کہ وہ ہر سرد و گرم ،دھوپ اور چھاؤں، فقروامارت ، تنگی و آسانی پر راضی رہے گا کیونکہ وفادار غلاموں کا یہی شیوہ ہوتاہے۔
۱۰۔ احرام اتارنا: احرام باندھنادنیا سے لا تعلقی کی علامت تھی ۔ اب اس علامتی جنگی مشق کے بعد دوبارہ اس دنیا میں واپسی کا سفر شروع کرنا ہے جہاں شیطان بھی ہے اور نفس بھی۔ امید ہے خدا کی نصرت سے اس دنیا کی جنگ میں بھی کامیابی ملے گی ۔ چنانچہ حاجی دنیا میں واپسی کی ابتدا سر منڈوا کر کرتا ہے۔پھر وہ میل کچیل دورکرکے غسل کرتا، ناخن تراشتا ، خوشبو لگاتا اورخدا کی بڑائی بیان کرتے ہوئے بیت اللہ کی طرف دوڑتا ہے جہاں ایک پروانے نے شمع پر جان نثار کرنی ہے۔
۱۱۔ طواف: ۔ خانہء کعبہ وہ پہلا گھر ہے جسے اللہ نے عبادت کے لئے تعمیر کیا۔ بعد میں حضرت ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل علیہما السلام نے اللہ کے حکم سے اس کی تعمیرِنو کی۔ ایک تحقیق کے مطابق یہودیوں کا بھی یہی قبلہ تھا اور بیت المقدس کا رخ کعبہ کی طرف ہی تھا۔ بعد میں یہودیوں نے تحریف کرکے کعبے کا ذکر ہی بائبل سے غائب کردیا۔ طواف کی حقیقت یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کے زمانوں کی روایت تھی کہ قربانی کے جانور کو معبد( عبادت گاہ) کے گرد پھیرے دلوائے جاتے تھے جس سے معبد کی عظمت اور قربانی کے ثمرات کا استحضارہو تا تھا ۔ طواف اسی روایت کا علامتی اظہار ہے۔
اب یہ سرفروش کعبہ کے سامنے کھڑا ہے جو خدا کے جلا ل ، اسکی عظمت ، اسکی ہیبت اور اسکے انوارو تجلیات کا مرکز ہے۔ یہ بیت اللہ کا طواف کرنے کے لئے تیار کے لئے بے تاب ہے تاکہ وہ اپنی خوہشات، رغبات، شہوات، مفادات اور تعصبات کو خدا کی رضا اور اس کے حکم پر قربان کرنے کا اظہارکر سکے۔ہر چکر پر حجرِ اسود کا بوسہ یا استلام درحقیقت اپنا ہاتھ اللہ کے ہاتھ میں دینے کی تعبیر ہے تاکہ اللہ سے کئے ہوئے عہد کی تجدید کی جاسکے۔
۱۲۔ سعی: سعی کے لغوی معنی کوشش کے ہیں۔ مسلمانوں کی معروف روایات کے مطابق سعی حضرت حا جرہ ؑ کی اضطرابی کیفیت کی نقالی ہے جو انہوں نے پانی کی تلاش میں صفا اور مروہ کی پہاڑیوں کے درمیان دوڑ کر کی۔ لیکن دیگر علما ء کی تحقیق کے مطابق حضرت ابراہیم ؑ جب حضرت اسمٰعیل کو قربان کرنے کے لئے صفا پر پہنچ کر آگے بڑھے تو شیطان نے حکم عدولی کے لئے وسوسہ ڈالا۔ اس وسوسے کے برخلاف وہ حکم کی تعمیل کے لئے تیزی دوڑے اور مروہ پر پہنچ کر لختِ جگر خدا کے قدموں میں ڈال دیا۔ بہرحال سعی شیطان کی ترغیب سے بھاگنے اور خدا کی رضا کی جانب دوڑنے کا نام ہے۔
۱۳۔ منیٰ میں دوبارہ قیام اور رمی : ۱۱ اور ۱۲ ذوالحج کو منیٰ کی وادی میں دوبارہ خیمہ زن ہوا جاتا ہے جہاں اس جہاد کا اگلا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ یہاں حاجی خدا کی بڑائی بیان کرتا، اسکی حمد کرتا، اس سے اپنی محبت کا والہانہ اظہار کرتا اور اسکی یاد سے دل کے سوتے تر کرتا ہے۔ یہاں اس نے قیام کرنا اور تینوں جمرات( شیطانوں )کو سنگسار کرنا ہے۔ اس قیام کا فلسفہ یہی ہے ابھی جنگ جاری ہے اورشیطان اور نفس کے خلاف جدوجہد کوئی ایک دن کا کام نہیں بلکہ یہ عمل پیہم ہے۔
۱۲ یا ۱۳ ذوالحج کے بعد حج ختم ہوا ۔ گناہوں سے آزادی کے بعد بندہ اپنی فطرت پر واپس آچکا ہے جس طرح وہ اپنی پیدائش کے وقت تھا۔ اب وہ تربیت حاصل کرچکا ہے کہ کس طرح عملی دنیا میں شیطان اور نفس کے خلاف جنگ کرنی ہے۔
۱۴۔ طوافِ وداع: حرم کی حدود سے نکلنے کے لئے بیت اللہ کا طواف کرنا ہے جو بادشاہ کے دربار کا الوداعی سلام ہے ۔ یہ طواف جو ایک مرتبہ پھر اپنی قربانی کے وعدے کی تجدید ہے۔

حج کی آفات اور انکا علاج

حج کا بنیادی مقصد جیسا کہ بیان کیا گیا معصیت کی زندگی سے آزادی اور وحانی امراض سے نجات ہے۔ لیکن اکثر حاجی اس مقصد کو حاصل کرنے کامیاب نہیں ہو پاتے اور وہ گئے تو شیطان کو شکست دینے تھے لیکن خود ہی ہار کے آجاتے ہیں۔ اس کا ثبوت حج کے بعد شروع ہونے والی بے روح زندگی سے ملتا ہے ۔ حج کی برکتیں سمیٹنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ شیطان اور نفس کے فریب سے آگاہی حاصل کرکے اس سے نبرد آزما ہونے کی بھر پور کوشش کریں۔ اس سلسلے میں مندرجہ ذیل آفات کو سمجھنا اور ان سے نبٹنا ضروری ہے۔
۱۔نیت کی آفت ۲۔ شہوانی امور میں ملوث ہونا ۳۔ فسق وفجور یعنی گنا ہ کے کام ۴۔لڑائی جھگڑے کا رحجان ۵۔اللہ کے شعائر کی بے حرمتی ۶۔بازاروں کا طواف ۷۔ دعا کی روح سے محرومی ۸۔ظاہری فقہ میں اشتغال ۹۔ زیارتِ مدینہ کی آفات ۱۰۔ دنیا میں واپسی
۱۔نیت کی خرابی:
ہر عمل کا دارومدار نیت پر ہے۔حج اور عمرہ کا ارادہ کرتے وقت دل میں یہ نیت نہ ہو کہ شاپنگ کرنی ہے، سعودی عر ب کی تفریح کرنی ہے، نا م کے ساتھ حاجی لگوانا یالوگوں پر دھاک بٹھاکر مرعوب کرنا ہے ۔ بلکہ اپنی نیت کو خالص کرتے ہوئے محض خدا کی خوشنودی کو پیش نظر رکھیں کہ اللہ راضی ہو جائے اور وہ خوش ہو کر گناہوں کو مٹادے، اپنی جنت لکھ میرے نام کردے اور جہنم سے آزادی کا پروانہ جاری کردے۔۔ یاد رکھیں اس سفر میںآپ کو وہی ملے گا جس کی آپ تمنا کی۔
۲۔ شہوانی امور میں ملوث ہونا:
حج اور عمرہ میں جائز جنسی تعلق پر بھی پابندی لگ جاتی ہے یہاں تک کہ میاں بیوی کا شہوت کی باتیں کرنا بھی ممنوع ہے۔بالعموم لوگ اس کا خیال رکھتے ہیں لیکن بھول چوک ایک فطری امر ہے۔ چنانچہ میاں بیوی کے تعلقات میں احتیاط کے لئے بہتر ہے کہ مخصوص دنوں میں علٰحیدہ سونے کا انتظام کیا جائے۔ او ر گفتگو میں احتیاط سے کام لیا جائے۔
دورانِ حج اور بالخصوص طواف میں نامحرموں سے اختلاط کے مواقع بڑھ جاتے ہیں۔جب مختلف قومیتوں کے مرد اور خواتین کھلے چہرے کے ساتھ نظر آتے ہیں تونگاہیں قابو میں نہیں رہتیں۔ دوسری جانب طواف کے دوران رش میں نامحرموں کے آپس میں ٹکرانے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ لیکن گناہ یہ نہیں کہ نا محرم پر نظر بالکل نہ پڑے بلکہ معصیت یہ ہے کہ ارادتاََ نظر ڈالی جائے، یا نظر پڑ جانے پر لذت حاصل کی جائے یا بدن ٹکرانے پر محظوظ ہوا جائے۔ یا د رہے کہ آپ خدا کے دربار میں موجود ہیں اور یہ تو بڑی دیدہ دلیری ہے کہ بادشاہ کی آنکھوں کے سامنے بے حیائی اور بے شرمی برتی جائے۔ اس کا علاج یہ ہے آنکھوں کو قابو رکھا جائے، نظر پڑنے پراسے فوراََ ہٹالیا جائے۔ کہ خیالات کو پاکیزہ رکھا جائے اورطواف میں ٹکراؤ سے بچنے کے لئے احتیاط برتی جائے۔ اسی کے ساتھ ساتھ ہر لمحہ اللہ کی یاد دل میں رکھی جائے کہ وہ میرے سامنے موجود ہے، اس کا گھر میری نگاہوں میں ہے، اور وہ دلوں کے بھید بھی جان لیتا ہے۔
۳۔ فسق وفجور یعنی گنا ہ کے کام:
ہر چھوٹا یا بڑا گناہ خدا کی حکم عدولی ہے لیکن حرم کی حدود میں تو بے ادبی بھی گوارا نہیں چہ جائکہ گناہ کی گنجایش ہو۔عام طور پر جو گناہ سرزد ہوتے ہیں ان میں غیبت، چغلی، بدکلامی ، جھوٹ ،ایذا رسانی، بد نگاہی، چوری، بددیانتی اور اللہ کے شعائر کی بے حرمتی شامل ہیں۔جہاں تک کلام سے متعلق گناہوں کا تعلق ہے تو اسکا سبب بے احتیاطی ہے۔ چنانچہ کم گوئی ، سوچ کر بولنے کی عادت اور ذکراللہ کی کثرت سے زبان کو گناہوں سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔ جبکہ چوری اور دیگر گناہوں کا سبب ایمان کی کمزوری ہے جس کا علاج اچھے اہلِ علم کی صحبت اور قرآن کا تدبر سے مطالعہ ہے۔
۴۔ لڑائی جھگڑا:
اس اجتماعی عبادت میں بارہا مواقع آتے ہیں جب ایک دوسرے سے تکرا ر اور لڑائی جھگڑا ہونے کے امکانات ہوتے ہیں۔ طواف اور رمی کے دوران رش کی زیادتی ، منیٰ میں جگہ کی تنگی اور بیت الخلا کی تعداد میں کمی، بسوں میں تکالیف اور ٹریفک جام وغیرہ وہ امور ہیں جو چڑچڑاہٹ، غصہ اور بالآخر فساد کی بنیاد بن جاتے ہیں۔ اس کا اصولی علاج تو یہ ہے کہ شیطانی وسوسوں اور نفس کے تقاضوں پر صبر اور تحمل سے کام لیا جائے ۔ دوسرا یہ کہ فساد کے اسباب سے ہر صورت اجتناب برتا جائے مثال کے طور پر طواف میں دوسروں کے دھکوں اور تکالیف پر صبر اور عفو درگذر اختیا ر کرتے ہوئے اللہ سے اجر کی امید رکھیں۔ حجر اسود ، ملتزم اور حطیم تک پہنچنے کی ایسی کوشش نہ کریں جو لوگوں کو دھکا دینے یا اذیت کا سبب بنے کیونکہ دوسروں کو اذیت دینا حرام اور حجر اسود کا بوسہ نفل ہے۔ لہٰذا ایک نفل کے لئے حرام کام کرنا کوئی نیکی نہیں۔اسی طرح مقام ابراہیم یا مطاف میں طواف کے نفل رش کے اوقات میں پڑھنے سے گریز کریں۔
کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر انہوں نے حجر اسود کو بوسہ نہ دیا ، حطیم میں نماز نہ پڑھی، ملتزم سے نہ چمٹے تو انکا حج ادھورا رہ جائے گا یا کم از کم وہ اس کے عظیم اجر سے محروم رہ جائیں گے۔ حقیقت اس کے برخلاف ہے۔ دوسروں کو تکلیف سے بچانے کے لئے بوسے کی جگہ استلام زیادہ اجر کا باعث ہے۔ اسی طرح سینکڑوں لوگوں کو دھکا دے کر ملتزم سے چمٹنے کی بجائے ملتزم کو دور سے دیکھ کر مانگی گئی دعا کی قبولیت کا زیادہ امکان ہے۔
منیٰ میں قیام کے دوران جگہ کی تنگی ہوتی ہے چنانچہ ایثار کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے بھائی کے لئے اپنا حق بھی چھوڑنے کاپر آمادہ ہو جائیں۔ باتھ رومز میں بہت رش ہوتا اور لائنیں لمبی ہوتی ہیں۔ چنا نچہ لائن میں کھڑے ہو کر بد دیانتی یا بے صبری نہ کریں ، نیز کم سے کم کھانے پینے کو ترجیح دیں تاکہ زیادہ باتھ روم نہ جانا پڑے۔بسوں میں سفر کے دوران بھی اسی ایثار ، ہمدردی اور صبر کا مظاہرہ کریں۔
اسی طرح عرفات سے مزدلفہ جاتے وقت لوگ راستوں میں ہی بیٹھنا شروع ہوجاتے ہیں جس پیچھے آنے والے لوگوں کو شدید تکلیف ہوتی ہے اور تصادم کا خطرہ بڑھ جاتا ہے ۔گذرگاہ میں ہرگز نہ بیٹھیں خواہ آ پ کو کتنا ہی پیدل کیوں نہ چلنا پڑے۔
۵۔االلہ کے شعائر اور حدود کی بے حرمتی:
جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا کہ مکہ حرم ہے جہاں چند جائز کام بھی حرام ہو جاتے اور ناجائز امور کی کراہیت تو بدرجہ اولیٰ بڑھ جاتی ہے۔ اسی طرح خانہء کعبہ، حجرِ اسود، مسجدالحرام ، صفا اور مروہ وغیرہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں ۔ انکا احترام ، تعظیم اور تکریم کرنا فرض ہے۔ لیکن عمومی طور پر مسلمانوں کا رویہ کچھ مناسب نہیں۔ مسجدالحرام میں نمازوں کے اوقات کے علاوہ ایک شور کی سی کیفیت ہوتی ہے۔ اسی طرح مسجد میں دنیاوی باتیں ، موبائل کی بے ہودہ ٹیونز کا استعمال، کھانا ،پینا ، سونا اور کعبہ کی طرف ٹانگیں کرنا ایک معمول ہے۔ دوسری جانب کچھ لوگ آبِ زمزم سے ناک صاف کرتے، وضو بناتے اور بعض اوقات غسل تک کرکے گندگی پھیلانے کا سبب بنتے ہیں۔اس کا علاج یہ ہے کہ حج یا عمرے پر جانے سے پہلے تربیت حاصل کی جائے اور خدا کی نشانیوں کی ہیبت دل میں رکھی جائے ورنہ اس سفر کے ثمرات کے ضایع ہونے کا اندیشہ ہے۔
۶۔بازاروں کا طواف:
مسجد حرام اور مسجد نبوی کی حدود سے باہر نکلتے ہی بازار شروع ہوجاتے ہیں ۔ چونکہ حج اور عمرے میں فراغت بہت ہوتی ہے لہٰذا لوگ نمازوں سے فارغ ہوتے ہی بازاروں کا رخ کرتے ہیں۔ کچھ لوگ تو اپنے وطن سے نکلتے وقت ہی ایک طویل فہرست لے کر چلتے اور پھر اس کی تکمیل میں مکہ و مدینہ کی تمام دوکانوں کا طواف کرڈالتے ہیں۔ چنانچہ وہ وقت جو اللہ کے گھر کے طواف ،دنیا سے دوری ، زہد اور درویشی اختیا ر کرنے میں صرف ہونا چاہئے تھا وہ شاپنگ کی نظر ہوجاتا ہے اور شیطان کا داؤ چل جاتا ہے۔
پہلی بات تو یہ سمجھنی چاہئے کہ یہ دور آزادانہ تجارت کا دور ہے۔ آج جو اشیاء عرب ملکوں میں دستیاب ہیں وہ تمام چیزیں کم و بیش اسی دام میں پاکستانی اسٹوروں پر بھی موجودہیں۔ لہٰذا خوا مخواہ کا بوجھ لاد کر لانا بے وقوفی ہے۔
بازاروں سے بچنے او ر فراغت کو ختم کرنے کے لئے طواف کثرت سے کریں کیونکہ یہ وہ عبادت ہے جو دنیا میں کہیں اور نہیں کی جاسکتی۔ اسی طرح مسجدِ حرام میں نوافل و تسبیحات کا اہتمام کریں کیونکہ اس مسجد میں نماز کا اجر ایک لاکھ گنا زیادہ ہے۔ خانہ کعبہ کا دیدار کریں اور خدا سے دعائیں مانگیں، اسکی حمد و ثنا کریں۔ پھر اپنی قیام گاہ میں آکر قرآن کا غور سے مطالعہ کریں۔ پیغمبر کی سیرت پر کتاب( مثلاََالرحیق المختوم) پڑھیں اور مکہ مدینہ کی گلیوں میں گھوم کر ابراہیم و اسماعیل،نبی کریم ﷺ اور صحابہ کی یادیں تازہ کریں ۔
۷۔دعا کی روح سے محرومی:
کچھ لوگ طواف اور سعی کرتے وقت کتاب سے دیکھ کر دعا پڑھ رہے ہوتے ہیں حالانکہ اسکی ضرورت نہیں کیونکہ طواف اور سعی کی کوئی دعائیں مخصوص نہیں۔ اسی طرح کچھ لوگ کورس کی شکل میں بلند آواز میں دعا مانگتے ہیں جو خلاف سنت اور باعثِ تکلیف ہے۔ اس ضمن میں ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ عوام کی اکثریت کو علم نہیں ہوتا کہ دعا کیا اور کس طرح مانگی جائے ۔ وہ مال، اولاد، صحت، بچوں کی شادی و تعلیم اور دیگر دنیاوی امور کی دعا مانگ کر بور ہوجاتے ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ آخرت میں کامیابی بھی دعا ہے، خدا کی تعریف کرنا، اس سے باتیں کرنا، سکی تسبیح بیان کرنا بھی دعا ہے۔ اس سلسلے میں دعاؤں کی کتاب حصنِ حصین سے مدد لی جاسکتی ہے۔ البتہ جو دعا بھی مانگی جائے وہ سمجھ اور شعور سے مانگی جائے خواہ وہ کسی بھی زبان میں ہو۔
اسی طرح منیٰ میں قیام کے دوران گپ شپ کرنے کی بجائے ذرا خیمے سے ہٹ کر پہاڑ پر چڑھ جائیں اور خدا کی قدرت کا نظارہ کریں، اس کی تعریف کریں، اس کی تسبیح کریں اور تنہائی میں گڑگڑا کر اس سے مانگیں۔ عرفات میں بھی تنہائی میں برہنہ پا کھلے آسمان کے نیچے کھڑے رب کائنات کو پکاریں۔
۸۔ظاہری فقہ میں اشتغال:
ایک اور آفت یہ ہے کہ لوگ ظواہر میں حد سے زیادہ ملوث ہوکر وہم کا شکار ہو جاتے ہیں کہ کہ کہیں حج فاسد تو نہیں ہوگیا۔ حج کی غیر مستند کتابیں ، عام لوگوں کے مفتیانہ مشورے اور مسالک کا اختلاف اس کنفیوژن کے اہم اسباب ہیں۔ اس کا حل یہ ہے کہ کسی بھی مسئلے کی صورت میں مستند کتابوں سے رجوع کریں اور کسی غیر عالم سے پوچھنے کی بجائے اپنے اعتماد کے علما ء سے رجوع کریں جو بڑی آسانی سے دورانِ سفر دستیاب ہوتے ہیں۔ نیز حج کے ہر ظاہری عمل کو سمجھ کر اسکی اصل روح کے مطابق اداکریں کیونکہ خدا کو ہماری قربانی کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ تقوٰی پہنچتا ہے۔
۹۔ زیارتِ مدینہ کے مسائل:
مدینے کی زیارت حج یا عمرے کا جزو تو نہیں البتہ دنیا بھر کے حاجی مدینے کی زیارت کا شرف حاصل کرتے ہیں جو بڑی سعادت کی بات ہے۔مکہ خدا کے جلا ل جبکہ کے مدینہ اس کے جمال کا اظہار ہے۔ مدینے کو نبی کریم ﷺ نے حرم ٹہرایا ہے لہٰذا اس حرم کی حرمت ، تعظیم اور اکرام بھی لازم ہے۔
مسجدِ نبوی میں نماز پڑھنا عام مساجد کے مقابلے میں ہزار گنا افضل ہے۔ نبی کریم ﷺ کے روضے کی حاضری ایک شرف کی بات ہے کہ یہاں خدا کا آخری اور عظیم ترین پیغمبر محوِ استراحت ہے۔ چنانچہ مسجدِ نبوی میں روضہ رسول ﷺ کی زیارت کریں، ان پر سلام پیش کریں، انکے درجات کی بلندی کے لئے اللہ سے دعا کریں۔ انکے اصحاب پر بھی سلام بھیجیں۔ مسجد کے درو دیوار سے انس و محبت کا اظہار کریں، پیغمبر ﷺ کے ممبر، انکے حجرے، انکی تہجد پڑھنے کی جگہ ، اورریا ض الجنۃ کی زیارت کریں اور کثرت سے نوافل اور درود پڑھیں ۔
البتہ کچھ لوگ غلو کا مظاہرہ کرتے ہوئے نبی کریم ﷺ ہی سے مانگنے لگ جاتے یا براہِ راست انہیں مخاطب کرتے ہیں۔ اسی طرح جنت البقیع کے قبرستان میں جاکر کچھ لوگ صحابہ کرام سے اپنی منت اور مرادیں مانگتے اور پیغمبر ﷺ کی بنیادی تعلیم ( توحید)کا انکا ر کر بیٹھتے ہیں۔ یاد رکھیں شرک ظاہری ہو یا پوشیدہ، اسکی معافی نہیں۔
۱۰۔دنیا میں واپسی: حج ختم ہوا۔ اب وطن واپس آکر اسی دنیا میں زندگی کی ابتدا کرنی ہے جہاں نفس کے تقاضے بھی ہیں اور شیطان کے جھانسے بھی۔ لیکن حج کا سبق اور تربیت یاد رکھیں کہ نفس کے ہر غلط تقاضے کو قربان کرنا اور ابلیس کو ہر دعوت پر سنگسار کرنا ہے۔
پروفیسر محمد عقیل


ایک جنگ کی داستان

$
0
0


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
منی کا پڑاؤ
منی میں قیام کے دوران میری سوتی جاگتی آنکھوں میں وہی منظر آنے لگا جب شیطان نے چیلنج دیا تھا کہ میں انسان کے دائیں ، بائیں ، آگے اور پیچھے غرض ہر جگہ سے آؤں گا اور اسے جنت کے راستے سے بھٹکا کر جہنم کے دہا نے تک لے جاؤں گا۔ میں نے غور کیا تو علم ہوا کہ شیطان نے بڑی عیاری سے انسان کے گرد اپنے فریب کا جال بنا اور اکثریت کو راہ راست سے دور لے جانے میں کامیاب ہوگیا۔
میں کروٹیں بدل رہا تھا ۔ غنودگی اور بیداری کی ملی جلی کیفیت تھی۔ اچانک میں تصور کی آنکھ سے اس جنگ کے مناظر دیکھنے لگا۔ اب منظر بالکل واضح تھا۔ اس طرف اہل ایمان تھے اور دوسری جانب شیطان کا لشکر بھی ڈیرے ڈال چکا تھا۔ شیطانی خیموں کی تعداد بہت زیادہ تھی اور ان میں ایک ہل چل بپا تھی۔ رنگ برنگی روشنیوں سے ماحول میں ایک ہیجان کی کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ باہر پنڈال لگا تھا جہاں بے ہنگم موسیقی کی تھاپ پر شیطانی رقص جاری تھا۔ کچھ نیم برہنہ عورتیں اپنے مکروہ حسن کے جلوے دکھا رہی تھیں۔ ایک طرف شرابوں کی بوتلیں مزین تھیں جنہیں پیش کرنے کے لئے بدشکل خدام پیش پیش تھے۔ اس پنڈال کے ارد گرد شیاطین کے خیمے نصب تھے جو مختلف رنگ اور ڈیزائین کے تھے۔
سب سے پہلا خیمہ شرک و الحاد کا تھا۔ اس خیمے پر ان گنت بتوں کی تصاویر بنی ہوئی تھیں ۔ خیمے میں موجود شیاطین اپنے سردار کے سامنے ماضی کی کارکردگی پیش کررہے تھے کہ کس طرح انہوں نے انسانیت کو شرک و الحاد کی گمراہیوں میں مبتلا کیا۔نیز وہ اس عظیم موقع پر مستقبل کی منصوبہ بندی کررہے تھے کہ آئندہ کس طرح انسانیت کو شرک میں مبتلا کرنا اور خدا کی توحید سے دور کرنا ہے۔ان کا طریقہ واردات بہت سادہ تھا جس میں خدا کی محبت دل سے نکال کر مخلوق کی محبت دل میں ڈالنا، خدا کے قرب کے لئے ناجائز وسیلے کا تصور پیدا کرنا ، کامیابی کے لئے شارٹ کٹ کا جھانسا دکھانا وغیرہ جیسے اقدام شامل تھے۔
ایک اور خیمے پر عریاں تصایر اور فحش مناظر کی مصوری تھی ۔ یہ عریانیت کے علمبرداروں کی آماجگاہ تھی۔ ان شیاطین کے مقاصد فحاشی عام کرنا، انسانیت کو عریانیت کی تعلیم دینا، نکاح کے مقابلے میں زنا کو پرکشش کرکے دکھانا، ہم جنس پرستی کو فطرت بنا کر پیش کرنا وغیرہ تھے۔ یہاں کے عیار ہر قسم کے ضروری اسلحے سے لیس تھے۔ ان کے پاس جنسی کتابیں، فحش سائیٹس، عریاں فلمیں، فحش شاعری و ادب، دل لبھاتی طوائفیں، جنسیاتی فلسفہ کے دلائل، دجالی تہذیب کے افکار سب موجود تھے۔ ان کا نشانہ خاص طور پر نوجوان تھے جنہوں نے ابھی بلوغت کی دنیا میں قدم ہی رکھا تھا اور وہ ان ایمان فروش شیاطین کے ہتھے چڑھ چکے تھے۔
ایک اور خیمے پر ہتھیاروں کی تصویر آویزاں تھی۔ یہ انسانوں کو لڑوانے والوں کا کیمپ تھا۔ یہاں کا لیڈر اپنے چیلوں سے ان کی کامیابیوں کی رپورٹ لے رہا تھا۔ چیلے فخریہ بتارہے تھے کس طرح انہوں نے انسانیت میں اختلافات پیدا کئے، ان میں تعصب و نفرت کے بیج بوئے، ان کو ایک دوسرے کے قتل پر آمادہ کیا، انہیں اسلحہ بنانے پر مجبور کیا جنگ کے ذریعے لاکھوں لوگوں کا قلع قمع کیا۔ اس کیمپ کی ذیلی شاخ کا مقصد خاندانی اختلافات پیدا کرنا، میاں بیوی میں تفریق کرانا، ساس بہو کے جھگڑے پیدا کرنا، بدگمانیاں ڈالنا، حسد پیدا کرنا،خود غرضی اور نفسا نفسی کی تعلیم دینا تھا۔
اگلے خیمے پر بڑی سی زبان بنی ہوئی تھی جو اس بات کی علامت تھی کہ یہاں زبان سے متعلق گناہوں ترغیب دی جاتی ہے۔ یہاں کے شریر شیاطین اس بات پر مامور تھے کہ لوگوں کو غیبت ، جھوٹ، چغلی، گالم گلوج، فحش کلامی، بدتمیزی، لڑائی جھگڑا اور تضحیک آمیز گفتگو میں ملوث کرکے انہیں خدا کی نافرمانی پر مجبور کریں۔
ایک اور خیمے پر بلند وبالا عمارات اور کرنسی کی تصاویر چسپاں تھیں۔ یہ دنیا پرستی کو فروغ دینے اور آخرت سے دور کرنے والوں کا کیمپ تھا۔ اس کیمپ میں اسراف، بخل، جوا، سٹہ، مال سے محبت، استکبار، شان و شوکت، لالچ، دھوکے بازی، ملاوٹ، چوری و ڈاکہ زنی، سود اور دیگر معاشی برائیوں کو فروغ دئے جانے کی منصوبہ بندی ہورہی تھی۔ یہاں اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا جارہا تھا کہ انسانیت بالعموم اور مسلمان بالخصوص آخرت کو بھول چکے ہیں۔ ا ب ان کی اکثر سرگرمیوں کا مقصود دنیا کی شان و شوکت ہی ہے۔ نیز جو مذہبی جماعتیں دین کے لئے کام کرہی ہیں ان کی اکثریت کا مقصد بھی اقتدار کا حصول ہے نہ کہ آخرت کی فلاح بہبود۔
ایک آخری کیمپ بڑے اہتمام سے بنایا گیا تھا۔ یہ خاص طور پر مسلمانوں کو گمراہ کرنے لئے بنایا گیا تھا تاکہ وہ اپنی اصلاح کرکے دنیا کی راہنمائی کا سبب نہ بن جائیں۔ یہاں مسلمانوں کو مختلف بہانوں سے قرآن سے دوررکھنے کی باتیں ہو رہی تھیں، یہا ں ان کو نماز روزہ حج اور زکوٰۃ کی ادائگی سے روکنے کا منصوبہ تھا ، یہاں انکی اخلاقی حالت کو پست کرنے کی پلاننگ تھی، انہیں آخرت فراموشی کی تعلیم دی جانی تھی، مغرب پرستی کا درس تھا، دنیا کی محبت کا پیغام تھا۔ اسی کے ساتھ ہی یہاں مسلمانوں کو فرقہ پرستی میں مبتلا کرنے کا بھی اہتما م تھا تاکہ وہ آپس میں ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگاتے رہیں اور غیر مسلم اقوام تک خدا کا آخری پیغام پہنچانے سے قاصر رہیں۔
رحمانی خیموں کی کیفیت
دوسری جانب اہل ایمان بھی اپنے خیمے گاڑ چکے تھے۔ شیطان کے خلاف جنگ کا میدان سج چکا تھا۔شیطانی کیمپ کے برعکس یہاں خامشی تھی ، سکوت تھا، پاکیزگی تھی، خدا کی رحمتوں کا نزول تھا۔اعلیٰ درجے کے اہل ایمان تعداد میں کم تھے جبکہ اکثر مسلمان شیطان کی کارستانیوں سے نابلد، روحانی طور پر کمزور، اورنفس کی آلودگیوں کا شکار تھے ۔ لیکن یہ سب مسلمان شیطان سے جنگ لڑنے آئے تھے چنانچہ یہ اپنی کمزوریوں کے باوجود خدائے بزرگ و برتر کے مجاہد تھے۔ان فرزندان توحید کو امید تھی کہ خدا ان کی مدد کے لئے فرشتے نازل کرکے انہیں کامیابی سے ہمکنار کرے گا۔

شیطان کے ہتھکنڈوں سے نمٹنے کے لئے اللہ مسلمانوں کو پہلے ہی کئی ہتھیاروں سے لیس کرچکے تھے اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہ تھی۔ شرک و الحاد کا توڑ اللہ کی وحدانیت ، اسے تنہا رب ماننے اور اسے اپنے قریب محسوس کرنے میں تھا۔ فحاشی و عریانی کی ڈھال نکاح ، روزے ، نیچی نگاہیں اور صبر کی صورت میں موجود تھی۔ فرقہ واریت کا توڑ اخوت و بھائی چارے اور یگانگت میں تھا۔ معاشی بے راہ روی کا علاج توکل و قناعت میں پوشیدہ تھا۔ دنیا پرستی کا توڑ آخرت کی یاد تھی۔ یہ سب کچھ مسلمانوں کے علم میں تو تھا لیکن شیطان کے بہکاووں نے ان تعلیمات کو دھندلا کردیا تھا۔ ایک قلیل تعدا د کے علاوہ اکثر مسلمان ان احکامات کو فراموش کرچکے تھے یا پھر ان کے بارے میں لاپرواہی اور بے اعتنائی کا شکار تھے۔

منٰی کے میدان میں یہ سب فرزندان توحید اسی لئے جمع ہوئے تھے کہ وہ اللہ سے کئے ہوئے عہد کو یاد کریں، وہ اس کے احکامات پر غور کریں، وہ اس کی پسند و ناپسند سے واقفیت حاصل کریں اور اپنی کوتاہیوں کی معافی مانگ کر آئندہ شیطان کے چنگل سے بچنے کی تربیت حاصل کریں۔ یہاں اہل ایمان کے ہتھیار توکل ،تفویض ، رضا، تقویٰ، قنوت، توبہ اور صبر کی صورت میں ان کے ساتھ تھے۔ان کی مدد سے وہ طاغوتی لشکروں کے حملوں کا جواب دینے کےلئے تیار تھے۔چنانچہ اہل ایمان کے خیموں سے لبیک کی صدائیں بلند ہورہی تھیں ۔ وہ سب اپنے رب کی مدد سے اس جنگ میں فتح حاصل کرنے کئے بے چین تھے۔
عرفات کا منظر
ابلیس کی افواج بھی اپنا پڑاؤ بدل کر عرفات پہنچ چکی تھیں۔ ان شریروں کا مقصد حاجیوں کو تزکیہ و تربیت حاصل نہ کرنے دینا اور مناسک حج کی ادائیگی میں خلل پیدا کرنا تھا۔ لیکن اس مرتبہ شیطانی کیمپ میں ایک اضطراب اور بےچینی تھی۔ رحمانی لشکراپنی پوزیشن لے چکا تھا۔ اور اب وہ ایسے میدان میں تھا جو خدا کی رحمتوں کامنبع تھا۔ آج کے دن خد انے بے شمار لوگوں کو جہنم سے آزادی کا پروانہ دینا تھا۔ آج فرشتوں کے نزول کا دن تھا۔ چنانچہ شیطان کو اپنی شکست سامنے نظر آرہی تھی لیکن وہ اپنی اسی ہٹ دھرمی پر اڑا ہوا تھا۔ اس کے چیلے گشت کررہے تھے اور اپنے شکار منتخب کررہے تھے۔ ان کا نشانہ زیادہ تر کمزور مسلمان تھے جو علم و عمل میں کمزور تھے۔یہ وہ مسلمان تھے جنہوں نے دین کا درست علم حاصل نہیں کیا تھا اور زیادہ تر نفس کے تقاضوں کے تحت ہی زندگی گذاری تھی۔ اس سے بڑھ یہ کہ یہ لوگ اس عظیم جہاد کی حقیقت سے بھی نابلد تھے۔ اہل ایمان ادھر خدا سے مناجات میں مصروف تھے اور دوسری جانب طاغوتی لشکر اپنے کام میں مصروف تھا۔ چنانچہ بہت سے لوگوں کو شیطانی چیلے یہ درس دے رہے تھے کہ اب بہت دعا مانگ لی اب بس کرو، کچھ کو انہوں نے دنیاوی باتوں میں مصروف کررکھا تھا، کچھ کو کھانے پینے میں لگادیا تھا تو کچھ کو تھکاوٹ کاحساس دلا کر نڈھال کرنے کی سعی کی تھی۔
مزدلفہ میں زندگی موت کی کشمکش
شیاطین کے کے کیمپ تصور میں آنے لگے۔وہاں ابتری پھیل چکی تھی۔ اہل ایمان میں سے جو چنے ہوئے لوگ تھے انہوں نے تو اللہ سے اپنے عہد کی تجدید کرلی تھی، اپنے نفس کی کڑی دھوپ میں کھڑے رہنے کی تربیت کی، بھوک کو برداشت کیا، جنسی تقاضوں کو تھام کررکھا اور دنیا و آخرت میں کامیابی کی دعا کی۔ وہاں انہوں نے اپنے گناہوں سے توبہ اورآئیندہ گناہ نہ کرنے کا عزم کرلیا تھا۔ اب وہ اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کو دور کرکے اگلے مورچے پر طاغوت کو شکست دینے کے لئے تیار تھے۔ گویا انہوں نےخدا کی مدد سے عرفات کا میدان مار لیا تھا۔ اب انہوں نے خیمے چھوڑ دئے تھے اور کھلے آسمان تلے فیصلہ کن معرکے کے لئے تازہ دم ہورہے تھے۔ دوسری جانب کمزور مسلمان بھی ان چنے ہوئے لوگوں کی معیت میں تھے اور انہوں نے بھی حتی المقدور ان کی تقلید کی کوشش کی اور خدا کی رضا کی اپنے تئیں پوری کوشش کرڈالی۔ لیکن آ ج خدا کی رحمتوں کے نزول کا وقت تھا او ر یہ رحمتیں کمزو ر وطاقتو ر ہر طرح کے مسلمان کے لئے نازل ہورہی تھیں اور ہر ایک اپنی استطاعت کے مطابق ان سے فیض یاب ہورہا تھا۔
ادھر شیطانی کیمپوں کی حالت ابتر تھی۔ آسمانی فرشتوں نے شیاطین کا ناطقہ بند کردیا تھا اور وہ ان پر تازیانے برسا رہے تھے۔ چنانچہ طاغوتی کیمپ میں ایک صف ماتم بچھی تھی۔ کوئی اپنے زخموں کو سہلا رہا تھا تو کوئی اپنا خون چاٹ رہا تھا۔ وہاں کے ہر ابلیس پر ایک مایوسی اور افسردگی طاری تھی۔ ان کی پوری کوشش تھی کہ اہل ایمان کے لشکر کو اگلے مورچے تک جانے سے روکا جائے لیکن اب انہیں کوئی نہیں روک سکتا تھا کیونکہ خدا ان کے ساتھ تھا۔ اب بس سورج نکلنے کی دیر تھی کہ شیطا ن پر سنگ باری شروع ہوجانی تھی۔
رمی اورشیطان کی شکست
ایک بار پھر مرتبہ لبیک کی صدائیں بلند ہورہی تھیں۔ چاروں طرف کفن پوش سرفروشان اسلام شیطان کی ناک رگڑنے کے لئے چل رہے تھے۔ قافلہ دھیمے دھیمے آگے بڑھ رہا تھا۔ اس رحمانی لشکر کے جوش کے باوجود ابلیسی افواج کے ہرکارے مسلمانوں پر حملہ کرنے سے باز نہیں آرہے تھے۔ چنانچہ ان کی کوشش تھی کہ مختلف رنگ و نسل کے مسلمانوں میں فساد پیدا کردیں، وہ انہیں نظم و ضبط کی خلاف ورزی کروا کر بھگدڑ مچوادیں، انہیں دنیاوی باتوں میں مشغول کریں، انہیں آنکھوں کے زنا میں مبتلا کردیں ، وہ اپنی زبان سے لوگوں کی غیبت کریں، وہ دوسری قوم کے لوگوں کے بارے میں بدگمانی کریں، وہ کالوں کو دیکھ کر ان کو حقیر سمجھیں اور سب سے بڑھ کر حج کے فلسفے سے غافل ہوکر اسے ایک رسم کے طور پر ادا کریں۔
لیکن شیطان کے وسوسوں، ڈراووں ، لالچوں کے باوجود حجاج اس مقام تک پہنچ چکے تھے۔ وہ خدا کے حکم کے مطابق پچھلے تمام محاذوں پر شیطان کو شکست دیتے چلے آئے تھے اب یہ مرحلہ بھی آہی گیا تھا۔ یہاں بھی ان کا ہتھیار توکل تھا۔ انہیں خدا کی مدد پر بھروسہ تھا ۔ میں نے تصور میں شیطانی لشکر کو دیکھا تو وہ بزدلوں کی طرح پسپائی رہا تھا۔ پچھلے مورچوں پر شکست کھانے کے بعد شیطان اور اس کے پہلے ہی حواری بدحواس ہوچکے تھے۔
لیکن اہل ایمان پر خدا کی رحمتوں کا خاص نزول تھا۔ اس کے فرشتے شیاطین کو دھتکار رہے تھے اور اہل ایمان کی کمزوریوں کے باوجود ان کی معاونت کررہے تھے۔اہل ایمان کا لشکر شیاطین کو آہستہ آہستہ پیچھے دھکیل رہا تھا۔ لبیک کی صدائیں ان طاغوتی قوتوں کے دل چیر رہی تھیں ۔
شیطان کی کوشش تھی کسی طرح اپنے ساتھیوں کو جمع کرکے حوصلے بلند کرے لیکن اب دیر ہوچکی تھی اور معاملات ہاتھ سے نکل گئے تھے۔ شیطان ایک بار پھر بھول گیا تھا کہ اس کا مقابلہ ان نہتے انسانوں سے نہیں بلکہ تنہا خدا سے ہے جس کے قبضے میں تمام طاقتیں ہیں۔ان سب برائیوں کا منبع بڑا شیطان ہی تھا چنانچہ اہل ایمان کا پہلا نشانہ یہی بڑا شیطان تھا۔ اگر اس کی ناک رگڑ دی جائے تو باقی چھوٹے شیاطین خود ہی دبک کر بیٹھ جائیں گے۔
بڑا شیطان پسپا ہوتا گیا اور پیچھے بھاگتا رہا یہاں تک کہ وہ گھاٹی پر پہنچ گیا۔ یہی وہ مقام تھا جب اس نے آج سے کئی ہزار سال قبل پیغمبر خدا ابراہیم علیہ السلام کو ورغلانے کی ناکام کوشش کی اور منہ کی کھائی۔جب ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں حکم ہوا کہ اپنے اکلوتے بیٹے کو خدا کے حکم پر ذبح کردیں تو آپ اس حکم کی تعمیل کے لئے نکل کھڑے ہوئے۔ آپ جب آگے بڑھے تو شیطان نمودار ہوا اور وسوسہ ڈالا کہ کیا اپنے اکلوتے فرزند کو قربان کردو گے جو تمہارے بڑھاپے کا سہارا ہے ، جو تمہاری آنکھ کا تارا ہے؟ لیکن خلیل اللہ نے اس آواز پر کان نہ دھرے بلکہ شیطان کو کنکریاں مار کر دھتکار دیا۔

آج اسی شیطان کی پٹائی لاکھوں فرزندان توحید کے ہاتھوں ہورہی تھی۔بڑا شیطان جونہی اہل ایمان کے سامنے آیا تو انہوں نے اپنے جد امجد کی سنت پر عمل شروع کردیا۔اہل ایمان نے پہلی کنکری مار کر شیطان کے شرک کا انکار اور خدا کی توحید کا اقرار کیا۔ دوسری کنکری مار کر انکار آخرت اور الحاد کے فتنے کا بطلان کیا۔ تیسری کنکری شیطان کی جنسی ترغیبات کو ماری۔ چوتھی کنکری معاشی ظلم و عدوان پر پھینکی۔ پانچویں کنکری شیطان کی پرفریب دجالی تہذیب پر ماری۔ چھٹی کنکر ی ابلیس کے قتل انسانیت کے فتنے پر پھینکی اور آخری کنکری اخلاقی بگاڑ کے عوامل پر ماردی۔ اہل ایمان کے یہ سنگ ریزے اس پر ایٹم بم کی طرح برس رہے تھے کیونکہ ان میں قوت ایمانی موجود تھی۔شیطان ان سے بچنے کی بھر پور کوشش کرہا تھا لیکن وہ اس میں مکمل طور پر ناکام تھا۔
اب لبیک کا تلبیہ ختم ہوچکا تھا کیونکہ اہل ایمان اپنے رب کے بلاوے پر حاضر ہوچکے اور شیطان کو سنگسار کرچکے تھے۔ اب اللہ کی حمد ثنا اور بڑائی بیان کی جا رہی تھی۔
اللہ اکبر اللہ اکبر لاالٰہ الااللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد
اللہ بڑا ہے اللہ بڑا ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اللہ بڑا ہے اللہ بڑا ہے اور اللہ کے لئے ہی تمام تعریفیں ہیں۔
اب اہل ایمان قربانی کے لئے تیار تھے۔ انہوں نے اللہ کی مدد سے اپنے خارجی دشمن کی تو ناک رگڑ دی تھی لیکن اپنے داخلی دشمن یعنی نفس امارہ کو لگام دینا بھی ضروری تھا۔ چنانچہ تمام حجاج نے قربانی کرکے اپنے رب کا شکر ادا کیا اور اپنے نفس کی ناجائز خواہشات کو قربا ن کرکے خدا کے ایک او ر حکم کی تعمیل کی۔ اس کے بعد انہوں نے حلق کروایا ۔ یہ سر منڈوانا دراصل خود کو خدا کی غلامی میں دینے کا عہد تھا۔ یہ بات عہد الست کی تجدید تھی کہ اللہ ہی ہمارا رب ہے۔ یہ اس وعدے کا اعادہ تھا کہ اللہ کی بندگی میں پورے پورے داخل ہونا ہے، اس کے ہر حکم پر سر تسلیم خم کرنا ہے، اس کی نافرمانی سے حتی الامکان گریز کرنا اور اسے راضی رکھنے کی کوشش میں کسی بھی انتہا سے گذرجانا ہے۔
منی میں دوبارہ پڑاؤ
ادھر اہل ایمان شیطان کو کاری ضرب لگانے کے بعد منٰی میں چین کی نیند سورہے تھے اور دوسری جانب ابلیس کے خیموں میں ایک کہرام مچا ہوا تھا۔ وہاں کی طوائفیں بدصورتی کی مثال بن گئی تھیں، شراب کےجام ٹوٹے پڑے تھے، رقص و موسیقی بند ہوچکی تھی، خیمےالٹے پڑے تھے اور قہقوں کی بجائے آہیں اور سسکیاں تھیں۔ شیطان اپنی بے پناہ طاقت، وسائل اور منصوبہ بندی کے باوجود اہل ایمان کو شکست دینے میں ناکام رہا تھا۔ لیکن ابھی جنگ کے دو دن باقی تھے اور اس میں وہ اپنی بچی کچھی فوجیں جمع کرکے خاموشی سے اہل ایمان کو گمراہ کرنے کی سازشیں تیار کررہا تھا۔
اگلا دن بھی منی میں قیام کا تھا۔ اکثر لوگ احرام اتار کر سمجھ رہے تھے کہ حج مکمل ہوگیا ہے۔ چنانچہ منٰی میں قیام کے دوسرے روز اہل ایمان کا جذبہ سرد ہوتا جارہا تھا۔ یہ بات شیطانی لشکر کے فائدے میں تھی۔ شیطان کے چیلوں نے دوبارہ اپنے زخموں کو بھلا کر سازشیں شروع کردیں۔ ان کی کوششوں کے باعث کمزور اہل ایمان خدا کی یاد کی بجائے دنیاوی باتوں میں مشغول ہوچکے تھے۔ اب کچھ لوگوں کی گفتگو کا موضوع سیاست تھی، دنیاداری تھی، وطن میں موجود بیوی بچے تھے، کھانے کے وسائل پر قبضہ تھا، لوگوں کی برائیاں تھیں۔ ان کے علی الرغم خدا کے چنے ہوئے بندے بھی تھے۔ وہ اب بھی خدا کی حمد و ثنا میں مصروف تھے، وہ اس کی یاد میں آنسو بہا رہے تھے، حج میں اپنی کوتاہیوں پر معافی کے خواستگار تھے، مستقبل میں اس کی رحمت کے طلبگار تھے۔
فرزندان توحید کو تربیت کے ایک اور مرحلے سے گذارنے کے لئے ۱۱ ذی الحجہ کو بھی شیطان پر سنگباری کرنی تھی۔چنانچہ اس معرکہ کا وقت آن پہنچا اور اہل ایمان کی فوجوں نے بچے کچھے شیاطین کو پیچھے دھکیلنا شروع کردیا۔ دوبارہ ان کا ٹارگٹ جمرات ہی تھا۔ شیطان کی فوجیں تھکی ماندی مایوس اور افسردہ تھیں جبکہ اہل ایمان ترو تازہ، طاقت ور اور پرامید۔ شیطان کے لشکر سے آہ و بکا کی آوازیں تھیں جبکہ رحمانی لشکر سے خدا کی بڑائی اور حمد کے ترانے۔شیطانی لشکر میں ابتری تھی جبکہ رحمانی افواج میں تنظیم۔ شیطان کا کوئی والی وارث نہیں تھا جبکہ اہل ایمان کا سرپرست خداوند قدوس تھا۔
شیطان کا لشکر پسپا ہوتا رہا یہاں تک کہ جمرات آگیا۔ یہاں شیطانی افواج کا پڑاؤ چھوٹے جمرے پر ہوا۔ اہل ایمان کا ہلہ اس چھوٹے جمرے (شیطان)کے لئے ناقابل برداشت تھا۔ چنانچہ طاغوتی قوتیں پیچھے ہٹ کر جمرہ وسطیٰ(درمیانی شیطان) پر جمع ہوگئیں۔ اہل ایمان نے ایک اور کاری وار کیا اور شیطان کی فوج کی بڑی تعداد کام میں آگئی۔ بچی کچھی طاقت اپنے سردار بڑے شیطان کے جھنڈے تلے جمع ہوگئی۔ یہاں بھی تائید ایزدی سے اہل ایمان نے شیطان کوایک اور زک پہچائی اور اب اس کے لئے فرار کا کوئی راستہ نہ تھا۔ چنانچہ وہ پٹتا رہا اور قیامت تک پٹنا اس کا مقدر تھا۔
اگلے دن بارہ ذوالحج کو بھی یہی عمل دہرایا گیا اور یوں حج کے مناسک مکمل ہوچکے تھے۔ اہل ایمان وقوف عرفات ، قیام مزدلفہ، رمی ، قربانی ، حلق ،طواف وداع اور منی میں ۱۲ ذولحج تک قیام کرکے حج کے تمام ظاہری مناسک پورے کرچکے تھے۔ حج ختم ہوگیا تھا ۔ یعنی شیطان کے خلاف تمثیلی جنگ کا اختتام ہوچلا تھا۔
جنگ کے نتائج
سوال یہ تھا کہ اس جنگ میں فتح کس کو نصیب ہوئی۔ اس کا ایک جواب تو بہت سادہ تھا کہ طاغوتی لشکر کو شکست اور اہل ایمان کو فتح نصیب ہوئی تھی۔ لیکن اس فتح میں اپنی کمزوریوں کا جائزہ لینا بھی ضروری تھا۔ مسلمانوں میں تین گروہ تھے جنہوں نے اپنے تقوی اور استطاعت کے مطابق حج سے استفادہ کیا۔
ایک گروہ سابقون کا تھا ۔ اس گروہ کے مسلمانوں نے اپنی نیت خالص رکھی، اپنا مال اللہ کے لئے خاص کردیا، اپنے جسم کے ہر عضو کو اللہ کی اطاعت میں دے دیا ، اپنے دل کی گہرائیوں سے اللہ کی حمدو ثنا کی ، ا س کی بڑائی بیان کی۔ یہ وہ ہراول دستہ تھا جس نے اس تمثیلی جنگ سے تربیت حاصل کی کہ کس طرح شیطانی چالوں سے نبٹنا ہے اور نفس کے گھوڑے کو لگام دے کر اپنا مستقبل اللہ کی غلامی میں بتانا ہے۔ ان کے حج کو اللہ نے قبول کرلیا اور انہیں اس طرح کردیا جیسے وہ آج ہی اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے ہوں ۔ ان کی خطائیں معاف ہوگئیں اور ان کا حج حج مبرور ہوگیا جس کا صلہ جنت کے سوا کچھ نہ تھا۔
مسلمانوں کا دوسرا گرو ہ تقوی کے اس مقام پرنہ تھا۔ اس گروہ میں علم کی کمی تھی، عمل میں کوتاہیاں تھیں اور نیت میں اتنا اخلاص نہ تھا۔ یہ لوگ حج کی اسپرٹ سے بھی پوری طرح آگاہ نہ تھے بس ظاہری فقہی احکامات مان کر حج کی رسومات انجام دے رہے تھے۔ لیکن یہ خدا کے وفادار تھے۔ انہوں نے اپنا دامن شرک کی گندگی سے پاک رکھا تھا۔ یہ اپنی کوتاہیوں پر شرمسار تھے، یہ معافی کے خواستگار تھے، جنت کے طلبگار تھے۔ یہ جانتے تھے کہ خدا اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہے اور اس نے اعلان کیا ہوا ہے کہ اگر تم چل کر آؤگے تو میں تمہارے پاس دوڑ کر آؤنگا۔ چنانچہ وہ مالی اور بدنی مشقتیں جھیل کر اپنے بادشاہ کے دربار میں چل کر آگئے تھے۔ چنانچہ یہ کیسے ممکن تھا کہ خدا دوڑ کر ان کے پاس نہ آتا، ان کی کوتاہیوں پر چشم پوشی نہ کرتا، ان کی خطاؤں سے درگذر نہ کرتا اور ان کے عمل کی کمی کو دور نہ کردیتا۔
مسلمانوں میں تیسرا گروہ ان لوگوںپر مشتمل تھا جو حج خدا کو راضی کرنے کی بجائے کسی اور نیت سے کرنے آئے تھے۔ ان میں سے کچھ لوگ اپنے نام کے ساتھ حاجی لگوانا چاہتے تھے، کچھ اپنے حرام کی کمائی پر سیر سپاٹے کے لئے نکلے تھےاورکچھ شاپنگ کی غرض سے آئے تھے۔ظاہری مناسک توا نہوں نے بھی کئے تھے لیکن کسی اور نیت اور مقصد کے ساتھ۔ ان کی حیثیت قابیل کی مانند تھی جو قربانی کے لئے کچھ اناج تو لایا لیکن یہ ردی اور فالتو اناج تھا ۔ ا س کی نیت یہی تھی کہ اگر قربانی قبول ہوگئی اور آگ نے اسے جلا دیا تو خو امخواہ اعلی درجے کا اناج ضائع ہوجائے گا۔یعنی اس نے قربانی کی ظاہری شکل تو پوری کی لیکن اس کی نیت میں فتور ہونے کی بنا پر اسے قبول نہ کیا گیا۔ بہر حال ان حاجیوں کا معاملہ اللہ کے سپر د تھا وہ جو چاہے فیصلہ کرے۔
پروفیسر محمد عقیل


سانحہ کربلا اور تاریخی حقائق

$
0
0


تحریر و تحقیق: محمد مبشر نذیر
سانحہ کربلا، مسلمانوں کی تاریخ کا ایک نہایت ہی سنگین واقعہ ہے۔ اس واقعے میں نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں کو مظلومانہ انداز میں شہید کیا گیا اور اس کے بعد امت مسلمہ میں افتراق و انتشار پیدا ہوا۔ اس واقعے سے متعلق بہت سے سوالات ہیں جو تاریخ کے ایک طالب علم کے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں۔ اس سیکشن میں ہم مختلف سوالات کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے: حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے اقدام کی اصل نوعیت کیا تھی؟ سانحہ کربلا کیسے وقوع پذیر ہوا؟ سانحہ کربلا کا ذمہ دار کون تھا؟ سانحہ کربلاکے کیا نتائج امت مسلمہ کی تاریخ پر مرتب ہوئے؟ دیگر صحابہ نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ شمولیت اختیار کیوں نہ کی؟ یزید نے قاتلین حسین کو سزا کیوں نہ دی؟ شہادت عثمان کی نسبت شہادت حسین پر زور کیوں دیا گیا؟ وغیرہ وغیرہ۔
حضرت حسن کے اقدام کی اصل نوعیت کیا تھی؟
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے اقدام کے بارے میں مسلمانوں کے اندر تین نقطہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں:
1۔ ایک اقلیت کا نظریہ یہ ہے کہ خلافت صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کی اولاد کا حق تھا۔ چونکہ یزید نے اس پر غاصبانہ قبضہ کیا تھا، اس وجہ سے حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے حق کے حصول کے لیے اس کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور اس راہ میں جام شہادت نوش کیا۔
2۔ دوسری اقلیت کا نظریہ یہ ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی حیثیت معاذ اللہ ایک باغی کی سی تھی۔ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں حکم ہے کہ جب ایک خلیفہ کی بیعت ہو جائے تو پھر اس کے خلاف دعوی کرنے والے کو قتل کر دو۔ اس وجہ سے یزیدی افواج نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کر کے ایک جائز اقدام کیا۔
3۔ امت کی اکثریت کا نقطہ نظر یہ ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے کوئی بغاوت نہیں کی تھی اور آپ کی شہادت ایک مظلومانہ شہادت ہے۔
پہلا نقطہ نظر کچھ مذہبی دلائل کی بنیاد پر قائم ہے۔ اس کتاب کا اسکوپ چونکہ صرف تاریخ ہے، اس وجہ سے اس نقطہ نظر پر تبصرہ کی گنجائش اس کتاب میں نہیں ہے۔ ہم نے تقابلی مطالعہ پروگرام کے ماڈیول CS01 میں تفصیل سے اس ضمن میں فریقین کے نقطہ نظر کو ان کے دلائل کے ساتھ نقل کر دیا ہے۔ جو حضرات مطالعہ کرنا چاہیں، وہ وہاں کر سکتے ہیں۔
دوسرے نقطہ نظر پر ہم یہاں گفتگو کرنا چاہیں گے کیونکہ احادیث کے بارے میں تو کوئی اختلاف نہیں ہے لیکن تاریخی اعتبار سے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا موقف کیا تھا۔ پہلے ہم احادیث نقل کرتے ہیں:
عرفجہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “جب آپ لوگ ایک شخص (کی حکومت) پر متفق ہوں اور کوئی آ کر آپ کے اتحاد کو توڑنے کی کوشش کرے یا آپ کی اجتماعیت میں تفرقہ پیدا کرے تو اسے قتل کر دیجیے۔”
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “اگر (بیک وقت) دو خلفاء کی بیعت کی جائے تو بعد والے کو قتل کر دو۔”
ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “آپ پر ایسے امراء مسلط ہوں گے جن کی برائی کو آپ لوگ پہچان بھی لیں گے اور بعض اعمال کی برائی کو سمجھ نہیں پائیں گے۔ جس نے ان کے اعمال بد کو پہچان لیا، وہ بری الذمہ ہو گیا۔ جو نہ پہچان سکا، وہ بھی محفوظ رہا لیکن جو ان امور پر خوش ہوا اور اس نے تابعداری کی (وہ دنیا و آخرت میں ناکام ہوا۔) صحابہ نے عرض کیا: “کیا ہم ایسے حکمرانوں سے جنگ نہ کریں؟” فرمایا: “نہیں۔ جب تک وہ نماز اد اکرتے رہیں۔”(صحیح مسلم، کتاب الامارہ۔ حدیث 1852-1854)
ان احادیث سے واضح ہے کہ اگر مسلمانوں پر ایسے لوگ مسلط ہو جائیں، جن کا کردار قابل تعریف نہ ہو تو ان کے خلاف اس وقت تک بغاوت نہ کریں جب تک کہ وہ اسلام پر قائم رہیں اور اس کی علامت کے طور پر نماز ادا کرنے سے انکار نہ کریں۔ بغاوت کرنے سے منع کرنے کی حکمت یہ ہے کہ بغاوت کی صورت میں ان حکمرانوں کا ظلم بہت پھیل جائے گا۔
ہمارے نزدیک حضرت حسین رضی اللہ عنہ پر ان احادیث کا اطلاق ایک بہت بڑی جسارت ہے۔ اسی باب میں آگے چل کر ہم اس کی وضاحت کریں گے کہ حضرت حسین نے نہ تو بغاوت کی، نہ ہی مسلمانوں کی اجتماعیت کو توڑنے کی کوشش کی اور نہ ہی ایک خلیفہ کی موجودگی میں اپنی خلافت کا دعوی کیا۔ اس وجہ سے آپ کو باغی قرار دے کر آپ کی مظلومانہ شہادت کو ناجائز قرار دینا، ایک بہت بڑا الزام ہے۔ اس کی تفصیل ہم اگلے سیکشنز میں بیان کریں گے۔
حضرت حسین نے کوفہ کا سفر کیوں کیا؟
طبری، بلاذری اور ابن سعد کی روایتیں اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانے میں کوفہ کی باغی تحریک زیر زمین چلی گئی تھی۔ انہوں نے حضرت حسن اور معاویہ رضی اللہ عنہما کے اتحاد کو دل سے قبول نہ کیا تھا چنانچہ یہ لوگ حضرت حسن کو ترغیب دلاتے رہتے تھے کہ وہ صلح کے معاہدے کو توڑ کر حضرت معاویہ سے دوبارہ جنگ شروع کریں۔ حضرت حسن انہیں جھڑک دیتےتو یہ آ کر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو اپنے نقطہ نظر پر قائل کرنے کی کوشش کرتے۔ آپ نے بھی حضرت معاویہ کے زمانے میں ان کی کوئی بات قبول نہ کی اور اپنی بیعت پر قائم رہے۔
جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی اور یزید نے اقتدار سنبھالا تو گورنر مدینہ ولید بن عتبہ بن ابی سفیان نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو بلا کر انہیں یہ خبر سنائی اور ان سے بیعت طلب کی۔ حضرت حسین نے فرمایا: “انا للہ و انا الیہ راجعون۔ اللہ تعالی معاویہ پر رحمت فرمائے اور آپ کے اجر میں اضافہ کرے۔بیعت کا جو سوال آپ نے کیا ہے تو میں پوشیدہ طور پر بیعت کرنے والا نہیں ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ کو بھی مجھ سے پوشیدہ بیعت نہیں لینی چاہیے بلکہ اعلانیہ لوگوں کے سامنے بیعت لینی چاہیے۔” ولید نے اس بات کو قبول کیا تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب آپ سب لوگوں سے بیعت لیں گے تو ان کے ساتھ مجھ سے بھی لے لیجیے گا۔” ولید ایک عافیت پسند آدمی تھے اور جھگڑے جدال کو پسند نہ کرتے تھے، اس وجہ سے انہوں نے آپ کو جانے کی اجازت دے دی۔( طبری۔ 4/1-140۔ بلاذری ۔ 5/316۔ )
ابو مخنف نے حضرت حسین کے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما سے متعلق دو متضاد الفاظ نقل کیے ہیں۔ ایک میں انہیں اس امت کا فرعون قرار دیا گیا ہے اور دوسرے میں آپ کے لیے رحمت کی دعا کی گئی ہے۔ اس کا اندازہ ہم خود لگا سکتے ہیں کہ کون سی بات حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے شایان شان ہے۔
اس کے بعد حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے اہل خانہ کے ساتھ مدینہ سے مکہ کا سفر کیا۔ آپ کے بھائیوں میں سے حضرت محمد بن حنفیہ رحمہ اللہ نے اس موقع پر آپ کو جو رائے دی، وہ ابو مخنف نے یوں نقل کی ہے:
بھائی جان! تمام مخلوق میں آپ سے بڑھ کر مجھے کوئی محبوب نہیں ہے اور آپ سے بڑھ کر دنیا میں کسی کے لیے بھی خیر خواہی کا کلمہ میرے منہ سے نہ نکلے گا۔ آپ اپنے لوگوں کے ساتھ یزید بن معاویہ سے اور سب شہروں سے جہاں تک ہو سکے ، الگ رہیے۔ اپنے قاصدوں کو لوگوں کے پاس بھیجیے اور ان کے سامنے اپنی دعوت پیش کیجیے۔ اگر وہ آپ کی بیعت کر لیں تو اس پر اللہ کا شکر کیجیے اور اگر لوگ آپ کے علاوہ کسی اور پر متفق ہو جائیں تو اس سے آپ کے دین اور عقل میں اللہ کوئی کمی نہ فرمائے گا اور آپ کے احترام اور فضل میں بھی کوئی کمی واقع نہ ہو گی۔ مجھے خطرہ ہے کہ آپ (بالخصوص عراق کے) ان شہروں میں سے کسی شہر میں داخل ہوں ۔ لوگوں کا ایک گروہ آپ کے پاس آ جائے، پھر ان میں اختلاف پڑ جائے اور دوسرا گروہ آپ کے مخالف آ کھڑا ہو۔ کشت و خون کی نوبت آ جائے تو سب سے پہلے آپ کی طرف برچھیوں کا رخ ہو جائے اور آپ جیسے شخص کا، جو ذاتی اور خاندانی اعتبار سے بہترین ہے، آسانی سے خون بہا دیا جائے اور آپ کے سب اہل و عیال تباہی میں مبتلا ہوں۔
حضرت حسین نے پوچھا: “بھائی! پھر میں کہاں جاؤں؟” محمد نے عرض کیا: “آپ مکہ چلے جائیے۔ وہاں اطمینان حاصل ہو جائے تو ٹھیک ورنہ پھر ریگستانوں اور پہاڑوں میں چلے جائیے۔ ایک مقام کو چھوڑ کر دوسرے پر منتقل ہو جائیے۔ دیکھتے رہیے کہ اونٹ کس طرف بیٹھتا ہے۔ اس وقت آپ رائے قائم کرتے ہوئے تمام امور کو براہ راست دیکھیے اور جو بات عقل کے تقاضوں پر پورا اترے، اسے اختیار کر لیجیے۔ اس سے بڑھ کر مشکل کا سامنا کسی صورت میں نہ ہو گا کہ معاملات کو ٹیڑھے رخ سے آپ کو دکھایا جائے۔” آپ نے فرمایا: “میرے بھائی! آپ نے خیر خواہی اور محبت کی بات کہی ہے۔ امید یہی ہے کہ آپ کی رائے درست اور موافق ہو گی۔
( ایضاً۔ 4/1-142۔ بلاذری 5/317۔ )
واقدی کی روایت کے مطابق حضرت حسین کے علاوہ ابن زبیر رضی اللہ عنہم بھی مدینہ سے نکل آئے تھے۔ راستے میں ان کی ملاقات ابن عباس اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے ہوئی۔ یہ پوچھنے لگے: “کیا خبر ہے۔” انہوں نے جواب دیا: “معاویہ فوت ہو گئے اور یزید کی بیعت لی جا رہی ہے۔” ابن عمر نے ان دونوں سے کہا: “آپ دونوں اللہ سے ڈریے اور مسلمانوں کی اجتماعیت سے علیحدہ نہ ہوں۔” پھر ابن عمر مدینہ چلے آئے اور وہیں ٹھہرے رہے۔ کچھ دن انتظار کیا اور جب تمام شہروں کی بیعت کا حال انہیں معلوم ہوا تو ولید بن عتبہ کے پاس آ کر انہوں نے بھی بیعت کر لی اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بھی۔
( ایضاً ۔ 4/1-144)
تاریخ طبری میں ایک ایسی روایت ملتی ہے جو ہشام کلبی، ابو مخنف اور واقدی تینوں کی سند سے خالی ہے۔ ہم یہی روایت یہاں درج کر رہے ہیں۔ اس کے راوی عمار بن معاویہ الدہنی (d. 133/750) ہیں جو کہ اہل تشیع میں سے اعتدال پسند گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ( ذہبی۔ میزان الاعتدال 5/206۔ راوی نمبر 6011)۔ انہوں نے یہ روایت حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے پوتے محمد باقر رحمہ اللہ سے نقل کی ہے۔
حدثني زكرياء بن يحيى الضرير، قال: حدثنا أحمد بن جناب المصيصي – ويكنى أبا الوليد – قال: حدثنا خالد بن يزيد بن أسد بن عبد الله القسري، قال: حدثنا عمار الدهني: عمار الدہنی کہتے ہیں کہ میں نے ابو جعفر (محمد باقر) سے عرض کیا: “مجھے حسین کی شہادت کا واقعہ اس طرح تفصیل سے سنائیے کہ مجھے محسوس ہو کہ گویا کہ میں وہاں خود موجود ہوں۔ ” انہوں نے فرمایا۔
جب معاویہ فوت ہوئے تو ولید بن عتبہ بن ابی سفیان مدینہ کے گورنر تھے۔ انہوں نے حسین کو بیعت لینے کے لیے پیغام بھیجا۔ انہوں نے فرمایا: “مجھے کچھ مہلت دیجیے۔” ولید نے ان کے ساتھ نرمی کا معاملہ کیا اور انہیں مہلت دی۔ اب آپ نکل کر مکہ تشریف لے گئے۔ وہاں اہل کوفہ (کے کچھ لوگ) اور ان کے قاصد یہ پیغام لے کر آئے کہ ہم لوگ آپ پر بھروسہ کیے بیٹھے ہیں اور نماز جمعہ میں کوفہ کے گورنر کے ساتھ شریک نہیں ہوتے۔ آپ ہمارے پاس آ جائیے۔ اس زمانہ میں نعمان بن بشیر کوفہ کے گورنر تھے۔ حسین نے اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل کو بلوایا اور ان سے کہا: “آپ کوفہ روانہ ہو جائیے اور یہ دیکھیے کہ یہ لوگ مجھے کیا لکھ رہے ہیں۔ اگر وہ سچ لکھ رہے ہیں تو پھر میں ان کی طرف چلا جاؤں؟”
مسلم وہاں سے روانہ ہو کر مدینہ میں آئے اور یہاں سے دو راہبروں کو ساتھ لے کر کوفہ کی جانب روانہ ہوئے۔ دونوں راہبر صحرا کی طرف سے چلے ۔ راستے میں ان میں سے ایک پیاس کے مارے فوت ہو گیا۔ مسلم نے حسین کو لکھا: “اس سفر سے مجھے معاف رکھیے۔” حسین نے یہی لکھا کہ آپ کوفہ جائیے۔ مسلم آگے بڑھے اور آخر کار کوفہ پہنچ گئے۔ یہاں انہوں نے ایک شخص ، جس کا نام ابن عوسجہ تھا، کے گھر قیام کیا۔ ان کے آنے کی شہرت اہل کوفہ میں پھیل گئی اور لوگ آ آ کر بیعت کرنے لگے۔ بارہ ہزار آدمیوں نے ان کی بیعت کی۔
یزید کے ساتھیوں میں سے ایک شخص نے کھڑے ہو کر (گورنر کوفہ) نعمان بن بشیر سے کہا: “یا تو آپ کمزور ہیں یا پھر کمزور بنتے ہیں۔ شہر میں فساد پھیل رہا ہے (اور آپ کچھ نہیں کرتے۔) نعمان نے فرمایا: “اگر اللہ کی اطاعت میں میں کمزور سمجھا جاؤں تو یہ اس سے بہتر ہے کہ اللہ کی نافرمانی میں صاحب قوت کہلاؤں۔ میں ایسا شخص نہیں ہوں کہ جس بات پر اللہ نے پردہ ڈال رکھا ہے، اس کا پردہ فاش کروں۔” اس شخص نے ان کی یہ بات یزید کو لکھ بھیجی۔
یزید نے اپنے ایک آزاد کردہ غلام کو بلایا ، جس کا نام سرجون تھا اور وہ اس سے مشورہ کیا کرتا تھا۔ اس نے سرجون کو ساری بات بتلائی۔ اس نے کہا: “اگر معاویہ زندہ ہوتے تو کیا آپ ان کی بات مان لیتے؟” یزید نے کہا: “ہاں۔” اس نے کہا: “پھر میری بات مانیے ۔ کوفہ کے لیے (موجودہ گورنر بصرہ) عبیداللہ بن زیاد سے بہتر کوئی شخص نہیں ہے۔ اسی کو وہاں کی حکومت دے دیجیے۔” اس سے پہلے یزید، ابن زیاد سے ناراض تھا اور اسے بصرہ کی گورنری سے بھی معزول کرنا چاہتا تھا۔ اس نے اسے لکھ بھیجا: “میں آپ سے خوش ہوں۔ میں نے بصرہ کے ساتھ کوفہ کی گورنری بھی آپ کے سپرد کی۔” ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ مسلم بن عقیل کا پتہ چلایے اور وہ ہاتھ آ جائیں تو انہیں بھی قتل کر دیجیے۔
عبیداللہ بصرہ کے سرکردہ لوگوں کو لے کر سر اور منہ کو لپیٹے کوفہ میں آ پہنچا۔ وہ جس مجمع سے گزرتا تھا، انہیں “السلام علیکم” کہتا تھا۔ جواب میں لوگ اسے “وعلیک السلام اے رسول اللہ کے نواسے” کہتے تھے۔ ان لوگوں کو شبہ تھا کہ تھا کہ یہ حسین بن علی ہیں۔ عبیداللہ گورنر کے محل میں آ پہنچا اور اپنے ایک آزاد کردہ غلام کو بلا کر تین ہزار درہم دیے اور کہا: “جاؤ، اس شخص کا پتہ چلاؤ جس سے اہل کوفہ بیعت کر رہے ہیں۔ اس سے یہی کہنا کہ میں حمص (شام) سے اسی بیعت کے لیے آیا ہوں اور یہ مال اسے دے دینا کہ اس سے اپنی طاقت میں اضافہ کیجیے۔” وہ شخص اسی طرح (مختلف لوگوں کے ذریعے) نرمی سے بات کر کے (باغی تحریک) کا سراغ چلانے کی کوشش کی۔ آخر کار اہل کوفہ میں سے ایک ایسے بوڑھے شخص کے پاس اسے کسی نے پہنچا دیا ، جو بیعت لیا کرتا تھا۔یہ غلام اب اس شخص سے ملا اور ساری بات کہہ دی۔ وہ بوڑھا کہنے لگا: “تمہارے ملنے سے میں خوش بھی ہوا ہوں اور مجھے تکلیف بھی ہوئی ہے۔ میں خوش اس بات سے ہوا ہوں کہ اللہ نے تمہیں ہدایت دی مگر غمگین اس لیے ہوا ہوں کہ ہماری تحریک ابھی مستحکم نہیں ہوئی ہے۔” یہ کہہ کر وہ بوڑھا اس غلام کو اندر لے گیا اور اس سے مال لے لیا اور اس سے بیعت لے لی۔ غلام نے آ کر عبیداللہ کو ساری تفصیل بیان کر دی۔
عبیداللہ جب کوفہ میں آیا تو مسلم (بن عقیل) ابھی جس گھر میں تھے، اسے چھوڑ کر ہانی بن عروہ مرادی کے گھر میں چلے آئے۔ انہوں نے حسین بن علی کو لکھ بھیجا کہ بارہ ہزار کوفیوں نے بیعت کر لی ہے، آپ ضرور تشریف لے آئیے۔ ادھر عبیداللہ نے کوفہ کے سرکردہ لوگوں سے پوچھا: “سب لوگوں کے ساتھ ہانی بن عروہ میرے پاس کیوں نہیں آئے ہیں۔” یہ سن کر محمد بن اشعث اپنی برادری کے لوگوں کے ساتھ ہانی کے پاس آئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ دروازے کے باہر ہی کھڑے ہیں۔ انہوں نے ان سے کہا: “گورنر نے ابھی آپ کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ انہوں نے آنے میں بہت دیر کر دی ہے۔ آپ کو ان کے پاس جانا چاہیے۔” یہ لوگ اسی طرح اصرار کرتے رہے، آخر ہانی سوار ہو کر ان لوگوں کے ساتھ عبید اللہ کے پاس چلے آئے۔ اس وقت قاضی شریح بھی وہیں موجود تھے۔ ہانی کو دیکھ کر عبیداللہ نے شریح سے کہا: “لیجیے! آنے والا اپنے پاؤں پر چل کر ہمارے پاس آ گیا ہے۔” ہانی نے جب سلام کیا تو عبیداللہ کہنے لگا: “یہ بتائیں کہ مسلم کہاں ہیں؟” ہانی نے کہا: “مجھے کیا معلوم؟”
عبیداللہ نے اپنے غلام کو، جو درہم لے کر گیا تھا، بلایا۔ جب وہ ہانی کے سامنے آیا تو یہ اسے دیکھ کر حیران رہ گئے۔ کہنے لگے: “گورنر کا اللہ بھلا کرے۔ واللہ! مسلم کو میں نے اپنے گھر میں نہیں بلایا، وہ خود سے آئے اور میری ذمہ داری بن گئے۔” عبیداللہ نے کہا: “انہیں میرے پاس لاؤ۔” وہ بولے: “واللہ! اگر وہ میرے پاؤں کے نیچے بھی چھپے ہوتے تو میں وہاں سے قدم نہ سرکاتا۔” عبیداللہ نے حکم دیا کہ اسے میرے قریب لاؤ۔ جب وہ لوگ ہانی کو اس کے قریب لے گئے تو اس نے ان پر ایسی ضرب لگائی کہ ان کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ ہانی نے ایک سپاہی کی تلوار کی طرف ہاتھ بڑھایا کہ اسے میان سے نکالیں لیکن لوگوں نے انہیں روک دیا۔ عبیداللہ نے کہا: “تمہارا قتل اب اللہ نے حلال کر دیا ہے۔” یہ کہہ کر قید کا حکم دیا اور محل ہی کی ایک طرف انہیں قید کر دیا گیا۔ ۔۔۔۔۔ (ا س کےبعد طبری نے بیچ میں بطور جملہ معترضہ ایک اور روایت بیان کی ہے۔ پھر دوبارہ عمار الدہنی کے بیان کی طرف واپس آئے ہیں۔)
ہانی اسی حالت میں تھے کہ یہ خبر (ان کے ) قبیلہ مذحج کو پہنچ گئی۔ ابن زیاد کے محل کےد روازے پر ایک شور سا بلند ہوا۔ وہ سن کر پوچھنے لگا کہ یہ کیا معاملہ ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ مذحج کے لوگ ہیں۔ ابن زیاد نے شریح سے کہا: “آپ ان لوگوں کے پاس جائیے اور انہیں بتائیے کہ میں کچھ بات چیت کے لیے ہانی کو صرف قید کیا ہے۔” اس نے اپنے آزاد کردہ غلاموں میں سے ایک کو جاسوسی کے لیے بھیجا کہ دیکھ کر آؤ کہ شریح کیا بات کرتے ہیں؟ شریح کا گزر ہانی کی طر ف سے ہوا تو ہانی نے کہا: “شریح! اللہ سے ڈریے۔ یہ شخص مجھے قتل کرنا چاہتا ہے۔” شریح نے محل کے دروازے پر کھڑے ہو کر کہا: “انہیں نقصان پہنچنے کا اندیشہ نہیں ہے۔ گورنر نے بس کچھ بات چیت کے لیے انہیں روک رکھا ہے۔” سب لوگ کہنے لگے: “شریح صحیح کہہ رہے ہیں۔ تمہارے سردار کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ نہیں ہے۔” یہ سن کر سبھی لوگ بکھر گئے۔
دوسری طرف مسلم (بن عقیل) کو جب یہ خبر ملی تو انہوں نے اپنے شعار (خاص کوڈ ورڈز) کا اعلان کروا دیا اور اہل کوفہ میں سے چار ہزار آدمی ان کے پاس جمع ہو گئے۔ اب مسلم نے فوج کے مقدمہ (اگلے حصے) کو آگے بڑھایا، میمنہ و میسرہ (دایاں اور بایاں بازو) کو درست کیا اور خود قلب (درمیانہ حصہ) میں آ کر عبیداللہ کا رخ کیا۔ ادھر عبیداللہ نے اہل کوفہ کے سرکردہ لوگوں کو بلا کر اپنے خاص محل میں جمع کیا۔ مسلم جب محل کے دروازے پر پہنچے تو تمام سردار محل پر چڑھ کر اپنے اپنے برادری والوں کے سامنے آئے اور انہیں سمجھا بجھا کر واپس کرنے لگے۔ اب لوگ مسلم کے پاس سے سرکنے لگے۔ شام ہونے تک پانچ سو آدمی رہ گئے۔ جب رات کا اندھیرا پھیلا تو وہ بھی ساتھ چھوڑ کر چلے گئے۔ مسلم اکیلے گلیوں میں گھومتے ہوئے ایک مکان کے دروازہ پر بیٹھ گئے۔ ایک عورت نکلی تو اس سے پانی مانگا۔ اس نے پانی لا کر پلایا اور پھر اندر چلی گئی۔ کچھ دیر کے بعد وہ پھر نکلی تو دیکھا کہ وہ بیٹھے ہوئے ہیں۔ کہنے لگی: “اللہ کے بندے! آپ کا بیٹھنا تو مجھے مشکوک لگتا ہے، آپ یہاں سے اٹھ جائیے۔” انہوں نے کہا: “میں مسلم بن عقیل ہوں۔ کیا مجھے پناہ مل سکتی ہے؟” عورت نے کہا: “اندر آ جائیے۔ جگہ ہے۔”
اس عورت کا بیٹا محمد بن اشعث کے ساتھیوں میں سے تھا۔ اسے جب علم ہوا تو اس نے ابن اشعث کو حال سنایا اور اس نے جا کر عبیداللہ کو خبر کی۔ عبیداللہ نے اپنے پولیس چیف عمرو بن حریث مخزومی کو روانہ کیا اور ابن اشعث کے بیٹے عبدالرحمن کو ساتھ کر دیا۔ مسلم کو خبر ہوئی کہ گھر کو سپاہیوں نے گھیر لیا ہے۔ انہوں نے تلوار اٹھا لی اور باہر آ کر لڑنا شروع کر دیا۔ عبدالرحمن نے کہا: “آپ کے لیے امان ہے۔” انہوں نے اس کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دیا اور وہ انہیں لے کر عبیداللہ کے پاس آیا۔ عبیداللہ کے حکم سے محل کی چھت پر انہیں لے گئے اور انہیں قتل کر کے ان کی لاش لوگوں کے سامنے پھینک دی۔ پھر اس کے حکم سے لوگ ہانی کو گھسیٹ کر لے گئے اور سولی پر لٹکا دیا۔
( طبری۔ 4/1-147 to 150 )
(اس کے بعد طبری نے ابو مخنف کی طویل روایتیں بیان کی ہیں اور پھر عمار الدہنی کی روایت کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا ہے۔)
اس بیان سے واقعے کی صورت یہ نکلتی ہے:
1۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے جب گورنر مدینہ نے یزید کی بیعت کا مطالبہ کیا تو انہوں نے مہلت طلب کی اور اس مہلت میں وہ مدینہ سے نکل کر مکہ آ پہنچے۔
2۔ جیسے ہی آپ مکہ پہنچے تو اہل کوفہ کا وفد آپ کے پاس آیا اور انہوں نے بہت سے خطوط لکھ کر آپ کو کوفہ آنے کی دعوت دی۔ کوفہ میں اس وقت انارکی کی سی صورت پیدا ہو گئی تھی اور وہ باغی تحریک، جسے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے دبا دیا تھا، دوبارہ کھڑی ہو رہی تھی۔
3۔ آپ نے اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل رحمہ اللہ کو بھیجا کہ وہ کوفہ جا کر حالات کا جائزہ لیں۔ انہوں نے وہاں جا کر بیعت لینا شروع کر دی۔ اس دوران کوفہ پر عبیداللہ بن زیاد نے اپنا اقتدار مستحکم کر لیا۔ مسلم بن عقیل نے ایک فوج تیار کی اور گورنر کے محل کا محاصرہ کر لیا لیکن چند ہی گھنٹوں میں یہ فوج تتر بتر ہو گئی اور مسلم بن عقیل کو چھوڑ گئی۔ ابن زیاد نے انہیں گرفتار کروا کے قتل کر دیا۔
اس روایت کی تفصیلات کو درست مان لیا جائے اور یہ فرض کر لیا جائے کہ کسی راوی نے حضرت محمد باقر رحمہ اللہ کے بیان میں اپنی جانب سے کچھ نہیں ملایا ہو گا تو معلوم ہوتا ہے کہ اقدامات کی ابتدا باغی تحریک کی جانب سے ہوئی تھی جنہوں نے گورنر کے محل پر حملہ کا اقدام کیا۔ حضرت مسلم بن عقیل رحمہ اللہ ان باغیوں کی باتوں میں آ گئے اور انہوں نے قبل از وقت اقدام کر ڈالا۔ باغی تو چاہتے ہی یہ تھے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خاندان سے کوئی “شہید” انہیں ملے جس کے نام کو لے کر وہ اپنی تحریک میں زور پیدا کریں۔ اس وجہ سے وہ عین موقع پر حضرت مسلم کا ساتھ چھوڑ گئے۔
دوسری طرف ابن زیاد نے ضرورت سے زیادہ سخت ری ایکشن ظاہر کیا اور انہیں قتل کروا دیا۔ پھر اس نے ہانی بن عروہ کو بھی نہایت اذیت ناک طریقے سے سولی دی۔ اس کا یہ عمل ایک طرف ظلم تھا اور دوسری طرف اس کے جذباتی پن کو ظاہر کرتا ہے۔ اگر وہ اس موقع پر اپنے والد زیاد بن ابی سفیان رحمہ اللہ کی حکمت و دانش سے کام لیتا اور معاملات کو نرمی سے سلجھاتا تو بعد کے سانحات پیش نہ آتے۔
مسلم بن عقیل رحمہ اللہ نے اس موقع پر ابن اشعث، جو کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے برادر نسبتی تھے، کے ہاتھ ایک پیغام حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے نام بھیجا جو طبری نے ابو مخنف کے حوالے سے نقل کیا ہے:
اے اللہ کے بندے! میں سمجھتا ہوں کہ تم مجھے امان تو نہیں دلا سکو گے۔ اتنا سلوک کیا میرے ساتھ کرو گے کہ اپنے کسی آدمی کو میری طرف سے حسین کے پاس بھیج دو۔ وہ آج کل ہی میں تم لوگوں کے پاس آنے کو روانہ ہو چکے ہوں گے اور ان کے اہل بیت بھی ان کے ساتھ ہوں گے۔ تم جو میری بے تابی دیکھ رہے ہو، محض اسی سبب سے ہے۔ میری طرف سے یہ پیغام ان تک پہنچا دینا کہ: مسلم نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے۔ وہ گرفتار ہو چکے ہیں۔ یہ نہیں چاہتے کہ آپ یہاں آئیں اور قتل کیے جائیں۔ آپ اہل بیت کو لے کر پلٹ جائیے، کوفیوں کے دھوکے میں نہ آئیے۔ یہ وہی لوگ ہیں، جن سے چھٹکارا پانے کے لیے آپ کے والد فوت ہو جانے اور قتل ہو جانے کی تمنا رکھتے تھے۔ اہل کوفہ نے آپ سے بھی جھوٹ بولے اور مجھ سے بھی جھوٹ بولے۔ میری رائے کو جھٹلائیے گا نہیں۔
( ایضاً ۔ 4/1-168)
ابو مخنف کی اس گھر کی گواہی سے معلوم ہوتا ہے کہ کوفہ کی باغی تحریک کے مقاصد کیا تھے۔
حضرت حسین عراق روانہ کیونکر ہوئے؟
حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے جب مکہ میں قیام کیا تو یہاں کے گورنر عمرو بن سعید تھے جو حضرت سعید بن عاص رحمہ اللہ کے بیٹے تھے۔ انہوں نے حضرت حسین سے کوئی بدسلوکی نہ کی بلکہ نرمی کا برتاؤ کیے رکھا۔ اس دوران اہل کوفہ کی باغی تحریک نے آپ کی جانب خطوط کی بھرمار کر دی اور اپنے وفود ان کی جانب بھیجے اور کہا کہ ہم لوگوں نے گورنر حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کے پیچھے نماز پڑھنا چھوڑ دی ہے اور آپ بس جلد از جلد یہاں تشریف لے آئیے۔ حضرت حسین کا جو خط ابو مخنف نے نقل کیا ہے، اس میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جس سے یہ اندازہ ہوتا ہو کہ آپ کوفہ بغاوت کے لیے تشریف لے جا رہے تھے۔ خط کے الفاظ یہ ہیں:
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ حسین بن علی کی طرف سے اہل ایمان اور مسلمانوں کی جماعت کے نام۔ ہانی اور سعید آپ لوگوں کے خطوط لے کر میرے پاس آئے۔ آپ کے قاصدوں میں سے یہ دونوں افراد سب سے آخر میں آئے ۔ جو کچھ آپ لوگوں نے لکھا ہے کہ کہا ہے کہ “ہماری راہنمائی کرنے والا کوئی نہیں ہے، آپ آئیے۔ شاید اللہ آپ کے سبب ہمیں حق و ہدایت پر اکٹھا کر دے۔” میں نے اپنے چچا زاد بھائی، جن پر مجھے اعتماد ہے اور وہ میرے اہل خانہ میں سے ہیں، کو آپ کے پاس روانہ کیا ہے۔ میں نے ان سے کہہ دیا ہے کہ آپ لوگوں کا حال اور سب کی رائے وہ مجھے لکھ بھیجیں۔ اگر ان کی تحریر سے بھی یہی بات ثابت ہو گئی کہ آپ کی جماعت کے لوگ اور صاحبان عقل و فضل آپ میں سے اس بات پر متفق الرائے ہیں، جس امر کے لیے آپ کے قاصد میرے پاس آئے ہیں، اور جو مضامین آپ کے خطوط میں میں نے پڑھے ہیں تو میں انشاء اللہ بہت جلد آپ کے پاس چلا آؤں گا۔ اپنی جان کی قسم، قوم کا لیڈر تو وہی ہو سکتا ہے جو قرآن پر عمل کرے، عدل کو قائم کرے، حق کا طرف دار ہو اور اللہ کی ذات پر توکل رکھے۔والسلام۔
(طبری۔ 4/1-151)
اس خط سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا کوئی ارادہ بغاوت کا نہ تھا بلکہ آپ صرف اصلاح احوال چاہتے تھے۔ آپ سے متعلق یہ بدگمانی کرنا کہ آپ کوفہ جا کر مسلمانوں میں انتشار پیدا کرنا چاہتے تھے، بالکل غلط ہے۔
حضرت حسین کی روانگی کے بارے میں مخلصین کا موقف کیا تھا؟
اس کے بعد حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے عراق روانگی کا ارادہ کیا تو آپ کے مخلص دوستوں اور رشتے داروں نے آپ کو نہایت ہی اچھے اور مخلصانہ مشورے دیے۔ یہ مشورے ابو مخنف کے حوالے سے طبری نے بھی درج کیے ہیں اور بلاذری نے دیگر راویوں کے حوالے سے انہیں درج کیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما جو رشتے میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے چچا تھے، مگر عمر میں ان سے کچھ ہی بڑے تھے کے بارے میں طبری نے بیان کیا ہے:
عبداللہ بن عباس نے حسین کی روانگی کا سنا تو ان کے پاس آئے اور کہنے لگے: “بھائی! لوگوں میں یہ بات مشہور ہو گئی ہے کہ آپ عراق کی طرف روانہ ہونے لگے ہیں۔ مجھے تو بتا دیجیے کہ آپ کا ارادہ کیا ہے؟” انہوں نے کہا: “انشاء اللہ انہی دو دن میں روانگی کا ارادہ ہے۔” انہوں نے کہا: “میں آپ کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں، ایسا نہ کیجیے۔ اللہ آپ پر رحمت فرمائے، مجھے یہ تو بتائیے کہ کیا آپ ان لوگوں میں جا رہے ہیں جنہوں نے اپنے حاکم کو قتل کر کے اپنے شہروں کی ایڈمنسٹریشن سنبھال لی ہے اور اپنے دشمن کو نکال باہر کیا ہے؟ اگر وہ ایسا کر چکے ہیں تو پھر چلے جائیے ۔ اگر ان پر حاکم مسلط ہیں اور اسی کے عہدہ دار شہروں سے خراج وصول کر رہے ہیں اور پھر بھی یہ آپ کو بلا رہے ہیں تو یہ محض آپ کو جنگ چھیڑنے کے لیے بلا رہے ہیں۔ مجھے خوف ہے کہ یہ لوگ آپ کو دھوکہ دیں گے، آپ کو جھٹلائیں گے، آپ کی مخالفت کریں گے، آپ کا ساتھ چھوڑ دیں گے اور اگر آپ سے پیچھے ہٹ گئے تو پھر یہی لوگ آپ کے خلاف انتہائی سخت حملہ کر دیں گے۔” حسین نے جواب دیا: “میں اللہ سے خیر کا طالب ہوں اور دیکھتا ہوں کہ کیا ہوتا ہے؟”
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جب بصرہ کے گورنر تھے تو باغی تحریک کے سرکردہ لوگوں کو نہایت قریب سے دیکھ چکے تھے۔ انہیں اندازہ تھا کہ یہ باغی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو محض اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں، اس وجہ سے انہوں نے نہایت ہی شد و مد سے آپ کو عراق جانے سے روکا۔ اس کے برعکس حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا خیال تھا کہ آپ وہاں جا کر حالات کی اصلاح کر سکتے ہیں۔ اسی دن شام یا اگلے دن صبح ابن عباس پھر آئے اور کہنے لگے:
“بھائی! میں برداشت کرنا چاہتا ہوں مگر مجھے صبر نہیں آتا۔ مجھے اس راستے میں آپ کی ہلاکت اور تباہی کا اندیشہ ہے۔ اہل عراق (کی باغی تحریک) دراصل دغا باز لوگ ہیں۔ ان کے پاس ہرگز نہ جائیے۔ اسی شہر میں ٹھہرے رہیے کہ آپ اہل حجاز کے سردار ہیں۔ اگر اہل عراق آپ کو بلاتے ہیں تو انہیں لکھیے کہ اپنے دشمن سے پہلے اپنا پیچھا چھڑائیں۔ اس کے بعد آپ ان کے پاس چلے آئیں گے۔ اگر آپ کو یہ بات منظور نہیں ہے تو یمن کی طرف چلے جائیے۔ وہاں قلعے ہیں، پہاڑ ہیں اور ایک وسیع ملک ہے۔ آپ کے والد کے ساتھی وہاں موجود ہیں۔ آپ سب سے الگ تھلگ رہ کر ان سے خط و کتاب کیجیے اور قاصد بھیجیے۔ اس طریقہ سے مجھے امید ہے کہ جو بات آپ چاہتے ہیں، امن و عافیت کے ساتھ آپ کو حاصل ہو جائے گی۔ ” حضرت حسین نے جواب دیا: “بھائی! واللہ میں جانتا ہوں کہ آپ خیر خواہ اور شفیق ہیں۔ لیکن میں تو اب روانگی کا مصمم ارادہ کر چکا ہوں۔”
ابن عباس بولے: “اگر جانا ہی ٹھہرا تو خواتین اور بچوں کو ساتھ نہ لے جائیے۔ واللہ! مجھے ڈر ہے کہ کہیں حضرت عثمان کی طرح آپ بھی اپنی خواتین اور بچوں کے سامنے قتل نہ کر دیے جائیں۔” ( ایضاً ۔ 4/1-176)۔
ابو مخنف کو چونکہ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے خاص بغض ہے، اس وجہ سے اس نے ان کی ایسی تصویر پیش کی ہے کہ وہ چاہتے تھے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ جلد از جلد مکہ سے چلے جائیں۔ لیکن ان کی اپنی ایک روایت میں اس کے خلاف بات نظر آتی ہے جو اس نے عبداللہ بن سلیم اور مذری بن مشمعل سے روایت کی ہے۔ وہ کہتے ہیں:
ہم لوگ کوفہ سے حج کے لیے نکلے اور مکہ پہنچے۔ آٹھ ذی الحجہ کو ہم حرم شریف میں داخل ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ حضرت حسین اور عبداللہ بن زبیر دن چڑھنے کے وقت حجر اسود اور خانہ کعبہ کے دروازے کے پاس کھڑے ہیں۔ ہم ان کے قریب ہو گئے۔ ہم نے ابن زبیر کو حسین سے کہتے سنا: “اگر آپ چاہیں تو یہاں مقیم رہیں اور اس معاملے کی قیادت سنبھال لیجیے۔ ہم آپ کے مددگار اور خیر خواہ ہوں گے اور آپ کی بیعت کر لیں گے۔ ” حسین نے جواب دیا: “میں نے اپنے والد سے یہ بات سنی ہے کہ ایک دنبہ مکہ کی حرمت کو حلال کر دے گا۔ میں وہ دنبہ نہیں بننا چاہتا ہوں۔” اس پر ابن زبیر نے کہا: “اچھا آپ یہاں رہیے اور حکومت میرے حوالے کر دیجیے۔ میں آپ کی ہر بات مانوں گا اور کوئی بات آپ کی مرضی کے خلاف نہ ہو گی۔ ” حسین نے کہا: “مجھے یہ بھی منظور نہیں۔” پھر یہ دونوں حضرات چپکے چپکے باتیں کرتے رہے کہ ظہر کا وقت ہو گیا اور لوگ منی کی طر ف چلے۔ حسین نے کعبہ کا طواف کیا ، صفا و مروہ کی سعی کی، بال کتروائے اور عمرہ کا احرام کھول دیا۔ پھر آپ کوفہ کی جانب روانہ ہوئے۔ ( ایضاً ۔ 4/1-177)۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابن زبیر، حضرت حسین رضی اللہ عنہم سے کتنے مخلص تھے۔ حضرت حسین ابھی مقام تنعیم تک پہنچے تھے کہ ان کی ملاقات فرزدق شاعر سے ہوئی جو کہ عراق سے آ رہے تھے۔ انہوں نے بھی آپ کو جانے سے روکا اور کہا: “لوگوں کے دل آپ کے ساتھ اور تلواریں بنو امیہ کے ساتھ ہیں۔” اس کے بعد حضرت حسین کے کزن عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہم نے انہیں ایک خط لکھا اور اسے اپنے بیٹوں عون اور محمد کے ہاتھ بھیجا۔ اس خط میں لکھا تھا:
“میں آپ کو اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ میرا خط دیکھتے ہی واپس چلے آئیے۔ مجھے ڈر ہے کہ آپ جہاں جا رہے ہیں، وہاں آپ ہلاک نہ ہو جائیں اور اہل بیت کو تباہ نہ کر دیا جائے۔ اگر آپ کو قتل کر دیا گیا تو دنیا میں اندھیرا ہو جائے گا۔ اہل ہدایت کے راہنما اور اہل ایمان کا سہارا آپ ہی کی ذات ہے۔ روانگی میں جلدی نہ کیجیے، اس خط کے پیچھے میں بھی آ رہا ہوں۔ والسلام۔”
عبداللہ بن جعفر، (گورنر مکہ) عمرو بن سعید کے پاس گئے اور ان سے کہا: “حسین کے لیے ایک خط لکھیے، اس میں انہیں امان دینے اور ان کے ساتھ اچھا سلوک اور احسان کرنے کا وعدہ ہو۔ انہیں لکھیے کہ وہ واپس چلے آئیں۔ شاید انہیں آپ کے خط سے اطمینان ہو جائے اور وہ راستے سے واپس آ جائیں۔” عمرو بن سعید نے کہا: “جو آپ کا جی چاہیے، لکھ کر میرے پاس لے آئیے، میں اس پر مہر لگا دوں گا۔” عبداللہ بن جعفر خط لکھ کر عمرو کے پاس لے آئے اور کہا: “اس پر مہر لگا کر اپنے بھائی یحیی بن سعید کے ہاتھ روانہ کیجیے۔ یحیی کے جانے سے انہیں اطمینان ہو جائے اور وہ سمجھ لیں گے کہ جو آپ نے لکھا ہے، دل سے لکھا ہے۔” عمرو نے ایسا ہی کیا۔ یہ خط لے کر یحیی اور ابن جعفر دونوں حضرت حسین کے پاس پہنچے ۔ یحیی نے انہیں خط دیا اور دونوں نے واپسی پر بھرپور اصرار کیا۔
( ایضاً ۔ 4/1-179)
خود ابو مخنف کی روایات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ پہلے گورنر مدینہ اور پھر گورنر مکہ، جو دونوں بنو امیہ سے تعلق رکھتے تھے، نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے کوئی بدسلوکی نہ کی تھی اور یہ لوگ آپ کا بہت احترام کرتے تھے۔ عمرو بن سعید سے جیسے حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما نے خط لکھوا لیا، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ لوگ حضرت حسین کی کتنی قدر کرتے تھے۔ مروان بن حکم، جن کے بارے میں یہ مشہور کر دیا گیا ہے کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بغض رکھتے تھے اور ان کے خلاف سب و شتم کرتے تھے، نے گورنر عراق ابن زیاد کو ایک خط لکھا جس کا مضمون یہ تھا:
مروان نے ابن زیاد کو یہ خط بھیجا۔ اما بعد: آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ حسین بن علی آپ کی طرف آ رہے ہیں۔ وہ سیدہ فاطمہ کے بیٹے ہیں جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی ہیں۔ خدا کی قسم! حسین سے زیادہ کوئی شخص بھی ہمیں محبوب نہیں ہے۔ خبردار! غیض و غضب میں آ کر کوئی ایسا فعل نہ کر بیٹھنا کہ اس کا مداوا نہ ہو سکے اور عام لوگ اسے رہتی دنیا تک بھلا نہ سکیں۔ والسلام۔
( ابن کثیر۔ 11/507)
عمرو بن سعید بن عاص اور مروان بن حکم کے ان خطوط سے معلوم ہوتا ہے کہ بنو امیہ اور آل علی میں دشمنی کی داستانیں، محض داستانیں ہی ہیں اور بنو امیہ کو بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اولاد سے ویسی ہی محبت تھی جیسی ہمیں ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے ان مخلص رشتے داروں کی بات کیوں نہ مانی اور اہل کوفہ کے باغیوں پر اعتبار کر کے وہاں کیوں چلے گئے؟ اوپر بیان کردہ خط کو پڑھنے سے اس کی جو وجہ سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ آپ کا کوئی ارادہ بغاوت برپا کرنے کا نہ تھا بلکہ آپ ان باغیوں کو کنٹرول کر کے حکومت وقت کے معاملات کی اصلاح کرنا چاہتے تھے۔ حکومت کے رویے سے بھی ظاہر یہی تھا کہ یہ لوگ حضرت حسین کا احترام کر رہے تھے۔ اس سے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو بھی یہی امید ہو گی کہ آپ کے خلاف کوئی سخت اقدام نہ کیا جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسا ہی ہوتا مگر باغیوں نے یہ نوبت آنے سے پہلے ہی کوفہ میں اقدام بغاوت کر دیا اور پھر مسلم بن عقیل کو چھوڑ کر خود غائب ہو گئے۔ گورنر کوفہ ابن زیاد نے بھی اپنی عجلت پسندی میں نہایت ہی ظالمانہ انداز میں انہیں شہید کر دیا جس سے حالات بگڑتے چلے گئے۔
سانحہ کربلا میں کیا واقعات پیش آئے؟
اس کے بعد حضرت حسین رضی اللہ عنہ کوفہ کی جانب چلے۔ اس کے بعد کے واقعات طبری نے عمار الدہنی کے حوالے سے کچھ یوں نقل کیے ہیں:
حسین بن علی کو مسلم بن عقیل کا خط پہنچا تو آپ وہاں سے روانہ ہو کر ابھی اس مقام تک پہنچے تھے جہاں سے قادسیہ تین میل کے فاصلے پر تھا (یعنی ابھی کوفہ سے اسی نوے کلومیٹر دور تھے) کہ حر بن یزید تمیمی سے ملاقات ہوئی۔ حر نے پوچھا: “آپ کہاں جا رہے ہیں؟ فرمایا: ” اسی شہر (کوفہ ) جانے کا ارادہ ہے۔” حر نے عرض کیا: “واپس چلے جائیے۔ وہاں آپ کے لیے خیر کی کوئی امید نہیں ہے۔” یہ سن کر حسین نے واپس جانے کا ارادہ کیا۔ مسلم کے سبھی بھائی آپ کے ساتھ تھے، انہوں نے کہا: “واللہ! جب تک ہم مسلم کا انتقام نہ لے لیں گے یا سب کے سب قتل نہ ہو جائیں گے، واپس نہیں جائیں گے۔” آپ نے کہا: “پھر تمہارے بغیر زندگی کا کیا مزا؟” یہ کہا اور آگے بڑھے۔ جب ابن زیاد کے لشکر کے ہراول دستے کے کچھ سوا ر آپ کو نظر آئے تو آپ کربلا کی طرف مڑے۔ ایک آبادی جو نشیب میں واقع تھی، اسے آپ نے اپنے لشکر کی پشت پر رکھا تاکہ اگر جنگ ہو تو ایک ہی جانب سے ہو۔ آپ وہیں اترے اور اپنے خیمے نصب کر دیے۔ آپ کے ساتھیوں میں پینتالیس سوار اور سو پیادے تھے۔
عمر بن سعد بن ابی وقاص کو عبیداللہ بن زیاد نے رے (موجودہ تہران) کی گورنری دی اور یہ فرمان بھی لکھ دیا اور کہا: “میری جانب سے آپ ان صاحب (حسین) سے جا کر نمٹ لیجیے۔” ابن سعد نے کہا: “مجھے اس کام سے معاف رکھیے۔” ابن زیاد کسی طرح نہ مانا، تو اس نے کہا: “آج رات کی مہلت دیجیے۔” اس نے مہلت دی تو یہ اپنے معاملے میں سوچتے رہے۔ صبح ہوئی تو ابن زیاد کے پاس آئے اور اس کا حکم ماننے پر راضی ہو گئے اور حسین بن علی کی طرف روانہ ہوئے۔ جب یہ ان کے پاس پہنچے تو حسین نے فرمایا: “تین آپشنز میں سے ایک اختیار کر لیجیے۔ (1) یا تو مجھے چھوڑ دیجیے کہ میں جہاں سے آیا ہوں، وہیں چلا جاؤں۔ (2) یا مجھے یزید کے پاس جانے دیجیے۔ (3) یا کسی سرحد کی طرف چلا جانے دیجیے۔” عمر بن سعد نے اس بات کو قبول کر لیا۔
(عمر نے ابن زیاد کو یہ بات لکھ بھیجی تو ) اس نے جواباً لکھا: “وہ جب تک اپنا ہاتھ، ہمارے ہاتھ میں نہ پکڑا دیں، ایسا نہیں ہو سکتا ہے۔” حسین نے فرمایا: “یہ تو کبھی نہیں ہو سکتا۔” اس بات پر لڑائی چھڑ گئی اور حسین کے تمام ساتھی قتل ہو گئے۔ ان میں سترہ اٹھارہ نوجوان ان کے گھر والوں میں سے تھے۔ ایک تیر آ کر ایک بچے کو لگا جو ان کی گود میں تھے۔ حسین ان کا خون پونچھتے جاتے اور کہتے جاتے تھے: “اے اللہ! ہمارا اور ان لوگوں کا تو انصاف فرما۔ انہوں نے ہمیں اس لیے بلایا کہ ہماری مدد کریں گے اور اب ہم لوگوں کو قتل کر رہے ہیں۔” اس کے بعد آپ نے ایک چادر منگوائی ، اسے پھاڑا اور گلے میں پہن لیا۔ پھر تلوار لے کر نکلے، لڑے اور شہید ہو گئے۔ رضی اللہ عنہ ۔ آپ کو بنی مذحج کے ایک شخص نے قتل کیا اور آپ کا سر کاٹ کر ابن زیاد کے پاس لے گیا اور کہا: “میرے اونٹوں کو مال و زر سے بھر دیجیے۔ میں نے جلیل القدر بادشاہ کو قتل کیا ہے، میں نے اسے قتل کیا ہے جس کے ماں باپ بہترین مخلوق تھے اور جو نسب کے اعتبار سے خود بھی بہترین خلق ہے۔”
ابن زیاد نے اس شخص کو حسین کے سر کے ساتھ یزید کے پاس بھیج دیا۔ اس نے حسین کا سر مبارک یزید کے سامنے رکھ دیا۔ اس وقت اس کے پاس ابو برزہ اسلمی بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ چھڑی سے آپ کے لبوں کو کھٹکھٹا رہا تھا اور یہ شعر پڑھ رہا تھا: “ہم نے اپنے پیاروں کو خود قتل کر دیا، انہوں نے بھی ہمارے خلاف سرکشی اور نافرمانی کی تھی۔” ابو برزہ کہنے لگے: “اپنی چھڑی کو ہٹاؤ۔ واللہ! میں نے بار بار دیکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا دہن یہاں رکھ کر بوسہ لیتے تھے۔”
ابن سعد نے حسین کے اہل و عیال کو ابن زیاد کے پاس روانہ کر دیا۔ آپ کے اہل بیت میں خواتین کے ساتھ ایک بیمار لڑکے کے سوا کوئی باقی نہ رہا تھا۔ ابن زیاد نے حکم دیا کہ اسے بھی قتل کر دو۔ زینب یہ سن کر بیمار سے لپٹ گئیں او رکہنے لگیں: “جب تک مجھے بھی قتل نہیں کرو گے، تو اس وقت تک اسے بھی قتل نہ کر سکو گے۔” ابن زیاد کو ترس آ گیا اور وہ اس ارادے سے باز رہا۔ اس نے ان سب کا سامان تیار کروایا اور انہیں سوار کروا کے یزید کے پاس بھیج دیا۔ یہ لوگ جب یزید کے پاس پہنچے تو اس نے اہل شام میں اپنے درباریوں کو جمع کیا۔ اس کے بعد اہل بیت کو دربار میں لایا گیا۔ اہل دربار نے اسے مبارک دی۔ انہی لوگوں میں سے ایک نیلی آنکھوں اور سرخ رنگت والے نے اہل بیت میں سے ایک لڑکی کو دیکھ کر کہا: “امیر المومنین! یہ مجھے دے دیجیے۔” سیدہ زینب نے کہا: “واللہ! نہ یزید کو یہ اختیار حاصل ہے اور نہ تمہیں اور تم اس وقت تک یہ نہیں کر سکتے جب تک کہ جب تک تم دین اسلام سے خارج نہ ہو جاؤ۔ ” یزید نے اس شخص کو روک دیا۔ پھر اس نے ان اہل بیت کو اپنے گھر والوں میں بھیج دیا۔ اس کے بعد ان کی روانگی کا سامان تیار کر کے ان سب کو مدینہ کی طرف روانہ کر دیا۔
جب یہ لوگ مدینہ پہنچے تو بنو عبدالمطلب کی ایک خاتون بکھرے بالوں کے ساتھ سر پر چادر رکھے ان کے استقبال کو نکلیں۔ وہ رو رو کر کہہ رہی تھیں: “لوگو! تم کیا جواب دو گے جب پیغمبر تم سے پوچھیں گے کہ تم نے آخری امت ہو کر میرے بعد میری اولاد اور اہل بیت سے کیا سلوک کیا؟ کچھ لوگ ان میں سے قیدی ہوئے اور کچھ قتل کر کے خاک و خون میں لتھڑا دیے گئے۔ میں نے تمہیں جو ہدایت دی، اس کا بدلہ یہ نہ تھا کہ میرے خاندان کے ساتھ میرے بعد برائی کرو۔”
( طبری۔ 4/1-180-182 )
سانحہ کربلا کا یہ واقعہ جو عمار الدہنی نے حضرت محمد باقر رحمہ اللہ کی طرف منسوب کر کے بیان کیا ہے، ان تفصیلات سے خالی ہے جو ابو مخنف نے روایت کی ہیں۔ ابو مخنف کی روایتیں تاریخ طبری کے مکتبہ مشکاۃ ورژن میں میں 90 صفحات میں پھیلی ہوئی ہیں اور انہوں نے خوب نمک مرچ لگا کر واقعے کو بیان کیا ہے اور اس میں حسب عادت مختلف صحابہ پر چوٹیں بھی کی ہیں جن میں خاص کر حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نمایاں ہیں۔ ابو مخنف کی روایات میں بالکل اسی قسم کی جذباتیت پائی جاتی ہے جیسی ہم اپنے زمانے کے واعظوں اور ذاکروں کے بیانات میں دیکھتے ہیں۔ وہ صورتحال کا ایسا نقشہ کھینچتے ہیں کہ گویا اس دور میں خیر بالکل رخصت ہو گئی تھی اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے سوا تمام صحابہ و تابعین معاذ اللہ دین کی حمیت و غیرت سے خالی ہو گئے تھے اور انہوں نے غاصب اور ظالم حکمرانوں کو قبول کر لیا تھا۔
ابو مخنف کے مقابلے میں عمار الدہنی کی روایت ان تمام چیزوں سے پاک ہے۔ حضرت محمد باقر بن زین العابدین رحمہما اللہ ایک نہایت ہی قابل اعتماد راوی ہیں۔ آپ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے پوتے ہیں اور آپ کے والد ماجد حضرت زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ سانحہ کربلا کے چشم دید گواہ ہیں۔ عمار الدہنی نے آپ سے سن کر یہ واقعہ بیان کیا ہے۔ اگر ہم یہ فرض کر لیں کہ کسی راوی نے اس واقعے میں اپنی جانب سے کچھ ملاوٹ نہیں کی ہے تو اس بیان سے ہم یہ نتائج اخذ کر سکتے ہیں۔
1۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ کو چھوڑ کر کوفہ کی جانب چلے۔ جب آپ اس کے قریب پہنچے تو آپ کی ملاقات حر بن یزید سے ہوئی اور حر نے آپ کو کوفہ جانے سے منع کیا۔ اس موقع پر حضرت حسین نے اپنے موقف سے رجوع کر لیا اور واپسی کا ارادہ کیا لیکن مسلم بن عقیل کے بیٹوں نے آگے بڑھنے پر اصرار کیا جس پر حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے انہیں چھوڑنا مناسب نہ سمجھا۔ ابو مخنف کی روایت میں ہے:
عبداللہ اور مذری نامی دو شخص، جن کا تعلق بنو اسد سے تھا، حج کو گئے تھے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حج سے فارغ ہوئے تو ہمیں اس کے سوا اور کوئی فکر نہ تھی کہ راستہ ہی میں حسین تک پہنچ جائیں اور دیکھیں کہ ان کے ساتھ معاملہ پیش آیا ہے۔ ہم اپنی اونٹنیوں کو دوڑاتے ہوئے چلے (اور بالآخر حضرت حسین رضی اللہ عنہ تک پہنچ گئے۔۔۔۔ ) ہم نے کہا: “ہمیں سچی خبر مل گئی ہے اور ہمارے بنو اسد ہی کے ایک ایسے شخص نے دی ہے جو صائب الرائے ہے اور فضل اور عقل رکھتا ہے۔ اس نے ہمیں بتایا ہے کہ وہ ابھی کوفہ ہی میں تھا کہ مسلم بن عقیل اور ہانی قتل ہو چکے ہیں۔ اس نے دیکھا کہ ان دونوں کے پاؤں پکڑ کر بازار میں گھسیٹتے ہوئی لایا گیا ہے۔ ” یہ سن کر آپ نے کہا: “انا للہ و انا الیہ راجعون۔ ان دونو ں پر اللہ کی رحمت ہو۔” آپ بار بار یہی کہتے رہے۔
ہم نے عرض کیا: “ہم آپ کو اللہ کی قسم دیتے ہیں کہ اپنی جان اور اپنے اہل بیت کا خیال کیجیے اور اسی جگہ سے واپس چلے جائیے۔ کوفہ میں نہ کوئی آپ کا یار و مددگار ہے اور نہ آپ کے حمایتی ہیں بلکہ ہمیں تو خوف اس بات کا ہے کہ وہ لوگ آپ کی مخالفت کریں گے۔ ” یہ سن کر عقیل بن ابی طالب کے فرزند (مسلم کے بھائی) اٹھ کھڑے ہوئے اور بولے: “واللہ! جب تک ہم بدلہ نہ لیں گے ، اس جگہ سے نہ ہلیں گے یا پھر ہمارا حال بھی وہی ہو جو ہمارے بھائی کا ہوا ہے۔ ” یہ سن کر آپ نے دونوں افراد کی طرف دیکھا اور فرمایا: “ان لوگوں کے بعد زندگی کا کوئی مزہ نہیں۔” ہم سمجھ گئے کہ آپ نے کوفہ کی طرف جانے کا ارادہ کر لیا ہے۔ ہم نے کہا: “اللہ آپ کے لیے بہتری کرے۔ ” آپ نے جواب دیا: “اللہ آپ دونوں پر بھی رحمت فرمائے۔” آپ کے بعض ساتھیوں نے کہا: “کہاں مسلم بن عقیل اور کہاں آپ۔ کوفہ میں آپ جائیں گے تو سب آپ کی طرف دوڑیں گے۔”
( ایضاً ۔ 4/1-187)
2۔ ابن زیاد نے عمر بن سعد کو حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے مذاکرات کے لیے بھیجا جو کہ حضرت حسین کے قریبی رشتہ دار تھے اور طبری کی روایت کے مطابق مسلم بن عقیل نے انہی کو یہ وصیت کی تھی کہ وہ حضرت حسین تک ان کا پیغام پہنچا دیں کہ اہل کوفہ نے دھوکہ دیا ہے۔ آپ نے عمر سے فرمایا: “تن آپشنز مںح سے ایک اختالر کر لےرف ۔ (1) یا تو مجھے چھوڑ دیےگی کہ مں جہاں سے آیا ہوں، وہں چلا جاؤں۔ (2) یا مجھے یزید کے پاس جانے دیےتا۔ (3) یا کسی سرحد کی طرف چلا جانے دیےاو۔” عمر نے اس بات کو قبول کر لیا مگر ابن زیاد نہ مانا۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی اسی بات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا بغاوت کا کوئی ارادہ نہ تھا اور اگر کہیں ذہن میں یہ خیال آیا بھی تھا تو اس وقت دور ہو گیا تھا۔ اگر ابن زیاد انہیں یزید کے پا س جانے دیتا تو آپ اپنے تحفظات یزید کے سامنے پیش کر دیتے۔
3۔ ابن زیاد نے اصرار کیا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ پہلے اس کے پاس آ کر اس کے ہاتھ پر یزید کی بیعت کریں۔ حضرت حسین نے اس کے پاس جانا مناسب نہ سمجھا کیونکہ وہ پہلے مسلم بن عقیل کو قتل کر چکا تھا۔ بات بڑھ گئی اور جنگ شروع ہو گئی۔ اس میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ شہید ہو گئے۔ آپ کی شہاد ت کے بعد آپ کے اہل و عیال کو ابن زیاد کے پاس لایا گیا جس نے آپ کے سرمبارک سے گستاخی کی۔ پھر ان سب کو یزید کے پاس بھیج دیا گیا۔ یزید کے دربار میں موجود ایک شخص نے اہل بیت کی ایک خاتون پر بری نظر ڈالی تو یزید نے اسے منع کر دیا۔ اس کے بعد اس نے ان سب کو اعزاز و اکرام کے ساتھ مدینہ بھیج دیا۔
حضرت حسین کا منصوبہ کیا تھا؟
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ اگر کوفہ کی طرف جا رہے تھے تو آپ کا پلان کیا تھا؟ بالفرض اگر اہل کوفہ آپ کے ساتھ عہد شکنی نہ کرتے تو کیا واقعات پیش آتے؟ تاریخ کی کتب میں ہمیں آپ کے اپنے الفاظ میں آپ کے ارادے کی تفصیلات نہیں ملتی ہیں۔ یہ بعض تجزیہ نگاروں کی محض قیاس آرائی ہی ہے کہ آپ کوفہ کی حکومت سنبھال کر اہل شام کے ساتھ جنگ کرتے۔ طبری میں ہشام کلبی کی ایک روایت میں بیان کیا گیا ہے کہ جب حر بن یزید کی سرکردگی میں سرکاری فوج نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو کوفہ جانے سے روکا تو آپ نے اس موقع پر آپ نے اہل کوفہ پر مشتمل اس سرکاری فوج سے ایک خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
قال هشام: حدثني لقيط، عن علي بن الطعان المحاربي: ۔۔ آپ نے حجاج بن مسروق جعفی کو حکم دیا کہ وہ اذان کہیں۔ انہوں نے اذان دی اور اقامت کی باری آئی تو آپ (حضرت حسین) تہبند، چادر اور جوتے پہنے نکلے۔ اللہ تعالی کی حمد و ثنا کی اور فرمایا: “اے لوگو! میں اللہ عزوجل سے اور آپ سب لوگوں کے سامنے (اپنے آنے کا) سبب بیان کرتا ہوں۔ اس وقت تک میں آپ لوگوں کے پاس نہیں آیا، جب تک آپ لوگوں کے خطوط اور آپ کے قاصد یہ پیغام لے کر میرے پاس نہیں آئے کہ آپ آئیے، ہمارا کوئی حکمران نہیں ہے، شاید آپ کے سبب اللہ تعالی ہم سب لوگوں کو ہدایت پر متفق فرما دے۔ اب اگر آپ اسی بات پر قائم ہیں تو میں آپ کے پاس آ چکا ہوں۔ اگر آپ لوگ مجھ سے ایسا معاہدہ کر لیں جس سے مجھے اطمینان ہو جائے تو میں آپ کے شہر جانے کو تیار ہوں۔ اگر آپ لوگ ایسا نہیں کرتے اور میرا آنا آپ کو ناگوار گزرا ہے تو جہاں سے میں آیا ہوں، وہیں واپس چلا جاتا ہوں۔ ” یہ سن کر سب خاموش رہے۔ آپ نے موذن سے کہا: “اقامت کہیے۔” انہوں نے اقامت کہی تو حسین نے حر سے پوچھا: “آپ لوگ کیا الگ نماز پڑھیں گے؟” انہوں نے کہا: “جی نہیں۔ ہم سب آپ کے ساتھ نماز پڑھیں گے۔” آپ نے سب کو نماز پڑھائی اور اپنے خیمہ میں چلے گئے۔ ۔۔۔
(پھر عصر کے بعد آپ نے ایک خطبہ دیا۔) حر نے آپ سے کہا: “واللہ! مجھے معلوم نہیں ہے کہ وہ کیسے خطوط تھے، جن کا آپ ذکر فرما رہے تھے۔” یہ سن کر آپ نے عقبہ بن سمعان سے کہا: “وہ دونوں تھیلے جن میں لوگوں کے خطوط ہیں، لے آئیے۔” عقبہ دونوں تھیلے لائے جن میں خطوط بھرے ہوئے تھے۔ آپ نے سب کے سامنے لا کر ان خطوط کو بکھیر دیا۔
( ایضاً ۔ 4/1-191)
اس روایت کے الفاظ ” آپ آئے ، ہمارا کوئی حکمران نہںں ہے” سے یہ بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے کوفہ کا سفر اسی وجہ سے اختیار کیا کہ وہاں انارکی (عدم حکومت) کی سی کیفیت تھی۔ آپ اس انارکی کو ختم کرنے کے لیے کوفہ تشریف لے جا رہے تھے۔ راستے ہی میں جب آپ پر یہ واضح ہو گیا کہ انارکی کی کیفیت ختم ہو گئی ہے اور وہاں حکومت قائم ہو گئی ہے تو پھر آپ نے اپنی رائے تبدیل کر لی اور واپسی کا عزم کیا۔
ہماری رائے میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی ہستی سے یہ بات بہت بعید از قیاس ہے کہ آپ محض اپنے اقتدار کے لیے مسلمانوں میں خانہ جنگی برپا کرتے۔ باغی تحریکوں نے اپنے قتل و غارت کو جسٹی فائی کرنے کے لیے یہ خیال آپ کی جانب منسوب کیا ہے۔ یہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں شدید بدگمانی ہے کہ آپ کے بارے میں ایسا خیال کیا جائے کہ آپ اپنے اقتدار کے لیے مسلمانوں میں پھوٹ ڈلوانا چاہتے تھے۔ آپ کے بارے میں ہم حسن ظن رکھتے ہوئے زیادہ سے زیادہ یہی کہہ سکتے ہیں کہ آپ کا مقصد ایک پریشر گروپ بنا کر حکومت پر دباؤ ڈالنا تھا تاکہ اصلاح طلب امور کی اصلاح ہو سکے۔
کیا حضرت حسین کی رائے تبدیل ہوئی؟
تاریخی روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے سامنے اہل کوفہ کی اصل صورتحال آئی تو ان کی رائے تبدیل ہو گئی۔ یہ بات درست اور قرین قیاس معلوم ہوتی ہے۔ طبری میں ابو مخنف ہی کی روایت میں بنو اسد کے دو افراد کا بیان اس طرح نقل ہوا ہے:
قال أبو مخنف: وأما ما حدثنا به المجالد بن سعيد والصقعب بن زهير الأزدي وغيرهما من المحدثين، فهو ما عليه جماعة المحدثين، قالوا: حضرت حسین نے فرمایا: تین باتوں میں سے ایک بات میرے لیے اختیار کر لیجیے: جہاں سے میں آیا ہوں، وہیں چلا جاؤں۔ یا یہ کہ میں اپنا ہاتھ یزید کے ہاتھ میں دے دوں اور وہ اپنے اور میرے درمیان جو فیصلہ کر نا چاہے، کر لے یا پھر یہ کیجیے کہ مملکت اسلام کی سرحدوں میں سے کسی سرحد پر مجھے جانے دیجیے۔ میں ان لوگوں جیسا ایک شخص بن کر رہوں گا اور میرا نفع و نقصان ان کے نفع و نقصان کے تابع ہو گا۔
( ایضاً ۔ 4/1-200)
بعینہ یہی بات اوپر عمار الدہنی کی روایت میں گزر چکی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کس درجے میں امن پسند تھے اور آپ کسی صورت میں خونریزی نہ چاہتے تھے۔ ’’سر داد نہ داد دست در دست یزید‘‘ قسم کی باتیں محض باغی تحریکوں کے لٹریچر سے متاثر ہو کر کہی گئی ہیں۔ ان باغی تحریکوں نے اپنی تقویت کے لیے حضرت حسین کی شخصیت کو ایک کٹر اور بے لچک (Adamant) شخص کے طور پر پیش کیا ہے ورنہ آپ حالات کو اچھی طرح سمجھتے تھے اور اس کے مطابق فیصلہ کرتے تھے۔ جب آپ کو مسلم بن عقیل کی خبر ملی تو آپ نے تمام لوگوں کو اس بات کی اجازت دے دی کہ وہ ان سے الگ ہو کر اپنے اپنے گھروں کو چلے جائیں۔طبری میں ہشام کلبی کی یہ روایت بیان ہوئی ہے:
قال هشام: حدثنا أبو بكر بن عياش عمن أخبره: (حضرت حسین نے فرمایا:) ایک بہت ہی سخت واقعہ کی خبر مجھے پہنچی ہے۔ مسلم بن عقیل، ہانی بن عروہ اور عبداللہ بن بقطر قتل کر دیے گئے ہیں۔ ہمارے شیعوں نے ہمارا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔ آپ لوگوں میں سے جو کوئی جانا چاہے، چلا جائے۔ میں نے اپنی ذمہ داری آپ سے ختم کر دی ہے۔ ” یہ سنتے ہی وہ سب لوگ چلے گئے ۔ کوئی دائیں طرف چلا گیا اور کوئی بائیں جانب۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ جو لوگ مدینہ سے آپ کے ساتھ چلے تھے، وہی باقی رہ گئے۔
( ایضاً ۔ 4/1-188)
عمار الدھنی اور ابو مخنف کی روایات میں موجود ہے کہ آپ نے سرکاری افواج کے سامنے تین آپشنز پیش کی تھیں: (1) یا تو مجھے چھوڑ دیےلد کہ مںو جہاں سے آیا ہوں، وہں چلا جاؤں۔ (2) یا مجھے یزید کے پاس جانے دیےعب۔ (3) یا کسی سرحد کی طرف چلا جانے دیےلد۔ ان سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا کوئی ارادہ بغاوت یا جنگ کا نہ تھا۔
سانحہ کربلا کے ذمہ دار کون لوگ تھے؟
عمار الدہنی کی اوپر بیان کردہ روایت پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے عمر بن سعد کے ساتھ مذاکرات جاری تھے اور آپ یزید کے پاس جانے کے لیے تیار بھی ہو گئے تھے کہ بیچ میں لڑائی چھڑ گئی۔ یہ لڑائی کیسے چھڑی اور اس کا سبب کیا بنا، اس معاملے میں یہ روایت خاموش ہے۔ البتہ اس روایت میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے بعض الفاظ ایسے بیان ہوئے ہیں جن سے کچھ اشارہ ملتا ہے کہ اس جنگ کے چھڑنے کے ذمہ دار کون لوگ تھے۔ دوران جنگ آپ نے اللہ تعالی سے فریاد کی: “اے اللہ! ہمارا اور ان لوگوں کا تو انصاف فرما۔ انہوں نے ہمںد اس لے بلایا کہ ہماری مدد کریں گے اور اب ہم لوگوں کو قتل کر رہے ہں ۔”
یہ ایسے الفاظ ہیں جن کے مصداق نہ تو عمر بن سعد ہو سکتے ہیں اور نہ ابن زیاد اور اس کے ساتھی کیونکہ ان لوگوں نے تو آپ کو کوئی خط نہ لکھا تھا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سرکاری فوج میں وہ لوگ موجود تھے جنہوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو خطوط لکھ کر کوفہ بلایا تھا۔ اب انہی لوگوں نے آپ پر حملہ کر کے آپ اور آپ کے ساتھیوں کو شہید کرنا شروع کر دیا تھا۔
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کےبراہ راست قاتلوں میں جن لوگوں کے نا م آئے ہیں، ان کے بیک گراؤنڈ کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ باغی تحریک ہی سے تعلق رکھتے تھے۔ ابو مخنف نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے براہ راست قاتلوں میں عبد الرحمن جعفی، قثم بن عمرو بن یزید الجعفی، صالح بن وہب الیزنی، سنان بن انس نخعی، خولی بن یزید الاصبحی اور ان کے لیڈر شمر بن ذی الجوشن کے نام لکھے ہیں۔ دیگر ذرائع سے ہمیں معلوم نہیں کہ یہی لوگ آپ کے قاتل تھے یا نہیں۔ یہ بات معلوم و معروف ہے کہ شمر ، جنگ صفین میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں شامل تھا اور خود ابو مخنف کی روایت کے مطابق یہ جنگ صفین میں زخمی ہوا تھا۔( ایضاً ۔ 3/2-221)۔ سنان بن انس قبیلہ نخع سے تعلق رکھتا تھا اور مالک الاشتر نخعی کا رشتے دار تھا۔ تاہم پھر بھی ہمیں متعین طور پر کسی شخص کا نام نہیں لینا چاہیے کیونکہ ان روایتوں کے سوا ہمارے پاس کوئی اور ثبوت نہیں ہے اور روایات قابل اعتماد نہیں ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ باغی تحریک ان لوگوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور آپ کے ساتھیوں پر حملہ کیوں کیا۔ اگر یہ لوگ باغی تحریک سے تعلق رکھتے تھے تو انہیں اس کا فائدہ کیا ہوا؟ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہیں اس بات کا خطرہ تھا کہ کہیں ان کا پول نہ کھل جائے۔ ان کے لکھے ہوئے خطوط حضرت حسین رضی اللہ عنہ اگر دکھا دیتے تو پھر حکومت کی جانب سے بھی انہیں غداری کی سزا ملتی۔ سانحہ کے بعد ان خطوط کا کوئی سراغ نہیں ملتا ہے جن کی دو بوریاں بھر کر حضرت حسین رضی اللہ عنہ ساتھ لائے تھے۔ عین ممکن ہے کہ دوران جنگ ہی ان خطوط کو تلف کر دیا گیا ہو تاکہ ثبوت کو مٹا دیا جائے۔ دوسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ باغی تحریک کو ایک تازہ ترین “ہائی پروفائل شہید” کی تلاش تھی، جس کے نام پر اپنی تحریک کے لوگوں کو مشتعل کیا جا سکے۔ عین ممکن ہے کہ بعض باغیوں کے ذہن میں یہ محرک رہا ہو کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی صورت میں انہیں ایسا شہید مل سکتا ہے۔ لاشوں کی سیاست ہمارے دور ہی کا خاصہ نہیں ہے بلکہ ہر دور میں باغی تحریکیں ایسا کرتی رہی ہیں۔ تاہم یہ بھی ایک ممکنہ تھیوری ہے۔ حقیقت کا علم صرف اللہ تعالی کو ہے اور وہی روز قیامت اسے واضح فرمائے گا۔ روایات کی بنیاد پر متعین طور پر کوئی بات کہنا مشکل ہے۔
سانحہ کربلا میں عمر بن سعد کا کردار کیا تھا؟
عمر بن سعد کے بارے میں طبری وغیرہ میں جتنی روایات بیان ہوئی ہیں، وہ ابو مخنف کے توسط سے ہوئی ہیں، اس وجہ سے ان کا اعتبار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ان روایات سے عمر بن سعد کی دو متضاد تصویریں سامنے آتی ہیں۔ ایک تصویر یہ ہے کہ انہوں نے “رے” کی گورنری کے لالچ میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے خلاف کاروائی کی اور دوسری تصویر یہ نظر آتی ہے کہ وہ حضرت حسین کے ساتھ مخلص تھے۔ انہوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے مطالبات کو بھی مان لیا تھا اور جب آپ شہید ہوئے تو اتنا روئے تھے کہ ان کی داڑھی تر ہو گئی تھی۔ اب ان کے دل میں کیا تھا، ہمیں اس معاملے کو اللہ تعالی پر چھوڑ دینا چاہیے۔ جو شخص بھی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا ذمہ دار ہو گا ، وہ اللہ تعالی کے ہاں سزا پائے گا۔ روایات کی بنیاد پر ہمیں کسی کے بارے میں رائے قائم نہیں کرنی چاہیے۔
سانحہ کربلا میں ابن زیاد کا کردار کیا تھا؟
ابن زیاد کے بارے میں روایات سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اسی نے اپنی افواج کو سختی سے نمٹنے کا حکم دیا تھا۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے جب تین آپشنز پیش کیں تو یہ اس پر اڑ گیا تھا کہ آپ پہلے اس کے پاس آ کر اس کے ہاتھ پر بیعت کریں۔ سانحہ کے بعد جب حضرت حسین کے اہل و عیال کو اس کے پاس لے جایا گیا تو اس نے کسی افسوس کا اظہار بھی نہیں کیا اور نہ ہی اپنی افواج سے اس پر پوچھ گچھ کی تھی کہ واقعہ کیوں اور کیسے ہوا؟ نہ ہی اس نے ذمہ داروں کا تعین کرنے کی کوشش کی اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی کاروائی کی۔ اس کے بارے میں اس سے کوئی مختلف بات روایات میں درج نہیں ہے۔ طبری کی بعض روایات میں یہ ہے کہ ابن زیا دکی والدہ مرجانہ ایک نیک خاتون تھیں اور انہوں نے اپنے بیٹے کو بہت لعن طعن کی تھی۔ باقی حقیقت کا علم اللہ تعالی کو ہے کیونکہ ہمارے پاس سوائے ان روایات کے اور کچھ نہیں ہے۔
سانحہ کربلا میں یزید کا کردار کیا تھا؟
سانحہ کربلا میں یزید کے کردار کے بارے میں دو متضاد تھیوریز پیش کی جاتی ہیں اور دونوں کی بنیاد یہی تاریخی روایتیں ہیں: ایک تھیوری تو یہ ہے کہ ابن زیاد نے یزید کے حکم سے حضرت حسین رضی اللہ عنہ پر فوج کشی کی اور یزید نے آپ کی شہادت پر خوشی کا اظہار کیا۔ یہ تمام کی تمام روایات ابو مخنف نے بیان کی ہیں۔ دوسری تھیوری یہ ہے کہ یزید نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کا حکم نہیں دیا تھا بلکہ ابن زیاد نے اپنی طرف سے سختی کی۔ پھر باغی تحریک کے جو لوگ فوج میں شامل تھے، ان کے اقدام کے نتیجے میں یہ حادثہ رونما ہوا۔ یزید کو اس کی جب اطلاع ملی تو اس نے افسوس کا اظہار کیا تاہم اس نے ان قاتلین کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی۔
تاریخ طبری میں ابو مخنف ہی کی بیان کردہ بعض روایات موجود ہیں، جن سے اس دوسری تھیوری کی تائید ہوتی ہے۔ ابو مخنف کے بیان کے مطابق ابن زیاد نے جب مسلم بن عقیل اور ہانی بن عروہ کے قتل کی خبر یزید کو بھیجی تو یزید نے کوفہ کی بغاوت پر قابو پا لینے پر ابن زیاد کی تعریف کی لیکن حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے متعلق لکھا:
قال أبو مخنف: عن أبي جناب يحيى بن أبي حية الكلبي: ۔۔۔۔ مجھے اطلاع ملی ہے کہ حسین بن علی عراق کی جانب روانہ ہوئے ہیں۔ سرحدی چوکیوں پر نگران مقرر کر دیجیے۔ جن کے بارے میں شک ہو، انہیں حراست میں لے لیجیے اور جس پر کوئی الزام ہو، اسے گرفتار کر لیجیے۔ لیکن جو خود آپ لوگوں سے جنگ نہ کرے، اس سے آپ بھی جنگ نہ کیجیے۔ جو بھی واقعہ پیش آئے، اس کی مجھے اطلاع دیجیے۔ والسلام۔
( ایضاً ۔ 4/1-173)
سانحہ کربلا کے بعد یزید اور اس کے اہل خاندان کا طرز عمل ابو مخنف نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی پوتی سیدہ فاطمہ رحمہا اللہ کے حوالے سے کچھ یوں بیان کیا ہے۔
قال أبو مخنف، عن الحارث بن كعب، عن فاطمة بنت علي: یزید نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے کہا: “نعمان! ان لوگوں کی روانگی کا سامان، جیسا مناسب ہو ، کر دیجیے۔ اور ان کے ساتھ اہل شام میں سے کسی ایسے شخص کو بھیجیے جو امانت دار اور نیک کردار ہو۔ اس کے ساتھ کچھ سوار اور خدمت گار بھیج دیجیے کہ ان سب کو مدینہ پہنچا دے۔ اس کے بعد اس نے خواتین کے لیے حکم دیا کہ انہیں علیحدہ مکان میں ٹھہرایا جائے اور اس میں ضرورت کی سب چیزیں موجود ہوں۔ ان کے بھائی علی بن حسین (رحمہ اللہ ) اسی مکان میں رہیں جس میں وہ سب لوگ ابھی تک رہ رہے ہیں۔ اس کے بعد یہ سب لوگ (خواتین) اس گھر سے یزید کے گھر میں گئیں تو آل معاویہ میں سے کوئی خاتون ایسی نہ تھی جو حسین (رضی اللہ عنہ) کے لیے روتی اور نوحہ کرتی ہوئی ان کے پاس نہ آئی ہو۔ غرض سب نے وہاں پر سوگ منایا۔
یزید صبح و شام کھانے کے وقت علی بن حسین کو بھی بلا لیا کرتا تھا۔ ۔۔۔ جب ان لوگوں نے روانہ ہونے کا ارادہ کیا تو یزید نے علی بن حسین کو بلا بھیجا اور ان سے کہا: “اللہ مرجانہ کے بیٹے (ابن زیاد) پر لعنت کرے۔ واللہ اگر حسین میرے پاس آتے، تو مجھ سے جو مطالبہ کرتے، میں وہی کرتا۔ ان کو ہلاک ہونے سے جس طرح ممکن ہوتا بچا لیتا خواہ اس کے لیے میری اولاد میں سے کوئی مارا جاتا۔ لیکن اللہ کو یہی منظور تھا، جو آپ نے دیکھا۔ آپ کو جس چیز کی ضرورت ہو، مجھے بتائیے اور میرے پاس لکھ کر بھیج دیجیے۔ پھر یزید نے سب کو کپڑے دیے اور اس قافلے (کے لیڈروں) کو ان لوگوں کے بارے میں خاص تاکید کی۔
( ایضاً ۔ 4/1-237)
بلاذری نے اس ضمن میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کےبھائی محمد بن علی رحمہ اللہ کا یہ واقعہ بیان کیا ہے:
حدثني أبو مسعود الكوفي عن عوانة قال: یزید نے ابن حنفیہ کو ملاقات کے لیے بلایا اور اپنے پاس بٹھا کر ان سے کہا: “حسین کی شہادت پر اللہ مجھے اور آپ کو بدلہ دے۔ واللہ! حسین کا نقصان جتنا بھاری آپ کے لیے ہے، اتنا ہی میرے لیے بھی ہے۔ ان کی شہادت سے جتنی اذیت آپ کو ہوئی ہے، اتنی ہی کو بھی ہوئی ہے۔ اگر ان کا معاملہ میرے سپرد ہوتا اور میں دیکھتا کہ ان کی موت کو اپنی انگلیاں کاٹ کر اور اپنی آنکھیں دے کر بھی ٹال سکتا ہوں تو بلا مبالغہ دونوں ہی ان کے لیے قربان کر دیتا، اگرچہ انہوں نے میرے ساتھ بڑی زیادتی کی تھی اور خونی رشتہ کو ٹھکرایا تھا
(یعنی اہل عراق کی دعوت پر وہاں چلے گئے تھے۔)
آپ کو معلوم ہوگا کہ ہم عوام کے سامنے حسین (کے اقدام) پر تنقید کرتے ہیں لیکن واللہ یہ اس لیے نہیں کہ عوام میں حضرت علی کے خاندان کو عزت و حرمت حاصل نہ ہو بلکہ ہم لوگوں کو اس سے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ حکومت و خلافت میں ہم کسی حریف کو برداشت نہیں کر سکتے ہیں۔ “
یہ سن کر ابن حنفیہ نے کہا: “اللہ آپ کا بھلا کرے اور حسین پر رحم فرمائے اور ان کی خطاؤں کو معاف کرے۔ یہ جان کر خوشی ہوئی کہ آپ ہمارے نقصان کو اپنا نقصان اور ہماری محرومی کو اپنی محرومی سمجھتے ہیں۔ حسین اس بات کے ہرگز مستحق نہیں ہیں کہ آپ ان پر تنقید کریں یا ان کی مذمت کریں۔ امیر المومنین! میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ حسین کے بارے میں ایسی بات نہ کہیے جو مجھے ناگوار گزرے۔” یزید نے جواب دیا: “میرے چچا زاد بھائی! میں حسین کے متعلق کوئی ایسی بات نہ کہوں گا جس سے آپ کا دل دکھے۔ “
اس کے بعد یزید نے ان سے ان کے قرض کے بارے میں پوچھا۔ محمد بن علی نے فرمایا: ’’مجھ پر کوئی قرض نہیں ہے۔‘‘ یزید نے اپنے بیٹے خالد بن یزید سے کہا: ’’میرے بیٹے! آپ کے چچا کم ظرفی، ملامت اور جھوٹ سے بہت دور ہیں۔ اگر ان کی جگہ کوئی اور ہوتا تو کہہ دیتا کہ مجھ پر فلاں فلاں کا قرض ہے۔‘‘ پھر یزید نے حکم جاری کیا کہ انہیں تین لاکھ درہم دیے جائیں جو انہوں نے قبول کر لیے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہیں پانچ لاکھ درہم کیش اور ایک لاکھ کا سامان دیا۔
یزید ابن حنفیہ کے ساتھ بیٹھتا تھا اور ان سے فقہ اور قرآن سے متعلق سوالات کرتا تھا۔ جب انہیں الوداع کرنے کا وقت آیا تو اس نے ان سے کہا: ’’ابو القاسم! اگر آپ نے میرے اخلاق میں کوئی برائی دیکھی ہو تو بتائیے، میں اسے دور کر دوں گا۔ اور آپ جس چیز کی طرف اشارہ کریں گے، اسے درست کر دوں گا۔‘‘ ابن حنفیہ نے فرمایا: ’’واللہ! میں نے اپنی وسعت کے مطابق کوئی ایسی برائی نہیں دیکھی جس سے آپ نے لوگوں کو روکا نہ ہو او راس معاملے میں اللہ کے حق کے بارے میں بتایا نہ ہو۔ یہ اہل علم کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کے لیے حق بات کو واضح کریں اور اسے نہ چھپائیں۔ میں نے آپ میں خیر کے سوا اور کچھ نہیں دیکھا ہے۔‘‘( بلاذری۔ انساب الاشراف ۔ 3/470۔ باب: محمد بن حنفیہ)
ابو مخنف سے روایا ت کا جو دوسرا گروپ مروی ہے، ان کے مطابق شہادت حسین پر یزید خوش ہوا اور اس میں اس کی رضا شامل تھی۔ اس کے برعکس انہی ابو مخنف کی اوپر بیان کردہ روایات سے اس کے برعکس تصویر سامنے آتی ہے کہ یزید کو سانحہ کربلا کا شدید افسوس ہوا اور وہ اس نے اس سانحے پر غم کا ظہار کیا۔ اب یہ شخص کی اپنی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ ابو مخنف کی روایات میں سے کن روایات کو قبول کرتا ہے۔ اتنی صدیوں بعد کسی کا دل چیر کر نہیں دیکھا جا سکتا ہےکہ اس کے دل میں کیا ہے۔
یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یزید اس سانحہ میں ملوث نہیں تھا تو اس نے ابن زیاد اور سانحہ کربلا کے دیگر ذمہ داروں کو سزا کیوں نہیں دی؟ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ ایک تحقیقاتی ٹیم بناتا جس میں ایسے دیانت دار لوگ ہوتے جن پر امت کو کامل اعتماد ہوتا۔ یہ لوگ سانحہ کربلا کی تحقیقات کرتے اور جو لوگ اس میں ملوث تھے، انہیں قرار واقعی سزا دی جاتی۔ یہ ایسا سوال ہے جس کا کتب تاریخ کے صفحات میں کوئی جواب نہیں ہے۔ نرم سے نرم الفاظ میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ یزید کی ایسی بھیانک غلطی تھی جس کے نتیجے میں اس کا نہ تو اقتدار قائم رہ سکا اور اس کے مخالفین نے اس کے اس اقدام کو بنیاد بنا کر اس پر لعن طعن کا وہ سلسلہ شروع کیا جو اب تک جاری ہے۔خود یزید کو سانحہ کربلا کی وجہ سے سخت نقصان ہوا۔ اس کی اب تک جو رہی سہی ساکھ تھی، وہ بالکل ہی ختم ہو گئی اور لوگ اس سے نفرت کرنے لگے۔ طبری ہی کی ایک روایت سے اندازہ ہوتا ہے کہ یزید کو اس نقصان کا اندازہ ہو گیا تھا اور وہ ابن زیاد سے سخت نفرت کرنے لگا تھا۔
قال أبو جعفر: وحدثني أبو عبيدة معمر بن المثنى أن يونس بن حبيب الجرمي حدثه، قال: تھوڑے ہی دن بعد وہ (یزید) پشیمان ہوا اور اکثر کہا کرتا تھا: “اگر میں ذرا تکلیف گوارا کرتا اور حسین کو اپنے ہی گھر میں رکھتا، جو وہ چاہتے، انہیں اس کا اختیار دے دیتا۔ اس لیے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی تھی اور ان کے حق اور قرابت کی رعایت تھی۔ اگر میری حکومت کی اس میں سبکی بھی ہو جاتی تو اس میں کیا حرج تھا۔ اللہ ابن مرجانہ (ابن زیاد) پر لعنت کرے کہ اس نے انہیں لڑنے پر مجبور کیا۔ وہ تو یہ کہتے تھے کہ مجھے واپس چلا جانے دو یا (مجھے یزید کے پاس بھیج دو) تاکہ میں اپنا ہاتھ یزید کے ہاتھ میں دے دوں یا مسلمانوں کی سرحدوں میں سے کسی سرحد کی طرف مجھے نکل جانے دو۔ وہاں اللہ عزوجل میری حفاظت کرے گا۔ یہ بات بھی اس نے نہ مانی اور اس سے بھی انکار کر دیا۔ ان کو کوفہ کی طرف واپس لایا اور قتل کر دیا۔ اس واقعہ سے اس نے مسلمانوں کے دلوں میں میرا بغض بھر دیا اور میری عداوت کا بیج بویا۔ اب نیک ہوں یا بد، سب مجھ سے اس بات پر بغض رکھتے ہیں کہ میں نے حسین کو قتل کیا۔ لوگ اسے بہت بڑا واقعہ سمجھتے ہیں۔ مجھے ابن مرجانہ سے کیا غرض ہے؟ اللہ اس پر لعنت کرے اور اس پر اپنا غضب نازل کرے۔
( طبری۔ 4/1-270)
اسی روایت کے کچھ بعد بیان ہے کہ یزید کے مرنے کے بعد ابن زیاد نے ایک خطبہ دیا اور اس کی مذمت بھی کی۔ وہ جانتا تھا کہ یزید اس کے ساتھ بہت برا پیش آنے والا ہے اور اس وجہ سے اس سے خائف تھا۔ ممکن ہے کہ یزید اگر کچھ عرصہ اور زندہ رہتا تو ابن زیاد کے خلاف کاروائی بھی کر ڈالتا لیکن بہرحال اب بہت دیر ہو چکی تھی اور شہادت حسین رضی اللہ عنہ کا جو نقصان اسے پہنچنا تھا، وہ پہنچ چکا تھا۔
سانحہ کربلا میں باغی تحریک کا کردار کیا تھا؟
سانحہ کربلا میں کوفہ کی باغی تحریک کا کردار نمایاں ہے۔ یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو کوفہ آنے کی دعوت دی اور خطوط کا تانتا باندھ دیا۔ اس کے بعد انہوں نے مسلم بن عقیل رحمہ اللہ کو بغاوت پر اکسایا اور پھر عین محاصرے کی حالت میں ان کا ساتھ چھوڑ دیا۔ جیسا کہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ اس بات کا غالب امکان ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو براہ راست شہید کرنے والوں میں وہ لوگ شامل تھے جو باغی تحریک سے متعلق تھے۔ ان میں شمر بن ذی الجوشن کا نام نمایاں ہے جو جنگ صفین میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں شامل تھا۔ حضرت حسین نے اپنی شہادت سے کچھ دیر پہلے جو دعا فرمائی، اس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کو شہید کرنے والے یہی لوگ تھے۔ “اے اللہ! ہمارا اور ان لوگوں کا تو انصاف فرما۔ انہوں نے ہمںب اس لےد بلایا کہ ہماری مدد کریں گے اور اب ہم لوگوں کو قتل کر رہے ہں ۔”
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے نتائج پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس شہادت سے یزید کو تو کوئی فائدہ نہ پہنچا البتہ باغی تحریک کی پانچوں انگلیاں گھی میں آ گئیں۔ انہوں نے حضرت حسین کے نام کو خوب کیش کروایا اور چار سال کی تیاری کر کے آپ کے نام پر ایک زبردست بغاوت اٹھائی۔ جیسا کہ ہم باغی تحریکوں کے لائف سائیکل میں بیان کر چکے ہیں کہ یہ لوگ “شہیدوں” کی تلاش میں رہتے ہیں تاکہ ان کا نام استعمال کر کر کے لوگوں کے جذبات بھڑکا سکیں۔ اور پھر اگر شہید حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے درجے کا شخص ہو تو کیا کہنے۔ یہی وجہ ہے کہ باغیوں نے پہلے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو اپنے پاس آنے کی ترغیب دی، پھر جب آپ کوفہ کی طرف تشریف لے گئے تو انہوں نے آپ کا ساتھ چھوڑ دیا۔ اس کے بعد جب آپ شہید ہو گئے تو آپ کے نام کو خوب استعمال کر کے اگلی نسلوں کے جذبات بھڑکائے اور پے در پے بغاوتیں اٹھائیں۔ تاہم اللہ تعالی نے ان کے تمام منصوبوں کو ناکام کر دیا اور ان کی کوئی بغاوت بھی کامیاب نہ ہو سکی۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے بعد یہی معاملہ اس باغی تحریک نے آپ کے پوتے جناب زید بن علی رحمہما اللہ اور ان کے کزن نفس الزکیہ علیہ الرحمۃ کے ساتھ کیا۔
حضرت عثمان اور حضرت حسین کی شہادتوں میں کیا مناسبت تھی؟
حضرت عثمان اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کی شہادتوں میں بہت سے پہلو مشترک ہیں۔ سب سے پہلے یہ تقابل حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کیا تھا جس وقت انہوں نے حضرت حسین کو عراق جانے سے روکا تھا۔ آپ نے فرمایا تھا: “اگر جانا ہی ٹھہرا تو خواتن اور بچوں کو ساتھ نہ لے جائےح۔ واللہ! مجھے ڈر ہے کہ کہںھ حضرت عثمان کی طرح آپ بھی اپنی خواتنل اور بچوں کے سامنے قتل نہ کر دیے جائںس۔” حضرت ابن عباس کی یہ پیش گوئی پوری ہوئی اور حضرت حسین کو بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہما کی طرح ان کے اہل و عیال کے سامنے شہید کیا گیا۔ حضرت عثمان کی شہادت سے کچھ ہی دیر پہلے جس آخری شخص نے آپ سے ملاقات کی تھی، وہ حضرت حسین ہی تھے۔
ان دونوں بزرگوں کی شہادتوں میں یہ پہلو بھی مشترک ہے کہ دونوں ہی کو نہایت مظلومیت کے ساتھ شہید کیا گیا۔ جیسے حضرت عثمان کے ساتھ حسن و حسین سمیت چند ہی ساتھی تھے جبکہ ان کے مخالفین ہزاروں کی تعداد میں تھے، ویسے ہی حضرت حسین کے ساتھ بھی چند ہی ساتھی تھے اور ان کے مخالفین بھی ہزاروں کی تعداد میں تھے۔
حضرت عثمان اور حسین رضی اللہ عنہما کی شہادتوں میں دوسری مناسبت یہ ہے کہ دونوں ہی باغی تحریک کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ تیسری مناسبت یہ ہے کہ جیسے قاتلین عثمان اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہو سکے ، ویسے ہی قاتلین حسین بھی خائب و خاسر رہے۔ حضرت عثمان کے قاتلوں کا مقصد یہ تھا کہ وہ اقتدار پر قابض ہو جائیں اور کسی کٹھ پتلی خلیفہ کے پردے میں اپنا اقتدار قائم کر سکیں۔ حضرت علی، حسن اور معاویہ رضی اللہ عنہم نے ان کی یہ خواہش پوری نہ ہونے دی۔ بالکل اسی طرح قاتلین حسین کا مقصد یہ تھا کہ آپ کو شہید کر کے وہ یزید سے کچھ انعام و اکرام حاصل کریں۔ یزید نے ان کی یہ خواہش پوری نہ کی۔ جیسے قاتلین عثمان کو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما نے چن چن کر گرفتار کیا اور پھر مقدمہ چلا کر انہیں موت کی سزا دی، بالکل اسی طرح قاتلین حسین کو بھی مختار ثقفی کے دور میں چن چن کر قتل کیا گیا۔
حضرت عثمان اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کی شہادتوں میں ایک مناسبت یہ بھی ہے کہ دونوں کے نام کو جنگ و جدال کے لیے استعمال کیا گیا۔ ناصبی فرقے نے حضرت عثمان کا نام لے کر حضرت علی رضی اللہ عنہما کے خلاف پراپیگنڈا کیا، بالکل ویسے ہی باغی تحریک نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا نام لے کر بنو امیہ کی حکومتوں کے خلاف پراپیگنڈا کیا۔
ہم دیکھتے ہیں کہ بعد کے ادوار میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نام پرکیا جانے والا پراپیگنڈا ختم ہو گیا جبکہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے نام پر کیا جانے والا پراپیگنڈا اب بھی جاری ہے۔ اس معاملے میں کسی مخصوص فرقے کی اجارہ داری نہیں ہے بلکہ جب بھی جس باغی تحریک کو ضرورت پڑتی ہے، تو وہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا نام استعمال کرتی ہے۔
یہاں پر تاریخ کے طالب علم کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ سلسلہ حضرت حسین کے نام کے ساتھ ہی کیوں کیا جاتا ہے اور حضرت عثمان کو بالکل ہی نظر انداز کیوں کر دیا گیا ہے؟ اس کی وجہ اصل میں یہ ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ تھے اور آپ کے خلاف اٹھنے والے باغی تھے۔ اس وجہ سے باغی تحریکوں کو آپ کا نام لینے میں کوئی فائدہ محسوس نہیں ہوتا ہے۔ اس کے برعکس حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو معاذ اللہ ایک ایسے باغی سے تشبیہ دی جاتی ہے جو ظالم حکمران کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہو گیا۔ اس کے بعد خون کو گرمانے والے اشعار پڑھے جاتے ہیں اور تحریکی کارکنوں کو بغاوت کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔
یہ تفصیل بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم اپنے دور کے سیاسی لیڈروں کے ہتھکنڈوں کو سمجھیں جو ان بزرگوں کے مقدس نام استعمال کر کے سادہ لوح نوجوانوں کو اپنے اقتدار کی راہ ہموار کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ لیڈر خود کم ہی جان دیتے ہیں اور اپنے سادہ لوح کارکنوں کو جان دینے کی زیادہ ترغیب دیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے کوئی بغاوت نہیں کی اور نہ ہی فتنہ و فساد برپا کیا۔ آپ عراق میں انارکی کو ختم کرنے کے لیے تشریف لے گئے تھے اور جب آپ کو یہ علم ہوا کہ وہاں حکومت قائم ہو چکی ہے تو مسلمانوں کی اجتماعیت کو برقرار رکھنے کے لیے آپ یزید کے پاس جا کر براہ راست معاملہ طے کرنے کے لیے بھی تیار ہو گئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب اس کے باوجود بھی آپ کو شہید کیا گیا تو پورے عالم اسلام میں آپ کے قتل کو مظلومانہ قتل ہی قرار دیا گیا۔
سانحہ کربلا کی داستانیں کس حد تک قابل اعتماد ہیں؟
سانحہ کربلا چونکہ ایک بڑا سانحہ تھا اور اس نے عالم اسلام پر بڑے نفسیاتی اثرات مرتب کیے، اس وجہ سے یہ مورخین کے زمرے سے نکل کر عام قصہ گو حضرات، شاعروں اور خطیبوں کی محفلوں کا موضوع بن گیا۔ ان کے ساتھ ساتھ باغی تحریک سے تعلق رکھنے والے قصہ گو خطیبوں اور شاعروں نے جلتی آگ پر تیل چھڑکنے کا کام کیا۔ ایک عام خطیب یا شاعر کو اس بات سے دلچسپی نہیں ہوتی ہے کہ واقعے کو ٹھیک ٹھیک بیان کیا جائے بلکہ اس کی دلچسپی اس بات سے ہوتی ہے کہ ایسی کیا بات کی جائے جس سے سامعین کے جذبات بھڑکیں، وہ روئیں اور چلائیں، اپنے گریبان چاک کر دیں اور خطیب یا شاعر کو اٹھ کر داد دیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان حضرات نے سانحہ کربلا کی ایسی ایسی مبالغہ آمیز داستانیں وضع کیں جن کا تصور بھی شاید ابو مخنف نے بھی نہ کیا ہو گا۔ ان داستانوں کی کوئی سند نہیں ہے اور نہ یہ تاریخ کی کسی کتاب میں موجود ہیں۔ بس جاہل قسم کے واعظ اور شاعر انہیں بیان کر دیتے ہیں۔ یہاں ہم ان مبالغہ آمیز داستانوں کی چند مثالیں پیش کر رہے ہیں جو عام مشہور ہیں۔
1۔ یہ بات عام طور پر مشہور کر دی گئی ہے کہ کربلا میں تین دن تک حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے اہل بیت کا پانی بند کر دیا گیا تھا اور وہ پیاسے شہید ہوئے تھے۔ خود ابو مخنف کی روایت سے اس کی تردید ہوتی ہے جو کہ طبری میں موجود ہے:
قال أبو مخنف: حدثنا عبد الله بن عاصم الفائشي – بطن من همدان – عن الضحاك بن عبد الله المشرقي:۔۔۔ (سانحہ کربلا کی رات سیدہ زینب رضی اللہ عنہا شدت غم سے بے ہوش ہو گئیں۔) بہن کا حال دیکھ کر حضرت حسین کھڑے ہو گئے ۔ ان کے پاس آ کر چہرہ پر پانی چھڑکا اور فرمایا: “پیاری بہن! اللہ کا خوف کرو اور اللہ کے لیے صبر کرو۔ اس بات کو سمجھو کہ روئے زمین پر سب مرنے والے ہیں۔ اہل آسمان بھی باقی نہ رہیں گے۔ بس اللہ کی ذات کے سوا جس نے اپنی قدرت سے اس زمین کو پیدا کیا ہے اور جو مخلوق کو زندہ کر کے واپس لائے گا، وہی اکیلا اور تنہا ہے۔ سب چیزیں مٹ جانے والی ہیں۔ میرے والد مجھ سے بہتر تھے، میری والدہ تم سے بہتر تھیں، میرے بھائی مجھ سے بہتر تھے۔ مجھے اور ان سب کو اور ہر مسلمان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کو دیکھ کر اطمینان ہو جانا چاہیے۔ ” اسی طرح کی باتیں کر کے آپ نے انہیں سمجھایا اور پھر فرمایا: “پیاری بہن! میں تمہیں قسم دیتا ہوں اور میری اس قسم کو پورا کرنا۔ میں مر جاؤں تو میرے غم میں گریبان چاک مت کرنا، منہ کو نہ پیٹنا، ہلاکت و موت کو نہ پکارنا۔ “
( ایضاً ۔ 4/1-206)
اس روایت میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اپنی ہمشیرہ کو جو نصیحت فرمائی، اسے ہماری خواتین کو بھی پلے باندھ لینا چاہیے۔ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ سانحہ کی آخری رات بھی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے پاس پانی موجود تھا جو آپ نے سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے چہرے پر چھڑکا۔ ویسے بھی کربلا دریائے فرات کے کنارے پر واقع ہے۔ دریا کے پانی کا پھیلاؤ اتنا ہے کہ اس کی وجہ سے اس علاقے میں ایک بڑی جھیل موجود ہے جو کہ ’’بحیرہ رزازہ‘‘ کہلاتی ہے اور کربلا شہر سے محض 18 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ آج بھی گوگل ارتھ کی مدد سے اس پورے علاقے کو دیکھا جا سکتا ہے ۔ فرات ایک دریا ہے، کوئی چھوٹا موٹا چشمہ نہیں ہے جس کا پانی روک لیا جائے۔ اگر ایک جگہ دشمن نے پہرہ لگا دیا تھا تو دوسری جگہ سے پانی حاصل کیا جا سکتا تھا۔
اس روایت کے کچھ بعد طبری نے ایک اور روایت نقل کی ہے جس کے مطابق حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے ایک بڑے ٹب میں مشک کو پانی میں حل کرنے کا حکم دیا تاکہ اسے جسم پر ملا جا سکے۔ اگر پینے کے لیے پانی نہ تھا تو پھر پہلوانوں کی طرح نورہ لگانے کے لیے ٹب جتنا پانی کہاں سے آ گیا؟
قال أبو مخنف: حدثني فضيل بن خديج الكندي، عن محمد بن بشر، عن عمرو الحضرمي، قال: جب یہ لوگ (سرکاری فوج) آپ (حضرت حسین) سے جنگ کے لیے آگے بڑھے، تو آپ نے حکم دیا کہ بڑا خیمہ نصب کیا جائے۔ چنانچہ اسے نصب کر دیا گیا۔ آپ نے حکم دیا کہ ایک بڑے برتن میں مشک کو پانی میں حل کیا جائے۔ جب اسے حل کر لیا گیا تو اب آپ خیمہ کے اندر نورہ لگانے کے لیے گئے۔
( ایضاً ۔ 4/1-208)
2۔ ایک اور مبالغہ آمیز بیان یہ ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے دشمن فوج کے ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد کو اپنے ہاتھ سے قتل کیا اور کشتوں کے پشتے لگا دیے۔ بعض روایتوں میں یہ تعداد دو ہزار اور بعض میں تین لاکھ تک آئی ہے۔ اس روایت کے مبالغے کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر ہر آدمی کے ساتھ مقابلہ کرنے اور اسے پچھاڑ کر قتل کرنے کے لیے ایک منٹ بھی درکار ہو تو 2000 افراد کو قتل کرنے کے لیے 2000 منٹ تو چاہیے ہوں گے، یہ تقریبا 33 گھنٹے بنتے ہیں۔ ابو مخنف کی روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سانحہ ایک آدھ گھنٹے میں ہو کر ختم ہو گیا تھا۔
3۔ ایک اور مبالغہ آمیز بیان یہ ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور دیگر شہداء کے سروں کو نیزوں پر لگا کر انہیں آپ کے اہل خانہ کے ساتھ شہر بہ شہر جلوس کی صورت میں پھرایا گیا اور اس حالت میں بھی حضرت حسین کے مبارک لبوں سے تلاوت قرآن مجید کی آواز سنی گئی۔ اگر کوئی آج بھی یہ کام کرے تو اسے سیاسی خود کشی ہی کہا جا سکتا ہے۔ اگر ایسا ہوا ہوتا تو جہاں جہاں سے یہ جلوس گزرتا جاتا، بغاوت کھڑی ہوتی چلی جاتی۔ پھر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایسی کوئی حرکت کی جاتی تو اسے دیکھنے والے ہزاروں ہوتے۔ کیا ان میں سے کسی کی غیرت نے جوش نہیں مارا؟ اس وقت موجود درجنوں صحابہ اور ہزاروں تابعین میں سے کیا دو چار سو لوگ بھی ایسے نہ تھے جنہوں نے اس جلوس کو دیکھ کر یزید کے سامنے کلمہ حق ہی کہا ہو؟
اس قسم کی درجنوں مبالغہ آمیز داستانیں ہمارے ہاں خطیب اور شاعر عام بیان کرتے نظر آتے ہیں لیکن ہم انہی پر اکتفا کرتے ہیں۔
سانحہ کربلا کی روایات کس حد تک مستند ہیں؟
سانحہ کربلا کے موضوع پر بے شمار کتب لکھی جا چکی ہیں۔ محرم الحرام میں بہت سے واعظ اور ذاکرین رو رو کر سانحہ کربلا کی داستان کچھ اس طریقے سے سناتے ہیں جیسے وہ اس واقعے کے چشم دید گواہ ہوں اور انہوں نے اس سانحے کو باقاعدہ ریکارڈ کیا ہو۔ تاریخ میں اس واقعے سے متعلق جیسا جھوٹ گھڑا گیا ہے، شاید ہی کسی اور واقعے سے متعلق گھڑا گیا ہو۔
عجیب بات یہ ہے کہ اولین کتب تاریخ میں اس واقعے کو صرف ایک شخص نے پوری تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے اور اس کا نام ہے ابو مخنف لوط بن یحیی۔ ان سے بالعموم جو صاحب روایت کرتے ہیں، ان کا نام ہشام کلبی ہے۔ ان دونوں راویوں سے ہمارا اس کتاب میں پرانا تعلق ہے اور ہم جانتے ہیں کہ یہ دونوں نہایت ہی متعصب مورخ ہیں اور مخصوص صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں سخت بغض رکھتے ہیں۔ تاریخ طبری میں سوائے چند ایک کے، سانحہ کربلا کی تقریباً سبھی روایات انہی دونوں سے مروی ہیں۔ ان دونوں راویوں کا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ سے بغض اتنا نمایاں ہے کہ انہوں نے ان روایات میں بھی جگہ جگہ اس بغض کو داخل کر دیا ہے۔
تاریخ کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ کسی شخص یا واقعے کے بارے میں اس سے متعصب راوی کی روایت کو قبول نہ کیا جائے۔ اس وجہ سے مناسب یہی رہے گا کہ ہم ابو مخنف اور ہشام کلبی کی روایات سے اجتناب کریں۔ ان دونوں کے علاوہ ایک اور ناقابل اعتماد مورخ محمد بن عمر الواقدی کی بعض روایتیں سانحہ کربلا سے متعلق ہیں، جن کے بارے میں بھی ہمیں معلوم ہے کہ وہ ہر جھوٹی سچی بات کو ملا کر ایک کہانی بناتے ہیں اور پھر بغیر کسی سند کے بیان کر دیتے ہیں۔ کبھی وہ سند بھی بیان کر دیتے ہیں جو بالعموم مکمل نہیں ہوتی ہے۔
تاریخ طبری کے بارے میں 129 روایات کا بڑا حصہ ابو مخنف، ہشام کلبی اور واقدی سے مروی ہے۔ طبری سے پہلے کے مورخین میں ابن سعد (d. 230/845) ہیں جو کہ ہیں تو واقدی کے شاگرد ، لیکن بذات خود ایک قابل اعتماد مورخ ہیں۔ ان کے بارے میں محدثین کا یہ اصول ہم بیان کر چکے ہیں کہ ان کی وہ روایات، جو وہ واقدی کےعلاوہ کسی اور سے روایت کرتے ہیں، پر اعتماد کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ ان کے راوی قابل اعتماد ہوں۔ ابن سعد نے سانحہ کربلا کے واقعات سے متعلق 23 روایات اپنی کتاب میں درج کی ہیں،لیکن ان میں سے ایک روایت وہ ہے جو انہوں نے مختلف اسناد کو ملا کر پورے واقعہ کو ایک طویل کہانی کی صورت میں بیان کی ہے۔ بقیہ 22 چھوٹی چھوٹی روایتیں ہیں جن میں ابن سعد نے واقعے کی کچھ جزوی تفصیلات کو نقل کیا ہے اور ان میں کوئی خاص بات نہیں ہے۔ ان میں سے ہر روایت کو نقل کرنے کے بعد وہ رجع الحديث إلى الأول (اب ہم پہلے بیان کی طرف واپس پلٹتے ہیں) کے الفاظ لکھ کر اسی طویل روایت کو بیان کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ روایت 25-26 صفحات پر پھیلی ہوئی ہے جبکہ بقیہ 5-6 صفحات پر بقیہ 22 روایتیں ہیں۔ طویل روایت کی اسناد کو انہوں نے کچھ اس طرح نقل کیا ہے:
أخبرنا محمد بن عمر (الواقدي)، قال: حدثنا ابن أبي ذئب، قال: حدثني عبدالله بن عمير مولى أم الفضل
أخبرنا عبدالله بن محمد بن عمر بن علي، عن أبيه
أخبرنا يحيي بن سعيد بن دينار السعدي، عن أبيه
وحدثني عبدالرحمن بن أبي الزناد، عن أبي وجزة السعدي، عن علي بن حسين.
قال: وغير هؤلاء أيضا قد حدثني. قال محمد بن سعد: وأخبرنا علي بن محمد، عن يحيي بن إسماعيل بن أبي مهاجر، عن أبيه.
وعن (أبو مخنف) لوط بن يحيي الغامدي، عن محمد بن نشر الهمداني، وغيره.
وعن محمد بن الحجاج، عن عبدالملك بن عمير.
وعن هارون بن عيسى، عن يونس بن أبي إسحاق، عن أبيه.
وعن يحيي بن زكريا بن أبي زائدة، عن مجالد، عن الشعبي.
قال ابن سعد: وغير هؤلاء أيضا قد حدثني في هذا الحديث بطائفة فكتبف جوامع حديثهم في مقتم الحسين رحمة الله عليه ورضوانه وصلوته وبركاته. قالوا:
ابن سعد نے کہا: ان اسناد کے علاوہ بھی اس روایت کو (راویوں کے) ایک گروہ نے مجھ سے بیان کیا۔ میں نے حضرت حسین رحمۃ اللہ علیہ ورضوانہ و صلوتہ وبرکاتہ کی شہادت سے متعلق ان سب کی روایتوں کو اکٹھا کر کے لکھ لیا ہے۔ ان لوگوں نے بیان کیا:۔۔۔۔( ابن سعد۔ طبقات الکبری۔ 6/421-422)۔
ابن سعد نے اس طویل روایت میں یہ نہیں بتایا کہ روایت کا کون سا حصہ کس راوی نے بیان کیا ہے بلکہ انہوں نے اسے ایک مسلسل قصے کی صورت میں بیان کر دیا ہے۔ اب ہمیں یہ معلوم نہیں ہو سکتا ہے کہ تقریباً 25-26 صفحات پر پھیلی ہوئی اس روایت کا کون سا حصہ قابل اعتماد راویوں نے بیان کیا ہے اور کون سا حصہ ناقابل اعتماد راویوں نے۔ اس وجہ سے ان کی پوری روایت کی حیثیت مشکوک ہو جاتی ہے۔ ابن سعد کی بیان کردہ تفصیلات کا موازنہ اگر طبری میں بیان کردہ ابو مخنف ، ہشام کلبی اور واقدی کی روایتوں سے کیا جائے تو ان میں مماثلت پائی جاتی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ابن سعد نے بھی زیادہ تر تفصیلات انہی تین راویوں سے اخذ کی ہیں۔
اب آئیے تیسرے مورخ احمد بن یحیی بلاذری (d. 279/893)کی طرف۔ انہوں نے سانحہ کربلا کے ضمن میں 39 روایتیں بیان کی ہیں جو کہ مکتبہ دار الفکر والے ورژن کی جلد 3 میں صفحہ 363-426 پر پھیلی ہوئی ہیں۔ ان میں سے 14ایسی روایتیں ہیں جو نہایت ہی ناقابل اعتماد راویوں سے مروی ہیں۔ ان میں ابو مخنف لوط بن یحیی (4654)، عباد بن عوام (2651)، عوانہ بن حکم (4372)، حصین بن عبد الرحمن (1795) اور ہیثم بن عدی (6546)شامل ہیں۔ یہ سب کے سب راوی ضعیف اور ناقابل اعتماد ہیں۔( ذہبی۔ سیر الاعلام النبلا۔ راویوں کے نمبر کے مطابق دیکھا جا سکتا ہے۔)
ان میں لوط بن یحیی اور عباد بن عوام اسی باغی پارٹی سے تعلق رکھتے تھے جو مسلسل بغاوتیں اٹھاتی رہی۔ عوانہ بن حکم، ہشام کلبی کے استاذ تھے۔ ہیثم بن عدی کو محدثین نے کذاب قرار دیا ہے۔ حصین بن عبد الرحمن اگرچہ قابل اعتماد تھے مگر ان کا حافظہ کمزور تھا اور وہ روایات کو خلط ملط کر دیا کرتے تھے۔ آپ ذہبی کے مشہور انسائیکلو پیڈیا ’’سیر الاعلام النبلاء‘‘ میں متعلقہ نمبر پر ان سب کے حالات کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ اگر ان راویوں کی بیان کردہ روایتوں کو چھوڑ دیا جائے تو اس طرح سے بقیہ 25روایتیں بچتی ہیں جن سے ہم واقعے کی حقیقت کا کچھ اندازہ لگا سکتے ہیں۔
آٹھویں صدی کے مشہور مورخ ابن کثیر نے بھی ابو مخنف وغیرہ کی ان روایتوں کو اپنی کتاب البدایہ و النہایہ میں درج کیا ہے اور اس کے بعد لکھا ہے:
اہل تشیع اور روافض نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بارے میں بہت سا جھوٹ اور جھوٹی خبریں گھڑی ہیں۔ جو کچھ ہم نے بیان کیا ہے، اس کا بعض حصہ محل نظر ہے۔ اگر ابن جریر (طبری) وغیرہ حفاظ اور ائمہ نے اس کا ذکر نہ کیا ہوتا تو میں اسے بیان نہ کرتا۔ اس کا اکثر حصہ ابو مخنف لوط بن یحیی کی روایت سے ہے جو کہ شیعہ تھا اور ائمہ کے نزدیک واقعات بیان کرنے میں ضعیف (ناقابل اعتماد) ہے۔ لیکن چونکہ وہ اخباری اور (خبروں کا) محفوظ کرنے والا ہے اور اس کے پاس ایسی چیزیں ہیں جو اس کے علاوہ کسی اور کے پاس نہیں ہیں، اس وجہ سے اس کے بعد کے کثیر مصنفین نے اس پر کڑی تنقید کی ہے۔ اللہ بہتر جانتا ہے۔ ) ابن کثیر 11/577، اردو ترجمہ: 8/259)
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ان ناقابل اعتماد مورخین کی روایتوں کو چھوڑ دیا جائے تو سانحہ کربلا سے متعلق ہمیں کچھ زیادہ معلوم نہ ہو سکے گا۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے، جس کا کوئی حل نہیں ہے تاہم دو صورتیں ایسی ہیں جن پر احتیاط سے عمل کیا جائے تو ہم کسی حد تک درست معلومات تک پہنچ سکتے ہیں۔
• ایک صورت تو یہ ہے کہ ان دونوں کی روایتوں کو چھوڑ کر دیگر روایات پر غور کیا جائے۔ اس سے جتنی معلومات حاصل ہوں، ان پر اکتفا کر کے بقیہ معاملات کو حسن ظن پر چھوڑ دیا جائے۔ ہمارے نزدیک یہی صحیح طرز عمل ہے۔
• دوسری صورت یہ ہے کہ ان ناقابل اعتماد مورخین کی روایات میں جہاں جہاں صحابہ کرام سے بغض ظاہر ہوتا ہو، اسے چھوڑ کر بقیہ معاملات میں ان کی باتوں کو پوری احتیاط سے قبول کیا جائے اور ان کی کسی ایسی بات کو قبول نہ کیا جائے جس میں ان کا تعصب جھلکتا ہو اور انہوں نے واقعات کو جذباتی انداز میں ایسے بیان کیا ہو کہ اس دور کے مسلمانوں کی نہایت ہی بھیانک تصویر سامنے آئے۔
سانحہ کربلا کے بارے میں بعد کی صدیوں میں کیا رواج پیدا ہوئے؟
سانحہ کربلا کے بارے میں چوتھی صدی ہجری کے بعد تین موقف رواج پا گئے ہیں۔ ایک گروہ نے اس سانحہ کے دن یوم عاشورہ 10 محرم کو ماتم اور غم کا دن بنا لیا۔ دوسرے گروہ نے اسے عید اور خوشی کا دن بنایا اور امت کی اکثریت نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کو ایک سانحہ کے طور پر دیکھا۔ انہوں نے اس کے ساتھ وہی معاملہ کیا جو دیگر انبیاء و صلحاء کی شہادت کے ساتھ کرتے ہیں۔ ابن کثیر (701-774/1301-1372)نے انہیں اس طرح بیان کیا ہے:
روافض نے سن 400 ہجری کے آپس پاس بنو بویہ کی حکومت میں حد سے تجاوز کیا۔ یوم عاشورہ کو بغداد وغیرہ شہروں میں ڈھول بجائے جاتے، راستوں اور بازاروں میں راکھ اور بھوسہ بکھیرا جاتا، دکانوں پر ٹاٹ لٹکائے جاتے اور لوگ غم اور گریہ کا اظہار کرتے۔ اس رات بہت سے لوگ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی موافقت میں پانی نہ پیتے کیونکہ آپ کو پیاسا ہونے کی حالت میں قتل کیا گیا تھا۔ خواتین ننگے منہ نوحہ کرتیں اور اپنے سینوں اور چہروں پر طمانچے مارتے ہوئے برہنہ پا بازاروں میں نکلتیں۔ اس قسم کی دیگر بدعات شنیعہ اور قبیح خواہشات اور رسوائی کے من گھڑت کام کیے جاتے۔ اس قسم کے کاموں سے ان کا مقصد بنو امیہ کی حکومت کو ذلیل کرنا تھا کیونکہ حضرت حسین ان کے دور حکومت میں قتل ہوئے تھے۔
• شام کے ناصبین نے یوم عاشورہ کو اس کے برعکس منانا شروع کیا۔ یہ لوگ یوم عاشورہ کو کھانے پکاتے، غسل کرتے، خوشبو لگاتے اور قیمتی لباس پہنتے اور اس دن کو عید کے طور پر مناتے ۔ اس میں وہ طرح طرح کے کھانے پکاتے اور خوشی و مسرت کا اظہار کرتے اور ان کا مقصد روافض کی مخالفت کرنا تھا۔ انہوں نے حضرت حسین کے قتل کی تاویل یہ کی کہ وہ مسلمانوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے لیے نکلے تھے اور جس شخص کی بیعت پر لوگوں نے اتفاق کیا تھا، اسے معزول کرنے آئے تھے۔ (باغیوں کو سزا دینے کے ضمن میں) صحیح مسلم میں اس بارے میں جو وعیدیں اور انتباہ آیا ہے، یہ ان احادیث کی تاویل کر کے ان کا اطلاق حضرت حسین پر کرتے ہیں۔ یہ جاہلوں کی تاویل تھی جنہوں نے آپ کو شہید کیا۔ ان پر لازم تھا کہ وہ آپ کو شہید نہ کرتے بلکہ آپ نے جب تین آپشنز دی تھیں، تو ان میں سے کسی ایک کو قبول کر لیتے۔۔۔۔
• ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ آپ کی شہادت پر غمگین ہو۔ بلاشبہ آپ سادات مسلمین اور علماء و صحابہ میں سے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان بیٹی کے بیٹے تھے جو آپ کی بیٹیوں میں سب سے افضل تھیں۔ آپ عبادت گزار ، دلیر اور سخی تھے لیکن شیعہ جس طریق پر بے صبری سے غم کا اظہار کرتے ہیں، وہ مناسب نہیں ہے۔ شاید اس کا اکثر حصہ تصنع اور دکھاوے پر مشتمل ہے۔ آپ کے والد (حضرت علی رضی اللہ عنہ) آپ سے افضل تھے۔ وہ بھی شہید ہی ہوئے تھے لیکن ان کے قتل کا ماتم حضرت حسین کے قتل کی طرح نہیں کرتے۔ بلاشبہ آپ کے والد 17 رمضان 40 ہجری کو جمعہ کے روز فجر کی نماز کو جاتے ہوئے قتل ہوئے تھے۔
• اسی طرح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بھی قتل ہوئے تھے جو اہل السنۃ و الجماعۃ کے نزدیک حضرت علی رضی اللہ عنہ سے افضل تھے۔ آپ ماہ ذو الحجہ 36 ہجری کے ایام تشریق میں اپنے گھر میں محصور ہو کر قتل ہو ئے تھے۔ آپ کی شاہ رگ کو کاٹ دیا گیا مگر لوگوں نے آپ کے قتل کے دن کو ماتم کا دن نہیں بنایا۔ اسی طرح حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی قتل ہوئے جو حضرت عثمان اور حضرت علی سے افضل تھے۔ آپ محراب میں کھڑے ہو کر فجر کی نماز پڑھاتے اور قرآن پڑھتے ہوئے قتل ہوئے مگر لوگوں نے آپ کے یوم شہادت کو بھی ماتم کا دن نہیں بنایا۔ اسی طرح حضرت صدیق رضی اللہ عنہ آپ سے بھی افضل تھے اور لوگوں نے آپ کے یوم وفات کو بھی ماتم کا دن نہیں بنایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا اور آخرت میں اولاد آدم کے سردار ہیں، آپ کو اللہ تعالی نے اسی طرح وفات دی، جیسے آپ سے پہلے انبیاء نے وفات پائی تھی۔ کسی نے آپ کی وفات کے دن کو بھی ماتم کا دن نہیں بنایا اور نہ وہ کام کیے ہیں جو ان روافض کے جاہل لوگ حضرت حسین کی شہادت کے روز کرتے ہیں۔ نہ ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے دن اور نہ آپ سے پہلے کسی شخص کی وفات کے دن کے بارے میں کسی شخص نے کسی ایسے مذکورہ معاملے کو بیان کیا ہے جس کا یہ لوگ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کے دن کے بارے میں دعوی کرتے ہیں۔ جیسے سورج گرہن اور وہ سرخی جو آسمان پر نمودار ہوتی ہے۔
( ابن کثیر ۔ البدایہ و النہایہ۔ 11/577 (اردو 8/259) )
• ابن کثیر نے مسلمانوں کی اکثریت کا جو موقف بیان کیا ہے، وہی ان کا اپنا نقطہ نظر بھی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کا ذکر کرنے سے ان کا مقصد یہی ہے کہ وہ اہل سنت کو اس جانب توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ شہادت حسین رضی اللہ عنہ پر ان کا موقف کیا ہونا چاہیے۔
نوٹ: یہ تحریر جناب مبشر نذیر صاحب کی کتاب ” مسلم تاریخ ” کے ماڈیول
HH03″: دور صحابہ سے متعلق تاریخی سوالات” سے اخذ کی گئی ہے۔ مکمل کتاب ان کی درج ذیل ویب سائیٹ پر دستیاب ہے۔
http://www.mubashirnazir.org


ایکسپو بک فئیر میں ہماری کتب

$
0
0


ایکسپو بک فئیر میں ہماری کتب
5th to 9th December 2013

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ہماری کتب الحمد للہ پبلش ہو گئی ہیں، جو کہ کراچی ایکسپو سینٹر میں بک فئیر میں ڈسکاؤنٹ پر دستیاب ہوں گی۔ ان کی تفصیل یہ ہے:
۱۔ دین کے بنیادی تقاضے از پروفیسر محمد عقیل
۲۔ حج کا سفر از پروفیسر محمد عقیل
۳۔ تیسری روشنی از ابو یحیی
۴۔ حادثہ دل از ابو یحیی
۵۔ قرآن کا مطلوب انسان از ابو یحیی
۶۔ اپنی شخصیت اور کردار کی تعمیر کیسے کی جائے؟ از محمد مبشر نذیر
۷۔ قرآن اور بائبل کے دیس میں۔ از محمد مبشر نذیر
۸۔ علوم القرآن۔ از محمد مبشر نذیر

۔ بک فئیر کراچی ایکسپو سینٹر میں کل سے شروع ہو کر پانچ دن جاری رہے گا۔یہ کتب ’’انذار پبلی کیشنز‘‘ کے اسٹال سے دستیاب ہوں گی انذار پبلی کیشنز کا اسٹال نمبر 28، ہال نمبر 1 ہے۔ یہ تمام کتب پر 40% ڈسکاؤنٹ پر دستیاب ہیں۔
کورئیر پر آرڈر کے لئے کال کریں:
03458206011
Title Hajj ka Safr  Final(1)


آن لائن کمائیے

$
0
0


آن لائن کمائیے
از عدیلہ کوکب
وہ لوگوں کی نگاہ میں ایک بندہ مومن تھا اور اسے خود بھی اس کا ادراک تھا۔ اس نے دس سال کی عمر میں نماز شروع کی اور کبھی کوئی نماز قصداَ نہ چھوڑی۔ پھر نماز کے علاوہ وہ انفاق، روزہ داری اور دیگر نیکیوں میں عمر کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتا چلا گیا۔ پچیس برس کا ہونے تک وہ ایک مکمل صالح مرد بن چکا تھا۔ تعلق باللہ کے ساتھ ساتھ وہ خوش اخلاق، ادب آداب کا خیال رکھنے والا ایک سنجیدہ مزاج شخص تھا، اسے کبھی قہقہ لگاتے ہوئے ہوئے نہیں دیکھا گیا کیونکہ بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قہقہ نہیں لگاتے تھے۔اس کی نگاہ ہمیشہ جھکی رہتی۔ اسے گلی کوچوں میں بلا ضرورت پھرنا نا پسند تھا۔وہ ایسا نوجوان تھا کہ بزرگ اس سے سیکھا کرتے تھے۔ وہ ہر لحاظ سے ایک آئیڈیل مسلمان تھا۔ کبھی دوست کہہ بھی دیتے
ارے صالح! کبھی ہنس کھیل بھی لیا کرو، کیا بوڑھوں جیسی زندگی گزارتے ہو۔
اور اس کا جواب ایک ہلکی سی “مسکراہٹ” کے سوا کچھ نہ ہوتا کچھ نہ ہوتا۔
کبھی دوست زیادہ مجبور کرتے تو کہتا: “نہیں بھئی مجھے ایسا کوئی کام نہیں کرنا جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم یا ان کے صحابہ نے نہیں کیا۔”
دوست تنگ آ کر خاموش ہو جاتے کہ یہ نہیں سدھرے گا۔
ٹیکنالوجی کے دور میں بھی اس کا تعلق سوشل میڈیا سے بس اتنا تھا کہ اسائنمنٹ ملی تو سرچ کر لی کبھی دل کیا تو کوئی کتاب ڈھونڈ کے نیٹ سے پڑھ لی۔ ایسے ہی ہموار سے راہ پہ صالح چلتا جا رہا تھا کہ ایک دن اس نے نیٹ پر کتاب سرچ کرتے ہوئے ایک اشتہار دیکھا۔اشتہار کسی کمپنی کی طرف سے تھا کہ “بس کلک کیجئے اور گھر بیٹھے پیسے کمائیے”۔
شو مئی قسمت کے ان دنوں صالح بے روزگار تھا اور اسے امید تھی کہ اللہ کوئی نہ کوئی امید کی کرن دکھائے گا۔ تو اس وقت اسے یہی لگا کہ یہ اللہ کی طرف سے انعام ہے اسکی نیک نیتی، پاکیزگی اور اسکی امید کا۔
اس لیے اس موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیئے۔ بس اتنا سوچتے ہی اس نے کلک کیا پوری وضاحت سامنے آ گئی کہ اگر آپ ایک ماہ میں 200 ڈالر کمانا چاہتے تو اس ویب سائٹ پر کلک کریں۔ اس کے بعد روزانہ کے چار اشتہارات آپ کو ارسال ہوں گے۔ روزانہ چار اشتہارات پر کلک کرنا لازمی ہو گا۔صالح نے سوچا “واہ یہ تو بڑا آسان کام ہے۔آگے لکھا تھا اگر آپ اس سے زیادہ پیسہ کمانا چاہتے تو اس کے لیے آپ کو ریفرل بڑھانے پڑھیں گے۔۔۔۔
ریفرل بڑھانے کے لیے اپنی آئی ڈی سے مختلف دوستوں کو ایڈ ریکوسٹ کرنا تھی۔ صالح نے اشتہار دیکھے تو حیران رہ گیا وہ اخلاقی معیار سے گرے ہوئے اشتہار تھے۔ صالح نے ایک پل کو سوچا اور اگلے ہی پل جعلی نام سے آئی ڈی بنائی اور اشتہارات لائک کرنے لگا۔ کبھی اس کا ضمیر ٹوکتا تو خود کو دلاسہ دیتا کہ میں کون سا شہوت سے دیکھ رہا ہوں اس لیے یہ گناہ نہیں ہے ۔
کچھ دنوں بعد صالح کو اس ایکٹوٹی سے آمدنی ہوئی جو اگلے ہی دن ختم بھی ہو گئی۔ صالح کے دل میں آیا کہ حرام کی کمائی ایسے ہی خرچ ہوتی اس لیے پتہ بھی نہیں چلا کوئی ضرورت پوری ہوئے بنا ختم ہو گئے سب پیسے۔ مگر اس نے دل کو تسلی دی کہ حرام تو نہیں میں محنت کرتا ہوں، کمپیوٹر چلاتا ہوں، دوسروں کو ایڈ بھیجتا ہوں تو ریفرل ملتے ہیں۔یہ تو ای کامرس (آن لائن بزنس)ہی ہے جو حرام تو ہر گز نہیں۔
اسی طرح دن گزرتے گئے صالح نے دل کے منع کرنے کے باوجودیہ کام نہ چھوڑا۔ہر دفعہ نئی طویل دے کے دل میں برپا شدہ شور کو دبا دیتا۔آہستہ آہستہ اس کی تلاوت چھوٹنے لگی اس میں بھی اس نے خود کو باور کرایا کہ میں زبانی پڑھ تو لیتا سورہ سوتے وقت۔ اس کے بعد اس کی نماز میں خشوع نہ رہا وہ نماز پڑھ رہا ہوتا کوئی اشتہار آنکھوں کے آگے گھومنے لگتا۔ اسے پتہ ہی نہ چلا کب اس کی نمازیں ختم ہوئیں کب وہ ماں باپ سے بحثیں کرنے لگا۔ کب اس کی جھکی آنکھیں میں ہر وقت کوئی نہ کوئی اشتہا انگیز منظر چلنے لگا۔
عابدو زاہد صالح تو کہیں کھو گیا تھا۔اگر کچھ صالح رہا تھا تو اسکا نام۔ سب دوست احباب پوچھتے کیا ہوا؟ تم ٹھیک تو ہو نا؟ کون سا روگ لگگا لیا ہے؟
مگر وہ کسی کو بتاتا تو کیا کہ وہ تو خود ان سب سےانجان تھا۔
ایسے ہی ایک صبح کوشگوار سی اس کے آنگن میں اتری اور اس کی جاب کی نوید لائی۔ سب بہت خوش تھے اور صالح خود بھی بہت خوش ہوا کہ جاب بہت اچھی تھی جس سے ان کے مالی حالات بہت اچھے ہوگئے۔مگر صالح کا چین سکون سب کھو چکا تھا۔ جاب ملنے کے بعد بھی وہ ایڈ لائک کرتا رہا کہ وہ ان سب کا عادی ہو چکا تھا۔ وہ صالح جو سونے سے پہلے وظائف اور قرآنی آیات پڑھا کرتا تھا اس کی بے صبری اور ایک چھوٹا سا غلط فیصلہ اسے اس موڑ پہ لا چکا تھا کہ وہ سونے سے پہلے کوئی ایڈ کھولتا ، کافی دیر آنکھیں سینکتا پھر سوتا۔
ایسے ہی ایک رات وہ اسی کام میں مگن تھا کہ اس کے والد دستک دے کر روم میں داخل ہوئے صالح نے سیکنڈ لگایا اور تیزی سے سب بند کر دیا۔ مگر اسکی اپنی ہی اس ایک سیکنڈ کی تیزی نے اس کے اندر ایک طوفان بھرپا کر دیا۔اس کے والد کہاں بیٹھے اس سے کیا گفتگو کی، کب اٹھ کے گئے اسے کچھ یاد نہیں آیا، کچھ سمجھ نہ آئی۔ یاد آئی تو اللہ کی سمجھ آیا تو یہ کہ جو کام میں والد کے دیکھنے کی بنا پر بند کر دیا وہ کام میں اللہ کے دیکھنے کے باوجود کرتا رہا۔
وہ سوچے جا رہا تھا روئے جا رہا تھا۔ آنسو تھے کہ تھمنے کا نام نہ لیتے تھے۔ اسکا اپنا دل اور دماغ اسکے خلاف بول رہے تھے۔
مجھے سب نیک کہتے تھے اور میں اتنا بدبخت کہ اپنے مالک کا کھاتا رہا اور کام شیطان کے کرتا رہا۔میں جو بڑا پر اعتماد تھا کہ میں بڑی سے بڑی آزمائش میں ثابت قدم رہ سکتا میں تو ایک چھوٹے سے ہتھکنڈے کے سامنے ایسا لڑکھڑایا کہ سب تباہ ہو گیا سب اپنے ہی ہاتھوں ضائع کر دیان میں نے۔ مجھ سے اچھے تو جانور ہیں جو اپنے مالک کے وفادار رہتے۔ میں جو ہر لمحہ اپنے مالک کی محبت اور وفاداری کا دم بھرتا تھا کہاں گئی وہ محبت وہ وفاداری؟ مجھ سے بہتر تو کتا ہے جو جان دے دیتا مگر مالک کی نافرمانی نہیں کرتا، غداری نہیں کرتا۔
اسے لگ رہا تھا اس کا دل بند ہو رہا۔ وہ سوچتا گیا اور روتا رہا کوئی روشنی کی کرن نہیں مل رہی تھی۔ وہ آزمایا گیا تھا اور آزمائش میں فیل ہو گیا۔
وہ ناشکرا تھا۔بے صبرا تھا
غدار تھا
اور یہ سب اس کا اپنا دل کہہ رہا تھا۔ وہ لمحہ لمحہ ٹوٹ رہا تھا اسے جوڑنے کے لیے کوئی نہیں تھا۔ وہ پگھل رہا تھا اسے سنبھالنے کے لیے کوئی نہیں تھا۔
روتے روتے وہ اٹھا پھر اسے نہیں پتا کب اس نے وضو کرنا شروع کیا اور کب قرآن ہاتھ میں لیا۔
اس نے قرآن پاک کانپتے ہاتھوں سے پکڑا اور کعبہ طرف منہ کر کے آنسوؤں کے ساتھ قرآن پاک کو بغیر دیکھے کھولا۔ اس کی نظر ایک آیت پرپڑھی اسے لگا ساری روشنی، ساری امیدیں اسے مل گئیں۔ اس نے بار بار پڑھا۔ جوں جوں پڑھتا جاتا اس کے بے قرار دل کو قرار آتا جاتا۔آیت تھی یا اس کے لیے ابھی اتاری گئی کوئی امید۔
“اور جب تمہارے پاس ایسے لوگ آیا کریں جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں تو (اُن سے) سلام علیکم کہا کرو۔ خدا نے اپنی ذات پر رحمت کو لازم کرلیا ہے کہ جو کوئی تم میں سے نادانی سے کوئی بری حرکت کر بیٹھے پھر اس کے بعد توبہ کرلے اور نیکوکار ہوجائے تو وہ بخشنے والا مہربان ہے” (الانعام54:6)
اس کے بعد صالح نے قرآن رکھا۔ کیوں کہ وہ جان گیا تھا اب اسے کیا کرنا ہے اسے روشنی مل گئی تھی ایک دفعہ پھر اللہ نے اسے راہ دکھا دی تھی۔ اسے جھکنا تھا۔ اسے توبہ کرنی تھی۔ اسے اعتراف کرنا تھا اسے معافی مانگنی تھی۔ وہ سب جان گیا تھا اسلئے اس نے قرآن رکھ کر وہ نماز کے لیے کھڑا ہو گیا اور بہت لمبی سی دو رکعت پڑھیں۔
اللہ کے سامنے اپنے جرم کابار بار اعتراف کیا، گڑگڑایا بہت توبہ کی اور وعدہ کیا کہ آئندہ ایسا نہیں کروں گا بس ایک بار راضی ہو جا ۔ آئندہ تجھے ہر وقت اپنے پاس محسوس کروں گا مجھے پتہ ہے تو ہر وقت مجھے دیکھ رہا ہوتا ہے۔ اسی کے ساتھ اس نے یہ فیصلہ کیا کہ جتنی بھی حرام کی کمائی اس نے حاصل کی ہے وہ اسے انفاق کردے گا۔ اس آہ و زاری اور توبہ استغفار سے اسے اتنا سکون ملاکہ وہ پانچ سال کے بعد پہلی دفعہ نیند کی گولیاں کھائے بغیر سو گیا۔
اس کے چہرے پہ سکون تھا، مسکراہٹ تھی اور ایک انجانی سے خوشی کہ کوئی بھی سوئے ہوئے بھی دیکھتا تو اسے دنیا کا خوش اور مطمئن ترین انسان سمجھتا۔ اور یہ سب اس لیے تھا کہ ایک نئی زندگی جس میں سکون ہی سکون تھا شکر ہی شکر تھا اس کی منتظر تھی۔

نئی صبح یقیناَ نئی صبح بن کر صالح کے دل میں اترنے والی تھی جو اسے رب کے ساتھ کے ساتھ مکمل صالح بنانے والی تھی۔
عدیلہ کوکب


Viewing all 326 articles
Browse latest View live