بدھا کے دیس میں
سفر نامہ از راعنہ نقی سید
بدھا کےدیس میں
سفر نامہ پی ڈی ایف میں ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں یا سائٹ پر پڑھنے کے لیے نیچے اسکرول کریں۔
updatedبدھا کےدیس میں
سفر نامہ
انسان کی فطرت ہے کہ یکسانیت سے اکتاہٹ محسوس کرتا ہے اور نئے اور انوکھے تجربات میں سکون کا متلاشی رہتا ہے۔سفر اورسیاحت کا شمار بھی ایسے ہی تجربات میں ہوتا ہے۔بسااوقات یہ آوارہ گردی ایک جنون کا روپ دھار لیتی ہے۔ انسان اس کا شکار ہو جائے تو نئی منزلوں اور ان دیکھی راہگزروں کی طرف سفر کے سوا کوئی چیز اس دیوانگی کا علاج نہیں کر سکتی۔ لیکن ایسے لوگوں کے لئے
یہ جنون بھی عقل کی علامت ہے۔بقول فیض
انہی کے فیض سے بازارِعقل روشن ہے
جو گاہ گاہ جنون اختیار کرتے رہے! !
اگرچہ فیض نے یہاں کسی اور "جنون” کا ذکر کیا ہے ۔۔مگر کیا ہے کہ ہر شخص کا جنون بھی جدا جدا ہوتا ہے ۔ تو بات اتنی سی ہے کہ گرمیوں کی چھٹیاں شروع ہوتے ہی میرے اندر بھی اِسی جنون نے پھر انگڑائی لینا شروع کر دی ۔کسی اچھی سی جگہ پر تعطیلات گزارنے کی خواہش دل میں کلبلانے لگی۔سعودی عرب کے صحرائی ماحول سے دور کسی سر سبز اور ٹھنڈے ملک کا انتخاب اولین ترجیح تھی جو زیادہ دور بھی نہ ہو۔
ترکی کافی عرصے سے میری ہٹ لسٹ میں تھا۔سفر کی ضروری کاروائی پر معلومات حاصل کیں تو پتہ چلا کہ ترکی کے ویزا کے حصول میں کافی وقت درکار ہے۔ دوبارہ تلاش شروع کی۔ انٹر نیٹ اور دوستوں سے معلومات لینے کے بعد قرعہ فال سری لنکا کے نام کا نکلا۔دو تین دن کے اندر ای-ویزا ایشو کر دیا گیا۔ایک دفعہ پھر انٹرنیٹ پر سری لنکا کے لئے تمام ٹور پیکجز کو کھنگالنا شروع کیا۔ وہاں کے تمام قابل دید مقامات اور گوگل میپ سے ان مقامات کے درمیانی فاصلے کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک پیکج کا انتخاب کیا مبادا سفر اتنا ہو کہ تھکن ہو جائے۔اپنی مہم جُو فطرت کے پیشِ نظر منتخب کردہ پیکج میں کچھ تبدیلیاں کروائیں ۔جون کے قدرے مرطوب موسم کو دیکھتے ہوئےایسے آثار قدیمہ کا انتخاب کرنے سے گریز کیا جہاں زیادہ دیر دھوپ میں پیدل چلنا پڑے ۔ اس کے بعد زور شور سے وہاں کے موسم اور ضروریات کے مطابق تیاری شروع کر دی۔اور چند ہی دن کے بعد ہم سری لنکا کی طرف عازم ِسفر ہو گئے۔
سری لنکا شمالی بحر ہند میں ایک جزیرہ ملک ہے جوجنوبی ایشیا کی قدیم تہذیب کا امانت دار اور اپنی نوعیت کی واحد مملکت ہے۔ 1972ء سے قبل اس علاقے کو جزیرۓ سیلون یا سراندیپ بھی کہتے تھےمؤخرالذکرنام عربوں کے ہاں زیادہ مقبول تھا۔1948ء میں سری لنکا برطانوی تسلط سے آزاد ہوا کولمبو جو برطانوی راج میں دارالسلطنت تھا، آج بھی سری لنکا کا دارالحکومت ہے۔ تھیرواد بدھ مت سری لنکا میں سب سے بڑا مذہب ہے، جو کل ملکی آبادی کا 70 فی صد ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اشوکا کے ایک بیٹے "ماہندہ ” نے یہاں بدھ مت کی تبلیغ شروع کی اس کے بعدبہت جلد یہ علاقہ بدھ مت کا مرکز بن گیا۔بدھ مت کے پیروکاروں کے علاوہ یہاں مسلمان اور عیسائی بھی موجود ہیں ۔دور جدید میں، اسلام سری لنکا کا تیسرا بڑا مذہب ہے مسلمان 9.7 فی صد ہیں ۔سری لنکا کی اسلامی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنا خود اسلام، کیونکہ اس سرزمین کے ساتھ عربوں کے قدیم تجارتی تعلقات قائم تھے اور ہندوستان کی فتح سے قبل ہی بحری عرب تجار یہاں پر اسلام کو روشناس کراچکے تھے۔ تا ہم باقاعدہ مسلمانوں کی تاریخ یہاں اس وقت شروع ہوئی، جب جنوبی ہندوستان کے راستے نور اسلام کی کرنیں یہاں پہنچنا شروع ہوئیں۔
اس ملک کے بارے میں مشہور ہے کہ آدم علیہ السلام کو بھی سری لنکا میں ایک پہاڑ پر اتارا گیا تھا جہاں ان کے قدم کا نشان بھی محفوظ ہے۔(یہ پہاڑ Adam Rock کے نام سے مشہور ہے ہمارے ٹور مینجر کے مطابق جون میں یہ تیز ہواؤں کی وجہ سے سیاحوں کے لئے بند کر دیا جاتا ہے اس لئے ہم وہاں جانے سے محروم رہ گئے) ۔
سری لنکا دریا، پہاڑ، میدان، سمندر اور جنگلات جیسے قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ یہاں اس کے علاوہ ہر قسم کے قدرتی مناظر،صاف ستھرے ساحل اور زمانۂ قدیم کے آثار کو ملا کر وہ سب کچھ موجود ہے جن کوایک سیاح دیکھنے کی خواہش رکھتا ہے۔ اگر آپ باہر کےملک کی سیرکرنا چاہتے ہیں، تو اس مرتبہ سری لنکا ضرور چکر لگا لیں۔
نیا ملک اور نئی جگہیں دیکھنے کے جوش کے ساتھ ہم ریاض سے روانہ ہوئے۔راستے میں دوبئی میں چند گھنٹے قیام کیا اور اس کے وسیع و عریض اور جدید ائیر پورٹ کی بھول بھلیوں میں چکر کاٹنے کے بعد متعلقہ ٹرمینل کے سامنے جا کر فروکش ہو گئے۔جلد ہی کولمبو کے لئے ہمارے سفر کا آغاز ہو گیا۔
کولمبو
مقامی وقت کے مطابق صبح 8 بجے کے لگ بھگ ہم نےاپنی آنکھوں انتہائی اشتیاق اور دل میں ازبس شوق لئےسری لنکا کی سرزمین پر قدم رکھا۔ بندرا نائیکےکولمبو ائیر پورٹ کی عمارت تو دوبئی کے مقابلے میں کچھ نہ تھی مگر سروس لاجواب تھی۔ اردگرد بے شمار سیاح نظر آ رہے تھے، دل میں سوچا کہ نامعلوم اور کتنی دیر یہاں سے باہر نکلنے میں لگ جائے گی کیونکہ پہلے کئی دفعہ ہمارے ساتھ ایسا ہو چکا تھا۔ لیکن اس کے عین برعکس کچھ ہی دیر میں امیگریشن کی تمام کاروائی مکمل ہو گی اور ہم سامان والی بیلٹ کی طرف یہ سوچ کر آہستہ آہستہ بڑھنا شروع ہوئے کہ پچھلے تجربات کی روشنی میں سامان آنے میں ایک ڈیڑھ گھنٹہ تو کہیں نہیں گیا۔ لیکن دو منٹ کے اندر اندر بیلٹ پر ہمارا سامان آنا شروع ہو گیا اور اگلے پانچ منٹ میں ہم ائیر پورٹ سے باہر تھے۔ یہ تھا سری لنکا سے ہمارا پہلا تعارف جو نہایت خوش گوار رہا۔ اس کے بعد اگلے سات دن تک ہمیں اسی طرح کی خوش گوار حیرتوں کے جھٹکے لگتے رہے۔
ائیرپورٹ سے باہر نکلے تو موسم کافی مرطوب تھا جو کہ ہماری انٹر نیٹ کی معلومات کے عین مطابق تھاکہ جون میں وہاں کا موسم پندرہ دن بارش کے ساتھ ایسا ہی ہونا تھا۔ لیکن آگے چل کر یہ تجربہ بھی نہایت خوشگوار ثابت ہوا۔ ایک تو سری لنکا کی گرمی سعودی عرب اور پاکستان کی طرح کاٹ دار نہ تھی ،گاہے بگاہے ہونے والی بارش کی وجہ سے قابل برداشت تھی ۔
سچ پوچھیں تو سعودی عرب میں سال بھر میں ایک دفعہ بارش دیکھنے والے ہم جیسے لوگوں کے لئے یہ ایک آئیڈیل ماحول تھا ۔ سری لنکا کی شاپنگ میں ہم نے سب سے پہلےچھتریاں ہی خریدی تھیں یہ الگ بات ہے کہ سوائے ایک آدھ بار کے ان کے استعمال کاموقع ہی نہ ملا۔ ہوٹل میں ٹھہرنے والوں کے لئے ہر جگہ کمروں میں چھتریاں موجود تھیں۔ میں سری لنکا کی بارش کا بھی تعارف کروا دوں کہ پاکستان کی طوفانی قسم کی بارشوں کے برعکس وہاں نہایت تمیز دار بارش ہوتی ہے کم از کم ہمارے ہوتے ہوئے تو ایسی ہی ہوئیں، تھوڑی دیر کو بوندا باندی ہوئی اور پھر ختم۔ کہیں پر بھی کسی کا کوئی کام متاثر نہیں ہوتا۔ چھتری ہر وقت ہر بندے کے ہمراہ ہوتی ہے اور یوں ہی ہر جگہ زندگی رواں دواں رہتی ہے۔ آپ پورے اطمینان کے ساتھ اپنے شیڈول کے مطابق کام جاری رکھ سکتے ہیں۔
ائیرپورٹ کے باہرٹور پیکج والوں کی طرف سے بھیجا گیا ہمارا ڈرائیور، بہت سے دوسرے ڈرائیور حضرات کے بیچ میں ہمارے نام کا پلے کارڈ اٹھائے ہمارا منتظر تھا۔ سمارٹ سا سری لنکن خدوخال والا ایک مہذب سا نوجوان، جس کی معیت میں ہم نے سری لنکا کے طول و عرض کی سیر کی۔ وہ ایک ڈرائیور ہونے کے ساتھ ایک بہترین گائیڈ بھی تھا۔ اس نے انتہائی پروفیشنل انداز میں شستہ انگریزی میں ہمیں ہر جگہ معلومات فراہم کی اور سفر کے دوران کہیں شکایت کا موقع نہ دیا جو کہ ہم سب کے لئے خوشگوار حیرت کا سبب تھا۔
ہمیں فراہم کی گئی گاڑی بھی حسب وعدہ نہایت آرام دہ ، capaciousاور ائرکنڈیشنڈڈ تھی اور سامنے ڈیش بورڈ پر مہاتما بدھ کی ایک چھوٹی سے سفید مورتی رکھی ہوئی تھی۔اب بدھا کے دیس میں آئے ہیں تو بدھا تو ہمراہ ہوں گے ہی ناں!!
ہم پانچ لوگ اپنے چھ صندوقوں سمیت اس پر سوار ہو گئے بلکہ ایک ایک سیٹ پر نیم دراز ہو گئے۔ سفر شروع ہوا، باہر کا منظر بھی نہایت حسین تھا، کہیں بارش، کہیں جھیلیں اور ہر جگہ پھیلے ہوئے سرسبز درخت، نگاہوں کو بہت بھلے لگ رہے تھے۔
کولمبو کی شہری آبادی شروع ہوئی تو منظر اپنا اپنا سا لگنے لگا۔ ایسا لگا کہ جی ٹی روڈ پر جہلم سے لاہور کا سفر جاری ہے، ٹریفک کا اژدہام، سڑک کے دونوں طرف چھوٹی دکانیں اور سٹورز اور چلتے پھرتے اور کام میں مصروف لوگ۔ ہلمٹ کے بغرے کوئی ایک بھی موٹر سائکلے سوار نظر نہںس آیا۔ ڈرائیور سے وجہ پوچھی تو پتہ چلا کہ ٹریفک قواننر کی خلاف ورزی کرنے والے کو بھاری جرمانہ عائد کاٹ جاتا ہے۔ اس سارےمنظر میں ایک چیز مختلف تھی، وہ تھی کثیر تعداد میں چلتی پھرتی عورتیں جو ڈھیلی ڈھالی اسکرٹ یا جینز اور شرٹ میں ملبوس ہر جگہ دکھائی دےرہی تھیں۔
میں نے سری لنکا میں چھوٹی دکانوں، بڑے سٹورز، فیکڑیز (ہم نے ایک ٹی فیکڑی کا بھی دورہ کیا تھا)، ہوٹلز کے استقبالیہ سے لیکر کچن تک، دفاترہر جگہ عورتوں کو مصروف کار دیکھا۔ جو بوڑھی عورتیں کچھ اور نہ کر سکتی تھیں، ان کو دیکھا کہ وہ سڑک کے کنارے ٹھیلہ لگائے یا چھابڑی میں مقامی پھل فروخت کر رہی تھیں ، سب میں یہ بات مشترک تھی کہ ان کے لباس سیدھے سادے تھے، کسی قسم کے میک اپ سے بےنیاز وہ اپنے معمول کے کاموں میں مصروف تھیں اور کوئی ان کو گھور تک نہ رہا تھا ۔ نہ وہ خود کو دکھا رہی تھیں نہ کوئی ان کو دیکھ رہا تھا بلکہ سری لنکا کی سڑکوں پر آپ کو خواتنت بھی بکثرت موٹر سائکلس، ٹرک، بسں اور ویںن چلاتی نظر آئںں گی۔۔۔۔۔یہ تھا حیرت کا ایک اور جھٹکا کہ عورتں آزادی کے ساتھ مردوں کے شانہ بشانہ معاشی تگ دو اورقومی ترقی مںک شامل ہں ۔
جلد ہی کولمبو کے ساحل سمندر کے پاس بلند عمارتوں کا جدید علاقہ شروع ہو گیا ۔ کولمبو اپنے اندرجدید طرزِزندگی اور قدیم تہذیبی آثار دونوں کو سموئے ہوئے ہے۔مرکزی شہر میں بینک، دفاتر،ریستوان ، قدیم و جدید مندر اور کئی سیاحتی مقامات ہیں ۔ساحلِ سمندر کے نزدیک ہی بڑی بڑی عمارتوں کے پہلو میں ایک نو تعمیر شدہ ہوٹل سری لنکا میں ہماری پہلی قیام گاہ تھا۔ ہمیں بلند اور جدیدعمارتوں سے کوئی دلچسپی نہ تھی کہ وہ ریاض میں بہت ہیں ۔ہاں سمندر ہماری نگاہوں کا مرکز تھا۔ہوٹل میں داخل ہوئے توخاتون ریسپشنسٹ نےچیک اِن کی ضروری کاروائی سے مستعدی سے گلوخلاصی کروا دی۔کمرے میں پہنچ کروہاں موجود چائے کافی اور ہلکےپھلکےسنیکز کھا کر کچھ دیر آرام کے لئے لیٹ گئے۔ قیلولہ کے بعد سب تازہ دم ہو گئےعصر کے بعد ہم ساحل سمندر جانے کے لئے تیار تھے باہر ہلکی ہلکی بارش جاری تھی جو کہ سری لنکا کا خاصہ ہے۔ ہم نے نہایت شوق سے چھتریاں اٹھائیں اور باہر کا رخ کیا۔ راستے میں پزا ہٹ سے اپنی اپنی پسند کا پزا آرڈر کیا اورڈٹ کرکھایا۔باہر نکلے اور پانچ منٹ کی واک کی بعد ہم ساحل پر پہنچ گئے۔
راستے میں سری لنکا کی پارلیمنٹ کی پرانی پرشکوہ عمارت بھی نظر آئی جو کہ 1930 سے لیکر 1983 تک نمائندگان کےزیر استعمال رہی ۔ یہ عمارت کافی حد تک یورپی طرز ِتعمیر کی عکاسی کر رہی تھی کیونکہ اس کو سری لنکا پر برطانوی راج کے دوران تعمیر کیا گیا تھا۔ اب اس کو صدارتی سیکریٹریٹ کےطور پر استعمال کیا جاتا ہے۔عمارت کے وسیع و عریض لان میں کئی کانسی کے مجسمے نصب تھے جو پرانے وزراء اعظم اور برطانوی راج کے دوران بنائی گئی قانون ساز اسمبلی میں پہلے سری لنکن نمائندے کی یاد میں بنائے گئے ہیں۔کچھ دیر ان کو خراج تحسین پیش کرنے کے بعد ہم آگے بڑھ گئے۔
بارش تھم چکی تھی، ٹھنڈی اور پرسکون ہوا چل رہی تھی سورج غروب ہونے میں ابھی کافی وقت تھا۔ سامنےٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر اپنے خالق کی طاقت کی گواہی دے رہا تھا۔دیر تک ہم وہاں گھومتے رہےسمندر پر ڈوبتا ہوا سورج اور منہ زور موجیں۔۔کیا قابلِ دیدمنظر تھا!! میں نے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس کو اپنے دل اور اپنے کیمرے میں سمو لیا۔ مغرب کا وقت ہو ا تو واپسی کی راہ لی۔
رات کا کھانے پر ہم میاں صاحب کے ایک سری لنکن دوست کی طرف سے قریب ہی ایک اور ہوٹل میں مدعو تھے۔ تیار ہو کر وہاں پہنچے۔پانچ ستاروں والےاس ہوٹل کے اندر ایک پوری دنیا آباد تھی، انٹر کانٹی نینٹل کھانوں کے علاوہ ہوٹل کے ایک حصے میں مدھم روشنیوں میں بسےایک چھوٹے سےجنگل کے بیچوں بیچ مختلف ہٹس بنے ہوئے تھے ، انہی میں ایک بہت قدیم برگد کے درخت کے نیچے ایک ہٹ میں ریسٹورنٹ بھی بنا تھا۔ ہوٹل کے اِس حصے میں سارےماحول، یہاں تک کہ کام کرنے والوں کے لباس سے بھی مکمل طور پر سری لنکا کےکلچر اور ثقافت کی عکاسی کی گئی تھی۔یہی سب کچھ دیکھنے کے متمنی تھےہم!
کچھ دیر جنگل میں نایاب قسم کے بے شمار پودوں اور درختوں میں گھومنے کے بعد بھوک کا احساس ہوا تو ریسٹورنٹ کا رخ کیا۔ویٹرنے مسکراتے ہوئےذرا سا جھک کر”آئبوان Ayubowan” کہہ کر ہمیں خوش آمدید کہا۔ مطلب پوچھا تو بتایا گیا کہ اس سے مرادہے May you live long اس کے بعد میں جس غیر مسلم سری لنکن سے ملی اس کو آئبوان ضرور کہا۔کھانے والے ہٹ میں انواع و اقسام کے کھانے ہمارے منتظر تھے، ہر طرح کی سمندری مخلوق، سبزیاں ، چاول اور گوشت سے بنی ڈشز مٹی کےبرتنوں میں موجود تھیں۔ان کے ساتھ ناموں کی تختیاں پڑھ پڑھ کر آکٹوپس،کریب اورسکوئڈ(اس کا اردو نام آپ نے زندگی میں کبھی نہ سنا ہو گا؛قیرماہی یاطعمہ ماہی )سے آنکھیں چراتے ہوئےاپنی پسند کی کچھ چیزیں منتخب کیں۔
کھانے کے ساتھ پھلوں کا تازہ جوس آرڈر کیا گیا۔ پہلی دفعہ Passion (اسکا کوئی اور نام معلوم نہیں، دیکھنے میں یہ ہمارے امرود جیسا تھا مگر اندر سے بالکل مختلف تھا ،تصویر موجود ہے) نام کے ایک مقامی پھل کا لذیذجوس پیا اور اس کے بعد اس کی محبت میں اتنے passionate ہوئے کہ ہر دن پیا۔ میں نے ” ناریل کنگ ” بھی آرڈر کیا کیونکہ یہ میرے لئے ایک نئی چیز تھی لیکن کچھ خاص پسند نہ آیا۔
کھانے کے بعد Dessertsوالے ہٹ کی طرف رخ کیا۔یہاں بھی بے شمار اقسام کی مقامی مٹھائی اور پھل موجود تھے ۔ میں نے خاص طور پر پھلوں کے ساتھ پورا پورا انصاف کیا بلکہ وہاں کے انتہائی میٹھے آم، مالٹے رنگ کے پپیتے اور تربوز کے ساتھ آخری دن تک دوستی نبھائی اور کسی دن ان کے بغیر اپنا ناشتہ اور ڈنر مکمل نہیں کیا۔قدرت نے سری لنکا کو بےشمار اقسام کے پھلوں سے نوازا ہے۔ صرف کیلےکو ہی لے لیں اس کی تقریباً 22مختلف اقسام وہاں پائی جاتی ہیں۔ ناریل، پپیتا،آم،تربوز وغیرہ کے علاوہ میں نے وہاں ایسے بے شمارپھل بھی دیکھے جو اس سے پہلے کبھی نہ دیکھے تھے اس کی تفصیل آگے آئے گی۔
پیٹ پوجا کرنے کے بعدنو بجے کے لگ بھگ میں نے سوچا ہوٹل سے ملحقہ شاپنگ پلازا کا چکر لگا لیا جائے لیکن کیا دیکھتے ہیں کہ کولمبو جیسے بڑے شہر میں ساری کی ساری مارکیٹ بند ہو چکی تھی۔ہم سعودی عرب کی روٹین کے عادی لوگوں کے لئے یہ بڑی حیرت کی بات تھی کہ ریاض میں تمام مارکیٹس رات بارہ بجے بند ہوتی ہیں۔ ہمارے میزبان نے بتایا کہ سری لنکا کے لوگ جلدی سونے اور جلدی جاگنے کے عادی ہیں اس لئے نو بجے کے بعد کوئی دکان کھلی نہ ملے گی۔اس جفاکش قوم کی اس ادا نے بھی مجھے متاثر کیا۔ اس قوم کی دیگرمحبوب اداؤں کی تفصیل آپ کو آگے بتاؤں گی۔
ایک بھرپور اور نئی دنیا میں اتنا اچھا وقت گزارنے پر اللہ کا شکراور اپنے میزبانوں کا شکریہ ادا کرنے کے بعد واپسی کی راہ لی ۔
اگلی صبح کو ہوٹل کے بوفے ناشتہ سے لطف اندوز ہوئے ۔دیگر بےشمار قسم کے انٹر کانٹینٹل کھانوں میں سے مجھے سوپ نما روایتی ڈش بہت پسند آئی جو کہ ناریل کے دودھ اور خاص قسم کے چاول سے تیار کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ سری لنکاکی Specialty انڈے اور چاول کے آٹے اور ناریل کے دودھ سے بنے کریپ کے اندر پکا ہوا انڈہ تھا، جس کو Egg hopper کہتے ہیں(تصویر دیکھیے)۔اس کو ایک خاص قسم کی چھوٹی سی کڑاہی میں پکایا جاتا ہےآپ چاہیں تو انڈے پر کالی مرچیں ،بھنی ہوئی پیاز یا جو آپکا دل چاھے، چھڑک لیں۔اگلے ہر ناشتے میں یہ بھی میراساتھی رہا۔ناریل سری لنکن کھانوں کا خاص جزو تھا، ہر روز ناریل سے بنی ہوئی نت نئی اور لذیذ ڈشز ہمارے لذتِ کام و دھن کا سامان بنتی رہیں۔
سگیریا
ناشتے کے فوراً بعد ہم سگیریا (Sigiriya) روانہ ہوئے ،سامان پہلے ہی تیار تھا۔ یہ ایک تاریخی مقام ہے جو کولمبو سے تقریباً چار گھنٹے کی مسافت پرسب سے زیادہ سیر کرنے والی جگہ ہے۔سگیریا کے قدیم محلات میں داخل ہونے کے لئے سیاحوں کو ٹکٹ لینا پڑتا ہے اور سارک ممالک کےشہریوں کے لئے اس میں خاص رعایت ہےلیکن یہ صرف پاسپورٹ دکھانے پر ہی ملتی ہے .۔پاکستان چونکہ سارک ممالک میں شامل ہے اس لئےیہ رعایت ہمیں بھی ملی۔ اپنے پاکستانی پاسپورٹ کی اس قدرو قیمت پر دلی خوشی محسوس ہوئی۔اگر آپ کاوہاں جانے کا پلان ہو تو پاسپورٹ ضرور ساتھ رکھیں۔ ٹکٹ لینے کے بعد ہم قدیم شہر کے کھنڈرات کی طرف بڑھے جو کہ ایک بہت بڑی مستطیل چٹان کے اوپر اور اردگرد واقع ہیں۔ایک گائیڈ کو اپنے ساتھ رکھا جس نے چھوٹتے ہی سینہ بہ سینہ منتقل شدہ معلومات طوطے کی طرح فرفر منتقل کرنا شروع کر دیں۔
تاریخ بتاتی ہے کہ بادشاہ کشیاپا King Kasyapa یا Kashyapa (477ء تا 595 ٫عیسوی)نے اس جگہ اپنا محل اور قلعہ تعمیر کروایا۔ شاہی روش کے عین مطابق اس کی بے شمار بیگمات تھیں جن کی تعداد پانچ سو تک بیان کی جاتی ہے۔مزید یہ کہ اس نے یہ بادشاہت اپنے والد کا تختہ الٹ کر حاصل کی تھی اور سلطنت کے اصل وارث اپنے بھائی ” موگلان”کو وراثت سے بے دخل کر دیا ۔ موگلان تو کسی طرح جان بچا کر ہندوستان بھاگ گیا مگر اس ظالم نے اپنے باپ کا بھی خیال نہ کیا ۔کہا جاتا ہے کہ پہلے ان کو قید میں رکھا اور پھر اپنی بادشاہت کو محفوظ کرنے کے لئے ان کو پھانسی دے دی ۔ کشیاپا اپنی سلطنت بچانے کے لئے اس قدر فکر مند رہتا تھا اس لئے اس نے اپنا محل اس دیو قامت پتھر پر بنوایا۔ یہ پتھر660 فٹ اونچا ہے۔اس کو Lion Rockیا شیر والی چٹان بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے چاروں طرف گھنے جنگلات ہیں۔اس کے سامنے کھڑے ہو کر میں نےکچھ دیر چشم تصور سے دیو ہیکل چٹان پر اور اس کے اردگرد محلات کا نظارہ کیا۔ دیکھنے والوں کے لئےکیا ہی مرعوب کن منظر ہوتا ہو گا!
ایسے کئی بادشاہوں کے ذکر سے تاریخ کے گرد آلود صفحات اَٹے پڑے ہیں اور اب ان کے محلات کے کھنڈرات "دیدہ عبرت نگاہ” بنے ہمیں دنیا کی بےثباتی کا درس دے رہے ہیں۔بے شک”كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلالِ وَالإِكْرَامِ” (جو کوئی بھی زمین پر ہے سب کو فنا ہونا ہےاور تمہارے پروردگار کی ذات جو کہ صاحب جلال و عظمت ہے، باقی رہے گی) مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے!! مگرافسوس کہ تاریخ سے سبق حاصل کرنے والے کم ہی ملتے ہیں۔
LION ROCK
گو کہ ہمیں اس سلطنت کی بادشاہی سے کوئی دلچسپی نہ تھی تاہم ہم نے چٹان کو سر کرنے کا ارادہ کیا۔ سفید پتھر اور سرخ اینٹوں سے بنی قدیم سیڑھیوں کی طرف بڑھے۔ سیڑھیاں خاص قسم کےسفید ماربل سے بنی ہوئی تھیں جو گائیڈ کے مطابق اندھیرے میں بھی روشن ہوتی ہیں۔جن کے دونوں جانب غار بنے ہوئے تھےجو پرانے زمانے میں مختلف اجلاسوں کے لئے ہال کے طور پر استعمال ہوتے تھے۔ اس پتھر کے ایک طرف سیڑھیاں اوپر کو چڑھتی ہیں۔ راستے میں جگہ جگہ آرام کے لئے بالکونیاں بنی ہوئی ہیں جو شاید شاہی خاندان کے افراد کے آرام کےلئے کام آتی ہوں گی ہم نے بھی اس شاہی روش کی پوری تقلید کی اور جگہ جگہ رکتے ہوئے آگے بڑھے۔
راستے میں ایک غار میں ہاتھ سے بنی ہوئی پینٹنگز کی گیلری موجودتھی جو کہ مذکورہ بادشاہ کے حکم پر بنائی گئی تھی ۔ذرا سا اندر جا کر دیکھا تو دیواروں پرعورتوں کی ایسی تصاویر بنی تھی جو بادشاہ کی عیاش پسند طبیعت کی غمازی کر رہی تھی۔گائیڈ نے بتایا کہ بادشاہ نے اپنی تمام500 بیویوں کی تصاویریہاں بنوائی تھیں جو بعدمیں بدھ راھبوں نے تباہ کر دیں یعنی کہ یہ ایک بہت بڑی گیلری تھی۔نہ جانے بادشاہ سلامت کو اتنی ساری زندہ بیویوں کے ہوتے ہوئے، ان کی تصاویر بنانے کا خیال کیونکر آیا ؟بہرحال بادشاہ کی مرضی کے سامنے کس کی مجال ؟ہم نےان پر نظر ڈالتے ہی لاحول پڑھا اور فوراً باہر کی راہ لی اور مزید آگے چڑھنا شروع کر دیا۔
پینٹنگ وال سے ذرا آگے مرر وال یعنی دیوار آئینہ ہے۔جہاں دراصل کوئی آئینہ تو نصب نہیں بلکہ خاص قسم کا سفید پینٹ کیا گیاہے۔ شاید جب یہ بنا ہو گا تو اس قدر نفیس ہو گا کہ اس میں بادشاہ سلامت اپنا عکس دیکھتے ہوں گے۔ امتداد زمانہ کے بعد اب یہ صرف نام کا آئینہ رہ گیا ہے۔ اس دیوار پر صدیوں پرانے اشعاربھی لکھے ہوئے ہیں جن کی تاریخ آٹھویں صدی تک جا ملتی ہے۔ (خیر وال چاکنگ میں تو ہماری قوم بھی کسی سے پیچھے نہیں آپ جانتے ہیں اور مورخ ہماری دیواروں کے کھنڈرات دیکھ کر یقیناً یہی لکھے گا کہ اس خطے میں زنانہ و مردانہ پوشیدہ بیماریوں کے سب سے زیادہ کلینک پائے جاتے تھے)۔
ہمارااوپر چڑھنے کا سفر جاری تھا۔ سیاحوں کے علاوہ یہاں بڑی تعداد میں سفید لباس میں ملبوس طالب علم بھی نظر آ رہے تھے۔ پتہ چلا کہ بدھ مت میں سفید رنگ کو مقدس رنگ سمجھا جاتا ہے۔مذہبی رسومات کی ادائیگی کے وقت سفید لباس ہی زیبِ تن کیا جاتا ہے۔ اسکولوں اور کالجوں کے لڑکے لڑکیاں اور اساتذہ بھی سفید رنگ کے کپڑے اور ساڑھیاں پہنتے ہیں۔ اوپرچڑھتے ہوئے آدھے راستے میں ایک چپٹی جگہ آتی ہے جہاں سے محل کی جانب دروازہ نما راستہ ہے جس کے دونوں جانب شیر کے پنجے بنے ہوئے ہیں۔ ان کی نسبت سے ہی اس کو لائن راک کہا جاتا ہے۔(تصویر دیکھیے)
جلد ہی ہم چٹان کے اوپر پہنچ گئےجہاں قدیم محلات کے چند نشانات دنیا کی بے ثباتی کی علامت کے طور پر موجود تھے۔آس پاس کچھ تالاب بھی موجود تھے جو ہمارے گائیڈ کے مطابق بادشاہ اور اس کی بیویوں کے لئے خاص طور پر بنائے گئے تھے۔ تاریخ کے کسی بادشاہ کے دور کا مطالعہ کر لیں اس طرح کی عیش و عشرت ،فنون لطیفہ کی سرپرستی کے نام پرلہو و لعب اور کھیل تماشوں کی داستانیں عموماً بکھری نظر آئیں گی۔
اس ظالم و جابر بادشاہ کے متعلق یہ سب جان کرمیرے دل میں کھٹک سی لگ گئی کہ ضرور اس عیاش بادشاہ کا انجام عبرتناک ہی ہوا ہو گا۔ کچھ کھوج کی تو یہ بالکل درست نکلا۔ کہتے ہیں کہ موگالان جس کواس نے بادشاہت سے محروم کیا تھا، نےخود کو مضبوط کیا اور بڑی فوج اکھٹی کر کے حملہ کیا۔ بادشاہ کشیاپا اپنے تئیں ہاتھیوں کا لشکر لے کر آگے بڑھا اور اپنے غرور میں یا شاید کسی حکمت عملی کے طور پر اس قدر آگے چلا گیا کہ باقی فوج سے بچھڑ گیا ۔جلد ہی موگالان کی فوج نے اس کو آلیا پھر اپنے تکبر کی بنا پر اس نے دشمن کے ہاتھوں گرفتار ہونے کی بجائے خود ہی اپنی تلوار پر گر کر اپنی جان لے لی۔تو یہ تھا اس شاندار محل کے مطلق العنان بادشاہ کا خاتمہ! آج دیدہ وروں کے لئے یہ محل کے کھنڈرات ہی نہیں بلکہ بادشاہ کی داستان حیات بھی ایک سبق آموز واقعہ ہے۔
حبارانا Habarana
سگیریا سے 20 منٹ کی ڈرائیو پر ہماری اگلی عارضی قیام گاہ "حبارانا”میں واقع Cinnamon Lodges تھے۔ داخل ہوتے ہی وہاں کے خوش اخلاق سٹاف نے ہمارا استقبال کیا اور تازہ پھلوں کے جوسز اور اپنے ہوٹل کے نام کی نسبت سے دار چینی کی خوشبو میں بسے چھوٹے تولیے پیش کیے گئے تاکہ ہم دن بھر کی تھکن اتار لیں۔ویسے میری تھکن تو اس جگہ کو دیکھتے ہی اتر چکی تھی۔ گھنے درختوں کے بیچوں بیچ نہایت خوبصورت لاجز بنائے گئے تھے ان میں سے دو لاجز ہمارے لئے بک تھے۔ پاس ہی ایک نہایت خوبصورت "حباراناجھیل” تھی ۔ وہاں کی سمارٹ سی سری لنکن لیڈی مینجر ہمارے پاس آئی اور گپ شپ کے دوران اس نےبتایا کہ اس نے دوبئی سے تعلیم حاصل کی ہے، یہ جان کر وہ مجھے اور اچھی لگی کہ وہ مسلمان ہے اورعمرہ کے لئے سعودی عرب آنا چاہتی ہے۔ اسی دوران ضابطے کی کاروائی مکمل ہو گئی اور ہم نے اپنی آرام گاہوں کا رخ کیا۔
اپنے کمروں میں داخل ہوئےتو بہترین تزئین و آرائش دیکھ کر طبیعت باغ باغ ہو گئی۔ چائے اور کافی کا سامان حسب معمول کمرے میں موجود تھا۔ گرما گرم کافی کی چسکیاں لگاتے ہوئے ٹی وی چینلز گھمانے شروع کر دیئے ۔رات ہو چلی تھی۔باہر کچھ دیر گھومنے کے بعد ڈنر کا ارادہ کیا اور باقی سیر صبح تک مؤخر کر دی۔
بہت خوبصورت سوئمنگ پول کے کنارے کھانے کا بہت بڑا ہال سیاحوں سے بھرا ہوا تھا اور خوبصورتی اور سجاوٹ میں بھی بے مثال تھا۔اَن گِنت کھانے کی اشیاء اور تمام موسمی پھل اور ان کےفریش جوسزکے علاوہ desserts کے آئٹمز کے لئے ایک بڑاکمرہ الگ مخصوص تھا۔ ٹور پیکج میں ہمارے لئے روز ناشتے اور ڈنر پر اسی طرح کے بوفے کا اہتمام تھا۔ بے شک میرے رب کی نعمتوں کا شمار نہیں "فبای الاءربکما تکذبان”۔ لیکن کیا ہمیں ان نعمتوں کے استعمال کا بھی سلیقہ ہے؟بوفے کی ایک بات جو مجھے بے حد ناگوار گزرتی ہے، وہ ہے کھانے کا بے حدزیاں، اکثر و بیشتر آپ کو بچی ہوئی پلیٹیں کھانے سے بھری ہوئی نظر آئیں گی ، یہ منظر ہمیشہ میرے لئے بہت کوفت کا سبب بنتا ہے۔ کاش ہمیں رب العالمین کی نعمتوں کے استعمال کا بھی شعور آ جائے!
سب نے راؤنڈ لگا کر اپنی اپنی پسند کی چیزیں منتخب کیں ۔ چونکہ ہر قوم اور ملک کےکھانے ،مختلف ذوق اور ذائقوں کا اظہار ہوتے ہیں اس لئے نئے ذائقوں کے ساتھ ایڈجسٹ کرنے میں کسی قدر مشکل توپیش آتی ہے۔ مگر یہاں پر بوفےمیں ڈشز کی ورائٹی اوربہتات کی وجہ سے کافی فائدہ رہا اور ہم سب ہال میں گھوم گھوم کر اپنے مرضی کے آئٹمز ڈھونڈ ہی لیتے۔مجموعی طورکوئی خاص مسئلہ نہیں ہوا ۔ویسے میں حفظ ماتقدم کے طور پرریاض سے کچھ کھانے پینے کی اشیاء بھی ساتھ لے گئی تھی۔
حبارانا ایک ایسی جگہ ہےجہاں قیام پذیر ہو کرسیاح یہاں سے سگیریا، سفاری ٹور یا ہاتھیوں کے یتیم خانہ(Orphanage) کا دورہ کرتے ہیں۔ہم سگیریا سے گھوم آئے تھے اور سفاری اور یتیم خانہ میں نے اپنے ٹور میں شامل ہی نہیں ہونے دیا تھا۔کیونکہ ایک تو مجھے جانوروں سے کوئی خاص رغبت نہ تھی ۔ دوسرے جب سے انٹر نیٹ پر ایک ویڈیو دیکھی تھی جس میں ہاتھی نے اپنے ساتھ سیلفی لینے والی ایک خاتون کو زبردست کک لگائی تھی،میں نے ہاتھیوں سے دور رہنے میں ہی عافیت جانی۔ آپ یقیناً میرے اس فیصلے کو دانشمندانہ قرار دیں گے کیونکہ ایک تو کک اور وہ بھی ہاتھی کی! آنے والےوقت نے بھی میرے اس فیصلے کو درست ثابت کیاکیونکہ دیگرمنتخب کردہ جہگوں کی سیرزیادہ پر لطف رہی۔
ہمارے لاجز کے اردگرد جنگل میں گزارا ہوا وقت ہم سب کی زندگی کے خوبصورت ترین لمحات تھے۔ اگرچہ سری لنکا میں ہمارے ٹور کی تمام جگہیں ایک سے بڑھ کر ایک تھیں لیکن حبارانا کو میں ان سب میں ٹاپ رینکنگ پر رکھتی ہوں۔ اگلے دن فجر کے بعد ہم جنگل کی سیر کے لئے نکل کھڑے ہوئے۔جنگل میں روح تک کوشانت کر دینے والی ہوا، کوئل کی آواز، بے شمار گلہریوں کا ایک درخت سے دوسرے تک دوڑنا، نایاب قسم کے خوبصورت پرندے،چڑیوں کی تسبیح،سامنے ایک وسیع نیلگوں جھیل اور اس میں خوراک کی تلاش میں سفید بگلے، جھیل کنارے بنے ہوئے ہٹس، لیٹ کر جھولنے والے جھولے یعنی hammocks،درختوں پربنے مختلف سٹائل کے Tree housesاور مشامِ جاں میں اتر کر نہال کرتے بہت سے مناظرجنہوں نے میری روح تک کو معطر کر دیا ۔
یہ سب الفاظ کبھی اس ماحول کی منظر کشی نہیں کر سکتے جو اس جنگل میں گھومتے ہوئے اوروہاں کے جھولوں پر جھولتے ہوئے میں نے اپنے اندر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سمو لیا۔ہاں بڑی تعداد میں بندر بھی وہاں موجود تھے۔ایک طرف پارک بھی بنایا گیا تھا جس میں چھوٹے بچوں کے لئے جھولےاور سلائیڈز وغیرہ نظر آرہی تھیں۔میرا خیال ہے کہ یہ جنگل مصنوعی طور پر اگایا گیا تھا کیونکہ جا بجا چھوٹے درخت اور پودے موجود تھے ، جن کے ساتھ ان پودوں کو اسپانسر کرنے والے سیاحوں کی نیم پلیٹس بھی موجود تھیں۔ ہمیں پتہ چلا کہ جھیل کے پار قدرتی جنگل میں برڈ سفاری ٹور بھی کروایا جاتا ہے لیکن اس موسم میں وہ بند تھا ورنہ ہم ضرور جاتے۔ حبارانا کی اس صبح کی پرسکون ہوا، پرندوں کی چہچہاہٹ ، نیلگوں جھیل اورجنگل کے سرسبز نظارے اب بھی میرے ہمراہ ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔اب بھی صبح کے سمے اپنے گھر میں روز واک کرتے ہوئے حبارانا کے یہ حسین مناظراکثر میری آنکھوں کے سامنے گھوم جاتے ہیں۔
دو گھنٹے کی بھرپور سیر کے بعد بھوک کا احساس ہوا تو میں نے واپسی کا رخ کیا۔ بچے پہلے ہی سوئمنگ کے لئے جا چکے تھے۔واپس آتے ہوئے جھیل کے کنارے ایک بنچ پر عبایا پہنے ایک سعودی خاتون کو دیکھا تو حسب عادت سلام کیا۔باتیں شروع ہوئیں تو پتہ چلا کہ وہ بھی ریاض سے آئی ہیں۔ مزید باہمی استفسار پر پتہ چلا کہ نہ صرف میری ہم شہر بلکہ ہم محلہ بھی ہیں اور ہمارے گھر کے قریب ہی ان کا گھر ہے۔ لو جی کر لو گل ہزاروں کلو میٹر دور اپنی ہمسائی سےملاقات ہو گئی، ہے ناں دنیا گول!!
شاندار قسم کا بوفے ناشتہ کرنے کے بعد ہم نے اگلی منزل کی تیاری شروع کر دی۔ بقول شاعر
مسافرت کا ولولہ سیاحتوں کا مشغلہ !!
جو تم میں کچھ زیادہ ہے سفر کرو سفر کرو
Dining Hall
CINNAMON LODGE RESTAURENT AND POOL LAKE HABARAN
RESTAURENT AND POOL
سنہری مندر Golden Temple
حبارانا میں بھرپور تفریح کے بعد ہمارا سفر پھر شروع ہوا۔آج ہم نے راستے میں گولڈن ٹمپلکی سیر کرتے ہوئے کینڈی(Kandy)پہنچنا تھا۔ گولڈن ٹمپل پہنچے تونہایت شوق کے ساتھ اترنے کا ارادہ کیا تو ڈرائیور نے بتایا کہ اندر جانے کے لئےسر کے اسکاف کو اتارنا لازمی ہے۔ سارا شوق ٹھنڈا پڑ گیا اورمیں نے فی الفور اندر جانے سے انکار کر دیا۔اور باہر سے ہی بدھا کے مجسمےکا نظارہ کرنے کے لئے گاڑی سے اتر گئے۔
دیو ہیکل سنہری بدھا مندر کے اوپر آلتی پالتی مار کر اپنے مخصوص یوگا کے سٹائل میں بیٹھے تھے۔ اور ان کی ہاتھ کی انگلیوں کا بھی ایک خاص انداز نظر آرہا تھا۔ ڈرائیور سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ یہ ذہنی سکون کے حصول کا ایک آسن ہے ( تصویر دیکھیے)۔ویسے تو سری لنکا میں آپ کو ہر چوک اور ہر عمارت پر بدھا براجمان نظر آتے ہیں مگر اتنا بڑا مجسمہ آج پہلی دفعہ دیکھا۔
ٹمپل کے سامنے ایک بہت بڑا کٹھل (Jack fruit)کا درخت تھا جس کے تنے کے ساتھ لٹکے ہوئے گھڑوں کی مانند بڑے بڑے کٹھل کو دیکھ کر میں حیرت زدہ ہو گئی۔ یہ کسی درخت پر لگنے والا دنیا کا دوسرا سب سے بڑا پھل قرار دیا جاتاہے۔ عمومی طور پر ایک پھل3 سے 6 کلو گرام تک وزنی ہوتا ہے مگر اس کا وزن 2 من تک بھی جا سکتا ہے ایسے پھل اپنے حجم کی وجہ سے درخت کی جڑوں میں پڑے رہتے ہیں ۔ میرے لئے درخت کے ساتھ اس پھل کو لگا ہو دیکھنا ایک دلچسپ منظر تھا ۔
کچھ دیر وہاں کھڑے رہنے کے بعد ہم گاڑی میں بیٹھ کر آگے روانہ ہو گئے۔مندر تک نارسائی کا شکوہ یہ سوچ کر دل میں دبا لیا کہ ضرور حجاب اتارنے کی پابندی ان معصوم صورت والے بدھا کی طرف سے ہرگز نہ لگائی گئی ہو گی بلکہ بعد میں آنے والے ان کے پیروکاروں کا کارنامہ ہو گا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اس پر شکوہ کناں ہونے کی بجائے مجھے تو اپنے اہل مذہب کا خیال آیا کہ کس طرح اپنے نبی ﷺ کی تعلیمات کے برعکس فرقہ پرستی کا شکار ہو کر ہم مسلمانوں نے تو اپنے ہی بھائیوں کے لئے اپنی مساجد کے دروازے بند کر رکھے ہیں۔ ایک فرقے کا مسلمان دوسرے فرقے کی مسجد میں داخل نہیں ہو سکتا۔ ہم بھلا بدھا سے کس منہ سے شکوہ کرتے؟ بقول حفیظ بنارسی
کس منہ سے کریں ان کے تغافل کی شکایت
خود ہم کو محبت کا سبق یاد نہیں ہے!!!
اسپائس گارڈن
کینڈی کے راستے میں ہمارے ڈرائیور نے ایک Spice Garden یعنی مصالحہ جات کے باغ کے سامنےگاڑی روکنے کی اجازت چاہی کہ اگر ہماری دلچسپی ہو تو سیر کر لیں۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں! میرے لئے تو ویسے ہی گاڑی میں زیادہ دیر ٹک کر بیٹھنا عذاب ہوتا ہے، فوراً حامی بھر لی اور اتر گئے۔ یہ چھوٹا سا باغیچہ تھا جس میں تقریباً تمام مصالحہ جات کے پودے اور درخت موجود تھے۔ آج تک جن مصالحوں کو صرف پکانے میں استعمال کیا تھا، ان کو اصل ہئیت میں پودوں کے ساتھ لگا دیکھ کر ہم تو حیرت میں ہی گم ہو گئے۔
سری لنکا میں آپ کو ایسے بہت سے باغات ملیں گے جو نہ صرف سیاحوں کی دلچسپی بلکہ زرمبادلہ کے حصول کا بھی ذریعہ ہیں۔ایک گائیڈ نے پورے باغ کا دورہ کروایا۔سب نے نہایت دلچسپی کے ساتھ ایک ایک پودے کو دیکھا خاص طور پر الائچی اور کوکو کے دانے دیکھ کر میں نے بے ساختہ خالق کی صناعی کی داد دی۔ سیرکے بعد اس سرسبز و نایاب باغ کی یادگار کے طور پر ان مصالحہ جات کے سٹور سے کچھ چیزیں خریدیں تاکہ ریاض میں اپنے کچن میں کھانے پکاتے ہوئے ان کا استعمال کر کے اور اس کے ٹھنڈے نظاروں کو یاد کرتے ہوئےکھانا اور لذیذ بن جائے ۔
کینڈی Kandy
کینڈی کے لئے سفر پھر شروع ہوا۔ میاں صاحب نے ایک مسجد میں نماز کے لئے گاڑی رکوائی ۔ مسجد میں عورتوں کے لئے بھی سعودی عرب کی طرح نماز پڑھنے کی الگ جگہ موجود تھی۔نماز کی ادائیگی کے بعد مسجد سے باہر نکلے تو سامنے ایک گھر کے مسلمان مکین نے ہمیں اپنے گھر چلنے کی پُر خلوص دعوت دی اور ہم انکار نہ کر سکے۔سیڑھیاں چڑھ کر اوپران کے گھر پہنچے تو اہل خانہ نے نہایت محبت سے استقبال کیا۔ گھر بہت صا ف ستھرا تھااور مکینوں کے سلیقے کو ظاہر کر رہا تھا۔خاتون خانہ اور بیٹیوں نے بڑے سے دوپٹے کے ساتھ سری لنکا کا روایتی ساری نما لباس پہنا ہوا تھا ۔ ان خواتین سے کچھ دیر کی گپ شپ کے بعد ہم نے اجازت چاہی کیونکہ ابھی کافی سفر باقی تھا۔
کسی قسم کے تصنع سے عاری یہ لوگ مجھے بہت اچھے لگے۔صرف یہ لوگ ہی نہیں بلکہ بحیثیت قوم ان کو میں نے نہایت سادہ پایا۔مرد ہوں یا عورتیں دونوں کے مزاج و لباس میں سادگی اور عاجزی نمایاں طور پرنظر آتی ہے ۔ یہ صفات اسلام کا طرہ امتیاز ہیں مگر افسوس کہ آج ہم اہل اسلام کے ہاں یہ خال خال ہی پائی جاتی ہیں ۔نمود ونمائش اور مال و دولت میں ایک دوسرے پر سبقت کی دوڑ نے ہمیں مذہبی تو کیا اخلاقی قدروں سے بھی بہت دور کر دیا ہے۔
سہ پہر تک ہم کینڈی کے Cinnamon Hotel پہنچ گئے۔سری لنکا کی مخصوص رِم جِھم جاری تھی۔ حسب معمول سٹاف، دار چینی کی خوشبو میں بسے چھوٹے تولیےاورفریش جوسز کے ساتھ استقبال کے لئے موجود تھا۔ یہ ہوٹل دریائے مہا ویلی کے کنارے بنا ہوا تھا ۔ ہوٹل میں ضابطے کی کاروائی مکمل ہونے تک ہم نے داخلی دروازے کے مخالف سمت بنے سوئمنگ پول کی راہ لی جس کے آگے نیچے کی طرف دریا بہہ رہا تھا۔ دریا کے ساتھ ہوٹل کا خوبصورت باغ اور مخلف سمت جنگل نظر آ رہاتھا۔ ہم مناظرِفطرت کے شیدائیوں کے لئے یہاں بھی ایک زبردست دل کو چھولینے والانظارہ موجود تھا۔
جلد ہی ہم نے اپنے کمروں کا رخ کیا کیونکہ سب کچھ دیر آرام کرنا چاہ رہے تھے۔ زیادہ آرام کا وقت نہ ملا شام سے پہلےہم نے کینڈی کی مشہور جھیل اور شہر کو دیکھنے کا پروگرام بنایا۔ ڈرائیور کے ساتھ کینڈی ٹاؤن پہنچےبازار سے نکلتے ہی دلکش "کینڈی لیک” نظر آئی۔ جھیل کے اردگرد سڑک ہے اور سڑک کے کنارے ہوٹل، اسکول اور سرکاری عمارتیں ہیں ۔جھیل کے قریب پیدل چلنے والوں کے لئے ایک کشادہ فٹ پاتھ ہے جہاں گھنے درختوں کے نیچےجگہ جگہ بیٹھنے کے لئے بنچ بھی بنے ہوئے ہیں ۔ زیادہ تر بنچ پریمی جوڑوں کے قبضے میں تھے۔
شام کے وقت خوب گہما گہمی کا عالم تھا۔ کچھ دیر ہم نے فٹ پاتھ پر گھوم کر اس خوبصورت جھیل کا نظارہ کیا۔جھیل میں کشتی کی سیر کا بھی اہتمام موجود تھامگر وقت کی کمی کی وجہ سے ہم استفادہ نہ کر سکے۔کینڈی کی ریڈ کراس بلڈنگ میں یہاں کا مشہور کلچرل ڈانس شو منعقد کیا جاتا ہے جو کہ ہمارے پروگرام میں شامل تھا مگر دیر سے پہنچنے کی وجہ سے ہم نہ دیکھ سکے۔
کینڈی کی سلطنت ،برٹش راج سے پہلے سری لنکا کی آخری سلطنت تھی اور کینڈی شہر اس کا دارالحکومت تھا اس لئے شاندار شاہی محل بھی یہاں ہی تعمیر کیا گیا۔جھیل کے عین وسط میں "رائل سمر ہاؤس ” ہے جو کہ محل کا ہی ایک حصہ ہے۔یہ محل ویکرمہ باہو نے 1357 ء میں تعمیر کرنا شروع کیا اور سترہ سال میں مکمل ہوا ۔ بعد میں آنے والے بادشاہوں نے اس میں مزید اضافے بھی کروائے۔پرتگالی حملہ آوروں کے ہاتھوں یہ محل تباہ ہوا اور دوبارہ تعمیر کیا گیا۔ آخری بادشاہ”سری ویکرمہ”نے اس کو اپنا مستقل شاہی مسکن قرار دیا اور1815ء میں سری لنکا پرانگریزوں کے تسلط تک یہیں قیام پذیر رہا۔
سڑک کے پار مشہور "بدھا دانت” کا یادگار مندر ہے جو کینڈی کے آخری بادشاہ کے محل کے احاطے میں ہے۔یہ مندر بدھ مت کے پیروکاروں کے لئے نہایت اہم ہے کیونکہ یہاں بدھا کے دانت کا اوشیش (Sacred Tooth Relic) پڑا ہوا ہےاور اس کوحکمرانی کے لئے مقدس شگون سمجھا جاتا ہے ، ہر حکومت اس کی خاص حفاظت کرتی ہے۔ محل کے احاطے میں ہی یہ مندر بنایا گیا ہے۔بدھ زائرین اس مندر کو اتنا ہی اہم سمجھتے ہیں جتنا مسلمان خانہ کعبہ کو۔ اس لئے اس مندر میں جانا ہر بدھ کی خوہش ہوتی ہے۔ مجھے سنہری مندر میں داخلے والی شرط یاد تھی اس لئے بدھا دانت کے مندر جانے سے گریز کیا۔
اس کے علاوہ کینڈی میں ایک منظر ہر جگہ سے نظر آتا ہے ، وہ یہ اوپر ایک پہاڑی پر موجود مندر میں بنا ہوا بدھا کا دیو قامت مجسمہ۔ 88 فٹ کا یہ مجسمہ سری لنکا میں بدھا کا سب سے بڑا مجسمہ ہے۔ مجھے یاد آیا کہ یہ مجسمہ سگیریا کی لائن راک سے بھی نظر آ رہا تھا۔یہ مجسمہ کینڈی ٹاؤن سے آدھے گھنٹے کی پیدل مسافت پر تھا۔ہم نے یہاں بھی دور سے ہی بدھا کو ”آئبوان” کہا کیونکہ ڈر تھا کہ دن بھر کی تھکن کے بعد پیدل چلنے کے بعد وہاں بھی اگر بدھا کے پیروکاروں نے مندر میں داخلے کی کوئی شرط رکھ دی تو خواہ مخواہ ہمارا دل برا ہو جائے گا۔ بہرحال کینڈی لیک اور اس خوبصورت، صاف ستھرے شہر کے نظاروں نے بھی ہمارا دل موہ لیا ۔
رات ہو چلی تھی اس لئے ہوٹل کا رخ کیااور بھرپور بوفے ڈنر سے سیر ہونے کے بعد ہوٹل کے اردگرد کچھ دیر واک کی پھر اپنی قیام گاہوں میں جاکرربِ کائنات کے حضور حاضری لگوائی اور نیند کی پرسکون وادیوں میں گم ہو گئے۔فجر کے بعد حسب معمول ہوٹل کے اردگردباغ میں سیر کا ارادہ کیا۔ یہ باغ حبارانا کی طرح بہت بڑا نہ تھا ۔لیکن بےشمار پھولوں والے پودوں اور چند پھلدار درختوں کے ساتھ ساتھ دریاکے پرسکون نظاروں کی وجہ سے بہت بھلا لگ رہا تھا۔ یہاں بھی جالی دارجھولوں (Hammocks) میں لیٹ کر دیر تک قدرت کے حسین نظاروں کا لطف اٹھایا۔ دریا میں کھڑے بگلوں نے اس منظر کو اور حسین بنا دیا جو کہ صبح سویرے دریا میں اپنی خوراک تلاش کرنے میں مشغول تھے۔جب دھوپ نکل آئی تو واپسی کا خیال آیا۔
یہاں بھی ایک سعودی خاتون سے ملاقات ہو گئی جن کا تعلق جدہ سے تھا۔ سری لنکا میں سعودی سیاحوں کی بڑی تعداد دیکھنے کو ملتی ہے۔بلکہ سعودیوں کے علاوہ یہاں آپ کو بے شمار چینی،جاپانی،انڈین اور یورپیئن سیاح بھی ملیں گے۔ سری لنکا کاشمار بھی پاکستان کی طرح ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے بلکہ ان کےروپےکی قدر تو پاکستانی روپے سے بھی کم ہے۔ عوام الناس کی اکثریت کی معاشی حالت اچھی نظر نہ آ رہی تھی ۔اس کے باوجود سفر کے دوران کہیں پر بھی کوئی ایک گداگربھی نظرنہیں آیا ۔بوڑھے، جوان،بچے،عورتیں سب کو میں نے ان تھک محنت کرتے ہی دیکھا۔
سری لنکا میں سیاحت کو باقاعدہ ایک انڈسٹری کے طور پر چلایا جا رہا ہے۔وہاں کا انفراسٹرکچر، امن و سکون اورسیاحوں کے لئے بہترین سہولیات دیکھ کرہم سب حیران تھے۔ایک اندازے کے مطابق2016 ء میں سوا دو ملین سیاح ریکارڈ کیے گئے اور ہر سال یہ تعداد بڑھتی چلی جارہی ہے۔آپ کو انٹرنیٹ پر تمام قابل دید مقامات کے بارے میں مکمل معلومات، سستے اور مہنگے ہر طرح کے بیسیوں ٹور پیکجیز باآسانی مل جائیں گے۔ ہم نے بھی انٹر نیٹ پر ہی اندھا اعتماد کرتے ہوئے پیشگی ادائیگی کے ساتھ ایک پیکج منتخب کیا تھا جو ہماری توقعات سے بڑھکر پرسہولت ثابت ہوا۔اگرچہ اس سے بیشتر ہم کچھ مسلمان ممالک کی سیاحت کے لئےبھی جا چکے تھےمگربحیثیتِ مجموعی وہ کوئی اتنے اچھے تجربات نہ تھے ۔
اس حقیقت کو آپ بھی مانیں گے کہ ہمارےکردار کی اچھائی یا برائی کا اثرمحض ہماری اپنی زندگی پر ہی نہیں ہوتابلکہ ہم میں سے ہر شخص اپنے ملک و قوم کے ساتھ ساتھ اپنے مذہب کا بھی نمائیدہ ہوتا ہے خاص طور پر اس وقت جب آپ بطور سیاح کسی دوسرے ملک میں جائیں یا دوسرے ملک سے سیاح آپ کے ملک میں آئیں۔ ہر دوصورت میں آپ کابرتاؤ ہی آپ کی شناخت قائم کرے گا۔۔۔۔تو جناب سری لنکا کےاچھے امیج کا کریڈٹ سراسر وہاں کی عوام کو جاتا ہے۔۔ہے کہ نہیں؟؟ اِس قوم کی خوشی دلی، دوستانہ فطرت، منکسر المزاجی اور اچھےاخلاق کا ہر سیاح رطب اللسان ہے۔
صبح کی سیر سے واپسی پر اپنے کمرے کی طرف جاتے ہوئے راستے میں ٹیبل ٹینس نظر آیا ،ریکٹ اوربال بھی موجود تھے۔ کچھ بازیاں لگائیں اور پھر جب ناشتے کی یاد ستانے لگی تو اندر کا رخ کیا۔ناشتے کے بعد اگلے سفر کی تیاری شروع ہو گئی آدھے گھنٹے کے اندراندر ہم گاڑی میں بیٹھ کر اگلی منزل کی طرف رواں دواں تھے۔
شہر سے نکلنے سے پہلے ڈرائیور نے پوچھا کہ اگر قیمتی پتھروں کا میوزیم دیکھنا ہو تو وہ گاڑی روک دے، میں نے حامی بھر لی۔ میں نے اندازہ لگایا کہ اس طرح کی جگہوں پر سیاحوں کو لانے پر ضرور ڈرائیور حضرات کو کمیشن ملتا ہو گا کیونکہ اسپائس گارڈن کی طرح یہاں سے بھی یقیناً خریداری کی جاتی ہو گی ۔بہرحال ہم بخوشی و رضا میوزیم میں داخل ہوئے۔خوش خلق اسٹاف نے استقبال کیا ۔ سب سے پہلے ہمیں ایک کمرے میں بٹھا کرکانوں سے قیمتی پتھروں کو نکالنے کے طریقہ کار کے متعلق ایک ڈاکومنٹری دکھائی گئی جو واقعتاً بہت معلوماتی تھی۔اس کے بعد ہمیں اس چھوٹے سے میوزیم کا دورہ کروایا گیا۔ڈاکو منٹری میں بتائے گئے کان کنی میں استعمال ہونے والے اوزاراور طریقوں کے ماڈلز وغیرہ بھی وہاں بنائے گئے تھے۔
اس کے بعد اوپر والے ہال میں لے جایا گیا جہاں شو کیسوں میں بے شمار قیمتی پتھر موجود تھے۔اتنی بڑی تعداد میں قیمتی پتھر میں نے پہلے کبھی نہ دیکھے تھے۔ہمارا میزبان ساتھ ساتھ پتھروں کے متعلق قیمتی معلومات بھی دے رہا تھا۔سری لنکا دنیابھر میں قیمتی پتھروں کی وجہ سے بھی مشہور ہے۔دنیا میں پائی جانے والی پتھروں کی 85 اقسام میں سے 40 صرف سری لنکا میں پائے جاتے ہیں۔تاریخ بتاتی ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملکہ سبا کو جو "روبی” تحفے میں دیا تھا وہ سیلون سے ہی حاصل کیا تھا۔ دنیا کا سب سے بڑا نیلم بھی سری لنکا میں ہی ہے جس کی مالیت سو ملین ڈالر کے لگ بھگ ہے ملکہ برطانیہ کے تاج پر بھی یہاں کا ہی "نیلم” جڑا ہوا ہے۔ ۔خیر سری لنکا میں میرا خریداری کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔اپنے پہنے ہوئے ہیرے ٹسٹ کروائے جو کہ اصلی نکلنے پر خوشی ہوئی ۔ہمارے میزبان کو خریداری پر آمادہ نہ کر سکنے پر مایوسی تو ہوئی ہو گی مگر اس نے خوش دلی کے ساتھ ہمیں الوداع کہا۔
GEM MUESEUM ANCIENT METHOD OF GEM COLLECTION
شاہی نباتاتی باغ پیرادینیا
Royal Botanical Garden Peradeniya
اگلے شہر "نووارہ علیا” کی طرف سفر کے دوران شاہی باغ ، ٹی فیکٹری اور رامبودا آبشار کا دورہ آج ہمارے پروگرام میں شامل تھا۔ سری لنکا کی سیر Royal Botanical Garden Peradeniyaکو دیکھے بغیر ادھوری ہے۔ سچ تو یہ ہےکہ اپنےٹور پیکج میں اس باغ کو میں نے نہایت بے دلی سے موجود رہنے دیا کہ یہ بھی عام سا پارک ہو گا جہاں قدرے نفاست کے ساتھ پودے اور پھول وغیرہ لگے ہوں گے اور اسی بے دلی کے ساتھ میں باغ میں داخل ہو ئی۔ یہاں بھی سارک ممالک کے شہریوں کے لئے خاص رعایت تھی مگر یہاں کے ٹکٹ ہمارے پیکج میں شامل تھے۔ڈرائیورنے ٹکٹ لا کر دئیے اور ہم اندر داخل ہوئے ۔
کسی مبالغہ آرائی کے بغیرمجھے اس بات کا اعتراف ہے کہ باغ میں حیرتوں کی ایک نئی دنیا ہماری منتظر تھی۔147 ایکڑ پر پھیلے ہوئے اس باغ کی خوبصورتی و صفائی دیدہ زیب تھی۔ہر طرف رنگ برنگے پھولوں، قطار در قطار درختوں اور ہریالی کا ایک دلکش نظارہ تھا۔ یہ واقعی ایک شاہی باغ تھا۔باغ میں تقریباً 4000 سے زائد اقسام کے پودے اور درخت موجود ہیں۔ان درختوں پر یقیناً بے شمار پرندوں کا بھی بسیرا ہو گا چونکہ یہ دن کا وقت تھا اس لئے وہ اپنے آشیانوں میں چھپے بیٹھے تھے۔
باغ کی تاریخ تیرھویں صدی عیسوی سے شروع ہوتی ہے جب کینڈی کا بادشاہ”ویکرمہ باہو سوئم “Wickramabahu III اپنا تخت دریائےمہا ویلی کے قریب پیرادینیا لے آیا اور دریا کے کنارے سیر کا مزید لطف اٹھانے کے لئے اس باغ کی بنیاد رکھی۔اس کے بعد آنے والے کئی بادشاہوں نے اس کی خوبصورتی بڑھانے میں اپنا حصہ ڈالا تاہم اس کی موجودہ شکل کا تمام سہرا سر الیگزینڈر مون Sir Alexander Moon کو جاتا ہے جس نے 1821ء میں باقاعدہ طور پر اس کو بنایا ان کے بعد کئی انگریز منتظمین نے اس کے حسن کو بڑھانے میں خاص محنت کی۔ اب یہ باغ سری لنکا کے زرعی محکمہ کے زیر انتظام ہے اور کیا خوب انتظام ہے!!
ایسے باغ نہ صرف علم و تحقیق بلکہ زرمبادلہ کمانے کا بھی ایک بڑا ذریعہ ہیں۔ ایک اندازے کےمطابق ہر سال سوا ملین کے قریب سیاح اس باغ کو دیکھنے آتے ہیں دنیا کی اہم اور تاریخی شخصیات بھی اس باغ کو دیکھنے آتی رہتی ہیں اور باغ کا ایک حصہ ان کے لگائے ہوئے پودوں سے مزین ہے پاکستان کے ایک وزیر اعظم کے نا م کا یادگاری پودا بھی ان میں دکھائی دیا ۔
باغ میں ایک "اسٹوڈٹس کارنر” بھی موجود تھا جہاں طالب علموں کے نام کے ساتھ ان کے لگائےہوئےپودےباغ کی رونق بڑھا رہے تھے۔ایک اور اہم بات یہ تھی کہ دنیا بھر سےہدیہ کئے گئے پودوں کے لئے بھی ایک حصہ مخصوص کیا گیا ہے جہاں اُن ملکوں نایاب پودے اپنے اپنے ملکوں کے ناموں کی تختیوں کے ساتھ باغ کے حسن کو دو آتشہ کر رہے تھے ۔
انٹری ٹکٹ لیتے ہوئے ہمیں باغ کا نقشہ بھی دیا گیا اس کی مدد سے ہم باغ میں گھومتے رہے اسی دوران سری لنکا کے روایتی عروسی ڈریسز میں ملبوس ایک نیا نویلاشادی شدہ جوڑا نظر آیا جو فوٹو شوٹ کے تمام ساز و سامان سمیت اپنی شادی کی تصویروں کو یادگار بنانے کے لئے وہاں موجود تھا۔ یقیناً فوٹو شوٹ کے لئے اس سے حسین جگہ اور کوئی نہ ہو سکتی تھی ۔دونوں کے لباس میں جنوب ایشیائی ثقافت کی گہری چھاپ نمایاں تھی۔دلہن گولڈن کشیدہ کاری والےسرخ رنگ کےساری نما عروسی ڈریس اور سونے کے بھاری زیورات میں ملبوس اپنی زندگی کے اہم ترین دن کےلئے سجی ہوئی تھی۔اور دولہا صاحب نےسنہری کڑھائی سےمزین سرخ رنگ کی شیروانی اور گولڈن پاجاما پہنا ہوا تھا، ہاتھ میں بھاری انگوٹھیاں اور گلے میں پاجامے سے ہم رنگ دوپٹہ پہنے اپنے اپنے سے ہی لگ رہے تھے کیونکہ پاکستان میں بھی یہ گیٹ اپ اکثر نظر آتا ہے۔ ۔میں نے ان سےان کی تصویر کھنچنےکی اجازت چاہی جو انھوں نے بخوشی قبول کر لی۔
باغ میں سیاحوں، طالب علموں کے علاوہ بڑی تعداد میں پریمی جوڑے بھی نظر آ رہےتھے،جو ہر بوٹے کے نیچے دنیا و مافیہا سے بے خبر بیٹھے نظر آتے ہیں اور دور سے پہچانے جا سکتے ہیں اس کے لئے آپ کو کسی خاص ذہانت کی ضرورت نہیں تو گویا یہ اس باغ کا ایک اضافی فائدہ (یا شاید نقصان) تھا۔۔
مہا ویلی دریا کے اردگر بھی سر سبز پودے اور پھول اپنی بہار دے رہے تھے۔دو گھنٹے گھومنے کے بعد بھی ہماری طبیعت سیر نہ ہوئی ابھی ہم نے آدھا یا اس سے کچھ زائد ہی باغ دیکھا ہو گا کہ مجھے تھکن محسوس ہونا شروع ہو گئی کیونکہ باغ کے متعلق اپنے غلط اندازے کی وجہ سے اس دن میں نے جوگرز کی بجائے عام شوزپہنے ہوئے تھے جس کی وجہ سے پاؤں میں درد ہونا شروع ہو گیا۔
باغ سے نکلتے ہوئے دل میں یہی خیال آیا کہ جنت بھی تو”جنۃ”یعنی باغ ہے۔۔۔وہ بھی سرسبز درختوں، پانی اور خوبصورت پرندوں اور ہر قسم کی نعمتوں سے بھرپورایک باغ ہی ہو گا !! جب بندوں کا سجایا ہوا یہ باغ اتناحسین ہے تو اس مصور کائنات کی بنائےہوئےباغ کے حسن کاکیا ہی عالم ہو گا!!!! اور پھر دل سے یہ دعا بھی نکلی کہ اے اللہ ہمیں اس ہمیشہ قائم رہنے والے باغ کی طرف کامیاب سفر اور اس میں داخلے کے انٹری ٹکٹ لینے کی بھی توفیق عطا فرمانا۔۔آمین
ROYAL BOTANICAL GARDEN PERADENIYA
باغ سے نکل کرسفر پھر شروع ہوا۔راستے میں جگہ جگہ سڑک کے اطراف عورتیں تازہ مقامی پھل فروخت کر رہی تھیں جودیکھنے میں نہایت بھلے لگ رہے تھے ۔سری لنکا کے زیادہ تر افراد متوسط اور غریب طبقہ سےتعلق رکھتے ہیں اور ان کی آمدنی کا انحصار پھلوں اور زرعی اجناس پر ہوتا ہے۔ اپنی سفید پوشی کے باوجودعوام نہایت محنتی اور خوش اخلاق ہے ۔
ایک ٹھیلے پر پھل خریدنے کے لئےگاڑی رکوائی ۔اگرچہ ان میں سے کچھ پھل میں نے ریاض میں کھائے ہوئے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کے طفیل ساری دنیا کے پھل سعودی عرب میں میسر ہوتے ہیں لیکن تازہ پھل کا تو ذائقہ ہی اور ہوتا ہے ۔ Rambutan سرخ رنگ کا لیچی سے ملتا جلتا ایک بہت میٹھا پھل ہے ۔جوکہ وٹامن سی اور آئرن سے بھرپور، نہایت صحت بخش پھل ہے اور اپنے ہائی فائبر اجزاء کی وجہ سے جسم میں غیر ضروری چکنائی کو کم کرنے میں مددکرتا ہے۔
Mangostin گہرے قرمزی رنگ کا پھل میں نے پہلی دفعہ کھایا اس کی بیرونی سطح قدرے سخت اور کچھ موٹی ہوتی ہے،اندرمالٹے اورکینو کی طرح پھانکیں ہوتی ہیں مگر سفید رنگ کی۔ڈرائیور نے اس کو ہاتھ سےکھولنے کا طریقہ بھی بتایا کہ اس کو دونوں ہاتھوں کی ہتھلیوں سے دبا کر کھولنا پڑتا ہے۔ مینگوسٹین صرف ذائقے کے لحاظ سے ہی اچھا نہیں ہےبلکہ یہ غذائیت سے بھی بھرپور ہوتا ہے قوت مدافعت کو بڑھاتا ہے، دافع کینسر ہونے کے ساتھ ساتھ وزن بھی کم کرنے میں مدد دیتا ہے۔
star fruitکے ذائقے سے بڑھکر اس کی شکل اچھی لگی مگر افادیت میں یہ بھی کسی طور کم نہیں۔ یہ نظام ہضم کو فعال کرتا ہے ، بینائی کو تیز کرتا ہے اور پروٹین کے حصول کا اہم ذریعہ ہے۔۔بے شک رب العالمین کی نعمتوں کا کوئی شمار نہیں کہ اس نے ہمارے لئے لذتِ کام و دہن کے ساتھ ساتھ ہمارے جسمانی نظام کی قوت و مدافعت بڑھانےکا بھی پورا انتظام کائنات میں مہیا کر دیا۔۔”پس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟؟”
STAR FRUIT MANGOSTIN RAMBUSTAN
چائے کے باغات اورفیکٹری
سفر پھر سے شروع ہوا۔ باہر سر سبز پہاڑوں اور چائے کے باغات کو دیکھ کر احساس ہوا کہ ہم نوارہ علیا ڈسٹرکٹ میں داخل ہو چکے ہیں۔یہاں اپنے ہوٹل پہنچنے سے قبل راستے میں ہم نے چائے کے باغات ،فیکٹری اور رامبودا فالز کو دیکھنا تھا۔
چائےسری لنکا کی پہچان سمجھی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ 1824ء میں کسی انگریز نے سب سے پہلے چین سےچائے کا ایک پودا منگوا کر پیرادینیا کے نباتاتی باغ میں لگوایا۔لیکن تاریخ میں جیمز ٹیلر نامی انگریز کو سری لنکا میں چائے کی کاشت کا بانی قرار دیا جاتا ہے جنہوں نے 1867ء میں چائے کا پہلا باغ لگایا اگرچہ تجرباتی طور پرچھوٹے پیمانے پر چائے کی کاشت اس سے پہلے سےکی جا رہی تھی۔ اب سری لنکا چائے کا تیسرا بڑا پیداواری ملک ہے اور چائے یہاں کی ثقافت کا حصہ بن چکی ہے۔عوام الناس دن میں کئی مرتبہ چائے نوش فرماتے ہیں اور وہ چائے ہماری چائے سے کئی گنا اسٹرونگ ہوتی ہے۔ہم تو چائے کے نام پر دودھ پیتے ہیں ۔دنیا کی تقریباً 23 فی صدچائے سری لنکا برآمد کرتا ہے۔ یہاں کی تقریباً 5 فی صدآبادی اربوں ڈالر مالتی کی چائے کی صنعت سے وابستہ ہے، جس مںئ پہاڑیوں سے پتے توڑنا اور کارخانوں مںی اس کی تااری کا کام شامل ہے۔
ہم چائے کے دلفریب باغات کے ساتھ Glenloch نامی برانڈ کی چائے کی فیکڑی بھی دیکھنے کے لئے گئے۔ فیکڑی کے استقبالیے سے ایک خاتون ہمارے ہمراہ کر دی گئی۔جس نے ہمیں فیکڑی کا دورہ کروایا اور بہت کارآمد معلومات دیں۔ کسی قسم کےمیک اپ سے عاری اور بالوں میں تیل لگائے ہوئے ان خاتون نےرواں انگریزی میں ہمیں بریف کرنا شروع کر دیا ۔وہ بہت معمولی قدرےبوسیدہ سی ساڑھی میں ملبوس تھیں اور مجھے ان کی یہ سادگی بہت بھائی۔بلاشبہ وہ اور وہاں کام کرنے والی دیگر خواتین قابل صداحترام تھیں کیونکہ وہ کسی ذاتی نمود ونمائش میں پڑنے کی بجائے اپنی محنت کی کمائی سے اپنا اور اپنے خاندان کا بوجھ اٹھائے ہوئے تھیں۔
ان خاتون سے مجھے پہلی بار پتہ چلا کہ سلونن بلک ، وائٹ اور گرین ٹی ایک ہی پودے سے حاصل ہوتی ہے، لکنج چائے کے پتوں کی عمر اور سائز مںھ فرق ہوتا ہے، جس بنا د پر اسے 3 مختلف گیٹیگریز مںا تقسم کاو جاتا ہے۔ اس نے بتایا کہ چائے کا پودا سدا بہار ہوتا ہے اسی پتایں ہر سات سے 14 دن بعد مںس ہاتھوں سے توڑی جاتی ہںی اس سے پہلے کہ وہ بہت زیادہ بڑی ہو جائں ۔ اگر جڑوں مںا پانی زیادہ دیر تک کھڑا رہے تو چائے کا پودا مُرجھانا شروع کردیتا ہے۔ ییک وجہ ہے کہ چائے کے باغات ڈھلوان پہاڑی علاقے مں ہوتے ہںی تاکہ زمنی ناہموار ہونے کی وجہ سے پانی نچےو کی طرف بہتا رہے۔
ہمیں چائے تیار کرنے کے مراحل سے بھی آگاہ کیا گیا۔پہلا مرحلہ ’ودرنگwithering‘ کہلاتا ہے جس مںا پتوں کی نمی دور کرنے کے لےی ہوا کے ذریعے خشک کاا جاتا ہے، جس سے ان کی سطح نرم ہو جاتی ہے۔پھر ایک رولنگ مشنا مںت ان پتو ں کو تروڑا مروڑا جاتا ہے اور فرمنٹیشن پراسسfermentation process شروع کاا جاتا ہے، جس سے ان کے مختلف ذائقے پداا ہونا شروع ہوتے ہںج۔ اس کے بعد چائےکوپیکنگ کے لئے روانہ کر دیا جاتا ہے۔
چائے کی تایری مںا استعمال ہونے والی مشینیری کافی پرانی لگ رہی تھی۔یہاں بھی پوری فیکڑی میں خواتین کو ہی کام کرتے دیکھا۔کافی مشقت طلب کام تھامگر وہ سب مستعدی کے ساتھ اپنے اپنے کام میں مصروف تھیں۔آج احساس ہوا کہ ہماری ایک چائے کی پیالی کے پیچھے کتنے لوگوں کی محنت شامل ہوتی ہے۔فیکڑی کے دورے کے بعد ہمیں ٹی لاؤنج لے جایا گیا جہاں مختلف رنگوں اور ذائقے کی چائے سے ہماری تواضع کی گئی۔پھر وہاں کے سٹور سے چائے کی خریداری کے بعد ہم باہر آ گئے۔
باہر تا حد نگاہ پھیلے ہوئے باغات کا منظر کسی دیومالائی دنیا کا لگ رہا تھا ۔ہر طرف سبز ڈھلوانیں، فرحت بخش اور معطر ہوا اور باغات میں کہیں کہیں چائے چننے والی عورتوں کے رنگین پیرہن ۔۔۔۔بارش کے بعد آسمان پر پھیلی ہوئی قوس و قزح نے اس منظر کو اور بھی جادوئی بنا دیا۔دل میں یکایک اس خواہش نے جنم لیا کہ کاش ادھر ہی ایک ہٹ بنا کر رہائش کر لوں۔پیچھے سے بچوں کے بلانے کی آوازیں مجھے اس دیو مالائی دنیا سے باہر لے آئیں اور ہم گاڑی میں بیٹھ کر حیرتوں سے بھرپور اگلے مناظردیکھنے روانہ ہو گئے۔
ایک سیاح کے لئے ایسے نظارے بہت حسین اور تفریح بخش ہوتے ہیں مگر ان مناظر کی اسٹیج کے حقیقی کرداروں کے لئے یہ سب شاید اتنا خوبصورت اورپُر راحت نہ ہو۔اس بات کا احساس مجھے اس وقت ہوا جب مجھے چائے کی انڈسٹری میں کام کرنے والوں کے حالات کا علم ہوا۔
پتیاں چننے کےکام کا آغاز صبح ساڑھے سات بجے کیا جاتا ہے۔پتیاں چننے والی خواتین اِن پتیوں کو اپنی پشت پر اٹھائے ہوئے ترپال کے تھیلوں میں جمع کرتی ہیں ۔ اس کام کی مشکل نوعیت کی وجہ سے چائے کی پتیاں چننے والے افراد کے ہاتھ عموماً بہت سخت ہوجاتے ہیں۔ سارا دن ان پتوں کا وزن ہوتا رہتا ہے اور چائے کے پتے چننے والے اگر دن میں 18 کلوگرام کا کوٹہ پورا کر لیں تو انھیں اس کی اجرت 600 سری لنکن روپے ملتی ہے۔اگر وہ یہ ہدف پورا نہ کر سکیں تو انھیں 300 سری لنکن روپے ملتے ہیں۔
جن گھروں میں یہ مزدور خاندان رہتے ہیں ان میں سے کچھ انگریزوں کے تعمیر کردہ ہیں جن کو 1920 کی دہائی میں تعمیر کیا گیا تھا۔اس وقت سے یہ عمارتیں کم ہی تبدیل ہوئی ہیں۔ بہت ساری عمارتوں میں صرف بجلی یا پانی دن میں چند گھنٹے کے لیے میسر ہوتا ہے، یا پھر بالکل نہیں ہوتا۔
خواتین اس مزدوری کے ساتھ ساتھ روزمرہ کےگھریلو کام بھی سر انجام دیتی ہیں جیسا کہ کھانا پکانا، صفائی کرنا اور بچوں کی دیکھ بھال کرنا۔کپڑے دھونا یا نہانا، ندیوں اور دریاؤں کے کنارے کیے جاتے ہیں کیونکہ کچھ علاقوں کے گھروں میں صرف تین دن کے بعد پانی مہیا کیا جاتا ہے جسے کنٹینروں میں جمع کرنا ہوتا ہے۔ایسے علاقوں میں بچےکئی کئی میل پیدل چل کر سکول جاتے ہیں۔۔(بشکریہ:اردو پوسٹ)
دنیا کے اس حسین خطے کے محنت کش باسیوں کے حالات جان کر میرا دل دکھ سے بھر گیا۔۔بے شک امیر اور غریب کا یہ فرق اور وسائلِ زندگی کا یہ تفاوت ہمیں دنیا میں ہر جگہ نظر آتا ہے مگرخالق کائنات نے رزق اور وسائل کی فراہمی میں کوئی فرق نہیں رکھا،وہ تو ربّ العالمین یعنی سب جہان والوں کا پالنے والاہے ۔۔۔۔ یہ فرق انسانوں کا پیدا کردہ ہے اور مجموعی طور پراس کا حل بھی اسی وقت ہو سکتا ہے جب اس کو اجتماعی انسانی مسئلہ جان کر اس کے حل کے لئے پالیسیاں تشکیل دیں جائیں گی۔
اگرچہ امارت و غربت کی رنگا رنگی قدرت کے نظامِ آزمائش کا حصہ ہے لیکن کم از کم ہر انسان کوبنیادی ضروریاتِ زندگی کی فراہمی ضرور ممکن ہونی چاہیے جیسا کہ ترقی یافتہ اقوام میں نظر آتا ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں اصل مسئلہ وسائل کا فقدان نہیں بلکہ وسائل کی درست تقسیم کا ہے۔دنیا میں افلاس اور معاشی ناہمواری کی ذمہ داری خود انسانی برادری پر عائد ہوتی ہے جس میں ہم میں سے ہر ایک کا اپنے اپنے درجہ میں حصہ شامل ہے ۔
گاڑی سےباہر اب بھی الف لیلوی دنیا کے حسین مناظر آنکھوں کے سامنے تھے مگر میرے اندر کی آنکھ اب کچھ اور دیکھ رہی تھی۔۔۔ایک طرف خدائے لم یزل کی صناّعی کا بکھرا ہوا جمال اور دوسری طرف انسان کی بنائی ہوئی طبقاتی تقسیم کی بدصورتی!! اتنا کھلا تضاد میرے دل میں چھُب رہا تھا۔۔
دُور عورتیں اب بھی پتیاں چُنتی دکھائی دے رہی تھیں۔۔میں نے سوچا یوں بھی تو ہو سکتا تھا کہ میں وہاں اور ان میں سے کوئی میری جگہ پرہوتی !!!میری جاہ نہ کوئی میرا کمال اور ان کی جگہ نہ ان کا کوئی قصور!!! دونوں ہی قدرت کی طرف سے آزمائش ہیں۔ دنیا میں کسی کو دے کر آزمایا جارہا ہے اور کسی کونہ دے کر۔۔۔
TEA FACTORY NUWERA ELIYA
رامبودا آبشار Ramboda Falls
نوارہ علیا کی پیچ دار سڑکوں پر اب ہم رامبودا آبشار کی طرف رواں دواں تھے۔ یہ سری لنکا کی 11ویں اور دنیا کی 729 ویں بڑی آبشار ہے۔اگرچہ یہ بہت اونچی نہیں لیکن اپنے دلفریب نظاروں کی بنا پر سیاحوں میں بہت مقبول ہے۔گاڑی سے اتر کر کچھ دیر کچے ٹریک میں چلنے کے بعد ایک دم جب اس پر نظر پڑی تو ہم سب کچھ دیر کے لئے مبہوت ہو گئے۔ درختوں اور سبزے سے گھری ہوئی یہ آبشار بلاشبہ خالق کائنات کی بہترین صناعی کی گواہی دے رہی تھی۔
ایک کچے ٹریک پر چلتے چلتے ہم آبشار کے قریب پہنچ گئے۔یکایک میری نظر آبشار کے آخری سرے پربننے والی قوس و قزح پر پڑی جو ایک خاص زاویے پر سورج کی شعاعوں کے انعکاس کی وجہ سے بن رہی تھی،کیا دل کو چھو لینے والا منظر تھا!!! کافی دیر آبشارکے حسین نظاروں سے لطف اندوز ہونے کے بعد ہم نے چارو ناچار واپسی کا رخ کیا۔اور ایک اورحسین یاد کو اپنے کیمرے اور دل کے نہاں خانوں میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئےبند کر لیا۔
RAMBODA FALLS
نوارہ علیا Nuwara Eliya
شام کے قریب ہم نوارہ علیا پہنچ گئے ۔آج Araliya Green Hills میں ہماری بکنگ تھی۔ استقبال کے لئے معمول سے بھی کچھ زیادہ مردانہ و زنانہ باوردی سٹاف موجود تھا۔ شاید اسی کی وجہ یہ ہو کہہم ان کے رائل سوئٹ کے مہمان تھے۔ شیطان نے احساس تفاخر میں مبتلا کرنا چاہا مگرہم فوراً اس احساس کو جھٹک کر عاجزی کے ساتھ اندر داخل ہو گئے۔ چونکہ یہ ہل اسٹیشن ہےاس لئے جوسز کی بجائے کافی اور ہاٹ چاکلیٹ سے ہماری تواضع کی گئی ۔ ایک باوردی سمارٹ سی خاتون نے ہم سے ہمارے پاسپورٹ لئے اور دس منٹ میں ضابطے کی تمام کاروائی مکمل کرنے کے بعد ہمیں کمروں تک چھوڑنے کے لئے ہمراہ ہو لی ۔
اپنےشاہی کمروں میں داخل ہوئے تو شام ہو چکی تھی۔ سب آرام کے لئے لیٹ گئے قدرے خنکی کا احساس ہوا تو ہیٹنگ لگا لی۔ بھوک نے اٹھنے پر مجبور کیا تو ڈنر کا ارادہ کیا۔حسب معمول ڈائینگ ہال میں انواع و اقسام کے کھانے ہمارے منتظر تھے۔خوب سیر ہو کر کھایا اور اللہ کا شکر ادا کیا۔ ہلکی پھلکی واک کےلئے باہر لان میں نکلےخوشگوار سی ٹھنڈ ک تھی ۔کچھ دیر کے بعد اندر کا رخ کیا۔کمرے میں آ کر اگلی صبح کی تیاری کی ،سب کے لئے گرم کپڑے اور سویئٹر نکالے جن کو ساتھ لانے کی ہمارے ٹور مینجر نے ریاض میں ہی ہدایت کر دی تھی۔ کچھ ہی دیر میں سب لمبی تان کر سو گئے۔یقین کیجیے سری لنکا کے قیام کے دوران ہر رات اتنی اچھی نیند آئی کبھی زندگی میں نہ آئی تھی۔
اگلی صبح حسب معمول فجر کے بعد سیر کے لئے نکل کھڑے ہوئے۔یہاں ہوٹل کے ساتھ کسی جنگل یا باغ کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ سارا کا سارا شہر ہی ایک دل کش باغ ہے۔ہوٹل کے آس پاس لمبی واک کی،انگریزوں کے دور کے بنے ہوئےگولف کورس کی سیر کی۔بلاشبہ یہ شہر ہر لحاظ سےمثالی تھا۔ اور اس کے حسنِ بے مثال کی خوب حفاظت بھی کی جا رہی ہے۔ پورے شہر میں کوڑا تو درکنار،اتنے زیادہ درختوں کے ہوتے ہوئے بھی کوئی پتہ تک سڑک پر گرا نظر نہ آیا۔
ایک معمر خاتون کو دیکھا کہ وہ راستوں کی صفائی میں مشغول تھیں۔۔ آہ ہ ہ۔۔۔۔کچھ لوگوں کے لئے ضروریاتِ زندگی کا حصول بھی کس قدر مشکل ہوتا ہے ۔ ہیں تلخ بہت بندہِ مزدور کے اوقات۔۔ہمیں دیکھ کروہ مسکرائیں اور اپنے کام میں مصروف ہو گئیں۔ مجھے بہت اچھا لگا کہ صبح کی سردی اور اس عمر کی مزدوری نے بھی ان کو بدمزاج نہ ہونے دیا ۔۔۔اِس قوم کے رویّے مجھے حیران در حیران کئے جاتے تھے۔۔۔لاشعوری طور پرمیرے اندر ایک تقابل سا ہونے لگتا کہ ہم کن بد اخلاقیوں اور پستیوں میں گم کردہ ہیں!! تکبر، تعصب،حسد،کام چوری و کاہلی، ظاہری و باطنی گندگی،بیہودہ گوئی،ظلم و زیادتی، جھوٹ، قتل و غارت گری ۔۔کون کون سی ضلالت کا شکار نہیں۔۔ہمارے مذہب کی تعلیمات کچھ اور ہیں، جبکہ ہماری منزل اور ہمارا مقصود کچھ اور ہے۔۔دیکھائیں زمانے کو ہم بھی کہیں سے ہیں مسلم لگتے!!!
چلیں، یہ نوحہ پھر کریں گے۔۔ابھی آپ کو نوارہ علیا کی سیر کراتے ہیں۔یہ پہاڑی و سیاحتی شہر چاروں اطراف سے تاحدِ نگاہ چائے کے باغات میں گھرا ہوا ہے اور یہاں کی آبشاریں اس کے حُسن میں مزید اضافہ کردیتی ہیں۔ نوارہ علیا کا مطلب ہے "روشنی کا شہر”۔ کہا جاتا ہے کہ اپریل میں اس شہر کا حُسن جوبن پر ہوتا ہے کیونکہ ہر طرف پھول کھلے ہوتے ہیں اور اپریل میں مختلف ثقافتی تقریبات بھی منعقد کی جاتی ہیں۔ ہمیں تو جون میں بھی بے شمار پھولوں کے ساتھ یہ نہایت حسین لگ رہا تھا اب پتہ نہیں اپریل میں اس کے حسن کا کیا عالم ہوتا ہو گا!!
اس شہرکو لِٹل انگلینڈ بھی کہا جاتا ہے اور یہاں پر جگہ جگہ برطانوی سلطنت کے آثار دیکھے جاسکتے ہیں کیونکہ اس شہر کی خوبصورتی اور موسم کو دیکھتے ہوئے سری لنکا پر اپنے دور حکومت کے دوران انگریزوں نے یہاں اپنی رہائش گاہیں بنائیں اور یہ عمارات اب بھی اُسی شان و شکوہ کے ساتھ محفوظ ہیں۔ انگریزاس شہر میں سیر و تفریح، ہاتھیوں،ہرن اور دوسرے جانوروں کے شکار اور پولو، گولف یا کرکٹ کھیلنے کے لئے ٹھہرتے تھے۔
اردگرد کے دلکش اور دل کو چھوتے ہوئےمناظر نے صبح کی سیر کا لطف دوبالا کردیا۔ نہایت پرسکون اور صاف ستھرا یہ شہر،اپنے حسین نظاروں کی بنا پر پاکستان کے ناردن علاقوں سے کافی مشابہت رکھتا ہے۔
لیکن ٹھہرئیے!! جو صفائی اور سیاحوں کے لئے سہولیات میں نے یہاں دیکھیں ،ان کی تو دور دور تک پاکستان کے کسی سیاحتی مقام سے کوئی نسبت نظر نہیں آتی۔ یہ بتاتی چلوں میں ہرگز ان لوگوں میں سے نہیں جو بات بات پر اپنے وطن کا تقابل دوسرے ممالک سے کر کے اس میں کیڑے نکالتے رہتے ہیں۔ بلاشبہ ہمارے ہاں نوارہ علیا سے کہیں زیادہ قدرتی نظاروں سے مالامال علاقے موجود ہیں مگر بدقسمتی سے صفائی کا فقدان،کھانے پینے کی unhygienic اشیاء(کسی مقام پر چلے جائیں سب سے پہلے آپ کا پیٹ خراب ہو جائے گا اور باقی دن آپ سیر کرنے کی بجائے ٹائلٹ کے چکر ہی لگاتے رہیں گے یا واپسی کی راہ پکڑیں گے)، بد حال سڑکیں(اور کئی جگہ پر تو سڑک نام کی چیز موجود ہی نہیں) اور سیاحوں کے لئے ناکافی سہولیات نے ان مقامات کے قدرتی حسن کو ماند کر دیا ہےاور حالات بہتر ہونےکی بجائے بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔
پندرہ سال پہلے جب سوات اور ناران وغیرہ جانا ہوا تو سڑکوں اور صفائی کے حالات گذشتہ سال کی نسبت سے بہتر تھےجب میرا دوبارہ وہاں جانا ہوا۔ خاص طور پر شوگراں میں گھنے جنگل کے ساتھ گھاس کے وسیع میدان کا بالکل سامنے برف پوش پہاڑوں کا نظارہ ایک حسین یاد کی مانند ذہن کے نہاں خانوں میں تازہ تھا۔مگرگذشتہ سال کے ٹرپ میں شوگراں کا جو حال دیکھا،زمین آسمان کا فرق پیدا ہو چکا تھا۔جنگل کی جگہ بے ڈھب اور بے ھنگم قسم کی دکانیں اور ہوٹلز اُ گ چکے تھے، جا بجا کیچڑ اور گندگی کے ڈھیرنمایاں تھے۔ دنیا بھر کے ممالک اپنے جنگلات کی حفاظت کرتے ہیں مگر ہمارے ہاں نجانے کس طرح ان کابے دردی سے صفایا کر دیا جاتا ہے اور کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ۔
شوگراں ہی کی مانند ناران اور کالام کے بازار میں کوڑا کرکٹ اور بہتے ہوئے گندے پانی کی وجہ سے چلنا دوبھر تھا،کالام کےدریا اور قریبی جنگل میں ٹنوں کوڑا کرکٹ پڑا ہوا تھا،سیف الملوک تک پہنچنے والا راستہ ایک بد ترین ٹریک بن چکا تھا۔جیپ کے سفر کےدو گھنٹے کے مسلسل دھکوں کے بعد جب میں وہاں پہنچی تو وہاں پھیلی ہوئی گھوڑوں کی لید کی بو اور جھیل کےکنارے پر کوڑےکے انبار دیکھ کر طبیعت اس قدر مکدر ہوئی کہ فوراً واپسی کا ارادہ کیا۔
اس سب صورت حال کا ذمہ دار حکومت اور عوام دونوں ہیں۔ناران کے ایک دکاندار سے میں نے کہا کہ اگر آپ لوگ اپنی دکانوں کے باہر فاصلے فاصلے پر کوڑا پھینکنے کے لئے ڈرم وغیرہ رکھ دیں تو صفائی کی صورت حال بہت بہتر کی جا سکتی ہے۔ کمال بے نیازی سے جواب دیا گیا کہ آج خاکروب نہیں آیا اس لئے صفائی نہیں ہوئی۔
اپنے حصے کی ذمہ داری کو پس پشت ڈال کرحکومت اور دوسرے لوگوں کو مورد الزام ٹہرانا ہمارا قومی شعار بن چکا ہے۔ کاش ہمیں ہم میں وہ سوک سینس پیدا ہو جائے، جس کی تلقین ہمیں ہمارا مذہب بھی کرتا ہےجس میں ڈسپلن جزو اول اور صفائی نصف ایمان ہے۔ مگر ہم اپنی بے روح عبادتوں سے جنت کا ٹکٹ پکا کرنے میں اس قدر مصروف رہتے ہیں کہ دین کی اصل روح پر کبھی غور ہی نہیں کرتے۔۔۔۔۔بلاشبہ ” ا ن الله لا یغیر ما بقوم حتی یغیروا بانفسهم”
خیر ہم تو اس وقت نوارہ کی بات کر رہے تھے، وطن کی محبت میں جذباتی ہو کر میں کہیں اور نکل گئی۔۔۔اس شہرکی دنا بھر مں مقبولت کی ایک اور بڑی وجہ نوارہ عا م سے ایلا شہر تک جانے والی ٹرین ہے۔ جنوبی پہاڑوں کے بادلوں، چائے کے باغات اور سرنگوں کے اندر سے گزرتی ہوئی ٹرین کے اِس سفر کو دنای کا خوبصورت ترین ریلوے سفر بھی قرار دیا جاتا ہے۔ مگر اپنے ٹور پیکج کی وجہ سے ہمیں ٹرین میں سفر کر نے کاموقع نہ مل سکا۔کافی دیر تک شہر میں گھوم پھر کرحسین نظاروں سے لطف اندوز ہونے کے بعد ہوٹل واپس ہوئے اور ناشتے کے بعد پھر باہر نکل گئےکیونکہ ہم یہاں کی تازہ ہوا اور سرسبز مناظر سے جی بھر کر لطف اٹھانا چاہتے تھےمگر کیا ہے کہ جی تو بھرا نہیں مگر واپسی کالمحہ آن پہنچا۔
نوارہ علیاخوبصورت آبشاروں اور قدرتی جھیلوں کا خطہ ہے۔ بلکہ ایک جھیل کے بارے میں معلوم ہوا کہ اتنی دلکش ہے کہ اس کا نام ہی "جنت الدنیا” یعنی دنیا کی جنت رکھا گیا ہے۔ ہم وقت کی کمی کے سبب نوراہ علیا کے بہت سے حسین مقامات دیکھنے سے محروم رہ گئے۔آپ بھی اگر میری طرح فطرتی مناظر کے دلدادہ ہیں تو نوارہ علیا میں دو یا تین دن رک کر اس شہر کو ضرور ایکسپلور کریں۔۔
گاڑی میںبیٹھ کر سفر شروع ہوا۔ شہر کے حسین نظاروں سے لطف اندوز ہوتےہوئے ایک موڑ کاٹنے کے بعد ایکدم "وہ” سامنے آئی تو دل دھک سےرہ گیا ۔۔میں اس کے حسنِ لازوال کو دیکھ کر مبہوت ہو گئی۔۔ وہ اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ دعوتِ نظارہ دی رہی تھی ۔۔اس کےکرشماتی حسن کاکوئی ثانی نہ تھا۔۔بلاشبہ وہ قدرت کی صناعی کا شاہکار تھی۔
جی وہ”گریگری جھیلLake Gregory ” تھی جس کی مسحور کن خوبصورتی نےہمیں ششدر کر دیا۔۔۔چاروں اطراف وسیع سبزہ زار ،درختوں اور پہاڑوں کے بیچوں بیچ صبح کی دھوپ میں اس کا چمکدار نیلگوں مکھڑا۔۔یقین کیجیے آنکھیں چندھیا گئیں۔۔۔۔الفاظ اس کی دلکشی کو بیان کرنے سے قاصر ہیں۔انتہائی صاف ستھرا سبزہ زار اور صبح کی کرنوں میں دُھلی ہوئی جھیل، جس میں سفید بطخوں کی شکل کی بنی کشتیاں،رنگ برنگے پیرہنوں میں یہاں وہاں بکھرے سیاح۔۔۔ گر فردوس برروئے زمیں است ،ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است۔۔۔ امیر خسرو نے اگرچہ یہ شہرہ آفاق شعر اس جگہ کی مدحت میں نہ کہا تھا مگر میرے ذہن میں ضرورگونجنے لگا۔
دل نے کہا یہاں زندگی نہ سہی کم از کم صبح سے شام تو کر دیں !! لیکن ڈرائیور نے یاد دلایا کہ ہماری آج سہ پہر کی رافٹنگ کے لئے بکنگ ہے اس لئے رکنا محال ہے۔۔دل پر پتھر رکھ کر آگے روانہ ہونے کا ارادہ کیا مگراس عزم کے ساتھ کہ اگر زندگی نے مہلت دی تو دوبارہ ضرور آؤں گی اور فرصت سے جھیل سے خوب رازو نیاز کروں گی۔
CITY VIEW OF NUWERA ELIYA GOLF COURSE ROUTE TO NUWERA ELIYA
Gregory Lake
کیٹول گالا Kitulgala
نوارہ علیا سےنکل کر اترائی کا سفر شروع ہوا ۔ آج بچے خاص طور پر بہت پرجوش تھے کیونکہ آج ہم Raftingکے لئے جا رہے تھےجس کو میں نے خاص طوراپنے پیکج میں شامل کروایا تھا ۔رافٹنگ کا تجربہ ہم سب اس سے پہلے ناران میں بھی کر چکے تھےاوردریائے کنہار کی منہ زور لہروں سےنپٹنے کے بعد اِس دفعہ ہم سب پورے اعتماد کے ساتھ دریا میں اترنے کو تیار تھے۔
رافٹنگ ایک سنسنی خیز سر گرمی اورخطروں کے ساتھ نپٹنے کا ایک پر لطف کھیل ہے جس میں آپ ایک ربڑ کی کشتی میں بیٹھ کر دریا کی منہ زور لہروں کا مقابلہ کرتے ہیں۔ایڈونچر کے ساتھ ساتھ یہ ایک اچھی تفریح بھی ہے۔
دوپہر تک ہم کیٹول گالا پہنچ گئے جہاں rafting کے لئے ہماری بکنگ کی گئی تھی۔ہماری گاڑی ایک چھپر نما رافٹنگ سنٹر پر رکی۔سب نے Changing roomمیں کپڑے تبدیل کیے۔اسی اثناء میں ایک دبلا پتلا ساسری لنکن لڑکا پہنچ گیا جس نے ہمارے رافٹنگ ٹرپ کو لیڈ کرنا تھا۔ اس نے ہم سب کو حفاظتی جیکٹس اور ہیلمٹ پہننے کے لئے دیئے۔ان کو پہننے کے بعد ہم دریا تک پہنچنے کے لئے ایک پِک اَپ میں سوار ہوئے۔پانچ،سات منٹ کے بعد ہم مخصوص جگہ پر پہنچ گئے اور دریائےکیلانی کی طرف نیچے اترنا شروع کر دیا۔ ہماری کشتی وہاں پہنچائی جا چکی تھی۔ایک ایک چپو سب کو تھما دیا گیا۔سفر شروع کرنے سے پہلے ہمارے لیڈر نے ہمیں ضروری ہدایات دیں اور چپو کو استعما ل کرنے صحیح طریقہ بتایا۔اب میرا خیال ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اس نے بھی فر فر انگریزی بولی۔
اس کے بعددریا پر ہمارا پرلطف سفر شروع ہوا۔ اردگرد کہیں گھناجنگل تھا۔ کہیں کہیں چند گھر بھی نظر آ جاتے ۔بظاہر ان گھروں کا پہنچنے کے لئے کوئی سڑک نظر نہ آرہی تھی یا شاید ان گھروں کے باسی کشتیوں کے ذریعے سفر کرتے ہوں گے۔
رافٹنگ کا اصل مزہ اس وقت آتاجب ہماری کشتی Rapids سے ٹکراتی اور ہم سب خود کو سنبھالنے کی پوری کوشش کے باوجود ہنستےہنستے کشتی کے اندر ڈھیر ہو جاتے۔ اِسی اُچھل کود میں ڈیڑھ گھنٹہ گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلااور سفر تمام ہوا۔
ایک جگہ دریا کی سطح بالکل ہموار اور پرسکون تھی،وہاں ہمارے لیڈر نے تجویز پیش کی کہ لائف جیکٹ کے ساتھ اگر یہاں دریا کے اوپر سیدھا لیٹا جائے تو بہت غیر معمولی تجربہ ہو گا۔میراتو اس فراخدلانہ پیش کش پر عمل کا حوصلہ نہ ہوا البتہ لڑکوں نے فوراً حامی بھر لی اور خوب مزا کیا۔اس کے بعدہماری کشتی کنارے لگائی گئی۔سب پورے کے پورے گیلے ہو چکے تھےمگر اس طرح خوش تھے کہ گویا بہت بڑا معرکہ سَر کر لیا ہو۔
سینٹر پہنچ کر سب نےکپڑے تبدیل کیے اور سری لنکا کے نہایت میٹھے اور لذیذ پھل جام نوش کیے جو کہ پہلے سےخرید کر گاڑی میں رکھے ہوئے تھے۔ایک اور پر لطف دن گزارنے پر اللہ کا شکر ادا کیا اوراپنی گاڑی میں بیٹھ گئے۔
بنٹوٹا Bentota
سری لنکا میں ٹرپ کے آخری دو دن ہم نے بنٹوٹا ((Bentota کے قریب چھوٹے سے ٹاؤن ،بیرووالا(Beruwala )میں گزارے۔ بنٹوٹا ،کولمبو سے 65 کلومیٹر جنوب میں واقع ایک چھوٹا سا ساحلی شہر ہے اور بیرووالا کوبنٹوٹا کا ایک نواحی شہر سمجھ لیں۔ یہاں کی سب سے مشہور چیز یہاں موجود صاف ستھرا اور ریتلا ساحل ہے جہاں ہر سال لاکھوں سیاح کھنچے چلے آتے ہیں۔
Beruwalaکی تاریخ جان کر حیران کن اور دلچسپ انکشافات ہوئے۔تاریخ بتاتی ہے کہ سری لنکا میں مسلمانوں کی پہلی آبادی اسی شہرمیں قائم ہوئی۔ آٹھویں صدی عیسوی میں مسلمان تجار کے ہمراہ آئے ہوئے صومالی شیخ یوسف بن احمد نے وہاں اسلام کی تبلیغ کی اور ان کی نسبت سے اس نوآباد شہر کا نام "بربرین” رکھا گیا (بربر یعنی افریقن قبیلہ) جو کہ بعد میں کثرت ِ استعمال کے باعث "بیرو” رہ گیا۔
سری لنکا میں بنائی گئی اولین مسجد بھی اسی شہر میں موجود ہے جس کا نام "مسجد الابرار” ہے۔ یہ مسجد 920ء میں تعمیر کی گئی یعنی ایک ہزار سال پہلے۔ اس کی تعمیر کا سہرا یہاں اوّلین بسنے والے عرب تاجروں کو جاتا ہے جنہوں نے اس خطہ میں اسلام اورپھر اِس مسجدکی بنیاد رکھی۔ 1893ء میں اس مسجد کی مرمت اور تزئین و آرائش کا کام کیا گیا۔ آج بھی یہ مسجد اسلامی فن تعمیر کے نادر نمونے کے طور پر پہچانی جاتی ہے۔
حسنِ اتفاق دیکھیے کہ سری لنکا میں ہمارا آخری دن جمعہ کا دن تھا۔ میاں صاحب اور بچے جمعہ کی نماز پڑھنے ٹک ٹک ( سری لنکا کا رکشہ)میں بیٹھ کر کسی مسجد کی تلاش میں نکل گئے اور ٹک ٹک والے نے اس مسجد میں پہنچا دیا۔ واپسی پر ان کی خوشی دِیدنی تھی کہ سری لنکا کی پہلی مسجد کو دیکھنے اور اس میں نمازِ جمعہ ادا کرنے کی سعادت ملی اور مجھے دکھ ہوا کہ میں اس سعادت سے محروم رہ گئی۔
Beruwala میں ہمارا قیامCinnamon Bay Hotel میں تھا۔پانچ ستاروں والا یہ ہوٹل ساحل پر تعمیر کیا گیا ہے۔نہایت خوبصورت ساحلی پٹی پر بہترین سہولیات اور تعیشات سے مزین یہ پُر رونق ہوٹل سیاحوں کے لئے خاص کشش رکھتا ہے۔ بہت بڑا لان،سوئمنگ پولز،ڈائینگ ہالز،خوبصورت لاؤنج اور بہت کچھ۔۔گویاایک پوری دنیا اس کے اندرآباد تھی۔
سمندر کےنزدیک ہونے کی وجہ سے قدرے حبس تھا مگر صبح اور شام کے وقت ہوا خوشگوار ہو جاتی ۔جس دن ہم وہاں پہنچے اسی رات ہوٹل کےلاؤنج میں کلچرل شو کا بھی اہتمام تھا۔ ایسا ہی شو جوکہ ہم کینڈی میں مِس کر چکے تھے ۔ روایتی لباس میں ملبوس گروپ نے روایتی میوزک اور روایتی ملبوسات کے ساتھ مختلف لوک ڈانسز پیش کئے گئے۔ زیادہ تر رقص ڈھول کی تھاپ پر پیش کئے گئے۔
بھارت کی طرح سری لنکا کی ثقافت پر بھی رقص کی گہری چھاپ نظر آتی ہے۔رقص ہرلنکن تہوار اور رسم کا لازمی جزو بن چکا ہے۔لنکن رقص میں "شیطانی نقاب ” یا” مکھوٹا” کی خاص اہمیت ہے اس کو آپ عام زبان میں ماسک کہہ سکتے ہیں۔یہ ماسک مختلف اقسام کے ہوتے ہیں مثلاً دیومالائی شکلیں،جانوروں یا انسانوں کی اشکال وغیرہ۔دیومالائی طاقتوں کو خوش کرنے کے لئے اس طرح کے ماسک پہن کر رقص کیا جاتا ہے لیکن اب یہ ماسک بھی لنکن ثقافت کا حصہ بن چکےہیں ۔قدیم زمانے سے سری لنکا میں اِس طرح کے ماسک بنائے جارہے ہیں جن کو سیاح بھی بڑے شوق سے خریدتے ہیں۔
آج کے شو میں ایک دبلے پتلےسے لڑکے کی پرفارمنس نے کافی داد سمیٹی جو میوزک کے ساتھ ساتھ ڈانس کرتے ہوئے جلتی ہوئی آگ کو منہ میں ڈال رہا تھا۔گویا اس نے اردو کا محاورہ "آگ سے کھیلنا” کو حقیقت بنا دیا۔ شو سے محظوظ ہونے کے ساتھ ساتھ ہم نے ڈنر بھی جاری رکھا کیونکہ لاؤنج اور کھانے کا ہال ملحق تھے اور سری لنکا کی روایتی ڈشز کے ساتھ ساتھ کانٹی نینٹل کھانوں سے بھی پورا پورا انصاف کیا۔
اگلے دن ہماری مارننگ واک ساحل سمندر پر تھی ۔ سمندر کی مست ہوا میں ساحل پر سیپیاں چُنتے چُنتےاور مٹر گشتیاں کرتے ہم کافی دور تک نکل گئے۔
سمندر کو دیکھ کر ہمیشہ سے خدا کی طاقت کے ساتھ ساتھ اس کی بے پناہ عظمت و کبریائی کا احساس میرے دل میں جاگزیں ہوتا ہے۔صبح کے سہانے سمے سمندر کی نیلگوں وسعت نےدل پر عجب کیفیت طاری کر دی۔یوں لگا جیسے سمندر مجھ سے ہم کلام ہو رہا ہو۔ سمندر کی بےپناہ وسعت اور اس کی منہ زور لہروں کو دیکھ کر یوں بھی اپنی کم مائیگی کا احساس دوچند ہو جاتا ہے۔۔۔اس خالق کائنات کی ایک ادنیٰ تخلیق کا یہ عالم ہے تو اس کون و مکاں کے ان گنت اور لامتناہی مظاہر کو بنانے والے کی طاقت و جبروت کا کیا عالم ہو گا!! دلِ عاجز سے یہی دعا نکلی کہ
اے رب ذوالجلال و الاکرام، تجھ سے فریاد ہے
اے سمیع العالم، ہمیشہ باقی رہنے والے!
میں تجھ سے ملتمس ہوں۔۔تو ہی ہر شے کا اصل محرک، تب سے قائم ہے، جب کچھ بھی نہ تھا
تو ہی در حقیقت، ہر شے کو فنا کرنے والا ہے، جس کا قہر بھی حکمت سے خالی نہیں، تیرے سوا کون ہے جو اس خلائے بسیط کو تباہ کر سکتا ہے؟
اے بصیر ، اے ہمیشہ باقی رہنے والے! میری تمام التجائیں تجھ سے ہی ہیں
بےشک میری حیات ، میری موت، میرا عمل، میرے تمام اثاثے۔۔سب تیری ہی دَین ہیں اور صرف تیرے ہی لیے ہیں، میں تیری طرف سے بھلائی کے نزول کی منتظر ہوں، اپنی ہر اس برائی سے تیری پناہ کی طلبگار ہوں جو مجھ سے سرذد ہوئیں، میں تجھ سے التماس کرتی ہوں کہ مجھے ہر دشمنی اور ساز باز سے اپنی حفاظت میں رکھیے جو میرے علم میں ہے اور جس سے میں ابھی تک لاعلم ہوں۔ آمین
بیرووالامیں ہمارے پاس دو دن تھے۔ صبح کی سیر کے بعد آکر ناشتہ کیا اور کچھ دیر آرام کرنے کے بعدبنٹوٹا جانے کا پروگرام بنایا۔یہ شہر واٹر اسپورٹسز کے لئے بھی بہت مشہور ہے مثلاً جیٹ سکی اور سرفنگ وغیرہ لیکن آج ہم صرف شہرمیں گھومنا چاہتے تھےڈرائیور کو ڈسٹرب کرنے کی بجائے میں نے ایک اور ایڈونچر یعنی ٹک ٹک(سری لنکا کا رکشہ )کی سواری کرنے کا فیصلہ کیا۔ہوٹل سے باہر نکلے اور دو رکشوں پر بیٹھ کربنٹوٹا روانہ ہوئے۔ سری لنکا کا ٹک ٹک ہمارے ہاں کے چنگچی سے کافی مشابہ ہے۔ جلد ایک چھوٹے سےبازار پہنچ گئے،چیزیں کوئی خاص قابل ذکر نہ تھیں لیکن دکاندارشاید ہمارے سیاح ہونے کی وجہ سےکافی مہنگے دام بتا رہے تھے۔چار و ناچاروہاں سےسری لنکا کے کچھ سوونئیر خریدے اور واپسی کا ارادہ کیا۔
ہوٹل آنے سے پہلے پھلوں کی ایک دکان سے کچھ پھل خریدے کیونکہ سری لنکا کے دلکش نظاروں اورمحنتی عوام کے ساتھ ساتھ میں یہاں کے میٹھے اور لذیذ پھلوں کے عشق میں بھی مبتلا ہو چکی تھی۔ایک خاتون نہایت چابکدستی سے ننگے پاؤں ہی خرید و فروخت میں مصروف تھیں۔کچھ پھل جو میرے لئے اجنبی تھے، انھوں نے فوراً کاٹ کر چکھنے کے لئے دیئے جوکافی لذیذ تھے۔ سری لنکا کے آم ، تربوز،اسٹار فروٹ اور پپیتا ہرروز میرے ناشتے اور ڈنر کا لازمی جزو تھے۔ریاض ساتھ لے جانے کے لئےدو کارٹن میں آم،پیتا،مینگوسٹن اور رامبسٹن پیک کروائے (آخری دو کی تصویریں آپ کو دکھا چکی ہوں) ۔۔۔بلکہ بعد میں افسوس ہوا کہ کم لائے ہیں کیونکہ دو تین دن میں ہی ہم نے سب پھلوں کا خاتمہ کر دیا۔
ہوٹل پہنچ کر ٹک ٹک والے نے اپنی جیب سے ہے انگریزی میں چَھپا ہوا اپنا وزٹینگ کارڈ نکال کر ہمیں دیا اور کہا کہ اگر بنٹوٹا کے آس پاس کسی آثارِ قدیمہ یا آبشار دیکھنے جانا ہو تو اس کو کال کر لیں۔اس کا کہنا تھا کہ یہاں سے کچھ دور اس کے گاؤں میں ایک نہایت خوبصورت آبشار ہے جو ہمیں یقیناً پسند آئے گی۔ہم نے اس آفر پر کوئی کان نہ دھراجس کا مجھے اب افسوس ہوتاہے کہ کیوں نہ سری لنکا کو کچھ اور ایکسپلور کیا۔
وہاں کے عوام الناس کی انگریزی بولنے کی صلاحیت کے بارے میں بھی ضروری ہے کہ اب بات کر ہی لیں۔۔سری لنکا 92 فیصد لٹریسی ریٹ کے ساتھ جنوبی ایشیاء میں سب سے ٹاپ پر ہے۔ایک رکشے والے سے لے کر ٹھیلے والے تک ہر کوئی انگریزی میں بات کر سکتا ہے (اگرچہ اپنے ایکسنٹ کے ساتھ) ۔۔۔۔ہو سکتا ہے اس کی وجہ سیاحوں کی کثیر تعداد میں آمد بھی ہو کیونکہ لامحالہ ان لوگوں کا واسطہ سیاحوں سے پڑتا ہے کیونکہ عوام کی ایک بہت بڑی تعداد سیاحت کی انڈسٹری سے وابستہ ہے۔
انگریزی بلاشبہ عالمی سطح پر رابطے کا ایک موثر ذریعہ ہے۔۔ہاں لہجہ اور تلفّظ ہر قوم کا عموماًاپنا ہی ہوتا ہے۔اِسی لئے سب سے زیادہ بے چاری انگریزی زبان کی ہی دُرگت بنتی ہے۔ ایک پٹھان دکاندار کی پیاری سی انگریزی کو تو میں آج تک نہیں بھول سکی۔۔کافی سال قبل کالج ٹور کے ساتھ رشکئی کے باڑے میں جانے کا اتفاق ہوا۔دکاندار نے بہت خوشی سے ہمارا استقبال کرتے ہوئے کہا’SIT ON FURNITURE اور پھر حسب عادت اپنی دکان کے کپڑے کے بارے میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہوئے بولا”باجی، بہت اعلیٰ کپڑا ہے، ٹنڈائی ہے ٹنڈائی”پہلے تو میرے سر سے گزر گیا یا الہی یہ ٹنڈائی کیا بلا ہے! کچھ ٹینڈوں سے ملتا جلتانام لگا۔۔پھر کپڑے کی ہئیت پر غور کیا تو سمجھ آیا کہ مراد TIE AND DYEہے۔۔۔یہ واقعہ ہرگزکسی کی تضحیک کے لئے بتا رہی بلکہ میں توآج تک اس پٹھان بھائی کی انگریزی کویاد کر کے انجوائے کرتی ہوں ۔۔اب آپ کہیں گے کہ میں نے خود کیوں خواہ مخواہ انگریزی جھاڑی ۔۔تو مائی ڈئیر آپ بس”انجوائے” کریں!!
ویسےہمارے ہاں انگریزی ضرورتاً نہیں بلکہ فیشن کے طور پر بولی جاتی ہے یا پھراحساسِ کمتری کے جذبے کے تحت۔۔بظاہر تو ہمیں انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوئے عرصہ گزر چکا ہے مگرہم ان کی ذہنی اور فکری غلامی کے شکنجے سے اب تک آزاد نہیں ہو سکے۔
بنٹوٹا میں آخری دن ہم نے ساحل کے آس پاس گھومنے میں صرف کیا اور اس کے سوا کچھ نہ کیا۔جیسے انگریزی میں کہتے ہیں doing nothing۔ہم بھی آرام سے سمندر کی لہروں کو دیکھتے اور ان سے کھیلتے رہے۔ساحل پر بیٹھ کرمنہ زور لہروں کا نظارہ کرناایک ناقابلِ فراموش تجربہ تھا۔گاہےبگاہے سمندر کی طاقتور لہریں،کچھ نئی سیپیاں ساحل پر بکھر دیتی اور کچھ کو اپنے ساتھ بہا کر واپس لے جاتیں۔ یہی ازل سے اس کائنات کااصول ہے۔۔۔دم بھر کے لئے زندگی کا ساحل اور پھر موت اور اس کے بعد کا لامتناہی سفر!! یہی دم بھر کا وقفہ غنیمت ہے عمل کے لئے۔۔۔
اگرکبھی آپ کو وسیع و عریض سمندر کی ہر دم متلاطم موجوں کے سامنے بیٹھ کر ان کو دیکھتے رہنے کا موقع ملے تو ان تنہائی کے لمحات کو گنوائیے گا مت۔۔یہ خدا، کائنات، زندگی کی حقیقت دریافت کرنے کے لمحات ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ یہ لمحات میرےہاتھوں سے ریت کی مانند پھسل جاتے، میں نے ان کوہمیشہ ہمیشہ کے لئے دل کے نہاں خانوں میں محفوظ کر لیا۔
واپسی کی گھڑی آن پہنچی تھی اور ہم گاڑی میں بیٹھ کر کولمبو روانہ ہو گئے۔ متاعِ دنیا سمیٹ کر اوراَن گِنت حسین یادوں کی متاع کودل میں بساکر گاڑی میں بیٹھ گئے مگر لگتا تھا کہ دل توکہیں سری لنکا کے حسین نظاورں میں کھو گیا ہے۔
؏ طلب میں کسے آرزوئے منزل ہے
شعور ہو تو سفر خود سفر کا حاصل ہے!
ختم شد