Quantcast
Channel: ڈاکٹر محمد عقیل کا بلاگ
Viewing all 320 articles
Browse latest View live

فطرت و وحی

$
0
0


اداریہ
میرے دوستو! مذہب کا مفہوم ہے ” راستہ”۔ یعنی مذہب دراصل وہ راستہ ہے جس کے ذریعے خدا تک پہنچا جاتا ہے۔کم و بیش ہر مذہب اپنی نسبت خدا سے کرتا ہے کہ وہی سچا اور واحد راستہ ہے۔ ہر مذہب دیگر مذاہب کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کرتا اور خود کو سراپا حق بنا کر پیش کرتا ہے۔ہر مذہب دیگر مذاہب کے ماننے والوں سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ باطل مذہب کو چھوڑ کر دین حق کو قبول کرلیں۔ ہر مذہب کے پاس اپنی صداقت کو بیان کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ دلائل

موجود ہوتے ہیں۔
دوستو ! سوال یہ ہے کہ اگر مذہب ہی وہ واحد راستہ ہے جس کے ذریعے خدا تک پہنچا جاسکتا ہے تو وہ کون سا مذہب ہے؟ ظاہر ہے انسان جہاں پیدا ہوتا ہے اسی مذہب کو حق سمجھتااور باقی کو باطل گردانتا ہے۔ شعور کی عمر کو پہنچتے پہنچتے اس کا ذہن ایک خاص طرز میں ڈھل چکا ہوتا ہے کہ وہ غیر جانبدارہوکر عقائد کا جائزہ لینے کی صلاحیت کھوبیٹھتا ہے۔
دوستو! ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مذہب ہی وہ واحد راستہ ہے جس کے ذریعے خدا تک پہنچا جاسکتا ہے تو یہ راستہ خدا نے سب کو یکساں طور پر کیوں نہیں بتایا؟ کیوں ایسا نہ ہو اکہ خدا کے پیغمبر سب قوموں کے پاس آتے اور براہ راست ایک ایک شخص کو مخاطب کرکے انہیں تعلیم دیتے، انہیں تزکیہ و تربیت کے مراحل سے گذارتے؟
اس کا جواب بالعموم مذہب کے ماننے والے یہ دیتے ہیں کہ خدا نے انسانوں تک یہ ہدایت پہنچادی، اب انسانوں کا کام ہے کہ اسے باقی انسانوں تک پہنچائیں۔لیکن اس پر سوال یہ ہے کہ اتنا اہم کام خدا نے دوسرے انسانوں کے ہاتھ میں کیوں دے دیا؟ اگر راستے یعنی مذہب کو جانے بنا خدا تک پہنچا ہی نہیں جاسکتا تو یہ راستہ بتانا تو خدا کی ذمہ داری تھی ۔ جس طر ح انسان کو آکسیجن فراہم کرنے کا کام خدا نے انسانوں کے ہاتھ میں نہیں دیا ، اسی طرح مذہب بھی آکسیجن کی مانند بلکہ اس سے بھی زیادہ اہم ہے جس کے نہ ملنے پر دوسری دنیا کی زندگی کی سانس ممکن نہیں۔
اس سوال پر مزید غور کریں اور غیر جانب دار ہوکر سوچیں تو گتھیاں سلجھنے کی بجائے الجھتی چلی جاتی ہیں۔ ہاں اگر ہم اپنے مذہب کی عصبیت کے تحت یہ بات سوچیں تو پھر تو اس کا جواب دینا بہت آسان ہے کہ ہمارا مذہب حق ہے باقی مذاہب کے ماننے والوں کا یہ فرض ہے کہ وہ حق تلاش کریں اور ان عقائد کو تسلیم کرلیں جو ہمارا برحق مذہب پیش کرتا ہے۔ لیکن ظاہر ہے یہ بات سب ہی خود کو سراپا حق سمجھتے ہوئے دوسرو ں پر ان باتوں ا اطلاق کررہے ہوتے ہیں اس لیے نتیجہ ڈھاک کے تین پات۔
سوال یہ ہے کہ وہ ایسا کون سا پیغام ہے جو خدا نے تمام انسانوں کو کامن دیا ہے، جس میں عرب و عجم، ہندوستان پاکستان، جدیدو قدیم دنیا ، عورت مرد، تعلیم و غیر تعلیم یافتہ کسی میں کوئی تمیز روا نہیں رکھی؟ وہ کونسی ہدایت ہے جو کاغذ کے صفحوں پر نہیں بلکہ انسان کے اندر ہی کسی جینیٹک کوڈ میں لکھی ہوئی ہے جو ہر لمحہ اسے راہ دکھاتی ، صحیح و غلط کے بارے میں بتاتی اور خدا کی ہدایت کو واضح کرتی ہے؟وہ کون سی تعلیم ہے جس میں مذہبی لیڈر شپ درمیان میں نہیں آتی اور نہ اس کی تشریح کی ضرورت ہوتی ہے؟ وہ کونسی تعلیم ہے جو انسانیت کا کامن ورثہ ہے اور جس میں کوئی اختلاف ، کوئی ابہام کوئی بحث نہیں؟
یہ تعلیم انسان کی فطرت میں ودیعت کردہ خیر و شر کا بنیاری تصور ہے جسے ہم ضمیر، فطرت، نفس لوامہ یا کسی اور نام سے موسوم کرسکتے ہیں۔ یہ وہ تعلیم ہے جو دنیا کے ہر انسان کو خدا نے براہ راست دی ہے۔ یہ وہ کسوٹی ہے جس پر انسان کا ہر عمل پرکھا جارہا ہے، یہ وہ تعلیم ہے جو کسی واسطے کی محتاج نہیں، اور یہی وہ تعلیم ہے جس پر بعض اوقات وحی کو بھی پرکھا جاتا اور اس کے مستند یا غیر مستند ہونے کا فیصلہ کا جاتا ہے۔یہی وہ دین ہے جو پوری انسانیت کا ایک مشترکہ اثاثہ ہے اور یہی وہ داخلی وحی ہے جس کی یاددہانی کرانے کے لیے خارج سے پیغمبر آتے رہے ہیں۔
البتہ فطرت یا ڈی این اے میں موجود اس خیر و شر کی تعلیم میں کچھ محدودیتیں ہیں۔ ایک یہ کہ اس کا اطلاق مختلف معاشروں میں مختلف ہوتا ہے۔ دوسرا یہ کہ یہ تصور غیبی دنیا کے بارے میں کوئی بات یقین سے نہیں بیان کرتا کہ مرنے کے بعد کیا ہوگا، جنت و جہنم کیا ہیں وغیرہ۔ نیز یہ تصور بعض اوقات مسخ ہوجاتا ہے جیسے ہم جنس پرستی۔
اس وقت خارجی وحی کا کام شروع ہوتا ہے۔ وحی سب سے پہلے اس کے اطلاق کو موضوعی سے معروضی یعنی آبجیکٹو انداز میں حتمی طور پر بیان کرتی ہے۔ وہ ان غیبی امور کو خدا کی جانب سے بیان کرتی ہے جو انسان عقل و فطرت کے ذریعے معلوم ہی نہیں کرسکتا، وحی ایک ایسی فضا پیدا کرتی ہے جس کے ذریعے فطرت کے تصورات کو مسخ ہونے سے بچایا جاتا ہے۔
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے ایک شخص جب تک کوئی مخصوص مذہب قبول نہ کرے تو وہ امتحان کے دائرے ہی میں نہیں ہے اور وہ جہنمی ہے۔ لیکن حقیقت میں دیکھا جائے تو ہر انسان کا بنیادی امتحان اسی فطرت کے ذریعے دی جانے والی تعلیم سے ہورہا ہے۔ مذہب یا درست وحی تک رسائی ایک دوسرا مرحلہ ہے۔ اگر کسی کو درست مذہب کی دعوت پہنچ جائے اور بات اس کی سمجھ میں آجائے تو اسی فطری مذہب کا تقاضا ہے وہ اس کو مانے کیونکہ حق اس پر واضح ہوچکا ہے۔
میرے دوستو! مذہبی راہنماؤں کی اکثریت کی غلطی یہ رہی کہ انہوں نے ان دائروں کو ملحوظ خاطر نہ رکھا اور خیر و شر کے بنیادی شعور کو فطرت کی بجائے وحی سے اخذ کرنے کی کوشش کی۔ یوں خدا کی ابتدائی وحی پس پشت چلی گئی اور جو وحی اس کی وضاحت کے لیے آئی تھی اسے بنیادی تصور کرلیا گیا ۔لیکن اگر ہم فطرت و وحی کو ان کے درست مقام پر رکھ کر سمجھیں تو دنیا میں مذہب و مسلک کے نام پر کوئی لڑائی جھگڑا نہ ہو۔
میرے دوستو!خدا نے اپنا کام کردیا۔ اس نے ہر انسان کے اندر خیر و شر کا بنیادی شعور ودیعت کردیا۔اس نے ہر شخص کے اندر ہی داخلی وحی مہیا کردی۔ اس نے ہر انسان تک اپنا امتحانی پرچہ پہنچادیا۔ اس کے بعد اس کے ابہام کو خارجی وحی کی تعلیمات سے دور کردیا۔ ہمارا کام اس داخلی اور خارجی وحی کو سمجھنا اور اس پر سر تسلیم خم کردینا ہے۔ یہی اصل اسلام ہے یعنی اطاعت و فرماں برداری۔ بس یہی آج کا مختصر پیغام ہے۔
ڈاکٹر محمد عقیل


مسلم شخصیت کو جانچنے کا کیلکولیٹر

آٹھ سال سے بڑے بچوں کے لیے رمضان تربیتی گائیڈ

$
0
0


اگر باقاعدہ پلاننگ کی جائے تو رمضان میں بچوں کی تربیت بہت اچھے انداز میں کی جاسکتی ہے۔انہیں عبادات کا عادی بنایا جاسکتا، اچھے اخلاق پیدا کئے جاسکتے اور بری عادتوں سے چھٹکارا دلوایا جاسکتا ہے۔بچوں کی تربیت ماں باپ پر اسی طرح فرض ہے جیسے نماز یا دیگر احکامات۔ اسی ضرورت کے پیش نظر یہ گائیڈآپ کی خدمت میں حاضر ہے۔ اس گائیڈسے بچوں میں دین سیکھنے کا جذبہ پیدا ہوگا انشاءاللہ۔کوشش کیجئے کہ دو یا اس سے زائد بچوں کے درمیان یہ گائیڈاستعمال کریں اور روزانہ انہیں ان کا اسکور بتائیں تاکہ اگلے دن وہ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کریں۔
ڈاؤن لوڈ کے لئے یہاں کلک کریں
ramadan-guide-for-kids

کیا تو ایسے شخص کو دنیا میں بھیجے گا جو قتل و غارت گری کرے گا؟

$
0
0

ڈاکٹر محمد عقیل
” میں زمین میں ایک بااقتدار مخلوق بھیجنے والا ہو ں۔ تم سب اس کے آگے جھکے رہنا اور اس کے ارادہ و اختیار میں بے جا مداخلت مت کرنا”۔ خدا نے فرشتوں سے کہا۔

فرشتوں میں سراسیمگی پھیل گئی۔ انہوں نے انسان کےآزادانہ اختیار کی تصویر اپنے کمپیوٹر نما دماغ میں بنا کر یہ اندازہ لگالیا تھا کہ اس سے زمین میں قتل غارت گری مچے گی۔ چنانچہ انہوں نے اپنا کنسرن انتہائی مودبانہ انداز میں خدا کے سامنے رکھ دیا ۔

” آپ کہ ایسی مخلوق کو کیوں پیدا کررہے ہیں جو زمین میں فساد کرے اور خون بہائے ؟ اگر مقصد اطاعت اور تکوینی امور چلانا ہی ہے تو ہم پہلے ہی آپ کی اطاعت خوش دلی سے کررہے ہیں اور آپ کو ہر عیب سے مبرا مانتے ہیں اور آپ پر کوئی اعتراض بھی نہیں کرتے؟ “

فرشتوں کا ایہ اعتراض غلط نہ تھا لیکن یہ صرف انسان کی شخصیت کا محض ایک رخ تھا جو فرشتے اپنے محدود علم اور پروگرامنگ کی بنا پر جان پائے تھے۔ انہیں علم ہی نہ تھا کہ خدا کا اصل منصوبہ کیا ہے۔ چنانچہ خدا نے انہیں سمجھانے کے لیے سب سے پہلے تو انہیں ان کی محدود علمیت سے آگاہ کیا :

” دیکھو ، جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔ تم انسان کے اختیار کی ایک ہی رخ سے واقف ہو۔یقینا ایسا ہے کہ انسان آزادی پاکر منفی صفات کی جانب بھی رغبت کرے گا۔ وہ حسد، نفرت، کینہ ، بغض اور عداوت کی بنا پر خون خرابے کا مرتکب ہوگا۔ لیکن حقیقت میں اس کے اقتدار کی کئی اور جہتیں بھی ہیں۔”

اس کے بعد خدا نے آدم کو انسان کی مثبت صفات سے آگاہ کیا کہ کس طرح وہ ایثا ر، قربانی، ہمدردی، اطاعت اور محبت کا پیکر ہوگا۔ پھر فرشتوں سے کہا ۔

” اب ان ساری صفات کو سامنے رکھ کر بتاو کہ انسان کے کتنے روپ یا صفات ہوں گی؟کیا وہ صرف ایک قاتل،ظالم جابر، ڈاکو اورلٹیرا ہی بنے گا یا انہی میں خداپرست عابد، فلاح پھیلانے والے لیڈر، ہدایت دینے والے پیغمبر، دنیا سے بے رغبت ولی اور شخصیت سنوارنے والے عالم بھی پیدا ہوں گے؟”

فرشتے خاموش تھے۔ انہیں علم ہوگیا تھا کہ ان کی پروگرامنگ نے تصویر کا ایک ہی رخ دکھایا ہے اور مثبت پہلو یکسر نظر انداز ہوگیا ہے۔ چنانچہ انہوں نے معذرت خواہانہ لہجے میں کہا:

“اے اللہ! تمام غلطیوں سے پاک تو صرف آپ ہی کی ذات ہے اور ہمیں تو صرف اتنا ہی علم ہے جتنا آپ نے ہمیں سکھا رکھا ہے ، پورے علم و حکمت والے تو بس آپ ہی ہیں۔”

اب خدا نے آدم کو مخاطب کرکے کہا:

” اچھا تم انہیں انسان کے وہ نام یا مثبت خصوصیات بتادو جن کی بنا پر میں نے انسان کو پیدا کیا ہے۔”

آدم نے بتایا کہ اس خون خرابہ کرنے والی مخلوق میں وہ لوگ بھی ہوں گے جو اپنے رب کا حکم مانیں گے، یہ رب کے لیے سارا دن بھوکے پیاسے رہیں گے، یہ اس کے لیے راتوں کو قیام کریں گے، یہ اس کے لیے اپنا مال لٹادیں گے، یہ اس کے لیے اپنی جان نچھاور کردیں گے لیکن اطاعت سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

آدم نے بتا یا کہ ایسے بھی لوگ ہوں گے جو دوسروں کے سکون کے لیے اپنا سکون غارت کریں گے، جو دوسروں کو زندگی دینے کے لیے اپنی زندگی کی قربانی دیں گے، جو دوسروں کے امن کے لیے اپنا امن تباہ کردیں گے۔ غرض آدم نے فرشتوں کو انسان کے تمام مثبت پہلووں اور صفات سے آگاہ کیا۔

اس کے بعد خدا نے ارشاد فرمایا :

” دیکھو ، یہی وہ غیب ہے جسے تم اپنی محدودیت کی بنا پر نہیں جان سکتے ۔ تمہاری بات درست ہے کہ یہاں ہٹلر جیسے فاشسٹ، چنگیز خان سے قاتل، فرعون جیسے جابر اور نمرود جیسے آمر پیدا ہوں گے ۔ لیکن ساتھ ہی موسیٰ جیسا کلیم بھی ہوگا۔ ایوب جیسا صبر بھی ہوگا، ابراہیم جیسا خلیل بھی ہوگا، محمد جیسا رحمت للعالمین بھی ہوگا۔ یہاں ان پیغمبروں کے اصحاب بھی ہوں گے۔ یہاں میرے دوست بھی ہوں گے۔ یہاں میرے ماننے والے ، میرے نام لیوا ور میرے چاہنے والے بھی ہوں گے۔ یہ اسی آزادنہ اختیار کے ساتھ مجھے پہچانیں گے، مجھے مانیں گے، مجھے چاہیں گے۔ جواب میں میں بھی انہیں جنت کی ابدی بادشاہت دوں گا۔یہ اصل محفل انہی لوگوں کو چننے کے لیے سجائی جارہی ہے۔پس میں ہی وہ سب باتیں جانتا ہوں جو تم چھپاتے ہو یا ظاہر کرتے ہو۔

شب قدر اور فرشتے سے مکالمہ

$
0
0

پروفیسر عقیل کا بلاگ

کتنی اہم رات ہے۔
اچانک سلیم کا جی چاہا ہے ان کے بات چیت کرے۔ وہ ان کے قریب گیا اور سلام عرض کیا۔ فرشتوں نے مسکراکر جواب دیا۔
"کیا میں آپ سے بات چیت کرسکتا ہوں؟ ” سلیم نے پوچھا۔
” جی ضرور! فرمائیے!”
” مجھے یہ پوچھنا ہے کہ پاکستان کے لوگ اتنی عبادتیں کرتے ، اتنی دعائیں مانگتے، اتنے روزے رکھتے اور اتنی زکوٰۃ دیتے ہیں لیکن پھر بھی اس ملک کا برا حال ہے۔ عوام چکی میں پس رہے ہیں،غربت، افلاس ، بھوک، دہشت گردی، قتل و گردی لگتا سے سب مسائل نے اسی ملک میں ڈیرہ ڈال دیا ہے۔ کیا خدا نے نہیں کہا کہ دعا کرو میں سنوں گا؟ پھر خدا ہماری سنتا کیوں نہیں؟ کیا وہ رحمان و رحیم نہیں ہے؟”
فرشتوں نے بغور اس بات کو سنا اور پھر ان میں سے ایک فرشتہ گویا ہوا:
” کیا دل میں درد کا…

View original post 1,051 more words

انسانی ذہن اور وجود الٰہی

$
0
0


تحریر:ڈاکٹر محمد عقیل

دنیا کے تمام مذاہب میں خدا کا تصور موجود ہے۔ خدا سے تعلق قائم کرنے کے لیے عبادت کی جاتی ہے۔ اگر مشرکانہ مذاہب کی عبادت کو دیکھا جائے تو وہ خدا کا بت، تصویر یا پتلا سامنے رکھ کر اسے خدا سمجھتے ہیں اور یہ تمام مراسم عبودیت ادا کرتے ہیں۔ اس سے اگلا درجہ مراقبے کا ہے۔اس میں خدا کو سامنے تو نہیں رکھا جاتا البتہ اس کے کسی تصور کو فوکس کرکے اس سے تعلق قائم کیا جاتا ہے۔ یہ تصور کسی بت کا بھی

ہوسکتا ہے اور کسی اور شے کا بھی۔
اس کے بعد یہودیت، عیسائیت اور اسلام آتے ہیں۔ عیسائیت میں حضرت عیسی و مریم علیہما السلام کے مجسمے سامنے رکھ کر ان سے قربت کا اظہار کیا جاتا اور خدا کے نزولی تصور کو اپنی سوچوں میں بسایا جاتا ہے۔ یہودیت و اسلام میں بت پرستی کی اجازت نہیں۔ البتہ دونوں مذاہب میں بھی تجسیم اور علامات کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ مثال کے طور پر یہودیت میں ماضی میں تابوت سکینہ کو سامنے رکھ کر عبادت کی جاتی اور آگ جلائی جاتی تھی جبکہ حال میں یہی اہمیت دیوار گریہ کو حاصل ہے۔
دوسری جانب اسلام میں بھی ایسے شعائر یا علامات موجود ہیں جن کو مذہبی تقدس حاصل ہے۔ مثال کے طور پر خانہ کعبہ کو خدا کے گھر اور حجر اسود کو خدا کے ہاتھ سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ صفا و مروہ، منی عرفات، مزدلفہ، قرآن پاک اور عام مساجد بھی شعائر یعنی اللہ کی نشانیوں میں شامل ہیں اور ان کی تعظیم کا حکم ہے۔
ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیوں ماضی کے مذاہب میں ہر دوسرا مذہب بتوں کی شکل میں تجسیم کا قائل رہا؟ اور ایسا کیوں ہوا کہ اسلام نے بھی بت پرستی کے خاتمے کے باوجود ایک پتھر کی عمارت(خانہ کعبہ ) کی جانب سجدہ کرنے ، اور ایک پتھر(حجر اسود) کو چومنے یا اس کو خدا کا ہاتھ تعبیر کرنے کا حکم دیا؟ یا صفا مروہ کی پہاڑیوں کو مذہبی تقدس دیا ۔اسی طرح قرآن میں جگہ جگہ خدا کی نشانیوں پر غور کرنے کا حکم ہے جن میں زمین، چاند ، سورج ، ستارے، پہاڑ، دریا ، سمندر ، چرند پرند اور دیگر مخلوقات موجود ہیں؟ اس کا جواب ہمیں جدید سائنس سے ملتا ہے۔
جدید سائنس ہمیں یہ بتاتی ہے کہ ہمارے دماغ کے دو حصے ہیں ایک دایاں یا رائٹ برین اور دوسرا بایاں یا لیفٹ برین۔ رائٹ برین جذبات ، تصورات اور خیالات کا حصہ ہے جبکہ لیفٹ برین لاجک اور حساب کتاب کا حصہ ہے۔ دونوں حصوں کا کام کرنے کا طریقہ کار مختلف ہے۔ رائٹ برین جس زبان کو سمجھتا ہے وہ تصویر، علامات اور رنگوں کی زبان ہے جبکہ لیفٹ برین الفاظ اور جملوں پر مشتمل کسی زبان جیسے انگلش یا اردو کو سمجھتا ہے۔ رائٹ برین ہمیں روحانی دنیا کے قریب کرتا ہے جبکہ لیفٹ برین ہمیں مادی دنیا کے قریب کرتا ہے۔
اس بات کو مد نظر رکھ کر ہم دوبارہ اسی سوال کی جانب آتے ہیں۔آخر کیوں ماضی اور حال کے مذاہب بشمول اسلام نے تجسیم کو کسی نہ کسی صورت میں بحال رکھا۔ اس کا جواب مائنڈ سائنسز کی روشنی میں بہت سادہ ہے۔ اس معاملے کو ہم خواب کی نوعیت سے سمجھتے ہیں۔
ہم جو خواب دیکھتے ہیں تو یہ ہمارے رائٹ برین ہی کے متحرک ہونے کی بنا پر نظر آتا ہے۔ لیکن آپ پورے خواب میں دیکھ لیں وہاں کوئی بات چیت نہیں ہوتی ، پھر بھی ہم ٹیلی پیتھی کے ذریعے بات سمجھ جاتے ہیں ۔ وہاں صرف امیجز یعنی تصاویر ہوتی ہیں جیسے ہمارے کسی گذرے ہوئے بزرگ کی شبیہ ۔ وہاں رنگ ہوتے ہیں جیسے فجر جیسا اجالا، دھند، بے حد اندھیرا وغیرہ۔ وہاں علامات ہوتی ہیں جیسے سانپ پہاڑ ، دریا وغیرہ ۔ وہاں فیلنگز یعنی احساسات ہوتے ہیں جیسے شدید پیا س لگنا،سانس رکنا،خوف کھانا، درد محسوس کرنا وغیر۔اس دنیا میں ہر تصویر، شبیہ ، رنگ اور علامت کی اپنی ایک تعبیر ہے۔
خواب ایک روحانی دنیا کی سرگرمی ہے۔ چنانچہ روحانی دنیا سے کنکٹ ہونے کے لیے ہمیں اپنے رائٹ برین کو متحرک کرنا لازمی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ برین زبان کو نہیں سمجھتا۔چونکہ مذہب انسان کو مادی دنیا سے اوپر اٹھا کر روحانی دنیا سے کنکٹ کرنا چاہتا ہے اسی لیے مذہب میں علامات کا استعمال ہوتا ہے۔ تمام مذاہب اس برین کو متحرک کرنے کے لیے علامات ، شبیہ اور تصاویر کا سہارا لیتے ہیں۔ اگر ہم بت پرستی کو چھوڑ کر صرف اسلام ہی کی بات کرلیں جو جونہی حج کا تصور ہمارے ذہن میں آتا ہے تو بالعمو م خانہ کعبہ ہمارے تصور میں آجاتا ہے۔ اسی طرح جب ہم لفظ ” اللہ ” بولتے ہیں تو یہ چار حروف یعنی الف، لام، لام اور ہ ڈھل کر کسی بزرگ شخصیت کا تصور بن جاتے ہیں۔اسی لیے تمام مذاہب بشمول اسلام میں علامات کو بہت اہمیت حاصل ہے کیونکہ یہی علامات رائٹ برین کی تحریک کا سبب بنتی اور انسان کو روحانی دنیا سے منسلک کرتی ہیں۔
لیکن ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مذہب میں تو مخصوص زبان کے ذریعے کچھ کلمات پڑھے جاتے ہیں۔ جیسے اسلام میں نماز میں سورہ فاتحہ، قرآن اور دیگر تسبیحات پڑھی جاتی ہیں۔ اسی طرح ہندو مذہب میں سنسکرت کے منتر، یہودیت و عیسائیت میں عبرانی کی حمد زبان ہی سے پڑھی جاتی ہے۔ اور ہم نے جانا کہ زبان کا تعلق تو لیفٹ برین سے ہے۔ اس کا جواب بہت آسان ہے۔
ہم جب زبان سے کسی مخصوص مقدس کتاب کے الفاظ ادا کرتے ہیں تو اس سے پہلے ہمارا لیفٹ برین متحرک ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ ہم کلمہ طیبہ کا ورد کرکے یا سورہ فاتحہ سے خدا کی حمد و ثنا کرکے اور اس سے مددو نصرت مانگ کر لاجک اور منطق کی سطح پر اپنے آپ کو یہ باور کراتے ہیں ہم خدا کے غلام ہیں، ہم اس کے بندے ہیں اور وہ آقا، ہم عبد ہیں اور وہ معبود۔
البتہ یہ تعلق بہت ابتدائی سطح کا عقلی تعلق ہے ۔ ابھی اس تعلق کی جڑیں دل میں پیوست نہیں ہوئیں، ابھی یہ تعلق اتنا مضبوط نہیں کہ انسان اس منطقی خدا کے لیے اپنا تن من دھن لگادے۔ اس ابتدائی تعلق کو اسلام کی اصطلاح میں محض تسلیم کرلینا اور مان لینا یا اسلام قبول کرلینا کہا گیا ہے جس کی تفصیل سورہ حجرات میں موجود ہے۔
اگلا مرحلہ اس منطقی اور زبانی اسلام کو ایک یقین اور ایک تحریک میں بدلنے کا ہے تاکہ اس منطقی تعلق کو جذبات ، محبت اور روحانیت کی سطح پر کنورٹ کیا جاسکے۔ اس کو ایمان یا یقین کہتے ہیں۔اس مقصد کے لیےرائٹ برین کو متحرک کرنا لازم ہے۔ چنانچہ اب الفاظ کے پیچھے چھپے تصورا ت کو نمایاں کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ا س تجسیم میں اولین حیثیت خانہ کعبہ کو حاصل ہے۔ اب یہ سیاہ پوش مکعب محض ایک کمرہ نہیں بلکہ اسے خدا کے گھر کا تقدس حاصل ہے۔اب حجر اسود خدا کے ہاتھ کا نعم البدل ہے جس میں ہاتھ دے کر انسان خدا سے بیعت کرتا ہے۔اب صفا مرو ہ محض پہاڑیاں نہیں بلکہ خدا کی یاد میں دوڑنے کا مقام ہے۔ اب مسجد محض ایک عمارت نہیں بلکہ خدا کے گھر کی حیثیت کی حامل ہے۔
یہ تجسیم محض مذہبی مقامات تک محدود نہیں بلکہ قرآن نے اسے پوری کائنات تک وسعت دی ہے اور کائناتی مظاہر کو خدا کی نشانیاں یا علامات کہا ہے۔ چنانچہ ہرے بھرے درخت خدا کی ربوبیت کا مظہر ہیں، اب سورج کی روشنی خدا کی صفت نور کی علامت ہے، اب بارش کی بوندیں خدا کی صفت رحم کو ظاہر کرتی ہیں، اب بلند و بالا پہاڑ خدا کے جلال و قدرت کی نشانی ہیں اور اب بے کراں سمندر خدا کی لامحدودیت کو ظاہر کرتا ہے۔
اب بات بہت سادہ ہوگئی ہے۔ کسی بھی مذہب بالخصوص اسلام کی ابتدا زبان سے چند کلمات ادا کرنے سے ہوتی ہے جسے ہم اسلام کو زبان سے قبول کرنا کہتے ہیں۔ یہ کلمات ہمارے لیفٹ برین یا لاجکل برین کو یہ باور کراتے ہیں کہ ہم کسی معاہدے کے تحت ہیں اور کسی کے غلام ہیں۔ اس کے بعد ان الفاظ کے پیچھے موجود تصورات ہمارے ذہن ، دل اور دماغ میں راسخ ہوجاتے ہیں تو یہ رائٹ برین کی تحریک کا وقت ہوتا ہے۔ اب ہم اس منطقی تعلق کو جذبات اور محبت میں ڈھال کر اس قابل ہوجاتے ہیں کہ اسلام کی عقلی قبولیت کو ایمان و یقین میں بدل سکیں۔ غور سے دیکھا جائے تو حقیقی مومن اس وقت حقیقی بنے جب انہوں نے اپنے دعوہ ایمان کو زبان سمجھنے والے لیفٹ برین سے اٹھا کر رائٹ برین تک پہنچادیا۔
اسی گفتگو سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ دین سے متعلق ہونے والے افراد کو تین حصوں میں منقسم کیا جاسکتا ہے۔ ایک وہ جن کا رائٹ برین زیادہ ایکٹو ہے ، دوسرے وہ جن کا لیفٹ برین زیادہ ایکٹو ہے اور تیسرے وہ جن کا معاملہ بیلنس کا ہے۔
جن کا لیفٹ برین زیادہ ایکٹو ہوتا ہے وہ لوگ اسلام لانے کے باوجود خدا سے ایک منطقی تعلق ہی قائم رکھ پاتے ہیں ۔ ان کی مثال مسلمانوں میں ان فقہا کی ہے جو ہر چیز کو ظاہر کی آنکھ سے دیکھتے اور اسے منطق، فقہ اور ظاہری قانون کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس معاملے میں جب یہ ایک حد سے گذرتے ہیں تو باطنی تطہیر کو چھوڑ کر محض شریعت کے ظاہری اعمال ہی کو فوکس میں رکھنے پر تل جاتے ہیں۔
دوسری جانب جن کا رائٹ برین زیادہ متحرک ہوتا ہے وہ جذبات و احساسات کو فوقیت دیتے اور خدا سے ایک محبت و عشق کا تعلق قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ لوگ جب اس تحریک میں حد سے گذرتے ہیں تو شریعت کو پس پشت ڈال دیتے ہیں اور محض جذبات و احساسات ہی کو اپنا محور و مرکز بنالیتے ہیں۔ مسلمانوں میں یہ گروہ صوفیا کا رہا ہے۔
لیکن دیکھا جائے تو انسان کا برین رائٹ اور لیفٹ دونوں کا مجموعہ ہے اور کسی ایک جانب جھکاؤ اس کی شخصیت میں عدم تواز ن پیدا
کرسکتا ہے۔ اس لیے خدا سے تعلق میں عقل و خرد کی اپنی اہمیت ہے اور محبت و جذبات کی اپنی اہمیت ۔ چنانچہ تیسری قسم کے لوگ وہ ہوتے ہیں جو رائٹ اور لیفٹ برین میں تواز ن قائم کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا سے تعلق تو دیکھیں تو وہ نہ تو عقلی مقدمات سے عاری تھا اور نہ ہی جذبات و کیفیات سے آزاد۔ وہ عقل و محبت کا ایک حسین امتزاج تھا۔ ایک جانب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کے ذریعے خدا کے وجود کے عقلی دلائل دیتے نظر آتے ہیں تو دوسری جانب آپ خدا کی محبت میں اپنا مال، اپنا آرام و آسائش، اپنی فیملی لائف سب قربان کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
حاصل کلام یہ ہے کہ مذہب عقل اور محبت دونوں کا ایک حسین امتزاج ہے۔ اگر اس میں لیفٹ برین یعنی منطق و عقل ہی کو اہمیت دے دی جائے گی تو یہ یہیودیت کی طرح خشک احکامات مجموعہ بن کر رہ جائے گا۔ اور اگر اس میں رائٹ برین یعنی محبت و عشق ہی کو فوکس کیا جائے گا تو شریعت کی جگہ رہبانیت لے لے گی جس میں عقل دشمنی میں کسی بھی نامعقول حد کو کراس کرنے کو دین سمجھ لیا جائے گا۔ حق یہی ہے کہ رائٹ اور لیفٹ برین کو بوقت ضرورت متحرک بھی کیا جائے او ر بیدار بھی رکھا جائے ۔

من پر قابو کیسے ؟

$
0
0


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
ڈاکٹر محمد عقیل
• حضرت ، چند باتیں بہت پریشان کرتی ہیں؟ میں نے حضرت سے پوچھا
• پوچھو کیا مسئلہ ہے؟ حضرت نے جواب دیا۔
• حضرت ، گوکہ میں جانتا ہوں صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے؟لیکن پھر بھی خود پر قابو نہیں۔ اس مسئلے کا کیا حل ہے؟
• بھئی دیکھو،محض یہ جاننا ضرور نہیں کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے؟ سب سے پہلے تو ” خود” کو جاننا ضروری ہے

۔
• اچھا؟ تو پہلے وہی بتائیے۔ میں نے دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا ۔
• دیکھو میاں، ایک کار کا تصور کرو۔ اس کار کا مالک پچھلی سیٹ پر بیٹھا ہے۔ دوسرا شخص ڈرائیور جو اس کا ملازم ہے وہ کار چلا رہا ہے اور تیسرا فریق وہ کار ہے جس میں یہ دونوں بیٹھے ہیں۔ اب یوں سمجھو کہ یہ کار ہمارا مادی وجود یعنی جسم ہے، ڈرائیور ہمارا مائینڈ اور مالک ہم خود یعنی ہماری اپنی شخصیت ۔
• وہ کیسے ؟ میں نے شوق سے پوچھا۔
• دیکھو ، اس کار کا ایک ظاہری ڈھانچہ ہے جو سمجھ لو ہمارا ظاہری بدن ہے۔ اس کار کااندرونی نظام جیسے انجن ، الیکٹرک کا نظام وغیرہ ہمارے جسم کے کے اندرونی اعضا ء کی مانند ہیں جیسے دل ، گردے پھیپڑے وغیرہ
• اچھا کیا کار خود بخود چل سکتی ہے؟
• نہیں ، میں نے جواب دیا۔ اسے پٹرول کی ضرورت ہے جیسے انسان کو غذا کی ۔
• ارے بھئی ، اگر پٹرول بھی ہو تو کیا خود بخود چل سکتی ہے یا کوئی چلانے والا ہونا چاہیے؟ حضرت نے دوبارہ پوچھا۔
• جی بالکل ، ایک ڈرائیور ہوتا ہے جو اسےچلاتا ہے۔
• تو بس سمجھ لو ، جس طرح کار کو چلانے کے لیے ڈرائیور ہوتا ہے، ایسے ہی جسم کو چلانے کے لیے مائینڈ یا دماغ ہوتا ہے جسے قدیم اصطلاح میں دل بھی کہا جاتا ہے۔
• بس تو سمجھ لو ، ڈرائیور کے پیچھے بیٹھا مالک ہماری اپنی شخصیت ہے جسے قدیم اصطلاح میں خودی، انا، نفس وغیر ہ کہا جاتا ہے۔ اب کچھ سمجھے کہ معاملہ کیا ہے؟حضرت نے پوچھا۔
• اوہ، یہ تو گتھی سلجھتی جارہی ہے۔ کار میرا جسم ہے، ڈرائیور، میرا دل یا مائینڈ او ر اس کے پیچھے بیٹھا ہو ا شخص ان سب چیزوں کا مالک یعنی میں ہوں ۔ میں نے کہا ۔
• ہاں بس ایک اور چیز کا اضافہ کرلو۔ کار کے شیشے اور کھڑکیاں انسان کے اعضا یعنی ناک، کان، آنکھیں، زبان اور لمس کی مثال ہیں جن سے میں باہر کی دنیا سے رابطہ رکھتا ہوں۔
• پس جان لو کہ کار ہمارا جسم ہے، مالک ہمارا باطن اور ڈرائیور ہمارا دل، کھڑکیاں اور دروازے ہمارے ناک ، کان،زبان ، لمس اور آنکھیں اور کار سے باہر باقی دنیا موجود ہے۔
• اب سوچو، اگر ڈرائیور اپنے مالک سے باغی ہوکر اپنی مرضی چلانے لگے، وہ کھڑکی سے نظر آنے والے ہر خوبصور ت منظر کو غور سے دیکھے، باہر کے دل کش میوزک ہی کو سننے کے لیے رک جائے، ساتھ چلنے والی کاروں کے ڈرائیور وں سے بات کرتا رہے ، جہاں چاہے کار کو لیے پھرے، کسی قانون کی پابندی نہ کرے، نہ سگنل پر رکے نہ اسپیڈ کا خیال رکھے اور نہ ہی سڑک پر موجود دوسری گاڑوں کو خاطر میں لائے تو کیا مالک کبھی اپنی منزل تک پہنچ پائے گا؟ اس کا انجام کیا ہوگا؟
• یہ شخص تو اپنے مالک کو بھی حادثے سے دوچار کرے گا اور اپنی کار کو بھی۔ میں نے کہا
• بس تو جان لو، جس شخصیت کے قابو میں اس کا اپنا ڈرائیور یعنی دل نہیں وہ اپنے جسم اور روح یا ظاہر و باطن دونوں کی ہلاکت کی تیاری کررہا ہے۔ اور یہ بھی جان لو کہ ڈرائیور یعنی دل کو قابو نہ کیا جائے تو یہ آزادی کی مستی میں کبھی جنسی لذت کی کھائیوں کی جانب دوڑے گا تو کبھی نشے کی وادیوں میں سکون تلاش کرتا پھرے گا۔کبھی یہ دوسرے ڈرائیوروں سے حسد کرتے ہوئے تیز رفتاری کا مظاہرہ کرے گا تو کبھی جیتنے والوں پر الزام تراشی ، بدگمانی اور بدتمیزی سے زیادتی کرنا چاہے گا۔
• ارے تو اس کا مالک اسے کچھ نہیں کہتا؟ میں نے پوچھا
• یہی تو مسئلہ ہے۔ جب مالک کا کنٹرول ڈرائیور پر کمزور پڑ جاتا ہے اسی بنا پر تو یہ ایسی حرکتیں کرتا ہے۔ پھر یہ ڈرائیور یا دل بہت چالاک ہوتا ہے۔ اسے علم ہے کہ اس کا مالک اگر مضبوط ہوگیا تو اس کی آزادی خطرے میں ہے۔ چنانچہ یہ اپنے مالک کو جھانسے میں لے آتا ہے۔یہ بھی کھڑکیوں کے باہر جنسی مناظر میں مالک کو مشغول کردیتا ہے۔ یہ اسے اچھے کھانے کھلا کھلا کر سست اور کاہل بنادیتا ہے۔ یہ اسے لوگوں سے لڑوا کر اس کو الجھادیتا ہے کہ مالک کو اس دل کی جانب نظر کرنے کی فرصت ہی نہیں ملتی۔
• ارے تو یہ دل ایسا ظلم کیوں کرتا ہے؟ میں نے پوچھا
• دیکھو بھئی ، دل تو ایک ڈرائیور کی مانند ہے جس کا کام حکم ماننا ہے۔ یہ جو مالک ہے نا، یہ انسان کی روح ہے ۔ یہ وہ روح ہے جو خدا نے انسان میں پھونکی۔ یہ روح خدا کی پھونک ہے۔ یہ ایک طرح کا ایک دم ہے جو خدا نے انسان پر کیا ہے تاکہ اپنی کچھ صفات ادانیٰ درجے میں انسان میں منتقل کرکے اسے جانوروں سے افضل بنائے۔ جب انسان ان خدائی رنگوں یعنی صفات کو استعمال نہیں کرتا اور اپنے اعضا پر کنٹرول ختم کردیتا ہے تو اب یہ رحمانی صفات یا رنگ میلے ہونے لگ جاتے اور آہستہ آہستہ گندگی میں تبدیل ہوتے جاتے ہیں۔ اب اس گندگی میں شیطان ڈیرے ڈالنا شروع کردیتا ہے ۔
• جب یہ رنگ میلے ہوجاتے ہیں تو انسانی شخصیت شیطان کی آلہ کار بن جاتی ہے ۔ اب دل پر نفس لوامہ کی بجائے نفس امارہ کا قابو ہوتا ہے۔ اب یہ خدائی صفات کی حامل روح کی بجائے شیطانی ارواح کے قابو میں آجاتا ہے۔ پھر یہ اسے جہاں چاہے لیے پھرتے ہیں۔
• ارے تو اس دل ، مائینڈ یا ڈرائیور پر قابو کیسے کیا جائے؟ اصل سوال تو یہی ہے؟ میں نے پھر پوچھا۔
• اب اس کا جواب بہت آسان ہے۔لیکن یہ جواب تم بتاوگے۔ اچھا یہ بتاو جب ڈرائیور کو ہم پہلی مرتبہ ملازم رکھتے ہیں تو کیا کرتے ہیں؟
• اسے بتاتے ہیں کہ تمہارے کیا اوقات ہیں، کیا تنخواہ ہے، کب چھٹی اور کب نہیں۔ مالک کو کیا پسند ہے اور کیا نہیں وغیرہ۔ میں نے کہا۔
• درست کہا تم نے۔ یہی معاملہ ہمیں اپنے دل کے ساتھ بھی کرنا ہے ۔ اسے سختی سے بتادینا ہے کہ جائز کیا ہے ناجائز کیا ہے، ہماری اصل شخصیت کے لیے کیا درست ہے اور کیا نہیں، کب اٹھنا اور اور کب سونا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ بتادینا ہے کہ مالک کی مرضی چلے گی ، ڈرائیور کی نہیں۔ اسے جدید اصطلاح میں ایجوکیشن کہتے ہیں۔ اچھا بتاو اس کے بعد کیا کرتے ہیں۔
• اگر ڈرائیور کام صحیح نہ کرے تو اسے سزا دیتے ہیں۔ میں نے جواب دیا۔
• ارے نہیں، اتنی جلدی سزا کا کوئی فائدہ نہیں۔ اسے کچھ ہفتے یا مہینے تربیت سے گذارو۔ اپنی مرضی سے آگاہ کرو، ہلکی پھلکی تنبیہ کرو۔ اسے جدید اصطلاح میں ٹریننگ کہتے ہیں۔
• اس کے بعد اگر وہ نہ مانے جو سزا دینی ہے؟ میں نے کہا
• ارے میاں تمہیں سزا کی بہت جلدی ہے لگتا ہے مستقبل میں مولوی بننے کا ارادہ ہے۔ اب دو مرحلے مکمل ہوگئے ہیں ایک ایجوکیشن اور دوسرا ٹریننگ۔ اب اگلا مرحلہ ہے ڈسپلن جس میں سزا ہی نہیں جزا کا نظام بھی ہے۔ ڈرائیو ر کس اچھی طرح بتادو کہ حکم کی خلاف ورزی بھی سزا ہوگی۔ جیسے جھوٹ بولنے پر اس کی تنخواہ کا دس فی صد حصہ صدقے میں دے دیا جائے گا، کسی فحش سائٹ کو دیکھنے پر روزہ رکھنا ہوگا، کسی کو گالی دینے یا جھگڑا کرنے پر انا کو کچلنے کے لیے سر عام معافی مانگنی ہوگی وغیرہ۔
• اچھا ، زبردست ۔ لیکن مزید جرمانے بھی تو ہوسکتے ہیں نا؟
• ہاں ، جرمانہ مالی ، بدنی یا دونوںہوسکتے ہیں۔ بس یہ خیال رہے کہ نہ تو جرمانہ اتنا ہلکا ہو کہ ڈرائیور کو کوئی فرق ہی نہ پڑے اور نہ اتنا بھاری کے ڈرائیور کا کچومر نکل جائے اور وہ سرکش ہوکر بھاگ ہی جائے۔ اس کے علاوہ صرف سزا کا نظام ہی نہ رکھو۔کبھی ڈرائیور کر آرام بھی دو، کبھی اس کی مرضی بھی چلنے دو لیکن اس طرح کہ تمہارے حکم پر ہی اسے محدود آزادی ملے۔اسے اچھا کام کرنے پر شاباش دو۔ کبھی اسے کھانا کھلانے اچھی جگہ لے جاو، کبھی جائز حدود میں اسے زبردستی تفریح پر بھیجو، کبھی کچھ دنوں کے لیے اسے ڈسپلن سے محدود چھٹی بھی دو۔
• ارے ، یہ تو میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے؟
• بھئی یہی تو ایک مینٹور اور عام استاد میں فرق ہوتا ہے ۔ تو اب ذرا جلدی سے بتاوّ کیا سمجھے؟
• جی میرا دل ڈرائیور ہے جو میرا یعنی میری اصل باطنی شخصیت کا غلام ہے اور کار میرا جسم ۔ اگر ڈرائیور کو ایجوکیشن، ٹریننگ اور ڈسپلن سے قابو نہ کیا جائے تو یہ میری ظاہری شخصیت کو بھی تباہ کرکے بیمار، لاغر، موٹا،بھدا، سست اور کاہل بنادے گا اور میری باطنی شخصیت کو بھی ہائی جیک کرکے اسے شیطان کے ہاتھوں یرغمال بنادے گا۔ چنانچہ مجھے سب سے پہلے اس کو قابو کرنا ہے۔ اسے بتانا ہے کہ کان، ناک ، ہاتھ، منہ، زبان چلنا پھرنا، کھانا پینا اور سونا جاگنا ہر کام میرے حکم ہی سے ہوگا۔ اور یہ نہ مانے تو سزا کا جرمانہ اور مانے تو جزا اور انعام۔
• درست سمجھے۔ لیکن خالی سمجھنا کافی نہیں ، عمل ضروری ہے ورنہ سمجھ لو ڈرائیور نے ایک اور جھانسا دے دیا کہ مجھے تو سب پتا ہے۔
• بھگوت گیتا اور امام غزالی کی احیا ء العلوم سے ماخوذ

میں اور وہ۔بس یہی زندگی ہے

$
0
0


میں اور وہ۔بس یہی زندگی ہے
ڈاکٹر محمد عقیل
زندگی کی کہانی صرف دو لفظوں کا مجموعہ ہے۔” میں اور وہ "۔ جو میں ہوں وہ بس "میں "ہوں اور جو میں نہیں وہ بس ” وہ” ہے۔ ہم میں سے ہر انسان کا معاملہ یہی ہے۔ ایک طرف ہماری اپنی ذات ہے تو دوسری طرف اس ذات سے باہر کی دنیا۔ زندگی بس انہی دو لفظوں کو سمجھ لینے کا نام ہے۔ اپنی ذات کو جاننا دراصل ” میں ” کو جان لینا ہے ۔ جبکہ اپنی ذات سے باہر کی دنیا کو جاننا اس سماج کو جان لینا ہے

۔
خود کو جاننا کیا ہے؟ یہ ہمارے چہرے ، جسم اور ظاہری وجود کی شناخت نہیں ۔ بلکہ یہ اس "میں "کی شناخت ہے جو ہمارے اندر بستی ہے۔ یہ ہمارا باطنی وجود ہے۔ یہی ہماری میں ، خودی اور انا ہے جو موت کے بعد بھی نہیں مرتی۔ ہم اپنے آپ کو جانے بنا زندگی نہیں گزار سکتے کیوں کہ یہی وہ شعور ہے جو ہمیں جانوروں سے ممتاز کرتا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس وجود کو ظاہری آنکھوں سے نہیں دیکھا جاسکتا۔ اس وجود سمجھنے کے لیےہمیں دل کی آنکھیں کھولنا ہونگی۔ ان دل کی آنکھوں کو جدید سائنس میں مائینڈ سائنس کہتے ہیں۔
ہمارے وجود سے باہر بھی ایک دنیا ہے جسے ہم سماج ، سوسائٹی ، معاشرہ یا کسی بھی نام سے جان سکتے ہیں۔ یہاں سورج ، چاند ، تارے، جانور ، چرند ، پرند ہی نہیں بلکہ ماں باپ، بہن بھائی، بیوی اولاد، دوست احباب،دفتر ، گھر سب بستے ہیں۔ بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہیں کہ اسی دنیا میں کہیں خدا بھی بستا ہے۔ اس دنیا کی سمجھ کے بنا بھی زندگی ممکن نہیں کیونکہ ہم خود بھی اسی دنیا میں رہتے ہیں۔ اس سماج کی اپنے اصول، اپنا میکنزم اور اپنا نظام ہے۔ اسے جانے بنا بھی ہم زندگی کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔
پس اگر زندگی دو لفظوں کی کہانی ہے تو علم بھی دو لفظوں کا مجموعہ ہے۔ ایک اپنی ذات کا علم اور دوسرا اپنی ذات سے باہر کا علم ۔ اپنی ذات کا علم مائینڈ سائنس ہے تو ذات سے باہر کا علم سوشل سائنس۔ یہاں ایک سوال یہ ابھرتا ہے کہ مذہب اور خدا کا علم کہاں گیا۔ وہ دراصل انہی دونوں میں موجود ہے۔ خدا نے انسان کو دو طرح سے ہدایت دی ہے۔ ایک وہ ہدایت جو ہماری فطرت میں پیوست کردی گئی۔ اس میں خدا کا بنیادی تصور ، صحیح اور غلط کا شعور، انسانی کی جبلتیں اور دیگر بنیادی الہام آجاتے ہیں۔ باطن میں مذہب اور خدا کا یہ تصور مائینڈ سائنس کے ذریعے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ خدا اور مذہب کے تصور کا دوسرا ماخذ وحی کا ہے جو ہمارے خارج سے آتی ہے۔ یہ وحی آج سوشل سائنس ہی کے موضوعات میں سے ایک موضوع ہے۔
پس زندگی دو لفظوں کا علم ہے اپنی ذات کی پہچان اور خارج کی پہچان ۔ اس علم کو حاصل کرنے کے دو طریقے ہیں ایک مائینڈ سائنس کے ذریعے خود کو جاننا اور سوشل سائنس کے ذریعے خارج کو جاننا۔ جس نے یہ جان لیا اور اپنے وجود کو ان قوانین کے مطابق ہم آہنگ کردیا ، وہ دنیا میں بھی فلاح پاگیا اور آخرت میں بھی۔ اور جو ان کو نہ جان پایا یا جانننے کے باوجود نہ مان پایا تو وہ دنیا میں بھی خسارے میں ہے اور آخرت میں بھی۔
ہمارے ادارے کا بنیادی مقصد اپنی ذات اور اس سے باہر کی دنیا کو سمجھنا ، ان کے قوانین جاننا ، ان کی تربیت حاصل کرنا اور اس کے مطابق اپنی اور دوسروں کی زندگی بہتر بنانا ہے تاکہ ہم دنیا میں سرخرو ہوکر ایک مطمئین نفس بن کر جی سکیں اور آخرت میں بھی اپنا ایک ترقی یافتہ وجود خدا کے حضور پیش کرسکیں۔
اوریب انسٹٹیوٹ آف مائینڈ اینڈ سوشل سائنس
https://www.oims.pk/
ڈاکٹر محمد عقیل
۳ نومبر ۲۰۱۸


پیغمبر اور ان کی مشترکہ تعلیمات

علم کے درجات

$
0
0


تحریر : ڈاکٹر محمد عقیل

"علم کے کتنے درجات ہوتے ہیں؟”
حضرت نے مجھ سے پوچھا۔ سوال بڑا اچانک تھا اور ادب بھی ملحوظ خاطر تھا اس لیے یہی جواب بن پڑا۔

"حضرت ہی بہتر جانتے ہیں؟”
"علم کے کتنے درجات ہوتے ہیں؟”
دوبارہ ذرا سخت لہجے میں پوچھا گیا۔ اب میں سمجھ گیا کہ جواب دینا ہی پڑے گا۔ تو میں نے عرض کیا:
” حضرت، علم کے تین درجات ہوتے ہیں، ایک علم الیقین ، ایک عین الیقین اور ایک حق الیقین۔”
"یہ علم کے درجات نہیں بلکہ کیفیات ہیں۔” وہاں سے جواب ملا ۔ اب میں خاموش ہوگیا تاکہ حضرت کا جواب سن سکوں۔
” جان لو، علم کے سات درجات ہوتے ہیں۔ پہلا درجہ لاعلمی یا جہالت ہے جسے ہم زندگی سے پہلے کی کیفیت یعنی موت سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ یہ علم کا پہلا زینہ ہے۔ یہ جانے بنا کہ میں نہیں جانتا، کوئی جاننے کا عمل شروع ہی نہیں کرسکتا۔
سن لو، دوسرا درجہ علم کی ابتدا کا ہے۔ یہ علم کا تعارف ہے۔ یہ علم کی زندگی کا آغاز ہے۔ اس کو ہم مچھلی کی سطح کے علم سے تشبیہہ دے سکتے ہیں جو کائنات میں صرف مقید پانی کا علم رکھتی ہے اور زمین و آسمان سے ناواقف ہوتی ہے۔
تعارف حاصل کرنے کے بعد تیسرا درجہ ان باتوں کو جاننا ہے جو فائدہ پہنچاتی ہیں اور جن میں دلچسپی ہوتی ہے۔یہ جانوروں کی سطح کا علم ہے جو نہ صرف پانی بلکہ اس سے اوپر کی دنیا یعنی زمین کا بھی علم رکھتے ہیں۔
چوتھا درجہ ان باتوں کو جاننا ہے جو نقصان پہنچاتی ہیں اور جن سے بچنا لازمی ہوتا ہے۔ یہ پرندوں کی سطح کا علم ہے جو نہ صرف زیرزمین پانی اور زمین کا علم رکھتے ہیں بلکہ آسمان کی بلندیوں تک بھی ایک حد تک پرواز کرتے ہیں۔
پانچواں درجہ نفع و نقصان سے ماورا باتوں کو بھی جاننا ہے۔ یہ انسان کا درجہ ہے جو بیک وقت زمین کی تہہ، زمین کی سطح ، آسمانوں وسعتوں کا علم جاننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
چھٹا درجہ مادی کائنات کی ڈائمنشنز سے نکل کر اس دنیا کا علم بھی حاصل کرنا ہے جو حواس سے ماورا ہے۔ یہ فرشتوں کا درجہ ہے۔
ساتواں اور آخری درجہ اس منبع کا علم ہے جہاں سے یہ تما م علم نکلتا ہے۔ جو اس منبع کا علم حاصل کرلیتا ہے تو اسے علم ہوتا ہے کہ اسے کچھ علم ہی نہیں۔یہ تمام علم کی موت ہے۔ گویا جس موت سے علم کی ابتدا ہوئی تھی اسی موت پر علم کا اختتام ہوگیا۔لیکن یہ جاننا کہ میں کچھ نہیں جانتا اب جہالت نہیں بلکہ علم کی معراج ہے۔ ”
میں ہمہ تن گوش تھا اور باتیں سمجھنے کی کوشش کررہا تھا۔ اچانک حضرت نے ایک اور سوال پوچھ لیا۔
” کوئی شخص علم کے ایک درجے سے اگلے درجے میں کس طرح منتقل ہوتا ہے؟”
” جب وہ ایک مرحلہ مکمل کرلیتا ہے تو اگلے مرحلے میں پہنچ جاتا ہے۔” میں نے جواب دیا ۔
” بالکل درست، بس اس میں ایک بات کا اضافہ اور کرلو ۔ وہ یہ کہ ایک شخص مختلف فیلڈز میں بیک وقت مختلف درجوں میں ہوسکتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک ڈاکٹر اپنی فیلڈ میں تو علم کے ساتویں درجے میں ہو لیکن عین ممکن ہے وہ اکنامکس کے بارے میں ابھی دوسرے درجے میں ہو۔” حضرت نے جواب دیا۔
” میں ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ آپ نے علم کو پرندوں جانوروں انسانوں اور فرشتوں کے علم سے کیوں تشبیہہ دی ہے جبکہ جانور بھی تو نفع کے ساتھ ساتھ نقصان والی باتوں کا علم رکھتے ہیں؟”
” دراصل جانوروں اور مچھلی یا پرندوں کے علم کا مطلب یہ نہیں کہ یہ علم جانوروں کا ہے یا پرندوں کا ہے یا مچھلی کا ہے۔ بلکہ یہ علم کی سیڑھیاں سمجھانے کے لیے بیان کیا گیا ہے۔ سب سے پہلی سیڑھی زیر زمین پانی کی دنیا ہے جس کو مچھلی کی سطح کے علم سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس کے بعد زمین کی سطح کا علم ہے جو چوپایوں کی دنیا ہے۔ اس سے اوپر آسمانی فضا کی سطح ہے جو پرندوں کی دنیا ہے۔ اس سے اوپر ان تمام سطحوں کی تین ڈائمنشنز کا علم ہے جو انسان کی دنیا ہے۔ اس کے بعد روحانی ڈائمنشنز ہیں جو فرشتوں کی دنیا ہےاور اس کے بعد علم کا منبع ہے جو حقیقی صاحب علم کی دنیا ہے۔”
” کیا ایک انسان فرشتوں کا علم حاصل کرسکتا ہے؟” میں نے ایک اور سوال پوچھا۔
” اسے یوں کہنا چاہیے کہ کیا ایک انسان فرشتوں کی دنیا کا علم حاصل کرسکتا ہے؟ تو جواب اثبات میں ہے۔ لیکن وہ یہ علم اتنا ہی حاصل کرسکتا ہے جتنی اجازت ہوتی ہے۔ اس کی مثال پیغمبروں کا فرشتوں کے ساتھ مکالمہ ہے۔ جیسے حضرت خضر علیہ السلا م نے حضرت موسی علیہ السلام کو تعلیم دی یا معراج میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ملٹی ڈائمنشن دنیا دکھائی گئی۔ ”
اب بات میری سمجھ آچکی تھی اور میں اس سوچ میں غلطاں تھا کہ میں خود علم کی کس سطح پر ہوں۔

بدھا کے دیس میں از راعنہ نقی سید

$
0
0


بدھا کے دیس میں
سفر نامہ از راعنہ نقی سید

بدھا کےدیس میں
سفر نامہ پی ڈی ایف میں ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں یا سائٹ پر پڑھنے کے لیے نیچے اسکرول کریں۔
updatedبدھا کےدیس میں

سفر نامہ

انسان کی فطرت ہے کہ یکسانیت سے اکتاہٹ محسوس کرتا ہے اور نئے اور انوکھے تجربات میں سکون کا متلاشی رہتا ہے۔سفر اورسیاحت کا شمار بھی ایسے ہی تجربات میں ہوتا ہے۔بسااوقات یہ آوارہ گردی ایک جنون کا روپ دھار لیتی ہے۔ انسان اس کا شکار ہو جائے تو نئی منزلوں اور ان دیکھی راہگزروں کی طرف سفر کے سوا کوئی چیز اس دیوانگی کا علاج نہیں کر سکتی۔ لیکن ایسے لوگوں کے لئے

یہ جنون بھی عقل کی علامت ہے۔بقول فیض
انہی کے فیض سے بازارِعقل روشن ہے
جو گاہ گاہ جنون اختیار کرتے رہے! !
اگرچہ فیض نے یہاں کسی اور "جنون” کا ذکر کیا ہے ۔۔مگر کیا ہے کہ ہر شخص کا جنون بھی جدا جدا ہوتا ہے ۔ تو بات اتنی سی ہے کہ گرمیوں کی چھٹیاں شروع ہوتے ہی میرے اندر بھی اِسی جنون نے پھر انگڑائی لینا شروع کر دی ۔کسی اچھی سی جگہ پر تعطیلات گزارنے کی خواہش دل میں کلبلانے لگی۔سعودی عرب کے صحرائی ماحول سے دور کسی سر سبز اور ٹھنڈے ملک کا انتخاب اولین ترجیح تھی جو زیادہ دور بھی نہ ہو۔
ترکی کافی عرصے سے میری ہٹ لسٹ میں تھا۔سفر کی ضروری کاروائی پر معلومات حاصل کیں تو پتہ چلا کہ ترکی کے ویزا کے حصول میں کافی وقت درکار ہے۔ دوبارہ تلاش شروع کی۔ انٹر نیٹ اور دوستوں سے معلومات لینے کے بعد قرعہ فال سری لنکا کے نام کا نکلا۔دو تین دن کے اندر ای-ویزا ایشو کر دیا گیا۔ایک دفعہ پھر انٹرنیٹ پر سری لنکا کے لئے تمام ٹور پیکجز کو کھنگالنا شروع کیا۔ وہاں کے تمام قابل دید مقامات اور گوگل میپ سے ان مقامات کے درمیانی فاصلے کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک پیکج کا انتخاب کیا مبادا سفر اتنا ہو کہ تھکن ہو جائے۔اپنی مہم جُو فطرت کے پیشِ نظر منتخب کردہ پیکج میں کچھ تبدیلیاں کروائیں ۔جون کے قدرے مرطوب موسم کو دیکھتے ہوئےایسے آثار قدیمہ کا انتخاب کرنے سے گریز کیا جہاں زیادہ دیر دھوپ میں پیدل چلنا پڑے ۔ اس کے بعد زور شور سے وہاں کے موسم اور ضروریات کے مطابق تیاری شروع کر دی۔اور چند ہی دن کے بعد ہم سری لنکا کی طرف عازم ِسفر ہو گئے۔
سری لنکا شمالی بحر ہند میں ایک جزیرہ ملک ہے جوجنوبی ایشیا کی قدیم تہذیب کا امانت دار اور اپنی نوعیت کی واحد مملکت ہے۔ 1972ء سے قبل اس علاقے کو جزیرۓ سیلون یا سراندیپ بھی کہتے تھےمؤخرالذکرنام عربوں کے ہاں زیادہ مقبول تھا۔1948ء میں سری لنکا برطانوی تسلط سے آزاد ہوا کولمبو جو برطانوی راج میں دارالسلطنت تھا، آج بھی سری لنکا کا دارالحکومت ہے۔ تھیرواد بدھ مت سری لنکا میں سب سے بڑا مذہب ہے، جو کل ملکی آبادی کا 70 فی صد ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اشوکا کے ایک بیٹے "ماہندہ ” نے یہاں بدھ مت کی تبلیغ شروع کی اس کے بعدبہت جلد یہ علاقہ بدھ مت کا مرکز بن گیا۔بدھ مت کے پیروکاروں کے علاوہ یہاں مسلمان اور عیسائی بھی موجود ہیں ۔دور جدید میں، اسلام سری لنکا کا تیسرا بڑا مذہب ہے مسلمان 9.7 فی صد ہیں ۔سری لنکا کی اسلامی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنا خود اسلام، کیونکہ اس سرزمین کے ساتھ عربوں کے قدیم تجارتی تعلقات قائم تھے اور ہندوستان کی فتح سے قبل ہی بحری عرب تجار یہاں پر اسلام کو روشناس کراچکے تھے۔ تا ہم باقاعدہ مسلمانوں کی تاریخ یہاں اس وقت شروع ہوئی، جب جنوبی ہندوستان کے راستے نور اسلام کی کرنیں یہاں پہنچنا شروع ہوئیں۔
اس ملک کے بارے میں مشہور ہے کہ آدم علیہ السلام کو بھی سری لنکا میں ایک پہاڑ پر اتارا گیا تھا جہاں ان کے قدم کا نشان بھی محفوظ ہے۔(یہ پہاڑ Adam Rock کے نام سے مشہور ہے ہمارے ٹور مینجر کے مطابق جون میں یہ تیز ہواؤں کی وجہ سے سیاحوں کے لئے بند کر دیا جاتا ہے اس لئے ہم وہاں جانے سے محروم رہ گئے) ۔
سری لنکا دریا، پہاڑ، میدان، سمندر اور جنگلات جیسے قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ یہاں اس کے علاوہ ہر قسم کے قدرتی مناظر،صاف ستھرے ساحل اور زمانۂ قدیم کے آثار کو ملا کر وہ سب کچھ موجود ہے جن کوایک سیاح دیکھنے کی خواہش رکھتا ہے۔ اگر آپ باہر کےملک کی سیرکرنا چاہتے ہیں، تو اس مرتبہ سری لنکا ضرور چکر لگا لیں۔
نیا ملک اور نئی جگہیں دیکھنے کے جوش کے ساتھ ہم ریاض سے روانہ ہوئے۔راستے میں دوبئی میں چند گھنٹے قیام کیا اور اس کے وسیع و عریض اور جدید ائیر پورٹ کی بھول بھلیوں میں چکر کاٹنے کے بعد متعلقہ ٹرمینل کے سامنے جا کر فروکش ہو گئے۔جلد ہی کولمبو کے لئے ہمارے سفر کا آغاز ہو گیا۔
 کولمبو
مقامی وقت کے مطابق صبح 8 بجے کے لگ بھگ ہم نےاپنی آنکھوں انتہائی اشتیاق اور دل میں ازبس شوق لئےسری لنکا کی سرزمین پر قدم رکھا۔ بندرا نائیکےکولمبو ائیر پورٹ کی عمارت تو دوبئی کے مقابلے میں کچھ نہ تھی مگر سروس لاجواب تھی۔ اردگرد بے شمار سیاح نظر آ رہے تھے، دل میں سوچا کہ نامعلوم اور کتنی دیر یہاں سے باہر نکلنے میں لگ جائے گی کیونکہ پہلے کئی دفعہ ہمارے ساتھ ایسا ہو چکا تھا۔ لیکن اس کے عین برعکس کچھ ہی دیر میں امیگریشن کی تمام کاروائی مکمل ہو گی اور ہم سامان والی بیلٹ کی طرف یہ سوچ کر آہستہ آہستہ بڑھنا شروع ہوئے کہ پچھلے تجربات کی روشنی میں سامان آنے میں ایک ڈیڑھ گھنٹہ تو کہیں نہیں گیا۔ لیکن دو منٹ کے اندر اندر بیلٹ پر ہمارا سامان آنا شروع ہو گیا اور اگلے پانچ منٹ میں ہم ائیر پورٹ سے باہر تھے۔ یہ تھا سری لنکا سے ہمارا پہلا تعارف جو نہایت خوش گوار رہا۔ اس کے بعد اگلے سات دن تک ہمیں اسی طرح کی خوش گوار حیرتوں کے جھٹکے لگتے رہے۔
ائیرپورٹ سے باہر نکلے تو موسم کافی مرطوب تھا جو کہ ہماری انٹر نیٹ کی معلومات کے عین مطابق تھاکہ جون میں وہاں کا موسم پندرہ دن بارش کے ساتھ ایسا ہی ہونا تھا۔ لیکن آگے چل کر یہ تجربہ بھی نہایت خوشگوار ثابت ہوا۔ ایک تو سری لنکا کی گرمی سعودی عرب اور پاکستان کی طرح کاٹ دار نہ تھی ،گاہے بگاہے ہونے والی بارش کی وجہ سے قابل برداشت تھی ۔
سچ پوچھیں تو سعودی عرب میں سال بھر میں ایک دفعہ بارش دیکھنے والے ہم جیسے لوگوں کے لئے یہ ایک آئیڈیل ماحول تھا ۔ سری لنکا کی شاپنگ میں ہم نے سب سے پہلےچھتریاں ہی خریدی تھیں یہ الگ بات ہے کہ سوائے ایک آدھ بار کے ان کے استعمال کاموقع ہی نہ ملا۔ ہوٹل میں ٹھہرنے والوں کے لئے ہر جگہ کمروں میں چھتریاں موجود تھیں۔ میں سری لنکا کی بارش کا بھی تعارف کروا دوں کہ پاکستان کی طوفانی قسم کی بارشوں کے برعکس وہاں نہایت تمیز دار بارش ہوتی ہے کم از کم ہمارے ہوتے ہوئے تو ایسی ہی ہوئیں، تھوڑی دیر کو بوندا باندی ہوئی اور پھر ختم۔ کہیں پر بھی کسی کا کوئی کام متاثر نہیں ہوتا۔ چھتری ہر وقت ہر بندے کے ہمراہ ہوتی ہے اور یوں ہی ہر جگہ زندگی رواں دواں رہتی ہے۔ آپ پورے اطمینان کے ساتھ اپنے شیڈول کے مطابق کام جاری رکھ سکتے ہیں۔
ائیرپورٹ کے باہرٹور پیکج والوں کی طرف سے بھیجا گیا ہمارا ڈرائیور، بہت سے دوسرے ڈرائیور حضرات کے بیچ میں ہمارے نام کا پلے کارڈ اٹھائے ہمارا منتظر تھا۔ سمارٹ سا سری لنکن خدوخال والا ایک مہذب سا نوجوان، جس کی معیت میں ہم نے سری لنکا کے طول و عرض کی سیر کی۔ وہ ایک ڈرائیور ہونے کے ساتھ ایک بہترین گائیڈ بھی تھا۔ اس نے انتہائی پروفیشنل انداز میں شستہ انگریزی میں ہمیں ہر جگہ معلومات فراہم کی اور سفر کے دوران کہیں شکایت کا موقع نہ دیا جو کہ ہم سب کے لئے خوشگوار حیرت کا سبب تھا۔
ہمیں فراہم کی گئی گاڑی بھی حسب وعدہ نہایت آرام دہ ، capaciousاور ائرکنڈیشنڈڈ تھی اور سامنے ڈیش بورڈ پر مہاتما بدھ کی ایک چھوٹی سے سفید مورتی رکھی ہوئی تھی۔اب بدھا کے دیس میں آئے ہیں تو بدھا تو ہمراہ ہوں گے ہی ناں!!
ہم پانچ لوگ اپنے چھ صندوقوں سمیت اس پر سوار ہو گئے بلکہ ایک ایک سیٹ پر نیم دراز ہو گئے۔ سفر شروع ہوا، باہر کا منظر بھی نہایت حسین تھا، کہیں بارش، کہیں جھیلیں اور ہر جگہ پھیلے ہوئے سرسبز درخت، نگاہوں کو بہت بھلے لگ رہے تھے۔
کولمبو کی شہری آبادی شروع ہوئی تو منظر اپنا اپنا سا لگنے لگا۔ ایسا لگا کہ جی ٹی روڈ پر جہلم سے لاہور کا سفر جاری ہے، ٹریفک کا اژدہام، سڑک کے دونوں طرف چھوٹی دکانیں اور سٹورز اور چلتے پھرتے اور کام میں مصروف لوگ۔ ہلمٹ کے بغرے کوئی ایک بھی موٹر سائکلے سوار نظر نہںس آیا۔ ڈرائیور سے وجہ پوچھی تو پتہ چلا کہ ٹریفک قواننر کی خلاف ورزی کرنے والے کو بھاری جرمانہ عائد کاٹ جاتا ہے۔ اس سارےمنظر میں ایک چیز مختلف تھی، وہ تھی کثیر تعداد میں چلتی پھرتی عورتیں جو ڈھیلی ڈھالی اسکرٹ یا جینز اور شرٹ میں ملبوس ہر جگہ دکھائی دےرہی تھیں۔
میں نے سری لنکا میں چھوٹی دکانوں، بڑے سٹورز، فیکڑیز (ہم نے ایک ٹی فیکڑی کا بھی دورہ کیا تھا)، ہوٹلز کے استقبالیہ سے لیکر کچن تک، دفاترہر جگہ عورتوں کو مصروف کار دیکھا۔ جو بوڑھی عورتیں کچھ اور نہ کر سکتی تھیں، ان کو دیکھا کہ وہ سڑک کے کنارے ٹھیلہ لگائے یا چھابڑی میں مقامی پھل فروخت کر رہی تھیں ، سب میں یہ بات مشترک تھی کہ ان کے لباس سیدھے سادے تھے، کسی قسم کے میک اپ سے بےنیاز وہ اپنے معمول کے کاموں میں مصروف تھیں اور کوئی ان کو گھور تک نہ رہا تھا ۔ نہ وہ خود کو دکھا رہی تھیں نہ کوئی ان کو دیکھ رہا تھا بلکہ سری لنکا کی سڑکوں پر آپ کو خواتنت بھی بکثرت موٹر سائکلس، ٹرک، بسں اور ویںن چلاتی نظر آئںں گی۔۔۔۔۔یہ تھا حیرت کا ایک اور جھٹکا کہ عورتں آزادی کے ساتھ مردوں کے شانہ بشانہ معاشی تگ دو اورقومی ترقی مںک شامل ہں ۔
جلد ہی کولمبو کے ساحل سمندر کے پاس بلند عمارتوں کا جدید علاقہ شروع ہو گیا ۔ کولمبو اپنے اندرجدید طرزِزندگی اور قدیم تہذیبی آثار دونوں کو سموئے ہوئے ہے۔مرکزی شہر میں بینک، دفاتر،ریستوان ، قدیم و جدید مندر اور کئی سیاحتی مقامات ہیں ۔ساحلِ سمندر کے نزدیک ہی بڑی بڑی عمارتوں کے پہلو میں ایک نو تعمیر شدہ ہوٹل سری لنکا میں ہماری پہلی قیام گاہ تھا۔ ہمیں بلند اور جدیدعمارتوں سے کوئی دلچسپی نہ تھی کہ وہ ریاض میں بہت ہیں ۔ہاں سمندر ہماری نگاہوں کا مرکز تھا۔ہوٹل میں داخل ہوئے توخاتون ریسپشنسٹ نےچیک اِن کی ضروری کاروائی سے مستعدی سے گلوخلاصی کروا دی۔کمرے میں پہنچ کروہاں موجود چائے کافی اور ہلکےپھلکےسنیکز کھا کر کچھ دیر آرام کے لئے لیٹ گئے۔ قیلولہ کے بعد سب تازہ دم ہو گئےعصر کے بعد ہم ساحل سمندر جانے کے لئے تیار تھے باہر ہلکی ہلکی بارش جاری تھی جو کہ سری لنکا کا خاصہ ہے۔ ہم نے نہایت شوق سے چھتریاں اٹھائیں اور باہر کا رخ کیا۔ راستے میں پزا ہٹ سے اپنی اپنی پسند کا پزا آرڈر کیا اورڈٹ کرکھایا۔باہر نکلے اور پانچ منٹ کی واک کی بعد ہم ساحل پر پہنچ گئے۔
راستے میں سری لنکا کی پارلیمنٹ کی پرانی پرشکوہ عمارت بھی نظر آئی جو کہ 1930 سے لیکر 1983 تک نمائندگان کےزیر استعمال رہی ۔ یہ عمارت کافی حد تک یورپی طرز ِتعمیر کی عکاسی کر رہی تھی کیونکہ اس کو سری لنکا پر برطانوی راج کے دوران تعمیر کیا گیا تھا۔ اب اس کو صدارتی سیکریٹریٹ کےطور پر استعمال کیا جاتا ہے۔عمارت کے وسیع و عریض لان میں کئی کانسی کے مجسمے نصب تھے جو پرانے وزراء اعظم اور برطانوی راج کے دوران بنائی گئی قانون ساز اسمبلی میں پہلے سری لنکن نمائندے کی یاد میں بنائے گئے ہیں۔کچھ دیر ان کو خراج تحسین پیش کرنے کے بعد ہم آگے بڑھ گئے۔

بارش تھم چکی تھی، ٹھنڈی اور پرسکون ہوا چل رہی تھی سورج غروب ہونے میں ابھی کافی وقت تھا۔ سامنےٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر اپنے خالق کی طاقت کی گواہی دے رہا تھا۔دیر تک ہم وہاں گھومتے رہےسمندر پر ڈوبتا ہوا سورج اور منہ زور موجیں۔۔کیا قابلِ دیدمنظر تھا!! میں نے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس کو اپنے دل اور اپنے کیمرے میں سمو لیا۔ مغرب کا وقت ہو ا تو واپسی کی راہ لی۔
رات کا کھانے پر ہم میاں صاحب کے ایک سری لنکن دوست کی طرف سے قریب ہی ایک اور ہوٹل میں مدعو تھے۔ تیار ہو کر وہاں پہنچے۔پانچ ستاروں والےاس ہوٹل کے اندر ایک پوری دنیا آباد تھی، انٹر کانٹی نینٹل کھانوں کے علاوہ ہوٹل کے ایک حصے میں مدھم روشنیوں میں بسےایک چھوٹے سےجنگل کے بیچوں بیچ مختلف ہٹس بنے ہوئے تھے ، انہی میں ایک بہت قدیم برگد کے درخت کے نیچے ایک ہٹ میں ریسٹورنٹ بھی بنا تھا۔ ہوٹل کے اِس حصے میں سارےماحول، یہاں تک کہ کام کرنے والوں کے لباس سے بھی مکمل طور پر سری لنکا کےکلچر اور ثقافت کی عکاسی کی گئی تھی۔یہی سب کچھ دیکھنے کے متمنی تھےہم!
کچھ دیر جنگل میں نایاب قسم کے بے شمار پودوں اور درختوں میں گھومنے کے بعد بھوک کا احساس ہوا تو ریسٹورنٹ کا رخ کیا۔ویٹرنے مسکراتے ہوئےذرا سا جھک کر”آئبوان Ayubowan” کہہ کر ہمیں خوش آمدید کہا۔ مطلب پوچھا تو بتایا گیا کہ اس سے مرادہے May you live long اس کے بعد میں جس غیر مسلم سری لنکن سے ملی اس کو آئبوان ضرور کہا۔کھانے والے ہٹ میں انواع و اقسام کے کھانے ہمارے منتظر تھے، ہر طرح کی سمندری مخلوق، سبزیاں ، چاول اور گوشت سے بنی ڈشز مٹی کےبرتنوں میں موجود تھیں۔ان کے ساتھ ناموں کی تختیاں پڑھ پڑھ کر آکٹوپس،کریب اورسکوئڈ(اس کا اردو نام آپ نے زندگی میں کبھی نہ سنا ہو گا؛قیرماہی یاطعمہ ماہی )سے آنکھیں چراتے ہوئےاپنی پسند کی کچھ چیزیں منتخب کیں۔
کھانے کے ساتھ پھلوں کا تازہ جوس آرڈر کیا گیا۔ پہلی دفعہ Passion (اسکا کوئی اور نام معلوم نہیں، دیکھنے میں یہ ہمارے امرود جیسا تھا مگر اندر سے بالکل مختلف تھا ،تصویر موجود ہے) نام کے ایک مقامی پھل کا لذیذجوس پیا اور اس کے بعد اس کی محبت میں اتنے passionate ہوئے کہ ہر دن پیا۔ میں نے ” ناریل کنگ ” بھی آرڈر کیا کیونکہ یہ میرے لئے ایک نئی چیز تھی لیکن کچھ خاص پسند نہ آیا۔
کھانے کے بعد Dessertsوالے ہٹ کی طرف رخ کیا۔یہاں بھی بے شمار اقسام کی مقامی مٹھائی اور پھل موجود تھے ۔ میں نے خاص طور پر پھلوں کے ساتھ پورا پورا انصاف کیا بلکہ وہاں کے انتہائی میٹھے آم، مالٹے رنگ کے پپیتے اور تربوز کے ساتھ آخری دن تک دوستی نبھائی اور کسی دن ان کے بغیر اپنا ناشتہ اور ڈنر مکمل نہیں کیا۔قدرت نے سری لنکا کو بےشمار اقسام کے پھلوں سے نوازا ہے۔ صرف کیلےکو ہی لے لیں اس کی تقریباً 22مختلف اقسام وہاں پائی جاتی ہیں۔ ناریل، پپیتا،آم،تربوز وغیرہ کے علاوہ میں نے وہاں ایسے بے شمارپھل بھی دیکھے جو اس سے پہلے کبھی نہ دیکھے تھے اس کی تفصیل آگے آئے گی۔
پیٹ پوجا کرنے کے بعدنو بجے کے لگ بھگ میں نے سوچا ہوٹل سے ملحقہ شاپنگ پلازا کا چکر لگا لیا جائے لیکن کیا دیکھتے ہیں کہ کولمبو جیسے بڑے شہر میں ساری کی ساری مارکیٹ بند ہو چکی تھی۔ہم سعودی عرب کی روٹین کے عادی لوگوں کے لئے یہ بڑی حیرت کی بات تھی کہ ریاض میں تمام مارکیٹس رات بارہ بجے بند ہوتی ہیں۔ ہمارے میزبان نے بتایا کہ سری لنکا کے لوگ جلدی سونے اور جلدی جاگنے کے عادی ہیں اس لئے نو بجے کے بعد کوئی دکان کھلی نہ ملے گی۔اس جفاکش قوم کی اس ادا نے بھی مجھے متاثر کیا۔ اس قوم کی دیگرمحبوب اداؤں کی تفصیل آپ کو آگے بتاؤں گی۔
ایک بھرپور اور نئی دنیا میں اتنا اچھا وقت گزارنے پر اللہ کا شکراور اپنے میزبانوں کا شکریہ ادا کرنے کے بعد واپسی کی راہ لی ۔

اگلی صبح کو ہوٹل کے بوفے ناشتہ سے لطف اندوز ہوئے ۔دیگر بےشمار قسم کے انٹر کانٹینٹل کھانوں میں سے مجھے سوپ نما روایتی ڈش بہت پسند آئی جو کہ ناریل کے دودھ اور خاص قسم کے چاول سے تیار کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ سری لنکاکی Specialty انڈے اور چاول کے آٹے اور ناریل کے دودھ سے بنے کریپ کے اندر پکا ہوا انڈہ تھا، جس کو Egg hopper کہتے ہیں(تصویر دیکھیے)۔اس کو ایک خاص قسم کی چھوٹی سی کڑاہی میں پکایا جاتا ہےآپ چاہیں تو انڈے پر کالی مرچیں ،بھنی ہوئی پیاز یا جو آپکا دل چاھے، چھڑک لیں۔اگلے ہر ناشتے میں یہ بھی میراساتھی رہا۔ناریل سری لنکن کھانوں کا خاص جزو تھا، ہر روز ناریل سے بنی ہوئی نت نئی اور لذیذ ڈشز ہمارے لذتِ کام و دھن کا سامان بنتی رہیں۔

 سگیریا
ناشتے کے فوراً بعد ہم سگیریا (Sigiriya) روانہ ہوئے ،سامان پہلے ہی تیار تھا۔ یہ ایک تاریخی مقام ہے جو کولمبو سے تقریباً چار گھنٹے کی مسافت پرسب سے زیادہ سیر کرنے والی جگہ ہے۔سگیریا کے قدیم محلات میں داخل ہونے کے لئے سیاحوں کو ٹکٹ لینا پڑتا ہے اور سارک ممالک کےشہریوں کے لئے اس میں خاص رعایت ہےلیکن یہ صرف پاسپورٹ دکھانے پر ہی ملتی ہے .۔پاکستان چونکہ سارک ممالک میں شامل ہے اس لئےیہ رعایت ہمیں بھی ملی۔ اپنے پاکستانی پاسپورٹ کی اس قدرو قیمت پر دلی خوشی محسوس ہوئی۔اگر آپ کاوہاں جانے کا پلان ہو تو پاسپورٹ ضرور ساتھ رکھیں۔ ٹکٹ لینے کے بعد ہم قدیم شہر کے کھنڈرات کی طرف بڑھے جو کہ ایک بہت بڑی مستطیل چٹان کے اوپر اور اردگرد واقع ہیں۔ایک گائیڈ کو اپنے ساتھ رکھا جس نے چھوٹتے ہی سینہ بہ سینہ منتقل شدہ معلومات طوطے کی طرح فرفر منتقل کرنا شروع کر دیں۔
تاریخ بتاتی ہے کہ بادشاہ کشیاپا King Kasyapa یا Kashyapa (477ء تا 595 ٫عیسوی)نے اس جگہ اپنا محل اور قلعہ تعمیر کروایا۔ شاہی روش کے عین مطابق اس کی بے شمار بیگمات تھیں جن کی تعداد پانچ سو تک بیان کی جاتی ہے۔مزید یہ کہ اس نے یہ بادشاہت اپنے والد کا تختہ الٹ کر حاصل کی تھی اور سلطنت کے اصل وارث اپنے بھائی ” موگلان”کو وراثت سے بے دخل کر دیا ۔ موگلان تو کسی طرح جان بچا کر ہندوستان بھاگ گیا مگر اس ظالم نے اپنے باپ کا بھی خیال نہ کیا ۔کہا جاتا ہے کہ پہلے ان کو قید میں رکھا اور پھر اپنی بادشاہت کو محفوظ کرنے کے لئے ان کو پھانسی دے دی ۔ کشیاپا اپنی سلطنت بچانے کے لئے اس قدر فکر مند رہتا تھا اس لئے اس نے اپنا محل اس دیو قامت پتھر پر بنوایا۔ یہ پتھر660 فٹ اونچا ہے۔اس کو Lion Rockیا شیر والی چٹان بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے چاروں طرف گھنے جنگلات ہیں۔اس کے سامنے کھڑے ہو کر میں نےکچھ دیر چشم تصور سے دیو ہیکل چٹان پر اور اس کے اردگرد محلات کا نظارہ کیا۔ دیکھنے والوں کے لئےکیا ہی مرعوب کن منظر ہوتا ہو گا!
ایسے کئی بادشاہوں کے ذکر سے تاریخ کے گرد آلود صفحات اَٹے پڑے ہیں اور اب ان کے محلات کے کھنڈرات "دیدہ عبرت نگاہ” بنے ہمیں دنیا کی بےثباتی کا درس دے رہے ہیں۔بے شک”كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ ۝ وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلالِ وَالإِكْرَامِ” (جو کوئی بھی زمین پر ہے سب کو فنا ہونا ہےاور تمہارے پروردگار کی ذات جو کہ صاحب جلال و عظمت ہے، باقی رہے گی) مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے!! مگرافسوس کہ تاریخ سے سبق حاصل کرنے والے کم ہی ملتے ہیں۔

LION ROCK
گو کہ ہمیں اس سلطنت کی بادشاہی سے کوئی دلچسپی نہ تھی تاہم ہم نے چٹان کو سر کرنے کا ارادہ کیا۔ سفید پتھر اور سرخ اینٹوں سے بنی قدیم سیڑھیوں کی طرف بڑھے۔ سیڑھیاں خاص قسم کےسفید ماربل سے بنی ہوئی تھیں جو گائیڈ کے مطابق اندھیرے میں بھی روشن ہوتی ہیں۔جن کے دونوں جانب غار بنے ہوئے تھےجو پرانے زمانے میں مختلف اجلاسوں کے لئے ہال کے طور پر استعمال ہوتے تھے۔ اس پتھر کے ایک طرف سیڑھیاں اوپر کو چڑھتی ہیں۔ راستے میں جگہ جگہ آرام کے لئے بالکونیاں بنی ہوئی ہیں جو شاید شاہی خاندان کے افراد کے آرام کےلئے کام آتی ہوں گی ہم نے بھی اس شاہی روش کی پوری تقلید کی اور جگہ جگہ رکتے ہوئے آگے بڑھے۔
راستے میں ایک غار میں ہاتھ سے بنی ہوئی پینٹنگز کی گیلری موجودتھی جو کہ مذکورہ بادشاہ کے حکم پر بنائی گئی تھی ۔ذرا سا اندر جا کر دیکھا تو دیواروں پرعورتوں کی ایسی تصاویر بنی تھی جو بادشاہ کی عیاش پسند طبیعت کی غمازی کر رہی تھی۔گائیڈ نے بتایا کہ بادشاہ نے اپنی تمام500 بیویوں کی تصاویریہاں بنوائی تھیں جو بعدمیں بدھ راھبوں نے تباہ کر دیں یعنی کہ یہ ایک بہت بڑی گیلری تھی۔نہ جانے بادشاہ سلامت کو اتنی ساری زندہ بیویوں کے ہوتے ہوئے، ان کی تصاویر بنانے کا خیال کیونکر آیا ؟بہرحال بادشاہ کی مرضی کے سامنے کس کی مجال ؟ہم نےان پر نظر ڈالتے ہی لاحول پڑھا اور فوراً باہر کی راہ لی اور مزید آگے چڑھنا شروع کر دیا۔
پینٹنگ وال سے ذرا آگے مرر وال یعنی دیوار آئینہ ہے۔جہاں دراصل کوئی آئینہ تو نصب نہیں بلکہ خاص قسم کا سفید پینٹ کیا گیاہے۔ شاید جب یہ بنا ہو گا تو اس قدر نفیس ہو گا کہ اس میں بادشاہ سلامت اپنا عکس دیکھتے ہوں گے۔ امتداد زمانہ کے بعد اب یہ صرف نام کا آئینہ رہ گیا ہے۔ اس دیوار پر صدیوں پرانے اشعاربھی لکھے ہوئے ہیں جن کی تاریخ آٹھویں صدی تک جا ملتی ہے۔ (خیر وال چاکنگ میں تو ہماری قوم بھی کسی سے پیچھے نہیں آپ جانتے ہیں اور مورخ ہماری دیواروں کے کھنڈرات دیکھ کر یقیناً یہی لکھے گا کہ اس خطے میں زنانہ و مردانہ پوشیدہ بیماریوں کے سب سے زیادہ کلینک پائے جاتے تھے)۔
ہمارااوپر چڑھنے کا سفر جاری تھا۔ سیاحوں کے علاوہ یہاں بڑی تعداد میں سفید لباس میں ملبوس طالب علم بھی نظر آ رہے تھے۔ پتہ چلا کہ بدھ مت میں سفید رنگ کو مقدس رنگ سمجھا جاتا ہے۔مذہبی رسومات کی ادائیگی کے وقت سفید لباس ہی زیبِ تن کیا جاتا ہے۔ اسکولوں اور کالجوں کے لڑکے لڑکیاں اور اساتذہ بھی سفید رنگ کے کپڑے اور ساڑھیاں پہنتے ہیں۔ اوپرچڑھتے ہوئے آدھے راستے میں ایک چپٹی جگہ آتی ہے جہاں سے محل کی جانب دروازہ نما راستہ ہے جس کے دونوں جانب شیر کے پنجے بنے ہوئے ہیں۔ ان کی نسبت سے ہی اس کو لائن راک کہا جاتا ہے۔(تصویر دیکھیے)
جلد ہی ہم چٹان کے اوپر پہنچ گئےجہاں قدیم محلات کے چند نشانات دنیا کی بے ثباتی کی علامت کے طور پر موجود تھے۔آس پاس کچھ تالاب بھی موجود تھے جو ہمارے گائیڈ کے مطابق بادشاہ اور اس کی بیویوں کے لئے خاص طور پر بنائے گئے تھے۔ تاریخ کے کسی بادشاہ کے دور کا مطالعہ کر لیں اس طرح کی عیش و عشرت ،فنون لطیفہ کی سرپرستی کے نام پرلہو و لعب اور کھیل تماشوں کی داستانیں عموماً بکھری نظر آئیں گی۔
اس ظالم و جابر بادشاہ کے متعلق یہ سب جان کرمیرے دل میں کھٹک سی لگ گئی کہ ضرور اس عیاش بادشاہ کا انجام عبرتناک ہی ہوا ہو گا۔ کچھ کھوج کی تو یہ بالکل درست نکلا۔ کہتے ہیں کہ موگالان جس کواس نے بادشاہت سے محروم کیا تھا، نےخود کو مضبوط کیا اور بڑی فوج اکھٹی کر کے حملہ کیا۔ بادشاہ کشیاپا اپنے تئیں ہاتھیوں کا لشکر لے کر آگے بڑھا اور اپنے غرور میں یا شاید کسی حکمت عملی کے طور پر اس قدر آگے چلا گیا کہ باقی فوج سے بچھڑ گیا ۔جلد ہی موگالان کی فوج نے اس کو آلیا پھر اپنے تکبر کی بنا پر اس نے دشمن کے ہاتھوں گرفتار ہونے کی بجائے خود ہی اپنی تلوار پر گر کر اپنی جان لے لی۔تو یہ تھا اس شاندار محل کے مطلق العنان بادشاہ کا خاتمہ! آج دیدہ وروں کے لئے یہ محل کے کھنڈرات ہی نہیں بلکہ بادشاہ کی داستان حیات بھی ایک سبق آموز واقعہ ہے۔

حبارانا Habarana

سگیریا سے 20 منٹ کی ڈرائیو پر ہماری اگلی عارضی قیام گاہ "حبارانا”میں واقع Cinnamon Lodges تھے۔ داخل ہوتے ہی وہاں کے خوش اخلاق سٹاف نے ہمارا استقبال کیا اور تازہ پھلوں کے جوسز اور اپنے ہوٹل کے نام کی نسبت سے دار چینی کی خوشبو میں بسے چھوٹے تولیے پیش کیے گئے تاکہ ہم دن بھر کی تھکن اتار لیں۔ویسے میری تھکن تو اس جگہ کو دیکھتے ہی اتر چکی تھی۔ گھنے درختوں کے بیچوں بیچ نہایت خوبصورت لاجز بنائے گئے تھے ان میں سے دو لاجز ہمارے لئے بک تھے۔ پاس ہی ایک نہایت خوبصورت "حباراناجھیل” تھی ۔ وہاں کی سمارٹ سی سری لنکن لیڈی مینجر ہمارے پاس آئی اور گپ شپ کے دوران اس نےبتایا کہ اس نے دوبئی سے تعلیم حاصل کی ہے، یہ جان کر وہ مجھے اور اچھی لگی کہ وہ مسلمان ہے اورعمرہ کے لئے سعودی عرب آنا چاہتی ہے۔ اسی دوران ضابطے کی کاروائی مکمل ہو گئی اور ہم نے اپنی آرام گاہوں کا رخ کیا۔
اپنے کمروں میں داخل ہوئےتو بہترین تزئین و آرائش دیکھ کر طبیعت باغ باغ ہو گئی۔ چائے اور کافی کا سامان حسب معمول کمرے میں موجود تھا۔ گرما گرم کافی کی چسکیاں لگاتے ہوئے ٹی وی چینلز گھمانے شروع کر دیئے ۔رات ہو چلی تھی۔باہر کچھ دیر گھومنے کے بعد ڈنر کا ارادہ کیا اور باقی سیر صبح تک مؤخر کر دی۔
بہت خوبصورت سوئمنگ پول کے کنارے کھانے کا بہت بڑا ہال سیاحوں سے بھرا ہوا تھا اور خوبصورتی اور سجاوٹ میں بھی بے مثال تھا۔اَن گِنت کھانے کی اشیاء اور تمام موسمی پھل اور ان کےفریش جوسزکے علاوہ desserts کے آئٹمز کے لئے ایک بڑاکمرہ الگ مخصوص تھا۔ ٹور پیکج میں ہمارے لئے روز ناشتے اور ڈنر پر اسی طرح کے بوفے کا اہتمام تھا۔ بے شک میرے رب کی نعمتوں کا شمار نہیں "فبای الاءربکما تکذبان”۔ لیکن کیا ہمیں ان نعمتوں کے استعمال کا بھی سلیقہ ہے؟بوفے کی ایک بات جو مجھے بے حد ناگوار گزرتی ہے، وہ ہے کھانے کا بے حدزیاں، اکثر و بیشتر آپ کو بچی ہوئی پلیٹیں کھانے سے بھری ہوئی نظر آئیں گی ، یہ منظر ہمیشہ میرے لئے بہت کوفت کا سبب بنتا ہے۔ کاش ہمیں رب العالمین کی نعمتوں کے استعمال کا بھی شعور آ جائے!
سب نے راؤنڈ لگا کر اپنی اپنی پسند کی چیزیں منتخب کیں ۔ چونکہ ہر قوم اور ملک کےکھانے ،مختلف ذوق اور ذائقوں کا اظہار ہوتے ہیں اس لئے نئے ذائقوں کے ساتھ ایڈجسٹ کرنے میں کسی قدر مشکل توپیش آتی ہے۔ مگر یہاں پر بوفےمیں ڈشز کی ورائٹی اوربہتات کی وجہ سے کافی فائدہ رہا اور ہم سب ہال میں گھوم گھوم کر اپنے مرضی کے آئٹمز ڈھونڈ ہی لیتے۔مجموعی طورکوئی خاص مسئلہ نہیں ہوا ۔ویسے میں حفظ ماتقدم کے طور پرریاض سے کچھ کھانے پینے کی اشیاء بھی ساتھ لے گئی تھی۔
حبارانا ایک ایسی جگہ ہےجہاں قیام پذیر ہو کرسیاح یہاں سے سگیریا، سفاری ٹور یا ہاتھیوں کے یتیم خانہ(Orphanage) کا دورہ کرتے ہیں۔ہم سگیریا سے گھوم آئے تھے اور سفاری اور یتیم خانہ میں نے اپنے ٹور میں شامل ہی نہیں ہونے دیا تھا۔کیونکہ ایک تو مجھے جانوروں سے کوئی خاص رغبت نہ تھی ۔ دوسرے جب سے انٹر نیٹ پر ایک ویڈیو دیکھی تھی جس میں ہاتھی نے اپنے ساتھ سیلفی لینے والی ایک خاتون کو زبردست کک لگائی تھی،میں نے ہاتھیوں سے دور رہنے میں ہی عافیت جانی۔ آپ یقیناً میرے اس فیصلے کو دانشمندانہ قرار دیں گے کیونکہ ایک تو کک اور وہ بھی ہاتھی کی! آنے والےوقت نے بھی میرے اس فیصلے کو درست ثابت کیاکیونکہ دیگرمنتخب کردہ جہگوں کی سیرزیادہ پر لطف رہی۔
ہمارے لاجز کے اردگرد جنگل میں گزارا ہوا وقت ہم سب کی زندگی کے خوبصورت ترین لمحات تھے۔ اگرچہ سری لنکا میں ہمارے ٹور کی تمام جگہیں ایک سے بڑھ کر ایک تھیں لیکن حبارانا کو میں ان سب میں ٹاپ رینکنگ پر رکھتی ہوں۔ اگلے دن فجر کے بعد ہم جنگل کی سیر کے لئے نکل کھڑے ہوئے۔جنگل میں روح تک کوشانت کر دینے والی ہوا، کوئل کی آواز، بے شمار گلہریوں کا ایک درخت سے دوسرے تک دوڑنا، نایاب قسم کے خوبصورت پرندے،چڑیوں کی تسبیح،سامنے ایک وسیع نیلگوں جھیل اور اس میں خوراک کی تلاش میں سفید بگلے، جھیل کنارے بنے ہوئے ہٹس، لیٹ کر جھولنے والے جھولے یعنی hammocks،درختوں پربنے مختلف سٹائل کے Tree housesاور مشامِ جاں میں اتر کر نہال کرتے بہت سے مناظرجنہوں نے میری روح تک کو معطر کر دیا ۔
یہ سب الفاظ کبھی اس ماحول کی منظر کشی نہیں کر سکتے جو اس جنگل میں گھومتے ہوئے اوروہاں کے جھولوں پر جھولتے ہوئے میں نے اپنے اندر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سمو لیا۔ہاں بڑی تعداد میں بندر بھی وہاں موجود تھے۔ایک طرف پارک بھی بنایا گیا تھا جس میں چھوٹے بچوں کے لئے جھولےاور سلائیڈز وغیرہ نظر آرہی تھیں۔میرا خیال ہے کہ یہ جنگل مصنوعی طور پر اگایا گیا تھا کیونکہ جا بجا چھوٹے درخت اور پودے موجود تھے ، جن کے ساتھ ان پودوں کو اسپانسر کرنے والے سیاحوں کی نیم پلیٹس بھی موجود تھیں۔ ہمیں پتہ چلا کہ جھیل کے پار قدرتی جنگل میں برڈ سفاری ٹور بھی کروایا جاتا ہے لیکن اس موسم میں وہ بند تھا ورنہ ہم ضرور جاتے۔ حبارانا کی اس صبح کی پرسکون ہوا، پرندوں کی چہچہاہٹ ، نیلگوں جھیل اورجنگل کے سرسبز نظارے اب بھی میرے ہمراہ ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔اب بھی صبح کے سمے اپنے گھر میں روز واک کرتے ہوئے حبارانا کے یہ حسین مناظراکثر میری آنکھوں کے سامنے گھوم جاتے ہیں۔
دو گھنٹے کی بھرپور سیر کے بعد بھوک کا احساس ہوا تو میں نے واپسی کا رخ کیا۔ بچے پہلے ہی سوئمنگ کے لئے جا چکے تھے۔واپس آتے ہوئے جھیل کے کنارے ایک بنچ پر عبایا پہنے ایک سعودی خاتون کو دیکھا تو حسب عادت سلام کیا۔باتیں شروع ہوئیں تو پتہ چلا کہ وہ بھی ریاض سے آئی ہیں۔ مزید باہمی استفسار پر پتہ چلا کہ نہ صرف میری ہم شہر بلکہ ہم محلہ بھی ہیں اور ہمارے گھر کے قریب ہی ان کا گھر ہے۔ لو جی کر لو گل ہزاروں کلو میٹر دور اپنی ہمسائی سےملاقات ہو گئی، ہے ناں دنیا گول!!
شاندار قسم کا بوفے ناشتہ کرنے کے بعد ہم نے اگلی منزل کی تیاری شروع کر دی۔ بقول شاعر
مسافرت کا ولولہ سیاحتوں کا مشغلہ !!
جو تم میں کچھ زیادہ ہے سفر کرو سفر کرو

Dining Hall

CINNAMON LODGE RESTAURENT AND POOL LAKE HABARAN

RESTAURENT AND POOL
 سنہری مندر Golden Temple
حبارانا میں بھرپور تفریح کے بعد ہمارا سفر پھر شروع ہوا۔آج ہم نے راستے میں گولڈن ٹمپلکی سیر کرتے ہوئے کینڈی(Kandy)پہنچنا تھا۔ گولڈن ٹمپل پہنچے تونہایت شوق کے ساتھ اترنے کا ارادہ کیا تو ڈرائیور نے بتایا کہ اندر جانے کے لئےسر کے اسکاف کو اتارنا لازمی ہے۔ سارا شوق ٹھنڈا پڑ گیا اورمیں نے فی الفور اندر جانے سے انکار کر دیا۔اور باہر سے ہی بدھا کے مجسمےکا نظارہ کرنے کے لئے گاڑی سے اتر گئے۔
دیو ہیکل سنہری بدھا مندر کے اوپر آلتی پالتی مار کر اپنے مخصوص یوگا کے سٹائل میں بیٹھے تھے۔ اور ان کی ہاتھ کی انگلیوں کا بھی ایک خاص انداز نظر آرہا تھا۔ ڈرائیور سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ یہ ذہنی سکون کے حصول کا ایک آسن ہے ( تصویر دیکھیے)۔ویسے تو سری لنکا میں آپ کو ہر چوک اور ہر عمارت پر بدھا براجمان نظر آتے ہیں مگر اتنا بڑا مجسمہ آج پہلی دفعہ دیکھا۔
ٹمپل کے سامنے ایک بہت بڑا کٹھل (Jack fruit)کا درخت تھا جس کے تنے کے ساتھ لٹکے ہوئے گھڑوں کی مانند بڑے بڑے کٹھل کو دیکھ کر میں حیرت زدہ ہو گئی۔ یہ کسی درخت پر لگنے والا دنیا کا دوسرا سب سے بڑا پھل قرار دیا جاتاہے۔ عمومی طور پر ایک پھل3 سے 6 کلو گرام تک وزنی ہوتا ہے مگر اس کا وزن 2 من تک بھی جا سکتا ہے ایسے پھل اپنے حجم کی وجہ سے درخت کی جڑوں میں پڑے رہتے ہیں ۔ میرے لئے درخت کے ساتھ اس پھل کو لگا ہو دیکھنا ایک دلچسپ منظر تھا ۔
کچھ دیر وہاں کھڑے رہنے کے بعد ہم گاڑی میں بیٹھ کر آگے روانہ ہو گئے۔مندر تک نارسائی کا شکوہ یہ سوچ کر دل میں دبا لیا کہ ضرور حجاب اتارنے کی پابندی ان معصوم صورت والے بدھا کی طرف سے ہرگز نہ لگائی گئی ہو گی بلکہ بعد میں آنے والے ان کے پیروکاروں کا کارنامہ ہو گا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اس پر شکوہ کناں ہونے کی بجائے مجھے تو اپنے اہل مذہب کا خیال آیا کہ کس طرح اپنے نبی ﷺ کی تعلیمات کے برعکس فرقہ پرستی کا شکار ہو کر ہم مسلمانوں نے تو اپنے ہی بھائیوں کے لئے اپنی مساجد کے دروازے بند کر رکھے ہیں۔ ایک فرقے کا مسلمان دوسرے فرقے کی مسجد میں داخل نہیں ہو سکتا۔ ہم بھلا بدھا سے کس منہ سے شکوہ کرتے؟ بقول حفیظ بنارسی
کس منہ سے کریں ان کے تغافل کی شکایت
خود ہم کو محبت کا سبق یاد نہیں ہے!!!

 اسپائس گارڈن
کینڈی کے راستے میں ہمارے ڈرائیور نے ایک Spice Garden یعنی مصالحہ جات کے باغ کے سامنےگاڑی روکنے کی اجازت چاہی کہ اگر ہماری دلچسپی ہو تو سیر کر لیں۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں! میرے لئے تو ویسے ہی گاڑی میں زیادہ دیر ٹک کر بیٹھنا عذاب ہوتا ہے، فوراً حامی بھر لی اور اتر گئے۔ یہ چھوٹا سا باغیچہ تھا جس میں تقریباً تمام مصالحہ جات کے پودے اور درخت موجود تھے۔ آج تک جن مصالحوں کو صرف پکانے میں استعمال کیا تھا، ان کو اصل ہئیت میں پودوں کے ساتھ لگا دیکھ کر ہم تو حیرت میں ہی گم ہو گئے۔
سری لنکا میں آپ کو ایسے بہت سے باغات ملیں گے جو نہ صرف سیاحوں کی دلچسپی بلکہ زرمبادلہ کے حصول کا بھی ذریعہ ہیں۔ایک گائیڈ نے پورے باغ کا دورہ کروایا۔سب نے نہایت دلچسپی کے ساتھ ایک ایک پودے کو دیکھا خاص طور پر الائچی اور کوکو کے دانے دیکھ کر میں نے بے ساختہ خالق کی صناعی کی داد دی۔ سیرکے بعد اس سرسبز و نایاب باغ کی یادگار کے طور پر ان مصالحہ جات کے سٹور سے کچھ چیزیں خریدیں تاکہ ریاض میں اپنے کچن میں کھانے پکاتے ہوئے ان کا استعمال کر کے اور اس کے ٹھنڈے نظاروں کو یاد کرتے ہوئےکھانا اور لذیذ بن جائے ۔

 کینڈی Kandy
کینڈی کے لئے سفر پھر شروع ہوا۔ میاں صاحب نے ایک مسجد میں نماز کے لئے گاڑی رکوائی ۔ مسجد میں عورتوں کے لئے بھی سعودی عرب کی طرح نماز پڑھنے کی الگ جگہ موجود تھی۔نماز کی ادائیگی کے بعد مسجد سے باہر نکلے تو سامنے ایک گھر کے مسلمان مکین نے ہمیں اپنے گھر چلنے کی پُر خلوص دعوت دی اور ہم انکار نہ کر سکے۔سیڑھیاں چڑھ کر اوپران کے گھر پہنچے تو اہل خانہ نے نہایت محبت سے استقبال کیا۔ گھر بہت صا ف ستھرا تھااور مکینوں کے سلیقے کو ظاہر کر رہا تھا۔خاتون خانہ اور بیٹیوں نے بڑے سے دوپٹے کے ساتھ سری لنکا کا روایتی ساری نما لباس پہنا ہوا تھا ۔ ان خواتین سے کچھ دیر کی گپ شپ کے بعد ہم نے اجازت چاہی کیونکہ ابھی کافی سفر باقی تھا۔
کسی قسم کے تصنع سے عاری یہ لوگ مجھے بہت اچھے لگے۔صرف یہ لوگ ہی نہیں بلکہ بحیثیت قوم ان کو میں نے نہایت سادہ پایا۔مرد ہوں یا عورتیں دونوں کے مزاج و لباس میں سادگی اور عاجزی نمایاں طور پرنظر آتی ہے ۔ یہ صفات اسلام کا طرہ امتیاز ہیں مگر افسوس کہ آج ہم اہل اسلام کے ہاں یہ خال خال ہی پائی جاتی ہیں ۔نمود ونمائش اور مال و دولت میں ایک دوسرے پر سبقت کی دوڑ نے ہمیں مذہبی تو کیا اخلاقی قدروں سے بھی بہت دور کر دیا ہے۔
سہ پہر تک ہم کینڈی کے Cinnamon Hotel پہنچ گئے۔سری لنکا کی مخصوص رِم جِھم جاری تھی۔ حسب معمول سٹاف، دار چینی کی خوشبو میں بسے چھوٹے تولیےاورفریش جوسز کے ساتھ استقبال کے لئے موجود تھا۔ یہ ہوٹل دریائے مہا ویلی کے کنارے بنا ہوا تھا ۔ ہوٹل میں ضابطے کی کاروائی مکمل ہونے تک ہم نے داخلی دروازے کے مخالف سمت بنے سوئمنگ پول کی راہ لی جس کے آگے نیچے کی طرف دریا بہہ رہا تھا۔ دریا کے ساتھ ہوٹل کا خوبصورت باغ اور مخلف سمت جنگل نظر آ رہاتھا۔ ہم مناظرِفطرت کے شیدائیوں کے لئے یہاں بھی ایک زبردست دل کو چھولینے والانظارہ موجود تھا۔
جلد ہی ہم نے اپنے کمروں کا رخ کیا کیونکہ سب کچھ دیر آرام کرنا چاہ رہے تھے۔ زیادہ آرام کا وقت نہ ملا شام سے پہلےہم نے کینڈی کی مشہور جھیل اور شہر کو دیکھنے کا پروگرام بنایا۔ ڈرائیور کے ساتھ کینڈی ٹاؤن پہنچےبازار سے نکلتے ہی دلکش "کینڈی لیک” نظر آئی۔ جھیل کے اردگرد سڑک ہے اور سڑک کے کنارے ہوٹل، اسکول اور سرکاری عمارتیں ہیں ۔جھیل کے قریب پیدل چلنے والوں کے لئے ایک کشادہ فٹ پاتھ ہے جہاں گھنے درختوں کے نیچےجگہ جگہ بیٹھنے کے لئے بنچ بھی بنے ہوئے ہیں ۔ زیادہ تر بنچ پریمی جوڑوں کے قبضے میں تھے۔
شام کے وقت خوب گہما گہمی کا عالم تھا۔ کچھ دیر ہم نے فٹ پاتھ پر گھوم کر اس خوبصورت جھیل کا نظارہ کیا۔جھیل میں کشتی کی سیر کا بھی اہتمام موجود تھامگر وقت کی کمی کی وجہ سے ہم استفادہ نہ کر سکے۔کینڈی کی ریڈ کراس بلڈنگ میں یہاں کا مشہور کلچرل ڈانس شو منعقد کیا جاتا ہے جو کہ ہمارے پروگرام میں شامل تھا مگر دیر سے پہنچنے کی وجہ سے ہم نہ دیکھ سکے۔
کینڈی کی سلطنت ،برٹش راج سے پہلے سری لنکا کی آخری سلطنت تھی اور کینڈی شہر اس کا دارالحکومت تھا اس لئے شاندار شاہی محل بھی یہاں ہی تعمیر کیا گیا۔جھیل کے عین وسط میں "رائل سمر ہاؤس ” ہے جو کہ محل کا ہی ایک حصہ ہے۔یہ محل ویکرمہ باہو نے 1357 ء میں تعمیر کرنا شروع کیا اور سترہ سال میں مکمل ہوا ۔ بعد میں آنے والے بادشاہوں نے اس میں مزید اضافے بھی کروائے۔پرتگالی حملہ آوروں کے ہاتھوں یہ محل تباہ ہوا اور دوبارہ تعمیر کیا گیا۔ آخری بادشاہ”سری ویکرمہ”نے اس کو اپنا مستقل شاہی مسکن قرار دیا اور1815ء میں سری لنکا پرانگریزوں کے تسلط تک یہیں قیام پذیر رہا۔
سڑک کے پار مشہور "بدھا دانت” کا یادگار مندر ہے جو کینڈی کے آخری بادشاہ کے محل کے احاطے میں ہے۔یہ مندر بدھ مت کے پیروکاروں کے لئے نہایت اہم ہے کیونکہ یہاں بدھا کے دانت کا اوشیش (Sacred Tooth Relic) پڑا ہوا ہےاور اس کوحکمرانی کے لئے مقدس شگون سمجھا جاتا ہے ، ہر حکومت اس کی خاص حفاظت کرتی ہے۔ محل کے احاطے میں ہی یہ مندر بنایا گیا ہے۔بدھ زائرین اس مندر کو اتنا ہی اہم سمجھتے ہیں جتنا مسلمان خانہ کعبہ کو۔ اس لئے اس مندر میں جانا ہر بدھ کی خوہش ہوتی ہے۔ مجھے سنہری مندر میں داخلے والی شرط یاد تھی اس لئے بدھا دانت کے مندر جانے سے گریز کیا۔
اس کے علاوہ کینڈی میں ایک منظر ہر جگہ سے نظر آتا ہے ، وہ یہ اوپر ایک پہاڑی پر موجود مندر میں بنا ہوا بدھا کا دیو قامت مجسمہ۔ 88 فٹ کا یہ مجسمہ سری لنکا میں بدھا کا سب سے بڑا مجسمہ ہے۔ مجھے یاد آیا کہ یہ مجسمہ سگیریا کی لائن راک سے بھی نظر آ رہا تھا۔یہ مجسمہ کینڈی ٹاؤن سے آدھے گھنٹے کی پیدل مسافت پر تھا۔ہم نے یہاں بھی دور سے ہی بدھا کو ”آئبوان” کہا کیونکہ ڈر تھا کہ دن بھر کی تھکن کے بعد پیدل چلنے کے بعد وہاں بھی اگر بدھا کے پیروکاروں نے مندر میں داخلے کی کوئی شرط رکھ دی تو خواہ مخواہ ہمارا دل برا ہو جائے گا۔ بہرحال کینڈی لیک اور اس خوبصورت، صاف ستھرے شہر کے نظاروں نے بھی ہمارا دل موہ لیا ۔
رات ہو چلی تھی اس لئے ہوٹل کا رخ کیااور بھرپور بوفے ڈنر سے سیر ہونے کے بعد ہوٹل کے اردگرد کچھ دیر واک کی پھر اپنی قیام گاہوں میں جاکرربِ کائنات کے حضور حاضری لگوائی اور نیند کی پرسکون وادیوں میں گم ہو گئے۔فجر کے بعد حسب معمول ہوٹل کے اردگردباغ میں سیر کا ارادہ کیا۔ یہ باغ حبارانا کی طرح بہت بڑا نہ تھا ۔لیکن بےشمار پھولوں والے پودوں اور چند پھلدار درختوں کے ساتھ ساتھ دریاکے پرسکون نظاروں کی وجہ سے بہت بھلا لگ رہا تھا۔ یہاں بھی جالی دارجھولوں (Hammocks) میں لیٹ کر دیر تک قدرت کے حسین نظاروں کا لطف اٹھایا۔ دریا میں کھڑے بگلوں نے اس منظر کو اور حسین بنا دیا جو کہ صبح سویرے دریا میں اپنی خوراک تلاش کرنے میں مشغول تھے۔جب دھوپ نکل آئی تو واپسی کا خیال آیا۔
یہاں بھی ایک سعودی خاتون سے ملاقات ہو گئی جن کا تعلق جدہ سے تھا۔ سری لنکا میں سعودی سیاحوں کی بڑی تعداد دیکھنے کو ملتی ہے۔بلکہ سعودیوں کے علاوہ یہاں آپ کو بے شمار چینی،جاپانی،انڈین اور یورپیئن سیاح بھی ملیں گے۔ سری لنکا کاشمار بھی پاکستان کی طرح ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے بلکہ ان کےروپےکی قدر تو پاکستانی روپے سے بھی کم ہے۔ عوام الناس کی اکثریت کی معاشی حالت اچھی نظر نہ آ رہی تھی ۔اس کے باوجود سفر کے دوران کہیں پر بھی کوئی ایک گداگربھی نظرنہیں آیا ۔بوڑھے، جوان،بچے،عورتیں سب کو میں نے ان تھک محنت کرتے ہی دیکھا۔
سری لنکا میں سیاحت کو باقاعدہ ایک انڈسٹری کے طور پر چلایا جا رہا ہے۔وہاں کا انفراسٹرکچر، امن و سکون اورسیاحوں کے لئے بہترین سہولیات دیکھ کرہم سب حیران تھے۔ایک اندازے کے مطابق2016 ء میں سوا دو ملین سیاح ریکارڈ کیے گئے اور ہر سال یہ تعداد بڑھتی چلی جارہی ہے۔آپ کو انٹرنیٹ پر تمام قابل دید مقامات کے بارے میں مکمل معلومات، سستے اور مہنگے ہر طرح کے بیسیوں ٹور پیکجیز باآسانی مل جائیں گے۔ ہم نے بھی انٹر نیٹ پر ہی اندھا اعتماد کرتے ہوئے پیشگی ادائیگی کے ساتھ ایک پیکج منتخب کیا تھا جو ہماری توقعات سے بڑھکر پرسہولت ثابت ہوا۔اگرچہ اس سے بیشتر ہم کچھ مسلمان ممالک کی سیاحت کے لئےبھی جا چکے تھےمگربحیثیتِ مجموعی وہ کوئی اتنے اچھے تجربات نہ تھے ۔
اس حقیقت کو آپ بھی مانیں گے کہ ہمارےکردار کی اچھائی یا برائی کا اثرمحض ہماری اپنی زندگی پر ہی نہیں ہوتابلکہ ہم میں سے ہر شخص اپنے ملک و قوم کے ساتھ ساتھ اپنے مذہب کا بھی نمائیدہ ہوتا ہے خاص طور پر اس وقت جب آپ بطور سیاح کسی دوسرے ملک میں جائیں یا دوسرے ملک سے سیاح آپ کے ملک میں آئیں۔ ہر دوصورت میں آپ کابرتاؤ ہی آپ کی شناخت قائم کرے گا۔۔۔۔تو جناب سری لنکا کےاچھے امیج کا کریڈٹ سراسر وہاں کی عوام کو جاتا ہے۔۔ہے کہ نہیں؟؟ اِس قوم کی خوشی دلی، دوستانہ فطرت، منکسر المزاجی اور اچھےاخلاق کا ہر سیاح رطب اللسان ہے۔
صبح کی سیر سے واپسی پر اپنے کمرے کی طرف جاتے ہوئے راستے میں ٹیبل ٹینس نظر آیا ،ریکٹ اوربال بھی موجود تھے۔ کچھ بازیاں لگائیں اور پھر جب ناشتے کی یاد ستانے لگی تو اندر کا رخ کیا۔ناشتے کے بعد اگلے سفر کی تیاری شروع ہو گئی آدھے گھنٹے کے اندراندر ہم گاڑی میں بیٹھ کر اگلی منزل کی طرف رواں دواں تھے۔

شہر سے نکلنے سے پہلے ڈرائیور نے پوچھا کہ اگر قیمتی پتھروں کا میوزیم دیکھنا ہو تو وہ گاڑی روک دے، میں نے حامی بھر لی۔ میں نے اندازہ لگایا کہ اس طرح کی جگہوں پر سیاحوں کو لانے پر ضرور ڈرائیور حضرات کو کمیشن ملتا ہو گا کیونکہ اسپائس گارڈن کی طرح یہاں سے بھی یقیناً خریداری کی جاتی ہو گی ۔بہرحال ہم بخوشی و رضا میوزیم میں داخل ہوئے۔خوش خلق اسٹاف نے استقبال کیا ۔ سب سے پہلے ہمیں ایک کمرے میں بٹھا کرکانوں سے قیمتی پتھروں کو نکالنے کے طریقہ کار کے متعلق ایک ڈاکومنٹری دکھائی گئی جو واقعتاً بہت معلوماتی تھی۔اس کے بعد ہمیں اس چھوٹے سے میوزیم کا دورہ کروایا گیا۔ڈاکو منٹری میں بتائے گئے کان کنی میں استعمال ہونے والے اوزاراور طریقوں کے ماڈلز وغیرہ بھی وہاں بنائے گئے تھے۔
اس کے بعد اوپر والے ہال میں لے جایا گیا جہاں شو کیسوں میں بے شمار قیمتی پتھر موجود تھے۔اتنی بڑی تعداد میں قیمتی پتھر میں نے پہلے کبھی نہ دیکھے تھے۔ہمارا میزبان ساتھ ساتھ پتھروں کے متعلق قیمتی معلومات بھی دے رہا تھا۔سری لنکا دنیابھر میں قیمتی پتھروں کی وجہ سے بھی مشہور ہے۔دنیا میں پائی جانے والی پتھروں کی 85 اقسام میں سے 40 صرف سری لنکا میں پائے جاتے ہیں۔تاریخ بتاتی ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملکہ سبا کو جو "روبی” تحفے میں دیا تھا وہ سیلون سے ہی حاصل کیا تھا۔ دنیا کا سب سے بڑا نیلم بھی سری لنکا میں ہی ہے جس کی مالیت سو ملین ڈالر کے لگ بھگ ہے ملکہ برطانیہ کے تاج پر بھی یہاں کا ہی "نیلم” جڑا ہوا ہے۔ ۔خیر سری لنکا میں میرا خریداری کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔اپنے پہنے ہوئے ہیرے ٹسٹ کروائے جو کہ اصلی نکلنے پر خوشی ہوئی ۔ہمارے میزبان کو خریداری پر آمادہ نہ کر سکنے پر مایوسی تو ہوئی ہو گی مگر اس نے خوش دلی کے ساتھ ہمیں الوداع کہا۔

GEM MUESEUM ANCIENT METHOD OF GEM COLLECTION
 شاہی نباتاتی باغ پیرادینیا
Royal Botanical Garden Peradeniya
اگلے شہر "نووارہ علیا” کی طرف سفر کے دوران شاہی باغ ، ٹی فیکٹری اور رامبودا آبشار کا دورہ آج ہمارے پروگرام میں شامل تھا۔ سری لنکا کی سیر Royal Botanical Garden Peradeniyaکو دیکھے بغیر ادھوری ہے۔ سچ تو یہ ہےکہ اپنےٹور پیکج میں اس باغ کو میں نے نہایت بے دلی سے موجود رہنے دیا کہ یہ بھی عام سا پارک ہو گا جہاں قدرے نفاست کے ساتھ پودے اور پھول وغیرہ لگے ہوں گے اور اسی بے دلی کے ساتھ میں باغ میں داخل ہو ئی۔ یہاں بھی سارک ممالک کے شہریوں کے لئے خاص رعایت تھی مگر یہاں کے ٹکٹ ہمارے پیکج میں شامل تھے۔ڈرائیورنے ٹکٹ لا کر دئیے اور ہم اندر داخل ہوئے ۔
کسی مبالغہ آرائی کے بغیرمجھے اس بات کا اعتراف ہے کہ باغ میں حیرتوں کی ایک نئی دنیا ہماری منتظر تھی۔147 ایکڑ پر پھیلے ہوئے اس باغ کی خوبصورتی و صفائی دیدہ زیب تھی۔ہر طرف رنگ برنگے پھولوں، قطار در قطار درختوں اور ہریالی کا ایک دلکش نظارہ تھا۔ یہ واقعی ایک شاہی باغ تھا۔باغ میں تقریباً 4000 سے زائد اقسام کے پودے اور درخت موجود ہیں۔ان درختوں پر یقیناً بے شمار پرندوں کا بھی بسیرا ہو گا چونکہ یہ دن کا وقت تھا اس لئے وہ اپنے آشیانوں میں چھپے بیٹھے تھے۔
باغ کی تاریخ تیرھویں صدی عیسوی سے شروع ہوتی ہے جب کینڈی کا بادشاہ”ویکرمہ باہو سوئم “Wickramabahu III اپنا تخت دریائےمہا ویلی کے قریب پیرادینیا لے آیا اور دریا کے کنارے سیر کا مزید لطف اٹھانے کے لئے اس باغ کی بنیاد رکھی۔اس کے بعد آنے والے کئی بادشاہوں نے اس کی خوبصورتی بڑھانے میں اپنا حصہ ڈالا تاہم اس کی موجودہ شکل کا تمام سہرا سر الیگزینڈر مون Sir Alexander Moon کو جاتا ہے جس نے 1821ء میں باقاعدہ طور پر اس کو بنایا ان کے بعد کئی انگریز منتظمین نے اس کے حسن کو بڑھانے میں خاص محنت کی۔ اب یہ باغ سری لنکا کے زرعی محکمہ کے زیر انتظام ہے اور کیا خوب انتظام ہے!!
ایسے باغ نہ صرف علم و تحقیق بلکہ زرمبادلہ کمانے کا بھی ایک بڑا ذریعہ ہیں۔ ایک اندازے کےمطابق ہر سال سوا ملین کے قریب سیاح اس باغ کو دیکھنے آتے ہیں دنیا کی اہم اور تاریخی شخصیات بھی اس باغ کو دیکھنے آتی رہتی ہیں اور باغ کا ایک حصہ ان کے لگائے ہوئے پودوں سے مزین ہے پاکستان کے ایک وزیر اعظم کے نا م کا یادگاری پودا بھی ان میں دکھائی دیا ۔
باغ میں ایک "اسٹوڈٹس کارنر” بھی موجود تھا جہاں طالب علموں کے نام کے ساتھ ان کے لگائےہوئےپودےباغ کی رونق بڑھا رہے تھے۔ایک اور اہم بات یہ تھی کہ دنیا بھر سےہدیہ کئے گئے پودوں کے لئے بھی ایک حصہ مخصوص کیا گیا ہے جہاں اُن ملکوں نایاب پودے اپنے اپنے ملکوں کے ناموں کی تختیوں کے ساتھ باغ کے حسن کو دو آتشہ کر رہے تھے ۔
انٹری ٹکٹ لیتے ہوئے ہمیں باغ کا نقشہ بھی دیا گیا اس کی مدد سے ہم باغ میں گھومتے رہے اسی دوران سری لنکا کے روایتی عروسی ڈریسز میں ملبوس ایک نیا نویلاشادی شدہ جوڑا نظر آیا جو فوٹو شوٹ کے تمام ساز و سامان سمیت اپنی شادی کی تصویروں کو یادگار بنانے کے لئے وہاں موجود تھا۔ یقیناً فوٹو شوٹ کے لئے اس سے حسین جگہ اور کوئی نہ ہو سکتی تھی ۔دونوں کے لباس میں جنوب ایشیائی ثقافت کی گہری چھاپ نمایاں تھی۔دلہن گولڈن کشیدہ کاری والےسرخ رنگ کےساری نما عروسی ڈریس اور سونے کے بھاری زیورات میں ملبوس اپنی زندگی کے اہم ترین دن کےلئے سجی ہوئی تھی۔اور دولہا صاحب نےسنہری کڑھائی سےمزین سرخ رنگ کی شیروانی اور گولڈن پاجاما پہنا ہوا تھا، ہاتھ میں بھاری انگوٹھیاں اور گلے میں پاجامے سے ہم رنگ دوپٹہ پہنے اپنے اپنے سے ہی لگ رہے تھے کیونکہ پاکستان میں بھی یہ گیٹ اپ اکثر نظر آتا ہے۔ ۔میں نے ان سےان کی تصویر کھنچنےکی اجازت چاہی جو انھوں نے بخوشی قبول کر لی۔
باغ میں سیاحوں، طالب علموں کے علاوہ بڑی تعداد میں پریمی جوڑے بھی نظر آ رہےتھے،جو ہر بوٹے کے نیچے دنیا و مافیہا سے بے خبر بیٹھے نظر آتے ہیں اور دور سے پہچانے جا سکتے ہیں اس کے لئے آپ کو کسی خاص ذہانت کی ضرورت نہیں تو گویا یہ اس باغ کا ایک اضافی فائدہ (یا شاید نقصان) تھا۔۔
مہا ویلی دریا کے اردگر بھی سر سبز پودے اور پھول اپنی بہار دے رہے تھے۔دو گھنٹے گھومنے کے بعد بھی ہماری طبیعت سیر نہ ہوئی ابھی ہم نے آدھا یا اس سے کچھ زائد ہی باغ دیکھا ہو گا کہ مجھے تھکن محسوس ہونا شروع ہو گئی کیونکہ باغ کے متعلق اپنے غلط اندازے کی وجہ سے اس دن میں نے جوگرز کی بجائے عام شوزپہنے ہوئے تھے جس کی وجہ سے پاؤں میں درد ہونا شروع ہو گیا۔
باغ سے نکلتے ہوئے دل میں یہی خیال آیا کہ جنت بھی تو”جنۃ”یعنی باغ ہے۔۔۔وہ بھی سرسبز درختوں، پانی اور خوبصورت پرندوں اور ہر قسم کی نعمتوں سے بھرپورایک باغ ہی ہو گا !! جب بندوں کا سجایا ہوا یہ باغ اتناحسین ہے تو اس مصور کائنات کی بنائےہوئےباغ کے حسن کاکیا ہی عالم ہو گا!!!! اور پھر دل سے یہ دعا بھی نکلی کہ اے اللہ ہمیں اس ہمیشہ قائم رہنے والے باغ کی طرف کامیاب سفر اور اس میں داخلے کے انٹری ٹکٹ لینے کی بھی توفیق عطا فرمانا۔۔آمین

ROYAL BOTANICAL GARDEN PERADENIYA

باغ سے نکل کرسفر پھر شروع ہوا۔راستے میں جگہ جگہ سڑک کے اطراف عورتیں تازہ مقامی پھل فروخت کر رہی تھیں جودیکھنے میں نہایت بھلے لگ رہے تھے ۔سری لنکا کے زیادہ تر افراد متوسط اور غریب طبقہ سےتعلق رکھتے ہیں اور ان کی آمدنی کا انحصار پھلوں اور زرعی اجناس پر ہوتا ہے۔ اپنی سفید پوشی کے باوجودعوام نہایت محنتی اور خوش اخلاق ہے ۔
ایک ٹھیلے پر پھل خریدنے کے لئےگاڑی رکوائی ۔اگرچہ ان میں سے کچھ پھل میں نے ریاض میں کھائے ہوئے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کے طفیل ساری دنیا کے پھل سعودی عرب میں میسر ہوتے ہیں لیکن تازہ پھل کا تو ذائقہ ہی اور ہوتا ہے ۔ Rambutan سرخ رنگ کا لیچی سے ملتا جلتا ایک بہت میٹھا پھل ہے ۔جوکہ وٹامن سی اور آئرن سے بھرپور، نہایت صحت بخش پھل ہے اور اپنے ہائی فائبر اجزاء کی وجہ سے جسم میں غیر ضروری چکنائی کو کم کرنے میں مددکرتا ہے۔
Mangostin گہرے قرمزی رنگ کا پھل میں نے پہلی دفعہ کھایا اس کی بیرونی سطح قدرے سخت اور کچھ موٹی ہوتی ہے،اندرمالٹے اورکینو کی طرح پھانکیں ہوتی ہیں مگر سفید رنگ کی۔ڈرائیور نے اس کو ہاتھ سےکھولنے کا طریقہ بھی بتایا کہ اس کو دونوں ہاتھوں کی ہتھلیوں سے دبا کر کھولنا پڑتا ہے۔ مینگوسٹین صرف ذائقے کے لحاظ سے ہی اچھا نہیں ہےبلکہ یہ غذائیت سے بھی بھرپور ہوتا ہے قوت مدافعت کو بڑھاتا ہے، دافع کینسر ہونے کے ساتھ ساتھ وزن بھی کم کرنے میں مدد دیتا ہے۔
star fruitکے ذائقے سے بڑھکر اس کی شکل اچھی لگی مگر افادیت میں یہ بھی کسی طور کم نہیں۔ یہ نظام ہضم کو فعال کرتا ہے ، بینائی کو تیز کرتا ہے اور پروٹین کے حصول کا اہم ذریعہ ہے۔۔بے شک رب العالمین کی نعمتوں کا کوئی شمار نہیں کہ اس نے ہمارے لئے لذتِ کام و دہن کے ساتھ ساتھ ہمارے جسمانی نظام کی قوت و مدافعت بڑھانےکا بھی پورا انتظام کائنات میں مہیا کر دیا۔۔”پس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟؟”

STAR FRUIT MANGOSTIN RAMBUSTAN
 چائے کے باغات اورفیکٹری
سفر پھر سے شروع ہوا۔ باہر سر سبز پہاڑوں اور چائے کے باغات کو دیکھ کر احساس ہوا کہ ہم نوارہ علیا ڈسٹرکٹ میں داخل ہو چکے ہیں۔یہاں اپنے ہوٹل پہنچنے سے قبل راستے میں ہم نے چائے کے باغات ،فیکٹری اور رامبودا فالز کو دیکھنا تھا۔
چائےسری لنکا کی پہچان سمجھی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ 1824ء میں کسی انگریز نے سب سے پہلے چین سےچائے کا ایک پودا منگوا کر پیرادینیا کے نباتاتی باغ میں لگوایا۔لیکن تاریخ میں جیمز ٹیلر نامی انگریز کو سری لنکا میں چائے کی کاشت کا بانی قرار دیا جاتا ہے جنہوں نے 1867ء میں چائے کا پہلا باغ لگایا اگرچہ تجرباتی طور پرچھوٹے پیمانے پر چائے کی کاشت اس سے پہلے سےکی جا رہی تھی۔ اب سری لنکا چائے کا تیسرا بڑا پیداواری ملک ہے اور چائے یہاں کی ثقافت کا حصہ بن چکی ہے۔عوام الناس دن میں کئی مرتبہ چائے نوش فرماتے ہیں اور وہ چائے ہماری چائے سے کئی گنا اسٹرونگ ہوتی ہے۔ہم تو چائے کے نام پر دودھ پیتے ہیں ۔دنیا کی تقریباً 23 فی صدچائے سری لنکا برآمد کرتا ہے۔ یہاں کی تقریباً 5 فی صدآبادی اربوں ڈالر مالتی کی چائے کی صنعت سے وابستہ ہے، جس مںئ پہاڑیوں سے پتے توڑنا اور کارخانوں مںی اس کی تااری کا کام شامل ہے۔
ہم چائے کے دلفریب باغات کے ساتھ Glenloch نامی برانڈ کی چائے کی فیکڑی بھی دیکھنے کے لئے گئے۔ فیکڑی کے استقبالیے سے ایک خاتون ہمارے ہمراہ کر دی گئی۔جس نے ہمیں فیکڑی کا دورہ کروایا اور بہت کارآمد معلومات دیں۔ کسی قسم کےمیک اپ سے عاری اور بالوں میں تیل لگائے ہوئے ان خاتون نےرواں انگریزی میں ہمیں بریف کرنا شروع کر دیا ۔وہ بہت معمولی قدرےبوسیدہ سی ساڑھی میں ملبوس تھیں اور مجھے ان کی یہ سادگی بہت بھائی۔بلاشبہ وہ اور وہاں کام کرنے والی دیگر خواتین قابل صداحترام تھیں کیونکہ وہ کسی ذاتی نمود ونمائش میں پڑنے کی بجائے اپنی محنت کی کمائی سے اپنا اور اپنے خاندان کا بوجھ اٹھائے ہوئے تھیں۔
ان خاتون سے مجھے پہلی بار پتہ چلا کہ سلونن بلک ، وائٹ اور گرین ٹی ایک ہی پودے سے حاصل ہوتی ہے، لکنج چائے کے پتوں کی عمر اور سائز مںھ فرق ہوتا ہے، جس بنا د پر اسے 3 مختلف گیٹیگریز مںا تقسم کاو جاتا ہے۔ اس نے بتایا کہ چائے کا پودا سدا بہار ہوتا ہے اسی پتایں ہر سات سے 14 دن بعد مںس ہاتھوں سے توڑی جاتی ہںی اس سے پہلے کہ وہ بہت زیادہ بڑی ہو جائں ۔ اگر جڑوں مںا پانی زیادہ دیر تک کھڑا رہے تو چائے کا پودا مُرجھانا شروع کردیتا ہے۔ ییک وجہ ہے کہ چائے کے باغات ڈھلوان پہاڑی علاقے مں ہوتے ہںی تاکہ زمنی ناہموار ہونے کی وجہ سے پانی نچےو کی طرف بہتا رہے۔
ہمیں چائے تیار کرنے کے مراحل سے بھی آگاہ کیا گیا۔پہلا مرحلہ ’ودرنگwithering‘ کہلاتا ہے جس مںا پتوں کی نمی دور کرنے کے لےی ہوا کے ذریعے خشک کاا جاتا ہے، جس سے ان کی سطح نرم ہو جاتی ہے۔پھر ایک رولنگ مشنا مںت ان پتو ں کو تروڑا مروڑا جاتا ہے اور فرمنٹیشن پراسسfermentation process شروع کاا جاتا ہے، جس سے ان کے مختلف ذائقے پداا ہونا شروع ہوتے ہںج۔ اس کے بعد چائےکوپیکنگ کے لئے روانہ کر دیا جاتا ہے۔
چائے کی تایری مںا استعمال ہونے والی مشینیری کافی پرانی لگ رہی تھی۔یہاں بھی پوری فیکڑی میں خواتین کو ہی کام کرتے دیکھا۔کافی مشقت طلب کام تھامگر وہ سب مستعدی کے ساتھ اپنے اپنے کام میں مصروف تھیں۔آج احساس ہوا کہ ہماری ایک چائے کی پیالی کے پیچھے کتنے لوگوں کی محنت شامل ہوتی ہے۔فیکڑی کے دورے کے بعد ہمیں ٹی لاؤنج لے جایا گیا جہاں مختلف رنگوں اور ذائقے کی چائے سے ہماری تواضع کی گئی۔پھر وہاں کے سٹور سے چائے کی خریداری کے بعد ہم باہر آ گئے۔
باہر تا حد نگاہ پھیلے ہوئے باغات کا منظر کسی دیومالائی دنیا کا لگ رہا تھا ۔ہر طرف سبز ڈھلوانیں، فرحت بخش اور معطر ہوا اور باغات میں کہیں کہیں چائے چننے والی عورتوں کے رنگین پیرہن ۔۔۔۔بارش کے بعد آسمان پر پھیلی ہوئی قوس و قزح نے اس منظر کو اور بھی جادوئی بنا دیا۔دل میں یکایک اس خواہش نے جنم لیا کہ کاش ادھر ہی ایک ہٹ بنا کر رہائش کر لوں۔پیچھے سے بچوں کے بلانے کی آوازیں مجھے اس دیو مالائی دنیا سے باہر لے آئیں اور ہم گاڑی میں بیٹھ کر حیرتوں سے بھرپور اگلے مناظردیکھنے روانہ ہو گئے۔
ایک سیاح کے لئے ایسے نظارے بہت حسین اور تفریح بخش ہوتے ہیں مگر ان مناظر کی اسٹیج کے حقیقی کرداروں کے لئے یہ سب شاید اتنا خوبصورت اورپُر راحت نہ ہو۔اس بات کا احساس مجھے اس وقت ہوا جب مجھے چائے کی انڈسٹری میں کام کرنے والوں کے حالات کا علم ہوا۔
پتیاں چننے کےکام کا آغاز صبح ساڑھے سات بجے کیا جاتا ہے۔پتیاں چننے والی خواتین اِن پتیوں کو اپنی پشت پر اٹھائے ہوئے ترپال کے تھیلوں میں جمع کرتی ہیں ۔ اس کام کی مشکل نوعیت کی وجہ سے چائے کی پتیاں چننے والے افراد کے ہاتھ عموماً بہت سخت ہوجاتے ہیں۔ سارا دن ان پتوں کا وزن ہوتا رہتا ہے اور چائے کے پتے چننے والے اگر دن میں 18 کلوگرام کا کوٹہ پورا کر لیں تو انھیں اس کی اجرت 600 سری لنکن روپے ملتی ہے۔اگر وہ یہ ہدف پورا نہ کر سکیں تو انھیں 300 سری لنکن روپے ملتے ہیں۔
جن گھروں میں یہ مزدور خاندان رہتے ہیں ان میں سے کچھ انگریزوں کے تعمیر کردہ ہیں جن کو 1920 کی دہائی میں تعمیر کیا گیا تھا۔اس وقت سے یہ عمارتیں کم ہی تبدیل ہوئی ہیں۔ بہت ساری عمارتوں میں صرف بجلی یا پانی دن میں چند گھنٹے کے لیے میسر ہوتا ہے، یا پھر بالکل نہیں ہوتا۔
خواتین اس مزدوری کے ساتھ ساتھ روزمرہ کےگھریلو کام بھی سر انجام دیتی ہیں جیسا کہ کھانا پکانا، صفائی کرنا اور بچوں کی دیکھ بھال کرنا۔کپڑے دھونا یا نہانا، ندیوں اور دریاؤں کے کنارے کیے جاتے ہیں کیونکہ کچھ علاقوں کے گھروں میں صرف تین دن کے بعد پانی مہیا کیا جاتا ہے جسے کنٹینروں میں جمع کرنا ہوتا ہے۔ایسے علاقوں میں بچےکئی کئی میل پیدل چل کر سکول جاتے ہیں۔۔(بشکریہ:اردو پوسٹ)
دنیا کے اس حسین خطے کے محنت کش باسیوں کے حالات جان کر میرا دل دکھ سے بھر گیا۔۔بے شک امیر اور غریب کا یہ فرق اور وسائلِ زندگی کا یہ تفاوت ہمیں دنیا میں ہر جگہ نظر آتا ہے مگرخالق کائنات نے رزق اور وسائل کی فراہمی میں کوئی فرق نہیں رکھا،وہ تو ربّ العالمین یعنی سب جہان والوں کا پالنے والاہے ۔۔۔۔ یہ فرق انسانوں کا پیدا کردہ ہے اور مجموعی طور پراس کا حل بھی اسی وقت ہو سکتا ہے جب اس کو اجتماعی انسانی مسئلہ جان کر اس کے حل کے لئے پالیسیاں تشکیل دیں جائیں گی۔
اگرچہ امارت و غربت کی رنگا رنگی قدرت کے نظامِ آزمائش کا حصہ ہے لیکن کم از کم ہر انسان کوبنیادی ضروریاتِ زندگی کی فراہمی ضرور ممکن ہونی چاہیے جیسا کہ ترقی یافتہ اقوام میں نظر آتا ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں اصل مسئلہ وسائل کا فقدان نہیں بلکہ وسائل کی درست تقسیم کا ہے۔دنیا میں افلاس اور معاشی ناہمواری کی ذمہ داری خود انسانی برادری پر عائد ہوتی ہے جس میں ہم میں سے ہر ایک کا اپنے اپنے درجہ میں حصہ شامل ہے ۔
گاڑی سےباہر اب بھی الف لیلوی دنیا کے حسین مناظر آنکھوں کے سامنے تھے مگر میرے اندر کی آنکھ اب کچھ اور دیکھ رہی تھی۔۔۔ایک طرف خدائے لم یزل کی صناّعی کا بکھرا ہوا جمال اور دوسری طرف انسان کی بنائی ہوئی طبقاتی تقسیم کی بدصورتی!! اتنا کھلا تضاد میرے دل میں چھُب رہا تھا۔۔
دُور عورتیں اب بھی پتیاں چُنتی دکھائی دے رہی تھیں۔۔میں نے سوچا یوں بھی تو ہو سکتا تھا کہ میں وہاں اور ان میں سے کوئی میری جگہ پرہوتی !!!میری جاہ نہ کوئی میرا کمال اور ان کی جگہ نہ ان کا کوئی قصور!!! دونوں ہی قدرت کی طرف سے آزمائش ہیں۔ دنیا میں کسی کو دے کر آزمایا جارہا ہے اور کسی کونہ دے کر۔۔۔

TEA FACTORY NUWERA ELIYA
 رامبودا آبشار Ramboda Falls
نوارہ علیا کی پیچ دار سڑکوں پر اب ہم رامبودا آبشار کی طرف رواں دواں تھے۔ یہ سری لنکا کی 11ویں اور دنیا کی 729 ویں بڑی آبشار ہے۔اگرچہ یہ بہت اونچی نہیں لیکن اپنے دلفریب نظاروں کی بنا پر سیاحوں میں بہت مقبول ہے۔گاڑی سے اتر کر کچھ دیر کچے ٹریک میں چلنے کے بعد ایک دم جب اس پر نظر پڑی تو ہم سب کچھ دیر کے لئے مبہوت ہو گئے۔ درختوں اور سبزے سے گھری ہوئی یہ آبشار بلاشبہ خالق کائنات کی بہترین صناعی کی گواہی دے رہی تھی۔
ایک کچے ٹریک پر چلتے چلتے ہم آبشار کے قریب پہنچ گئے۔یکایک میری نظر آبشار کے آخری سرے پربننے والی قوس و قزح پر پڑی جو ایک خاص زاویے پر سورج کی شعاعوں کے انعکاس کی وجہ سے بن رہی تھی،کیا دل کو چھو لینے والا منظر تھا!!! کافی دیر آبشارکے حسین نظاروں سے لطف اندوز ہونے کے بعد ہم نے چارو ناچار واپسی کا رخ کیا۔اور ایک اورحسین یاد کو اپنے کیمرے اور دل کے نہاں خانوں میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئےبند کر لیا۔

RAMBODA FALLS
 نوارہ علیا Nuwara Eliya
شام کے قریب ہم نوارہ علیا پہنچ گئے ۔آج Araliya Green Hills میں ہماری بکنگ تھی۔ استقبال کے لئے معمول سے بھی کچھ زیادہ مردانہ و زنانہ باوردی سٹاف موجود تھا۔ شاید اسی کی وجہ یہ ہو کہہم ان کے رائل سوئٹ کے مہمان تھے۔ شیطان نے احساس تفاخر میں مبتلا کرنا چاہا مگرہم فوراً اس احساس کو جھٹک کر عاجزی کے ساتھ اندر داخل ہو گئے۔ چونکہ یہ ہل اسٹیشن ہےاس لئے جوسز کی بجائے کافی اور ہاٹ چاکلیٹ سے ہماری تواضع کی گئی ۔ ایک باوردی سمارٹ سی خاتون نے ہم سے ہمارے پاسپورٹ لئے اور دس منٹ میں ضابطے کی تمام کاروائی مکمل کرنے کے بعد ہمیں کمروں تک چھوڑنے کے لئے ہمراہ ہو لی ۔
اپنےشاہی کمروں میں داخل ہوئے تو شام ہو چکی تھی۔ سب آرام کے لئے لیٹ گئے قدرے خنکی کا احساس ہوا تو ہیٹنگ لگا لی۔ بھوک نے اٹھنے پر مجبور کیا تو ڈنر کا ارادہ کیا۔حسب معمول ڈائینگ ہال میں انواع و اقسام کے کھانے ہمارے منتظر تھے۔خوب سیر ہو کر کھایا اور اللہ کا شکر ادا کیا۔ ہلکی پھلکی واک کےلئے باہر لان میں نکلےخوشگوار سی ٹھنڈ ک تھی ۔کچھ دیر کے بعد اندر کا رخ کیا۔کمرے میں آ کر اگلی صبح کی تیاری کی ،سب کے لئے گرم کپڑے اور سویئٹر نکالے جن کو ساتھ لانے کی ہمارے ٹور مینجر نے ریاض میں ہی ہدایت کر دی تھی۔ کچھ ہی دیر میں سب لمبی تان کر سو گئے۔یقین کیجیے سری لنکا کے قیام کے دوران ہر رات اتنی اچھی نیند آئی کبھی زندگی میں نہ آئی تھی۔
اگلی صبح حسب معمول فجر کے بعد سیر کے لئے نکل کھڑے ہوئے۔یہاں ہوٹل کے ساتھ کسی جنگل یا باغ کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ سارا کا سارا شہر ہی ایک دل کش باغ ہے۔ہوٹل کے آس پاس لمبی واک کی،انگریزوں کے دور کے بنے ہوئےگولف کورس کی سیر کی۔بلاشبہ یہ شہر ہر لحاظ سےمثالی تھا۔ اور اس کے حسنِ بے مثال کی خوب حفاظت بھی کی جا رہی ہے۔ پورے شہر میں کوڑا تو درکنار،اتنے زیادہ درختوں کے ہوتے ہوئے بھی کوئی پتہ تک سڑک پر گرا نظر نہ آیا۔
ایک معمر خاتون کو دیکھا کہ وہ راستوں کی صفائی میں مشغول تھیں۔۔ آہ ہ ہ۔۔۔۔کچھ لوگوں کے لئے ضروریاتِ زندگی کا حصول بھی کس قدر مشکل ہوتا ہے ۔ ہیں تلخ بہت بندہِ مزدور کے اوقات۔۔ہمیں دیکھ کروہ مسکرائیں اور اپنے کام میں مصروف ہو گئیں۔ مجھے بہت اچھا لگا کہ صبح کی سردی اور اس عمر کی مزدوری نے بھی ان کو بدمزاج نہ ہونے دیا ۔۔۔اِس قوم کے رویّے مجھے حیران در حیران کئے جاتے تھے۔۔۔لاشعوری طور پرمیرے اندر ایک تقابل سا ہونے لگتا کہ ہم کن بد اخلاقیوں اور پستیوں میں گم کردہ ہیں!! تکبر، تعصب،حسد،کام چوری و کاہلی، ظاہری و باطنی گندگی،بیہودہ گوئی،ظلم و زیادتی، جھوٹ، قتل و غارت گری ۔۔کون کون سی ضلالت کا شکار نہیں۔۔ہمارے مذہب کی تعلیمات کچھ اور ہیں، جبکہ ہماری منزل اور ہمارا مقصود کچھ اور ہے۔۔دیکھائیں زمانے کو ہم بھی کہیں سے ہیں مسلم لگتے!!!
چلیں، یہ نوحہ پھر کریں گے۔۔ابھی آپ کو نوارہ علیا کی سیر کراتے ہیں۔یہ پہاڑی و سیاحتی شہر چاروں اطراف سے تاحدِ نگاہ چائے کے باغات میں گھرا ہوا ہے اور یہاں کی آبشاریں اس کے حُسن میں مزید اضافہ کردیتی ہیں۔ نوارہ علیا کا مطلب ہے "روشنی کا شہر”۔ کہا جاتا ہے کہ اپریل میں اس شہر کا حُسن جوبن پر ہوتا ہے کیونکہ ہر طرف پھول کھلے ہوتے ہیں اور اپریل میں مختلف ثقافتی تقریبات بھی منعقد کی جاتی ہیں۔ ہمیں تو جون میں بھی بے شمار پھولوں کے ساتھ یہ نہایت حسین لگ رہا تھا اب پتہ نہیں اپریل میں اس کے حسن کا کیا عالم ہوتا ہو گا!!
اس شہرکو لِٹل انگلینڈ بھی کہا جاتا ہے اور یہاں پر جگہ جگہ برطانوی سلطنت کے آثار دیکھے جاسکتے ہیں کیونکہ اس شہر کی خوبصورتی اور موسم کو دیکھتے ہوئے سری لنکا پر اپنے دور حکومت کے دوران انگریزوں نے یہاں اپنی رہائش گاہیں بنائیں اور یہ عمارات اب بھی اُسی شان و شکوہ کے ساتھ محفوظ ہیں۔ انگریزاس شہر میں سیر و تفریح، ہاتھیوں،ہرن اور دوسرے جانوروں کے شکار اور پولو، گولف یا کرکٹ کھیلنے کے لئے ٹھہرتے تھے۔
اردگرد کے دلکش اور دل کو چھوتے ہوئےمناظر نے صبح کی سیر کا لطف دوبالا کردیا۔ نہایت پرسکون اور صاف ستھرا یہ شہر،اپنے حسین نظاروں کی بنا پر پاکستان کے ناردن علاقوں سے کافی مشابہت رکھتا ہے۔
لیکن ٹھہرئیے!! جو صفائی اور سیاحوں کے لئے سہولیات میں نے یہاں دیکھیں ،ان کی تو دور دور تک پاکستان کے کسی سیاحتی مقام سے کوئی نسبت نظر نہیں آتی۔ یہ بتاتی چلوں میں ہرگز ان لوگوں میں سے نہیں جو بات بات پر اپنے وطن کا تقابل دوسرے ممالک سے کر کے اس میں کیڑے نکالتے رہتے ہیں۔ بلاشبہ ہمارے ہاں نوارہ علیا سے کہیں زیادہ قدرتی نظاروں سے مالامال علاقے موجود ہیں مگر بدقسمتی سے صفائی کا فقدان،کھانے پینے کی unhygienic اشیاء(کسی مقام پر چلے جائیں سب سے پہلے آپ کا پیٹ خراب ہو جائے گا اور باقی دن آپ سیر کرنے کی بجائے ٹائلٹ کے چکر ہی لگاتے رہیں گے یا واپسی کی راہ پکڑیں گے)، بد حال سڑکیں(اور کئی جگہ پر تو سڑک نام کی چیز موجود ہی نہیں) اور سیاحوں کے لئے ناکافی سہولیات نے ان مقامات کے قدرتی حسن کو ماند کر دیا ہےاور حالات بہتر ہونےکی بجائے بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔
پندرہ سال پہلے جب سوات اور ناران وغیرہ جانا ہوا تو سڑکوں اور صفائی کے حالات گذشتہ سال کی نسبت سے بہتر تھےجب میرا دوبارہ وہاں جانا ہوا۔ خاص طور پر شوگراں میں گھنے جنگل کے ساتھ گھاس کے وسیع میدان کا بالکل سامنے برف پوش پہاڑوں کا نظارہ ایک حسین یاد کی مانند ذہن کے نہاں خانوں میں تازہ تھا۔مگرگذشتہ سال کے ٹرپ میں شوگراں کا جو حال دیکھا،زمین آسمان کا فرق پیدا ہو چکا تھا۔جنگل کی جگہ بے ڈھب اور بے ھنگم قسم کی دکانیں اور ہوٹلز اُ گ چکے تھے، جا بجا کیچڑ اور گندگی کے ڈھیرنمایاں تھے۔ دنیا بھر کے ممالک اپنے جنگلات کی حفاظت کرتے ہیں مگر ہمارے ہاں نجانے کس طرح ان کابے دردی سے صفایا کر دیا جاتا ہے اور کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ۔
شوگراں ہی کی مانند ناران اور کالام کے بازار میں کوڑا کرکٹ اور بہتے ہوئے گندے پانی کی وجہ سے چلنا دوبھر تھا،کالام کےدریا اور قریبی جنگل میں ٹنوں کوڑا کرکٹ پڑا ہوا تھا،سیف الملوک تک پہنچنے والا راستہ ایک بد ترین ٹریک بن چکا تھا۔جیپ کے سفر کےدو گھنٹے کے مسلسل دھکوں کے بعد جب میں وہاں پہنچی تو وہاں پھیلی ہوئی گھوڑوں کی لید کی بو اور جھیل کےکنارے پر کوڑےکے انبار دیکھ کر طبیعت اس قدر مکدر ہوئی کہ فوراً واپسی کا ارادہ کیا۔
اس سب صورت حال کا ذمہ دار حکومت اور عوام دونوں ہیں۔ناران کے ایک دکاندار سے میں نے کہا کہ اگر آپ لوگ اپنی دکانوں کے باہر فاصلے فاصلے پر کوڑا پھینکنے کے لئے ڈرم وغیرہ رکھ دیں تو صفائی کی صورت حال بہت بہتر کی جا سکتی ہے۔ کمال بے نیازی سے جواب دیا گیا کہ آج خاکروب نہیں آیا اس لئے صفائی نہیں ہوئی۔
اپنے حصے کی ذمہ داری کو پس پشت ڈال کرحکومت اور دوسرے لوگوں کو مورد الزام ٹہرانا ہمارا قومی شعار بن چکا ہے۔ کاش ہمیں ہم میں وہ سوک سینس پیدا ہو جائے، جس کی تلقین ہمیں ہمارا مذہب بھی کرتا ہےجس میں ڈسپلن جزو اول اور صفائی نصف ایمان ہے۔ مگر ہم اپنی بے روح عبادتوں سے جنت کا ٹکٹ پکا کرنے میں اس قدر مصروف رہتے ہیں کہ دین کی اصل روح پر کبھی غور ہی نہیں کرتے۔۔۔۔۔بلاشبہ ” ا ن الله لا یغیر ما بقوم حتی یغیروا بانفسهم”
خیر ہم تو اس وقت نوارہ کی بات کر رہے تھے، وطن کی محبت میں جذباتی ہو کر میں کہیں اور نکل گئی۔۔۔اس شہرکی دنا بھر مں مقبولت کی ایک اور بڑی وجہ نوارہ عا م سے ایلا شہر تک جانے والی ٹرین ہے۔ جنوبی پہاڑوں کے بادلوں، چائے کے باغات اور سرنگوں کے اندر سے گزرتی ہوئی ٹرین کے اِس سفر کو دنای کا خوبصورت ترین ریلوے سفر بھی قرار دیا جاتا ہے۔ مگر اپنے ٹور پیکج کی وجہ سے ہمیں ٹرین میں سفر کر نے کاموقع نہ مل سکا۔کافی دیر تک شہر میں گھوم پھر کرحسین نظاروں سے لطف اندوز ہونے کے بعد ہوٹل واپس ہوئے اور ناشتے کے بعد پھر باہر نکل گئےکیونکہ ہم یہاں کی تازہ ہوا اور سرسبز مناظر سے جی بھر کر لطف اٹھانا چاہتے تھےمگر کیا ہے کہ جی تو بھرا نہیں مگر واپسی کالمحہ آن پہنچا۔
نوارہ علیاخوبصورت آبشاروں اور قدرتی جھیلوں کا خطہ ہے۔ بلکہ ایک جھیل کے بارے میں معلوم ہوا کہ اتنی دلکش ہے کہ اس کا نام ہی "جنت الدنیا” یعنی دنیا کی جنت رکھا گیا ہے۔ ہم وقت کی کمی کے سبب نوراہ علیا کے بہت سے حسین مقامات دیکھنے سے محروم رہ گئے۔آپ بھی اگر میری طرح فطرتی مناظر کے دلدادہ ہیں تو نوارہ علیا میں دو یا تین دن رک کر اس شہر کو ضرور ایکسپلور کریں۔۔
گاڑی میںبیٹھ کر سفر شروع ہوا۔ شہر کے حسین نظاروں سے لطف اندوز ہوتےہوئے ایک موڑ کاٹنے کے بعد ایکدم "وہ” سامنے آئی تو دل دھک سےرہ گیا ۔۔میں اس کے حسنِ لازوال کو دیکھ کر مبہوت ہو گئی۔۔ وہ اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ دعوتِ نظارہ دی رہی تھی ۔۔اس کےکرشماتی حسن کاکوئی ثانی نہ تھا۔۔بلاشبہ وہ قدرت کی صناعی کا شاہکار تھی۔
جی وہ”گریگری جھیلLake Gregory ” تھی جس کی مسحور کن خوبصورتی نےہمیں ششدر کر دیا۔۔۔چاروں اطراف وسیع سبزہ زار ،درختوں اور پہاڑوں کے بیچوں بیچ صبح کی دھوپ میں اس کا چمکدار نیلگوں مکھڑا۔۔یقین کیجیے آنکھیں چندھیا گئیں۔۔۔۔الفاظ اس کی دلکشی کو بیان کرنے سے قاصر ہیں۔انتہائی صاف ستھرا سبزہ زار اور صبح کی کرنوں میں دُھلی ہوئی جھیل، جس میں سفید بطخوں کی شکل کی بنی کشتیاں،رنگ برنگے پیرہنوں میں یہاں وہاں بکھرے سیاح۔۔۔ گر فردوس برروئے زمیں است ،ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است۔۔۔ امیر خسرو نے اگرچہ یہ شہرہ آفاق شعر اس جگہ کی مدحت میں نہ کہا تھا مگر میرے ذہن میں ضرورگونجنے لگا۔
دل نے کہا یہاں زندگی نہ سہی کم از کم صبح سے شام تو کر دیں !! لیکن ڈرائیور نے یاد دلایا کہ ہماری آج سہ پہر کی رافٹنگ کے لئے بکنگ ہے اس لئے رکنا محال ہے۔۔دل پر پتھر رکھ کر آگے روانہ ہونے کا ارادہ کیا مگراس عزم کے ساتھ کہ اگر زندگی نے مہلت دی تو دوبارہ ضرور آؤں گی اور فرصت سے جھیل سے خوب رازو نیاز کروں گی۔

CITY VIEW OF NUWERA ELIYA GOLF COURSE ROUTE TO NUWERA ELIYA

Gregory Lake
 کیٹول گالا Kitulgala
نوارہ علیا سےنکل کر اترائی کا سفر شروع ہوا ۔ آج بچے خاص طور پر بہت پرجوش تھے کیونکہ آج ہم Raftingکے لئے جا رہے تھےجس کو میں نے خاص طوراپنے پیکج میں شامل کروایا تھا ۔رافٹنگ کا تجربہ ہم سب اس سے پہلے ناران میں بھی کر چکے تھےاوردریائے کنہار کی منہ زور لہروں سےنپٹنے کے بعد اِس دفعہ ہم سب پورے اعتماد کے ساتھ دریا میں اترنے کو تیار تھے۔
رافٹنگ ایک سنسنی خیز سر گرمی اورخطروں کے ساتھ نپٹنے کا ایک پر لطف کھیل ہے جس میں آپ ایک ربڑ کی کشتی میں بیٹھ کر دریا کی منہ زور لہروں کا مقابلہ کرتے ہیں۔ایڈونچر کے ساتھ ساتھ یہ ایک اچھی تفریح بھی ہے۔
دوپہر تک ہم کیٹول گالا پہنچ گئے جہاں rafting کے لئے ہماری بکنگ کی گئی تھی۔ہماری گاڑی ایک چھپر نما رافٹنگ سنٹر پر رکی۔سب نے Changing roomمیں کپڑے تبدیل کیے۔اسی اثناء میں ایک دبلا پتلا ساسری لنکن لڑکا پہنچ گیا جس نے ہمارے رافٹنگ ٹرپ کو لیڈ کرنا تھا۔ اس نے ہم سب کو حفاظتی جیکٹس اور ہیلمٹ پہننے کے لئے دیئے۔ان کو پہننے کے بعد ہم دریا تک پہنچنے کے لئے ایک پِک اَپ میں سوار ہوئے۔پانچ،سات منٹ کے بعد ہم مخصوص جگہ پر پہنچ گئے اور دریائےکیلانی کی طرف نیچے اترنا شروع کر دیا۔ ہماری کشتی وہاں پہنچائی جا چکی تھی۔ایک ایک چپو سب کو تھما دیا گیا۔سفر شروع کرنے سے پہلے ہمارے لیڈر نے ہمیں ضروری ہدایات دیں اور چپو کو استعما ل کرنے صحیح طریقہ بتایا۔اب میرا خیال ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اس نے بھی فر فر انگریزی بولی۔
اس کے بعددریا پر ہمارا پرلطف سفر شروع ہوا۔ اردگرد کہیں گھناجنگل تھا۔ کہیں کہیں چند گھر بھی نظر آ جاتے ۔بظاہر ان گھروں کا پہنچنے کے لئے کوئی سڑک نظر نہ آرہی تھی یا شاید ان گھروں کے باسی کشتیوں کے ذریعے سفر کرتے ہوں گے۔
رافٹنگ کا اصل مزہ اس وقت آتاجب ہماری کشتی Rapids سے ٹکراتی اور ہم سب خود کو سنبھالنے کی پوری کوشش کے باوجود ہنستےہنستے کشتی کے اندر ڈھیر ہو جاتے۔ اِسی اُچھل کود میں ڈیڑھ گھنٹہ گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلااور سفر تمام ہوا۔
ایک جگہ دریا کی سطح بالکل ہموار اور پرسکون تھی،وہاں ہمارے لیڈر نے تجویز پیش کی کہ لائف جیکٹ کے ساتھ اگر یہاں دریا کے اوپر سیدھا لیٹا جائے تو بہت غیر معمولی تجربہ ہو گا۔میراتو اس فراخدلانہ پیش کش پر عمل کا حوصلہ نہ ہوا البتہ لڑکوں نے فوراً حامی بھر لی اور خوب مزا کیا۔اس کے بعدہماری کشتی کنارے لگائی گئی۔سب پورے کے پورے گیلے ہو چکے تھےمگر اس طرح خوش تھے کہ گویا بہت بڑا معرکہ سَر کر لیا ہو۔
سینٹر پہنچ کر سب نےکپڑے تبدیل کیے اور سری لنکا کے نہایت میٹھے اور لذیذ پھل جام نوش کیے جو کہ پہلے سےخرید کر گاڑی میں رکھے ہوئے تھے۔ایک اور پر لطف دن گزارنے پر اللہ کا شکر ادا کیا اوراپنی گاڑی میں بیٹھ گئے۔

 بنٹوٹا Bentota
سری لنکا میں ٹرپ کے آخری دو دن ہم نے بنٹوٹا ((Bentota کے قریب چھوٹے سے ٹاؤن ،بیرووالا(Beruwala )میں گزارے۔ بنٹوٹا ،کولمبو سے 65 کلومیٹر جنوب میں واقع ایک چھوٹا سا ساحلی شہر ہے اور بیرووالا کوبنٹوٹا کا ایک نواحی شہر سمجھ لیں۔ یہاں کی سب سے مشہور چیز یہاں موجود صاف ستھرا اور ریتلا ساحل ہے جہاں ہر سال لاکھوں سیاح کھنچے چلے آتے ہیں۔
Beruwalaکی تاریخ جان کر حیران کن اور دلچسپ انکشافات ہوئے۔تاریخ بتاتی ہے کہ سری لنکا میں مسلمانوں کی پہلی آبادی اسی شہرمیں قائم ہوئی۔ آٹھویں صدی عیسوی میں مسلمان تجار کے ہمراہ آئے ہوئے صومالی شیخ یوسف بن احمد نے وہاں اسلام کی تبلیغ کی اور ان کی نسبت سے اس نوآباد شہر کا نام "بربرین” رکھا گیا (بربر یعنی افریقن قبیلہ) جو کہ بعد میں کثرت ِ استعمال کے باعث "بیرو” رہ گیا۔
سری لنکا میں بنائی گئی اولین مسجد بھی اسی شہر میں موجود ہے جس کا نام "مسجد الابرار” ہے۔ یہ مسجد 920ء میں تعمیر کی گئی یعنی ایک ہزار سال پہلے۔ اس کی تعمیر کا سہرا یہاں اوّلین بسنے والے عرب تاجروں کو جاتا ہے جنہوں نے اس خطہ میں اسلام اورپھر اِس مسجدکی بنیاد رکھی۔ 1893ء میں اس مسجد کی مرمت اور تزئین و آرائش کا کام کیا گیا۔ آج بھی یہ مسجد اسلامی فن تعمیر کے نادر نمونے کے طور پر پہچانی جاتی ہے۔
حسنِ اتفاق دیکھیے کہ سری لنکا میں ہمارا آخری دن جمعہ کا دن تھا۔ میاں صاحب اور بچے جمعہ کی نماز پڑھنے ٹک ٹک ( سری لنکا کا رکشہ)میں بیٹھ کر کسی مسجد کی تلاش میں نکل گئے اور ٹک ٹک والے نے اس مسجد میں پہنچا دیا۔ واپسی پر ان کی خوشی دِیدنی تھی کہ سری لنکا کی پہلی مسجد کو دیکھنے اور اس میں نمازِ جمعہ ادا کرنے کی سعادت ملی اور مجھے دکھ ہوا کہ میں اس سعادت سے محروم رہ گئی۔
Beruwala میں ہمارا قیامCinnamon Bay Hotel میں تھا۔پانچ ستاروں والا یہ ہوٹل ساحل پر تعمیر کیا گیا ہے۔نہایت خوبصورت ساحلی پٹی پر بہترین سہولیات اور تعیشات سے مزین یہ پُر رونق ہوٹل سیاحوں کے لئے خاص کشش رکھتا ہے۔ بہت بڑا لان،سوئمنگ پولز،ڈائینگ ہالز،خوبصورت لاؤنج اور بہت کچھ۔۔گویاایک پوری دنیا اس کے اندرآباد تھی۔
سمندر کےنزدیک ہونے کی وجہ سے قدرے حبس تھا مگر صبح اور شام کے وقت ہوا خوشگوار ہو جاتی ۔جس دن ہم وہاں پہنچے اسی رات ہوٹل کےلاؤنج میں کلچرل شو کا بھی اہتمام تھا۔ ایسا ہی شو جوکہ ہم کینڈی میں مِس کر چکے تھے ۔ روایتی لباس میں ملبوس گروپ نے روایتی میوزک اور روایتی ملبوسات کے ساتھ مختلف لوک ڈانسز پیش کئے گئے۔ زیادہ تر رقص ڈھول کی تھاپ پر پیش کئے گئے۔
بھارت کی طرح سری لنکا کی ثقافت پر بھی رقص کی گہری چھاپ نظر آتی ہے۔رقص ہرلنکن تہوار اور رسم کا لازمی جزو بن چکا ہے۔لنکن رقص میں "شیطانی نقاب ” یا” مکھوٹا” کی خاص اہمیت ہے اس کو آپ عام زبان میں ماسک کہہ سکتے ہیں۔یہ ماسک مختلف اقسام کے ہوتے ہیں مثلاً دیومالائی شکلیں،جانوروں یا انسانوں کی اشکال وغیرہ۔دیومالائی طاقتوں کو خوش کرنے کے لئے اس طرح کے ماسک پہن کر رقص کیا جاتا ہے لیکن اب یہ ماسک بھی لنکن ثقافت کا حصہ بن چکےہیں ۔قدیم زمانے سے سری لنکا میں اِس طرح کے ماسک بنائے جارہے ہیں جن کو سیاح بھی بڑے شوق سے خریدتے ہیں۔
آج کے شو میں ایک دبلے پتلےسے لڑکے کی پرفارمنس نے کافی داد سمیٹی جو میوزک کے ساتھ ساتھ ڈانس کرتے ہوئے جلتی ہوئی آگ کو منہ میں ڈال رہا تھا۔گویا اس نے اردو کا محاورہ "آگ سے کھیلنا” کو حقیقت بنا دیا۔ شو سے محظوظ ہونے کے ساتھ ساتھ ہم نے ڈنر بھی جاری رکھا کیونکہ لاؤنج اور کھانے کا ہال ملحق تھے اور سری لنکا کی روایتی ڈشز کے ساتھ ساتھ کانٹی نینٹل کھانوں سے بھی پورا پورا انصاف کیا۔

اگلے دن ہماری مارننگ واک ساحل سمندر پر تھی ۔ سمندر کی مست ہوا میں ساحل پر سیپیاں چُنتے چُنتےاور مٹر گشتیاں کرتے ہم کافی دور تک نکل گئے۔
سمندر کو دیکھ کر ہمیشہ سے خدا کی طاقت کے ساتھ ساتھ اس کی بے پناہ عظمت و کبریائی کا احساس میرے دل میں جاگزیں ہوتا ہے۔صبح کے سہانے سمے سمندر کی نیلگوں وسعت نےدل پر عجب کیفیت طاری کر دی۔یوں لگا جیسے سمندر مجھ سے ہم کلام ہو رہا ہو۔ سمندر کی بےپناہ وسعت اور اس کی منہ زور لہروں کو دیکھ کر یوں بھی اپنی کم مائیگی کا احساس دوچند ہو جاتا ہے۔۔۔اس خالق کائنات کی ایک ادنیٰ تخلیق کا یہ عالم ہے تو اس کون و مکاں کے ان گنت اور لامتناہی مظاہر کو بنانے والے کی طاقت و جبروت کا کیا عالم ہو گا!! دلِ عاجز سے یہی دعا نکلی کہ
اے رب ذوالجلال و الاکرام، تجھ سے فریاد ہے
اے سمیع العالم، ہمیشہ باقی رہنے والے!
میں تجھ سے ملتمس ہوں۔۔تو ہی ہر شے کا اصل محرک، تب سے قائم ہے، جب کچھ بھی نہ تھا
تو ہی در حقیقت، ہر شے کو فنا کرنے والا ہے، جس کا قہر بھی حکمت سے خالی نہیں، تیرے سوا کون ہے جو اس خلائے بسیط کو تباہ کر سکتا ہے؟
اے بصیر ، اے ہمیشہ باقی رہنے والے! میری تمام التجائیں تجھ سے ہی ہیں
بےشک میری حیات ، میری موت، میرا عمل، میرے تمام اثاثے۔۔سب تیری ہی دَین ہیں اور صرف تیرے ہی لیے ہیں، میں تیری طرف سے بھلائی کے نزول کی منتظر ہوں، اپنی ہر اس برائی سے تیری پناہ کی طلبگار ہوں جو مجھ سے سرذد ہوئیں، میں تجھ سے التماس کرتی ہوں کہ مجھے ہر دشمنی اور ساز باز سے اپنی حفاظت میں رکھیے جو میرے علم میں ہے اور جس سے میں ابھی تک لاعلم ہوں۔ آمین
بیرووالامیں ہمارے پاس دو دن تھے۔ صبح کی سیر کے بعد آکر ناشتہ کیا اور کچھ دیر آرام کرنے کے بعدبنٹوٹا جانے کا پروگرام بنایا۔یہ شہر واٹر اسپورٹسز کے لئے بھی بہت مشہور ہے مثلاً جیٹ سکی اور سرفنگ وغیرہ لیکن آج ہم صرف شہرمیں گھومنا چاہتے تھےڈرائیور کو ڈسٹرب کرنے کی بجائے میں نے ایک اور ایڈونچر یعنی ٹک ٹک(سری لنکا کا رکشہ )کی سواری کرنے کا فیصلہ کیا۔ہوٹل سے باہر نکلے اور دو رکشوں پر بیٹھ کربنٹوٹا روانہ ہوئے۔ سری لنکا کا ٹک ٹک ہمارے ہاں کے چنگچی سے کافی مشابہ ہے۔ جلد ایک چھوٹے سےبازار پہنچ گئے،چیزیں کوئی خاص قابل ذکر نہ تھیں لیکن دکاندارشاید ہمارے سیاح ہونے کی وجہ سےکافی مہنگے دام بتا رہے تھے۔چار و ناچاروہاں سےسری لنکا کے کچھ سوونئیر خریدے اور واپسی کا ارادہ کیا۔
ہوٹل آنے سے پہلے پھلوں کی ایک دکان سے کچھ پھل خریدے کیونکہ سری لنکا کے دلکش نظاروں اورمحنتی عوام کے ساتھ ساتھ میں یہاں کے میٹھے اور لذیذ پھلوں کے عشق میں بھی مبتلا ہو چکی تھی۔ایک خاتون نہایت چابکدستی سے ننگے پاؤں ہی خرید و فروخت میں مصروف تھیں۔کچھ پھل جو میرے لئے اجنبی تھے، انھوں نے فوراً کاٹ کر چکھنے کے لئے دیئے جوکافی لذیذ تھے۔ سری لنکا کے آم ، تربوز،اسٹار فروٹ اور پپیتا ہرروز میرے ناشتے اور ڈنر کا لازمی جزو تھے۔ریاض ساتھ لے جانے کے لئےدو کارٹن میں آم،پیتا،مینگوسٹن اور رامبسٹن پیک کروائے (آخری دو کی تصویریں آپ کو دکھا چکی ہوں) ۔۔۔بلکہ بعد میں افسوس ہوا کہ کم لائے ہیں کیونکہ دو تین دن میں ہی ہم نے سب پھلوں کا خاتمہ کر دیا۔
ہوٹل پہنچ کر ٹک ٹک والے نے اپنی جیب سے ہے انگریزی میں چَھپا ہوا اپنا وزٹینگ کارڈ نکال کر ہمیں دیا اور کہا کہ اگر بنٹوٹا کے آس پاس کسی آثارِ قدیمہ یا آبشار دیکھنے جانا ہو تو اس کو کال کر لیں۔اس کا کہنا تھا کہ یہاں سے کچھ دور اس کے گاؤں میں ایک نہایت خوبصورت آبشار ہے جو ہمیں یقیناً پسند آئے گی۔ہم نے اس آفر پر کوئی کان نہ دھراجس کا مجھے اب افسوس ہوتاہے کہ کیوں نہ سری لنکا کو کچھ اور ایکسپلور کیا۔
وہاں کے عوام الناس کی انگریزی بولنے کی صلاحیت کے بارے میں بھی ضروری ہے کہ اب بات کر ہی لیں۔۔سری لنکا 92 فیصد لٹریسی ریٹ کے ساتھ جنوبی ایشیاء میں سب سے ٹاپ پر ہے۔ایک رکشے والے سے لے کر ٹھیلے والے تک ہر کوئی انگریزی میں بات کر سکتا ہے (اگرچہ اپنے ایکسنٹ کے ساتھ) ۔۔۔۔ہو سکتا ہے اس کی وجہ سیاحوں کی کثیر تعداد میں آمد بھی ہو کیونکہ لامحالہ ان لوگوں کا واسطہ سیاحوں سے پڑتا ہے کیونکہ عوام کی ایک بہت بڑی تعداد سیاحت کی انڈسٹری سے وابستہ ہے۔
انگریزی بلاشبہ عالمی سطح پر رابطے کا ایک موثر ذریعہ ہے۔۔ہاں لہجہ اور تلفّظ ہر قوم کا عموماًاپنا ہی ہوتا ہے۔اِسی لئے سب سے زیادہ بے چاری انگریزی زبان کی ہی دُرگت بنتی ہے۔ ایک پٹھان دکاندار کی پیاری سی انگریزی کو تو میں آج تک نہیں بھول سکی۔۔کافی سال قبل کالج ٹور کے ساتھ رشکئی کے باڑے میں جانے کا اتفاق ہوا۔دکاندار نے بہت خوشی سے ہمارا استقبال کرتے ہوئے کہا’SIT ON FURNITURE اور پھر حسب عادت اپنی دکان کے کپڑے کے بارے میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہوئے بولا”باجی، بہت اعلیٰ کپڑا ہے، ٹنڈائی ہے ٹنڈائی”پہلے تو میرے سر سے گزر گیا یا الہی یہ ٹنڈائی کیا بلا ہے! کچھ ٹینڈوں سے ملتا جلتانام لگا۔۔پھر کپڑے کی ہئیت پر غور کیا تو سمجھ آیا کہ مراد TIE AND DYEہے۔۔۔یہ واقعہ ہرگزکسی کی تضحیک کے لئے بتا رہی بلکہ میں توآج تک اس پٹھان بھائی کی انگریزی کویاد کر کے انجوائے کرتی ہوں ۔۔اب آپ کہیں گے کہ میں نے خود کیوں خواہ مخواہ انگریزی جھاڑی ۔۔تو مائی ڈئیر آپ بس”انجوائے” کریں!!
ویسےہمارے ہاں انگریزی ضرورتاً نہیں بلکہ فیشن کے طور پر بولی جاتی ہے یا پھراحساسِ کمتری کے جذبے کے تحت۔۔بظاہر تو ہمیں انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوئے عرصہ گزر چکا ہے مگرہم ان کی ذہنی اور فکری غلامی کے شکنجے سے اب تک آزاد نہیں ہو سکے۔
بنٹوٹا میں آخری دن ہم نے ساحل کے آس پاس گھومنے میں صرف کیا اور اس کے سوا کچھ نہ کیا۔جیسے انگریزی میں کہتے ہیں doing nothing۔ہم بھی آرام سے سمندر کی لہروں کو دیکھتے اور ان سے کھیلتے رہے۔ساحل پر بیٹھ کرمنہ زور لہروں کا نظارہ کرناایک ناقابلِ فراموش تجربہ تھا۔گاہےبگاہے سمندر کی طاقتور لہریں،کچھ نئی سیپیاں ساحل پر بکھر دیتی اور کچھ کو اپنے ساتھ بہا کر واپس لے جاتیں۔ یہی ازل سے اس کائنات کااصول ہے۔۔۔دم بھر کے لئے زندگی کا ساحل اور پھر موت اور اس کے بعد کا لامتناہی سفر!! یہی دم بھر کا وقفہ غنیمت ہے عمل کے لئے۔۔۔
اگرکبھی آپ کو وسیع و عریض سمندر کی ہر دم متلاطم موجوں کے سامنے بیٹھ کر ان کو دیکھتے رہنے کا موقع ملے تو ان تنہائی کے لمحات کو گنوائیے گا مت۔۔یہ خدا، کائنات، زندگی کی حقیقت دریافت کرنے کے لمحات ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ یہ لمحات میرےہاتھوں سے ریت کی مانند پھسل جاتے، میں نے ان کوہمیشہ ہمیشہ کے لئے دل کے نہاں خانوں میں محفوظ کر لیا۔
واپسی کی گھڑی آن پہنچی تھی اور ہم گاڑی میں بیٹھ کر کولمبو روانہ ہو گئے۔ متاعِ دنیا سمیٹ کر اوراَن گِنت حسین یادوں کی متاع کودل میں بساکر گاڑی میں بیٹھ گئے مگر لگتا تھا کہ دل توکہیں سری لنکا کے حسین نظاورں میں کھو گیا ہے۔
؏ طلب میں کسے آرزوئے منزل ہے
شعور ہو تو سفر خود سفر کا حاصل ہے!

ختم شد

زندگی ایک آزمائش

$
0
0


عبدالرشید خان
23جنوری 2015ء کی سہ پہر تھی ۔میں اپنی فیملی کے ساتھ کعبہ شریف میں باب عبدالعزیز کے سامنے نماز عصر سے فارغ ہوا ہی تھا کہ ایک اعلانیہ سننے میں آیا جس میں سعودی عرب کے بادشاہ جناب شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کی نماز جنازہ کی اطلاع دی گئی تھی ۔جب نماز شروع ہوئی تلاوت کے دوران امام کعبہ کی روتے ہوئےہچکیاں سنائی دیں کیونکہ تلاوت کا نفس مضمون ہی موت تھا۔ نماز جنازہ سے فارغ ہوئےہی تھے کہ پیچھے مڑکر دیکھا تو کلاک ٹاور پر ایک بڑا ٹی وی نصب تھا جس میں شاہ عبداللہ کی نماز جنازہ

کا منظر دیکھایا جا رہا تھاجو ریاض میں ہورہی تھی ۔ان کا جسم ایک عام کفن میں ملبوس ایک بڑی جائے نماز پر زمین پر رکھا تھا ۔آج ان کی موت کے ساتھ ان کی بادشاہت کا اختتام ہو چکا تھا۔ نماز کی صفوں میں شاہی خاندان کے افراد قریبی احباب اور سیکورٹی اہل کار شامل تھے ۔یہ لوگ عام زندگی میں بادشاہ سے نظر ملاکر بات تک نہیں کرسکتے تھے ۔ آج وہی لوگ ان کی نماز جنازہ پڑھ رہے تھے اور ان کے لئے دعائےمغفرت کر رہے تھے ۔ بادشاہ کی عمر 90 سال تھی اور انھوں نےاپنی عمر کےآخری دس سال بادشاہ کی حیثیت سے ملک کاانتظام سنبھالا۔یہ ہم سب کےلئے لمحہ فکریہ ہے کہ آج یہ بادشاہوں کے بادشاہ کے حضور میں حاضر ہوگئےہیں جہاں ہر شخص کو جانا ہے شاہ ہو یا گدا ہو یا عام آدمی ہر ایک کو اپناحساب دیناہے۔ ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ مجھے یہ آیات یاد آگئیں:
"لوگو، اگر تمہیں زندگی بعد موت کے بارے میں کچھ شک ہے۔ تو تمہیں معلوم ہو کہ ہم نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ہے، پھر نطفے سے، پھر خون کے لوتھڑے سے، پھر گوشت کی بوٹی سے جو شکل والی بھی ہوتی ہے اور بے شکل بھی ۔(یہ ہم اس لیے بتا رہے ہیں) تاکہ تم پر حقیقت واضح کر دیں ہم جس (نطفے) کو چاہتے ہیں ایک وقت خاص تک رحموں میں ٹھیرائے رکھتے ہیں۔پھر تم کو ایک بچّے کی صورت میں نکال لاتے ہیں ۔(پھر تمہیں پرورش کرتے ہیں) تاکہ تم اپنی پُوری جوانی کو پہنچو اور تم میں سے کوئی پہلے ہی واپس بلا لیا جاتا ہے اور کوئی بدترین عمر کی طرف پھیر دیا جاتا ہے تاکہ سب کچھ جاننے کے بعد پھر کچھ نہ جانے ۔اور تم دیکھتے ہو کہ زمین سوکھی پڑی ہےپھر جہاں ہم نے اُس پر مینہ برسایا کہ یکایک وہ پھبک اٹھی اور پھول گئی اور اس نے ہر قسم کی خوش منظر نباتات اگلنی شروع کر دیں۔”( الحج 22:5)
ہماری موجودہ زندگی عارضی اور ناپائدار ہے مگر ہم اُس کو بھول گئے ہیں جواپنی ذات پاک میں یکتا ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور وہ اکیلا ہی ہر چیز کا پیدا کرنےوالا ہے جس کے قبضے میں ہماری جان ہے ۔ ہم نےان پیغامات کو پس ِپشت ڈال دیا ہےجو اس نےاپنے پیارے رسولوں کے توسط سے ہم تک پہنچائے ۔ ہم دنیاوی لہوولعب میں اِس طرح مگن ہیں کہ جیسے ہمیں کبھی موت نہیں آئے گی اورجیسےہماری اس عارضی زندگی کی کوئی ایکسپائریشن ڈیٹ نہیں ہے ۔حقیقت تو یہ ہے کہ ہم تو بس آن کال سسٹم پر زندہ ہیں جب ہمارے رب کی طرف سے بلاوہ آئے گا توہم بے چوں چراں روانہ ہو جائیں گے۔ اس سارے پراسس میں ہمارا کوئی اختیار نہیں۔موت ہماری مستقل زندگی کا گیٹ وے ہے۔
” اور کوئی کہتا ہے کہ اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی اور آگ کے عذاب سے ہمیں بچا۔ (201) ایسے لوگ اپنی کمائی کے مطابق (دونوں جگہ) حصہ پائیں گے اور اللہ کو حساب چکاتے کچھ دیر نہیں لگتی "(البقرہ2:201,202)
"سُنو! جو اللہ کے دوست ہیں، جو ایمان لائے اور جنہوں نے تقویٰ کا رویہ اختیار کیا۔(62) ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے ۔(63) دُنیا اور آخرت دونوں زندگیوں میں ان کے لیے بشارت ہی بشارت ہے ۔اللہ کی باتیں بدل نہیں سکتیں یہی بڑی کامیابی ہے۔( یونس 10:62,63,64)
انسانی زندگی بہت مختصر ہے جیسا کہ آیت قرآنی سے ثابت ہے۔ کسی کی عمر لمحات،دنوں یامہینوں پر محیط ہوتی ہے اور کسی کی عمر بزرگی اور اس کے بد ترین حصے کی طرف دھکیل دی جاتی ہے ۔اوسط عمر ساٹھ سال سے اسی سال ہے۔ بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو سو سال یا اس سے آگے پہنچتے ہوں ۔انسان اس مختصر سی زندگی کو معیاری بنانے کے لئے اعلیٰ تعلیم حاصل کرتا ہے۔ اچھے روزگار اورسوسائٹی میں اعلیٰ مقام حاصل کرنے کے لئے دن رات تگ و دو میں لگا رہتا ہے۔اسی دوڑ میں آدھی سے زیادہ زندگی صرف کردیتا ہےاور اس کشمکش میں بسا اوقات اپنے خالق حقیقی کو بھی بھول جاتا ہے۔کچھ لوگ دنیا میں اپنےمقا صد حاصل کرلیتے ہیں اور کچھ راستے ہی میں رہ جاتے ہیں۔کچھ حادثات کی نذر ہو جاتے ہیں ۔کچھ موذی امراض میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور کچھ بدترین عمر یعنی بڑھاپےمیں داخل ہوجاتے ہیں ۔اگر انسان سمجھے تو درحقیقت ہماری موجودہ زندگی دارالامتحان ہے نہ کہ دارالاجزاء و سزاء۔
"حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے ۔(6) اور وہ خود اِس پر گواہ ہے (7) اور وہ مال و دولت کی محبت میں بری طرح مبتلا ہے ۔(8) (العادیات100:6,7,8)
ہمیں اپنے دین کے بنیادیعقائد پر کاربند رہنا ہے کہ وہ مالک پروردگار اپنی ذات پاک میں واحد لاشریک ہے ۔ محمدﷺاس کے آخری رسول ہیں۔ ان کی لائی ہوئی شریعت کی تعمیل ہم پر واجب ہے۔قرآن پاک کی صورت میں ہمیں ہر طرح کی رہنمائی کے لئے ضابطہ حیات دے دیا گیا ہے۔جس پر عمل کرکے ہمیں اپنی ابدی زندگی کو سنوارناہے۔خودپر عائد تمام عبادات و فرائض کی تکمیل کرنی ہے۔اخلاقیاتاور معاملات کا بدرجہ اتم خیال رکھنا ہے کیونکہ معاشرہ اخلاقیات اور معاملات کی درستگی کے بغیر نا مکمل ہے۔مثلاً ایک دوسرے کے دکھ درد میں کام آنا،دوسروں کی تکلیف کو خود محسوس کرنا،رزق حلال کمانا یعنی معاشی تگ و دو میں جائز اور نا جائز کا خیال رکھنا وغیرہ۔ جس نے دنیاوی معاملات میں قرآن کو رہبر بنایا اورنبی ﷺکی سنت پر عمل کیا ،اس کے لئے جنت کی بشارت ہے ۔جو نہ ختم ہونےوالی عیش و آرام کی زندگی ہوگی۔ یہی اس ذات پاک کی گارنٹی ہے اور جس نے احکام الہی کے بر عکس عمل کیااور بے راہ روی اختیار کی اس کا ٹھکانہ دوزخ ہوگا جہاں تاحیات آگ میں جلتے رہنا ہوگا۔
"جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے، یقیناً اُن پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ "نہ ڈرو، نہ غم کرو، اور خوش ہو جاؤ اُس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے ۔(30) ہم اِس دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی، وہاں جو کچھ تم چاہو گے تمہیں ملے گا اور ہر چیز جس کی تم تمنا کرو گے وہ تمہاری ہوگی ۔(31) یہ ہے سامان ضیافت اُس ہستی کی طرف سے جو غفور اور رحیم ہے”( فصلت 41:30,31,32)
” زمانے کی قسم ۔ (1) انسان درحقیقت بڑے خسارے میں ہے۔ (2) سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے، اور نیک اعمال کرتے رہے۔اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔ (3)(العصر 103:1,2,3)
"جب وہ اس کلام کو سنتے ہیں جو رسول پر اترا ہے تو تم دیکھتے ہو کہ حق شناسی کے اثر سے اُن کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہو جاتی ہیں ۔وہ بول اٹھتے ہیں کہ پروردگار! ہم ایمان لائے، ہمارا نام گواہی دینے والوں میں لکھ لے” (83) (المائدہ 5:83)
"یہ بصیرت کی روشنیاں ہیں سب لوگوں کے لیے اور ہدایت اور رحمت اُن لوگوں کے لیے جو یقین لائیں ۔(20) (الجاثیہ 45:20)
"اے انسان، تو کشاں کشاں اپنے رب کی طرف چلا جا رہا ہے، اور اُس سے ملنے والا ہے۔” (6) (الانشقاق 84:6)
ابدی زندگی
قرآنی شواہد اور جنت کی ابدی زندگی کی گارنٹی
"دوڑ کر چلو اُ س راہ پر جو تمہارے رب کی بخشش اور اُس جنت کی طرف جاتی ہے جس کی وسعت زمین اور آسمانوں جیسی ہے۔اور وہ اُن خدا ترس لوگوں کے لیے مہیا کی گئی ۔” (آل عمران 3:133 )
"اے ہمارے رب !اور داخل کر اُن کو ہمیشہ رہنے والی اُن جنتوں میں جن کا تو نے اُن سے وعدہ کیا ہے۔ اور اُن کے والدین اور بیویوں اور اولاد میں سے جو صالح ہوں (اُن کو بھی وہاں اُن کے ساتھ پہنچا دے) ۔تو بلا شبہ قادر مطلق اور حکیم ہے (8)( غافر 40:8)
"جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں ان کو ہم جنت کی بلند و بالا عمارتوں میں رکھیں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، وہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔کیا ہی عمدہ اجر ہے عمل کرنے والوں کے لیے۔( العنکبوت 29:58)
"پھر جیسا کچھ آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان ان کے اعمال کی جزا میں ان کے لیے چھپا رکھا گیا ہے اس کی کسی متنفس کو خبر نہیں ہے۔(السجدہ 32:17)
"سدا بہار باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے یہ جزا ہے اُس شخص کی جو پاکیزگی اختیار کرے۔( طہٰ20:76)
"جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے گا وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے یعنی انبیا٫ اور صدیقین اور شہدا٫ اور صالحین۔ کیسے اچھے ہیں یہ رفیق جو کسی کو میسر آئیں ۔(النساء 4:69)
"اور جو لوگ اپنے رب کی نافرمانی سے پرہیز کرتے تھے انہیں گروہ در گروہ جنت کی طرف لے جایا جائے گا ۔یہاں تک کہ جب وہ وہاں پہنچیں گے۔اور اس کے دروازے پہلے ہی کھولے جا چکے ہوں گے۔ تو اُس کے منتظمین ان سے کہیں گے کہ "سلام ہو تم پر، بہت اچھے رہے، داخل ہو جاؤ اس میں ہمیشہ کے لیے” (الزمر39:73
دائیں بازو والے۔سو دائیں بازو والوں (کی خوش نصیبی) کا کیا کہنا !
"ان مومن مردوں اور عورتوں سے اللہ کا وعدہ ہے کہ انہیں ایسے باغ دے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ ان سدا بہار باغوں میں ان کے لیے پاکیزہ قیام گاہیں ہوں گی۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ کی خوشنودی انہیں حاصل ہوگی یہی بڑی کامیابی ہے۔( التوبہ 9:72)
"یعنی ایسے باغ جو اُن کی ابدی قیام گاہ ہوں گے وہ خود بھی ان میں داخل ہوں گے اور ان کے آباؤ اجداد اور اُن کی بیویوں اور اُن کی اولاد میں سے جو جو صالح ہیں وہ بھی اُن کے ساتھ وہاں جائیں گے ملائکہ ہر طرف سے اُن کے استقبال کے لیے آئیں گے (23) اور اُن سے کہیں گے کہ تم پر سلامتی ہے، تم نے دنیا میں جس طرح صبر سے کام لیا اُس کی بدولت آج تم اِس کے مستحق ہوئے ہو۔ پس کیا ہی خوب ہے یہ آخرت کا گھر! "(الرعد 13:23,24)
"دائمی قیام کی جنتیں۔جن میں وہ داخل ہوں گےان کےنیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔اور سب کچھ وہاں عین اُن کی خواہش کے مطابق ہوگا۔ یہ جزا دیتا ہے اللہ متقیوں کو۔ (31) اُن متقیوں کو جن کی روحیں پاکیزگی کی حالت میں جب ملائکہ قبض کرتے ہیں تو کہتے ہیں سلام ہو تم پر، جاؤ جنت میں اپنے اعمال کے بدلے” (النحل 16:31,32)
” اُن کے آگے سونے کے تھال اور ساغر گردش کرائے جائیں گے۔ اور ہر من بھاتی اور نگاہوں کو لذت دینے والی چیز وہاں موجود ہو گی۔ ان سے کہا جائے گا کہ تم اب یہاں ہمیشہ رہو گے۔ (71) تم اِس جنت کے وارث اپنے اُن اعمال کی وجہ سے ہوئے ہو جو تم دنیا میں کرتے رہے۔( الزخرف 43:71,72)
(اور ان کے لیے خوبصورت آنکھوں والی حوریں ہوں گی۔ (22) ایسی حسین جیسے چھپا کر رکھے ہوئے موتی ۔(23) یہ سب کچھ اُن اعمال کی جزا کے طور پر انہیں ملے گا جو وہ دنیا میں کرتے رہے تھے۔ (24) ( الواقعہ 56:22,23,24)

اور بائیں بازو والے۔بائیں بازو والوں کی بد نصیبی کا کیا پوچھنا!
” اور بائیں بازو والے۔بائیں بازو والوں کی بد نصیبی کا کیا پوچھنا۔ (41) وہ لو کی لپٹ اور کھولتے ہوئے پانی (42) اور کالے دھوئیں کے سائے میں ہوں گے۔ (43) (الواقعہ 56:41,42,43)
” اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے وہی لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنے آپ کو گھاٹے میں ڈال لیا وہ جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔ (103) (المؤمنون 23:103)
” یقین جانو، جن لوگوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا ہے اور ان کے مقابلہ میں سرکشی کی ہے ان کے لیے آسمان کے دروازے ہرگز نہ کھولے جائیں گے۔ اُن کا جنت میں جانا اتنا ہی ناممکن ہے جتنا سوئی کے ناکے سے اونٹ کا گزرنا ۔مجرموں کو ہمارے ہاں ایسا ہی بدلہ ملا کرتا ہے۔ (40) ان کے لیے تو جہنم کا بچھونا ہوگا اور جہنم ہی کا اوڑھنا ہوگا۔یہ ہے وہ جزا جو ہم ظالموں کو دیا کرتے ہیں (41)(الاعراف 7:40,41)
"پس اے محمدﷺ! جن لوگوں نے تمہاری دعوت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے، اُن سے کہہ دو کہ قریب ہے وہ وقت، جب تم مغلوب ہو جاؤ گے۔ اور جہنم کی طرف ہانکے جاؤ گے اور جہنم بڑا ہی برا ٹھکانا ہے ۔(12) (آل عمران 3:12)
"ا ِس طرح جن لوگوں نے کفر و بغاوت کا طریقہ اختیار کیا اور ظلم وستم پر اتر آئے اللہ ان کو ہرگز معاف نہ کرے گا اور انہیں کوئی راستہ(168) بجز جہنم کے راستہ کے نہ دکھائے گا ۔جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے اللہ کے لیے یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔169 (النساء 4:168,169 )
"جس کو اللہ ہدایت دے وہی ہدایت پانے والا ہے۔ اور جسے وہ گمراہی میں ڈال دے تو اسکے سوا ایسے لوگوں کے لیے تو کوئی حامی و ناصر نہیں پا سکتا ۔ان لوگوں کو ہم قیامت کے روز اوندھے منہ کھینچ لائیں گے۔اندھے، گونگے اور بہرے ہیں۔ اُن کا ٹھکانا جہنم ہے جب کبھی اس کی آگ دھیمی ہونے لگے گی ہم اسے اور بھڑکا دیں گے(الاسرء 17:97)

ترتیب: عبدالرشید خان
ورجینیا امریکہ

عورتوں کا عالمی دن

$
0
0


عورتوں کا عالمی دن
ڈاکٹر محمد عقیل
عورتوں کے عالمی دن پر بعض خواتین کی جانب سے نامناسب پوسٹرز کی تشہیر نے کئی بحثوں کو جنم دیا ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ ان پوسٹرز کے ذریعے تشہیر کرنے والی خواتین اس معاشرے کا ایک فی صد حصہ بھی نہیں۔ اس لیے ان کے پوسٹرز کو عام خواتین کی اکثریت کا مطالبہ سمجھنا ایک غلطی ہے ۔ اس لیے ان کے مطالبات کو زیر بحث لانا اور ان کا جواب دینا ایک لایعنی بحث ہے ۔ دوسری بات یہ کہ ہماری خواتین کے مسائل مغربی معاشرے سے بہت مختلف ہیں۔ اس لیے تحریک نسواں کے علمبرداروں کو مغرب کی بجائے پاکستان کے تناظر میں خواتین کے مسائل کو دیکھنا ضروری ہے۔
اگر ہم پاکستانی خواتین کی اکثریت کا جائزہ لیں تو ہماری آدھی سے زیادہ خواتین دیہی زندگی گذارتی ہیں جہاں تعلیم موجود نہیں، عورت کیا مرد کے کمانے ذرائع بھی بہت محدود ہیں، خواتین کی اکثریت گھر سے باہر کے مسائل کو جانتی تک نہیں چہ جائیکہ ان سے نبٹنے کی صلاحیت رکھے۔ دوسری جانب ہمارے ہاں خواتین کی اکثریت کا استحصال مردوں کی بجائے عورتیں کرتی دکھائی دیتی ہیں۔

کبھی ساس بہو پر ظلم کرتی تو کبھی نند بھاوج کی چپقلش استحصال کا باعث بنتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ خواتین کو ورک پلیس، ٹرانسپورٹ، وراثت ، تعلیم اور گھریلو تشدد کے معاملات میں بالعموم ظلم کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عورت کو مرد ہی نہیں بلکہ عورت کے ہاتھوں کیے جانے والے استحصال سے نجات دلائی جائے ۔ اس کا حل یہ نہیں کہ مرد کو حقیر بنا کر اپنی مصنوعی برتری کا اعلان کیا جائے۔میرا جسم میری مرضی اور قسم کے دیگر نعرے محض ایک بچکانہ عمل ہے ۔جس عورتوں کے حقیقی مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھنے کا امکان ہے۔ ان مسائل کا حل افہام و تفہیم، بات چیت، ایجوکیشن اور بہتر قانون سازی سے ہی ممکن ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ مرد اور عورت ایک دوسرے سے مد مقابل یا حریف نہیں کہ ایک دوسرے کو نیچا دکھنانے کی کوشش کریں۔ مرداپنی جگہ اور عورت اپنی جگہ ایک مکمل انسان ہے جس کے اپنے حقوق بھی ہیں اور ساتھ فرائض بھی۔ مرداور عورت ایک دوسرے کے بنا ادھورے ہیں۔ اس ادھورے پن کو دور کرنے کے لیے خاندان کا ادارہ وجود میں آتا ہے ۔ یہ گھر اپنی بقا کے لیے ایثار اور قربانی مانگتا ہے۔ اگر یہ ایثار اور قربانی نہ ہو تو نہ عورت بچہ پیدا کرنے کی کٹھن مراحل کو برداشت کرسکتی اور نہ مرد بچوں کی پرورش کا بوجھ اٹھا سکتا ہے۔ ان پوسٹرز پر مبنی خودغرضانہ سوچ اگر عام ہوجائے تو ماں اور باپ کا وجود ہی ختم ہوتا دکھائی دیتا ہے۔
یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ مرد یا عورت کی تذلیل ، خودغرضی اور لایعنی جنسی آزادی کے مطالبوں سے گھر میں سکون پیدا تو نہیں کیا جاسکتا، البتہ معصوم خواتین کو غلط را ہ پر ڈال کر ان کے بسے بسائے گھر کو برباد ی سے ضرور دوچار کیا جاسکتا ہے۔ اور یاد رہے کہ یہ وہ معصوم خواتین ہیں جو نہ کسی این جی ای اوکی ملازم ہیں اور نہ ہی تحریک نسواں کی علمبردار، یہ نہ ہی جدی پشتی امیر زادیاں ہیں اور نہ ہی کسی اعلی یونی ورسٹی کی گریجویٹ، نہ تو ان کا کوئی وسیع حلقہ احبا ب ہے اور نہ ہی یہ کسی سوشل کلب کی روح رواں ہیں ۔ان پوسٹرز کو دیکھ کر ہماری معصوم خواتین یہ سبق پھر سے پڑھ لینا چاہیے کہ کہ نادان دوست سے دانا شمن بہتر ہے

نیوزی لینڈ کا سانحہ

$
0
0


ڈاکٹر محمد عقیل
نیوزی لینڈ کے سانحے پر غیر مسلموں کے دو کردار سامنے آئے۔ ایک کردار اس دہشت گرد کا ہے جس نے نسلی اور مذہبی بنیادوں پر معصوم مسلمانوں کا بے رحمانہ قتل عام کیا۔ دوسرا کردار نیوزی کی لینڈ کی وزیر اعظم اور

عوام کا ہے جنہوں نے شہداء کے لواحقین کو سینے سے لگایا ، ان کے لیے شمعیں روشن کیں اور ان کے غم میں آنسو بہا کر رنگ ، نسل اور مذہب سے بالاتر ہوکر اعلی اخلاقی اقدار کا ثبوت دیا۔ یہ ایک ہی نسل کے دو متضاد کردار ہیں۔ ایک نفرت ، تشدد، نسلی تعصب اور بے رحمی کی علامت۔ دوسرا محبت، امن، عدم تعصب اور رحمدلی کا علمبردار۔ اس سانحے کے رد عمل میں ہماری سوسائٹی میں بھی دو قسم کے کردار سامنے آئے۔ ایک وہ جنہیں صرف دہشت گرد کا فعل نظر آیا اور انہوں نے اسے پوری سفید فام اور غیر مسلم نسل پر منطبق کردیا۔ ان کا مطالبہ ہے کہ اسی نسلی اور مذہبی بنیادوں پرگوروں اور غیر مسلموں کے خلاف انتقامی کاروائی کی جائے ۔دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو محض مرعوبیت کی بنا پر گوروں کے گن گانے میں مصروف ہیں ۔یہ لوگ مسلمانوں ہی کو تنقید کا نشانہ بنانے پر تلے ہیں اور اس دہشت گردی کی کاروائی کو یکسر نظر انداز کررہے ہیں جو اسی قوم کے ایک فرد نے کی ہے۔ یہ دونو ں رویے چیزوں کو بلیک اینڈ وہائٹ میں دیکھنے کی غلط عادت ہے جو حقیقت کے خلاف ہے۔ حق بات یہ ہے کہ اس شخص کا رویہ دہشت گردی اور قابل مذمت ہے۔لیکن اس مذمت کا مطلب انتقامی کاروائی نہیں بلکہ ڈائیلاگ اور اچھے اخلاقی رویے کے ذریعے اپنی بات غیر مسلموں کو پہنچانا ہے۔ اسی طرح نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم اور عوام کا مثبت رویہ قابل تعریف اور لائق تحسین ہے اور یہی وہ اخلاقی رویہ ہے جو ہم مسلمانوں سے غیر مسلموں کے لیے مطلوب ہے۔سفید فام دہشت گرد اور سفید فام نیوزی لینڈ کی ہمدردقوم ، یہ ایک ہی نسل کے دو کردار ہمارے سامنے ہیں۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم مثبت اور اعلی اخلاقی کردار کی تقلید کرتے ہیں یا منفی کردار کا تعصب ، نفرت اور تشدد پر مبنی رویہ اختیار کرتے ہیں۔

حج کے پانچ دن

$
0
0


ترتیب و تالیف:عبدالرشیدخان (ورجینیا امریکہ)
بے شک سب سے پہلی عبادت گاہ جو انسانوں کے لیے تعمیر ہوئی وہ وہی ہے جو مکہ میں واقع ہے اس کو خیر و برکت دی گئی تھی اور تمام جہان والوں کے لیے مرکز ہدایت بنایا گیا تھا (96) اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں، ابراہیمؑ کا مقام عبادت ہے، اوراس کا حال یہ ہے کہ جو اِس میں داخل ہوا مامون ہو گیا لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے، اور جو کوئی اس حکم کی پیروی سے انکار کرے تو اسے معلوم ہو جانا چاہیے کہ اللہ تمام د نیا والوں سے بے نیاز ہے (97) (آلعمران 3:96,97)
پہلا دن 8 ذوالحجہ:- بعد نماز فجر…منیٰ کیلۓ روانگی, منیٰ میں ظہر,عصر,مغرب عشاء اپنے اپنے وقت کی نمازیں پڑھنی ہیں اور رات قیام کرنا ہے دوسرے دن فجر کی نماز پڑھنی ہے
دوسرا دن 9 ذوالحجہ:-1-فجر کی نماز منیٰ میں پڑھ کر عرفات کیلۓ روانگی .2-ظہر کی نماز اور عصرکی نمازعرفات میں پڑھنی ہے . 3-وقوف عرفات . 4-مغرب کےوقت, "مغرب کی نماز پڑھے بغیر” مزدلفہ کو رواںگی . 5-مغرب اور عشاء کی نمازیں اکھٹی مزدلفہ میں پڑھنی ہیں
رات مزدلفہ میں قیام کرنا ہے, اور رات میں ذکرالہیٰ میں مشغول رہنا,رمی کرنے کیلۓ کنکریاں اٹھانی ہیں . جو تعداد میں 60 ہونی چاہیئں
اور اگر حج کے ساتھ ساتھ اپنے رب کا فضل بھی تلاش کرتے جاؤ،

تو اس میں کوئی مضائقہ نہں پھر جب عرفات سے چلو، تو مشعر حرام (مزدلفہ) کے پاس ٹھیر کر اللہ کو یاد کرو اور اُس طرح یاد کرو، جس کی ہدایت اس نے تمہیں دی ہے، ورنہ اس سے پہلے تم لوگ بھٹکے ہوئے تھے (198)
(البقرہ 2:198)
تیسرا دن 10ذوالحجہ:-مزدلفہ سے فجر کی نمازکے بعد وقوف کرکے منیٰ کو روانگی, منیٰ پہنچ کر بڑے شیطان کی رمی کرنا ہے, پھر قربانی کرنا ہے,
قربانی کے بعد سر کے بال کٹوانے ہیں, اس کے بعد احرام اتار کر اپنا عام لباس زیب تن کرلیں, طواف زیارت کو مکہ (کعبہ) جاناہے,
طواف زیارت کے بعد رات واپس منیٰ ہی میں قیام کرنالازم ہے.
پھر جب اپنے حج کے ارکان ادا کر چکو، تو جس طرح پہلے اپنے آبا و اجداد کا ذکر کرتے تھے، اُس طرح اب اللہ کا ذکر کرو، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر (مگر اللہ کو یاد کرنے والے لوگوں میں بھی بہت فرق ہے) اُن میں سے کوئی تو ایسا ہے، جو کہتا ہے کہ اے ہمارے رب، ہمیں دنیا ہی میں سب کچھ دیدے ایسے شخص کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں (200) (البقرہ 2:200)
چوتھا دن 11ذوالحجہ:-رمی کرناہے,(زوال کے بعد) پہلے چھوٹے شیطان کی رمی کرنا ہے, پھر درمیانےشیطان کی رمی کر ناہے, پھر بڑے
شیطان کی رمی کرنا ہے, اگر ابھی تک طواف زیارت نہیں کیا تو طواف زیارت آج کرلیں, رات منیٰ میں ہی قیام کرناہے.
پانچواں دن 12ذوالحجہ:-پہلےچھوٹے شیطان کی رمی کرناہے, پھر درمیانے شیطان کی رمی کرناہے, پھربڑے شیطان کی رمی کرنا ہے, اگر
طواف زیارت ابھی تک نہیں کیاتو مغرب کی نماز سے پہلے طواف زیارت ضرور کرلیں
نوٹ
طواف زیارت اور طواف وداع دو مختلف طواف ہیں ہدائت کے مطابق ادا کریں طواف وداع سب سےآخر میں ادا کرنا ہے اگرآپ بھول گۓ تو آپ کو دوبارہ آکر کرنا ہوگا ورنہ آپ کا حج نہیں ہوا. تاکیدہے
"فرمان الہی”
نہ اُن کے گوشت اللہ کو پہنچتے ہیں نہ خون، مگر اُسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے اُس نے ان کو تمہارے لیے اِس طرح مسخّر کیا ہے تاکہ اُس کی بخشی ہوئی ہدایت پر تم اُس کی تکبیر کرو اور اے نبیؐ، بشارت دے دے نیکو کار لوگوں کو (37) (الحج 22:37)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! احرام کی حالت میں شکار نہ مارو، اور اگر تم میں سے کوئی جان بوجھ کر ایسا کر گزرے تو جو جانور اس نے مارا ہو اُسی کے ہم پلہ ایک جانور اُسے مویشیوں میں سے نذر دینا ہوگا جس کا فیصلہ تم میں سے دو عادل آدمی کریں گے، اور یہ نذرانہ کعبہ پہنچایا جائے گا، یا نہیں تو اِس گناہ کے کفارہ میں چند مسکینوں کو کھانا کھلانا ہوگا، یااس کے بقدر روزے رکھنے ہوں گے، تاکہ وہ اپنے کیے کا مزہ چکھے پہلے جو ہو چکا اُسے اللہ نے معاف کر دیا، لیکن اب اگر کسی نے اس حرکت کا اعادہ کیا تو اس سے اللہ بدلہ لے گا، اللہ سب پر غالب ہے اور بدلہ لینے کی طاقت رکھتا ہے (95) (المائدہ 5:95)
دعاۓ خیر- حج مبرور


ووکیشنل ایجوکیشن اور پاکستان کا عمومی رویہ

$
0
0

اگر کوئی نوجوان ہمارے ملک میں الیکٹریشن بننا چاہے، کار مکینک بننا چاہے، پلمبر بننا چاہے یا اسی طرح کے کسی اور شعبے میں آنا چاہے تو اسے مارکیٹ میں بیٹھے ہوئے کسی روایتی استاد سے یہ کام سیکھنا پڑے گا۔ ویسے بھی اس طرح کے تمام شعبوں میں زیادہ تر وہی نوجوان آتے ہیں جو یا تو میٹرک میں فیل ہوجاتے ہیں یا پھر ساتویں آٹھویں کلاس سے ہی بھاگ کر مطالبہ کرتے ہیں کہ انہیں کوئی کام سکھا دیا جائے۔ لہٰذا ان نوجوانوں کو تعلیمی میدان میں نااہل اور بھگوڑا تصور کرتے ہوئے روایتی استاد کی دکان پر چھوڑ دیا جاتا ہے

۔
دکان پر پہلے چار چھ مہینے اس سے صفائی کروائی جاتی ہے، پھر اگلے چھ مہینے اوزار پکڑانے پر مامور کردیا جاتا ہے، اور یوں آہستہ آہستہ اسے فنی رموز سے آگاہ کرنے کا عمل شروع ہوتا ہے۔ اگر نوجوان کے نصیب اچھے ہوں اور استاد نیک دل ہو تو تین چار سال میں نوجوان کاریگر بن جاتا ہے۔کاریگر بننے کے بعد نوجوان اپنی دکان کھول لیتا ہے اور دکان کی صفائی ستھرائی کے لیے کوئی مناسب سا شاگرد ڈھونڈ لیتا ہے اور پھر اسے بھی اسی طرح کام سکھاتا ہے، جس طرح سے اس نے خود سیکھا ہوتا ہے۔
ووکیشنل تعلیم کے اس نظام کو ہم نان فارمل ٹریننگ کا نام دے سکتے ہیں۔ لیکن ہمارے ملک میں نان فارمل ٹریننگ کے علاوہ بھی ووکیشنل ٹریننگ کا ایک نظام موجود ہے جسے ہم فارمل ووکیشنل ٹریننگ کہہ سکتے ہیں۔اگر ہم صوبہ پنجاب کی بات کریں تو یہاں کئی ووکیشنل اور ٹیکنیکل کالج ہیں، جہاں طلبا کو الیکٹریشن، اے سی، فریج اور اسی طرح کے دوسرے کام سکھانے کےلیے داخلہ دیا جاتا ہے۔ اسی طرح لڑکیوں کو بھی بیوٹیشن اور اس سے ملتے جلتے کورسز کروائے جاتے ہیں۔حکومت پنجاب نے ووکیشنل ایجوکیشن سسٹم کو فعال بنانے کےلیے ٹیکنیکل اینڈ ووکیشنل ایجوکیشن اتھارٹی بھی قائم کر رکھی ہے جو ووکیشنل اداروں کے معاملات کو دیکھتی ہے۔
طلبا کو ان کالجوں میں باقاعدہ داخل کیا جاتا ہے، جہاں انہیں فنی تربیت کے ساتھ ساتھ متعلقہ فن کی تھیوری بھی پڑھائی جاتی ہے۔ کورس کی مدت پوری ہونے پر طلبا کا امتحان لیا جاتا ہے، جسے پاس کرنے پر انہیں ڈپلومہ جاری کردیا جاتا ہے۔ ہنر کے لحاظ سے یہ کورسز 6 ماہ سے لے کر دو سال تک کے ہوسکتے ہیں۔
گزشتہ حکومت نے ووکیشنل ٹریننگ کے اس نظام پر خاصی توجہ دی ہے۔ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں بھی طلبا کو ویٹرنری اسسٹنٹ، فیڈ ٹیکنالوجی اور اسی طرح کے دیگر کئی کورسز کروائے جارہے ہیں۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ووکیشنل ٹریننگ کا فارمل سسٹم ہمارے ملک میں کس حد تک موثر ہے؟
اس بات کو سمجھنے کےلیے میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں۔ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں جب 2014 میں ایف ایم ریڈیو لانچ ہوا تو مجھے ریڈیو کے معاملات دیکھنے کی ذمے داری سونپی گئی۔ پبلک سیکٹر ریڈیو ہونے کی وجہ سے ضروری تھا کہ ہم نشر کرنے سے پہلے اپنے پروگرام کی ریکارڈنگ کریں۔ ظاہر ہے جب پروگرام ریکارڈ ہونا تھا تو پھر اسے ایڈٹ کرنے کی بھی ضرورت تھی، جس کےلیے ہمیں ایک وائس ایڈیٹر چاہیے تھا۔
ہم نے انتظامیہ سے درخواست کی اور ہمیں کوالیفائڈ وائس ایڈیٹر بھرتی کرنے کی منظوری مل گئی۔ اب سرکاری کاغذوں میں کوالیفائڈ صرف اسی شخص کو تسلیم کیا جاسکتا تھا جس کے پاس کسی رجسٹرڈ ادارے کی کوئی نہ کوئی سند ہوتی۔ وائس ایڈیٹر کی بھرتی کے حوالے سے ہمارا یہ تجربہ بڑا دلچسپ رہا۔ کیونکہ جس امیدوار کے پاس ڈپلومہ ہوتا تھا، اسے وائس ایڈیٹنگ کا کام نہیں آتا تھا، اور جسے کام آتا تھا، اس کے پاس ڈپلومہ نہیں ہوتا تھا۔
میں نے آپ کو صرف ایک مثال دی ہے۔ ہمارے ہاں زیادہ تر ٹیکنیکل ڈپلومہ ہولڈر کے پاس تسلی بخش مہارت نہیں ہوتی۔ ڈپلومہ تو ڈپلومہ، ہمارے ہاں تو ڈگریاں رکھنے والوں کا بھی یہی حال ہے۔ یہاں سیکڑوں کی تعداد میں طلبا کمپیوٹر سائنس کی ڈگریاں لے کر نکلتے ہیں لیکن کم ہی لوگ ہوں گے جو کوئی ویب سائٹ بنا لیتے ہوں گے یا کمپیوٹرپروگرامنگ کرلیتے ہوں گے۔ ان کے پاس ڈگری تو ہوتی ہے لیکن مطلوبہ مہارت نہیں ہوتی۔ دراصل یہ ہمارے ملک کی ٹیکنیکل اور ووکیشنل ایجوکیشن کا ایک مستقل المیہ ہے۔
فارمل ووکیشنل ٹریننگ نہ ہونے یا غیر موثر ہونے کی وجہ سے صارفین کو کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
آپ نے کوئی الیکٹریشن بلایا ہے تو جوڑ لگانے سے زیادہ وہ کچھ نہیں جانتا۔ پلمبر بلایا ہے تو اس سے لیکیج بند نہیں ہوتی۔ پلستر کرنے کےلیے مستری بلوایا ہے تو اسے ڈھنگ سے پلستر نہیں کرنا آتا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ مارکیٹ میں جو ٹیکنیکل لیبر دستیاب ہے اس کی پروفیشنل طریقے سے کوئی ٹریننگ ہی نہیں ہوئی۔ دو چار ماہ کسی استاد کے ساتھ کام کیا، کسی بات پر ناراضگی ہوئی۔ الگ ہوئے تو اگلے محلے میں پہنچ کر استاد بن گئے۔
اب اگر اس طرح کا کوئی استاد آپ کے گھر میں سینیٹری کا کام کرگیا تو پھر آپ کی بلڈنگ کا اللہ ہی حافظ ہے۔ یہ تو تھی ہمارے پیارے وطن میں ووکیشنل ٹریننگ کی صورت حال۔ آئیے! اب ہم آسٹریلیا، جرمنی اور چین میں ووکیشنل ٹریننگ کا سرسری سا جائزہ لیتے ہیں۔
سب سے پہلے آسٹریلیا کی مثال لیجئے۔
آسٹریلیا میں کوئی فرد پلمبر، الیکٹریشن یا کار مکینک وغیرہ کا کام نہیں کرسکتا، جب تک کہ وہ کسی رجسٹرڈ ادارے سے تربیت لے کر سند حاصل نہ کرلے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں کام کرنے والا کاریگر نہ صرف یہ کہ اپنے شعبے کی جدید تکنیک سے واقف ہوتا ہے بلکہ وہ پریکٹیکل کے ساتھ ساتھ اپنے کام کی تھیوری سے بھی واقف ہوتا ہے۔ ظاہر ہے جب ایک آدمی اپنے کام کی تھیوری کو سمجھتا ہے تو وہ کام میں پیش آنے والے ہر طرح کے مسائل کو بہتر طریقے سے حل کرسکتا ہے۔
لہٰذا اگر آپ نے حجام کی دکان بنانی ہے، ٹیلرنگ کا کام کرنا ہے یا آٹوموبائل مکینک وغیرہ بننا ہے، تو آپ کو کسی نہ کسی ادارے میں داخلہ لینا پڑے گا۔ ادارے سے تربیت حاصل کرنے کے بعد امیدوار کو لائسنس جاری کیا جاتا ہے، جس کی بنیاد پر بازار میں وہ اپنی دکان کھول سکتا ہے۔ لیکن آسٹریلیا میں ووکیشنل سند یافتہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ آنکھیں بند کرکے اس شخص کی مہارت پر اعتماد کرسکتے ہیں اور آپ کا کام انتہائی تسلی بخش ہوگا۔
پنجاب میں بھی اگر کوئی شخص پیسٹی سائیڈ کی دکان بنانا چاہتا ہے تو پہلے اس کو پلانٹ پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے پیش کیے جانے والے مختصر مدت کے کورس میں داخلہ لینا پڑتا ہے۔ امیدوار داخلہ فیس دیتا ہے، ریگولر کلاسیں لیتا ہے اور کورس مکمل ہونے کے بعد محکمہ اسے ایک سرٹیفکیٹ جاری کرتا ہے اور اسی سرٹیفیکیٹ کی بنیاد پر وہ بازار میں پیسٹی سائیڈ کی دکان کھولتا ہے۔ ہمارے ہاں جتنے بھی لوگ پیسٹی سائیڈ کی دکانیں بنا کر بیٹھے ہوئے ہیں، ان سب کے پاس کوئی نہ کوئی سرٹیفکیٹ لازمی ہوتا ہے، بصورت دیگر ان کے خلاف محکمانہ کارروائی ہوجاتی ہے۔ یہی معاملہ ہمارے ہاں میڈیکل اسٹور بنانے کے حوالے سے بھی ہے۔
آسٹریلیا میں کاریگر اگر سندیافتہ ہوتا ہے تو اس کی اجرت بھی اچھی خاصی ہوتی ہے۔
میرے برادر نے 90 کی دہائی میں آسٹریلیا سے سوفٹ ویئر انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ پچھلے 20 سال سے وہ آسٹریلیا میں ہی بطور سوفٹ وئیر انجینئر کام کر رہے ہیں۔ ایک دفعہ میں نے ان سے سوال کیا کہ کیا آپ اپنے پروفیشن سے مطمئن ہیں؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ نہیں۔
میں نے پوچھا کہ اگر آپ کو دوبارہ موقع ملے تو آپ کیا بننا پسند کریں گے۔
تو انہوں نے جواب دیا کہ میں وہاں پلمبر بننا پسند کروں گا۔ میرے سوال کا جواب سن کر ساتھ بیٹھے ہوئے تمام لوگ کھلکھلا کر ہنس پڑے۔
ظاہر ہے ہم تو پلمبری کے پیشے کو اپنے معاشرے کے حساب سے ہی دیکھیں گے۔ جب کہ آسٹریلیا میں پلمبر بننا معاشرے کے حوالے سے ایک باعزت اور پیسہ کمانے کے اعتبار سے ایک اہم پیشہ ہے۔ وہاں کال کرنے پر پلمبر اپنی گاڑی میں آتا ہے۔ اس نے اپنا یونیفارم پہنا ہوا ہوتا ہے، وہ ہر طرح کے اوزاروں سے لیس ہوتا ہے اور کام کرنے کے بعد آپ کی جیب کافی ہلکی کرجاتا ہے۔ آسٹریلیا کے بارے میں عام طور پر یہ بات کہی جاتی ہے کہ وہاں ٹول یعنی اوزار سستا اور مزدوری مہنگی ہے۔ وہاں لوگ اوزار خرید کر خود کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ کیونکہ اوزار تو آپ نے ایک مرتبہ خرید کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آسٹریلیا میں ووکیشنل ٹریننگ نہ صرف یہ کہ انتہائی منظم ہے بلکہ اس شعبے کو ایک باعزت پروفیشن بھی سمجھا جاتا ہے۔اب دوسری مثال جرمنی کی ہے
جرمنی نے اپنے ملک میں جنرل اور پروفیشنل ایجوکیشن کی طرح ووکیشنل ایجوکیشن کا بھی ایک جامع سسٹم بنا رکھا ہے۔
ضمنی بات یہ ہے کہ اول اول میرے لیے اس بات کو قبول کرنا بڑا مشکل تھا کہ لوگوں کو جنرل یا پروفیشنل ایجوکیشن کے بجائے ووکیشنل ایجوکیشن کی طرف راغب کیا جائے۔ چونکہ جنرل اور پروفیشنل ایجوکیشن کو ہمارے ہاں زیادہ معتبر سمجھا جاتا ہے، لہٰذا میں سوچتا تھا کہ ہر آدمی کو کم از ماسٹرز کرنا چاہیے یا کوئی پروفیشنل ڈگری حاصل کرنی چاہیے۔ چونکہ میں خود پروفیشنل تعلیم حاصل کر رہا تھا تو دوسروں کےلیے بھی ویسی ہی سوچ رکھتا تھا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میں اس نتیجے پر پہنچا کہ اللہ تعالی نے انسانوں کے اندر مختلف طرح کے رجحانات رکھے ہوتے ہیں۔ ایک آدمی جنرل ایجوکیشن کی طرف مائل ہے تو دوسرا آدمی ووکیشنل سائیڈ کو زیادہ پسند کرتا ہے۔
ہمارے ملک میں مسئلہ یہ ہے کہ جنرل ایجوکیشن کےلیے تو ہم نے ایک سسٹم بنایا ہوا ہے، لیکن ووکیشنل ٹریننگ کےلیے ہم نے کوئی جامع سسٹم نہیں بنایا ہوا۔ جبکہ پاکستان کے برعکس جرمنی میں ووکیشنل ٹریننگ کا بھی ایک زبردست سسٹم موجود ہے۔ یوں سمجھیے کہ اگر جرمنی میں ایک طالب علم نے مڈل یا میٹرک کرلیا ہے اور اب وہ کوئی کام سیکھنا چاہتا ہے تو اس کےلیے وہ متعلقہ کالج کو داخلے کےلیے درخواست دے گا۔
سمجھنے کےلیے فرض کرلیجیے کہ آپ نے فیصل آباد میں کسی ووکیشنل کالج کو کار مکینک بننے کےلیے درخواست دی ہے۔ کالج آپ کا داخلہ کرنے کے بعد آپ کو کام سیکھنے کےلیے (انٹرن شپ) سوزوکی موٹر ورکشاپ پر بھیج دے گا۔ جہاں ہفتے کے 3 دن آپ کام سیکھیں گے جبکہ باقی 3 دن آپ ووکیشنل کالج میں کار انجن کی تھیوری پڑھنے کے علاوہ ریاضی اور سائنس وغیرہ بھی پڑھیں گے۔ سوزوکی موٹر ورکشاپ آپ کو ماہانہ تنخواہ دینے کی بھی پابند ہوگی۔ اس طرح آپ کی ٹریننگ اور تعلیم ساتھ ساتھ چلیں گے۔ جب آپ کی دو یا تین سال کی ٹریننگ اور ووکیشنل کالج کی تعلیم مکمل ہوجائے گی تو امتحان پاس کرنے کے بعد آپ کو سند جاری کردی جائے گی۔ اور اس سند کی بنیاد پر آپ ملازمت کرسکتے ہیں یا پھر اپنی ورکشاپ بناسکتے ہیں۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ورکشاپ والوں کو اس کا کیا فائدہ ہوگا؟
جرمنی میں حکومت نے ٹیکنیکل شاپ رکھنے والوں کو پابند کیا ہوا ہے کہ وہ سال میں نوجوانوں کی ایک مخصوص تعداد کو ٹریننگ دیں گے۔ خلاف ورزی کی صورت میں انہیں حکومتی کارروائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لہٰذا، ورکشاپ والوں کے پاس جب اور جتنی گنجائش ہوتی ہے، ووکیشنل کالج کو لکھ بھیجا جاتا ہے۔ اور کالج، نوجوانوں کو کام سیکھنے کےلیے ورکشاپ پر بھیج دیتا ہے۔ جرمنی میں ووکیشنل ٹریننگ سسٹم کی سب سے بڑی خوبصورتی یہ ہے کہ ووکیشنل ٹریننگ حاصل کرنے کے بعد اگر آپ چاہیں تو دوبارہ جنرل یا پروفیشنل ایجوکیشن کی طرف جاسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر آپ نے میٹرک کے بعد دو سال کی ووکیشنل ٹریننگ لی ہے تو کالج سے ملنے والی سند ایف اے، ایس ایس سی کے برابر مانی جائے گی۔ اور اس سند کی بنیاد پر آپ انجینئرنگ کی ڈگری میں داخلہ لینے کے بھی اہل ہوتے ہیں۔
یعنی اگر کوئی طالب علم ووکیشنل ٹریننگ کا راستہ اختیار کرے تو آگے چل کر انجینئر بننے کا راستہ اس کےلیے بند نہیں ہوتا۔ اسی طرح اگر وہ جنرل ایجوکیشن میں جانا چاہے تو اس کےلیے وہ راستہ بھی کھلا رکھا گیا ہے۔
لیکن ہمارے ہاں ووکیشنل ٹریننگ کرنے والوں کےلیے اعلیٰ تعلیم کے راستے یا تو بالکل بند ہیں یا پھر انتہائی محدود ہیں۔ میرے برادر جرمنی میں بطور انجنیئر کام کرتے ہیں، وہ سی ٹی اسکین مشینیں بنانے والی کمپنی سیمن کے شعبہ ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ میں جاب کرتے ہیں۔ ان کا یہ مشاہدہ ہے کہ جرمنی میں وہ لوگ جو ووکیشنل ٹریننگ والے راستے سے انجینئر بنتے ہیں، وہ ان لوگوں سے زیادہ کامیاب ہیں جو جنرل ایجوکیشن سے انجینئرنگ ڈگری میں چلے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ووکیشنل ٹریننگ والے چینل سے انجینئر بننے والے لوگوں کی مجموعی صلاحیت خاص طور پر تکنیکی مسائل کے حل اور تخلیق کاری میں وہ دوسروں سے زیادہ بہتر سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ جرمنی کا ووکیشنل ٹریننگ کا نظام نہ صرف یہ کہ طلبا کو بہتر فنی تربیت فراہم کرتا ہے بلکہ انہیں آگے بڑھانے کےلیے بھی ہر طرح کے تعلیمی دروازے کھلے رکھتا ہے۔
تیسری اور آخری مثال چائنا کی ہے۔
امریکا کی ایک ملٹی نیشنل کمپنی نے اپنی بہت ساری مینوفیکچرنگ انڈسٹری چائنا شفٹ کردی ہیں۔ میں اس کمپنی کے چیف ایگزیکٹو کا ٹیلی ویژن انٹرویو دیکھ رہا تھا۔ میزبان نے سوال کیا کہ آپ نے اپنی زیادہ تر انڈسٹری چائنا شفٹ کردی ہے، آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ کیا وہاں لیبر سستی ہے؟
چیف ایگزیکٹو نے جواب دیا کہ اگر ہم امریکا میں کسی ٹیکنیکل جاب کےلیے درخواستیں طلب کریں تو ہمیں 100 سے زیادہ درخواستیں موصول نہیں ہوتیں۔ لیکن اگر ہم اسی جاب کےلیے چائنا میں درخواستیں طلب کریں تو کم از کم ایک ہزار لوگ درخواستیں دیتے ہیں اور پھر ان ایک ہزار درخواستوں میں سے ہم بہترین صلاحیت کے لوگوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ باصلاحیت لوگوں کا مطلب بہترین کام اور بہترین کام کا مطلب کمپنی کی کامیابی۔
چیف ایگزیکٹو کا ماننا تھا کہ چائنا کی ترقی کے پیچھے بنیادی طور پر وہاں کی ووکیشنل ایجوکیشن کا ہاتھ ہے۔ ہم سب دیکھتے ہیں کہ چائنا فنی اعتبار سے ساری دنیا کو پیچھے چھوڑ رہا ہے۔
ویسے بھی اگر دیکھا جائے تو ووکیشنل ٹریننگ حاصل کرنے والے افراد کا، کام کرنے کے حوالے سے رویہ زیادہ بہتر ہوتا ہے۔ وہ کسی بھی کام کو سر انجام دینے میں اپنی ہتک نہیں سمجھتے۔ جبکہ ماسٹرز یا ایم فل کرنے والا آدمی ایک آدھ مخصوص ملازمت کے علاوہ نوکری یا کام کرنا اپنی ہتک سمجھتا ہے۔
اگر ہم زرعی تعلیم کے حوالے سے بات کریں تو زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں ایگری کلچر کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اس تعلیم کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ فارغ التحصیل افراد توسیعی و تحقیقی خدمات کے علاوہ عملی زراعت کو اپنائیں، تاکہ وطن عزیز کی زراعت پڑھے لکھے اور پروفیشنل لوگوں کے ہاتھ میں آئے۔
ہم نے دو سال پہلے پنجاب کی تین زرعی یونیورسٹیوں کا ایک سروے کیا تھا، جس میں ایم ایس سی ایگری کلچر کرنے والے طلبا سے پوچھا گیا کہ کیا وہ ڈگری حاصل کرنے کے بعد کاشتکاری کو بطور پیشہ اپنائیں گے؟ 80 فیصد سے زائد طلبا نے یہ جواب دیا کہ وہ کاشتکاری بالکل نہیں کریں گے۔
زیادہ تر طالب علموں کا یہ کہنا تھا کہ اگر ہم اپنے گاؤں میں جا کر زراعت کرنا شروع کردیں گے تو گاؤں والے ہمیں جینے نہیں دیں گے۔ بہت سے طالب علموں کی سوچ یہ تھی کہ ان کے والدین ہی انہیں یہ کام کرنے نہیں دیں گے۔ والدین کہیں گے کہ اگر آپ نے کاشتکاری ہی کرنا تھی تو پھر زرعی یونیورسٹی جا کر چار چھ سال ضائع کرنے کی کیا ضرورت تھی، کیونکہ زراعت تو ایک ان پڑھ آدمی بھی کرسکتا ہے۔
البتہ ہمارا مشاہدہ ہے کہ ووکیشنل یا ٹیکنیکل ایجوکیشن حاصل کرنے والے طلبا اور والدین کے ہاں اس طرح کی سوچ بہت کم پائی جاتی ہے۔ اور ان کا محنت اور کام کی طرف رویہ زیادہ مثبت ہوتا ہے۔
میرے خیال میں جرمنی کا ووکیشنل ٹریننگ والا ماڈل، قابل تقلید ہے۔ پاکستان میں تجربہ کار لوگوں کی کمی نہیں ہے۔ ملکوں ملکوں گھومنے والے لوگ موجود ہیں، جن کی ٹیکنیکل اور ووکیشنل ایجوکیشن پر بڑی گہری نظر ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں ایک ایسا ووکیشنل ٹریننگ سسٹم قائم کیا جائے جو جرمنی کے نظام کی خوبیاں رکھنے کے ساتھ ساتھ پاکستانی مزاج کے ساتھ مطابقت بھی رکھتا ہو۔
ڈاکٹر شوکت علی بشکریہ ایکسپریس اخبار

لیبر ڈے اور ہم

$
0
0


ڈاکٹر محمد عقیل
لیبر کے حوالے سے ہمارے ہاں چند غلط تصورات پائے جاتے ہیں۔ پہلا تصور لیبر کو مزدور سمجھنا ہے۔ ہمارے ہاں لیبر سے مراد اینٹیں اٹھانے والامزدور ،نائی ، موچی یا ہاتھ سے کام کرنے والا کوئی شخص سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ اکنامکس میں لیبر سے مراد ہر وہ شخص ہے جو اپنی سروسز یعنی خدمات دے کر اس کے بدلے میں اجرت یا سیلری لیتا ہے۔

اس تعریف کے تحت ایک مینجر ، پائلٹ، ڈاکٹر، انجنئیر، استاد، فوجی،پولیس، کمشنر،وزیر سب شامل ہیں۔
دوسرا غلط تصور یہ ہے کہ مزدورکو صرف محنت کرنے والا ہونا چاہیے۔ بے شک مزدور کو محنت کرنا چاہیے لیکن لیبر کو کام بھی آنا چاہیے۔ایک پلمبر سارا دن ایک نل سے اپنی روکنے کی محنت کرتا رہے لیکن اسے کام ہی نہ آتا ہو تو محنت کس کام کی؟ اس کے علاوہ لیبر کا صحت مند ہونا ضروری ہے کیونکہ صحت کے بنا ایک ماہر استاد یا ڈاکٹر اپنی خدمات انجام نہیں دے سکتا۔ اسی کے ساتھ ساتھ لیبر کا دیانت دار ہونا بھی ضروری ہے کیونکہ ایک ماہر ترین ڈاکٹر بھی ہمارے لیے نقصان دہ ہے جو فراڈ کرکے مریضوں سے رقم بٹورے ۔ان تمام پروفیشنل اور اخلاقی خوبیوں کے حامل شخص کو اکنامکس کی اصطلاح میں ہیومن کیپٹل کہتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کا ہیومن کیپٹل انڈیکس میں ۱۳۴ نمبر ہے جو انڈیا ، سری لنکا، بنگلہ دیش حتی کے افغانستان سے بھی کم ہے۔
ہمارے بیشتر مسائل ان اسکلڈ ، غیر تربیت یافتہ اور اخلاقی اقدار سے عاری لیبرز کی وجہ سے ہیں۔ ہمارا ٹریفک کا نظام جدید ٹیکنالوجی سے نابلد ٹریفک پولیس کی کی بنا پر تباہ ہے، ہمارا تعلیمی نظام اساتذہ کی نااہلی یا ٹیوشن مافیا کی بنا پر تباہ حال ہے، ہماری نظام سیاست وزیروں اور مشیروں کی کی اپنے شعبے میں نااہلی یا عدم دلچسپی کی بنا پر زبوں حالی کا شکار ہے، ہمارا پانی کا مسئلہ واٹر بورڈ کے ملازمین کی کرپشن کی بنا پر ہے، ہمارے جرائم قانون نافذ کرنے والے اداروں میں مطلوبہ اسکلز یا اخلاقی معیار نہ ہونے کی بنا پر ہے وغیرہ۔
پاکستان میں لیبرز کا جی ڈی پی میں سب سے زیادہ کنٹری بیوشن ہے جو ساٹھ فی صد سے بھی زائد ہے ۔ اگر ہم اپنے لیبر میں وہ پروفیشنل اسکلز پیدا کردیں جو دنیا کو درکار ہیں ، وہ اخلاقی اچھائیاں پیدا کرلیں جو لازمی سمجھی جاتی ہیں،وہ صحت حاصل کرلیں جو بلا تعطل کام کرنے کے لیے ضروری ہے تو ہم پاکستان کے بے شمار مسائل حل کرسکتے ہیں۔اسی کے ساتھ ساتھ ہم وہ لیبر ایکسپورٹ کرسکتے ہیں جو اسکلڈ ہونے کی بنا پر زیادہ رقم کما سکتے اور قیمتی زر مبادلہ پاکستان بھیج سکتے ہیں۔ سنگاپور کے باہر کام کرنے والے لیبرز تعداد میں اوورسیز پاکستانیوں سے بہت کم ہیں لیکن ان کی ریمٹنسز ہم سے کہیں زیادہ ہیں اور فرق وہی ہے اوپر بیان کیا گیا ہے۔
یہ سب پڑھنے کے بعد ممکن ہے آپ اتفاق کرنے کے بعد کندھے اچکا کریہ کہہ دیں کہ یہ تو حکومت کے کرنے کا کام ہے ہم کیا کریں۔ ایسا نہیں۔ سب کچھ حکومت کا کام نہیں ہوتا، کچھ ہمارا کام بھی ہوتا ہے۔ اگر ہم دیکھیں تو ہم میں سے اکثر کسی نہ کسی جگہ اپنی سروسز دے رہے ہیں۔ اگر ہم بحیثیت لیبر اپنے اندر یہ پروفیشنل اور اخلاقی خصوصیات پیدا کرلیں اور اس کے مطابق کام کریں تو ہم اپنے اردگردچند کلومیٹر تک حالات بہتر کرسکتے ہیں۔ اور اگر اکثریت یہ کام کرنے لگ جائے تو ہر ایک کا چند کلومیٹر مل کر پورا پاکستان بن سکتا ہے۔

گناہ کا حقیقی تصور

$
0
0


گناہ سے بچنے کے لیے گناہ کو سمجھنا بہت ضروری ہے کہ گناہ کیا ہے؟ گناہ دراصل خدائی قوانین کی خلاف ورزی کا نام ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو خدائی قوانین کی کئی اقسام ہیں۔ ایک قسم مادی قوانین کی ہے جیسے کشش ثقل کا قانون۔ جو اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اونچی جگہ سے بلا سہاراچھلانگ لگائے گا تو اس کی سزا زخمی یا ہلاک ہونا لازمی ہے۔
دوسرے قوانین اخلاقی قوانین ہیں ۔ ان قوانین کا منبع ہماری فطرت یا ضمیر ہے۔ ان قوانین کی خلاف ورزی بھی گناہ ہے۔ جیسے چوری کرنا

، کسی پر ظلم کرنا ، جھوٹ بولنا، دھوکہ دینا وغیرہ۔ ان قوانین کی خلاف ورزی کی سزا بھی نافذ ہوتی ہے لیکن یہ سزا مادی قوانین کے برعکس فوری طور پر نظر نہیں آتی۔ مثال کے طور پر ایسا نہیں ہوتا کہ ایک شخص نے دھوکہ دیا اور اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔ اس کے برعکس یہ اخلاقی انحراف آہستہ آہستہ جمع ہوتے رہتے ہیں اور وقت آنے پر اس دنیا میں سزا مل جاتی ہے ۔ اور اگر اس دنیا میں یہ سزا پوری نہ ہو تو گناہ اس کی روحانی وجود کے ساتھ لگ کر اگلی دنیا میں منتقل ہوجاتے ہیں۔
تیسری قسم کے قوانین مذہبی قوانین ہیں۔ ان قوانین کا منبع مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے عقیدے اور شریعت ہوتی ہے۔ ان میں زیادہ ترتو اخلاقی قوانین ہی ہوتے ہیں جو مختلف انداز میں بیان ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ مذاہب کے عقائد اور ان کی د ی ہوئی شریعتوں کے احکامات ہوتے ہیں۔ جیسے مسلمانوں کوپانچ نمازوں کا حکم ہے، یہود کے ہاں سبت یعنی ہفتے کے دن کا احترام وغیرہ۔ ان قوانین کو دل سے درست مان لینے کے بعد ان سے انحراف بھی حقیقت میں خدا کے حکم سے انحراف کے زمرے میں آتا ہے۔ ان کی سزا کا معاملہ بھی اخلاقی قوانین ہی کی مانند ہے۔
گناہ کی ایک اور قسم اجتماعی معاملات سے متعلق انحراف ہے۔ اگر کوئی قوم اجتماعی طور پر کسی اخلاقی، مادی یا مذہبی قانون کی خلاف ورزی کرتی ہے تو اس کی سزا پوری قوم کو بھگتنا پڑتی ہے۔ مثال کے طور پر کوئی قوم نااہل لوگوں کو کسی ادارے میں بھرتی کرلیتی ہے تو اس کا خمیازہ ان سروسز کی بری کوالٹی کی صورت میں نمودار ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی قوم بحیثیت مجموعی کسی اخلاقی برائی کی مرتکب ٹہرتی ہے تو اس کا خمیازہ بھی قوم کو بھگتنا پڑتا ہے۔
خلاصہ یہ کہ گناہ سے مراد خدائی قوانین کی خلاف ورزی ہے ۔ یہ قوانین مادی ، اخلاقی، مذہبی اور اجتماعی قوانین ہیں ۔ ان قوانین کی سزا کا اپنا میکنزم ہے۔ البتہ عام طور پر گناہ سے مراد صرف مذہبی قوانین کی خلاف ورزی سمجھا جاتا ہے۔

Dr. Muhammad Aqil
ڈاکٹر محمد عقیل

توجہ کا اکرام

$
0
0


اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ نماز پڑھتے وقت ہماری توجہ نماز کی بجاۓ دوسری جانب مبذول ہو جاتی ہے. اس میں شیطانی وسوسوں کا بھی بڑا دخل ہے کہ ابلیس نے اللہ تعالیٰ سے انسان کو ورغلانے کاوعدہ کیا تھا.اور وہ آپ کا دھیان دوسری طرف مبذول کرانے میں کامیاب ہو جاتا ہے.

دوسری وجہ یہ کہ یہ ایک فطری عمل اورآپ کی اپنی کمزوری بھی ہے کہ جس طرف آپ کا دل و دماغ لگا ہوتا ہے. ظاہر ہے وہی چیزیں آپ کے دماغ پرمسلط ہوں گی اور دھیان اسی جانب جاۓ گا. حالانکہ آپ زبان سے تلاوت کر رہے ہیں مگر آپ کی توجہ اس طرف چلی جاتی ہے جو کام آپ نے کرنے ہوتے ہیں یا جو کام آپ نےابھی ختم کئے ہوتے ہیں اور سب سے بڑی چیز یہ کہ ہم دنیا میں اتنے منہمک ہیں کہ دنیاوی کاموں کواپنی اولین ترجیحات میں رکھا ہوتاہے اور اللہ تعالیٰ کی یاد اور اس کی عبادت آٹومیٹک ثانوی پوزیشن اختیار کرلیتی ہے. ہم زبانی طور پر اللہ تعالیٰ کی عبادت , تلاوت یا تسبیحات کر رہے ہوتے ہیں مگر دماغ دوسری طرف تیز رفتاری سےاپنے دنیاوی پراجیکٹ پر کام کررہا ہوتا ہے. جوں ہی آپ کی عبادت , تلاوت ,تسبیہات مکمل ہوئیں آپ کا دنیاوی پراجیکٹ بھی آٹو میٹک تکمیل کی حدود تک پہنچ چکا ہوتا ہے
آپ نے نوٹ کیا ہے کہ جب آپ ریڈیو سن رہے ہوں تو کہ آپ جس اسٹیشن کی نشریات سن رہے ہوں تو اس کے ساتھ والے اسٹیشن سےدھیمی انداز میں آٹومیٹک نشریات سنائی دے رہی ہوتی ہیں کیونکہ دوسرے اسٹیشن کی فریکوئینسی زیادہ طاقتور ہے اس لئے بیک وقت دو مختلف آوازیں سنائی دے رہی ہوتی ہیں انسانی سوچ اوراسکی فوقیت کا مسئلہ بھی ایسا ہی ہے کہ ہم زبان سے تلاوت کر رہے ہوتے ہیں رکوع و سجود کر رہے ہوتے ہیں مگر ہمارے دماغ میں وہ خیالات آتے ہیں. جو کام ہم ختم کرچکے ہوتے ہیں یا ہم کرنے والے ہوتے ہیں یا ہم ان چیزوں کے بارے میں سوچ رہے ہوتے ہیں اور وہ تمام منصوبے ہم نماز کی تکمیل ہونےتک مکمل کرلیتے ہیں. کیوں کہ ہمارا دماغ ریڈیو کی فریکوئینسی کی طرح دنیاوی مسائل کی طرف الجھا ہوا ہوتا ہے اور ہمارے مسائل ہماری تلاوت پر فوقیت پا جاتے ہیں
آپ کسی ویب سائٹ کو ٹائپ کریں اور وہ نقطہ لگانا بھول جائیں جو "ڈاٹ کام” کہلاتا ہے. آپ پوری کوشش کرتے رہیں مگر وہ ویب سائٹ کھل ہی نہیں سکتی جب تک آپ وہ نقطہ نہ لگائیں . یہی وہ نقطہ ہے جو اللہ اور بندے کے درمیان حائل ہےجسے ہم توجہ اور یکسوئی کہتے ہیں. اگر آپ کی نماز کے دوران اللہ کی یاد اور اسکی بندگی کی لگن اتنی طاقتور ہو کہ آپ کے دنیاوی مسائل پر ہاوی ہوجائے . تو یہی آپ کی کامیابی ہے .عبادت میں توجہ اور یکسوئی کا ہونا ہی اصل معراج ہے.
آپ گلاب کے پھول کو ہاتھ میں لیں اور اس کی خوبصورتی کو دیکھیں اور اس کو سونگھیں. اس کی خوبصورتی سے آپ لطف اندوز ہوں گے
اور اس کی خوشبو آپ کے دل و دماغ کو معطر کر دے گی. جس سے خوشی اور لذت حاصل ہو گی یہ گلاب کا پھول آپ کو کیوں اچھا لگا اور اس کی خوشبو سےآپ کس طرح محظوظ ہوئے. کیوں کہ آپ نے اس کو غور سے اور توجہ سے دیکھا اور سونگھا
آدھی رات، یا اس سے کچھ کم کر لو یا اس سے کچھ زیادہ بڑھا دو، اور قرآن کو خوب ٹھیر ٹھیر کر پڑھو. المزمل 73:3,4
اپنی نمازوں کی نگہداشت رکھو، خصوصاً ایسی نماز کی جو محاسن صلوٰۃ کی جا مع ہو اللہ کے آگے اس طرح کھڑے ہو، جیسے فر ماں بردار غلام کھڑ ے ہوتے ہیں. البقرہ 2:238
اس سے کہیں زیادہ تسکین آپ کو اس وقت حاصل ہوگی جب آپ نماز میں تلاوت کو اس انداز اور توجہ سے کر رہے ہوں کہ جیسے اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہیں اور اللہ آپ کودیکھ رہا ہے یہ وہ عمل ہے جو آپ کے دل و دماغ میں سرائیت کر جائے گااس عمل کا کوئی پیمانہ نہیں صرف توجہ اور یکسوئی درکار ہے. آپ دیکھیں گے کہ آپ کی عبادت اور عمل قبولیت کے اس درجے کےقریب سے قریب تر ہوتا جائے گا.اور رب ذوالجلال کی طرف توجہ مرکوز کرلیں تو ہم اس اجر عظیم کے حقدار بن جائیں گے جس کا اس نے ہم سے وعدہ کیا ہے
اور اے نبیؐ، میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں، تو اُنہیں بتا دو کہ میں ان سے قریب ہی ہوں پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے، میں اُس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں لہٰذا انہیں چاہیے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں یہ بات تم اُنہیں سنا
دو، شاید کہ وہ راہ راست پالیں. البقرہ 2:186
ترتیب وتالیف: عبدالرشید خان
ورجینیا امریکہ

قاری قرآن اور حکمت

$
0
0


عبدالرشید خان

قرآن مجید کی تلاوت کے ثواب کے ضمن میں درج ذیل آیت کا حوالہ اکثر دیا جاتا ہے:
"اور قرآن کو خوب ٹھہر ٹھہر کرپڑھو. اب جتنا قرآن آسانی سے پڑھ سکتے ہو پڑھ لیا کرو۔”المزمل:73:4,20
اللہ تعالیٰ کی طرف سے کتاب حکمت اور ضابطہ حیات، قرآن کی صورت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے توسط سے نسل انسانی کی ہدایت کے لیے بھیجا گیا-بہت سے لوگ تو اسے پڑھنا ہی نہیں جانتےمگر ایک بہت بڑی تعداد جو قرآن پڑھتی ہے وہ صرف اور صرف ثواب کی نیت سے قرآن پڑھتے ہیں اور ثواب ہی حاصل کرنا مقصودہوتا ہے ۔ یہ اگرچہ مستحسن ہے لیکن اصل مقصد ہدایت کا حصول ہے۔بہت کم لوگ ہیں جو ترجمہ کے ساتھ قرآن کی تلاوت کرتے ہوں گے ۔سب سے افضل طریقہ یہ ہے کہ قرآن کو سمجھ کر پڑھا جائے، اس سے ہدایت حاصل کی جائے اور پھر اس پر عمل کرنے کی پوری سعی کی جائے۔یہی اللہ تعالیٰ کوبھی مقصود ہے۔
ارشاد ِ ربانی ہے:
"یہ اس کتاب کی آیات ہیں جو حکمت و دانش سے لبریز ہیں۔” یونس 10:01

Viewing all 320 articles
Browse latest View live