بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
ڈاکٹر محمد عقیل
یہ کائنا ت مادی قوانین میں جکڑی ہوئی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان قوانین کو کس نے بنایا اور کس نے اس پر عمل کروایا؟ کس نے ہائیڈروجن اور آکسیجن کے مخصوص ملاپ سے پانی پیدا کیا اور کس نے پانی میں پیاس کو بجھانے کی خاصیت پیدا کی؟ عقلیت پسند اسے نیچر اور مذہبی لوگ اسے خدا کہتے ہیں۔
ظاہر ہے نیچر ہی نیچر کو کنٹرول نہیں کرسکتی اور اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی سپر کائناتی شعور موجود ہونا لازمی ہے چنانچہ ان قوانین کے پیچھے خدا لازمی طور پر موجود ہوتا ہے ۔
سوال یہ ہے کہ خدا رینڈم کام کرتا ہے یا منظم طریقے سے کام کرتا ہے۔ہم جب کائنات بالخصوص مادی کائنات کا مشاہدہ کرتے ہیں تو خدا ایک بے پناہ حکمت رکھنے کے ساتھ ساتھ ایک نہایت ہی قانون پسند ہستی کے روپ میں سامنے آتا ہے۔ وہ کہکشاؤں کی میکرو دنیا سے لے کر ایٹم کی مائکرو ورلڈ تک بے انتہا منظم اور اپنے ہی بنائے ہوئے قانون کو ماننے والا اور اسی کے مطابق عمل کرنے والا خدا ہے۔ گوکہ وہ اس پر قاد ر ہے سورج کو مغرب سے نکال دے لیکن وہ ایسا نہیں کرتا، وہ قادر ہے اپنے بادلوں کے بنا بارش برسادے لیکن وہ اس سے گریز کرتا ہے، وہ قادر ہے کہ آگ کو جلانے سے روک دے لیکن وہ بالعموم ایسا نہیں کرتا۔
ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مادی معاملات میں تو خدا قوانین کی پاسداری کرتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ لیکن کیا غیر مادی معاملات جیسےروحانیت، دعا، اخلاقیا ت وغیرہ میں بھی خدا نے قوانین بنائے ہوئے ہیں اور وہ ان کی پاسداری اسی طرح کرتا ہے؟ اس کا جواب ہاں میں ہے۔
ان غیر مادی قوانین میں سب سے اہم قانون مکافات عمل یا نیچر کے رد عمل کا قانون ہے۔ یعنی جیسا کروگے ویسا بھروگے۔ یہ قانون نیچر کے مادی قانون ہی کی طرح روبہ عمل ہے۔ اس قانون کی بنیادیں دنیا کے ہر مذہب میں موجود ہیں اور اس کا تجربہ و مشاہد ہ ہر انسان خود کرسکتا ہے۔ البتہ یہ قانون بعض اوقات اپنے روبہ عمل ہونے میں بہت وقت لیتا ہے یا بسا اوقات اس میں کچھ اور عوامل شامل ہوجاتے ہیں اس لیے لوگ عام طور پر نیچر کے رد عمل کو سمجھ نہیں پاتے۔
اسے ایک مثال سے سمجھتے ہیں۔ ایک شخص ساری زندگی چکنائی سے بھرپور غذا کا استعمال کرتا ہے اور چکنائی یعنی کولسٹرول اس کی شریانوں میں جمع ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ اچانک ایک دن شریانیں بلاک ہوجاتی ہیں اور خون کا بہاؤ ممکن نہیں رہتا ۔ اس کے بعد ہارٹ اٹیک آتا ہے۔ اب ایک عام ذہن کا شخص ہسپتا ل میں بیٹھ کر یہ سوچے گا کہ میں تو کل، پرسوں یا پورے ہفتے کوئی چکنی چیز نہیں کھائی تھی ، پھر کیوں اٹیک آیا؟ حالانکہ یہ ایک دن کی چکنائی نہیں بلکہ برسوں کی جمع شدہ چربی ہے جس کا اثر آج ظاہر ہوا۔
اسی مثال کو اخلاقیات پر لاگو کرتے ہیں۔ ایک شخص ساری زندگی جھوٹ بولتا، بددیانتی کرتا، جنسی جرائم کا ارتکاب کرتا رہا اور اپنے باطنی وجود کو آلودہ کرتا رہا۔ یہ قدرت کے راستے سے ویسا ہی انحراف ہے جیسے صحت کے اصول کی خلاف ورزی کرنا۔یہ وہ بد اخلاقی یا گناہ کی سیاہ چربی ہے جس سے وہ اپنے باطنی وجود کو داغ دار کررہا ہے۔ اس کا اثر اسے اسی دنیا میں نظر آسکتا ہے۔ لیکن جس طرح ہم یہ نہیں جانتے کہ چکنائی کھانے کا رد عمل نیچر ہارٹ اٹیک، بلڈ پریشر، شوگر، فالج یا کسی اور انداز میں دیگی، اسی طرح اس اخلاقی معاملے ک خلاف ورزی پر نیچر کا ردعمل کیا ہوگا ، یہ ہم قطعی طور پر نہیں جانتے۔
ایک سوال یہ ہے کہ کیا اخلاقی گناہوں کی سزا لازمی طور پر اس دنیا میں ملے گی تو جواب ہے ضروری نہیں۔ نیچر کا رد عمل اس دنیا میں سامنے آتا ہے لیکن عین ممکن ہے اس رد عمل سے پہلے اس کی موت واقع ہوجائے تو اس کے اچھے اور برے عمل کا نتیجہ مرنے کے بعد کی دنیا میں ظاہر ہوگا ۔
پھر سوال یہ ہے کہ اگر سب کچھ نیچر ہی کررہی ہے تو خدا کا کیا کام؟یہ وہی ایک منطقی مغالطہ ہے جس میں ظاہر پرست لوگ پڑ جاتے ہیں۔ جس طرح سورج کو مشرق سے خدا ہی نکالتا اور مغرب میں وہ ہی غروب کرتا ہے، جس طر ح خدا ہی بادلوں سے بارش برساتا ہے اسی طرح خدا ہی مکافات عمل کا قانون بھی روبہ عمل کرتا ہے۔ جس طرح سورج ، چاند ، ستارے اوردیگر نیچر کے مظاہر کے پیچھے اس کی خفیہ کائناتی قوتیں جیسے ڈارک میٹر، ڈارک انرجی اور فرشتے ہوتے ہیں اسی طرح غیر مادی قوانین کے پیچھے بھی یہی میٹر اور یہی فرشتے کارفرما ہوتے ہیں۔ سورہ کہف میں حضرت خضر اور موسی علیہم السلام کا قصہ ایک دلیل ہے۔ یعنی اس نیچر کو رد عمل کا اذن خدا ہی نے دیا ہے ، کسی اور نے نہیں۔
ایک اور سوال یہ ہے کہ آیا خدا اس مکافات عمل کے قانون میں مداخلت کرسکتا ہے؟ جی بالکل کرسکتا ہے لیکن ایسا بہت کم ہوتا ہے کیونکہ خدا اپنے قوانین کی خلاف ورزی بالعموم نہیں کرتا ہے۔ اور اگر کرتا بھی ہے تو اپنی حکمت اور خواہش کے تحت کرتا ہے، کسی دوسرے کی خواہش کے تحت نہیں۔
ایک اور سوال یہ کہ آیا اخلاقی گناہ یا انحراف کی کوئی معافی یا مغفرت ہے؟اسے بھی ہم نیچر سے سمجھتے ہیں۔ ایک شخص جو چکنائی کا استعمال کرتا رہا، اسے اچانک ہلکا سے درد محسوس ہوتا ہے۔ چیک اپ کے بعد علم ہوا کہ کچھ شریانیں بلاک ہیں لیکن ان کا علاج دوا سے ممکن ہے۔ اب اس نے دو کام کرنے ہیں ، ایک تو چکنائی کا استعمال نہیں کرنا یعنی چکنائی سے پرہیز جسے مذہبی اصطلاح میں توبہ کہتے ہیں۔ لیکن کیا محض اس ارادے سے اور منہ سے توبہ توبہ کرنے سے اس کی جمع شدہ چکنائی ختم ہوجائے گی؟ نہیں ۔ تو اسے ختم کرنے کے لیے وہ دوا کا استعمال کرتا اور واک شروع کرتا ہے، اسے مذہبی اصطلاح میں اصلاح کہا جاتا ہے۔
مغفرت کا یہ قانون اخلاقی و سماجی گناہوں پر بھی لاگو ہے خوا ہ یہ انفرادی ہو یا اجتماعی۔ ایک شخص ساری زندگی لوگوں پر ظلم و زیادتی کرتا رہا اور ان کے دل دکھاتا رہا جس پر قدرت نے اپنا ری ایکشن دکھانا شروع کیا۔اسے احساس ہوگیا۔ لیکن محض احساس ہونا کافی نہیں بلکہ اس کا ممکنہ ازالہ بھی ضروری ہے۔
سوال ایک اور یہ ہے کہ آیا گناہ تو مٹادیے جاتے ہیں خواہ وہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں؟ بے شک خدا اس پر قادر ہے لیکن اگر ہم خدا کی سنتوں کو دیکھیں تو وہ انصاف پسند بھی ہے اور قانون پسند بھی۔ وہ عمومی طور پر اپنے بنائے ہوئے قانون کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ چنانچہ اگر کوئی معافی کا امکان ہے تو اس کے بنائے قانون کے مطابق ہی ہے، ہماری اندھی خواہشات کے تحت نہیں۔
مغفرت کا مطلب بخش دینا نہیں بلکہ ڈھانپ لینا یا چھپا لینا ہے۔ چنانچہ جب بندہ صدق دل سے توبہ کرلیتا ہے اور خدا بھی اس توبہ کو قبول کرلیتا ہے تو اب قانون مکافات عمل کے تحت اس اخلاقی انحراف کا اثر سامنے تو آئے گا البتہ توبہ کی قبولیت کے بعد اللہ اس شخص کو مکافات عمل یا نیچر کے رد عمل سے ہونے والے ممکنہ نقصان سے اسے محفوظ کرلیتا یا نقصان کم سے کم کردیتا یا اس رد عمل کو کسی اور رخ پر موڑ دیتا ہے۔
مثال کے طور پر ایک کاروباری شخص برسوں ملاوٹ شدہ دودھ بیچتا رہا۔ بعد میں اسے پچھتاواہوا اور اس نے صدق دل سے توبہ کی۔ اب جن لوگوں کو ملاوٹ زدہ اشیاء بیچیں ، ان کے نقصان کی تلافی اس کے لیے عملی طور پر ممکن نہیں۔لیکن اس میں بھی کوئی شک نہِیں کہ وہ ان کی صحت اور مال کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا چکا ہے۔ اب قانون مکافات عمل یا نیچر کا رد عمل ظاہر ہوتا ہے۔ نیچر بھی اسے بدلے میں مالی و جسمانی نقصان پہنچانا چاہتی ہے۔ اب اگر وہ اپنے مال سے کثرت سے صدقہ کرے اور ندامت کے آنسو بہا کر اس تکلیف کو محسوس کرے جو اس نے دوسروں کو پہنچائی تو یہ وہ عمل ہے جس کے ذریعے وہ خود سے نیچر کو بیلنس کررہا ہے۔ دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ نیچر جب رد عمل میں اس کی صحت یا مال کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے تو عین ممکن ہے خدا اسے کچھ قابل برداشت بیماریوں میں مبتلا کردے جو اس کے گناہوں کا کفارہ بن جائیں یا اسے ایسا مالی نقصان پہنچادے جو اس کے لیے قابل برداشت ہو۔ یہ توبہ و مغفرت کا قانون ہے۔ گویا توبہ سے فائدہ یہ ہوا کہ نیچر کے اندھے رد عمل سے جو نقصان ہونا تھا وہ اب خدا کی نگرانی میں نسبتا عافیت سے ہورہا ہے۔
مکافات عمل یا نیچر کے رد عمل کے حوالے ایک سوال یہ بھی ہے کہ آیا اس شخص کے ساتھ من و عن ویسا ہی ہوگا جیسا اس نے کیا؟ ایسا لازمی نہیں۔نیچر کے بیلنس کرنے کا اپنا ایک انداز ہے جس میں وہ دیگر عوامل کو بھی ملحوظ خاطر رکھتی ہے۔ اس لیے ممکن ہے اگر اس نے کسی کا بے دردی سے قتل کیا ہو تو وہ بھی کسی کے ہاتھوں بے دردی سے قتل ہو اور ممکن ہے نیچر اس کے اس فعل کو کسی اور طرح بیلنس کرے یا قیامت تک موخر کردے۔
ایک اور اہم سوال یہ کہ کیا انسان نیچر کے اچھے یا برے ردعمل کا شکار صرف اسی وقت ہوگا جب اس نے خود کوئی عمل کیا ہوگا؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔ بعض اوقات ماں باپ کے اچھے یا برے اعمال کو بچوں کو بھگتنا ہوتا ہے۔ جس طرح وراثت میں اگر ماں باپ جائداد چھوڑ کر مریں تو اس کی وراثت بچوں کو منتقل ہوتی ہے اور اگر وہ قرض چھوڑ کر مریں تو ورثا کو قرض ادا کرنا ہوتا ہے۔ اسی طرح کسی نسل میں کوئی جینٹک بیماری ہو تو اس کو بھی اس نسل کو بھگتنا ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح ماں باپ کوئی اچھے اعمال کرکے دنیا سے رخصت ہوئے تو اس کا اثر بچوں تک بھی آسکتا ہے۔ جیسے حضرت خضر علیہ السلام کے واقعے میں حضرت خضر نے گرتی ہوئی دیوار اس لیے تعمیر کردی کہ اس کے نیچے دو یتیموں کا خزانہ دفن تھا جو ان کے والد چھوڑ کر فوت ہوئے تھے اور چونکہ والد نیک انسان تھے اس لیے ان کے بچوں کو یہ امانت منتقل کرنے کی تدبیر کی گئی۔
اس کے علاوہ اجتماعی معاملات میں بھی پوری قوم یا گروہ کو مکافات عمل کی چکی سے گذرنا پڑتا ہے۔ اگر کرتا دھرتا لوگوں نے اچھے کام کیے تو اس کا ثمر سب کو اچھائی کی شکل میں ملے گا اور اگر برے کام کیے تو اس پھل اسی صورت میں ملے گا۔
ایک اور سوا ل یہ کہ کیا مکافا ت عمل کے بعد آخرت کا تصور ختم ہوجاتا ہے تو جواب ہے نہیں۔ دنیا میں مکافات عمل ادھورا ہے اور اندھے بیلنس کے اصول پر مبنی ہے۔ نیچر کا رد عمل یہ نہیں دیکھتا ہے کہ غلط فیصلہ تو وزیر اعظم نے کیا تو عوام کو کیوں بھگتنا پڑے، یا بیماری تو جینز میں صدیوں سے چلی آرہی تھی تو اس بچے کو کینسر کیوں ہو جس کا کوئی قصور نہیں۔ یہ مکافات عمل یا نیچر کا رد عمل آگ کی مانند ہے جو قانون کے تحت آگ کے استعمال سے فائدہ بھی دیتا ہے اور خلاف ورزی پر جلا بھی دیتا ہے۔ جلاتے وقت یہ اس بات کا خیال نہیں رکھتا کہ جلنے والا بچہ ہے، معذور ہے، کمزور ہے، لاچار ہے یا مجبور۔ اسے تو بس اپنا کام کرنا ہے۔
آخری سوال یہ ہے کہ جو کچھ بھی اچھا اور برا ہمارے ساتھ ہوتا ہے کیا وہ صرف ہمارے اعمال کی وجہ سے ہوتا ہے تو اس کا جواب ہے نہیں۔ اجتماعی معاملات میں لیڈروں کا کیا قوم بھگتتی ہے بے شک انہوں نے وہ لیڈر منتخب نہ کیے ہوں۔ فیملی کے امور میں والدین او ر بزرگوں کے فیصلے اور اعمال کا نتیجہ ہم بھگتتے ہیں۔ اور بعض اوقات ہمارے ساتھ پیش آنے والا معاملہ آسمان سے نازل ہوتا ہے جسے ہم آزمائش ، امتحان یا ٹریننگ کہتے ہیں۔ البتہ ہماری زندگی میں پیش آنے والے معاملات کا کم و بیش ساٹھ ستر فی صد تو ہم خود ذمہ دار ہوتے اور اپنے ہی کیے کا پھل کھاتے ہیں۔
ہم سب اس دنیا میں نیچر کے تحت زندہ رہنے پر مجبور ہیں۔ کشش ثقل کے خلاف احتجاج کرنے اور اس سے انکار کرنے سے کوئی فائدہ تو نہیں ہوگا البتہ ہم اس کی خلاف ورزی پر ٹانگیں ضرور تڑوابیٹھیں گے۔ بالکل ایسے ہی نیچر کے رد عمل کے قانون کا انکار کرنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ اس کے مطابق ہی ہمیں خود کو ایڈجسٹ کرنا ہوگا، مادی معاملات میں بھی اور غیر مادی واخلاقی امور میں بھی۔یہی انفرادی زندگی کی کامیابی کاراز ہے انفرادی زندگی کی کامیابی کا بھی۔ اور یہی نیچر کا بیلنس عدل و انصاف کے بھرپور تقاضو ں کے مطابق اس علیم و حکیم خدا کی براہ راست نگرانی میں موت کے بعد کی زندگی میں مکمل ہوجائے گا۔
ھذا ماعندی والعلم عنداللہ