ہماری سوسائٹی میں شب برات پر دو مکاتب فکر ہیں۔ ایک گروہ یہ کہتا ہے کہ شب برات نجات کی رات ہے، اس رات لوگوں کے نامہ اعمال اللہ کے حضور پیش ہوتے ، ان کی تقدیر کا فیصلہ کیا جاتا، ان کے جینے مرنے کا تعین ہوتا ، لوگوں کو جہنم سے آزادی دی جاتی ہے۔ چنانچہ اس رات کی عبادت بہت افضل ہے اور اس رات قبرستان جانا چاہئے اور نوافل و اذکار کثرت سے کرنے چاہئیں اور اگلے دن روزہ رکھنا چاہیے ۔ان کے نزدیک یہ سب سنت سے ثابت ہے
۔
دوسرا گروہ اس رات کی مذہبی حیثیت کو چلینج کرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس رات کی کوئی حیثیت نہیں۔ اس رات کی بنیاد ضعیف احادیث پر ہے اور اس کے فضائل مستند نہیں۔ چنانچہ یہ گروہ اس رات کو بااہتمام منانے اور اجتماع کرنے کو سنت کی بجائے بدعت مانتا اور اس کے تمام فضائل کو باطل قرار دیتا ہے۔
ہمیں یہ جائزہ لیتے رہنا چاہیے کہ درست علم کیا ہے؟ اس معاملے میں اپنے فرقے یا مکتب فکر کے علما ء پر ہی تکیہ کرنے کی بجائے نیوٹرل انداز میں مطالعہ کرنا ضروری ہے۔ شب برات پر جتنا بھی مواد پیش کیا جاتا ہے وہ سب کا سب روایات پر مبنی ہے۔ صرف ایک آیت قرآن کی پیش کیا جاتی ہے جو سورہ الدخان کی ہے۔ وہ یہ ہے:
کہ ہم نے اس (قرآن کو) خیرو برکت والی رات میں نازل کیاہے کیونکہ ہمیں بلاشبہ اس سے ڈرانا مقصود تھا۔اس رات ہمارے حکم سے ہر معاملہ کا حکیمانہ فیصلہ کردیا جاتا ہے۔ (سورہ الدخان آیات ۴۳،۴۴)
یہاں صاف واضح ہے کہ یہ شب برات سے متعلق آیات نہیں کیونکہ شب بارات میں قرآن نازل نہیں ہوا تھا ، یہ شب قدر میں نازل ہونا شروع ہوا تھا۔ اس لیے جس رات میں ہر معاملے کا حکیمانہ فیصلہ کیا جاتا ہے وہ شب برات نہیں شب قدر ہے۔
اس کے علاوہ شب برات والی رات کو جاگنا، قبرستان جانا، اگلے دن روزہ رکھنا، اسے نجات والی رات سمجھنا وہ امور ہیں جن کی توثیق ضعیف روایات کی بنیاد پر ہے۔ لیکن ایک مسئلہ یہ ہے کہ فقہ احناف جس میں دیوبندی اور بریلوی شامل ہیں ، ضعیف احادیث کو فضائل یا نفل عبادات کے لیے بالعموم قابل قبول سمجھتے ہیں جبکہ اہل حدیث یا سلفی فکر کے لوگ اسے ناقابل قبول سمجھتے ہیں۔ یہ دونوں مکاتب فکر دو انتہاؤں پر کھڑے ہیں اور اس موقع پر ایک دوسرے کو غلط ثابت کرنے کے لیے بعض اوقات اخلاقی حدود بھی پامال کر بیٹھتے ہیں۔ اس کھینچا تانی میں عوام ایک کنفیوژ ن کا شکار رہتے ہیں کہ کیا کیا جائے اور کیا نہ کیا جائے؟
اس کنفیوژن سے بچنے کے لیے ایک تیسرا نقطہ نظر بھی ہے جو غیر معروف لیکن حقیقت سے قریب تر ہے۔ اس مکتبہ فکر کے نزدیک جو چیزیں دین میں مباح یعنی جائز ہیں وہ سب کی سب اس رات میں جائز رہیں گی اور جو چیزیں ناجائز ہیں وہ اس رات کی بنا پر جائز نہیں ہوجائیں گی۔ چنانچہ اگر کوئی شخص اس رات کو عبادت کرتا، نفل پڑھتا، قرآن کی تلاوت کرتا، ذکرو اذکار کرتا یا اور کوئی نیک عمل کرتا ہے اور اس کا مقصد خالص اللہ کی رضا ہے تو اسے کسی طور اس بنا پر ناجائز قرار نہیں دیا جاسکتا کہ یہ شعبان کی مخصوص رات کو یہ کام ہورہا ہے۔
دوسری جانب لاؤڈ اسپیکر پر نعتیں پڑھ کر لوگوں کی نیندیں حرام کرنا، پٹاخے اور آتش بازی سے پڑوسیوں کا سکون غارت کرنا، روحوں کو حاضر کروانا، مزارات پر سجدہ کرنا ، قبروں میں چلہ کشی کرناکسی بھی رات میں جائز نہیں تو اس رات میں کیونکر جائز ہوسکتا ہے؟