Quantcast
Channel: ڈاکٹر محمد عقیل کا بلاگ
Viewing all articles
Browse latest Browse all 326

زینب کا قتل اور خدا پر سوالات

$
0
0


بسم اللہ االرحمٰن الرحیم
ڈاکٹر محمد عقیل
معصوم زینب کی شہادت پر اس وقت پورا الیکٹرانک اور سوشل میڈیا سراپا احتجاج اور غم و غصے کی کیفیت میں ہے۔ اس پر اہل علم بہت کچھ لکھ چکے اور لکھ رہے ہیں۔ اس کا ایک اور دردناک پہلو یہ ہے کہ کچھ لوگ خدا کے انصاف اور مذہب کو نشانہ بنارہے اور طنزو تشنیع کے تیر برسا رہے ہیں۔ ان میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو سنجیدہ طور پر خدا کی حکمت اور مذہب کی راہنمائی کو جاننا چاہتے ہیں۔ مجھے خود کئی سوال براہ راست اور بلاواسطہ اس موضوع پر مل چکے ہیں جن کا ایک تحریر میں جواب دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ اس صورت حال کا جائزہ جذبات سے بالاتر ہوکرعقل اور نقل کی روشنی میں لینا لازمی ہے ورنہ حقیقت

تک رسائی مشکل ہے۔ یہ چند سوال و جواب اسی حقیقت تک پہنچنے کی ایک کاوش ہیں ۔

سوال : یہ کیسا انصاف ہے کہ ایک معصوم بچی کو اس بہیمانہ طریقے سے جنسی زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کردیا گیا؟ خدا نے ان ظالموں کے ہاتھ کیوں نہیں روکے؟
جواب : یہ دنیا جزا و سزا کے اصول پر نہیں بلکہ امتحان اور آزمائش کے اصول پر بنی ہے۔ یہاں جس طرح اچھے لوگوں کو اچھائی کرنے کا اختیار ہے، اسی طرح برے لوگوں کو برائی کرنے کا اختیار ہے۔یہ اختیار ہی اس امتحان و آزمائش کی بنیاد ہے۔ اسی اختیار پر فرشتوں نے اعتراض کیا تھا کہ اگر انسان کو بااختیار بنا کر بھیجا گیا تو یہ خون خرابہ کرے گا۔
سوال: یہ امتحان کیوں ہے؟ ہم نے تو خدا سے نہیں کہا تھا وہ دنیا میں بھیجے؟ کیوں ہمیں اس بھٹی میں زبردستی جھونک دیا گیا ؟
جواب : یہ آزمائش زبردستی کی نہیں۔ آج اگر کسی کو زبردستی پکڑ کر امتحان میں بٹھادیا جائے اور اس سے کہا جائے کہ یہ پرچہ حل کرو توانعام ملے گا ورنہ آگ میں ڈالے جاو گے۔ تو امتحان میں زبردستی بٹھانے والا شخص ایک ظالم اور نامعقول شخص کہلائے گا۔ خدا نے انسان کو اس آزمائش میں جھونکنے سے پہلے اس کی رضامندی پوچھی تھی۔ اس کا ذکر سورہ احزاب میں موجود ہے:
ہم نے [ارادہ و اختیار کی یہ ] امانت آسمانوں پر زمین اور پہاڑوں کو پیش کی لیکن سب نے اس کے اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس سے ڈر گئے ( مگر ) انسان نے اسےاٹھا لیا ، وہ بڑا ہی ظالم جاہل ہے [ کہ وہ جانتا نہیں اس نے کیا اٹھالیا لیا ہے] ۔
سوال: جناب یہ سب باتیں تو ہمِیں یاد نہیں؟ اگر ایسا ہوتا تو ہمیں سب کچھ یاد ہوتا تب تو آپ کی بات درست تھی؟
جواب: جس طرح امتحان سے قبل تمام کاپیاں ، کتابیں او ر نوٹس لے لیے جاتے ہیں، بالکل ایسے ہی ہماری اس یادداشت کو محو کردیا گیا ہے جو عالم ارواح میں بنی تھی۔
سوال : یہ سب باتیں چھوڑیں، آپ یہ بتائیں کہ اگر بچی کے ساتھ زیادتی ہوہی گئی تھی تو ظالموں پر اسی وقت خدا کا عذاب کیوں نہ آیا؟ کیوں آسمان سے بجلی نہ کوندی؟ کیوں زمین شق نہ ہوئی ؟اور کیوں خدا کا فرشہ قہر نازل کرنے کے لیے نہیں اترا؟
جواب: یہ دنیا جن قوانین پر بنی ہے ان میں سے کچھ طبعی قوانین ہیں اور کچھ اخلاقی قوانین۔ دونوں کی خلاف ورزی پر سزا ملتی ہے۔ ایک شخص اونچی عمارت سے چھلانگ لگادے تو وہ کشش ثقل کی بنا فورا ہلاک یا زخمی ہوجائے گا۔ اسی طرح کوئی شخص جنسی زیادتی جیسا ظلم کرتا ہے تو اسے بھی اس کا بدلہ ملے گا۔ البتہ اخلاقی قوانین کی خلاف ورزی کا نتیجہ فورا نہیں بلکہ تدریج کے ساتھ ہوتا ہے۔ اگرفورا ہوتا تو ہم میں سے کوئی بھی آج شاید زندہ نہ ہوتا۔ نیز اگر گناہوں کا اثر فورا ہونے لگ جائے تو آزمائش کا اصول متاثر ہوگا۔
سوال : ارے جناب، آپ تو عجیب بات کرتے ہیں۔ اچھا تو کیا ان قاتلوں کو عذاب دینے کے لیے قیامت تک کا انتظار کرنا ہوگا؟
جواب: یہ ایک غلط فہمی ہے کہ خدا چودہ سوسال پہلے صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں نمودار ہوا اور اتمام حجت کرکے دوبارہ کائنات سے لاتعلق ہوکر بیٹھ گیا ہے۔ خدا نہ صرف اجتماعی بلکہ انفرادی معاملات پر نظر رکھتا اور اپنی تدبیر یں اسباب و علل کے پردے میں ظاہر کرتا رہتا ہے۔ اگر ہمارا قانون اور سماجی نظام اتنا طاقت ور اور فعال ہو تو ہم یقینا ان ظالموں کو اسی دنیا میں عبرتناک عذاب کی پہلی قسط دےسکتے ہیں۔ اور اگر خدا نے اسی دنیا میں انہیں عذاب دیا تو وہ اسباب و علل ہی کے تحت ہوگا اور اپنےو قت پر ہوگا اور ضروری نہیں یہ دنیا وی عذاب دیکھنے والوں کو دکھائی بھی دے۔ البتہ اصل عذاب تو دوسری دنیا ہی میں ممکن ہے۔
سوال: آپ ہر بار مولوی بن کر آخرت کی بات ہی کیوں کرتے ہیں؟
جواب : ظاہر ہے اگر ہٹلر لاکھوں لوگوں کو قتل کرنے کے بعد خاموشی سے ایک مرتبہ پھانسی پر چڑھادیا جائے تو یہ کیسا انصاف ؟ اصل انصاف تو یہ ہے کہ اسے بھی لاکھوں بار پھانسی پر چڑھایا جائے اور اسی اذیت سے گذارا جائے جس سے مرنے والے اور ان کے اہل خانہ گذرے۔ ایسا اس دنیا میں ممکن نہیں اسی لیے آخرت ضروری ہے۔
سوال: چلیں یہ باتیں تو ٹھیک ہیں۔ اگر ظالموں کو دنیا میں یا آخرت میں عذاب مل بھی گیا تو اس سے کیا ہوگا؟ زینب تو دنیا سے چلی گئی۔ اس پر اور اس کے ماں باپ پر جو بیتی کیا ہونے والا عذاب اس کا مداوا کرے گا؟ یہ کیسا انصاف ہے خدا کا ؟
جواب : اس دنیا میں کسی کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے تو دنیا والے کیا کرتے ہیں؟ وہ اس مظلوم سے پوچھتے ہیں کہ تمہیں کیا چاہیے۔ مظلوم جس بات پر راضی ہوجائے، وہ اسے دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی اصو ل کو آخرت میں بھی اپلائی کردیجے۔ جب زینب اور اس گھر والے خدا کے حضور پہنچیں گے اور ظالموں کو ظلم کا بدلہ دے دیا جائے گا تو پھر زینب سے پوچھا جائے گا کہ وہ کیا چاہتی ہے۔ وہ جو چاہے گی خدا اپنی حکمت کے تحت اس طرح دے گا کہ وہ اور اس کے گھر والے راضی ہوجائیں گے۔۔ جب وہ سب راضی ہوجائیں گے تو پھر اعتراض کس بات کا؟
سوال: حضرت، آپ کے جوابات تو مجھے لفاظی ہی معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن بہرحال میرے پاس کوئی جواب نہیں ان باتوں کا۔ لیکن یہ بتائیے کہ اس واقعے میں اصل سبق کیا ہے؟
جواب : خدا کامل خیر ہے۔ اس سے شر کا ظہور نہیں ہوتا۔ حضرت خضر علیہ السلام کا واقعہ اسی سلسلے کی کڑی ہے جہاں خدا نے تین مختلف افراد کے ساتھ مختلف معاملہ کیا۔ دیکھا جائے تو کشتی کا توڑ دینا، بچے کو قتل کردینا بظاہر ایک شر معلوم ہوتا تھا۔ لیکن اس میں جو خیر تھا وہ صرف اللہ ہی کو معلوم تھا۔
یہ واقعہ دراصل صرف زینب اور س کے قاتلوں ہی کی نہیں میری ، آپ کی، میڈیا ، حکومت، فیملی کی تربیت، حفاظتی نظام ، ایجوکیشن سب کی آزمائش ہے۔ آپ غور کریں تو علم ہوگا کہ اس قسم کے بیسیوں واقعات ہوتے رہتے ہیں لیکن زینب کا واقعہ اتنا مشہور کیوں ہوا۔ یقینا اس کی اتنی کثرت سے اشاعت میں کوئی نہ کوئی حکمت ہوگی۔
سوال : وہ کیا حکمت ہے جناب ، یہ بھی فرمادیں؟
جواب: وہ حکمت بہت سادہ ہے۔ اس کے اسباب دیکھے جائیں تو سب سے پہلے وہ والدین قصور وار ہیں جن کے ہاں ایسے ظالموں کی تربیت ہوئی، یہ ہماری تربیت کے نظام پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ پھر پرنٹ ، الیکٹرانک ، سوشل میڈیا، فلمیں، ڈرامے اور ناول ذمہ دار ہیں جنہوں نے عریانی پھیلانے ، جنسیات اشتہا بھڑکانے اور تشدد سے پیسا کمانے کو اپنے وطیرہ بنارکھا ہے اور نوجوان جنسی اشتعال سے بے قابو ہورہے ہیں ۔ پھر ہمارا سماجی نظام قصور وار ہے جس نے نکاح مشکل اور زنا آسان بنا رکھا ہے۔ پھر ہمارا ایجوکیشن کا سسٹم قصور وار ہے جس میں اخلاقیات نامی کوئی سبجیکٹ ہی موجود نہیں۔ پھر ہمارے مذہبی رہنما قصور وار ہیں جنہوں نے مذہب کو رسومات کا مجموعہ بنا کر اسے اخلاقی زندگی سے لاتعلق کردیا ہے۔ پھر ہمارے سیاستدان قصوروار ہیں جو اس معاملے میں پوائینٹ اسکورنگ کررہے ہیں، پھر ہمارے حکمران قصور وار ہیں جن کی ناہلی کے سبب ایسے واقعات بار بار ہوتے رہتے ہیں۔
سوال: حضرت ، یہ سب باتیں ٹھیک ہیں؟ لیکن زینب کو کیوں مارا گیا؟یہ کیسا خدا کا انصاف ہے؟؟؟؟


Viewing all articles
Browse latest Browse all 326

Trending Articles