Quantcast
Channel: ڈاکٹر محمد عقیل کا بلاگ
Viewing all articles
Browse latest Browse all 326

تنہائی، غصہ اور ڈپریشن

$
0
0

تنہائی، غصہ اور ڈپریشن
سوال: میں بہت تنہائی محسوس کرتی ہوں۔ مجھے بہت غصہ آتا ہے۔ غصے سے اندر ہی اندر کڑھتی رہتی ہوں ۔ دو دن غصہ رک جاتا ہے۔ تیسرے دن میں کنٹرول نہیں کرسکتی۔ غصہ مجھ پراتنا حاوی ہوجاتا ہے کہ میں اس سے لڑ نہیں سکتی۔ پھر میں بہت روتی ہوں۔ اور اس تیسری رات میں سو بھی نہیں پاتی۔ دم گھٹنے لگتا ہے۔ دل پر بوجھ محسوس ہوتا ہے۔ جیسے دل بند ہوجائے گا ۔ کوئی بات یاد آجائے تو ساری رات کیا، کیوں اور کیسے ہوا سوچتے ہوئے گزرجاتی ہے۔ سوچیں میرے دماغ سے نکلتی نہیں ہیں۔ جب سے میرا پالتو طوطا میری غلطی کی وجہ سے مر گیا ہے میں مزید ڈپریش کا شکار ہو چکی ہوں ۔میری امی مجھے اکثر کہتی تھیں اور ابھی بھی انکا یہی خیال ہے کہ میں ذہنی مریض ہوں۔ اب مجھے بھی یہی محسوس ہوتا ہےکہ واقعی میں مینٹلی ٹھیک نہیں ہوں۔ ایک مہینے سے دماغ نے ساتھ دینا بالکل چھوڑ دیا ہے۔ مجھے کسی سے کوئی شکایت نہیں سب ٹھیک ہیں بس میں ٹھیک نہیں ہوں۔ یہ جانتے ہوئے بھی میں اس کیفیت کو کنٹرول نہیں کرپاتی ۔ لوگوں کی تنقید سے اور برا محسوس کرتی ہوں۔سب کچھ برا ہے میرے ساتھ۔۔میری شادی ہونے والی ہے مگرلگتا ہے سب کچھ مل کے بھی خالی ہاتھ ہوں۔ کبھی میرا دل کرتا ہے باہر جاؤں ۔۔فرینڈز کے ساتھ گھوموں باتیں کروں اور کبھی بالکل تنہا رہنے کا دل کرتا ہے جہاں کوئی نہ ہو۔۔میں بہت ڈپریش میں ہوں ۔۔مدد چاہیے۔
جواب:آپ کے سوال میں بہت سی الجھی ہوئی سوچیں اور بے ربط خیالات ہیں۔۔دیکھیں آج دنیا میں بے شمار لوگوں کو آپ سے ملتے جلتے مسائل کا سامنا ہے یعنی گھر میں توجہ نہ ملنا،جسمانی خوبصورتی نہ ہونا،تنہائی،کسی عزیز کا بچھڑ جانا۔۔۔اور اپنی ناکامیوں پر مزید مایوس کن خیالات کی بھرمار۔۔۔لیکن اصل بات یہ مسائل نہیں بلکہ ان مسائل پر ہمارا ردعمل ہے۔ آج دنیا میں شاید ہی کوئی انسان ہو جو کسی نہ کسی پریشانی کا شکار نہ ہو۔ آپ بالکل بھی ذہنی مریض نہیں صرف آپ میں قوت ارادی کی کمی اور زود حسی ہے۔یہ سب مسائل حل طلب ہیں اگر آپ ان کے آگے خود کو بےبس سمجھ کر ہتھیار نہ پھینکیں بلکہ مثبت سوچوں اور مثبت رویے کے ساتھ ان کا مقابلہ کریں۔یقین مانیں اگر آپ انہی لایعنی قسم کی سوچوں کے ساتھ زندگی بسر کرنا چاہتی ہیں تو دنیا کا کوئی بھی انسان آپ کی مدد نہیں کر سکتا ، نہ کوئی ہینگ آؤٹ اور نہ ہی کوئی دوست۔۔
اللہ نے ہر انسان کو اس کی ضروریات کے مطابق بے شمار نعمتوں اور صلاحیتوں سے نوازا ہے اور جن چیزوں سے محروم رکھا ہے یہ بھی اس کے لا محدود علم اور مصلحت کے تحت ہے جس کو ہمارا محدود ذہن نہیں سمجھ سکتا۔ مگر ہم اپنی اپنی محرومیوں کو خود پر اسقدر حاوی کر لیتے ہیں کہ اپنی صلاحیتوں کو استعمال ہی نہیں کر پاتے اور ان بے شمار نعمتوں کو سرے سے نظر انداز کر دیتے ہیں جو ہمیں حاصل ہیں بغیر ہماری کسی کوشش کے۔
اب آپ کی مرضی کے مطابق آپ کی شادی ہونے والی ہے۔یہ آپ کے پاس اپنی زندگی کو نارمل کرنے کا سنہری موقع ہے،اب اگر آپ نے خود کو کنٹرول نہ کیا تو آگے بھی خدا نہ کرے ،سوائے مسائل کے،کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔میرا مشورہ ہے کہ:
۔اپنے گھر والوں کے رویے کو یہ سمجھ کر نظر انداز کر دیں کہ وہ آپ کی کمزوریوں کو دور کرنے کے لیے ایسا کرتے ہیں ۔ بے شک ان کا طریقہ کار غلط ہے مگر ان کی نیت ہو سکتا ہے درست ہو، ان کی باتوں پر کڑھنے کی بجائے برداشت اور حوصلے کے ساتھ کوشش کریں کہ محبت کا برتاؤ کریں۔
۔آپ کو کسی مثبت ذہنی اور جسمانی سرگرمی کی شدید ضرورت ہے مثلاً اچھی کتابوں کا مطالعہ ،ہلکی پھلکی ورزش وغیرہ۔
۔دوسروں سے زیادہ توقعات وابستہ مت کیجئے۔ یہ فرض کر لیجئے کہ دوسرا آپ کی کوئی مدد نہیں کرے گا۔ بڑی بڑی توقعات رکھنے سے انسان کو سوائے مایوسی کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
۔خوشی کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر خوش ہونا سیکھئے اور بڑے سے بڑے غم کا سامنا مردانہ وار کرنے کی عادت ڈالئے۔
۔اللہ کے ساتھ تعلق بنانے کی کوشش کریں،اپنی چھوٹی بڑی ہر بات اس کے سامنے کریں اس یقین کے ساتھ کہ وہ قادر مطلق ضرور سنتا ہے۔۔یقین مانیں دل پرسکون ہو جاتا ہے۔۔
ان تمام طریقوں سے بڑھ کر سب سے زیادہ اہم رویہ جو ہمیں اختیار کرنا چاہئے وہ رسول اللہ ﷺ کے اسوہ حسنہ کے مطابق اللہ تعالیٰ کی ذات پر کامل توکل اور قناعت ہے۔ توکل کا یہ معنی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہا جائے۔ اس کا انتہائی معیار یہ ہے کہ انسان کسی بھی مصیبت پر دکھی نہ ہو بلکہ جو بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو ، اسے دل و جان سے قبول کرلے۔ ظاہر ہے عملاً اس معیار کو اپنانا ناممکن ہے۔ اس لئے انسان کو چاہئے کہ وہ اس کے جتنا بھی قریب ہو سکتا ہو، ہو جائے۔
آپ نے جس خیالی دنیا کا ذکر کیا ہے ، یقیناً وہ دنیا انسان کو ملے گی۔بس ہمیں خود کو اس کا اہل ثابت کرنا ہے اور وہ دنیا کا سکون بھی ہو سکتا ہے اور آخرت کا ہمیشہ کا آرام بھی۔ کیا ہی اچھا ہو اگر ہم یہ سوچیں کہ دنیا کی اس چند روزہ زندگی سے ہم نے اپنی آخرت کا سامان کیسے اکٹھا کرنا ہے؟؟یہ مشکل تو ہو گا مگر اس کے بعد ہمیشہ کا سکون مقدر بن سکتا ہے۔۔
اللہ آپ کو قوت برداشت اور ہمت دے کہ آپ خود کو بدلنے میں کامیاب ہو سکیں۔۔آمین
از: راعنہ نقی سید



Viewing all articles
Browse latest Browse all 326

Trending Articles