زلزلہ پر کچھ سوالات
۲۶ اکتوبر ۲۰۱۵ کو کوہ ہندوکش کی پلیٹوں میں حرکت کی بنا پر ایشیا میں زلزلہ آیا۔ اس کے سب سے زیادہ اثرات پاکستان میں محسوس کیے گئے ۔ اس زلزلے پر ہمارے ذہن میں کئی سوالات جنم لیتے ہیں جن کا جواب جاننا ضروری ہے۔ ذیل
میں ان سوالوں کا مذہبی اور سائنسی تناظر میں جواب موجود ہے۔
1. کیا زلزلہ کے پیچھے انسانوں کی کوئی کوتاہی موجود ہوسکتی ہے ؟
جی ہاں۔ ماہرین کے مطابق آج کل زلزلوں کی بنیادی وجہ ماحولیاتی تبدیلیاں ہیں ۔ مختلف انڈسٹریز اور مشینوں کے استعمال کی بنا پر زہریلی گیسیں خارج ہورہی ہیں۔ ا ن گیسوں کی وجہ سے اوزون متاثر ہورہی ہے۔ اس کی بنا پر زمین کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔ درجہ حرارت بڑھنے سے گلیشیرز پگھل رہے اور سمندر کی سطح بلند ہورہی ہے۔ اللہ نے گلیشیرز اور سمندر کے اپنی میں ایک توازن رکھا ہے ۔ لیکن اس عمل سے گلیشیرز کے نیچے کی زمین کا بوجھ ہلکا اور سمندروں کی نیچے کی زمین کا بوجھ بھاری ہورہا ہے۔ اس تبدیلی کی بنا پر زمین کی تہہ میں پلیٹیں سرکنے کا عمل نہ صرف تیز بلکہ شدید تر ہوگیا ہے۔ لہٰذا زلزلوں کی تعداد اور شدت میں نہ صرف اضافہ ہوگیا بلکہ مستقبل میں اس عمل کے عمل مزید تیز ہونے کا اندیشہ ہے۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو انسان بحیثیت مجموعی ماحول کو خراب کرنے کا قصور وار اور زلزلوں کے آنے کا سبب بن رہا ہے۔ بالخصوص اس وقت جب اسے ان سب باتوں کا علم ہے۔
2. کیا زلزلہ آنے میں اللہ تعالی کا بھی براہ راست کنٹرول ہوتا ہے؟
اللہ تعالیٰ کے دنیا میں اپنا فیصلہ نافذ کرنے کے ہمارے علم کے مطابق دو طریقے ہیں۔ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ اللہ تعالی اسباب و علل کے ذریعے یہ سار ا کام کرواتے ہیں۔ مثال کے طوراگر ایک شخص اگر اونچی عمارت سے چھلانگ لگائے گا تو زخمی کا ہلاک ہوجائے گا۔اس تکلیف کا سبب کشش ثقل یعنی زمین کے کھنچنے کی قوت کو مدنظر نہ رکھنا ہے۔ اللہ کا دوسرا طریقہ اسباب و علل سے ماورا کسی بھی نتیجے کا ظہور ہے جیسا بالعموم معجزات کی صورت میں ہمارے سامنے آتا ہے مثال کے طور پر حضرت ابراہیم کے لیے آگ کا گلزار بن جانا۔ یا جیسے پیغمبر کے مخاطبین کو انکار کی صورت میں آسمان سے عذاب نازل کرکے فنا کردیا جانا۔نتیجہ خواہ اسباب کے ذریعے برآمد ہو یا اسبا ب سے ماورا، چونکہ دونوں کام اللہ کی براہ راست یا بالواسطہ اجازت ہی سے ہورہے ہوتے ہیں اسی لیے دونوں ہی کو اللہ کی جانب منسوب کیا جاتا ہے۔
اگر ماضی کو دیکھا جائے تو بظاہر یوں لگتا ہے کہ اللہ تعالی عام طور پر پہلے ہی طریقے کو اختیار کرتے اور امور کو اسباب و علل کے تحت ہی ہونے دیتے ہیں۔ لیکن چونکہ آپ قادر مطلق ہیں تو آپ اسباب کے پابند نہیں۔ آپ جب چاہیں اسباب کے بالکل برخلاف نتیجہ برآمد کرسکتے اور اپنا فیصلہ نافذ کرسکتے ہیں۔
جہاں تک قدرتی آفات بالخصوص زلزلے کا تعلق ہے تو یہ عام طور پر اسباب کے تحت ہی ہورہے ہوتے ہیں لیکن اللہ تعالی ٰ ہر قسم کی آنے والی آفت سے نہ صرف پوری طرح باعلم ہوتے بلکہ اپنی حکمت کے لحاظ سے اس کی شدت، ڈائریکشن ، وقت اور کیفیت کا تعین یا تبدیلی کے عمل کو مانیٹر کررہے ہوتے اور اس کے نتائج کو یکسر تبدیل کرنے پر مکمل طور پر قادر ہوتے ہیں۔
چنانچہ زلزلے خواہ اللہ کی اسباب و علل کی اسکیم کے تحت آئیں یا اللہ کی براہ راست مداخلت کے ذریعے، دنوں ہی من جانب اللہ ہوتے اور دونوں ہی اللہ کے براہ راست کنٹرول اور علم میں ہوتے ہیں۔
3. کیا زلزلہ اللہ کا عذاب ہوتا ہے؟
اس پر دو مکاتب فکر ہمارے ہاں پائے جاتے ہیں۔ روایتی مذہبی علما عام طور پر ہر قسم کی قدرتی آفت کو اللہ کے عذاب سے تعبیر کرتے ہیں۔اس پر ناقدین یہ تنقید کرتے ہیں کہ اگر یہ اللہ کا عذاب ہے تو زیادہ تر غریب ملکوں، کمزور مکانوں میں رہنے والے لوگوں پر کیوں آتا اور امریکہ و برطانیہ پر کیوں نہیں آتا۔ چنانچہ یہ لوگ تباہی کے مادی اسباب تلاش کرتے ہیں ۔ دوسری جانب قرآن میں موجود عذاب کی آیات کو یہ گروہ رسول کے ساتھ خاص کرتا ہے ۔ ان کے نزدیک وہ عذاب جو قوموں پر نازل ہوتا تھا وہ اتمام حجت کے بعد ہوتا تھا جب رسول کی قوم اسے ماننے سےانکار کردیتی تھی۔ ان کے نزدیک آج کل کی قدرتی آفات کا اس عذاب سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ قدرت آفات آزمائش کے پہلو سے آتی ہیں۔
4. ان دونوں گروہوں میں سے کس کی بات درست ہے؟
یہ بات درست ہے کہ قدرتی آفات اسباب و علل کے تحت بھی آتی ہیں اور یہ بات بھی درست ہے کہ رسول کی قوم پر جو عذاب نازل ہوتا تھا وہ اسبا ب علل کے تحت نہیں بلکہ اللہ کی براہ راست مداخلت کے تحت نازل ہوتا تھا۔ یہ بات بھی درست معلوم ہوتی ہے کہ ان قدرتی آفات کا معاملہ آزمائش ہے جس سے متاثر ہونے والوں کا کام صبر کرنا اور بچ جانے والوں کا کام شکر کرنا ہے۔
یہاں یہ بات ملحوظ خاطر رہنی چاہیے کہ عذاب کی دو صورتیں ہوتی ہیں۔ ایک عذاب تو اتمام حجت کے طور پر آتا ہے جس میں رسول کی مخاطب قوم کو فنا کردیا جاتا ہے۔ دوسرا عذاب تنبیہہ کے لیے آتا ہے جس میں قوم کے کچھ حصے کو فنا اور کچھ کو باقی رکھا جاتا ہے۔ یہ دوسری قسم کا متنبہ کرنے والے عذاب کے لیے رسول کا ہونا لازمی نہیں اور یہ کبھی بھی کہیں بھی آسکتا ہے۔ چنانچہ یہ بات بھی درست ہے کہ کسی بھی قوم پر قدرتی آفات کا عمل جہاں مادی اسباب و علل کے تحت ہوتا ہے وہاں اخلاقی انحطاط بھی اس کا سبب بن سکتا ہے۔ چنانچہ زمین میں فساد پھیلانے کی صورت میں اللہ تعالی اس قوم کو عذاب میں مبتلا کرسکتے ہیں۔ اس کا ثبوت سورہ روم کی یہ آیت ہے:
ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيْقَهُمْ بَعْضَ الَّذِيْ عَمِلُوْا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ 41
بحر و بر میں فساد پھیل گیا ہے جس کی وجہ لوگوں کے اپنے کمائے ہوئے اعمال ہیں ۔ تاکہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو ان کے کچھ اعمال کا مزا چکھا دے۔ شاید وہ ایسے کاموں سے باز آجائیں۔ (الروم ۴۱:۳۰)
اس آیت کی تفسیر میں مولانا مودودی لکھتے ہیں:
یہ پھر اس جنگ کی طرف اشارہ ہے جو اس وقت روم و ایران کے درمیان برپا تھی جس کی آگ نے پورے شرق اوسط کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ “لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی” سے مراد وہ فسق و فجور اور ظلم و جور ہے جو شرک یا دہریت کا عقیدہ اختیار کرنے اور آخرت کو نظر انداز کردینے سے لازما انسانی اخلاق و کردار میں رونما ہوتا ہے۔ “شاید کہ وہ باز آئیں” کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی آخرت کی سزا سے پہلے اس دنیا میں انسانوں کو ان کے تمام اعمال کا نہیں، بلکہ بعض اعمال کا برا نتیجہ اس لیے دکھاتا ہے کہ وہ حقیقت کو سمجھیں اور اپنے تخیلات کی غلطی کو محسوس کر کے اس عقیدہ صالحہ کی طرف رجوع کریں جو انبیاء علیہم السلام ہمیشہ سے انسان کے سامنے پیش کرتے چلے آرہے ہیں، جس کو اختیار کرنے کے سوا انسانی اعمال کو صحیح بنیاد پر قائم کرنے کی کوئی دوسری صورت نہیں ہے ۔ یہ مضمون قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بیان ہوا ہے۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو، التوبہ، آیت 126۔ الرعد آیت 31۔ السجدہ 21۔ الطور 47۔(تفہیم القرآن ۔ سورة الروم حاشیہ نمبر : 64)
اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی اپنی حکمت کے مطابق مختلف اخلاقی قوانین کی خلاف ورزی پر تنبیہ کے لیے عذاب نازل کرتے رہتے ہیں اور ا س کے لیے کسی رسول کا ہونا لازم نہیں۔ ان اخلاقی خلاف ورزیوں میں سر فہرست اللہ کے بنائے ہوئے قانون کی خلاف ورزی یا اس میں کوتاہی ہے۔ مثال کے طور پر زلزلے کے کیس میں ماحولیات کو آلودہ کرنا اور زلزلے سے بچنے کے لیے مادی اقدامات نہ لینا ایک بڑی خلاف ورزی ہے۔ اس کے علاوہ دیگر اخلاقی جرائم میں شرک، انکارآخرت، مادہ پرستی ، جنسی بے راوہ روی، معاشی جرائم وغیرہ وہ برائیاں ہیں جس کی بنا پر اللہ تنبیہہ کرنے کے لیے عذاب نازل کرسکتے ہیں۔
5. زلزلہ میں کیا حکمت پوشیدہ ہوسکتی ہے ؟
اس میں تنبیہہ، ناراضگی، وارننگ، آزمائش، دلوں کو نرم کرنا، خدا کی جانب لوگوں کو متوجہ کرنا، آخرت کے زلزلے سے خبردار کرنا جیسے بےشمار پہلو شامل ہوتے ہیں۔یعنی اگر یہ عذاب ہے تو اس عذاب میں قوم فنا نہیں ہوتی بلکہ کچھ لوگوں کو موت دے کر باقی لوگوں کو اس سے سبق حاصل کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ جن لوگوں کی جان اور مال اس آفت سے متاثر ہوتے ہیں اس کے لیے ضروری نہیں کہ وہ گناہ گار لوگ ہی ہوں۔ ان میں سے زندہ بچ جانے والے متاثرہ لوگوں پر صبر کا امتحان لاگو ہوجاتا جبکہ متاثر نہ ہونے والے لوگوں پر شکر کے امتحان کے تقاضے لاگو ہوجاتے ہیں۔
6. زلزلہ میں مزید کا پہلو پوشیدہ ہوسکتے ہیں؟
اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ اس قسم کی قدرتی آفات بالخصوص زلزلے میں کئی دیگر پہلو بھی موجود ہوتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ اس قسم کی آفت اللہ کی ناراضگی کو ظاہر کرتی ہے۔لیکن ضروری نہیں کہ یہ ناراضگی مذہبی طور پر بیان کیے جانے والے چند گنے چنے گناہوں کے ارتکاب پر ہی ہو۔ یہ ناراضگی ماحولیات کو تباہ کرنے کے حوالے سے بھی ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ اخلاقی قوانین کی خلاف ورزی ، قرآن کی خلاف ورزی، فطرت کی تعلیمات سے انحراف ، شرک کا ارتکاب، قول و فعل میں تضاد علما کی بدکاریوں پر خاموشی اور دیگر برائیاں بھی اس ناراضگی کا سبب ہوسکتی ہیں۔
زلزلہ کی آفت ایک قسم کا الارم بھی ہے کہ انسان نے اپنے ماحولیاتی نظام کی اگر اصلاح نہ کی تو یہ آفتیں بڑھ جائیں گی اور یہ اضافہ زمین پر سے زندگی کے خاتمے تک بھی جاسکتا ہے۔اس کا ایک اور پہلو تنبیہہ بھی ہے۔ انسان عام طور پر چیزوں کو فارگرانٹڈ لیتا ہے۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ آسمان و زمین کی ساری نعمتیں اس کا حق ہیں۔چنانچہ اس نعمت میں کمی کرکے یہ بتادیا جاتا ہے کہ یہ حق نہیں بلکہ خدا کی جانب سے انعام ہے۔ خدا س بات پر قادر ہے کہ جب چاہے زمین کو نیچے سے ہلادے یا آسمان سے آگ برسادے۔ اس کا ایک پہلو شکر و صبر کا امتحانی ماحول پیدا کرنا ہے۔
7. اللہ تو خیر مطلق ہیں اور اپنے بندوں تو زلزلہ جیسا شر کیوں ظہور پذیر ہوتا ہے ؟
اللہ خیر مطلق ہیں۔ وہ اپنے بندوں پر بے حد مہربان ہیں اسی لیے وہ انہیں بے راہ روی کا شکار دیکھ کر انہیں اس کیفیت سے نکلنے کا موقع دیتے ہیں۔ اس کا ایک طریقہ شاک ٹریٹمنٹ ہے۔ اس کے ذریعے بندوں پر کئی حقائق آشکار ہوتے ہیں۔ بندہ اگر فراست کی نگاہ سے دیکھے تو وہ یہ جان لیتا ہے کہ اس دنیا کی نعمت عارضی ہے، یہاں کا ملنا ملنا نہیں اور کھونا کھونا نہیں۔ وہ جان لیتا ہے کہ اسی طرح ایک دن سب تباہ ہوجائے گا۔ جب وہ ان حقائق کو جانتا ہے تو لامحالہ خدا کی جانب رجوع کرتا اور آخرت کی اصل زندگی کی وہ نعمتیں اپنے نام بک کرلیتا ہے جن کے سامنے دنیا کی یہ مصیبتیں کچھ بھی نہیں۔
8. اس آفت میں اللہ سے رجوع کرنے کی انفرادی صورت کیا ہے؟
زلزلہ چونکہ اجتماعی معاملہ ہے اس لئے اس معاملے میں انفرادی ہی نہیں اجتماعی طور پر اللہ سے رجوع کرنا لازمی ہوتا اور اس کے معلوم اسباب کی روک تھا م ضروری ہوتی ہے۔ اس کے لیے درج ذیل انفرادی و اجتماعی اقدام کرکے اللہ سے رجوع کیا جاسکتا ہے:
۱۔ سب سے پہلے تو ہم میں سے ہر شخص اپنی کوتاہیوں کا جائزہ لے کہ ہم وہ کون سے کام ہیں جو خدا کی نافرمانی میں کررہے ہیں۔ واضح رہے کہ خدا کے احکامات انسان کو صرف عبادات ہی میں نہیں بلکہ معاشرت، معیشت، اخلاقیات، خوردو نوش، اخلاقیات اور دیگر امور میں بھی ملے ہیں۔ نیز تمام احکامات کا ماخذ علمائے مذہب نہیں بلکہ اللہ کی بنائی ہو ئی فطرت اور وحی ہے۔ اس لیے ہم میں سے ہر شخص ان کوتاہیوں کا جائزہ لے کر ان کی اصلاح کا بیڑا اٹھالے ۔
۲۔ اس بیڑا اٹھانے کے لیے زبانی استغفار ، توبہ اور معافی کا کلمات کسی بھی زبان میں ادا کرنا ایک اچھا اقدام ہے جس سے انسان کی نیت کا پتا چلتا ہے۔
۳۔ زبان سے اقرار کے بعد اسے عمل میں ڈھالنے کی پوری کوشش کی جائے۔ کیونکہ عمل کے بغیر محض بات کرنا خودفریبی اور منافقت کو جنم دے سکتا ہے۔
۴۔ زلزلے کا نفسیاتی اثر ختم ہوجانے کے بعد بھی اللہ کو یاد رکھنا اور رجوع کے عمل کو جاری رکھنا ہی اصل مومن کی پہچان ہے۔ بھول جانے والوں کے لیے ممکن ہے اگلا زلزلہ تنبیہہ نہ ہو بلکہ موت کا پیغام ہو۔
9. اجتماعی سطح پر توبہ و استغفار کے لیے کیا اقدام کرنے چاہیں؟
سب سے پہلے وہ اسباب معلوم کرنے چاہئیں جس کی بنا پر یہ سب کچھ وقوع پذیر ہوا۔ اس کے بعد اس کے سد باب کے لیے حکومت، میڈیا، عدلیہ اورا نتظامیہ مل کر کوئی ٹھوس قدم اٹھائیں۔
دوسرا کام ان اخلاقی برائیوں کا خاتمہ ہے جن کی بنا پر اللہ تعالی کی ناراضگی کا سامنا ہوسکتا ہے۔ ان برائیوں میں صرف مشہور زمانہ چند گناہ جیسے زنا، بے پردگی، شراب نوشی، سود ، فحش موسیقی ہی شامل نہیں۔ اجتماعی گناہوں میں ملاوٹ ، دھوکے بازی، چوری، ڈاکہ زنی، کرپشن، جھوٹ، نمود و نمائش، مذہبی تعصب، فرقہ بندی، قتل و غارت گری اور منافقت ، قرآن کو چھوڑدیناجیسی برائیاں بھی شامل ہیں۔ ان سب پر بھی میڈیا ، سماجی راہنما، سلجھے ہوئے مذہبی علما اور حکومت کا کام کرنا لازمی ہے۔ یہی وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے اجتماعی توبہ اور استغفار کی جاسکتی ہے۔ باقی سارے طریقے محض زبانی دعوے اور خانہ پری ہی ہیں۔
پروفیسر محمد عقیل
۲۷ اکتوبر ۲۰۱۵
۱۳ محرم الحرام ۱۴۳۷ ہجری
