انٹرایکٹو فہم القرآن کورس ۔چوتھا سیشن۔خلاصہ
سورہ البقرہ
سورہ البقرہ آیت نمبر 17 تا 25
پروفیسر محمد عقیل
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آخر میں خلاصہ پیش کرنے میں سب سے بڑی دشواری یہ آتی ہے کہ سب کچھ تو آپ بھائیو ں اور بہنوں نے لکھ دیا ہوتا ہے اور میرے لئے کچھ بھی نہیں بچتا۔ بہرحال طالب علمانہ خلاصہ پیش خدمت ہے۔
گذشتہ آیات کا خلاصہ:
گذشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جن لوگوں نےسب کچھ جاننے کے باوجود کفر کیا ، تم انہیں ڈراؤ نہ ڈراؤ برابر ہے۔ پھر فرمایا کہ ان کے دلوں پر اللہ نے ان کے کرتوتوں کی بنا پر مہر لگادی ہے۔ اس کے بعد منافقین کی صفات گنوائیں کہ یہ لوگ کس طرح بظاہر اپنے ایمان کا اقرار کرتے ہیں لیکن تنہائیوں میں اپنے حواریوں کے ساتھ مل کر مذاق اڑاتے ہیں۔یہ لوگ یہود میں سے بھی تھے اور دیگر منافقین بھی تھے۔ پھر آخر میں ان کے بارےمیں فیصلہ دے دیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خرید لی ہے اور ان
کی یہ تجارت کامیاب نہیں ہوگی۔
زیر بحث آیات میں تمثیلوں کی وضاحت:
اس کے بعد انہی یہود اور منافقین کی زندگی کو ایک تمثیل سے سمجھایا کہ ان یہودی منافقین اور عمومی منافقین کے مثال ایسی ہے جیسے رات کی تاریکی کو ختم کرنے کے لئے آگ ( وحی کی روشنی ) جلائی گئی جس نے ارد گرد کے ماحول کو تو روشن کردیا (یعنی دیگر لوگ ایمان لے آئے) لیکن ان لوگوں کی روشنی سلب کرلی گئی اور یہ یونہی گمراہی کے اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں۔ یا پھر آسمان سے وحی کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہورہی ہیں لیکن یہ بدبخت چونکہ اپنے کرتوتوں کی وجہ سے اندھیرے میں ہیں اس لئے اس یہ اس سے فیض یاب ہونے کی بجائے ہر آنے والی وحی کو بادل کی تباہ کن گرج اور بحلی کی ضرر رساں کڑک سمجھ رہے ہیں۔ ایسا سمجھنے کی وجہ یہ ہے کہ وحی کے اس نزول سے ان کے دنیاوی مفادات اور خواہش پرستی خطرے میں پڑ رہی ہے۔ چنانچہ وہ کبھی کانوں میں انگلیاں دے کر اس دعوت کو سننے سے انکار کردیتے ہیں(یعنی بادلوں کی کڑک سے بچنا چاہتے ہیں ) تو کبھی حسین بجلی کی کڑک کو اپنا دشمن سمجھ کر دبک جاتے ہیں۔ کبھی کبھی انہیں گمان ہوتا ہے کہ اس تعلیم کو مان لیں تو اس وقت تو ان کا ندھیرا وقتی طور پر دور ہوجاتا ہے اور یہ بجلی ( یعنی وحی ) کی روشنی میں کچھ دیر کے لئے صحیح سمت چل لیتے ہیں لیکن چونکہ یہ نفاق میں مبتلا ہیں اس لئے دوبارہ جب وحی کی تعلیمات پر اپنی خواہشات کو ترجیح دتے ہیں تو انہی اندھیروں میں گم ہوجاتے ہیں۔
آیات ۲۱ اور ۲۲ کی وضاحت:
اس کے بعد موضوع تبدیل ہورہا ہے۔ آیات یہ ہیں :
لوگو! اپنے پروردگار کی عبادت کرو جس نے تم کو اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا تاکہ تم (اس کے عذاب سے) بچو (۲۱) جس نے تمھارے لیے زمین کو بچھونا اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے مینہ برسا کر تمہارے کھانے کے لیے انواع و اقسام کے میوے پیدا کئے۔ پس کسی کو خدا کا ہمسر نہ بناؤ۔ اور تم جانتے تو ہو (۲۲)
یہاں ایک اصول سمجھ لینا چاہئے کہ قرآن میں بار بار ایک سورۃ میں مضمون بدلتا ہے۔ ہمارے ہاں اردو میں جب مضمون میں کچھ تبدیلی آتی ہے تو ہم پیراگراف تبدیل کرلیتے یا اس ہیڈنگ کا کوئی عنوان رکھ دیتے ہیں۔ قرآن میں یہ اسلوب نہیں ۔ چنانچہ اکثر اوقات ہم اسی تسلسل میں آیات پڑھتے چلے جاتے ہیں اور بعض اوقات کچھ علمی مغالطے ہوجاتے ہیں۔
ان آیات میں خطاب کا رخ بدل رہا ہے۔ پیچھے خطاب یہود و منافقین سے تھا اور اب خطاب کا رخ مشرکین کی جانب ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہاں یاایھا الناس سے کیا مراد ہے؟ کیا یہاں اس وقت کے قریش و مدینہ کے مشرکین ہیں یا پھر یہ آیت ہر دور کے انسانوں سے مخاطب ہے۔
یہاں رک کر ایک اور اصول اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے۔ جب بھی کسی کلام کو سمجھا جاتا ہے تو سب سے پہلے یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہ کس ماحول میں کس سے مخاطب ہے۔ اس سے کلام کو سمجھنے میں بہت آسانی ہوتی ہے۔ اس کے بعد یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس خطاب کا رخ تعمیم (Generalization ) کے ساتھ بیان کیا جاسکتا ہے یا نہیں۔ پہلے بھی ہم نے اس پر گفتگو کی تھی ۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ اس خطاب کو صرف اولین مخاطب تک محدود کررہے ہیں ، نہیں۔ لیکن کلام کو سمجھنے کے لئے اس کو اولین مخاطبین کے تناظر میں جاننا لازمی ہے۔ اسی کے بعد ہم اس کی درست طور پر تعمیم کے قابل ہوسکتے ہیں۔
ایک مثال سے اس بات کو سمجھئے گا۔ ایک اقتباس ہے:
“اے لوگو! اگر کوئی بادشاہ تمہارے گھر آنے کا ارادہ کر لے تو تم ہفتہ بھر پہلے گھر کو رنگ و روغن کرو گے، اسے صاف ستھرا رکھو گے تاکہ بادشاہ تمہارے گھر سے مطمئن اور خوش ہو کر جائے۔
تو پھر اے لوگو! وہ بادشاہوں کا بادشاہ ہے، جس کا رہنے کا گھر تمہارا دل ہے تو اپنے دل کو صاف ستھرا کیوں نہیں رکھتے۔۔اے لوگو! اپنے دل کی بری خصلتیں جیسے حسد، بغض، اللہ کی نافرمانی اور نفرت کو نکال کر باہر پھینک دو۔ اس میں محبت کا بیج ڈالو تاکہ تمہارے دل میں اس عظیم ہستی کی محبت پیدا ہو۔
یہاں آپ دیکھیں تو تو بظاہر یہ خطاب پوری انسانیت سے ہورہا ہے لیکن حقیقت یہ نہیں۔ مضمون بتارہا ہے کہ یہ لکھنے والے نے تزکیہ نفس اور تصوف کے پس منظر میں ایک نصیحت کی ہے۔ اگر ہم اس خطاب کو تمام انسانوں کے لئے کہہ دیں تو پھر وہ لوگ جو خدا کو نہیں مانتے ، یا اس کے وجود پر متشکک ہیں تو وہ اس خطاب سے نکل جاتے ہیں۔ چنانچہ جب ہم جان لیتے ہیں کہ یہ اقتباس امام غزالی کا ہے تو اب بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ یہ انہوں نے اپنے زمانے میں مسلمانوں کو خطاب کیا۔ اب اس کیا دوسرا پہلو یہ ہے کہ یہ اقتباس چونکہ ایک نصیحت ہے تو اس کی تعمیم بہت آرام سے کی جاسکتی ہے اور یہ آج کے مسلمانوں پر بھی اپلائی ہوتا ہے۔
اب اگر کوئی انگریز جسے تصوف یا تزکیہ کا علم نہ ہو ، وہ امام غزالی کو نہ جانتا ہو اور نہ ہی اس تناظر میں اسے سمجھتا ہو ، وہ کبھی ا س کے درست مفہوم تک حتمی طور پر نہیں پہنچ سکتا۔ ہا ں اندازہ ضرور کرسکتا ہے۔
ایک اور مثال لیجے۔ ایک شعر ہے فیض احمد فیض کا:
ہم کہ ٹہرے اجنبی اتنی ملاقاتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی مداراتوں کے بعد
یہ ایک عام شعر ہے اور اس کے کئی معنی مراد ہوسکتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ فیض نے اس شعر کو کن معنوں میں کہا۔ یعنی اہم یہ نہیں کہ ہم نے کیا سمجھا، بلکہ اہم یہ ہے کہ کہنے والا کیا کہنا چاہتا ہے، اسے سمجھا جائے۔ تو جب ہم غور کرتے ہیں تو علم ہوتا ہے کہ مشرقی پاکستان جب الگ ہوا اور فیض نئے بنگلہ دیش گئے تو انہوں نے اس وقت یہ شعر بلکہ پوری غزل کہی۔ اب اس تناظر میں آپ اس شعر کو دوبارہ پڑھیں تو ہم جان لیں گے کہ فیض اصل میں کیاکہنا چاہ رہے ہیں۔
اس دراز گوئی کی معذرت چاہتا ہوں لیکن یہ سمجھنا بڑا ضروری ہے۔ تو اب ان آیات کو دیکھیں تو یہاں اولین خطاب تو مشرکین ہی سے ہے۔ لیکن آیات کا موضوع ایسا ہے کہ اسے آسانی سے پوری انسانیت تک وسیع کیا جاسکتا ہے ۔ قرآن کے اس جنرل اسلوب کی یہی خوبی ہے کہ اسے آسانی سے جنرلائز کیا جاسکتا ہے۔ اگر قرآن نے یہ کہا ہوتا ” اے مشرکین مکہ ۔۔۔۔۔” تو اس کی تعمیم بہت مشکل یا تقریبا ناممکن ہوتی اور یہ آج کے دور کے لئے ایک اجنبی چیز بن جاتا۔
قرآن کا چیلنج
اگلی آیات یہ ہیں:
اور اگر تم کو اس (کتاب) میں ، جو ہم نے اپنے بندے (محمدﷺ عربی) پر نازل فرمائی ہے کچھ شک ہو تو اسی طرح کی ایک سورت تم بھی بنا لاؤ اور خدا کے سوا جو تمہارے مددگار ہوں ان کو بھی بلا لو اگر تم سچے ہو (۲۳) لیکن اگر (ایسا) نہ کر سکو اور ہرگز نہیں کر سکو گے تو اس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہوں گے (اور جو) کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔
یہاں بھی خطاب اگر آپ دیکھیں تو ابتدائی طور پر قرآن کے مخاطبین سے کیا گیا ہے اور یہ چیلنج بھی ابتدائی طور پر انہی کے لئے ہے اور اس میں دو رائے ممکن نہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ آیا اس چیلنج کو وسعت دے کر رہتی دنیا تک کہ انسانوں کے لیا قرآن نے رکھا ہے یا نہیں تو اس میں دو آرا ہیں۔ اکثریت اسی کی قائل ہے کہ یہ چیلنج رہتی دنیا تک ہے۔ ایک اقلیتی گروہ یہ کہتا ہے کہ نہیں یہ صرف قرآن کے اولین مخاطبین اور بالخصوص کفار مکہ کے لئے تھا۔ بہر حال دونوں صورتوں میں چیلنج پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
ان آیات کا آج کے طور پر اطلاق
عمومی طور پر ان آیات کو دیکھیں تو یہ آیات ہمارے مسلم معاشرے پر بالکل صادق ہوتی ہیں ۔ پہلے مرحلے میں نفاق کا مسئلہ ہماری سوسائٹی میں بہت عام ہے۔ ہماری اکثریت نام کی مسلمان ہے۔ہمارا عمل بتاتا ہے کہ ہم نے سنا اور نہیں مانا، ہم نے جانا اور بھول گئے۔ ہم آخرت کو مانتے ہیں لیکن وہ آخرت جس میں ہماری نجات صرف کلمہ پڑھنے پر منحصر ہے، ہم نماز کو جمعے تک محدود رکھتے اور وہ بھی کبھی گول کرجاتے ہیں۔ ہم روزہ اس لئے رکھتے ہیں کہ باہر لوگ کیا کہیں گے ، ہم زکوٰۃ تو دے دیتے ہیں لیکن دل پر جبر کرکے، ہم عشر کو تو مانتے ہیں نہیں، ہم دین کو اپنے علاوہ ہر دوسرے پر نافذ کرنا اپنا فرض عین سمجھتے ہیں، ہم صفائی کو نصف ایمان کہہ کر آدھا ایمان غلاظت کی نظر کردیتے ہیں، ہم بندوں کو اپنے شر سے بچانے کی سع نہیں کرتے۔ ہم شاید گونگے، بہرے اور اندھے ہیں کہ جن کے کان ہیں لیکن سنتے نہیں، جنکی آنکھیں ہیں لیکن دیکھتے نہیں، جنکے دل ہیں لیکن سوچتے نہیں۔ ہمارے دل شاید پتھر سے زیادہ سخت ہوچکے ہیں جو نہ کبھی حقیقی سجدے میں گر تے اور نہ کبھی خدا خوفی سے پگھلتے ہیں۔ ہم شاید وہ نئے گدھے ہیں جو کتابوں کا بوجھ اٹھا تو لیتے ہیں لیکن اس کتاب کو سمجھتے نہیں۔ ہم کہیں جانور تو نہیں یااس سے بھی بدتر تو نہیں؟ مدینے کے منافقین تو کیا منافق ہونگے جو ہم ہیں۔ ان منفاقین کو بھی جب وحی کی روشنی ملتی ہے تو کچھ دور چل لیتے ہیں ورنہ ہم نے بھی اپنے لئے دنیا کی رنگینی کے اندھیرے پسند کرلئے۔
دوسرا گروہ ان لوگوں کا ان آیات میں بیان ہوا ہے جو شرک کرتے ہیں ۔ تو ہم بھی کیا شرک میں ان سے پیچھے ہیں؟ کیا ہمارے ہاں لات منات عزی ہبل نہیں؟ کیا ہمارے ہاں کلامی شرک کا غلبہ نہیں ۔ تو یہ آیت یہی کہہ رہی ہے کہاے لوگو اللہ کی بندگی کرو، اس کا کھاتے ہو اور مانتے کسی اور کو ہے؟ تف ہے ایسی زندگی پر۔
سوالات کا جواب:
زیادہ تر باتیں تو اوپربیان ہوگئیں، مختصرا یہاں سوالوں کا جواب دے دیتا ہوں۔
سوال نمبر ۱۔ آیت نمبر ۱۷ میں ہے کہ ان کی مثال اس شخص کی سی ہے کہ۔۔۔۔۔ یہاں کن لوگوں کی جانب اشارہ کیا جارہا ہے؟
منافقین
سوال نمبر ۲: آیت نمبر ۱۸ میں جو تمثیل بیان ہوئی ہے اس کا مطلب کیا ہے؟
اوپر وضاحت ہوگئی۔
سوال نمبر ۳:آیت نمبر 19کے بعد کیا موضوع بدل رہا ہے؟ ہاں یا نا میں جواب دیں۔
نہیں۔ دراصل یہاں میں آیت نمبر ۲۱ کی جانب اشارہ کرنا چاہتا تھا کہ وہاں یااِیھالناس سے دوسرا مضمون شروع ہورہا ہے اور قرآن میں موضوع بغیر کسی پیراگراف کے بدلتا ہے۔ اس کی وضاحت اوپر کردی۔
سوال نمبر ۴: آیت نمبر ۲۰ میں ہے لوگو! اپنے پروردگار کی عبادت کرو جس نے تم کو اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا تاکہ تم (اس کے عذاب سے) بچو۔ یہاں کسی مخصوص گروہ کو مخاطب کیا جارہا ہے یا پوری انسانیت کو؟ اگر کوئی مخصوص گروہ ہے تو کون ہے؟
خصوصی طور پر مشرکین مکہ اور عمومی طور پر پوری انسانیت سے
سوال نمبر ۵: آیت نمبر ۲۳ میں ہے : اور اگر تم کو اس (کتاب) میں ، جو ہم نے اپنے بندے (محمدﷺ عربی) پر نازل فرمائی ہے کچھ شک ہو تو اسی طرح کی ایک سورت تم بھی بنا لاؤ اور خدا کے سوا جو تمہارے مددگار ہوں ان کو بھی بلا لو اگر تم سچے ہو۔ یہ جو چیلنج ہے کیا یہ اس وقت کے مخاطبین کے لئے تھا یا رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لئے یہ چیلنج ہے۔ اور اگر آج بھی یہ چیلنج موجود ہے تو کون اس بات کا فیصلہ کرے گا کہ چیلنج قبول کرنے والے کا کلام قرآن کے کلام سے بہتر نہیں ہے؟
مفسرین کے مطابق خصوصی طور پر اولین مخاطب اور عمومی طور پر پوری انسانیت۔ اب سوال یہ ہے کہ آج کون چیک کرے گا کہ یہ قران جیسا کلام ہے یا نہیں، تو میری ناقص رائے کے مطابق آج اس کو چیک کرنا ممکن نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کا جو اسلوب ہے اس کے ماہرین آج کے دور میں موجود ہی نہیں۔ اسی لئے میں اس چیلنج کو قرآن کے اولین مخاطبین ہی کے لئےخاص سمجھتا ہوں۔ واللہ اعلم بالصواب
سوال نمبر ۶: جب بھی قرآن جنت کی نعتموں کا ذکر کرتا ہے تو اسی قسم کے الفاظ ہوتے ہیں : ان کو خوشخبری سنا دو کہ ان کے لیے (نعمت کے) باغ ہیں ، جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔یہاں باغات کے نیچے نہروں سے کیا مراد ہے ؟ نیز جنت کی نعمتیں بیان کرتے وقت عرب کے ذوق کا خاص خیال کیوں رکھا گیا ہے؟
قرآن کے اولین مخاطبین جن انتہاِئی درجے کی نعمتوں کے کو چاہتے تھے، قرآن نے وہ ساری نعمتیں بتادیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہاں وہی چودہ سو سال قبل کی چیزیں اور آسائشیں ہونگیں۔ مثال کے طور پر جب میں امریکہ و یورپ کی لگژری ہوٹلوں کو دیکھتا ہوں یا شاندار سواریوں پر نظر ڈالتا ہوں یا پرتکلف کھانوں کو دیکھتا ہوں یا خوابناک انٹرٹینمنٹ کی جگہوں پر غور کرتا ہوں تو مجھے یہ سب جنت کے تصور کے سامنے کچرا معلوم ہوتی ہیں۔
پروفیسر محمد عقیل
