انٹرایکٹو فہم القرآن کورس ۔تیسرا سیشن
سورہ البقرہ آیت نمبر۶ تا ۱۶ کا خلاصہ
پروفیسر محمد عقیل
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ماشاءاللہ سب بھائیوں اور بہنو ں بہت ہی عرق ریزی اور گہرے مطالعے کے بعد اپنے فہم کو سب کے ساتھ شئیر کیا۔ جزاکم اللہ خیرا۔ یوں تو بات تقریبا ہر پہلو ہی سے واضح ہوچکی ۔ لیکن میں ان آیات پر اٹھنے والے سوالات کا خلاصہ پیش
کردوں۔
درج ذیل آیات کا مطالعہ کیجے۔
إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ( 6 ) بقرہ – الآية 6
بے شک جن لوگوں نے کفر کیا انہیں تم نصیحت کرو یا نہ کرو ان کے لیے برابر ہے۔ وہ ایمان نہیں لانے کے۔
خَتَمَ اللَّهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ وَعَلَىٰ سَمْعِهِمْ وَعَلَىٰ أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ( 7 ) بقرہ – الآية 7
خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا دی اور ان کی آنکھوں پر پردہ (پڑا ہوا) ہے اور ان کے لیے بڑا عذاب (تیار) ہے۔
وَمِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَا هُم بِمُؤْمِنِينَ ( 8 ) بقرہ – الآية 8
اور بعض لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم خدا پر اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں حالانکہ وہ ایمان نہیں رکھتے
يُخَادِعُونَ اللَّهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ ( 9 ) بقرہ – الآية 9
یہ (اپنے زعم میں) خدا کو اور مومنوں کو چکما دیتے ہیں مگر (حقیقت میں) اپنے سوا کسی کو چکما نہیں دیتے اور اس سے بے خبر ہیں
فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ فَزَادَهُمُ اللَّهُ مَرَضًا وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ ( 10 ) بقرہ – الآية 10
ان کے دلوں میں مرض تھا۔ خدا نے ان کا مرض اور زیادہ کر دیا اور ان کے جھوٹ بولنے کے سبب ان کو دکھ دینے والا عذاب ہوگا
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ ( 11 ) بقرہ – الآية 11
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ ڈالو تو کہتے ہیں، ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں
أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَٰكِن لَّا يَشْعُرُونَ ( 12 ) بقرہ – الآية 12
دیکھو یہ بلاشبہ مفسد ہیں، لیکن خبر نہیں رکھتے
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَٰكِن لَّا يَعْلَمُونَ ( 13 ) بقرہ – الآية 13
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جس طرح اور لوگ ایمان لے آئے، تم بھی ایمان لے آؤ تو کہتے ہیں، بھلا جس طرح بےوقوف ایمان لے آئے ہیں اسی طرح ہم بھی ایمان لے آئیں؟ سن لو کہ یہی بےوقوف ہیں لیکن نہیں جانتے
وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا إِلَىٰ شَيَاطِينِهِمْ قَالُوا إِنَّا مَعَكُمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِئُونَ ( 14 ) بقرہ – الآية 14
اور یہ لوگ جب مومنوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں، اور جب اپنے شیطانوں میں جاتے ہیں تو (ان سے) کہتے ہیں کہ ہم تمھارے ساتھ ہیں اور (پیروانِ محمدﷺ سے) تو ہم ہنسی کیا کرتے ہیں
اللَّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ ( 15 ) بقرہ – الآية 15
ان (منافقوں) سے خدا ہنسی کرتا ہے اور انہیں مہلت دیئے جاتا ہے کہ شرارت وسرکشی میں پڑے بہک رہے ہیں
أُولَٰئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الضَّلَالَةَ بِالْهُدَىٰ فَمَا رَبِحَت تِّجَارَتُهُمْ وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ ( 16 ) بقرہ – الآية 16
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت چھوڑ کر گمراہی خریدی، تو نہ تو ان کی تجارت ہی نے کچھ نفع دیا اور نہ وہ ہدایت یاب ہی ہوئے۔
سوال نمبر ۱:
آیت نمبر ۶ میں یہ کہا جارہا ہے کہ جن لوگوں نے کفر کیا تم انہیں ڈراؤ یا نہ ڈراؤ یہ لوگ ایمان نہیں لانے والے۔تو یہاں جو پیشین گوئی کی گئی کہ یہ کفر کرنے والے ایمان نہیں لائیں گے وہ تو غلط ہوگئی؟کیونکہ اس آیت کے نزول کے بعد بھی بے شمار لوگ ایسے تھے جنہوں نے ایمان قبول کیا خاص طور پر فتح مکہ ہیں۔
جواب:یہاں کفر کرنے والوں سے مراد لازمی سی بات ہے کہ کوئی مخصوص گروہ ہے۔ اب یا تو اس گروہ کی اپنی خصوصیات کی بنا پر نشاندہی ہوسکتی ہے یا کسی گروہی وابستگی کی بنا پر۔خصوصیات کی بنا پر نشاندہی اگر کی جائے تو یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہر صورت میں ماننے سے انکار کردیا اور تعصب ، نفرت ، عناد، بغض اور دنیا پرستی کی حدوں کو پار کرلیا ۔ گروہی وابستگی کی بنیاد پر اگر دیکھا جائے تو اس سے مراد قرآن کے ابتدائی طور تمام ہی مخلاطبین ہیں ۔ ان میں سر فہرست تو یہود ہیں کیونکہ یہی اس سورہ کے اصلا مخاطب ہیں۔ اس کے علاوہ منافقین ، قریش کے سردار وغیرہ سب شامل ہیں۔
ان آیات میں ایک اصول سب ہی نے نہ صرف سمجھا بلکہ اپلائی کرلیا کہ یہاں اللہ نے تعالیٰ نے فرمایا کہ جن لوگوں نے کفر کیا تو تم انہیں ڈراؤ یا نہ ڈراؤ برابر ہے، یہ ایمان لانے والے نہیں۔ تو یہاں “جن لوگوں نے کفر کیا” سے مراد سارے کفر کرنے والے لوگ نہیں بلکہ مخصوص گروہ ہے۔ یہ اصول بےحد اہم ہے۔ یہاں تو بات واضح تھی اس لئے کسی نے الحمدللہ بات متعین کرنے میں غلطی نہیں کی ۔ لیکن قرآن میں یہ اسلوب جگہ جگہ مختلف پیرائے میں استعمال ہوا ہے اور وہاں بڑے بڑے مفسرین بھی غلطی کردیتے ہیں۔ جیسے آل عمران میں بیان ہوتا ہے:
مَآ اَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ ۡ وَمَآ اَصَابَكَ مِنْ سَيِّئَةٍ فَمِنْ َّفْسِكَ ۭوَاَرْسَلْنٰكَ لِلنَّاسِ رَسُوْلًا ۭ وَكَفٰى بِاللّٰهِ شَهِيْدًا 79
اے انسان ! تجھے جو بھلائی بھی حاصل ہوتی ہے اللہ کی عنایت سے ہوتی ہے ، اور جو مصبتل تجھ پر آتی ہے وہ ترہے اپنے کسب و عمل کی بدولت ہے ۔اے محمد ! ہم نے تم کو لوگوں کے لےْ رسول بنا کر بھجاا ہے اور اس پر خدا کی گواہی کافی ہے ۔
یہاں آپ دیکھیں کہ یہ کہا جارہا ہے کہ جو برائی بھی انسا ن کو پہنچتی ہے وہ انسان کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے یعنی اس کا ذمہ دار وہی ہے۔ لیکن اگر آپ مشاہد کریں تو بے شمار ایسی برائیاں ہیں جن کا انسان یا وہ انسان قصوروار نہیں۔ کوئی اناڑی ڈرائیور غلطی کرتا ہے تو مرتا بے چارے غریب کا بچہ۔ اس میں بچہ نے کیا برائی کی تھی۔ ایسے ہی زلزلہ یا قدرتی آفات میں تو انسانی کی کمائی کا کیا دخل؟ تو یہاں ایک عام شخص کے ذہن میں قرآن کے حوالے سے اعتراضات پید ہوتے ہیں اور اس کی وجہ یہ تعمیم یعنی جنرلائز کرنا ہے۔ لیکن جس طرح سورہ بقرہ کی آیت میں آپ نے سیکھ لیا کہ کفر کرنے والوں سے مراد مخصوص لوگ ہیں اسی طرح یہاں اس آیت کا مطلب کہ
جو مصبتل تجھ پر آتی ہے وہ ترںے اپنے کسب و عمل کی بدولت ہے ۔ کا مطلب مخصوص سیاق و سباق اور مخصوص عمل کے لئے ہے اور یہ تناظر ان آیات میں اس وقت غزوہ احد میں مسلمانوں کی شکست ہے ۔ یعنی یہاں احد میں مسلمانوں کی شکست کے حوالے سے بات کی جارہی ہے اور اسے اگر جنرلائز کردیا گیا تو کنفیوژن کے سوال کچھ حاصل نہ ہوگا۔
سوال نمبر ۲:آیت نمبر سات میں ہے :”خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا دی اور ان کی آنکھوں پر پردہ ڈالدیا اور ان کے لیے بڑا عذاب (تیار) ہے۔ “سوال یہ ہے کہ اگر خدا ہی نے ان کے کانوں اور دلوں پر مہر لگادی تو اس میں ان لوگوں کا کیا قصور؟
جواب: اس کامطلب یہی ہے کہ یوں نہیں کہ اللہ نے پہلے ان کے دلوں پر مہر لگائی اور بعد میں انہوں نے کفر کا ارتکاب کیا۔ بلکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ پہلے انہوں نے اپنی خوہش پرستی کی بنا پر ماننے سے انکار کردیا تو بعد میں ا للہ نےا ن کے دلوں پر مہر لگادی۔ یہ مہر الل ٹپ نہیں لگائی گئی بلکہ ایک قاعدے اور قانون کے تحت اللہ نے لگائی۔
میں اس کے ٹیکنکل پہلو پر بھی روشنی ڈالدوں۔ قرآن میں ایک اور اصول یہ بھی ہے کہ اکثر اوقات اللہ تعالیٰ کسی کام کی نسبت اپنی جانب کرلیتے ہیں جس کے سطحی مطالعے سے غلط فہمیاں پیدا ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
“اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے گمراہ کردیتا ہے۔”
یہاں لوگ عموما یہ مفہوم نکال لیتے ہیں کہ اللہ بلا سوچے سمجھے الل ٹپ بس جسے چاہے ہدایت دے دے اور جسے چاہے گمراہ کردے۔ حالانکہ یہاں صرف یہ بتایا جارہا ہے کہ انسان کی ہدایت و ضلالت کسی داعی کے ہاتھ میں نہیں اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے کیونکہ وہی کامل علم و حکمت رکھتا ہے۔ یعنی یہاں ہدایت و ضلالت کا قانون بیان نہیں ہوا بلکہ بات کو کسی اور پہلو سے سمجھایا گیا ہے۔لیکن جب ہدایت و ضلالت کا قانون بیان کیا جاتا ہے تو بات مکمل بیان کی جاتی ہے۔ جیسا کہ قرآن میں بیان ہوتا ہے کہ “اللہ اس( قران ) کے ذریعے بہت سو ں کو ہدایت دے دیتا اور بہت سوں کو گمراہ کردیتا ہے اور وہ گمراہ انہی کو کرتا ہے جو فاسق ہوتے ہیں۔”
سوال نمبر ۳:
آیت نمبر دس میں بیا ن ہوتا ہے:ان کے دلوں میں مرض تھا۔ خدا نے ان کا مرض اور زیادہ کر دیا اور ان کےجھٹلانے کے سبب۔ ان کو دکھ دینے والا عذاب ہوگا۔یہ کون سا مرض تھا جس کی جانب اشارہ کیا گیا؟
جواب۔ اس کا جواب سب ہی نے بہت عمدہ دیا۔ عمومی طور یہ کہا گیا کہ یہ مرض حسد، نفاق، تعصب ، دنیا پرستی، جھوٹ بولنے، کفر کرنے وغیرہ کا تھا۔ لیکن ایک جواب مجھے بہت پسند آیا کیونکہ وہی حقیقت معلوم ہوتی ہے۔ ان تمام امراض کی جڑ خواہش نفس کو اپنا معبود بنالینا ہے۔ چنانچہ اس کا درست جواب یہ ہے کہ اصل مرض تو خواہش نفس و دنیا پرستی تھا اورا س کا اظہار حسد، عناد، بغض، نفاق، تعصب وغیرہ جیسی صفات سے ہوتا تھا۔
سوال نمبر ۴:اگلی آیت میں ہے:اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ ڈالو تو کہتے ہیں، ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں۔یہاں فساد سے کیا مراد ہے؟
جواب: یہاں فساد یوں تو ایک عمومی انداز میں آیا ہے لیکن جو مضمون چل رہا ہے اس میں فساد سے مراد حق پرستی کا انکار ہے ۔ یہی انکارحق تمام فساد کی جڑ ہے۔ اسی سے کرپشن، قتل و غارت گری، بے ایمانی جھوٹ، بے ہودگی پیدا ہوتی ہیں۔ یہ فساد یہود میں بہت عام تھا۔
سوال نمبر ۵: آیت میں آتا ہے:”اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جس طرح اور لوگ ایمان لے آئے، تم بھی ایمان لے آؤ تو کہتے ہیں، بھلا جس طرح بےوقوف ایمان لے آئے ہیں اسی طرح ہم بھی ایمان لے آئیں؟ سن لو کہ یہی بےوقوف ہیں لیکن نہیں جانتے۔”ان آیات میں کن لوگوں کی جانب اشارہ ہے کہ یہ لوگ بے وقوف لوگ ہیں؟”
جواب : یہاں بے وقوف سے مراد وہی لوگ ہیں جو ان آیات میں مخاطب ہیں۔ یعنی منافقین۔
