پہلا حصہ: فحاشی کی نوعیت
اللہ تعالی نے مرد اور عورت کے رشتے میں ایک عمومی حرمت قائم کی ہے یعنی عورت اور مرد کے آزادانہ جنسی اختلاط پر پابندی لگائی ہے۔ اس پابندی کے دو مقاصد ہیں ۔ ایک تو یہ کہ ایک ایسی سوسائیٹی قائم ہو جس کی بنیاد آزادانہ جنسی تعلق کی بجائے نکاح کے اصول پر ہو تاکہ ایک مضبوط خاندانی نظام کو فروغ دیا جاسکے۔ اس پابندی کا دوسرا مقصد انسان کو آزمانا ہے کہ کون اپنے نفس کے منہ زور تقاضوں کو لگام دے کر خدا کی اطاعت و بندگی اختیار کرتا ہے اور کون اپنے نفس کو آلودہ کرکے اللہ کی نافرمانی کا مرتکب ہوتا ہے۔
جونہی انسان کی زندگی کا آغاز ہوا، انسان کے ازلی دشمن شیطان نے انسان پر یلغار کردی اور اسے راہ راست سے بھٹکانے کے لئے الٹے سیدھے ہتھکنڈے استعمال کرنا شروع کردئیے۔ ان چالوں میں ایک اہم منصوبہ یہ تھا کہ انسان کو بے حیائی اور برہنگی کی جانب راغب کیا جائے۔ چنانچہ جب حضرت آدم و حوا علیہماالسلام کو جنت میں بھیجا گیا تو شیطان نے سب سے پہلے انہیں درخت کا پھل کھانے کی ترغیب دی تاکہ وہ اپنے رب کی نافرمانی کا ارتکاب کرنے کے ساتھ ساتھ بے لباسی اور برہنگی کا شکار ہوجائیں ۔سورہ اعراف میں بیان ہوتا ہے:
“پھر شیطان نے ان دونوں کے دل میں وسوسہ ڈالا۔ تاکہ ان کی شرمگاہیں جو ایک دوسرے سے چھپائی گئی تھیں، انہیں کے سامنے کھول دے اور کہنے لگا: ”تمہیں تمہارے پروردگار نے اس درخت سے صرف اس لئے روکا ہے کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ یا تم ہمیشہ یہاں رہنے والے نہ بن جاؤ”۔ (الاعراف ۲۰:۷)
اس کے بعد جب حضرت آدم و حوا نے اس درخت کا پھل چکھ لیا تو اس کا نتیجہ اسی برہنگی کی صورت میں سامنے آیا :
“چنانچہ ان دونوں کو دھوکا دے کر آہستہ آہستہ اپنی بات پر مائل کر ہی لیا۔ پھر جب انہوں نے اس درخت کو چکھ لیا تو ان کی شرمگاہیں ایک دوسرے پر ظاہر ہوگئیں اور وہ جنت کے پتے اپنی شرمگاہوں پر چپکانے لگے۔ اس وقت ان کے پروردگار نے انہیں پکارا کہ ”:کیا میں نے تمہیں اس درخت سے روکا نہ تھا اور یہ نہ کہا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے؟”۔ (الاعراف۲۲:۷)
پھر جب اللہ نے حضرت آدم اور حوا علیہماالسلام کو اس دنیا میں بھیجا تو انسانیت کو خبردار کردیا کہ شیطان اس دنیا میں بھی سب سے زیادہ جہاں سے حملہ آور ہوگا وہ یہی بے لباسی اور بے حیائی ہی ہوگی:
“اے بنی آدم! ایسا نہ ہو کہ شیطان تمہیں فتنے میں مبتلا کردے جیسا کہ اس نے تمہارے والدین کو جنت سے نکلوا دیا تھا اور ان سے ان کے لباس اتروا دیئے تھے تاکہ ان کی شرمگاہیں انہیں دکھلا دے۔ وہ اور اس کا قبیلہ تمہیں ایسی جگہ سے دیکھتے ہیں جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھ سکتے۔ ہم نے شیطانوں کو ان لوگوں کا سرپرست بنادیا ہے جو ایمان نہیں لاتے۔”(الاعراف۲۲:۷)
حیا داری کی ہدایت
شیطان کی اس دراندازی اور نفس کے منہ زور تقاضوں کے باعث اللہ تعالیٰ نے فطرت اور وحی دونوں کے ذریعے انسان کو حیا اختیار کرنے کی واضح اور بین ہدایات دی ہیں ۔ فحاشی کی ابتدا مردو عورت کے غلط روئیے اور طرز عمل سے پید ا ہوتی ہے۔ اگر ابتدا ہی سے درست اور حیاپر مبنی رویہ اختیار کیا جائے تو بے حیائی کی روک تھام آسان ہے۔
اسی لئے قرآن میں بیان ہوتا ہے:
“(اے نبی)! مومن مردوں سے کہئے کہ وہ اپنی نگاہیں پست رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں۔ یہ ان کے لئے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے۔ اور جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اس سے باخبر ہے۔اور مومن عورتوں سے بھی کہئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر جو از خود ظاہر ہو جائے۔ اور اپنی اوڑھنیاں اپنے سینوں پر ڈال لیا کریں اور اپنے بناؤ سنگھار کو ظاہر نہ کریں مگر ان لوگوں کے سامنے جو ان کے خاوند، باپ، خاوند کے باپ (سسر) بیٹے، اپنے شوہروں کے بیٹے (سوتیلے بیٹے) بھائی، بھتیجے، بھانجے، میل جول والی عورتیں، کنیزیں یا جن کی وہ مالک ہوں، اور اپنے خادم مرد جو عورتوں کی حاجت نہ رکھتے ہوں اور ایسے لڑکے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئے ہوں ۔ اور اپنے پاؤں زمین پر مارتے ہوئے نہ چلیں کہ جو زینت انہوں نے چھپا رکھی ہے اس کا لوگوں کو علم ہوجائے اور اے ایمان والو! تم سب مل کر اللہ کے حضور توبہ کرو توقع ہے کہ تم کامیاب ہوجاؤ گے۔”(النور ۲۴: آیات ۳۰-۳۱)
ان آیات میں بے حیائی کے دروازے اور کھڑکیاں بند کردئیے گئے۔ سب سے پہلے مرد اور پھر خواتین کو ہدایت دی گئی کہ میل جو ل کے وقت اپنے نگاہیں پست رکھیں یعنی ان میں پاکیزگی پیدا کریں۔ پھر دونوں کو ہدایت دی گئی کہ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں یعنی انہیں چھپانے، پوشیدہ رکھنے اور حیا اختیار کرنے کے اقدام کریں اس کے ساتھ ساتھ شرمگاہوں کو صرف شریعت کے بیان کردہ دائرہ میں استعمال کریں۔ تیسری ہدایت خواتین سے متعلق ہے جس کی وجہ خواتین کی جسمانی ساخت ہے۔اس میں یہ ہدایت ہے کہ مخلوط جگہوں پر خواتین اپنے سینے کو نامحرموں کے سامنے ڈھانپنے کا اہتمام کریں اور اسی کے ساتھ ایسے کوئی اقدام نہ کریں کہ لوگوں میں جنسی طور پر رغبت پیدا ہو جیسے چھن چھن کرتے ہوئے پائل کے ساتھ مردوں کی محفل سے گذرنا، لگاوٹ بھری باتیں کرنا، متوجہ کرنے والی خوشبو لگانا، نامناسب لباس پہننا وغیرہ ۔
اسی بات کو ایک حدیث میں بیان کیا گیا ہے:
زید بن طلحہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہ ہر دین کا ایک وصف ہے اور اسلام کا وصف حیاء ہے ۔( موطا امام مالک:جلد اول:حدیث نمبر 1545)
فحاشی کی ممانعت
حیا داری کو مثبت طور پر بیان کرنے کے بعد فحاشی و بے حیائی پر قدغن لگادی گئی تاکہ معاشرے کو اس قسم کے کسی بھی اثر سے پاک رکھا جائے۔قرآن و حدیث میں فحاشی کی واشگاف الفاظ میں ممانعت بیان کردی گئی ہے تاکہ کسی قسم کا کوئی ابہام نہ رہے۔
قرآن:
قرآن میں فحاشی کی مذمت مختلف پیرایوں میں کی گئی ہے۔
۱۔اللہ تعالیٰ نے کسی ابہام کے بغیر یہ بتادیا کہ فحاشی کو اللہ نے حرام کردیا ہے خواہ ان کی نوعیت پوشیدہ ہو یا ظاہر کی ہو :
“آپ ان سے کہئے:”آؤ! میں تمہیں بتاؤں کہ تمہارے پروردگار نے تم پر کیا کچھ حرام کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔ یہ کہ فحاشی کے قریب بھی نہ جاؤ، خواہ یہ کھلی ہوں یا چھپی ہوں۔۔۔۔”(الانعام ۶: ۱۵۱)
۲۔جنسی تقاضے کی شدت اور اہمیت کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہت اچھے طریقے سے خبردار کردیا کہ شیطان یہی سے وار کرے گا ۔ اس بات کی اہمیت کی بنا پر قرآن نے جگہ جگہ یہ بتایا ہے کہ شیطان فحاشی و عریانی کے ذریعے انسانیت کو گمراہ کرنے کے درپے ہے۔
“وہ (شیطان )تو تمہیں برائی اور فحاشی کا ہی حکم دیتا ہے۔ نیز اس بات کا کہ تم اللہ کے ذمے ایسی باتیں لگا دو جن کا تمہیں خود علم نہیں۔(البقرہ ۱۶۹:۲)”
۳۔ ایک اور جگہ بیان کیا:
“اور زنا کے قریب بھی نہ جاؤ۔ کیونکہ وہ فحاشی اور برا راستہ ہے۔”(بنی اسرائل ۳۲:۱۷)”
۴۔زنا کی شناعت کی بنا پر خود اللہ نے قرآن میں زنا کرنے والوں کی سزا مقرر کردی جو اسلامی حکومت دے گی:
“زانی عورت ہو یا مرد، ان میں سے ہر ایک کو سو درے لگاؤ، اور اگر تم اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو تو اللہ کے دین کے معاملہ تمہیں ان دونوں (میں سے کسی) پر بھی ترس نہ آنا چاہئے۔ اور مسلمانوں میں سے ایک گروہ ان کی سزا وقت موجود ہونا چاہئے۔”(النور ۲:۲۴)
۵۔زانی سے اس قدر سخت بے زاری کا اظہار کیا کہ اللہ نے زانی کا نکاح کسی مومن سے کرنے کو منع فرمادیا اور زانی کو مشرک کے برابر لاکھڑا کیا:
“زانی نکاح نہ کرے مگر زانیہ یا مشرکہ عورت کے ساتھ، اور زانیہ کے ساتھ وہی نکاح کرے جو خود زانی یا مشرک ہو ۔ اور اہل ایمان پر یہ کام حرام کردیا گیا ہے۔”(النور ۳:۲۴)
۶۔زنا کو اللہ نے شرک اور قتل جیسے دوگناہوں کے ساتھ بیان کیا ہے جن کی سزا ابدی جہنم ہے:
“اور اللہ کے ساتھ کسی اور الٰہ کو نہیں پکارتے نہ ہی اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق قتل کرتے ہیں اور نہ زنا کرتے ہیں اور جو شخص ایسے کام کرے گا ان کی سزا پاکے رہے گا۔”(الفرقان ۶۸:۲۵)
۷۔ بڑے گناہ اور فحاشی سے بچنے پر اللہ نے مغفرت کی نوید سنائی ہے:
“جو کبیرہ گنا ہوں اور فحاشی کے کاموں سے بچتے ہیں اِلا یہ کہ چھوٹے گناہ (ان سے سرزدہوجائیں) بلاشبہ آپ کے پروردگار کی مغفرت بہت وسیع ہے۔” (النجم ۳۲:۵۳)
احادیث میں فحاشی کی مذمت
۱۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ہمارے لئے بہترین نمونہ ہے آپ کے بارے میں بیان ہوتا ہے:
“حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فحش گو اور فحش کام کرنے والے نہیں تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سب لوگوں میں مجھ کو وہ شخص زیادہ پسند ہے جو تم میں سب سے زیادہ خوش خلق ہو۔ “(صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 996)
۲۔ایک اور حدیث میں بیان ہوتا ہے:
“حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ سے بڑھ کر کسی کو اپنی تعریف و مدح پسند نہیں ہے اسی وجہ سے اللہ نے خود اپنی تعریف بیان کی ہے اور اللہ سے بڑھ کر کوئی غیرت مند نہیں ہے اسی وجہ سے فحاشی کے کاموں کو حرام کیا ہے۔”( صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2490)
۳۔”حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حیاء ایمان کا حصہ ہے اور ایمان جنت میں لے جاتا ہے۔ فحاشی ظلم ہے اور ظلم جہنم میں لے جاتا ہے۔ “(جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 2097)
۴۔” عبداللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ سے زیادہ کوئی غیرت مند نہیں اسی لئے اس نے فحش باتوں کو حرام کیا ہے اور اللہ سے زیادہ کسی کو تعریف پسند نہیں ہے۔”( صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 2301)
۵۔اسی بے حیا ئی کو ایک اور پیرائے میں بیان کیا گیا ہے
“ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دوزخ والوں کی دو قسمیں ایسی ہیں کہ جنہیں میں نے نہیں دیکھا ایک قسم ۔۔۔۔ ان عورتوں کی ہے جو لباس پہننے کے باوجود ننگی ہیں وہ سیدھے راستے سے بہکانے والی اور خود بھی بھٹکی ہوئی ہیں ان عورتوں کے سر بختی اونٹوں کی طرح ایک طرف جھکے ہوئے ہیں وہ عورتیں جنت میں داخل نہیں ہوں گی اور نہ ہی جنت کی خوشبو پا سکیں گی جنت کی خوشبو اتنی اتنی مسافت(یعنی دور) سے محسوس کی جا سکتی ہے۔”( صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 1085)
اس حدیث سے یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے کہ اس میں صرف خواتین کی مذمت کی گئی ہے۔ دراصل یہ حدیث اس روئیے کی مذمت میں کی گئی ہے جو جنس مخالف کو زنا کی جانب اکسانے کے لئے اپنایا جائے۔ اس میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ یہ وہ اوباش اور آوارہ عورتیں ہیں جو خود بھی بھٹکی ہوئی ہیں اور دوسروں کو بھی بھٹکانے کا باعث بنتی ہیں۔ یہی رویہ اگر مردوں میں پایا جائے تو قابل مذمت ہے۔ مثال کے طور پر کوئی آوارہ لڑکا عورتوں کو بہکائے، انہیں اپنے لباس ، چکنی چپڑِ ی باتوں ، اپنی پر کشش شخصیت یا اپنے دولت کے جھانسے میں لے کر ان کو غلط کام پر اکسائے یا و ورغلائے تو ا وہ بھی اس حدیث کی وعید میں آئے گا اور وہ بھی انشاءاللہ نہ جنت میں داخل ہوپائے گا اور نہ ہی اس کی خوشبو پاسکے گا۔
۶۔یہاں صرف عورتوں ہی پر قدغن نہیں لگائی ہے بلکہ مردوں کو بھی کچھ اقدام کرنے کا حکم دیا ہے چنانچہ حدیث میں بیان ہوتا ہے:
“حضرت عقبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عورتوں کے پاس(تنہائی میں ) جانے سے بچو انصار میں سے ایک آدمی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ صلی اللہ علیہ وسلم دیور کے بارے میں کیا حکم فرماتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دیور تو (تنہائی میں )موت ہے۔” ( صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 1177)۔
۷۔نامحرم عورت کو چھونے میں اس قدر احتیاط رکھی گئی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی کسی نامحرم عورت کو نہیں چھوا ۔
“حضرت عروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اسے عورتوں کی بیعت کی کیفیت کی خبر دی کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی عورت کو اپنے ہاتھ سے نہیں چھوا ہاں جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیعت لیتے اور عورت(زبانی) عہد کر لیتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم (زبان سے) فرما دیتے جاؤ میں نے تجھے بیعت کر لیا۔”( صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 338)
۷۔ آخر میں ایک اہم بشارت اس ضمن میں بیان کی گئی ہے:
“سہل رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن سعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جو شخص اپنے دونوں جبڑوں کے درمیان کی چیز (زبان) اور دونوں ٹانگوں کے درمیان کی چیز (یعنی شرمگاہ) کا ضامن ہو تو اس کے لئے جنت کا ضامن ہوں”( صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1395)۔
فحاشی کی تعریف
ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فحاشی کیا ہے:
“فحاشی سے مراد ہر وہ عمل ہے جو ناجائز جنسی لذت کے حصول کے لئے کیا جائے یا جس کے ذریعے جنسی اعضاء یا فعل کی اس نیت سے اشاعت کی جائے کہ جنسی اشتہا بھڑکے یا جنسی تسکین حاصل ہو ۔ ”
وضاحت
زنا و اغلام بازی تو واضح طور پر ایک فحش عمل ہے ۔البتہ وہ امور جو زنا سےقریب کرنے کا ذریعہ ہوں وہ بھی فحاشی ہی ہیں۔چنانچہ شرعی اجازت کے بغیر بوس و کنار کرنا، نگاہوں کا جنسی مناظر دیکھنا، کانوں کا بے حیائی کی باتیں یا فحش موسیقی سننا، ہاتھوں کا جنسی لذت حاصل کرنا، زبان کا فحش گوئی میں ملوث ہونا اور دماغ کا فحش سوچوں غلطاں ہونا اسی لحاظ سے فحش فعل کے زمرے میں آتا ہے ۔
قرآن میں بڑی فحاشی زنا کو کہا گیا ہے۔
“اور زنا کے قریب بھی نہ جاؤ۔ کیونکہ وہ فحاشی اور برا راستہ ہے۔”(بنی اسرائیل ۳۲:۱۷)
حدیث میں بیان ہوتا ہے:
“حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ابن آدم پر اس کے زنا سے حصہ لکھ دیا گیا ہے وہ لا محالہ اسے ملے گا پس آنکھوں کا زنا دیکھنا ہے اور کانوں کا زنا سننا ہے اور زبان کا زنا گفتگو کرنا ہے اور ہاتھوں کا زنا پکڑنا ہے اور پاؤں کا زنا چلنا ہے اور دل کا گناہ خواہش اور تمنا کرنا ہے اور شرمگاہ اس کی تصدیق کرتی ہے یا تکذیب۔”( صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2253)
فحش مواد
” فحش مواد سے مراد وہ تحریر ، تصویر، وڈیو ، موسیقی، بات چیت ، اشارہ، لطیفہ ، عریانی یا کوئی اور طریقہ جس میں جنسی اعضاء یا فعل کو اس نیت سے دکھایا یا بیان کیا جائے کہ جنسی اشتہا بھڑکے یا یا جنسی تسکین حاصل ہو ۔”
مواد کے فحش ہونے کے لوازمات
کسی بھی مواد کا فحش ہونے کے لئے درج ذیل باتوں کا ہونا ضروری ہے:
۱۔ شرعی تعلق کے بغیر جنسی اعضا یا فعل کو دکھایا جائے یا بیان کیا جائے۔
۱۔ نیت جنسی اشتہا کے بھڑکانے یا جنسی تسکین کی ہو۔ چنانچہ میڈیکل ، قانونی یا کسی اور جائزمقصد کے تحت لٹریچر کی اشاعت فحش نہیں قرا پائے گی۔
دوسرا حصہ : فحاشی کی اشاعت
کسی بھی قسم کا فحش عمل کرنا اپنی ذات میں ایک قبیح فعل ہے لیکن یہ اس وقت قبیح تر ہوجاتا ہے جب اس کا چرچا عام کیا جائے۔ مثال کے طور پر کسی کا زنا کرنا قبیح فعل ہے لیکن اس زنا کا چرچا فیس بک پر کیا جائے تو یہ بے شمار لوگوں کی گمراہی کا سبب بن سکتا ہے۔چنانچہ ایک طرف تو فحاشی سے خود کو بچانا بہت ضروری ہے اور دوسری جانب فحاشی کی اشاعت کرنا، اسے پھیلانا، اس کا چرچا لوگوں میں کرنا، اسے مختلف میڈیا کے ذریعے آگے بڑھانا بھی ایک بڑا گناہ ہے ۔
فحاشی کی اشاعت کا مفہوم
فحاشی کی اشاعت سے مراد یہ ہے کہ جنسی معاملات سے متعلق کوئی بھی بات یا مواد بغیر کسی جائز وجہ کے آگے پہنچادیا جائے۔
چنانچہ لذت کے حصول ، پیسہ کمانے، وقت پاس کرنے یا محض لوگوں کو متاثر کرنے کے لئے کوئی بھی جنسی مواد کسی غیر متعلقہ شخص تک پہنچانا اشاعت فاحشہ ہے خواہ یہ مواد، تحریر، تقریر، تصویر، وڈیو، آڈیو، اشارے یا کسی بھی صورت میں ہو۔
مولانا مودوی فرماتے ہیں:
“ان کا اطلاق عملاً بد کاری کے اڈے قائم کرنے پر بھی ہوتا ہے اور بد اخلاقی کی ترغیب دینے والے اور اس کے لیے جذبات کو اکسانے والے قصوں، اشعار، گانوں، تصویروں اور کھیل تماشوں پر بھی۔ نیز وہ کلب اور ہوٹل اور دوسرے ادارے بھی ان کی زد میں آ جاتے ہیں جن میں مخلوط رقص اور مخلوط تفریحات کا انتظام کیا جاتا ہے۔” (تفہیم القرآن-تفسیر سورہ نور)
اشاعت فاحشہ کی ممانعت
قرآن میں بیان ہوتا ہے:
“بلاشبہ جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں فحاشی کی اشاعت ہو ان کے لیے ایک بڑا ہی دردناک عذاب ہے، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، اللہ جانتا ہے اور تم لوگ نہیں جانتے۔”(النور ۱۹:۲۴)
یہا ں تک کہ خلوت میں کی گئی نشست جو میاں بیوی کے درمیان ہوتی ہے اس کا بیان بھی کسی طور جائز نہیں ۔ جیسا کہ اس حدیث میں بیان ہوتا ہے:
“حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا لوگوں میں سب سے برا اللہ کے نزدیک مرتبہ کے اعتبار سے قیامت کے دن وہ آدمی ہوگا جو اپنی عورت کے پاس جائے اور اس سے جماع کرے پھر اس عورت کے( جنسی تعلق کے) راز کو پھیلاتا ہے۔” ( صحیح مسلم:جلد دوم:حدیث نمبر 1050)
یہاں دیکھیں کہ میاں بیوی کے جائز تعلق کی باتیں بھی بیان کرنا ناجائز ہیں چہ جائیکہ فحش ناجائز تعلقات کی باتیں بیان کی جائیں ۔چنانچہ کسی طور بھی فحش مواد پر مبنی لٹریچر پر مبنی ایس ایم ایس، فیس بک ، ای میل ، اخبار و رسائل ، ٹی وی یا کسی اور ذریعے سے شائع کرنا یا آگے فارورڈ کرنا قطعا ناجائز ہے اور اس پر اللہ تعالیٰ نے سخت وعید بھی سنائی ہے کہ ایسا کرنے والوں کے لئے دنیاو آخرت میں دردناک عذاب ہے۔
فحاشی اور میڈیا
ابلاغ کا روایتی طریقہ بات چیت یا خط و کتابت ہے۔ سائنسی ایجادات کی بنا پر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا اور ٹیلی فون وغیرہ نے اس عمل کو تیز تر کردیا۔ لیکن دور جدید میں سوشل میڈیا کے آنے کے بعد اطلاعات کا ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونا سیکنڈوں کا کھیل بن گیا ہے۔ فیس بک، ٹوئیٹر یا دوسرے سوشل میڈیا پر صرف ایک کلک سے ایک بات ہزاروں یا لاکھوں لوگوں تک منتقل ہوجاتی ہے۔ اسی طرح ایس ایم ایس ، ای میل اور دوسرے میسجنگ کے طریقے بھی یہ کام کررہے ہوتے ہیں۔
میڈیا خواہ کوئی بھی ہو یہ اپنی تیز رفتاری کی بنا پر ڈیٹا کو ایک جگہ سے دوسری جگہ توپہنچادیتا ہے ۔ لیکن اس میں صحیح اور غلط کو پہچاننے یا بیان کرنے کی تمیز نہیں۔ چنانچہ یہ ڈیٹا درست بھی ہوسکتا ہے اور غلط بھی۔ سوشل میڈیا ، الیکٹرانک میڈیا ، پرنٹ میڈیا یا کسی اور ذریعے سے کسی بھی قسم کی بات چیت، خبر، تصویر، کوٹس، لطیفے، موویز، مووی کلپس ، کتاب، آرٹیکل یا کسی اور مواد کو شائع کرنے سے قبل اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہئے کہ وہ مواد اپنی نوعیت کے اعتبار سے غیر اخلاقی اور فحش نہ ہو۔
قرآ ن و حدیث کی واضح ہدایات کے برعکس میڈیا اس وقت مغرب کے زیر اثر مختلف نوعیت کی فحاشی و عریانی کو فروغ دے رہا ہے۔ اس میں ٹی وی کے اشتہارات، ڈرامے ، فلمیں، میوزیکل پروگرامز وغیرہ بھی شامل ہیں تو اخبار رسائل میں نیم عریاں تصاویر، ڈائجسٹوں کی فحش کہانیا ں بھی شامل ہیں۔ اسی طرح انٹرنیٹ پر ویب سائٹس نے تو ہر گھر اور ہر بیڈ روم میں عریانی و فحاشی کے دریچے کھول دئیے ہیں۔ چنانچہ پی سی، لیپ ٹاپ، موبائیل فونز، آئی پیڈ ، ٹیب وغیرہ جیسے ٹولز کے ذریعے فحش موادباآسانی ایک کلک پر دستیاب ہے۔اسلام کی سخت ہدایات کے باوجود لوگ عام طور پر اور نوجوان خاص طور پر فحش مواد سے اپنی آنکھوں کو آلودہ کرتے ، کانوں کو غلاظت سے بھرتے اور دماغ کے گوشوں میں عریانیت کے انڈوں بچوں کی پرورش کرتے ہیں۔
دوسری جانب ہمارے لوگ صرف فحش مواد کو خود استعمال کرنے پر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ اس کی اشاعت میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔جب ایک نوجوان کو کوئی عریاں تصویر ، فحش ایس ایم ایس، غلیظ لطیفہ، بے ہودہ مووی کلپ یا اور کوئی فحش مواد ملتا ہے تو وہ اسے آگے فارورڈ کرنے میں فخر محسوس کرتا ہے ۔اس طرح وہ خود بھی گناہ گار ہوتا اور دوسروں کے نفس کو بھی آلودہ کرنے کا سبب بنتا ہے۔ یہ اشاعت فاحشہ کے زمرے میں آتا ہے جس کی قرآن میں سخت الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔
اشاعت کی وجوہات
ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لوگ کیوں فحش مٹیریل کو تخلیق کرتے اور پھر اسے آگے پھیلاتے ہیں۔ اس ضمن میں دو طرح کے گروہ ہیں ۔ ایک گروہ تو وہ ہے جو باقاعدہ پیشہ ورانہ طور پر یہ کام کرتا اور اس سے رقم کماتا ہے ۔ ان میں ہراول دستے کی حیثیت تو عریاں فلموں کے پروڈیوسرز فنکار اور فحش رسالوں کے ایڈیٹرز کو حاصل ہے۔ جبکہ ان ہی کی قبیل میں وہ پروڈیوسرز، اداکار اور پبلشرز بھی شامل ہیں جو مکمل طور پر تو فحاشی کے داعی نہیں ہوتے لیکن نیم عریانی اور فحش مواد کے ذریعے اپنے ناولوں، ڈراموں اور فلموں میں چاشنی بھرنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہ سب لوگ وہ ہیں جو اپنی کمائی کو حرام بنا رہے ، معاشرے میں فساد کا ذریعہ بن رہے اور سوسائیٹی میں ہونے والے جنسی جرائم کے گناہوں کو اپنے کھاتے میں شامل کررہے ہیں۔
فحش مواد کو پھیلانے میں ایک اور طبقہ شامل ہے ۔ یہ وہ گروہ ہے جو پیسے کے لئے نہیں بلکہ صرف معمولی شہرت، پذیرائی یا توجہ حاصل کرنے کے ٖ لئے یہ کام کرتا ہے۔ان میں زیادہ تر نوجوان شامل ہوتے ہیں جو صرف معمولی توجہ کے حصول کے لئے فحش مواد کو فیس بک پر شئیر کردیتے، ای میل فارورڈ کردیتے، فحش کہانیاں آگے بیان کرتے، عریاں لطیفے ایس ایم ایس کردیتے یا کوئی وڈیو شئیر کرلیتے ہیں۔ انہیں اندازہ ہی نہیں کہ یہ معمولی سا کلک کتنی آنکھوں کو آلودہ کرتا ، کتنے کانوں میں غلاظت انڈیلتا، کتنی ہاتھوں کو اخلاق باختہ حرکتوں پر مجبور کرتا، کتنے ذہنوں کو نفسیاتی مریض بناتا، کتنے نوجوانوں کو جنسی جرائم میں ملوث کرتا اور کتنے ماں باپ کی نیندیں حرام کرتا ہے۔
فحاشی سے بچنے کے طریقے
۱۔ وہ نوجوان جو غیر شادی شدہ ہونے کی بنا پر اس عمل میں ملوث ہیں انہیں چاہئے کہ اگر نکاح کی استطاعت ہے تو فوری طور پر نکاح کرلیں۔ اسی بات کو قرآن میں یوں بیان کیا گیا ہے:
“اور تم میں سے جو لوگ کنوارے ہیں ان کے نکاح کردو ۔ اور اپنے لونڈی، غلاموں کے بھی جو نکاح کے قابل ہوں ۔ اگر وہ محتاج ہیں تو اللہ اپنی مہربانی سے انھیں غنی کردے گا۔ اور اللہ بڑی وسعت والا اور جاننے والا ہے۔”(النور ۳۲:۲۴)
یہاں واضح طور پر بیان کردیا گیا کہ اگر کوئی اس بنا پر نکاح نہیں کرتا کہ وہ مالی طور پر مستحکم نہیں یا اس کے مال میں کچھ کمی ہے تو اللہ اسے اپنے فضل سے غنی کردے گا۔ اس سے اگلی آیت میں یہ بیان کیا گیا:
اور جو لوگ نکاح (کا سامان) نہیں پاتے انھیں پاکدامنی اختیار کرتے ہوئےبچے رہنا چاہیئے تاآنکہ اللہ انھیں اپنے فضل سے غنی کردے “(النور۳۳:۲۴)
یہاں ان لوگوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ جو لوگ نکاح کی بالکل ہی استطاعت نہیں رکھتے وہ انتظار کریں یہاں تک کہ اللہ انہیں اس قابل بنادیں۔ لیکن یہاں ایک لطیف اشارہ ہے کہ ایسے لوگ جو کسی وجہ سے نکاح نہیں کرپارہے انہیں یہ نہیں کہا گیا کہ و ہ زنا کا راستہ اختیار کرلیں یا فحش مناظر دیکھ کر اپنی خواہش کو پورا کرلیں۔ بلکہ انہیں واضح طور پر بتایا گیا کہ وہ پاک دامنی اختیار کریں اور اپنے دامن کو ہر قسم کی غلاظت سے پاک رکھیں۔یہ پاکدامنی کس طرح اختیار کی جائے گی اس کا حل اس حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ جو کنوارے لوگ ہیں وہ نکاح کرلیں اور اگر اس کی استطاعت نہیں تو روزے رکھیں کیونکہ روزہ شہوت کم کرتا ہے۔حدیث میں آتا ہے کہ
“ابراہیم، علقمہ کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن مسعود کے ساتھ چل رہا تھا، تو انہوں نے کہا کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے، آپ نے فرمایا کہ جو شخص مہر ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو تو وہ نکاح کرلے اس لئے کہ وہ نگاہ کو نیچی کرتا ہے اور شرمگاہ کو زنا سے محفوظ رکھتا ہے اور جس کو اس کی طاقت نہ ہو تو وہ روزے رکھے اس لئے کہ روزہ اس کو خصی بنا دیتا ہے” ( صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 1787)۔
۲۔ وہ لوگ جو شادی شدہ ہونے کے باوجود فحاشی کا لٹریچر استعمال کرتے ہیں انہیں چاہئے کہ اپنے شریک حیات کی قدر کریں اور اپنی جنسی لذت کو وہیں تک محدو د کریں۔ اس سے قلب میں وہ پاکیزگی پیدا ہوگی جس کا نعم البدل عریاں مواد ہرگز نہیں ہوسکتا۔حدیث ہے کہ:
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک عورت کو دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بیوی زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس آئے اور وہ اس وقت کھال کو رنگ دے رہی تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حاجت پوری فرمائی پھر اپنے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی طرف تشریف لے گئے تو فرمایا کہ ( نامحرم )عورت شیطان کی شکل میں سامنے آتی ہے اور شیطانی صورت میں پیٹھ پھیرتی ہے پس جب تم میں سے کوئی کسی عورت کو دیکھے(اور اس کے حسن سے متاثر ہو جائے ) تو اپنی بیوی کے پاس آئے۔( صحیح مسلم:جلد دوم:حدیث نمبر 914)
۳۔ نگاہوں کی حفاظت کریں، خیالات میں پاکیزگی پیدا کریں اور یہ اسی وقت ممکن ہوگا کہ آپ ایسے ماحول میں رہیں جہاں فحش مواد نہ پایا جاتاہو۔ چنانچہ انٹرنیٹ ضرورت کے تحت استعمال کریں، کمپیوٹر ، لیپ ٹاپیا کوئی اور ڈیوائس پبلک میں استعمال کریں یعنی اس طرح کہ لوگ باآسانی آتے جاتے اسے دیکھ لیں ۔ اس جھجھک سے بھی اس ماحول سے نجات مل سکتی ہے۔
۵۔ وہ مقامات جہاں نامحرم سے ملاقات کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں وہا ں سورہ نور کی آیت کے مطابق لڑکے اور لڑکیا ں ایک دوسرے سے ملنے میں احتیاط رکھیں ۔ سب سے پہلے تو نگاہوں میں پاکیزگی ہو، شرمگاہوں اور ستر کو اچھی طرح ڈھانپ کررکھا ہو اورتیسرا یہ کہ کوئی ایسا اقدام نہ کیا جائے جوجنسی اشتعال کا سبب بنے۔ یہ ہدایات مرد اور عورت دونوں کے لئے ہیں۔
۶۔ کسی بھی فحاشی کا ارتکاب ہونے کی صورت میں اپنے اوپر جرمانے کا نظام نافذ کریں ۔ یعنی اگر آپ سے کوئی اس قسم کا کام ہوجاتا ہے تو خود مالی یا بدنی صورت میں جرمانہ ادا کریں۔ مثال کے طور پر یہ طے کرلیں کہ اگر کوشش کے باوجود اگر کوئی فحش سائٹ آپ نے دیکھ لی تو اپنی آمدنی کا کچھ حصہ اللہ کی راہ میں انفاق کریں گے۔ ایسا ہوجانے کی صورت میں اس پر سختی سے عمل کریں۔ اس کے علاوہ جرمانہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ خلاف ورزی پر روزہ رکھیں یا دس رکعت نماز ادا کریں وغیرہ۔ لیکن جرمانہ مقرر کرنے میں کافی سمجھداری کی ضرورت ہے ۔ جرمانہ نہ تو اتنا ہلکا ہو کہ نفس کو کچھ فرق ہی نہ پڑے اور نہ ہی یہ اتنا بھاری ہو کہ اس پر عمل کرنا ہی ممکن نہ ہو۔
۶۔ان ہدایات کے باوجود گناہ کا سرزد ہوجانا ممکن ہے۔ چنانچہ اگر کبھی حیا داری کی خلاف ورزی ہوجائے تو اعصاب پر قابو رکھیں۔ ایسی صورت میں شیطان یہ بات سکھاتا ہے کہ اب تو گناہ ہو ہی گیا اور رب ناراض ہوہی چکا ہے تو کیوں نہ کھل کر گنا ہ کیا جائے۔ کسی گناہ کے سرزد ہونے کے بعد مایوس نہ ہوں ۔ فورا جذبات کا غلبہ ختم ہونے کے بعد اللہ کی جانب رجوع کریں ۔ اس کا طریقہ یہی ہے کہ دو رکعت نماز پڑھ کر اللہ سے معافی مانگ لی جائے۔ یا پھر زبانی اللہ سے توبہ کرکے آئیندہ نہ کرنے کا عہد کیا جائے۔ اگر اس عہد کی خلاف ورزی نفس کے تقاضوں کے تحت باربار ہوجائے تو بار بار توبہ کی جائے کیونکہ توبہ کرنے کی صورت میں واپسی کا امکان ہے جبکہ توبہ و استغفار چھوڑدینے کی صورت میں کوئی واپسی کا امکان نہیں بچے گا۔
۵۔ خود کو مصروف رکھیں اور زیادہ سے زیادہ مثبت سرگرمیاں شروع کریں۔اسلامی ، دینی کتب کا مطالعہ کریں۔ اچھے لوگوں کی صحبت اختیار کریں۔
۶۔ جذبات کو بھڑکانے والی فلم ، ڈرامہ، ناول، سائٹ یا رسائل و جرائد سے پرہیز کریں۔
۷۔ جسمانی مشقت کریں اور کسی کھیل کود یا جسمانی ورزش میں خود کو مصروف کریں۔
۸۔ کسی بھی مشکل کی صورت میں اہل علم اور ایکسپرٹ لوگوں سے رجوع کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں۔
اشاعت فاحشہ سے بچنے کی تدابیر
کسی بھی قسم کے فحش مواد کو استعمال کرنا اپنی ذات میں ویسے ہی ایک گناہ ہے۔چنانچہ پہلے تو اس بات کی کوشش کرنی چاہئے کہ فحاشی سے بچا جائے اور خود کو فحش مواد کے استعمال سے ہر صورت میں روکا جائے۔ اسی کے ساتھ ساتھ اسے آگے شئیر کرنے سے بھی گریز کیا جائے۔ اس کے لئے درج ذیل ہدایات ہیں:
۱۔ وہ مسلمان پروڈیوسرز، ایڈیٹرز، مالکان، مصنفین ،فنکار، کیمرا مین اور معاونین جو پیشہ ورانہ طور پر فحاشی کی تخلیق اور اشاعت میں شریک ہیں انہیں سمجھ لینا چاہئے کہ وہ کئی طرح کے گناہوں میں ملوث ہیں۔ ایک تو وہ خود فحاشی کا شاکر ہیں، دوسرے اس کی اشاعت کررہے ہیں، تیسرے وہ کئی لوگوں کی گمراہی کا گناہ بھی کم ارہے ہیں اور چوتھا وہ حرام مال کمارہے ہیں۔ صرف اشاعت فاحشہ ہی کے گناہ کا بدلہ جہنم ہے تو باقی گناہوں کا مجموعی بدلہ کیا ہوگا اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اس سے بچنے کے لئے وہ اللہ سے دعا کریں کہ اور متبادل ذرائع آمدنی تلاش کریں۔ قرآن میں بیان ہوتا ہے کہ جو اللہ کا خوف اختیار کرتا ہے اللہ اسے ایسی جگہ سے رزق عطا کرتے ہیں جہاں سے اس کا گمان بھی نہیں ہوتا۔(سورہ الطلاق)
۲۔ وہ لوگ جو فیس بک یا دیگر سوشل ، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے فحش مواد شئیر کرتے اور آگے بڑھاتے ہیں انہیں سورہ نور میں بیان کردہ جہنم کی وعید یاد رکھنی چاہئے ۔ یوں بھی سستی مقبولیت کے لئے یہ ایک مہنگا سودا ہے کہ لوگوں کی خوش کرنے کے لئے آپ جہنم خرید لیں۔
۳۔ بعض اوقات یہ ہوتا ہے کہ کسی مواد میں کوئی دوسرا میسج ہوتا ہے لیکن اس میں فحاشی کا کوئی بالواسطہ پہلو پوشیدہ ہوتا ہے۔ چنانچہ کوئی بھی تصویر، مووی ، کوٹس، لطیفہ یا مواد شئیر کرنے سے پہلے ایک مرتبہ سوچ لیں کہ کہیں اس میں کوئی فحش عنصر تو شامل نہیں۔ اگر ایسا ہے تو رک جائیں۔
پروفیسر محمد عقیل
