Quantcast
Channel: ڈاکٹر محمد عقیل کا بلاگ
Viewing all articles
Browse latest Browse all 326

ویلنٹائن ڈے اور وہ

$
0
0


ویلنٹائن ڈے اور وہ
وہ خیر باد کہتے ہوئے جاڑے کی ایک حسین شام تھی ۔ چار سو دھوپ پگھلے ہوئے سونے کی طرح بکھری ہوئی تھی۔سرد ہوا کے جھونکے اس کے چہرے سے ٹکر ا رہے تھے۔ لیکن فضا اتنی یخ بھی نہ تھی کہ ناگوار گذرتی۔ بہار کی آمد نے کونپلوں کے تن چاک کردئیے تھے۔ اودے اودے، نیلے پیلے سرخ سفید غرض ہر طرح کے رنگو ں کے پھول چار و ں طرف نمودار ہونے کے درپے تھے۔ خزاں رسیدہ درختوں پر سبزے کی نوکوں نے سر نکال کر جھانکنا شروع کردیا تھا۔

شام کے پرندے اپنے اپنے مسکنوں کو لوٹنا شروع ہوگئے تھے ۔ اوپر نیلگوں آسمان کی بے کراں وسعت تھی تو نیچے سبز گھاس کا حسین کارپیٹ۔
وہ پارک میں کھڑا مصور اعظم کی کاریگری کی داد دےرہا تھا۔ ڈھلتی ہوئی شام کا ہر لمحہ اسے خدا کے قرب کا احساس دلا رہا تھا۔ اس نے خدا کی عظمت، اس کی قدرت، اس کی لطافت، اس کے جمال ، اس کے کمال، اس کےجلال کو دیکھا اور دیکھتا چلا گیا۔
اچانک اس کی نگاہ پارک میں بیٹھے ہوئے ایک جوڑے پر پڑی۔ دونوں کی ظاہری و ضع قطع سے لگ رہا تھاکہ ویلنٹائن ڈے منا رہے ہیں ۔ وہ چونکہ ان کے قریب ہی کھڑا تھا اس لئے دونوں کی باتیں باآسانی سن سکتا تھا۔ اس نے سنا کہ مرد کہہ رہا ہے:
” تم اس قدر حسین کیوں ہو؟ ”
عورت کے پاس اس بے تکے سوال کا کوئی جواب نہ تھا اور نہ وہ منطقی بکھیڑے میں پڑ کر اس مفت کی تعریف سے ہاتھ دھونا چاہتی تھی۔ بس وہ نظریں جھکا کر خاموش ہوگئی ۔
اس نے ایک اچٹتی ہوئی نگاہ لڑکی کے چہرے پر نظر ڈالی تو وہاں اسے حسن کی رعنائی ہونے کے باوجود اس عورت میں کوئی دلچسپی محسوس نہ ہوئی ۔اسے کچھ تجسس ہوا اور وہ ان کی باتیں اور غور سے سننے لگا۔ ان کی گفتگو سے اندازہ ہوا کہ دونوں شادی شدہ ہیں لیکن آپس میں نہیں۔ دونوں کی ملاقات کی ابتدا فیس بک سے ہوئی اور پھر ہوتی چلی گئی۔ دنوں بااولاد تھے لیکن اس بات کی انہیں کوئی پروا نہ تھی۔ وہ تو بس مغربی تہذیب کی اس رسم کو انجوائے کرنا چاہتے تھے، وہ آزادانہ جنسی اختلاط سے اپنی آزاد خیالی پر مہر ثبت کرنا اپنا فریضہ سمجھتے تھے، وہ حیا کی قدر کو دقیانوسی برقع سمجھ کر اتار پھینکنا چاہتے تھے۔
وہ ان کی باتوں سے سخت کبیدہ خاطر ہوگیا ۔اسےدونوں کی شکلوں اسے مکروہ بھیڑئیے کی مانند محسوس ہونے لگیں جو ایک دوسرے کی بوٹی نوچنے کے لئے دانت نکوس رہے ہوں، جو اپنی سفلی خواہش کو پورا کرنے کے لئے ہر طرح کی انسانیت سے پیچھا چھڑا نا چاہتے ہوں۔
اس نے اپنا رخ پھیر لیا اور آسمان کی جانب دیکھا۔ سورج کی آخری کرنیں زمین سے رخصت ہوا چاہتی تھیں اور اندھیرے کا عفریت ہر روشنی کو نگلنے کے درپے تھا ۔ وہ سمجھ گیا کہ اب اسے یہاں سے چلے جانا چاہئے وگرنہ اس دھیرے دھیرے آنے والی تاریکی میں وہ بھی اپنی راہ نہ گم کر بیٹھے۔
پروفیسر محمد عقیل



Viewing all articles
Browse latest Browse all 326

Trending Articles