عام طور پر یہ کہا اور سمجھا جاتا ہے کہ عقیدہ کا عقل سے کوئی تعلق نہیں ہوتا یا عقیدہ عقل سے ثابت نہیں کیا جاتا ، بس یہ تو ایک ماننے کی چیز ہے۔ دلچسپ بات ہے کہ یہ دعوی مسلمانوں کی جانب سے بھی کیا جاتا ہے ۔ لیکن جب ہم قرآن کے اسلوب اور اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دعوت کو دیکھتے ہیں تو حقیقت اس کے برخلاف معلوم ہوتی ہے۔
جب ہم کسی عیسائی ، یہودی، ہندو یا کسی اور غیر مسلم کو دعوت دیتے ہیں تو اس سے یہ نہیں کہتے کہ تم ہمارے دین کو مانو کیونکہ ہمارے خدا نے کہا ہے یا ہماری کتاب قرآن میں حکم ہے۔ بلکہ ہم ایک عیسائی کو عقلی دلائل کی بنیاد پر یہ سمجھاتے ہیں خدا بیک وقت باپ ، بیٹا اور روح القد س کس طرح ہوسکتا ہے؟ خدا ایک ہی وقت میں ایک اور تین کیسے ہوسکتا ہے ۔ اسی طرح ہم یہودی کو تاریخ کے دلائل دیتے اور اس کو اسی کی کتابوں سے قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ بائبل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق صریح پیشین گوئیاں موجود ہیں۔ اسی طرح ایک ہندو سے ہم عقلی و فطری دلائل ہی کی روشنی میں بات کرتے ہیں کہ جن بتوں کو تم اپنے ہاتھوں سے بناتے ہو وہ کس طرح تمہارے مسائل حل کرسکتے ہیں وغیرہ۔ اب اگر یہ کلیہ مان لیا جائے کہ عقیدہ کا تعلق عقل سے نہیں بلکہ صرف یہ ماننے کی چیز ہے تو یہ جواب تو ایک تثلیث ماننے والا عیسائی، ایک نسل پرست یہودی اور ایک بتوں کو پوجنے والا ہندو بھی دے سکتا ہے کہ عقید ہ تو بس عقیدہ ہوتا ہے اور اس کا عقل سے کیا تعلق؟ اس کے بعد کسی بھی قسم کی دعوت و تبلیغ کی کوئی بنیا د نہیں باقی بچتی۔
دوسری جانب ہم قرآن کو دیکھیں تو جگہ جگہ قرآن عقل کے استعمال پر زور دیتا ہے۔ ایک جگہ پر قرآن عقل سے کام نہ لینے والوں کو بلاتخصیص جانوروں کے مترادف قرار دیتا ہے ( سورہ الانفال ۸: ۲۲)۔
ایک اور جگہ پر قرآن نازل کرنے کا بنیادی مقصد ہی یہ بتایا ہے کہ تاکہ ہم عقل سے کام لیں (یوسف ۲:۱۲)
عقل سے کام نہ لینے والوں پر اللہ تعالیٰ کفرکی غلاظت مسلط کردیتے ہیں۔(یونس ۱۰۰:۱۰)
یہ تفکر و تعقل کی پیشکش صرف کافروں کے لئے نہیں بلکہ مومن وکافر سب کے لئے ہے۔
دوسری جانب ہم پیغمبروں کی دعوت کا طریقہ کار دیکھیں تو اس کی ابتدا ہی کامن سینس اور عقلی استدلال سے ہوتی تھی۔ چنانچہ کہیں کوئی پیغمبر تمام بت خانے کے تمام بتوں کو توڑ کر بڑے بت کو سالم چھوڑ دیتا ہے تاکہ وہ اپنی قوم کے شعور کو جگائے کہ یہ بت کچھ بول نہیں سکتے۔ کہیں یہ پیغمبر اس نکتے وہ واضح کررہا ہوتا ہے کہ جن بتوں کو تم اپنے ہاتھوں سے بناتے ہو وہ تمہیں کس طرح نفع پہنچاسکتے ہیں ، یہ تو مکھی کے پر کے برابر بھی کوئی چیز نہیں پیدا کرسکتے اور اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین کر لے جائے تو اسے واپس نہیں لے سکتے۔ کہیں پیغمبر یہ منادی کرتے ہیں کہ ان بتوں کے حق میں اگر کوئی عقلی یا نقلی دلیل ہے تو وہ لے کر آجاؤ ۔ کہیں تثلیث کے عقیدے کو منطقی بنیادوں پر رد کیا جارہا ہوتا ہے تو کہیں یہود کے نسلی تفاخر پر عقلی اعتراض کیا جا تا ہے اگر تم خدا کے چہیتے ہو تو پھر اللہ تمہیں سزا کیوں دیتا ہے۔غرض پوری دعوت عقل و فطرت کے اسلوب میں موجود ہے۔
ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر کیوں عام طور پر مذہب کے ماننے والے بالعموم اور مسلم علما بالخصوص عقیدے کو عقل سے جدا رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ا س کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک وجہ تو عقل کی غلط توجیہہ ہے۔ قدیم زمانے میں جو چیز حواس خمسہ یعنی دیکھنے، سننے ، چکھنے، محسوس کرنے یا سونگھنے کے قابل نہیں ہوتی تھی اسے عقل سے ماورا یا خلاف قرار دے دیا جاتا تھا۔اسی لئے اکثر لوگ یہ کہنے لگ گئے کہ چونکہ خدا کو دیکھا نہیں جاسکتا اس لئے اسے ہم نہیں مان سکتے۔ اس کے جواب میں مذہب نے عقیدے کی گود میں پناہ لینے کی کوشش کی کہ ہم عقل کی بنیاد پر خدا کو ثابت ہی نہیں کررہے ، ہم تو بس عقیدہ رکھتے ہیں اور عقیدہ کا عقل سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ معاملہ نیوٹن کی فزکس نے منتہائے کمال تک پہنچادیا۔ لیکن آئین اسٹائن نے ثابت کیا کہ اس کائینات کی بیشتر چیزیں براہ راست مشاہدہ میں نہیں آسکتیں ۔جیسے ہم الیکٹران کو دیکھ نہیں سکتے بلکہ صرف اس کے اثرات محسوس کرسکتے ہیں۔ چنانچہ الیکٹران کو ماننا ایک مسلمہ سائنسی حقیقت ہے اور یہ ایک عقلی استدلال ہے۔ اس لئے مذہب کو بھی کوئی معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے کی ضرورت نہیں۔ اگر ہم خداکو دیکھ نہیں سکتے تو اس کی تخلیق کو دیکھ کر اسے مان سکتے ہیں اور یہ اتنا ہی عقلی ہے جتنا الیکٹران کو ماننا۔
ایک دوسری وجہ یہ تھی کہ لوگ عقل کے خلاف اور عقل سے ماورا ہونے کو فرق کو ملحوظ خاطر نہ رکھ پائے۔ مثال کے طور پر جنت اور جہنم کا وجود اکثر لوگ کہتے ہیں کہ عقل کے خلاف ہے ۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ عقل کے خلاف نہیں بلکہ عقل سے ماورا ہے۔ مثال کے طور پر فزکس میں ایک تھیوری بلیک ہول تھیوری کے نام سے مشہور ہے ۔ اس کے مطابق جب ستارے کی موت واقع ہوتی ہے تو ایک بلیک ہول بن جاتا ہے ۔ اس بلیک ہول کے اندر کی دنیا میں ٹائم اور اسپیس نہیں ہوتے۔ اب ٹائم اور اسپیس نہ ہونے کا تصور انسان کی عقل سے ماورا ہے لیکن عقل کے خلاف نہیں اور اگر عقل کے خلاف ہوتا تو بلیک ہول تھیوری پیش نہ کی جاتی۔چنانچہ مذہب کے مقدمے میں غیبی دنیا سے متعلق جو چیزیں ہیں وہ عقل سے ماورا ہیں عقل کے خلاف نہیں۔ہم میں سے کسی نے بلیک ہول نہ دیکھا ہے اور نہ اسے سمجھ سکتے ہیں لیکن ہم ایک سائنس دان کی گواہی کی بنیاد پر اسے درست مان رہے ہوتے ہیں ۔ بالکل ایسے ہی ہم جنت ، جہنم، آخرت، قیامت اور فرشتے وغیرہ کو ایک رسول صادق کی گواہی کی بنا پر مان رہے ہوتے ہیں ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عقل و فطرت کی بنیاد پر عقیدے کو پرکھنا کیا صرف غیر مسلموں کا کام ہے یا مسلمانو ں پر بھی یہ لازم ہے۔ اگر ہم یہ مان لیں کہ اپنے عقیدے کو عقل و فطرت کی روشنی پر پرکھنا صرف غیر مسلموں پر فرض ہے اور پیدائیشی مسلمان اس سے مستثنی ہیں تو یہ عدل و انصاف کے تقاضوں کے برخلاف ہوگا۔ چنانچہ ہر شخص پر لازم ہے کہ وہ اپنے عقیدے، مذہب، رسومات و روایات کا عقل و فطرت کی روشنی میں جائزہ لے اور دیکھے کہ وہ جن حقائق کو مان رہا ہے وہ کامن سینس پر مبنی بھی ہیں یا ان کے خلاف ہیں۔ اس تحقیق کی صلاحیت ہر ایک کو ہے خواہ وہ ایک پھل فروش جاہل ہو یا ایک ایک عالم و فاضل ڈاکٹر۔تمام انسانیت کو جو چیز اللہ نے بن مانگے عطا فرمائی وہ عقل و فطرت ہی ہے وحی نہیں۔ چنانچہ پہلا امتحان جس میں ہر انسان جانچا جارہا ہے وہ یہی کہ اپنی عقل و فطرت کے مسلمات کو کس طرح مانتا اور ان پر عمل کرتا ہے۔
پروفیسر محمد عقیل
